کیا واقعی جدید سائنس منکرِخداہوسکتی ہے؟

الحاد،سائنس اور خالق: Science, Atheism & Creator

دہریت درحقیقت کسی مضطرب ذہن کی ہٹ دھرمی اور ضد ہے ۔ جدید دور کے بڑے سائنسدان بھی الحاد کی قطار میں فکری شش و پنج کی وجہ سے ہیں۔ خدا سے انکار کسی بھی شخص کا ذاتی نظریہ ہی ہوتا ہے مگرجب کوئی عالم یا ماہر طبعیات اپنی علمی حیثیت میں اس کا اظہار کرتا ہے تو ایک تاثّر یہ بنتا ہے کہ اس کا علم بھی اس کی تائید کرتا ہوگا۔ یہ بات قابل ِذکر ہے کہ سائنس کا دائرہ کار میٹا فزکس نہیں ہے لیکن پھر بھی جدید اسکالر خدا کو بھی طبعی پیرایوں میں تلاش کرتے ہیں۔ جدید دور میں اکثرسائنسدان خدا کے وجود کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں جس کی وجہ سے یہ خیال جڑ پکڑ رہا ہے کہ سائنس خدا کی منکر ہے، اس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے لادین طبقہ سائنسی نظریات کا سہارا لے کر لادینیت اور دہریت کی ترویج کرتا ہے اور یہ غلط تاثر پھیلا تا ہے کہ سائنس خدا یا اللہ کی منکر ہے۔

ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا واقعی جدید سائنس منکر ِ خدا ہو سکتی ہے؟

جدید سائنسدانوں اور اسکالرز کا نقطہ نظر یہ ہے کہ آپ جو چاہے نظریہ رکھیں مگر اس کے سچّا ہونے کا دعویٰ نہ کریں کیونکہ جو دعویٰ تجربے سے ثابت نہ ہو وہ سائنسی طور پر غلط False ہے۔ یعنی آپ خدا پر یقین رکھتے ہیں تو رکھیں، یہ آپ کا ذاتی مسئلہ ہے لیکن اس کے سچ ہونے پر اصرار نہ کریں کیونکہ سائنس کے نظریات اورتجربات اس کی تائید نہیں کرتے۔ اکثر لادین دوست اپنی تحاریر میں ایسا ہی تاثر دیتے ہیں۔ اس طرح کی دلیل کے حوالے سے پہلے تو یہ تعیّن کرنا ہوگا کہ آیا سائنسی علوم اور ان کے حدود کار کی بنیاد پر یہ دلیل دی بھی جاسکتی ہے یا نہیں۔ سائنس بذات خود کوئی علم نہیں بلکہ طبعی دنیا کے ہر شعبے کے علوم کی عقلی اور تجرباتی بنیاد پر تصدیق ہی سائنس کہلاتی ہے۔ آئیے خدا کے حوالے سے مندرجہ بالا نقطۂ نظر کو عام فہمی یا کامن سینس سے دیکھتے ہیں کہ آیا یہ خود کتنا سائنسی، منطقی اور عقلی ہے۔


سوال یہ ہے کہ: ہم کسی مخصوص شخص کو کیسے پہچانتے ہیں؟


انسان کے دو رخ ہیں؛ ایک طبعی اوردوسرا تصورّاتی، جسمانی رخ کو طبعی طور پر ہم اپنے حواس سے محسوس کر لیتے ہیں جبکہ شخصیت person بمع نام یعنی مسٹر ایکس ایک غیر مرئی abstract ہے جس کو ہمارا شعور جو خود غیر مرئی ہے، ایک تصوّر کی شکل میں قبول کرتا ہے۔ اس طرح ہمارے حواس اور شعور مل کر ایک مخصوص شخص کو پہچانتے ہیں۔ کیا سائنسدان کوئی ایسا طریقہ دریافت کر پائے ہیں جو کسی انسان کی شخصیت کا تعّیّن کر سکے یا اس کا نام بتا سکے؟

یہ بات یقیناً دلچسپ ہے کہ جدید ترین سائنسی تجربات بھی کسی انسان کی شخصیت کی تصدیق نہیں کرسکتے۔ شخصیت کی کھوج میں کسی بھی سائنسی ٹیسٹ یا سائنسی تلاش میں ایک انسان کو محض خلیاتی انبار یا جنّیاتی مجموعہ یا a-bunch-of-molecules یا group-of-DNA ہی بتایا جائےگا۔ انسان کے حوالے سے کوئی بھی میڈیکل ٹیسٹ ایک مطلوبہ معلومات تو دیتا ہے لیکن یہ بتانے سے قاصر ہوتا ہے کہ یہ کس شخص سے متعلّق ہے۔ یہاں پر یہ انسان ہی ہوتا ہے جو رپورٹ پر نام لکھ کر متعلّقہ شخص سے منسوب کرتا ہے۔یعنی مسٹراسٹیون ہاکنگ Stephen-Hawking جو ببانگ دہل ایک بڑے دہریہ سائنسدان ہیں، ان کے اس دعویٰ کی تصدیق کوئی بھی سائنسی تجربہ نہیں کرسکتا کہ وہ اسٹیون ہاکنگ ہیں! ایک اور بڑے خدا کے منکر جناب رچرڈ ڈاکنز Richard-Dawkins چاہے کتنی کوشش کر ڈالیں، ان کی ممدوح سائنس ان کو بحیثیت مسٹر ڈاکنز پہچاننے سے ہمیشہ عاری رہے گی!

سوال یہ ہے کہ:

اگر ان کے بحیثیت ایک خاص انسان (Specific-Person) موجودگی کے دعویٰ کی تصدیق کرنے سے سائنس قاصر ہے تو کیا ان کا وجود نہیں ہے؟

ہر طرح کے سائنسی ٹیسٹ میں یہ دونوں ایک شخصیت کی حیثیت سے معدوم ہیں لیکن حقیقتاً موجود ہیں جس کی تصدیق انسان کے حواس اور شعور کرتے ہیں۔

یہیں پر آ کر جدید سائنس کی حدود کا حقیقی تعیّن ہوتا ہے جو محض طبعی ہیں۔

تخلیق کے مدارج : Phases of The Creation


بنانے یا تخلیق کے تین مدارج ہوتے ہیں، ارادہ، عمل یا تخلیق اور ظہور۔ کسی بھی انسانی ایجاد یا تخلیق کا مطالعہ کریں یہ تین مرحلے لازماً موجود ہوں گے۔

تخیّل یا ارادہ طبعی تخلیقی مراحل یعنی عمل سے گزر کر ہی ایک مکمّل شے کی صورت میں عیاں ہوتا ہے۔

سائنس:


کسی کار کو دیکھ کر ہم اس کے تخلیقی مراحل کو نہیں جان سکتے بلکہ اس کے لیے باقاعدہ تحقیق کی ضرورت ہوگی۔ اس کے پرزے پرزے کو جدا کرکے اور ان کی اندرونی ماہیت کو جان کر ہی ہم اس کی مینو فکچرنگ تکنیک کو سمجھ سکیں گے۔ یہی کاوش سائنس کہلاتی ہے۔ لیکن یہاں یہ واضح رہے کہ اس تمام پیداواری مراحل کے بارے میں سب کچھ جان کر بھی ہم اس کار کے تخلیق کار manufacturer کی شخصیت کو نہیں جان پائیں گے۔ اس کے لیے ایک دوسرا طریق کار اختیار کرنا ہوگا۔ اس طرح واضح ہوا کہ دو باتیں ہوتی ہیں ایک انسانی عمل اور دوسرا اس کا حاصل۔ عمل غیر مرئی اور ناقابل پیمائش ہے اس کی کوئی شکل نہیں ہوتی لیکن اس کا حاصل قابل گرفتِ حواس ہے یعنی انسان کسی عمل کی نہیں بلکہ اس کے نتیجے کی پیمائش کر سکتا ہے۔

عمل اور نتیجہ:


انسان ایک دعویٰ کرتا ہے کہ میرا نام الف ہے تو اس کے اطراف موجود انسان اس کا دعویٰ اس لیے قبول کرتے ہیں کہ انسانی شعور طبعی حواس کی مدد سے اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ انسانوں کا یہ دعویٰ قبول کرنا ہی اس شخص کے بحیثیت الف موجود ہونے کی دلیل بنتا ہے۔ حواس صرف اطّلاعات دیتے ہیں اور انسانی شعور عقل کے تناظر میں فیصلہ کرتا ہے۔ اس طرح یہ واضح ہوا ہے کہ کسی بھی تخلیق کار، جیسے کسی کار کے مینو فیکچرر، یا کسی فن پارے کی تخلیق کرنے والے مصوّر یاکسی ڈرامہ نویس کی کسی بھی جدید سائنسی ٹیسٹ سے تصدیق نہیں ہو سکتی بلکہ صرف اور صرف انسانی شعور ہی اس تصدیق کی قدرت رکھتا ہے یعنی سائنس انسان کی صرف ایک طبعی و حیاتی نظام physical/biological-system کی حیثیت سے ہی تصدیق کرسکتی ہے۔ اب بتائیے کہ جو علوم سامنے موجود انسان کی شخصیت کو نہ پہچان سکیں نہ تصدیق endorse کرسکیں یا ایک تخلیق کے محرّک Initiator کی نشان دہی تک نہ کرسکیں تو ان کا محدود ہونا تو ثابت ہوگیا۔ مزید یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ انسانی شعور ہی ہے جو حاصل کردہ علوم کی بنیاد پر دوسرے انسان کی شخصیت اور اس سے وابستہ کسی عمل کی تصدیق کرتا ہے نہ کہ سائنسی.

علوم!


اب جدیدسائنس کے تجربات کو خدا کی پہچان کے لیے استعمال کرنا کتنا عقلی ہے، خود فیصلہ کرلیجے۔ گویا واضح ہوا کہ سائنس کا دائرہ کار کسی بھی چیز یا تخلیق کو پا کر اس کی تخلیقی ماہیّت، اس کے پیداواری یا ارتقائی مراحل اور منبع origin کو جاننا ہے یعنی تخلیق کے مذکورہ بالا تین میں سے آخر کے دو مراحل، جو عمل اور اس کا نتیجہ یا طبعی اظہار ہیں جبکہ اس سے قبل کا مرحلہ یعنی تخلیق کار Inventor/creator یا ارادے کے مآخذ کی نشاندہی میں صرف انسانی عقل اور موجود معلومات available-information کام آتی ہیں کہ کون ایسی صلاحیّت، علم، قوّت اور وسائل رکھتا ہے کہ یہ کار بنا سکے یا کوئی مخصوص کام کرسکے۔

خدا کی تصدیق:


بالکل اسی طرح انسان حاصل علوم سے اپنی خرد اور دانش سے ہی خالق کائنات یعنی خدا یا اللہ تعالیٰ کے وجود کی تصدیق کرسکتا ہے۔ یہی ایمان کہلاتا ہے اور یہ عقل و شعور سے حقائق کی پرکھ کے بعد بالکل خالص ذاتی فیصلہ ہوتا ہے سائنسی نہیں۔ اسی طرح اللہ کا انکار کسی انسان کا ذاتی فیصلہ ہوتا ہے جو اس کا شعور متعیّن کرتا ہے۔

ایک بات واضح رہے کہ انسان خدا کو خود ہی تلاش نہیں کرتا بلکہ یہ خدا ہے جو کہ انسانوں کا خالق ہونے کا اعلان کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ میں تمہارا خالق ہوں، پھر انسان اپنی عقل و خرد اور علوم کی گواہی سے ہی اس کی تصدیق کرتا ہے۔ خدا کا دعویٰ اس کی طرف سے انسانی واسطے سے پیغام اور حیرت انگیز تحریر text کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، ایسی تحریر جس کا مصنّف ہونے کا کوئی بھی انسان دعوٰی نہیں کرتا۔

کیا سائنس کسی بھی کتاب کے مصنّف کا نام بتا سکتی ہے؟


سائنسی علوم صرف ایک محدود دائرے میں ہی انسان کی رہنمائی کرسکتے ہیں اور سائنس کے حوالے سے خدا کی تلاش یا اس بارے میں لب کشائی نہ سائنس اور نہ ہی سائنسدانوں کا کام ہے۔ سائنس محض علمی اوزار کا صندوق toolkit ہے ! یعنی سائنسی علوم محض وسائل اور ذریعہ ہیں جو معلومات مہیّا کرتے ہیں اوربس!

تو کسی سائنس دان کا دعویٰ کہ وہ خدا پر یقین نہیں رکھتا اس کا ذاتی خیال ہوتا ہے، اس کا بہ حیثیت مجموعی سائنس کی دریافتوں اور سائنسی ٹیسٹ کے نتائج سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ اگر کوئی ایسا تاثّر دیتا ہے تو وہ حقائق کے برعکس ہے بلکہ دروغ گوئی ہے، معذرت کے ساتھ۔

سائنسی علوم تمام انسانیت کی میراث ہیں اور کسی بھی انسان کو ان سے فائدہ اٹھانے یا دلیل حاصل کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کسی بھی ماہر علم یا ماہر طبعیات کو۔ یہ بھی واضح ہوا کہ جدید سائنسدان کائنات کی ابتدا، تخلیق اور اس کے مراحل کے حوالے سے جتنی بھی تحقیق کریں اور اس کی سائنسی توجیہات پیش کریں، وہ بجا طور پر سائنس کے دائرہ کار میں آتی ہیں لیکن جس لمحے یہ سائنسدان ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس نے کائنات نہیں بنائی ـ وہیں سے ان کی عقلیں بےراہرو ہو کر سائنس کے حدود کار سے باہر چلی جاتی ہیں۔

مختصراً یہ واضح ہوا کہ جدید ترین سائنسی علوم ، دریافتیں اور سائنسدان جو کسی میڈیکل ٹیسٹ، طبعی تخلیق، آرٹ کے فن پارے اور کسی کتاب سے متعلق انسان کا تعیّن اور تصدیق نہ کر سکیں بھلا وہ کائنات کے خالق یعنی اللہ کی تصدیق کرنے کے اہل کیسے ہوسکتے ہیں؟

ذرا سوچیں!

(خدائی سرگوشیاں اور جدید نظریاتی اشکال سے اقتباس)