،برصغیر کے مسلمانوں پر مغربی اقوام کے سیاسی نظریاتی تسلط کے بعد مسلمانوں کا ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا جو مغربی افکار سے بے حد مرعوب تھا، وہ سمجھتا تھا کہ دنیا میں ترقی بغیر تقلید مغرب کے حاصل نہیں ہوسکتی؛ لیکن اسلام کے بہت سے احکام اس کے راستہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے، اس لیے اس نے اسلام میں تحریف کا سلسلہ شروع کیا تاکہ اسے مغربی افکار کے مطابق بنایا جاسکے، یہ تحریف حدیث کا انکار کیے بغیر ناممکن تھی . چنانچہ قرآن کی جس طرز کی متجددانہ تعبیر کی بنیاد عالم عرب میں مفتی محمد عبدہ نے رکھی تھی , برصغیر میں سرسید احمد خان نے اس طرز کی متجددانہ تفسیر قرآن لکھی .
سرسید احمد خان :
سرسیداہل مغرب اور مستشرقین سے تاثر کے نقطہ نظر سے عبدہ سے بہت آگے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے قرآنی بیانات کو جدید تصورات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے متفق علیہ تفسیری اصولوں کو بالکل نظرانداز کر دیا۔ ان کی تفسیرالقرآن میں بقول سیدعبداللہ روایات سے بغاوت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی نظر آتی ہے۔( سید عبداللہ،سرسید احمد خاں اور ان کے نامور رفقاء کی اردو نثر کا فنی و فکری جائزہ، اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان، 1994ء، ص 30۔32)
مغربی تہذیب و معاشرت سے سر سید کی تاثر پذیری کے حوالے سے مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ وہ اس تہذیب و معاشرہ سے اس طرح متاثر ہوئے کہ ان کے دل و دماغ، اعصاب اور ساری فکری صلاحیتیں اس سے وابستہ ہو گئیں۔۱۲؍ اکتوبر ۱۸۷۰ء میں وہ اس تہذیب کے گرویدہ اور ہندوستان کی مسلم سوسائٹی میں ان اقدارا ور اصولوں کی بنیاد پر اصلاح و تغیّر کے پرجوش داعی اور مبلّغ بن کر اپنے ملک واپس ہوئے اور پورے خلوص اور گرم جوشی کے ساتھ انھوں نے اس تحریک و دعوت کا علم بلند کیا اور اپنی ساری صلاحیتیں اور قوتیں اس کے لیے وقف کردیں۔ ان کا نقطۂ نظر خالص مادی ہو گیا۔ وہ مادی طاقتوں اور کائناتی قوتوںکے سامنے بالکل سر نگوں نظر آنے لگے۔ وہ اپنے عقیدہ اور قرآن مجید کی تفسیر بھی اسی بنیاد پر کرنے لگے۔ انھوں نے اس میں اس قدر غلو سے کام لیا کہ عربی زبان و لغت کے مسلّمہ اصول و قواعد اور اجماع و تواتر کے خلاف کہنے میں بھی ان کو باک نہ رہا۔ چنانچہ ان کی تفسیر نے دینی وعلمی حلقوں میں سخت برہمی پیدا کردی۔‘‘ <[مسلم ممالک میں اسلامیت و مغربیت کی کش مکش،مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام، لکھنؤ،۲۰۰۳ئ،طبع پنجم،،ص۹۹>undefined
سرسید حدیث،اجماع اور قیاس وغیرہ کو اصول دین میں شامل نہیں سمجھتے۔ انہوں نے بقول مولانہ حالی اپنے جدید علم کلام کا موضوع اور اسلام کا حقیقی مصداق صرف قرآن مجید کو قرار دیا اور اس کے سوا تمام مجموعہ احادیث کو اس دلیل سے کہ ان میں کوئی حدیث مثل قرآن کے قطعی الثبوت نہیں اور تمام علماء ومفسرین کے اقوال و آراء اور تمام فقہاءو مجتہدین کے قیاسات و اجتہادات کو اس بنا پر کہ ان کے جوابدہ خود علماء و مفسرین اور فقہا و مجتہدین ہیں نہ کہ اسلام اپنی بحث سے خارج کر دیا۔ ( حالی، مولاناالطاف حسین، حیات جاوید،لاہور،ھجرہ انٹرنیشنل،1984ء،حصہ اول، ص 231)
چنانچہ سرسید نے اسلام کے متوارث ذوق اور نہج سے اتر کر خود قرآن پر غور کیا اور اسلام کے نام پر ایک فرنگیانہ اسلام کی عمارت تیار کرنا شروع کی‘ جس میں نہ ملائکہ کے وجود کی گنجائش ہے‘ نہ ہی جنت ودوزخ کا کہیں نشان ہے اور نہ جنات اور ابلیس کے وجود کا اعتراف ہے اور معجزات وکرامات تو ان کے نزدیک مجنونہ باتیں ہیں۔ سرسید کے افکار و نظریات کے تفصیلی و تحقیقی جائزے کے لیے یہ دو (1، 2) تحاریر دیکھیے ۔
سرسید کی نیت خواہ کتنی ہی نیک رہی ہو مگر ان کے افکار کسی ٹھوس علمی بنیاد سے محروم تھے۔ انھیں خود پتہ نہ تھا کہ جن تصورت کو وہ اٹل حقائق سمجھ رہے تھے، ان کی حیثیت ان کے زمانے کی مغربی تہذیب کے متروکہ ردی مواد سے زیادہ نہ تھی، اور اسے بھی زمانے کی ہوا نے جلد ہی ہباء منثور کر دیا۔
سرسید نے روایتی علوم کی تعلیم نہیں پائی تھی۔ مابعد الطبیعیاتی شعور کا فقدان ان کے ہاں بالکل واضح ہے لہٰذا دیگر دینی روایتوں اور تہذیبوں میں فطرت کے تصورات کا علم تو ایک طرف رہا، ان کو مسلمانوں کے کونیاتی علوم اور بالخصوص فطرت سے متعلق علوم کا بھی قرار واقعی علم نہ تھا۔ مسلمانوں کے لیے دلِ دردمند کے ہاتھوں مجبور ہو کر اصلاحِ معاشرہ کی دھن میں پیروئ مغرب میں ایسے جتے کہ اور بہت سے خیالات کی طرح انھوں نے فطرت کے بارے میں بھی مغرب سے بعض چلتے ہوئے نظریات لیے اور انھیں ادھ کچرا ہی نگل گئے، اور ان کی بنیاد پر تفسیر قرآن سے لے کر سیاست و سماجیات تک اپنے افکار کی عمارت اٹھا دی. ڈاکٹر ظفر حسن کی تحقیق یہ ہے کہ فطرت کے برے بھلے جو بھی رائج الوقت معانی رہے ہوں سرسید اور دوسرے ’’نیچری‘‘ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ لفظ نیچر انگریزی میں کتنے معانی رکھتا ہے۔ <دیباچہ سرسید و حالی کا نظریہ فطرت>undefined۔
سرسید کے چند اہم معاصر ہم خیالوں اور متبعین میں مولوی چراغ علی اور سید امیر علی شامل ہیں، پھر ذرا آگے چل کر سر سید کے مکتبہ خیال سے متعلق نمایاں نام محمد علی لاہوری اور غلام احمد پرویز، اسلم جیراج پوری ہیں۔
مولوی چراغ علی :
چراغ علی کے مطابق قرآن کو کوئی مخصوص ضابطہ حیات یا سماجی وسیاسی قوانین عطا نہیں کرتا۔ اس کا تعلق محض فرد کی زندگی کے اخلاقی پہلو سے ہے۔ آنحضورﷺنے کوئی سماجی وقانونی ضابطہ مرتب کیا نہ ایسا کرنے کاحکم دیا۔ اس کے برعکس مسلمانوں کو ایسے نظام قائم کرنے کی اجازت دے دی گئی جو ان کے گردو پیش ہونے والی سیاسی اور معاشرتی تبدیلیوں سے وقت کے تقاضوں کے مطابق ہم آہنگی پیدا کر سکیں۔ کلاسیکی اسلامی قانون بنیادی طور پر شریعت نہیں بلکہ وہ رواجی قانون ہے جس کے اندر ایام جاہلیت کے عربی اداروں کے باقی ماندہ اجزا و عناصر یا وہ احادیث شامل ہیں جو اکثر جعلی ہیں اور غلط طور پر پیغمبر اسلام کی طرف منسوب کر دی گئ ہیں۔ فقہا اسلامی قانون کے سلسلہ میں مقصود قرآنی کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے قرآن کی روح کو شرعی عمل سے دبا دیا اور وہ ابتدائِی مشرقی روایاتی رسمیں جاری کر دیں جنہیں قرآن در حقیقت مذموم قرار دے چکا تھا۔
(oposed political , legal and social reforms in the Ottoman Empire and other Muhammdan States chirag ali, Bombay, 1883c,
PP-10-12., 91: Ibid.pp. 112-113.)
سید امیر علی :
سید امیر علی مولانہ حالی کے مطابق مغربی اہل الرائے سے اسلام کی عذر خواہیوں اور توضیحات میں اور اسلامی معاشرتی اور مذہبی خیالات کی از سر نو تعمیر اور جدید خیا لات کی ترویج میں سرسید احمد خاں کے پیرو تھے۔ (حالی،مولانا الطاف حسین، حیات جاوید،حوالہ مذکور،ص 163)انکی مشہور تصنیف The Spirit of Islam نے صرف مغرب ہی میں قبولیت عامہ حاصل نہیں کی بلکہ برصغیر اور مصر کے مغربی تعلیم یافتہ مسلمانوں پر بھی گہرے اثرات ڈالے۔
سید امیر علی نے اپنی اسلامی تعبیرات میں استشراقی اور مغربی تصورات سے ہم آہنگی کی جا بجا کوشش کی ہے۔ فرشتوں اور شیطان کا خارجی وجود اور حشر جسمانی کو تسلیم کرنے سے بچنے کے لیے انہوں نے ان چیزوں سے متعلق قرآنی بیانات کو بلاجھجک شاعرانہ اسلوب بیان اور حضورﷺکے دینی شعور کے درجہ کمال سے پہلے کے اورزرتشتی وتلمودی الاصل تصورات سے تعبیر کیاہے۔ سورہ الانفال کی آیت ۹ میں بیان کردہ واقعہ کو اسلوب بیان کی ساحری اور شاعرانہ بلاغت سے تعبیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ “فرشتوں کے خدا کی طرف سے جنگ کرنے کے تصور میں جو شاعرانہ عنصر ہے اس کے نقش ونگار کو قرآن میں موئے قلم کی جن سادہ جنبشوں سا ابھارا گیا ہے۔ وہ خوبصورتی اور بلاغت میں زبور کی بلیغ ترین عبارتوں کا مقابلہ کرتی ہے۔ اور دونوں میں ایک ہی طرح کی شعریت ہے۔” ملائکہ ایک داخلی تصور ہے۔( امیر علی، سید ، روح اسلام(مترجم،محمدہادی حسین)، لاہور، ادارہ ثقافت اسلامیہ، 1992ء، ص 152)
جنت وجہنم کے واقعیت نما نقشے، جوزرتشتیوں ، صابیوں اور تلمودی یہودیوں کی پادر ہواقیاس آرائیوں پر مبنی تھے۔ پڑھنے والے کی توجہ ضمنی ھاشیہ آرائیوں کے طور پر اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ لیکن ان کے بعد قرآن کا جوہر خالص آتا ہے یعنی کمال عجزومحبت سے خدا کی عبادت۔ حوریں زرتشتی نژاد ہیں۔ اسی طرح جنت بھی زرتشتی الاصل ہے البتہ جہنم عذاب الیم کے مقام کی حیثیت سے ایک تلمودی تخلیق ہے۔ ان کے واقعیت نمامناظر کی بنا پر یہ سمجھنا کہ حضورﷺ اور آپ کے پروکار ان کو واقعی مبنی برحسیت سمجھتے تھے محض ایک افترا ہے۔ (ایضاً،ص326)
تعدد ازوج کے حوالے سے سید امیر علی کی رائے ہے کہ یہ مطلق العنان بادشاہوں کے زمانے کی یاد گار ہے جسے ہمارے ترقی یافتہ دور میں بجا طور پر ایک خرابی سمجھا جاتا ہے۔ قرآن نے فی نفسہ اس کی ممانعت کردی ہے۔ ترقی یافتہ مسلم جماعتوںمیں رفتہ رفتہ یہ تصور پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ یہ چیز تعلیمات محمدی کے بھی اس قدر منافی ہے جس قدر جدید تمدن و ترقی کے۔ لہٰذا یورپ کو اس سلسلہ میں قدیم مسلم فقہا کی من مانیوں اور مصلحت کوشیوں پر نہیں جانا چاہیے بلکہ جدید اسلام کا تحمل وہمدردی سے مشاہدہ کرنا چاہیے جس میں قدماپرستی کے بندھنوں سے چھٹکارا حاصل کیا جارہا ہے۔ (ایضاً،ص 358، 368، 370، 371)
محمد علی لاھوری :
محمد علی لاہوری نے مولانا ابوالحسن علی ندوی کے بقول سرسید کے لٹریچر اور ان کے تفسیر قرآن کے اسلوب کو پورے طور پر جذب کر لیا تھا۔( ابو الحسن علی ندوی ، مولانا ، قادیانیت: مطالعہ و جائزہ، کراچی،مجلس نشریات اسلام، 1981ء، ص180) وہ اپنی تفسیر میں مختلف مسائل سے متعلق اسی طرح کی تشریحات پیش کرتے ہیں جو جدید نظریات ومعلومات سے متصادم نہ ہوں۔
غلام احمد پرویز:
غلام احمد پرویز مغربی فکر سےتاثر اور سرسید کے زاویہ فکر کو اختیار کر کے مخصوص تناظر میں اسے مزید وسعت دینے میں خاصے نمایاں ہیں۔ پروفیسر عزیز احمد نے انہیں سر سید سے لے کر لمحہ موجود تک کےتمام جدید پسندوں میں مغربی نقطہ نظر کے سب سے زیادہ قریب قرار دیا ہے۔( عزیز احمد، پروفیسر، برصغیر میں اسلامی جدیدیت(مترجم، ڈاکٹر جمیل جالبی)، لاہور، ادارہ ثقافت اسلامیہ، 1979ء،ص322۔323)
جناب غلام محمدپرویز کے دور میں فتنہ انکارِ حدیث پورے عروج کوپہنچا ہے، آپ کا اندازِ تصنیف کچھ زیادہ سلیقہ دار اور اُلجھا ہوا ہے، جس میں جھانک کراصل فتنے کی نشاندہی کرنا ایک مشکل کام ہے، آپ نے تفسیر “مفہوم القرآن” کئی جلدوں میں تحریر کی ہے جواردوعبارت اور حسن طباعت میں نفیس کتاب ہے؛ لیکن اس میں کس طرح اسلام کے قطعی نظریات سے کھیلا ہے، وہ مطالعہ سے ہی پتہ چلتا ہے، انہوں نے نہایت وسیع پیمانے پر مغربی نتائج فکر میں تطابق کی کوشش کی اور حدیث کی حجیت و ثقاہت کے حوالے سے استشراقی فکر کو بھرپور انداز میں پیش کیا ۔ پرویز نے اپنے خیالات کی اشاعت میں اپنی سرکاری پوزیشن بھی استعمال کی اور افسران کے ایک حلقے کوجوپہلے سے علماء سے بغض رکھتا تھا متاثر کیا اور جدید تعلیم یافتہ لوگ کسی درجے میں اس کے گرد جمع ہوگئے پرویز نے اپنے اس موقف پرادبی انداز میں خاصا لٹریچر میلا کیا ہے۔
یہ انکارِ حدیث کا نظریہ پرویز صاحب کوکہاں تک اسلام سے دور لے گیا ہے، اس کے لیئے اُن کی یہ تحریرات ملاحظہ ہوں:
“مسلمانوں کو قرآن سے دور رکھنے کے لیے جو سازش کی گئی اس کی پہلی کڑی یہ عقیدہ پیدا کرنا تھا کہ رسول اللہ کو اس وحی کے علاوہ جو قرآن میں محفوظ ہے ایک اور وحی بھی دی گئی تھی جو قرآن کے ساتھ بالکل قرآن کے ہم پلہ ہے ۔ یہ وحی روایات میں ملتی ہے”(مقام حدیث جلد 1 صفحہ 421)
” یہ جھوٹ مسلمانوں کا مذہب بن گیا ۔ وحی غیر متلو اس کا نام رکھ کر اسے قرآن کے ساتھ مثل قرآن ٹھہرایا گیا ” (مقام حدیث جلد 2، صفحہ 122)
”قرآن کریم میں جہاں اللہ ورسول کا ذکر آیا ہے‘اس سے مراد مرکز نظامِ حکومت ہے“۔) معارف القرآن جلد 4 صفحہ 263 )
”مرکزِ ملت کو اختیار ہے کہ وہ عبادات ‘نماز‘روزہ‘معاملات‘اخلاق ‘غرض جس چیز میں چاہے رد وبدل کردے“۔ (قرآنی فیصلے ص: ۴۲۴)
”رسول کی اطاعت نہیں کیونکہ وہ زندہ نہیں“(اسلامی نظام صفحہ 112)
”ملائکہ سے مراد وہ نفسیاتی محرکات ہیں جو انسانی قلوب میں اثرات مرتب کرتے ہیں الخ“ (لغات القرآن جلد 1 صفحہ 244)
”ہماری صلوٰة وہی ہے جو (ہندو) مذہب میں پوجاپاٹ کہلاتی ہے‘ ہمارے روزے وہی ہیں جنہیں مذہب میں برت‘ ہماری زکوٰة وہی شئے ہے جیسے خیرات‘ ہمارا حج مذہب کی یاترا ہے‘ ہمارے ہاں یہ سب کچھ اس لئے ہوتا ہے کہ اس سے ثواب ہوتا ہے‘ یہ تمام عبادات اس لئے سر انجام دی جاتی ہیں کہ یہ خدا کا حکم ہے‘ ان امور کو نہ افادیت سے کچھ تعلق ہے‘ نہ عقل وبصیرت سے کچھ واسطہ‘ آج ہم اسی مقام پر ہیں جہاں اسلام سے پہلے دنیا تھی“۔ (قرآنی فیصلے ص:۳۰۱ تا ۳۰۲)
”آپ (علمأ) اپنی قوم کے دامن پکڑ کر آج سے تیرہ سو سال پہلے کے دورِ وحشت کی طرف گھسیٹ رہے ہیں“(قرآنی فیصلے)
”بہرحال مرنے کے بعد کی جنت اور جہنم مقامات نہیں‘انسانی ذات کی کیفیات ہیں“۔(لغات القرآن جلد1 صفحہ 449 )
قرآن کی رو سے صرف مردار، بہتا خون، خنزیر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام کی طرف منسوب چیزیں حرام ہیں ان کے علاوہ کچھ حرام نہیں۔۔ ہمارے مروجہ اسلام میں حرام و حلال کی جو طولانی فہرستیں ہیں وہ سب انسانوں کی خود ساختہ ہیں” (حلال و حرام کی تحقیق ، ماہنامہ طلوع اسلام مئی 1952)
”رسول اکرم کو قرآن کے سوا کوئی معجزہ نہیں دیا گیا“۔(معارف القرآن جلد 4 صفحہ 731)
”قرآن ماضی کی طرف نگاہ رکھنے کے بجائے ہمیشہ مستقبل کو سامنے رکھنے کی تاکید کرتا ہے‘ اسی کا نام ایمان بالآخرت ہے“۔(سلیم کے نام اکیسواں خط، جلد 2 صفحہ 124 )
حدیث کو نکالنے کے بعد اسلام کا حلیہ کیا ہو جاتا ہے ان چند اقتباسات سے ظاہر ہے ، پرویز نے سارے اسلام قرآن ، حدیث، تمام عبادات، تمام احکامِ شرعیہ کا مطلب بیک جنبش تبدیل کرکے رکھ دیا ۔ پھر بھی اسکے ماننے والوں کا اصرار ہے انہیں مسلمان اور اہل قرآن کہا جائے ۔
عبداللہ چکڑالوی:
عبداللہ چکڑالوی برصغیر میں وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے کھل کر حدیث کا انکار کیا اور فرقہ ‘اہل قرآن’کی بنیاد رکھی ہے۔ ا س کے بعد مولوی احمد الدین امرتسری نے انکارِ حدیث کے فتنے کا بیڑا اٹھایا۔ اور حافظ اسلم جیراج پوری نے اس نظریہ کو مزید آگے بڑھایا۔ آخر میں غلام احمد پرویز نے انکارِ حدیث کو ایک منظم نظریہ اور مکتب ِفکر کی صورت میں پیش کیا۔مولانا ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں :
“ہندوستان میں سب سے پہلے سرسیداحمد خان علی گڑھی نے حدیث کی حجیت سے انکار کی آواز اٹھائی۔ ان کے بعد پنجاب میں مولوی عبداللہ چکڑالوی مقیم لاہور نے ان کا تتبع کیا بلکہ سرسید مرحوم سے ایک قدم آگے بڑھے۔ کیونکہ سرسید حدیث کو شرعی حجت نہ جانتے تھے لیکن عزت واحترام کرتے تھے۔ واقعاتِ نبویہ ﷺ کا صحیح ثبوت کتب ِاحادیث سے دیتے تھے۔ برخلاف ان کے مولوی عبداللہ چکڑالوی حدیث ِنبوی ﷺ کو ‘لہو الحدیث’ سے موسوم کیا کرتے۔”(امرتسری، ثناء اللہ، مولانا، حجیت حدیث اور اتباع رسول ﷺ ، ہندوستان، امرتسری کتب خانہ ثنائیہ، ۱۹۲۹ء ص۱)
عبدالقیوم ندوی لکھتے ہیں ”حجیت ِحدیث کا کھلا انکار مولوی عبداللہ صاحب چکڑالوی نے کیا۔ اس سے پہلے صراحتاً انکار ملحدین اور زنادقہ سے بھی نہ ہوسکا۔”(ندوی، عبدالقیوم، فہم حدیث، کراچی ، ص۱۳۸)
مرزا غلام احمدقادیانی:
مرزا غلام احمد قادیانی سے متعلق بھی یہ کہنا بے جا نہیں کہ انہوں نے سرسید احمد خاں اور ان کے مدرسہ فکر سے شہ حاصل کی۔ شیخ محمد اکرم کے مطابق مولوی چراغ علی سے مرزا کی خط و کتابت تھی اور جہاد سے متعلق وہ مولوی صاحب کے ہم خیال تھے۔ اسی طرح حضرت عیسی کے متعلق انہوں نے سر سید کے خیا لات کی پیروی کی۔ نئی نبوت کی گنجائش بھی اہل تجدد نے فراہم کردی تھی۔ بنا بریں یہ بات ناقابل فہم نہیں کہ مرزا قادیانی نے اس سلسلہ میں انہی کے خیالات سے استفادہ کیا۔ تاہم قادیانیت کے ظہور میں نو آبادیاتی نظام اور انگریزوں کا کردار غیر معمولی ہے۔ مرزا کا عقیدہ تھا کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک کا تعلق خدا سے ہے اور دوسرے کا امن امان قائم کرنے والی حکومت سے۔ امن امان قائم کرنے والی حکومت چونکہ اس وقت حکومت برطانیہ ہے لہذا اس سے سرکشی اسلام سے سرکشی کے مترادف ہے۔ ان میں انگریز پرستی کا جذبہ اس قدر شدید تھا کہ وہ اس معاملے میں اپنے مخالفین کو احمق و نادان بلکہ حرامی اور بدکار قرار دیتے تھے۔ (قاضی جاوید،سرسید سے اقبال تک، لاہور،تخلیقات، 1998ء ، ص 93)
(۲)اسلم جیراجپوری:
اسلم جیراج پوری صاحب نے چھ سال سرسید کی یونیورسٹی میں عربی اور فارسی کے پروفیسر کی حیثیت سے کام کیا پھر جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اسلامی تاریخ ، حدیث اور قرآن کے پروفیسر مقرر ہوئے ۔ آپ انکارِ حدیث کے بڑے ستون ہی نہیں؛ بلکہ بعض وجوہ سے مرکز تھے، پرویز صاحب بھی ان ہی کے علوم سے پروان چڑھے ۔ آپ نے ایک مؤرخ کی حیثیت سے زیادہ شہرت پائی، تاریخ الاُمۃ کئی حصوں میں تحریر کی، آپ حدیث کے اُصولاً خلاف تھے؛ مگراسوۂ رسول کواصولاً حجت مانتے تھے، آپ نے بھی حدیث کے خلاف بہت کام کیا ہے، اُسوۂ رسول کے بارے میں ایسی ایسی قیود لگائیں کہ انجام انکارِ حدیث کے ہی قریب رہا۔
اسلم جیراج پوری صاحب نے احمد دین امرتسری کی کتاب ’’میراث اسلام‘‘ کا عربی میں ’’الوراثت فی الاسلام‘‘ کے نام سے ترجمہ شائع کیا اور اسے اپنی تصنیف قرار دیا۔ جب ان پر سرقہ کا الزام عائد کیا گیا تو فرمایا کہ میں نے احمد دین امرتسری سے استفادہ کیا ہے۔ لیکن اگر سرقے کا یہ معاملہ محض احمد دین امرتسری کی کتاب تک محدود رہتا تو اس الزام کو رد کیا جاسکتا تھا لیکن اسلم جیراج پوری کی مشہور کتاب ’’تاریخ امت‘‘ جو چار جلدوں میں شائع ہوئی خضری کی کتاب ’’تاریخ امت‘‘ کا سرقہ ہے۔
(۳)نیاز فتح پوری:
نیاز فتح پوری بھی انکارِ حدیث میں نمایاں شخصیت تھے ۔ آپ نے پہلے مختلف روزناموں میں ادارات کے فرائض انجام دیے پھر اپنا مشہور رسالہ “نگار” پہلے بھوپال سے پھر لکھنؤ سے جاری کیا۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان چلے گئے اور کراچی میں “نگار” نکالنے لگے۔ وہیں انتقال ہوا۔نیاز فتح پوری بحثیت مجموعی ایک بڑے رومانی افسانہ نگار تھے ۔ آپ انکارِ حدیث میں یہاں تک آگے نکلے کہ مسلمانوں کی تمام خرابیوں کا ذمہ دار حدیث کو ٹھہرایا، خود لکھتے ہیں
” اگرمولویوں کی جماعت واقعی مسلمان ہے تومیں یقیناً کافر ہوں اوراگرمیں مسلمان ہوں تویہ سب نامسلمان ہیں؛ کیونکہ ان کے نزدیک اسلام نام ہے صرف کورانہ تقلید کا اور تقلید بھی رسول واحکامِ رسول کی نہیں؛ بلکہ بخاری ومسلم ومالک وغیرہ کی اور میں سمجھتا ہوں کہ حقیقی کیفیت یقین کی اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتی جب تک کہ ہرشخص اپنی سمجھ سے کسی نتیجہ پرنہ پہنچے، قصہ مختصر یہ کہ اولین بیزاری اسلامی لٹریچر کی طرف سے مجھ میں احادیث نے پیدا کی۔ (من یزدان:۱/۵۴۷)
حدیث میں شک کے کانٹے نکالنے والا قرآن مجید کے ساتھ کب تک وفادار رہا؟ اسے اس کے الفاظ میں ملاحظہ کیجئے:”کلامِ مجید کونہ میں کلامِ خداوندی سمجھتا ہوں اور نہ الہامِ ربانی؛ بلکہ ایک انسان کا کلام جانتا ہوں”۔ (من یزداں:۱/۴۰۵)
(۴)ڈاکٹرغلام جیلانی برق:
ڈاکٹرصاحب بزعم خویش علومِ عربی پرعمیق نگاہ رکھنے والے اور بڑے محقق بھی ہیں۔ آپ کی کتابوں میں دوقرآن دواسلام جہانِ نو اور حرفِ محرمانہ بسلسلہ انکارِ حدیث مشہور ہوئیں ہیں، ایک جگہ مرزا غلام احمد قادیانی کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
مرزا صاحب درست فرماتے ہیں کہ تمام حدیثیں تحریفِ معنوی ولفظی سے آلودہ یاسرے سے موضوع ہیں۔ (حرف محرمانہ:۷۵)
ڈاکٹرغلام جیلانی برق جوانکارِ حدیث میں اس قدر آگے نکلے ہوئے تھے، بعد میں انکارِ حدیث سے یکسرتائب ہوگئے ان کی آخری تصنیف تاریخِ حدیث (برق) ہے، جس میں اُنہوں نے علماء کی سطح پرحدیث کوقبول کرنے کا غیرمشروط اقرار کیا ہے اور بطور کفارہ انہوں نے ایک کتاب تاریخِ حدیث سے متعلق لکھی ، جس میں محدثین کی خدمات کا تعارف کرایا ہے۔
(۵)تمناعمادی پھلواری:
منکرینِ حدیث کے حلقے میں یہ نسبتاً صاحب علم سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے کتابت حدیث کے متعلق مستشرقین کے تمام اعتراضات کو بھرپور انداز میں پیش کیا ۔ ایک جگہ لکھتے ہیں
“یہ سب من گھڑت افسانے ہیں، دراصل کسی صحابیؓ نے حدیثوں کا کوئی مجموعہ مرتب نہیں کیا تھا؛ اگردوچار حدیثیں بھی کوئی صحابی کسی ورق پر لکھ لیتے تووہ ورق تبرک کے طور سے ضرور محفوظ رکھا جاتا”۔ (اعجاز القرآن:۱/۷۳، مولف:مولانا تمنا عمادی)
احادیث کے بعد قرآن کے متعلق لکھا:
“راویانِ احادیث تفسیر میں جولوگ زیادہ پیش پیش تھے تقریباً سب کے سب ناقابل اعتبار اور اس جماعت میں وضاعین وکذابین کی ایک بہت بڑی اکثریت کارفرمارہی، مفسرین متقدمین نے ہرآیت کے متعلق متضاد ومتخالف روایتیں جھوٹی سچی ہرطرح کی حدیثیں اور ہرطرح کے اقوال جمع کرکے آیاتِ قرآنی کے معانی کومشتبہ کردیا”۔ (اعجاز القرآن:۱/۹، مولف:مولانا تمنا عمادی)
“غلام احمد پرویز کے ‘ماہنامہ طلوع اسلام ” میں انکے مضامین شائع ہوتے تھے ۔ اسکے ستمبر سنہ۱۹۵۰ء کی اشاعت میں اُن کا ایک مضمون شائع ہوا اس میں لکھا:
“اور منافقین عجم نے اپنے مقاصد کے ماتحت جمع احادیث کا کام شروع کرنا چاہا توانہیں منافقین عجم کے آمادہ کرنے سے اس وقت خود ابنِ شہاب کوخیال ہوا کہ ہم حدیثیں جمع کرنا شروع کردیں؛ تویہ مدینہ پہنچے اور کوفہ بھی اور مختلف مقامات سے حدیثیں حاصل کیں اور بیسیوں راویوں کے ساتھ رہے”۔ (طلوعِ اسلام:۴۸، ستمبر سنہ۱۹۵۰ء)
خلاصہ :
انکار حدیث کے علم برداروں نے مغربی اہل الرائے سے اسلام کی عذر خواہیوں اور توضیحات میں اور اسلامی معاشرتی اور مذہبی خیالات کی جدید تصورات سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے از سر نو تعمیر کے لیے اسلام کے ہربنیادی عقیدہ کوبھینچے کی کوشش کی ۔ ان لوگوں نے ہر اس اسلامی عقیدہ وحکم تاویل سے بدل ڈالنے کی کوشش کی جو اپنی اصلی شکل میں جدید مغربی یا مغرب متاثر ذہن کے لیے قابل قبول دکھائی نہ دیتا تھا. ان کی یہ کوشش اپنے زعم میں اسلام سے محبت کا نتیجہ جبکہ حقیقت میں اس سے بیزاری اور پرائے افکار ونظریات سے محبت و مرعوبیت کا ثمر تھی ۔ دیوارِ اسلام کوگرانے میں یہ کسی دوسرے ملحد یا مستشرق سے پیچھے نہیں رہے۔
اوپر کی تفصیل سے یہ واضح ہے کہ کلام و تشریحات محمدیؐ کے بغیر دین محمدیؐ اپنی اصل شکل میں نہیں رہ سکتا اسے نکالنے کے بعد ہر قرآنی نظریے کے معانی بھی نئے سرے سے تشکیل دینا پڑتے ہیں ۔ مخالفین حدیث کو انکار حدیث کے بعد اسی مشکل کا سامنا ہوا ۔ وہ حدیث کی مخالفت میں اسلام کے ہر نظریے کا انکار تو کرآئے لیکن انہیں کوئی متبادل راہ نظر نا آئی ۔اس مقام پر پہنچ کر کچھ تو تھوڑے ہی عرصے میں ملحد ہوگئے جیسے نیاز فتح پوری اور اسکے پیروکار ۔ کچھ ایسے تھے جو اس راہ میں بہت آگے تک گئے اور سینکڑوں لوگوں کو گمراہ کیا لیکن آخر انہیں خود ہی احادیث کی اہمیت و ضرورت کا احساس ہوگیا اور انہوں نے ضد میں الحاد کی طرف جانے کے بجائے واپس اسلام کی راہ لی جیسے ڈاکٹر غلام جیلانی برق اور تمنا عمادی پھلواری ۔ کچھ غلام احمد پرویز جیسے ساری زندگی اپنی عقل سے دین اسلام کی ایک شکل ترتیب دینے کی کوشش کرتے رہے لیکن چند ادبی افسانوں، خوشنما نعروں، ایک خیالی نظام ، تضاد سے بھرپور قرآنی تشریحات سے آگے نا بڑھ سکے ، انہوں نے ایک معقول تعداد کو روایت سے دور توکردیا لیکن دین کی کوئی پریکٹکل ، معقول اور متبادل تشریح فراہم نا کرسکے جس سے کچھ ہی عرصے میں انکے پیروکاروں کی اکثریت ملحدین کی صفوں میں جاکھڑی ہوئی۔