مذھب پر گفتگو کرتے ہوئے سیکولر حضرات کا ایک عمومی استدلال یہ ہوتا ہے کہ “جو مسلمان کے گھر میں پیدا ہو وہ مسلمان رہتا ہے جو ھندو کے گھر میں پیدا ہو وہ ھندو ہوتا ہے وغیرہ”۔ اس “دلیل” کا مطلب یہ کہنا ہوتا ہے کہ چونکہ مذھب ایک مورثی (بمعنی غیر عقلی و اتفاقی) چیز ہے لہذا اس دائرے میں “سچ یا جھوٹ اور حق و باطل” کو تلاش کرنا اور پھر اس پر اصرار کرنا بے معنی چیز ہے، یعنی مذھب کا ڈسکورس کوئی عقلی ڈسکورس نہیں ہے کہ اسے اس قدر سنجیدگی سے لیا جائے کہ اسے کھینچ کر اجتماعمی معاملات میں گھسیٹ لیا جائے، بس لوگ سنی سنائی بات کی وجہ سے مذھب قبول کرلیتے ہیں۔
زیر نظر مقدمے میں پیوست غلطی کو سمجھنے کے لئے پہلی بات یہ سمجھ لینی چاہئے کہ انسانی نسل و زندگی کو آگے بڑھانے کا ناگزیر طریقہ انسانوں کے ذریعے بچوں کا پیدا ہونا اور پرورش پانا ہی ہے۔ ایک انسان مورثی طور پر (یعنی ماں باپ، اساتذہ و معاشرے کے عمومی رجحانات) کی بنا پر صرف “چند مذھبی عقائد” ہی کو قبول نہیں کیا کرتا بلکہ سائنس، اخلاقیات، تاریخیات، سماجیات، سیاسیات وغیرہ تک انسانی زندگی سے متعلق تمام دائروں میں متاثر ہوتا ہے۔ چنانچہ جس طرح یہ مشاہدہ بیان کیا جارہا ہے کہ “مسلمان کے گھر پیدا ہونے والا مسلمان ہوتا ہے وغیرہ” بعینہہ یہ بھی عام مشاہدہ ہے کہ یورپ و امریکہ میں پیدا ہونے اور تعلیم و تربیت کی منزلیں طے کرنے والا شخص نظریاتی طور پر بالعموم “لبرل ٹائیپ” کا ہوتا ہے نہ کہ مثلا مارکسسٹ (یا مثلا پانچ سو سال قبل یورپ کے خیالات رکھنے والا یا مثلا تہجد گزار مومن)، مخصوص طرز کے لباس پہننے کو نارمل سمجھتا ہے، مخصوص کھانے کی اشیاء کو فطرت کا تقاضا گردانتا ہے، چند مخصوص اعمال کو غیر اخلاقی و غیر قانونی جبکہ بعض کو فطری و اخلاقی سمجھتا ہے اس کے برعکس مارکسسٹ روس میں پیدا ہونے اور پرورش پانے والے لوگوں کے رجحانات و خیالات اس سے مختلف ہوا کرتے تھے۔ الغرض “مورثیت” صرف مذھبی عقائد کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ تو انسانی زندگی کے تقریبا ہر ہی دائرے (بشمول سائنسی علوم کیونکہ ہر فرد کو یہ تمام علوم اپنی تفصیلات میں مورثی طور پر ہی ملے ہوتے ہیں) میں اسے متاثر کرتی ہے، لہذا یہ کہنا کہ “مورثیت کی بنا پر حاصل شدہ تفصیلات کو عدل و اجتماعیت کی بحث سے خارج کرکے انفردی سطح تک محدود کردیا جائے”، یہ نہ صرف یہ کہ محض خلط مبحث ہے بلکہ اپنے مخصوص عزائم کو بڑھاوا دینے کی ایک “فکری چال” بھی ہے جس کے ذریعے اہل مذھب کو بالعموم پھانسنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر کسی کی یہی دلیل ہے تو پھر اسے چاہئے کہ انسانی نسل کی افزائش کا موجودہ طریقہ تبدیل کرکے انسانوں کو مشینوں کے ذریعے پیدا کرنے اور انہی کے ذریعے ان کی افزائش کے پولٹری فارم بنانے کا طریقہ ایجاد کرے کیونکہ ایک انسان تو دوسرے پیدا ہونے والے انسان کو اپنے خیالات، میلانات اور اخلاق سے متاثر کرکے رہے گا۔ اور شاید مشینوں سے بھی یہ مسئلہ حل نہ ہوسکے کیونکہ مشین بھی بہرحال مخصوص اصولوں کے تحت فنکشن کرکے اگلی نسلوں کو متاثر کرکے رہے گی نیز اس مشین کے فنکشنگ کے اصول پیدا ہونے والے انسان سے پہلے والوں نے طے کئے ہونگے۔
لہذا پہلے یہ اصولی بات سمجھ لینی چاہئے کہ انسانی آبادی کو انسانوں ہی کے ذریعے آگے بڑھنا ہے، چنانچہ ایک انسانی نسل کے دوسری انسانی نسل کو اپنے خیالات سے متاثر کرسکنے کی صلاحیت ایک ناگزیر و لازمی چیز ہے نیز یہ صلاحیت صرف “مذھبی عقائد” کی منتقلی تک محدود نہیں۔ تو اگر ایک انسانی نسل کو یہ اخلاقی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے سے بعد والوں کو لازمی طور پر چند امور مورثی طور پر منتقل کریں (جس میں “جمہوریت” بھی شامل ہے) اور انہیں نظم اجتماعی میں شامل کریں تو پھر مذھب کے معاملے پر یہ اعتراض اٹھانے کی کوئی عقلی بنیاد موجود نہیں ہے۔
یہ بات واضح ہوچکی کہ مورثی طور پر ایک نسل کا دوسری نسل کو کچھ منتقل کرنا، یہ ایک ناگزیر حقیقت ہے اور اس کا دائرہ صرف مذھبی عقائد تک محدود نہیں۔ اب یہ سمجھئے کہ یہ امر انسانی معاشرے کی صرف حقیقت ہی نہیں بلکہ ضرورت بھی ہے اور اسی کے سبب انسان کسی بھی قسم کے خیر کو جمع و محفوظ کرپاتا ہے۔ چنانچہ ایک نسل کا دوسری نسل سے یہ تعلق اگر ختم کردیا جائے تو انسانی زندگی میں کبھی کوئی “ادارہ”، “روایت” و “تہذیب” پنپ نہ سکے، “علم کا تسلسل” برقرار رکھ کر اس میں اضافہ کرتے چلے جانا ناممکن ہوجائے گا اور حقیقت یہ ہے کہ انسانی زندگی حیوانوں کی طرح ایک ہی سطح پر جامد رہ جائے گی۔ “مورثیت” (اگلی نسل کا دوسری نسل کے ساتھ جڑا ہونا) ہی ہر قسم کے خیر کی بقا کا ذریعہ ہے، اس دنیا اور انسان کو پیدا کرنے والے نے انسانی زندگی کو اسی اصول پر بنایا ہے۔ تو یوں سمجھئے کہ “مورثیت” حق و خیر کی بقا کا ایک زبردست ذریعہ ہے اور ہر نظرئیے کو ماننے والے اسے اپنے فائدے میں استعمال کرتے ہیں۔ تو پھر صرف اہل مذھب ہی کو اس قدر احمق کیوں سمجھا جاتا ہے کہ وہ اس کے ذریعے اس چیز کہ جسے وہ اس کائنات کا سب سے بڑا سچ و خیر سمجھتے ہیں اسے اگلی نسل تک منتقل نہ کرکے اس کی حفاظت نہ کریں یا اسے پبلک لائف سے نکال باہر کرنے کے مطالبے کو قبول کرلیں؟ دلیل کی یہ کونسی قسم ہے کہ بس اہل مذھب اپنے خیر کو مورثی جان کر اسے بے وقعت سمجھیں، باقی رہا وہ سارا نظریاتی خیر جسے آپ خیر سمجھتے ہیں اسے آپ پوری یکسوئی کے ساتھ انسانوں کی اگلی نسلوں تک منتقل کرتے رہیں؟ اسے دلیل نہیں آنکھوں میں دھول جھونکنا کہا جاتا ہے۔
اصل مسئلہ یہ نہیں کہ مذھب مورثی طور پر منتقل ہوتا ہے یا نہیں نیز کیا مورثی چیز کو پبلک لائف کا حصہ ہونا چاہئے یا نہیں (کیونکہ یہ تو انسانی زندگی کے ناگزیر حقائق و ضرورتیں ہیں)، اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ (سیکولر) لوگوں کا علمی ڈسکورس مذھب کو حق و خیر کے دائرے کی چیز سمجھتا ہی نہیں اور اس وجہ سے آپ مذھب کو اجتماعی دائرے سے نکالتے ہیں۔ یہ وہ بات ہے جسے آپ کھل کر نہیں کہتے بلکہ اس کے لئے ایسے حیلے بہانے تراشتے ہیں۔