اعتراض :جب اللہ جانتا ہے کہ کونسا طبقہ جہنم میں جائے گا تو ہم ذمہ دار کیوں ہیں ؟ اللہ نے شرکو تخلیق کیوں کیا ؟
تمہیدی طور پر یہ جاننا ضروری ہے کہ دو مختلف چیزیں ہیں ان میں فرق ضروری ہے :
۱)ایک اللہ تعالیٰ کا علم ہے ۲)دوسرا اللہ تعالیٰ کی مشیت /رضاہے
ان دونوں میں فرق ہے، باری تعالیٰ کا علم ازل سے لے کر ابد تک کے ہر ہر لحظہ کو شامل ہے، چاہے وہ علم دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے اچھے حالات سے متعلق ہو یا برے حالات سے متعلق ہو، خیر سے متعلق ہو یا شر سے متعلق ہو،لیکن اللہ تعالیٰ کی چاہت مشیت/رضا ہمیشہ خیر میں ہے شر میں نہیں۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ایک ہے صفتِ تخلیق اوردوسراہے منشأ تخلیق، اللہ تعالیٰ خالق ِ مطلق ہے، وہ اپنے خالق ہونے کی صفت کے لحاظ سے ہر چیز کو پیدا کرتا ہےلیکن ہرچیز کو پیدا کرنے کے پیچھے اس کی منشا ٔ کیا ہے اس کو سمجھنا ضروری ہے، وہ خیر کو پیدا کر تا ہے ،تاکہ لوگ اس خیر کو اپنائیں، وہ شر کو پیدا کرتا ہےتاکہ لوگ شر سے بچ کر اس کی وفاداری کا ثبوت دیں۔باری تعالیٰ نے خیر کو بنایالیکن مسلط کسی پر نہیں کیا،اسی طرح شر کو بنایا لیکن مسلط کسی پر نہیں کیا، بلکہ بندوں کو اختیار دے دیا، خیرکے فوائد بھی بتائیں اورشر کے نقصانات بھی اوراختیار دے دیا کہ جسے چاہوچن لو۔
اس کے ساتھ باری تعالیٰ اپنے علم ازلی کے ذریعے یہ جانتا ہے کہ کون کون اس کی بنائی ہوئی خیر کو اپنائے گا اورکون کون شر کے نرغے میں کر اس کی نافرمانی کرےگا؟اسی کو لکھ دیا جائے تو اسے تقدیر میں لکھا ہوا کہتے ہیں ۔
اب اگر باری تعالیٰ اپنے علم ازلی سے بتا دے کہ ایک طبقہ جہنم میں جائے گا تو کیا یہ کہنا عقلاً درست ہے کہ وہ جہنم میں اس لئے گئے کہ وہ مجبورِ محض ہیں؟ بعینہ اسی طرح یہ کہنا بھی عقلا ً درست نہیں کہ شر کو پیدا کر کے باری تعالیٰ نے کھلے عام چھٹی دے دی کہ لوگ شر میں مبتلا ہوں، بلکہ اس نے تو اختیار دیا ہے ، اب جو جس کو چاہے چن لے۔آزمائش جس طرح انسانوں کے لیے ہے شیطا ن کے لیے بھی تھی
اللہ شر کے خالق تو ہیں فاعل نہیں ہیں۔ اللہ کی پیدا اشیاء کا غلط استعمال انہیں شر بناتا ہے وہ اصلا شر نہیں ہوتیں۔مثلاً اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو زبان جیسی نعمت عطا کی، جس سے انسان گفتگو (اچھی یا بری) کر سکتا ہے۔ اگر انسان اسی زبان سے جھوٹ بولے، فحش کلامی یا غیبت کرے، کسی پر تہمت لگائے تو اصل حقیقت کے اعتبار سے ان کی نسبت اللہ کی طرف ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ زبان کے خالق ہیں اور اللہ نے ہمیں سچ اور جھوٹ دونوں کا اختیار دیا تھا۔ لیکن اس اختیار کا غلط استعمال انسان نے کیا، یہ انسان کا فعل ہے اور ورغلانے والا شیطان ہے، اس اعتبار سے جھوٹ اور غیبت وغیرہ کی نسبت انسان یا شیطان کی طرف ہونی چاہئے۔
قرآن کا پیش کردہ تصور بھی یہی ہے کہ خدا نے انسان کو ایک محدود نوعیت کی آزادی و خود مختاری دے کر اس دنیا میں امتحان کے لئے پیدا کیاہے اور شیطان کو خود اس کے مطالبے پر آزادی عطا کی ہے کہ وہ اس امتحان میں انسان کو ناکام کرنے کیلئے جو کوشش کرنا چاہے کرسکتاہے بشرطیکہ وہ صرف ترغیب و تحریص کی حد تک ہو ، زبردستی اپنے راستے پر کھینچ لے جانے کے اختیارات اسے نہیں دیئے گئے ہیں ۔ اس کے ساتھ اللہ تعالی نے خود بھی انسان کو جبراً راہ راست پر چلانے سے احتراز فرمایا ہے اور صرف اس بات پر اکتفا فرمائی ہے کہ انسان کے سامنے انبیاء اور کتابوں کے ذریعہ سے راہ راست کو پوری طرح واضح کردیا جائے ۔ اس کے بعد خدا کی طرف سے آدمی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ چاہے تو خدا کی پیش کردہ راہ کو اپنے لیئے چن لے اور اس پر چلنے کا فیصلہ کرے اور چاہے تو شیطان کی ترغیبات قبول کرلے اور اس راہ میں اپنی کوششیں اور محنتیں صرف کرنے پر آمادہ ہو جائے جو شیطان اس کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ ان دونوں راہوں میں سے جس کو بھی انسان اپنے لیئے انتخاب کرتا ہے اللہ تعالی اسی پر چلنے کے مواقع اسے دیتا ہے کیونکہ اس کے بغیر امتحان کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے ۔اب کیا آپ چاہتے ہیں کہ خدا اس کے مقابلے میں مداخلت کرکے زبردستی انسان کو کامیاب کرائے ؟
جواب مولانا محمد ابراھیم