عرش کے نیچے سجدہ کرنے کے متعلق روایت کی سیاق و سباق اور سورت یس کی آیت اڑتیس کی روشنی میں تحقیق پیش ہے ۔ اس روایت کو مخالفین اسلام خصوصا عیسائی مشنریز نے اسلام پر حملے اور منکرین حدیث نے حدیث کے الہامی ہونے پر سوالیہ نشان لگانے کے لیے استعمال کیا ۔ اس حدیث کو پڑھ کر عام مسلمان کے ذہن میں بھی جو سوالات اٹھتے ہیں اس تحریر کا مقصد انکا جواب مہیا کرنا بھی ہے۔
حدیث:
حضرت ابوذر (رض) روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں آفتاب غروب ہونے کے وقت مسجد میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے ابوذر ! کیا تم جانتے ہو کہ آفتاب کہاں غروب ہوتا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ جاتا ہے یہاں تک کہ عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ کے قول (وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِکَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ) کے یہی معنی ہیں۔ (صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2011)
صحیح مسلم میں اس حدیث کی مزید تفصیل موجود ہے:
حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ یہ سورج ( غروب ہونے کے بعد) کہا جاتا ہے صحابہ (رض) نے عرض کیا : اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سورج چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ عرش کے نیچے جب وہ اپنی مقررہ منزل تک پہنچتا ہے تو سجدہ کرتا ہے اور اسی حالت میں رہتا ہے یہاں تک کہ اسے کہا جاتا ہے، بلند ہو اور جہاں سے آیا تھا وہیں لوٹ جا ، پس وہ لوٹ جاتا ہے اور اپنے مطلع سے طلوع ہوتا ہے، پھر سورج ( حسب سابق) چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ عرش کے نیچے جب وہ اپنی مقررہ منزل تک پہنچتا ہے تو سجدہ کرتا ہے اور اسی حالت میں رہتا ہے یہاں تک کہ اسے کہا جاتا ہے، بلند ہو اور جہاں سے آیا تھا وہیں لوٹ جا، پس وہ لوٹ جاتا ہے اور اپنے مطلع سے طلوع ہوتا ہے، پھر یہ معمول جاری رہے گا اور لوگ اس میں کچھ فرق محسوس نہیں کریں گے یہاں تک کہ ایک دن جب سور ج عرش کے نیچے اپنی مقرہر منزل تک پہنچے گا تو اسے کہا جائے گا : بلند ہوا اور اپنے مغرب سے طلوع ہو، تو اس صبح کو سورج اپنے مغرب سے طلوع ہوگا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ وہ کون سا دن ہوگا ؟ یہ وہ دن ہوگا جس دن کسی ایسے شخص کو اس کا ایمان لانا فائدہ نہیں دے گا جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا تھا یا اپنے ایمان کے ساتھ کوئی نیکی نہ کرلی تھی۔ ( مسلم :399: کتاب الایمان : باب 72، بخاری :3199: کتاب بدء الخلق : ب ٤)
چند اصولی باتیں اور نقاط
اس کا جواب سمجھنے سے پہلے یہ پیش نظر رہنا چاہئے کہ جہاں تک آیت مذکورہ کی تصریح ہے اس پر اٹھائے جانے والے شبہات واشکالات میں سے قرآن پر کوئی بھی اشکال نہیں ہوتا۔ اس کا مفہوم تو صرف اتنا ہے کہ آفتاب کو حق تعالیٰ نے ایک ایسی منظم اور مستحکم حرکت پر لگایا ہوا ہے کہ وہ اپنے مستقر کی طرف برابر ایک حالت پر چلتا رہتا ہے۔ اگر اس مستقر (ٹھکانہ) سے مراد تفسیر قتادہ کے مطابق مستقر زمانی لیا جائے، یعنی روز قیامت، تو معنی اس کے یہ ہیں کہ آفتاب کی یہ حرکت قیامت تک دائمی ایک حال پر چلتی رہے گی پھر اس روز ختم ہوجائے گی۔ اور اگر مستقر مکانی مراد لیں تو بھی اس کا مستقر مدار شمسی کے اس نقطہ کو کہا جاسکتا ہے جہاں سے اول تخلیق کے وقت آفتاب نے حرکت شروع کی اسی نقطہ پر پہنچ کر اس کا شبانہ روز کا ایک دورہ مکمل ہوتا ہے۔ کیونکہ یہی نقطہ اس کا انتہا سفر ہے، اس پر پہنچ کر نئے دورہ کی ابتدا ہوتی ہے۔ رہا یہ کہ اس عظیم الشان دائرہ کا وہ نقطہ کہاں اور کونسا ہے جہاں سے آفتاب کی حرکت ابتداء آفرینش میں شروع ہوئی، قرآن کریم اس قسم کی فضول بحثوں میں انسان کو نہیں الجھاتا جس کا تعلق اس کے کسی دینی یا دنیوی فائدے سے نہ ہو۔ یہ اسی قسم کی بحث ہے، اس لئے اس کو چھوڑ کر قرآن کریم نے اصل مقصد کی طرف توجہ دلائی۔ اور وہ مقصد حق تعالیٰ کی قدرت و حکمت کاملہ کے خاص مظاہر کا بیان ہے، کہ اس جہان میں سب سے بڑا اور سب سے روشن ترین کرہ آفتاب کا ہے، وہ بھی نہ خود بخود بن گیا ہے اور نہ خودبخود اس کی کوئی حرکت پیدا ہوتی ہے نہ باقی رہ سکتی ہے، اور وہ اپنی اس شبانہ روز کی حرکت میں ہر وقت حق تعالیٰ کی اجازت و مشیت کے تابع چلتا ہے۔
جتنے اشکالات اٹھائے گئے ہیں آیات مذکورہ کے بیان پر ان میں سے کوئی بھی شبہ اور اشکال نہیں، البتہ احادیث مذکورہ جن میں یہ آیا ہے کہ وہ غروب کے بعد زیر عرش پہنچ کر سجدہ کرتا ہے اور اگلے دورے کی اجازت مانگتا ہے یہ سب اشکالات اس سے متعلق ہیں۔ اور اس آیت کے ذیل میں یہ بحث اس لئے چھڑی کہ حدیث کے بعض الفاظ میں اس آیت کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ اس کے جوابات محدثین و مفسرین حضرات نے مختلف دیئے ہیں، ظاہر الفاظ کے اعتبار سے جو یہ سمجھا جاتا ہے کہ آفتاب کا یہ سجدہ دن رات میں صرف ایک مرتبہ بعد الغروب ہوتا ہے، جن حضرات نے حدیث کو اسی ظاہری مفہوم پر محمول کیا ہے انہوں نے غروب کے متعلق تین احتمال بیان کئے ہیں۔ ایک یہ کہ معظم معمورہ کا غروب مراد ہو، یعنی اس مقام کا جہاں کے غروب پر اکثر دنیا کی آبادی میں غروب ہوجاتا ہے، یا خط استواء کا غروب، یا افق مدینہ کا غروب۔ اس طرح یہ اشکال نہیں رہتا کہ آفتاب کا غروب وطلوع تو ہر وقت ہر آن ہوتا رہتا ہے۔ کیونکہ اس حدیث میں ایک خاص افق کے غروب پر کلام کیا گیا ہے، لیکن صاف و بےغبار جواب وہ معلوم ہوتا ہے جو علامہ شبیر احمد عثمانی رحمة اللہ علیہ نے اپنے مقالے ” سجود الشمس “ میں اختیار فرمایا ہے، اور متعدد ائمہ تفسیر کے کلام سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
اس کے سمجھنے سے پہلے پیغمبرانہ تعلیمات و تعبیرات کے متعلق یہ اصولی بات سمجھ لینی ضروری ہے کہ آسمانی کتابیں اور اس کے لانے والے انبیاء (علیہم السلام) خلق خدا کو آسمان و زمین کی مخلوقات میں غور و فکر اور تدبر کی طرف مسلسل دعوت دیتے ہیں، اور ان سے اللہ تعالیٰ کے وجود، توحید، علم وقدرت پر استدلال کرتے ہیں، مگر ان چیزوں میں تدبیر اسی حد تک مطلوب شرعی ہے جس حد تک اس کا تعلق انسان کی دنیوی اور معاشرتی ضرورت سے یا دینی اور اخروی ضرورت سے ہو۔ اس سے زائد نری فلسفیانہ تدقیق اور حقائق اشیاء کے کھوج لگانے کی فکر میں عام خلق اللہ کو نہیں ڈالا جاتا۔ کیونکہ اول تو حقائق اشیاء کا مکمل حقیقی علم خود حکماء و فلاسفہ کو بھی باوجود عمریں صرف کرنے کے نہیں ہوسکا، بیچارے عوام تو کس شمار میں ہیں، پھر اگر وہ حاصل بھی ہوجائے اور اس سے نہ ان کی کوئی دینی ضرورت پوری ہو اور نہ کوئی صحیح مقصد دنیوی اس سے حاصل ہو تو اس لایعنی اور فضول بحث میں دخل دینا اضاعت عمر اور اضاعت مال کے سوا کیا ہے۔
قرآن اور انبیاء کا استدلال آسمان و زمین کی مخلوقات اور ان کے تغیرات و انقلابات سے صرف اس حد تک ہوتا ہے جو ہر انسان کو مشاہدہ اور ادنیٰ غور و فکر سے حاصل ہو سکے۔ فلسفہ اور ریاضی کی فنی تدقیقات جو صرف حکماء و علماء ہی کرسکتے ہیں نہ ان پر استدلال کا مدار رکھا جاتا ہے نہ ان میں غور وخوض کی ترغیب دی جاتی ہے، کیونکہ خدا تعالیٰ پر ایمان اور اس کے پیغام پر عمل ہر انسان کا فرض ہے۔ عالم ہو یا جاہل، مرد ہو یا عورت، شہری ہو یا دیہاتی، کسی پہاڑ اور جزیرہ میں رہتا ہو یا کسی متمدن شہر میں، اس لئے پیغمبرانہ تعلیمات عوام کی نظر اور ان کی عقل وفہم کے مطابق ہوتی ہیں جن میں کسی فنی مہارت کی ضرورت نہ ہو۔
نماز کے اوقات کی پہچان، سمت قبلہ کا متعین کرنا، مہینوں اور سالوں اور تاریخوں کا ادراک، ان سب چیزوں کا علم ریاضی کے حسابات کے ذریعہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے، مگر شریعت اسلام نے ان میں سے کسی چیز کا مدار ریاضی کی فنی تحقیقات پر رکھنے کے بجائے عام مشاہدات پر رکھا ہے۔ مہینے اور سال اور ان کی تاریخیں قمری حساب سے رکھیں اور چاند کے ہونے نہ ہونے کا مدار صرف رویت ہلال اور مشاہد پر رکھا۔ روزے اور حج کے ایام اسی بنیاد سے متعین کئے گئے۔ چاند کے گھٹنے، بڑھنے، چھپنے اور پھر طلوع ہونے کا راز بعض لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا، تو اس کا جواب قرآن نے یہ دیا کہ قل ھی مواقیت للناس والحج، یعنی آپ کہہ دیں کہ چاند کے یہ سب تغیرات اس مقصد کے لئے ہیں کہ تم ان سے مہینے کا شروع اور ختم اور اس کی تاریخیں معلوم کر کے حج وغیرہ کے دن متعین کرسکو۔ اس جواب نے ان کو اس پر تنبیہ فرما دی کہ تمہارا سوال لایعنی اور فضول ہے، اس کی حقیقت معلوم کرنے پر تمہارا کوئی کام دین یا دنیا کا اٹکا ہوا نہیں، اس لئے سوال اس چیز کا کرو جس کا تعلق تمہاری دینی و دنیوی ضرورت سے ہو۔
*حدیث میں مذکور آیت کا سیاق وسباق*
اس تمہید کے بعد اصل معاملہ پر غور کیجئے، کہ آیات مذکورہ میں حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کے چند مظاہر کا ذکر کر کے انسان کو اللہ کی توحید اور علم وقدرت کاملہ پر ایمان لانے کی دعوت دی ہے اس میں سب سے پہلے زمین کا ذکر کیا، جو ہر وقت ہمارے سامنے ہے (آیت) وایة لہم الارض، پھر اس پر پانی برسا کر درخت اور نباتات اگانے کا ذکر کیا، جو ہر انسان دیکھتا اور جانتا ہے، احییناھا الایة۔ اس کے بعد آسمان اور فضائے آسمانی سے متعلق چیزوں کا ذکر شروع کر کے پہلے سے لیل و نہار کے روزانہ انقلاب کا ذکر فرمایا (آیت) و ایة لہم الیل الآیة، اس کے بعد سورج اور چاند جو سیارات و انجم میں سب سے بڑے ستارے ہیں ان کا ذکر فرمایا۔ ان میں پہلے آفتاب کے متعلق فرمایا والشمس تجری لمستقر لھا ذلک تقدیر العزیز العلیم، اس میں غور کیجئے کہ مقصد اس کا یہ بتلانا ہے کہ آفتاب خود بخود اپنے ارادے اور اپنی قدرت سے نہیں چل رہا بلکہ یہ ایک عزیز وعلیم یعنی قدرت والے اور جاننے والے کے مقرر کردہ نظام کے تابع چل رہا ہے۔
*حدیث کے بیان کی حقیقت*
1. آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غروب آفتاب کے قریب حضرت ابوذرغفاری کو ایک سوال و جواب کے ذریعہ اسی آیت میں مذکور حقیقت پر متنبہ ہونے کی ہدایت فرمائی، جس میں بتلایا کہ آفتاب غروب ہونے کے بعد عرش کے نیچے اللہ کو سجدہ کرتا ہے اور پھر اگلا دورہ شروع کرنے کی اجازت مانگتا ہے، جب اجازت مل جاتی ہے تو حسب دستور آگے چلتا ہے، اور صبح کو جانب مشرق سے طلوع ہوجاتا ہے۔اس کا حاصل اس سے زائد نہیں کہ آفتاب کے طلوع و غروب کے وقت عالم دنیا میں ایک نیا انقلاب آتا ہے، جس کا مدار آفتاب پر ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس انقلابی وقت کو انسانی تنبیہ کے لئے موزوں سمجھ کر یہ تلقین فرمائی کہ آفتاب کو خود مختار اپنی قدرت سے چلنے والا نہ سمجھو، یہ صرف اللہ تعالیٰ کے اذن و مشیت کے تابع چل رہا ہے۔ اس کا ہر طلوع و غروب اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ہوتا ہے، یہ اس کی اجازت کے تابع ہے، اس کے تابع فرمان حرکت کرنے ہی کو اس کا سجدہ قرار دیا گیا۔ کیونکہ سجدہ ہر چیز کا اس کے مناسب حال پر ہوتا ہے، جیسا کہ قرآن نے خود تصریح فرما دی ہے کل قد علم صلوٰتہ و تسبیحہ، یعنی ساری مخلوق اللہ کی عبادت اور تسبیح میں مشغول ہے، مگر ہر ایک کی عبادت و تسبیح کا طریقہ الگ الگ ہے، اور ہر مخلوق کو اس کی عبادت و تسبیح کا طریقہ سکھلا دیا جاتا ہے۔ جیسے انسان کو اس کی نماز و تسبیح کا طریقہ بتلا دیا گیا ہے، اس لئے آفتاب کے سجدہ کے یہ معنی سمجھنا کہ وہ انسان کے سجدہ کی طرح زمین پر ماتھا ٹیکنے ہی سے ہوگا صحیح نہیں۔قرآن کے مطابق پہاڑ اور درخت بھی سجدہ کرتے ہیں مگر ہم نے انہیں کبھی اپنی جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ جاتے نہیں دیکھا۔ ساری کائنات میں انسان اور جن ہی مکلف مخلوق ہیں اور انھیں کو قوت ارادہ و اختیار دیا گیا ہے باقی مخلوق تکوینی طور پر اللہ کے حضور ہر وقت سجدہ ریز رہتی ہے اور ان کے سجدہ کا مطلب یہ ہے کہ جس کام پر اللہ نے انھیں لگا دیا ہے یا جو خدمت ان کے ذمہ کردی ہے اور جو قوانین ان کے لئے مقرر کردیئے ہیں ان سے وہ سرمو تجاوز نہیں کرتے
2. قرآن و سنت کی تصریحات کے مطابق عرش خداوندی تمام آسمانوں، سیاروں، زمینوں پر محیط ہے، تو یہ ظاہر ہے کہ آفتاب ہر وقت ہر جگہ زیر عرش ہی ہے۔ اور جبکہ تجربہ شاہد ہے کہ آفتاب جس وقت ایک جگہ غروب ہو رہا ہوتا ہے تو دوسری جگہ طلوع بھی ہو رہا ہوتا ہے، اس لئے اس کا ہر لمحہ طلوع و غروب سے خالی نہیں، تو آفتاب کا زیر عرش رہنا بھی دائمی ہر حال میں ہے، اور غروب و طلوع ہونا بھی ہر حال میں ہے۔ اس لئے حاصل مضمون حدیث کا یہ ہوا کہ آفتاب اپنے پورے دورے میں زیر عرش اللہ کے سامنے سجدہ ریز رہتا ہے، یعنی اس کی اجازت اور فرمان کے تابع حرکت کرتا ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح قریب قیامت تک چلتا رہے گا، یہاں تک کہ قیامت کی بالکل قریبی علامت ظاہر کرنے کا وقت آجائے گا، تو آفتاب کو اپنے مدار پر اگلا دورہ شروع کرنے کی بجائے پیچھے لوٹ جانے کا حکم ہوجائے گا، اور وہ پھر مغرب کی طرف سے طلوع ہوجائے گا۔ اس وقت توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا، کسی کا ایمان و توبہ اس وقت مقبول نہیں ہوگا۔
3. خلاصہ یہ ہے کہ غروب آفتاب کی تخصیص اور اس کے بعد زیر عرش جانے اور وہاں سجدہ کرنے اور اگلے دورے کی اجازت مانگنے کے جو واقعات اس روایت میں بتلائے گئے ہیں وہ پیغمبرانہ موثر تعلیم کے مناسب بالکل عوامی نظر کے اعتبار سے ایک تمثیل ہے۔ نہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ انسان کی طرح زمین پر سجدہ کرے، اور نہ سجدہ کرنے کے وقت آفتاب کی حرکت میں کچھ وقفہ ہونا لازم آتا ہے۔ اور نہ یہ مراد ہے کہ وہ دن رات میں صرف ایک ہی سجدہ کسی خاص جگہ جا کر کرتا ہے، اور نہ یہ کہ وہ صرف غروب کے بعد تحت العرش ہوجاتا ہے۔ مگر اس انقلابی وقت میں جبکہ سب عوام یہ دیکھ رہے ہیں کہ آفتاب ہم سے غائب ہو رہا ہے اس وقت بطور تمثیل ان کو اس حقیقت سے آگاہ کردیا گیا کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ درحقیقت آفتاب کے زیر عرش تابع فرمان چلنے رہنے سے ہو رہا ہے، آفتاب خود کوئی قدرت و طاقت نہیں رکھتا، تو جس طرح اس وقت اہل مدینہ اپنی جگہ یہ محسوس کر رہے تھے کہ اب آفتاب سجدہ کر کے اگلے دورے کی اجازت لے گا اس طرح جہاں جہاں وہ غروب ہوتا جائے گا سب کے لئے ہی سبق حاصل کرنے کی تلقین ہوگئی اور حقیقت معاملہ یہ نکلی کہ آفتاب اپنے مدار پر حرکت کے درمیان ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ بھی کرتا ہے اور آگے چلنے کی اجازت بھی مانگتا رہتا ہے، اور اس سجدہ اور اجازت کے لئے اس کو کسی سکون اور وقفہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اس تفصیل پر حدیث مذکورہ میں نہ مشاہدات کی رو سے کوئی شبہ ہوتا ہے نہ قواعد ہیئت و ریاضی کے اعتبار سے اور نظام شمسی اور حرکت سیارات میں بطلیموسی تحقیق صحیح ہو یا فیثا غورث والی تحقیق جو آج کل نئی تحقیقات سے موید ہوگئی ہے، دونوں صورتوں میں حدیث مذکورہ پر کوئی شبہ اور اشکال باقی نہیں رہتا۔
رہا یہ سوال کہ حدیث مذکور میں جو آفتاب کا سجدہ کرنا اور اگلے دورے کی اجازت طلب کرنا مذکور ہے، یہ کام تو حیات اور علم و عقل کا ہے، آفتاب و ماہتاب بےجان بےشعور مخلوقات ہیں، ان سے یہ افعال کیسے صادر ہوئے ؟ تو اس کا جواب قرآن کی آیت وان من شئی الا یسبع بحمدہ کے تحت میں ہے
(تُـسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ ۭ وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُمْ ۭ 44 ترجمہ : ساتوں آسمان اور زمین اور ان کی ساری مخلوقات اس کی پاکی بیان کرتی ہیں، اور کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو، لیکن تم لوگ ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔(سورۃ الاسراء آیت 44)
کہ ہم جن چیزوں کو بےجان اور بےعقل و بےشعور سمجھتے ہیں، وہ بھی درحقیقت روح اور جان اور عقل و شعور کا ایک خاص حصہ رکھتے ہیں، البتہ ان کی حیات اور عقل و شور انسان و حیوان کے مقابلہ میں کم اور اتنی کم ہے کہ عام احساسات اس کا ادراک نہیں کرسکتے، مگر اس کی نفی پر بھی کوئی شرعی یا عقلی دلیل موجود نہیں اور قرآن کریم نے آیت مذکورہ میں ان کا ذی حیات اور ذی عقل و شعور ہونا ثابت کردیا ہے، اور نئی تحقیقات نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے۔
ایک مشہور سابقہ منکر حدیث اس حدیث پر طنز کرتے ہوئے لکھتے ہیں اگر ہم رات کے دس بجے پاکستان ریڈیو سے دنیا کو یہ حدیث سنائیں اور کہیں کہ اس وقت سورج عرش کے نیچے سجدہ میں پڑا ہوا ہے، تو ساری مغربی دنیا کھلکھلا کر ہنس دے اور وہاں کے تمام مسلمان اسلام چھوڑ دیں۔ (دو اسلام ص ۳۲۴) کیا ہم دن کے بارہ بجے ریڈیو سے یہ آیت دنیا کو سنائیں اور کہیں کہ اس وقت سورج سجدہ میں پڑا ہوا ہے، اور ہمالیہ پہاڑ بھی سجدہ میں پڑا ہوا ہے، درخت بھی سجدہ کررہے ہیں تو بھی کوئی ہنسے گا یا نہیں ۔ ؟ صاحب نے یہ سمجھ لیا ہے کہ جس طرح ہم سجدہ کرتے ہیں، اسی طرح تمام مخلوق سجدہ کرتی ہے، یہی اصلی غلط فہمی ہے۔حالانکہ ہر ایک مخلوق کی نماز ، تسبیح، سجدہ علیحدہ علیحدہ ہے، اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے:{ قُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلٰوتَہٗ وَتَسْبِیْحَہٗ ترجمہ :ہر چیز اپنی نماز اور تسبیح کو جانتی ہے۔ (سورت نور)
قرآن و حدیث کی مذکورہ تصریحات سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوئی کہ شمس و قمر دونوں متحرک ہیں۔ ایک میعاد کے لئے چل رہے ہیں جدید سائنسی نظریات بھی آفتاب کی حرکت کو تسلیم کرتے ہیں کہ سورج مرکز ہونے کے باوجود اپنی فیملی (سیاروں) کے ساتھ حرکت کر رہا ہے ۔ حدیث میں اصل حقیقت کی طرف ذہنوں کو موڑنے کے لیے استعارہ (Metaphor) کا انداز اختیار کیا گیا ہے۔ مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ سورج اپنی ضیا پاشیوں کے بعد جن نظروں سے غائب ہوجاتا ہے تو وہ اللہ کے زیر اقتدار ہی رہتا ہے اور اس کے اس قانون کی تابعداری کرتے ہوئے جو اس کے لیے مقرر کردیا گیا ہے اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اللہ ہی کے آگے جھکا ہوا ہے۔ جو لوگ بات کو اس کے محل پر رکھ کر سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے وہ الفاظ کو پکڑ کر بحثیں کھڑی کردیتے ہیں اور نا فہمی کی بنا پر حدیث ہی کا انکار کر بیٹھتے ہیں۔