اعتراض : سورۃ کہف کی آیت 86 :
حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ مَغۡرِبَ الشَّمۡسِ وَجَدَہَا تَغۡرُبُ فِیۡ عَیۡنٍ حَمِئَۃٍ
یہاں تک کہ جب وہ غروب آفتاب کے موقع پر پہنچے تو اسے ایک سیاہ چشمہ میں ڈوبتا ہوا محسوس کیا.( ترجمہ مولانا عبدالماجد دریابادی )
سورج کے گدلے پانی میں ڈوب جانا یقیناً غیر سائنسی بات ہے۔
تبصرہ :
آیت میں حضرت ذوالقرنین ؑ کے تاثرات بیان کیے جارہے ہیں۔ اس میںعربی لفظ ” وَجَدَ ” استعمال ہوا ہے۔ جس کامطلب ہے نظر آنا یا آیا۔ سو اللہ فرما رہے ہیں کہ ذوالقرنین کو ایسا نظر آیا۔ اس آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ: “یہ (سورج) پانی میں ڈوب رہا ہے”۔ بلکہ بتایا گیا ہے کہ حضرت ذوالقرنین کو ایسا لگا۔
اگر میں کہوں کہ دوسری جماعت کے ایک بچے نے کہا کہ دو اور دو پانچ ہوتے ہیں تو کیا آپ کہیں گے کہ ” یہ کہتا ہے کہ دو اور دو پانچ ہوتے ہیں ” یہ میں نہیں کہ رہا بلکہ اپ کو بتا رہا ہوں کہ بچہ کیا کہ رہا ہے۔ میں غلط نہیں کہ رہا بلکہ وہ بچہ غلط کہ رہا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ کوئی پر اعتراض کرے اور کہے کہ ہم باتیں فرض کررہے ہیں اور ہمیں الفاظ کو ان کے ظاہر معانی میں ہی قبول کرنا چاہیئے۔ چلیے اس نہج پر تجزیئے کو آگے بڑھاتے ہیں۔ جب ہم روز مرہ گفتگو میں سورج کے نکلنے اور غروب ہونے کا ذکر کرتے ہیں تو کیا ہم واقعی سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کا ذکر کررہے ہوتے ہیں؟ اخبارات میں ہم سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کے اوقات دیکھتے ہیں تو کیا اخبارات واقعی سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کا ذکر کررہے ہوتے ہیں؟ سائنسی طور پر ہم سب جانتے ہیں کہ سورج نہ تو نکلتا ہے اور نہ ڈوبتا ہے، دراصل یہ زمین کی گردش ہوتی ہے جس کے سبب ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے۔ تو کیا یہ اخبارات غلط بیانی کررہے ہوتے ہیں؟
جب میں لفظ Disaster استعمال کرتا ہوں تو میری مراد ایک بڑا حادثہ ہوتی ہے۔ یہ لفظ انہی معانی میں استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے لغوی معانی ” ایک منحوس ستارے ” کے ہوتے ہیں تو کیا جب یہ لفظ استعمال کیا جائے تو ہمیں اس کے لغوی معانی ہی مراد لینے چاہئیں؟
لیکن بات یہ ہے کہ زبان کا ارتقا اسی طرح ہوا ہے۔ سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کو بھی اسی طرح دیکھنا اور سمجھنا چاہیئے اس طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سورۃ کہف کی اس آیت میں سورج کے ڈوبنے سے کیا مراد ہے؟ یہاں کوئی بات سائنس کے خلاف نہیں ہے۔
قدیم تفاسیر کا بیان:
امام البیضاوی کے مطابق، وہ شخص جس نے یہ منظر دیکھا شاید سمندر کے کنارے پر پہنچا اور کیوں کہ اسکی حدِ نگاہ تک صرف پانی تھا اور اسی وجہ سے اس نے کہا کہ “اس نے اسے (سورج کو) ڈوبتا ہوا پایا” نہ کہ “یہ (سورج) ڈوبا”
(البیضاوی، انوار التنزیل و اسراد التاویل جلد 3 صفحہ 394 شائع کردہ دار الاشرف، قاہرہ، مصر)۔
امام فخر الدین الرازی کہتے ہیں کہ: ذوالقرنین علیہ السلام جب مغرب کی طرف اتنا دور پہنچے کہ کوئی آبادی باقی نہ رہی تو انھوں نے سورج کو ایک تاریک چشمے میں ڈوبتا ہوا پایا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ سورج واقعی ہی اس چشمے میں ڈوب گیا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے سمندر میں سفر کرنے والے زمین نہ دیکھ پا رہے ہوں اور بوقت غروب سورج پانی میں ڈوبتا ہوا محسوس ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں سورج سمندر سے بہت دور اسکے پیچھے غروب ہوتا ہے۔(الرازی التفسیر الکبیر جلد 21 صفحہ 166
امام ابنِ کثیر کہتے ہیں کہ ، “جب وہ سورج غروب ہونے کی جگہ پہنچ گیا” مطلب کہ انھوں نے ایک خاص راستہ اختیار کیا اور مغرب کی طرف ایسی جگہ پہنچے جہاں زمین کا اختتام ہو گیا(اور سمندر کا آغاز ہوا)”۔جہاں تک آسمان میں سورج کے غروب ہونے کی جگہ تک پہنچنے کا تعلق ہے ایسا ناممکن ہے۔جہاں تک واقعات بتانے والوں اور قصہ خواہوں کا یہ کہنا ہے کہ وہ زمین میں ایک خاص وقت کے لیے چلتے رہے جس کے بعد سورج انکے پیچھے غروب ہوتا تھا ، ایک غیر حقیقی بات ہے اور اس میں زیادہ تر اہلِ کتاب کی داستان سرائی اور کاذبوں کی اختراعات ہیں۔”اس نے دھندھلے پانی کے ایک چشمے میں اسے (سورج کو) ڈوبتے دیکھا” کا مطلب ہے کہ اس نے اپنی بصارت کے مطابق سورج کو سمندر میں غروب ہوتے دیکھا اور ایسا ہر اس شخص کو نظر آتا ہے جو ساحل ِ سمندر پر ہو،کہ جیسے سورج پانی(سمندر) میں اُتر رہا ہو۔ (ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، جلد 5، صفحہ 120، شائع کردہ مکتبات الایمان، منصورہ، مصر)۔
مجھے یقین ہے کہ یہ جواب مشنریوں اور ملحدین کی طرف سے کی جانے والی من گھڑت تشریح کورد کرنے کے لیے کافی ہے۔ اور اللہ ہی تمام معاملات میں انصاف کرنے والا ہے۔
تحریر ہشام عزمی