بائبل اور قرآن سائنس کی روشنی میں ( مناظرہ ڈاکٹرذاکرنائیک اورڈاکٹر ولیم کیمپبل)

حصہ اول

خطاب:ڈاکٹر ولیم کیمپبل

خطاب :ڈاکٹر ذاکر نائیک

جوابی خطاب:ڈاکٹر ولیم کیمپبلجوابی خطاب:ڈاکٹر ذاکر نائیکحصہ دوم

سوال نمبر 1: طوفان نوح کی نوعیت کیا تھی؟

سوال نمبر 2: اللہ کے نور ہونے سے کیا مراد ہے؟سوال نمبر 3: ڈاکٹر ولیم کیمپبل بائبل کے مطابق خود امتحان کیوں نہیں دیتے؟سوال نمبر 4: کیا عقیدہ تثلیث کی سائنسی تاویل ممکن ہے؟سوال نمبر 5: کیا ڈاکٹر ولیم آج کی گفتگو سے متاثر ہوئے ہیں؟سوال نمبر 6: بائبل زمین کی ساخت کے بارے میں کیا کہتی ہے؟سوال نمبر 7: کیا قرآن میں گرامر کی غلطیاں موجود ہیںٰ؟سوال نمبر 8: کیا ذوالقرنین ، سکندر اعظم تھا؟سوال نمبر 9: کیا حضرت یونس اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام میں مشابہت موجود ہے؟سوال نمبر 10: کیا بائبل میں موجود طب سے متعلقہ بیانات کی وضاحت ممکن ہے؟سوال نمبر 11: اسلام ہمیں ارتقاء کے بارے میں کیا بتاتا ہے؟سوال نمبر 12: کیا بائبل کے تضادات کی وضاحت ممکن ہے؟سوال نمبر 13: کیا ” متن” اور “ترجمہ” ایک ہی چیز ہے؟سوال نمبر 14: کیا موجودہ انجیل وہی ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی؟سوال نمبر 15: اگر قرآن اور سائنس میں مکمل مطابقت ہے تو یہ نطریئے تبدیل ہونے کی صورت میں کیا ہوگا؟سوال نمبر 16: اگر ڈاکٹر کیمپبل اعتراضات کے جوابات نہیں دے سکتے تو وہ تسلیم کیوں نہیں کرتے کہ بائبل میں اغلاط موجود ہیں؟سوال نمبر 17: کیا بائبل اور قرآن میں تضادات موجود ہیں؟خطاب:ڈاکٹر ولیم کیمپبل

سب سے پہلے تو میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کو خوش آمدید کہنا چاہوں گا کہ وہ اتنی دور تشریف لائے، میں سبیل احمد، محمد نائیک اور متنظمہ کمیٹی کے اراکین کو بھی خوش آمدید کہتا ہوں۔ آج کے مکالمے کو “The Ultimate Dialogue” کا عنوان دینا تو خیر مبالغہ ہوگا، لیکن یوں ہے کہ اس طرح ذرا مشہوری اچھی ہوجاتی ہے، میں جملہ حاضرین کو بھی اس تقریب میں خوش آمدید کہتا ہوں۔

میں ” یہوداہ ” کے نام پر خوش آمدید کہت اہوں، جو ہمارے عظیم خالق ہے اور ہم سب سے محبت کرتا ہے۔

سب سے پہلے میں ” الفاظ” کے بارے میں گفتگو کرنا چاہوں گا۔ آج ہم سب یہاں الفاظ ہی کے بارے میں بات کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ بائبل کے الفاظ کے بارے میں اور قرآن کے الفاظ کے بارے میں

جدید علم لسانیات کے ماہرین ہمیں بتاتے ہیں کہ کسی لفظ ، فقرے یا جملے کے معانی وہی ہوتے ہیں جو بولنے والا مراد لیتا ہے یا جو سننے والا فرد یا افراد مراد لیتے ہیں۔

گویا قرآن کے الفاظ کے معانی وہی ہوں گے جو محمد ﷺ مراد لیتے تھے یا ان کی بات سننے والے مراد لیتے تھے۔ بائبل کے معاملے میں الفاظ کے معنی وہی ہوں گے جو حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ علیھما السلام کے نزدیک تھے یا ان کے مخاطبین مراد لیتے تھے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے اور پرکھنے کے لیئے پوری بائبل اور پورا قرآن ایک تناظر فراہم کرتے ہیں، مزید برآں اس دور کے ادب اور شاری سے بھی مدد ملتی ہے۔ یعنی انجیل کے معاملے میں پہلی صدی عیسوی کا ادب اور قرآن کے معاملے میں پہلی صدھ ہجری کا ادب اور شاعری ہماری مدد کرتے ہیں۔

اگر ہم حقیقت کی پیروی کرنا چاہتے ہیں، اگر ہم سچائی کے متلاشی ہیں تو ہمیں الفاظ کو نئے معانی پہنانے سے گریز کرنا چاہیئے۔ اگر ہم حقیقت کی تلاش میں سنجیدہ ہیں تو کسی ” جائز غلط بینای ” کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔

میں ایک مثال کی مدد سے اپنی بات واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

میرے پاس دو ڈکشنریاں ہیں، ایک کاسنہ اشاعت 1951ء ہے اور دوسری کا 1991ء۔

یہ دونوں لغات میرے گھر میں موجود ہیں، میں ان دونوں میں سے ایک لفظ “Pig” کے معانی دیکھتا ہوں۔

پہلا معنی ہے” کسی بھی جنس کا جوان خنزیر ” اور یہ معانی دونوں میں موجود ہیں۔

دوسرے معانی ” کسی بھی نوعیت کا جنگلی یا پالا ہوا خنزیر ” بھی دونوں جگہ موجود ہے۔

تیسرے معنی ” خنزیر کا گوشت ” بھی دنوں لغات میں موجود ہے۔

چوتھے معامی ” سور جیسے عادات والا شخص یا بہت زیادہ کھانے والا شخص ” بھی دونوں لغات میں پائے جاتے ہیں۔

لیکن آخر میں اس لفظ کے ایک نئے معانی بھی موجود ہیں۔ جو صرف نئی چھپنے والی لغت میں ہی موجود ہیں۔ اور وہ ہیں ” پولیس والا” ۔ گویا جدید لغت کے مطابق یہ لفظ پولیس والوں کے لیئے بھی استعمال ہوتا ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ توراۃ میں کہا گیا ۔ “You can not eat Pigs” تو اگر میں اس جملے کے یہ معانی مراد لوں کہ یہاں Pig سے مراد پولیس والا ہے اور یہ کہ یہاں پولیس والوںکا گوشت کھانے سے منع کیا جارہا ہے تو کیا یہ درست ہوگا؟ ظاہر ہے کہ ہرگز نہیں، اسی طرح قرآن میں بھی لحم خنزیر کھانے سے منع کیا گیا ہے۔ کیا وہاں میں یہ کہ سکتا ہوں کہ Pig سے مراد ” پولیس والا ” ہے؟ نہیں کیوں کہ ایسا کہکنا غلط ہوگا، احمقانہ ہوگا بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ یہ ایک سفید جھوٹ ہوگا، کیوں کہ محمد ﷺ یا موسی علیہ السلام اس لفظ سے کبھی بھی مراد ” پولیس والا” مراد نہیں لے سکتے تھے۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیہن الفاظ کے نئے معانی مراد لینے سے پرہیز کرنا چاہیئے۔

انجیل کے معاملے میں الفاظ کے وہی معانی سامنے رکھنے چاہئیں جو پہلی صدی عیسوی میں تھے، اسی طرح قرآن کے الفاظ کو بھی انہی معانی میں استعمال ہونا چاہیئے جن معانی میں یہ پہلی صدی ہجری کے دوران میں استعمال ہوتے رہے ہیں۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن ” علم جنینیات” Embryology کے بارے میں کیا کہتا ہے، کہا جاتا ہے کہ جنین کے مختلف مراحل میں ارتقازء کا نظریہ ایک جدید نظریہ ہے اور یہ کہ قرآن ہمیں ان مراحل کی خبر دیتا ہے۔

ڈاکٹر کیتھ مور اپنے کتابچے “Highlights of Human Embroyology” میں لکھتے ہیں:

” یہ حقیقت کی جنین کا ارتقا مختلف مراحل میں ہوتا ہے، پندرھویں صدی عیسوی تک واضح نہیں ہوئی تھی۔”

ہم اس دعوے کو پرکھنے کے لیئے ایک تو قرآن میں استعمال ہونے والے عربی لفظ کا تجزیہ کریں گے اور دوسرا ہم قرآن سے وابستہ تاریخی حالات کا جائزہ لیں گے۔ ہم شروع کرتے ہیں عربی لے لفظ ” علقہ ” سے جو قرآن میں استعمال ہوا ہے قرآن میں یہ لفظ واحد علقۃ اور جمع “علقہ ” دونوں صورتوں میں چھ بار بار استعمال ہوا ہے۔

أَيَحْسَبُ الإنْسَانُ أَنْ يُتْرَكَ سُدًى (٣٦)أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنَى (٣٧)ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى (٣٨)فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالأنْثَى (٣٩) ( سورۃ القیامۃ: آیات 36 تا 39)

” کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یونہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا؟ کیا وہ ایک حقیر پانی کا نطفہ نہ تھا جو ( رحم مادر میں ) ٹپکایا جاتا ہے؟ پھر وہ ایک لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اس کا جسم بنایا اور اس کے اعضا درست کئے، پھر اس سے مرد اور عورت کی دو قسمیں بنائیں۔”

اسی طرح سورۃ مؤمن میں تحریر ہے:

هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخًا وَمِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّى مِنْ قَبْلُ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلا مُسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (٦٧) (سورۃ المؤمن 40 آیت 67)

” وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے ، پھر خون کے لوتھڑے سے ، پھر وہ تمہیں بچے کی شکل میں نکالتا ہے، پھر تمہیں بڑھاتا ہے تاکہ تم اپنی پوری طاقت کو پہنچ جاؤ، پھر اور بڑھاتا ہے تاکہ تم بڑھاپے کو پہنچو اور تم میں سے کوئی پہلے ہی بلالیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لے کیا جاتا ہے تاکہ تم اپنے مقررہ وقت تک پہنچ جاؤ اور اس لیے کہ تم حقیقت کو سمجھو۔”

سورۃ حج میں کہا گیا ہے:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِنُبَيِّنَ لَكُمْ وَنُقِرُّ فِي الأرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ وَمِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّى وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلا يَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا ۔۔۔۔۔( سورۃ الحج 22 آیت 5 )

“لوگو! اگر تمہیں زندگی بعد موت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہوکہ تم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ہے، پھر نطفے سے ، پھر خون کے لوتھڑے سے پھر گوشت کی بوٹی سے، جو شکل والی بھی ہوتی ہے، اور بے شکل بھی ( یہ ہم اس لیے بتا رہے ہیں ) تاکہ تم پر حقیقت واجح کریں، ہم جس ( نطفے ) کو چاہتے ہیں ایک وقت خاص تک رحموں میں ٹہرائے رکھتے ہیں، پھر تم کو ایک بچے کی صورت میں نکال لاتے ہیں ( پھر تمہیں پرورش کرتے ہیں ) تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو۔ اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے اور کوئی بدترین عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے۔ ”

پھر سورۃ مؤمنون میں یہ بیان بھی موجود ہے۔:

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإنْسَانَ مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طِينٍ (١٢)ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِينٍ (١٣)ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ (١٤) ( سورۃ المؤمنون 23 آیات 12 تا 14)

” ہم نے انسان کو متی کے ست سے بنایا، پھر اسے ایک محفوظ جگہ پر ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا، پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوتی بنا دیا، پھر بوٹی کی ہڈیاں بناجئیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کر کھڑا کیا، پس بڑا ہی بابرکت ہے اللہ، سب کاریگروں سے اچھا کاریگر۔”

اور یہاں وہ مراحل ہمارے سامنے آتے ہیں جو قرآن میں بیان کیے گئے ہیں یہ مراحل مندرجہ ذیل ہیں:

نُّطْفَةَ نطفۃ

عَلَقَة لوتھڑا

مُضْغَة بوٹی

عِظَامًا ہڈیاں

اور آخری مرحلہ ہڈیوں پر گوشت چڑھنے کا ۔

گزشتہ سوسال کے عرصے میں لفظ “علقہ” کے بہت سے تراجم ہوئے ہیں۔ دس ترجمے یہاں موجود ہیں، تین فرانسیسی ترجمے، پانچ انگریزی ترجمے، ایک انڈونیشئن زبان میں اور ایک پارسی زبان میں، ان تراجم میں لفظ علقۃ کا ترجمہ لوتھڑا یا خون کا لوتھڑا یا جونک کی طرح کا لوتھڑا کیا گیا ہے۔

ان تراجم کا ہر وہ قاری جس نے انسانی افزائش نسل کے عمل کا مطالعہ کررکھا ہے، اندازہ کرسکتا ہے کہ جنین کی تشکیل کے دوران ایسا کوئی مرحلہ نہیں ہوتا جہاں جنین کی صورت لوتھڑے کی مانند ہو، لہذا یہ ایک نہایت اہم سائنسی مسئلہ ہے۔ اس لفظ کو اگر آپ لغت میں دیکھیں تو اس کا معنی صرف لوتھڑا یا جونک ہوسکتے ہیں۔ شمالی افریقہ میں یہ لفظ انہی معنوں میں آج بھی مستعمل ہے۔ میرے پاس ایسے مریض آتے رہے ہیں جو یہ الفاظ استعمال کرتے تھے، ایسی خواتین بھی آتی رہیں جو کہتی تھیں کہ حیض کا آغاز وقت پر نہیں ہوا۔ میں انہیں کہتا تھا کہ میں آپ کو حیض جاری کرنے والی ادویات دے سکتا کیوں کہ میرے خیال میں یہ حمل ہے۔

وہ کہتی تھیں کہ نہیں “ابھی خون ہی ہے ” یعنی وہ اس قرآنی تصور کو سمجھ رہی تھیں، آخر میں ہمیں قرآن کی سب سے پہلی نازل ہونے والی آیات کو بھی سامنے رکھا چاہیئے۔ جو ( حضرت) محمد ﷺ پر مکہ میں نازل ہوئیں۔ یہ آیات قرآن کی سورۃ نمبر 96 میں موجود ہیں۔ اس سورۃ کا نام ہی سورۃ العلق ہے، یعنی وہ لفظ جس کا ہم یہاں مطالعہ کررہے ہیں۔ اس سورۃ میں کہا گیا ہے:

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (١)خَلَقَ الإنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (٢) ( سورۃ العلق 96 آیات 1 تا 2)

” پڑھو ( اے نبی ﷺ ) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔ جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔”

لفظ کی اس صورت یعنی ” علق” کے دیگر معانی بھی ہیں۔ مثلاً چپکنا، لٹکنا، چمٹنا وغیرہ، لیکن مزکورہ بالا دس تراجم میں سے کسی ایک میں بھی یہ معانی مراد نہیں لیے گئے۔ ان سب نے اس آیت میں بھی لفظ ” علق ” کا ترجمہ لوتھڑا یا ” جما ہوا خون ” ہی کئے ہیں۔

ان مترجمین کی تعداد اور صلاحیتوں کے باوجود فرانسیسی ڈاکٹر مورس بوکائیے ان کیلئے سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

” ۔ ۔ ۔ ۔ ایک اور چیز جو قاری کو گمراہ کرسکتی ہے، وہ لفظوں کا انتخاب ہے، مچال کے طو رپر مترجمین کی اکثریت انسان کی پیدائش کی وضاحت کرتے ہوئے خون کے لوتھڑے کا ذکر کرتی ہے۔ ” انسانی افزائش نسل ” کے شعبے میں مہارت رکھنے والے ماہرین کے لیے اس قسم کا بیان ناقابل قبول ہوگا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افزایش سے متعلقہ قرآنی آیات کی درست تفہیم کے لیے زبان کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم سے کام لینا کس قدر ضروری ہے۔”

گویا بالفاظِ دیگر ڈاکٹر بوکائے کہنا چاہتے ہیں کہ؛

“آج تک قرآن کے جتنے تراجم ہوئے، سب غلط تھے اور اب میں درست ہوں۔”

ڈاکٹر بوکائے نے یہ کس طرح فرض کرلیا کہ ترجمہ وہ ہونا چاہیئے جو وہ خود کررہے ہیں۔ وہ ” علق” کا ترجمہ بجائے ” لوتھڑے ” کے چپکنے والی چیز ” کرتے ہیں۔ اور اس سے مراد جنین لیتے ہیں جو آنول نال کے ذریعے رحم سے جڑا ہوتا ہے۔ لیکن جو خواتین صاحب اولاد ہیں وہ میری اس بات کی تائید کریں گی کہ جو چیز چپکی ہوئی ہوتی ہے وہ ساڑھے آٹھ ماہ تک چپکی ہی رہتی ہے، یعنی چپکی ہوئی چیز تبدیل ہوکر ” چبائے ہوئے گوشت ” نما کسی چیز میں تبدیل نہیں ہوتی۔ تیسری بات ان آیات میں یہ کہی گئی ہے کہ؛

” بوتی ہڈیوں میں تبدیل ہوتی ہے، اور پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا جاتا ہے۔”

اس سے یہ تاءثر ملتا ہے کہ پہلے ڈھانچا تیار ہوتا ہے اور پھر اس پر گوشت چڑھایا جاتا ہے، ڈاکٹر بوکائیے بہ خوبی جانتے ہیں کہ ایسے نہیں ہوتا۔ پٹھے اور ہڈیاں ایک ہی وقت میں بننا شروع ہوتے ہیں۔ آٹھویں ہفتے کے اختتام تک بہت کم ہڈیوں کی تشکیل ہوئی ہوتی ہے لیکن پٹھے حرکت کے قابل ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر T.W Sadler جوکہ Embryo Anatomry کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ Longman’s Medical Embryology کے مصنف ہیں، ایک خط میں تحریر کرتے ہیں کہ؛

“آٹھویں ہفتے تک پسلیاں وغیرہ اپنی ابتدائی حالت میں ہوتی ہیں اور انہوں نے ہڈیوں کی صورت اختیار نہیں کی ہوتی، جب کہ پٹھے بن چکے ہوتے ہیں۔اس موقع پر ہڈیوں کی تشکیل کا آغاز ہی ہوا ہوتا ہے جب کہ پتھے حرکت بھی کرسکتے ہیں۔”

دو گواہیاں ہمیشہ ایک سے بہتر ہوتی ہیں۔ لہذا ہم دوسری گواہی ڈاکٹر کیتھ مور کی کتاب The Developing Human سے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ کتاب کے باب نمبر 15 اور 17 سے ہمیں یہ معلومات حاصل ہوتی ہیں۔

(یہاں کچھ سائنسی تفاصیل بیان کرنے کے بعد ڈاکٹر ولیم کہتے ہیں

ایک ملاقات کے دوران میں نے ڈاکٹر مور کو ذاتی طور پر ڈاکٹر ساڈلر کا بیان دکھایا اور انہوں نے اسے بالکل درست قرار دیا۔ اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسا کوئی مرحلہ نہیں ہوتا جس میں ہڈیاں بن چکی ہوں اور پھر ان کے اوپر پٹھے بن رہے ہوں۔ پٹھے تو ہڈیوں کے بننے سے کئی دن پیش تر ہی موجود ہوتے ہیں اور ہڈیوں کے بننے کے بعد نہیں بنتے جیسا کہ قرآن کہتا ہے۔ قرآن کا بیان یہاں باکل غلط ہے۔ (1) گویا مسئلہ ابھی حلا ہونے سے بہت دور ہے۔

ہم دوبارہ لفظ “علق” کی طرف لوٹتے ہیں۔

حاشیہ (1) نقل کفر، کفر نہ باشد

دوسری آیات میں جونک نما شکل کا ذکر کیا گیا ہے اور چبائی ہوئی شکل کا۔ وہ اس سے 23 دن اور 30 دن عمر کا جنین مراد لیتے ہیں۔ 23 دن کے جنین کا سائز 3 ملی میٹر ہوتا ہے یعنی ایک انچ کا آٹھواں حصہ۔ اس کی تصویر ڈاکٹر مور کی کتاب میں دی گئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے تو یہ کسی طرح بھی جونک نما معلوم نہیں ہوتی۔

لفظ ” علقہ ” کے ان معانی کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ کوئی ایسی مثال عربی زبان سے پیش نہیں کی گئی جس سے اس لفظ کا ان معنوں میں استعمال ثابت ہوتا ہو۔ ابتدائی ہجری صدیوں سے ایسی مثال پیش کی جانی چاہیئے۔ یہ ثابت کرنے کا کہ لفظ عَلَقَ کا مطلب ایک تین ملی میٹر طویل جنین ہوتا ہے جو کہ چپکا ہوا ہوتا ہے۔ ایک ہی طریقہ ہے کہ پیغمبر ﷺ کے دور کے زبان و ادب میں سے خصوصاً اس عربی سے جو قریش بولتے تھے، کوئی مثال پیش کی جائے۔

ایسی مثال پیش کرنا آسان نہیں ہوگا۔ قریش کی عربی پر بہت سی تحقیقات ہوچکی ہیں۔ دور اول کے مسلمانوں کے لیئے عربی زبان پر تحقیق ضروری تھی کیوں کہ وہ قرآنی الفاظ کے درست معانی جاننا چاہتے تھے اور اسی وجہ سے انہوں نے اپنی زبان اور شاعری کی طرف بہت توجہ دی۔

یہی وجہ ہے کہ 1985ء میں ہونے والی ایک کانفرس میں پیرس کی جامع مسجد کے سابق امام ابوبکر نے یہ سوال اٹھایا تھا:

” کیا قرآن کی تفہیم پیغمبر اسلام ﷺ کے دور سے آج تک ہمیشہ یکساں طو رپر ہوتی رہی ہے۔؟”

اور ان کا جواب تھا:

” دور جاہلیت کی شاعری کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ، ہاں!”

اس سے ہم یہی نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ اگر وہ آیات، جو ہمیشہ مسلمانوں کو روحانی سکون اور امید فراہم کرتی رہی ہیں، آج بھی اسی طرح ہیں تو پھر ان آیات میں موجود سائنسی بیانات بھی اسی طرح برقرار ہیں۔ جب تک کوئی نیا ثبوت سامنے نہ آجائے، یہ بات نہایت اہم ہے، کیونکہ بعض آیات میں یہ بھی کہا گیا ہے۔ کہ یہ معلومات ایک نشانی ہیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے دیکھا، سورۃ مؤمنون میں کہکا گیا ہے:

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإنْسَانَ مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طِينٍ (١٢)ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِينٍ (١٣)ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ (١٤) ( سورۃ المؤمنون 23 آیات 12 تا 14)

” ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا، پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا۔ پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنادیا، پھر بوٹی ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کر کھڑا کیا۔ پس بڑا ہی بابرکت ہے اللہ، سب کاریگروں سے اچھا کاریگر۔اسی طرح سورۃ حج میں کہا گیا:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِنُبَيِّنَ لَكُمْ وَنُقِرُّ فِي الأرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ وَمِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّى وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلا يَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا (سورۃ الحج 22 آیت 5)

” لوگو اگر تمہیں زندگی بعدِ موت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ہے، پھر نطفےسے، پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی ( یہ ہم اس لیے بتا رہے ہیں ) تاکہ تم پر حقیقت واضح کریں، ہم جس ( نطفے ) کو چاہتے ہیں ایک وقت خاص تک رحموں میں ٹھہرارکھتے ہیں، پھر تم کو ایک بچے کی صورت میں نکال لاتے ہیں ( پھر تمہیں پرورش کرتے ہیں ) تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جات اہے اور کوئی بدترین عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے۔ ”

اگر مکہ اور مدینہ کے رہنے والے لوگوں کے لیے یہ ایک واضح آیت تھی تو ” علقہ ” کے لفظ کے ان کے لیے کیا معنی تھے؟ جو انھیں زنددی بعد موت پرایمان لانے کے لیے قائم کرتے؟

جواب جاننے کے لیے ہمیں محمد ﷺ کے دور کی تاریخی صورت حال کا جائزہ لینا ہوگا۔ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ محمد ﷺ اور ان کے دور کے لوگ علم جنین کے حوالے سے کیا خیالات رکھتے تھے۔ ہم Hypocritesسے آغاز کریں گے، غالب امکان یہ ہے کہ وہ 460 قبول مسیح میں یونا جزیرے Kuss میں پیدا ہوا تھا، اور وہ ” مراحل” یا Stages کا نظریہ رکھتا ہے۔ جو کچھ یوں ہے۔

اس کے خیال میں مادہ منویہ پورے بدن سے اخذ ہوتا ہے، یعنی ماں اور باپ دونوں کے پورے جسم سے، جسم کے قوی حصوں سے قوی مادہ حاصل ہوتا ہے اور ضعیف حصوں سے ضعیف مادہ، اس کے بعد وہ آگے بڑھتا ہے اور ماں کے جسم میں خون کے جمنے کی بات کرتا ہے۔ اس سے جنین بنتا ہے جو ایک جھلی میں لپٹا ہوتا ہے، مزید برآں وہ کہتا ہے کہ جنین کی پرورش ماں کے خون کے ذریعہ سے ہوتی ہے جو ماں کے رحم تک پہنچتا ہے کیوں کہ حاملہ ہونے کے بعد حیض کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد وہ گوشت بننے کا ذکر کرتا ہے اور آخر میں ہڈیوں کا ذکر کتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جیسے جیسے اعضاء بنتے ہیں ان کے اندر ہڈیاں بھی بنتی چلی جاتی ہیں، درخت کی شاخوں کی مانند۔

اب ہم ارسو کی جانب آتے ہیں تقریباً تین سو قبل مسیح میں لکھی گئی اپنی کتاب میں ” ارتقائے جنین ” کے مراحل کا ذکر کرتا ہے۔ وہ مادہ منویہ، حیض کے خون وغیرہ کا ذکر بھی کرتا ہے۔ کتاب کے اس حصے میں وہ نر کے مادہ منویہ کو “خالص” قرار دیتا ہے۔ یعنی مادہ منویہ سے حاصل ہونے والا مادہ منویہ وہ لوازمہ فراہم کرتا ہے جو نر کے مادہ منویہ کو درکار ہوتا ہے۔ گویا بالفاظ دیگر مادہ منویہ کے خون کو جمانے کا باعث بنتا ہے اور پھر اس سے گوشت بنتا ہے۔ ارسطو کہتا ہے کہ فطرت خالص ترین اجزاسے گوشت اور باقی ماندہ اجزاء سے ہڈیاں تشکیل دیتی ہے۔ پہلے ہڈیاں بنتی ہیں اور پھر ان کے گرد گوشت بنتا ہے ۔ بالکل یہی بات ہمیں قرآن میں بھی ملتی ہے۔ مادہ منویہ اور خون سے لوتھڑا بنتا ہے ، اس سے ہڈیاں اور پھر ہڈیوں پر گوشت۔

اب ہم ہندوستانی علم الادویہ کی طرف آتے ہیں۔ 123ء میں Sharaka اور Shushruta کا کہنا تھا کہ؛

” نر اور مادہ دونوں تخم ریزی میں حصہ لیتے ہیں۔ نر کا مادہ منویہ Sukra اور مادہ کا Artava کہلاتا ہے۔ان کا بھی یہی خیال تھا کہ جنین کی تشکیل مادہ منویہ اور خون سے ہوتی ہے۔”

اب ہم گالن کے نقطہ نظر کی طرف آتے ہیں۔ گالن کے سنہ پیدائش 131 عیسوی ہے اور وہ اس علاقے میں پیدا ہوتا تھا جو آج کل ترکی میں شامل ہے۔ گالن کا کہنا تھا کہ وہ لوازمہ جس سے جنین کی تشکیل ہوتی ہے خون اور نرومادہ دونوں طرح کے مادہ منویہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ قرآن یہاں گالن سے متفق ہے۔ قرآن میں کہا گیا:

إِنَّا خَلَقْنَا الإنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ (سورۃ الدھر 76 آیت 2)

” ہم نے انسان کو ایک نطفے سے پیدا کیا۔”

اب ہم آتے ہیں گالن کے بیان کردہ مراحل کی جانب کیوں کہ وہ بھی جنین کےک ارتقا کے مختلف مراحل بیان کرتا ہے۔

پہلا مرحلہ مادہ منویہ پر مشتمل ہوتا ہے۔

دوسرا مرحلہ وہ ہوتا ہے جس میں مادہ منویہ اور خون یکجا ہوتے ہیں، یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جس میں مختلف اعضاء نے ابھی واضح شکل اختیار نہیں کی ہوتی۔ قرآن میں یوں کہا گیا ہے:

مِنْ مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ (سورۃ الحج 22 آیت 5)

” پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی۔”

تیسرا مرحلہ وہ بیان کرتا ہے ، جس میں ہڈیوں پر گوشت چڑھتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا قرآن بھی یہ مرحلہ بیان کرتا ہے۔

ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ (سورۃ المؤمنون 23 آیت 14)

” پھر اس بوند کے لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنایا، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا۔”

گالن کو اس زمانے میں کس قدر اہمیت حاصل تھی، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پہلی ہجری صدی کے آغاز کے قریب اسکندریہ میں چار افراد نے علم طب کا ایک مدرسہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کا نصاب گالن کی 16 کتابوں پر مشتمل تھا، اور یہ کتابیں تیرھویں صدی عیسوی تک نصاب میں شامل رہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محمد ﷺ کے دور میں خطہء عرب کی سیاسی ، معاشی اور طبی صورت حال کیا تھی؟

اس زمانے میں یمن سے تجارتی قافلے مکہ اور مدینہ کی سے ہوتے ہوئے شمال کی طرف جایا کرتے تھے، توارۃ کا عبرانی سے Cyriac زبان میں ترجمہ ہوچکا تھا جو آرامی زبان کی ایک قسم ہے اور عربی سے مشابہ ہے۔ یہ ترجمہ سنہ 463ء میں ہی ہوچکا تھا۔ برٹش میوزیم میں اس کی ایک نقل موجود ہے۔ سنہ 500ء کے بعد عرب کے شمالی صحراؤں میں یہی زبان بولی جاتی تھی اور ان علاقوں میں رہنے والے عیسائی اور یہودی قبائل کے پاس توارۃ اسی زبان میں دستیاب تھی۔

اسی زمانے میں Syrgies Cyrra Cynie؟ نے، جو 536ء میں قسطنطنیہ میں فوت ہوا، علم طب کی کئی کتابوں کا یونانی سے Cyriac زبان میں ترجمہ کیا۔ ان میں گالن کی 26 کتابیں بھی شامل تھیں۔ اس طرح یہ کتابیں خسرو اول کی عجمی سلطنت اور قبیلہ غسان کے علاقوں میں دستیاب تھیں۔ اس قبیلے کا علاقہ اس زمانے میں مدینہ کے قریب تک پہنچ چکا تھا، شہنشاہِ ایران کسرٰی کو خسرو اعظم کیا جاتا تھا۔ اس کی افواج کی فتوحات یمن تک جا پہنچی تھیں۔ وہ علم دوست باشاہ تھا۔ اس نے کئی مدرسے بھی قائم کئے۔ ان میں جندی شاپور کا مدرسہ بھی شامل تھا۔ جو خسروِ اول کے طویل 48 سالہ دور اقتدار کے دوران میں اپنےوقت کا عظیم ترین علمی مرکز بن گیا تھا۔

جندی شاپور کے مدرسے میں یونانی، یہودی، نسطوری، ایرانی اور ہندی افکار پر آزادانہ تبادلہ خیال ہوتا تھا۔ تعلیم و تدریس زیادہ تر Syriac زبان میں ہوتی تھی، تراجم کے ذریوے انہیں ارسطو، گالن اور Hypocrites کے خیالات و افکار جندی شاپور کے مدرسے میں آسانی سے دستیاب تھے۔

اگلے مرحلے میں فاتح عربوں نے نسطوریوں کو مجبور کیا کہ وہ ان کتابوں کو Syriac زبان سے عربی میں ترجمہ کریں۔ ترجمہ مشکل بیھ نہیں تھا، کیوں کہ دونوں زبانوں کی گرامر یکستاں ہے۔ جہاں تک علم طب کا مقامی صورت حال کا تعلق ہے، ہم جانتے ہیں کہ محمد ﷺ کے زمانے میں اس خطے میں طبیب تھا۔ اس کا تعلق طائف کے قبیلہ بنی ثقیف سے تھا۔ وہ چھٹی صدی عیسوی کے وسط میں پیدا ہوا تھا۔ اس نے یمن اور پھر ایران کا سفر کیا اور جندی شاپور کےک مدرسے میں طب کی تعلیم حاسل کی۔ اس طرح وہ ارسطو اور گالن کے نظریات سے آگاہ ہوا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے ایران میں ہی حکمت شروع کی۔ اس دوران سے خسرو کے دربار میں بھی طلب کیا گیا۔ جہاں اس نے شہنشاہ سے طویل گفتگو کی۔

تقریباً اسلام کے آغاز کے وقت وہ خطئہ عرب میں واپس آیا اور طائف میں آباد ہوگیا۔ اس دوران یمن کا ایک بادشاہ ابوخیر کسی بیماری کے سلسلے میں اس کے پاس طائف آیا۔ صحت یاب ہونے کے بعد اس نے حارث کو بہت سی دولت اور ایک کنیز انعام میں عطا کی۔

اگرچہ حارث نے علم طب پر کوئی کتاب نہیں لکھی لیکن کئی طبی معاملات پر اس کے خیالات خسرو سے اس کی گفتگو کی صورت میں محفوظ ہیں۔ آنکھ کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ یہ چربی کی بنی ہوتی ہے۔ یعنی آنکھ کی سفیدی، جب کہ سیاہ حصے کو وہ پانی قرار دیتا ہے اور نظر کو وہ ” ہوا” قرار دیتا ہے۔ آج ہم جانتے ہیں کہ یہ تمام باتیں غلط ہیں لیکن یونانی خیالات یہی تھے۔ اور اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حارث کو یونانی علما کے افکار سے آگاہی حاصل تھی۔ اس صورت حال کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے۔” Dr. Lucaine la Clerk ” اپنی کتاب “Estword Delamitry Arabs” میں لکھتے ہیں:

” حارث نے علم طب جندی شاپور میں حاصل کیا اور محمد ﷺ کو علم طب کے بارے میں معلومات جزوی طور پر حارث سے حاصل ہوئیں تھیں۔ لہذا دونوں کے ہاں یونانی خیالات کے آثار مل جاتے ہیں۔ محمد ﷺ بعض اوقات مریضوں کا علاج خود کرتے تھے لیکن پیچیدہ امراض کی صورت میں وہ حارث کے پاس بھیج دیا کرتے تھے۔ علم طب کا ایک اور عالم لادن بن حارث بھی تھا۔ اگرچہ اس کا طبیب حارث سے کوئی رشتہ نہیں تھا۔ وہ محمد ﷺ کا رشتہ دار تھا اور خسرو کے دربار میں حاضر ہوچکا تھا۔ بہرحال اسے محمد ﷺ سے ہمدردی نہیں تھی۔ اور وہ قرآن کے بعض بیانات پر معترض تھا۔ محمد ﷺ نے اسے معاف نہیں کیا اور جب وہ جنگ بدر میں گرفتار ہوا تو اسے سزائے موت دی گئی۔”

گفتگو کا خلاصہ کچھ یوں بنتا ہے۔:

600ء میں مکہ اور مدینہ میں رہنے والے عربوں کے روابط حبشہ یمن، فارش اور بازنطینی سلطنت کے ساتھ قائم تھے۔

محمدﷺ کا ایک رشتہ دار فارسی زبان اچھی طرح جانتا تھا کہ موسیقی کے حوالے سے اس زبان پر تحقیق کرسکے۔ غسانی قبیلہ جو صحرائے عرب کے ایک حصے پر حکمران تھا اور جس کی سرحدیں مدینہ سے ملتی تھیں، وہی زبان بولتا تھا جو جندی شاپور کے مدرسے میں طب کی تعلیم دینے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ یمن کا ایک بادشاہ اپنے علاج کے سلسلے میں طائف آیا تھا۔اور طائف کے طبیب حارث کے زیر علاج رہا جس نے طب کی تعلیم کا بہترین ادارہ تھا۔ محمد ﷺ بھی بعض اوقات علاج کے لیے مریضو ں کو حارث کے پاس بھیجا کرتے تھے۔

محمد ﷺ کے دور میں ہی اسکندریہ میں ایک نیا مدرسہ بھی طب کی تعلیم کے لئے قائم ہوا تھا۔ جس کے نصاب میں گالن کی سولہ کتابیں شامل تھیں۔ اس ذریعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس بات کے وافر امکانات موجود تھے کہ محمد ﷺ اور انکے اصحاب ارسطو اور گالن وگیرہ کے تولیدی نظریات سے آگاہ ہوسکتے۔ جس کا ذریعہ حارث اور دیگر طبیبوں کی صورت میں موجود تھا۔

لہذا جب قرآن مکی دور کی آخری سورتوں میں اسے ایک سورۃ میں کہتا ہے:

هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخًا وَمِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّى مِنْ قَبْلُ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلا مُسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (سورۃ المؤمن 40 آیت 67)

” وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے ، پھر خون کے لوتھڑے سے ، پھر وہ تمہیں بچے کی شکل میں نکالتا ہے، پھر تمہیں بڑھاتا ہے تاکہ تم اپنی پوری طاقت کو پہنچ جاؤ ، پھر اور بڑھاتا ہے تاکہ تم بڑھاپے کو پہنچو اور تم میں سے کوئی پہلے ہی بلا لیا جاتا ہے، یہ سب کچھ اس لئے کیا جاتا ہے تاکہ تم اپنے مقررہ وقت تک پہنچ جاؤ اور اس لیے کہ تم حقیقت کو سمجھو۔”

اور پھر سورۃ حج میں بھی کہا گیا ہے:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِنُبَيِّنَ لَكُمْ وَنُقِرُّ فِي الأرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ وَمِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّى وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلا يَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ (سورۃ الحج 22 آیت 5)

” لوگو! اگر تمہیں زندگی کے بعد موت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ہے، پھر نطفے سے، پھر خون کے لوتھڑے سے پھر گوشت کی بوٹی سے، جو شکل والی بھی ہوتی ہے، اور بے شکل بھی ( یہ ہم اس لیے بتا رہے ہیں ) تاکہ تم پر حقیقت واجح کریں ہم جس ( نطفے ) کو چاہتے ہیں ایک وقت خاص تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہیں، پھر تم کو ایک بچے کی صورت میں نکال لاتے ہیں ( پھر تمہیں پرورش کرتے ہیں ) تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو، اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلایا جاتا ہے اور کوئی بدترین عمر کی طرف پھر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے۔ ”

یہاں ہم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ان سے کیا مطالبہ کیا جارہا تھا؟ کس بات پر غور کرنے کی دعوت دی جارہی تھی؟ جواب بالکل واضح ہے، وہ وہی سمجھ رہے تھے اور اسی بات پر غور کررہے تھے جو اس دور کا علم تھا یعنی وہ تولیدی مراحل جن کی تعلیم یونانی حکما نے دی تھی، میں یہ نہیں کہ رہا کہ محمد ﷺ کے مخاطبین ان یونانی حکما کے نام بھی جانتے تھے لیکن وہ جنین کے ارتقا کے مراحل کے بارے میں میں ضرور جانتے تھے جن کے بارے میں ان یونانی حکما نے بتایا تھا۔ وہ یہ خیال کرتے تھے کہ نر کا مادہ منویہ حیض کے خون کے ساتھ مل کر اسے جما دیتا ہے اور پھر اس سے بچہ بنتا ہے۔ وہ یہ بھی یقین رکھتے تھے کہ ایک ایسا مرحلہ بی ہوتا ہے جس میں جنین نیم تشکیلی حالت مٰں ہوتا ہے۔ اور ان کا یہ بھی خیال تھا کہ پہلے ہڈیاں بنتی ہیں اور پھر ان پر گوشت چڑھتا ہے۔ اللہ ان کی معلومات کو ہی ایک نشانی کے طور پر برت رہا تھا۔ اور یوں سامعین اور قارئین کو اپنی طرف رجوع کی دعوت دے رہا تھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ یمعلومات درست نہیں تھیں۔

اب ہمیں محمد ﷺ کے بعد کے ادوار کے اطبا پر توجہ دینی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ یہ اطباء قرآن پر اثر اندا ز نہیں ہوسکتے تھے۔ لیکن یہ مہرین سولہویں صدی عیسوی تک ارسطو اور گالن وغیرہ کے تصورات ہی کی پیروی کرتے رہے۔

اگر ” علقہ ” کا دست ترجمہ ” جونک نما شے ” ہے جیسا کہ بعض جدید مسلمان مثلاً شبیر علی وغیرہ دعوٰی کرتے ہیں تو پھر ان اطبا کو بھی یہی کہنا چاہیئے لیکن معاملہ اس کے برعس تھا۔ یونانی اطبا کے نظریات کی مدد سے قرآنی بیانات کی وضاحت کی جارہی تھی اور قرآن کے ایسے معانی بیان کئے جاتے تھے جو یونانی نظریات کی تائید کرتے ہوں۔

مثلاً ابن سینا کے بقول جنین کی تشکیل دو اجزاء سے ہوتی ہے۔ مردانہ مادہ منویہ، جو عامل کا کردار ادا کرتا ہے اور دوسرے زنانہ مادہ منویہ جو پہلے حیض کے خون کا جزو ہوتا ہے اور جو ایسا لوازمہ فراہم کرتا ہے جس سے مادہ منویہ کی تشکیل ہوتی ہے۔

یوں ہم دیکھتے ہیں کہ ابن سینا زنانہ مادہ منویہ کو وہی کردار دیتا ہے جو ارسطو نے حیض کے خون کو دیا تھا۔ ابن سینا کی جو اہمیت اور استناد و قدیم یورپ میں سائنس اور فلسفے کے حوالے سے حاسل تھا، وہ محتاجِ بیان نہیں۔

اب ہم ابن قیم الجوزیہ کی طرف آتے ہیں۔ ابن قیم نے یونانی طب اور قرآن بیانات کی مطابقت کا پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اپنی تصنیف ” کتاب الاجنہ ” کے تیسرے باب میں کہتا ہے:

” مادہ منویہ ایک جھلی میں ہوتا ہے، اس کی بڑھوتری کا سبب ماں کا خون ہوتا ہے جو رحم میں پہنچتا ہے، کچھ جھلیاں ابتدا میں بن جاتی ہیں، کچھ دوسرے مہینے میں اور کچھ تیسرے مہینے میں۔”

جیسا کہ ہم نے دیکھا، ماں کے خون کے رحم میں جانے کی بات Hippocrates نے بھی کی ہے۔ یہی بات قرآن بھی کہتا ہے :

يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ خَلْقًا مِنْ بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلُمَاتٍ ثَلاثٍ (سورۃ الزمر 39 آیت 6)

” وہ تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تین تاریک پردوں کے اندر تمہیں ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے۔”

اس کے بعد ابن قیم اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر جھلی کی اپنی تاریکی ہوتی ہے اور قرآن میں خدا جب ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے تک ارتقا کا ذکر کرتا ہے تو ان تین تاریک پردوں کا ذکر بھی کرتا ہے۔

بیش تر مفسرین اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ پہلی تاریکی پیٹ کی، دوسری رحم مادر کی اور تیسری جنین پر لپٹی ہوئی جھلی کی ہوتی ہے۔

اب ہم دوسری مثال دیکھتے ہیں؛

“Hippocrates کا کہنا ہے کہ منہ اچانک کھل جاتا ہے، ناک اور کان بن جاتے ہیں پھر کان کھل جاتے ہیں اور پھر آنکھیں جو ایک شفاف سیال سے بھری ہوتی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”

جب کہ محمد ﷺ کہتے ہیں کہ؛

” میں اس کی عبادت کرتا ہوں جس نے میرا چہرہ بنایا اور مجھے سماعت بخشی اور بینائی عطاء کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”

مماثلت بالکل واضح ہے۔ ابن قیم بی Hippocrates ہی کی بات کررہا ہوتا ہے، جب وہ ماں کے خون کے رحم میں جنیتک پہنچنے کا ذکر کرتا ہے۔

اور وہ ایسا کرسکتے تھے کیوں کہ، جیسا کہ ہم نے دیکھا، محمد ﷺ کے دور میں پرھے لکھے لوگ یونانی علم الادویہ سے ناواقف نہیں تھے۔ البتہ ہمارے لیے آج کے تناظر میں اہم یہ ہے کہ قرآن کسی بھی جگہ یونانی علم طب کی اصلاح نہیں کرتا ہے۔ ابن قیم کسی جگہ یہ اعلان نہیں کرتا کہ ” نہیں ، تم سب غلط کہ رہے ہو، علقہ کا مطلب تو چپکنے والی چیز یا جونک نما چیز ہوتا ہے۔ ” بلکہ اس کے برعکس وہ قرآن اور یونانی علم طب کی مطابقت اور مشابہت ہی ثابت کرتا ہے۔ اور ان کی یہ مطابقت غلطی پر ہے، یعنی وہ ایک غلطی پر متفق ہیں۔ ایک قطعی مثال بیضاوی کی تفسیر ہے۔ یہ تفسیر 1200ء میں لکھی گئی ۔اور یہاں اس تفسیر میں ہم دیکھتے ہیں کہ علقہ کا مطلب ” جما ہوا خون ” بتایا گیا ہے۔ پھر گوشت کی بوٹی، جس کی جسامت بس اس قدر ہوتی ہے کہ جسے چبایا جاسکے، اور اسی طرح آگے بات چلتی ہے۔

جیسا کہ میں ابتدا میں ذکر کیا تھا، عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جنین کے مختلف مراحل میں ارتقا کا نظریہ ایک جدید نظریہ ہے۔ اور یہ کہ قرآن نے ان مراحل کا ذکر کرکے جدید علم الجنین کی معلومات چودہ سو برس پیش تر ہی پیش کردی تھیں۔ لیکن اس مطالعے کے دوران میں ہم نے دیکھا کہ ارسطو، قدیم ہندو اور گالن وغیرہ بھی ان مراحل کے بارے میں جانتے تھے اور انہوں نے ان مراحل پر گفتگو بھی کی ہے اور یہ قرآن سے بہت پہلے کی بات ہے۔

قرآن کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ وہی نظریات جو یونانی علما نے اور قرآن نے بیان کئے تھے، ابن سینا اور ابن قیم تک پہنچنے اور بعینہ اسی طرح پہنچے جس طرح ان کی تعلیم گالن نے دی تھی۔

جہاں تک ہڈیوں کا تعلق ہے، اس حوالے سے بھی ہم نے بات کی اور جیسا کہ ڈاکڑ مور نے بڑی وضاحت سے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ پہلے پٹھے بنتے ہیں اور بیک وقت ہڈی اور اپنی ابتدائی صورت میں تشکیل پانا شروع کردیتی ہے۔ ایسا کوئی مرحلہ نہیں ہوتا جس میں ہڈیوں کا ڈھانچہ تو بن چکا ہو لیکن ابھی اس پر گوشت نہ چڑھا ہو۔

اسی طرح یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ لفظ ” علقہ کے معنی لوتھڑا ہوتے ہیں اور یہ کہ محمد ﷺ نے قریش سے جو یہ کہا کہ جنین کے ارتقا میں عورت کا حصہ حیض کے خون کی صورت میں ہوتا ہے تو یہ بات ان کے لیے قابل فہم تھی۔

لہذا ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ قرآن کا یہ بیان کہ انسان نطفے سے اور پھر خون کے لوتھڑے سے بنتا ہے، پہلی صدی ہجری کی سائنسی صورتِ حال کے عین مطابق تھا، یعنی جس وقت قرآن سامنے آیا اس وقت کی علمی سطح کے مطابق تھا، لیکن جب مقابلہ بیسیویں صدی عیسوی کے ساتھ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہیپوقریطس غلطی پر ہے، ارسطو غلطی پر ہے، گالن غلطی پر ہے اور قرآن بھی غلطی پر ہے (1) یہ سب ایک بہت بڑی غلطی کررہے تھے۔

اب ہم توڑا ذکر ” چاندنی ” کا کریں گے۔ کیا قرآن واقعی یہ بتاتا ہے کہ ” چاند کی روشنی، سورج کی روشنی کا انعکاس ہوتا ہے۔” اور اس دور میں بتاتا ہے جب لوگوں کو ابھی اس بات کا علم نہیں ہوا تھا؟

سورۃ نوح میں کہا گیا ہے:

أَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا (١٥)وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا (١٦) (سورۃ النوح 71 آیات 15 تا 16)

” کیا دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کس طرح ساتس آسمان تہ در تہ بنائے اور ان میں چاند کو نور اور سورج کو چراغ بنایا؟

یہاں چاند کو ” نور” اور سورج کو چراغ یعنی ” سراج ” کہا گیا ہے۔ کچھ مسلمانوں کا دعوٰی یہ ہے کہ چوں کہ قرآن سورج اور چاند کی روشنی کے لیے مختلف الفاظ استعمال کرتا ہے لہذا اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سورج اور چاند کی روشنی مختلف قسم کی ہوتی ہے۔ سورج اپنی روشنی خارج کرتا ہے۔ جب کہ چاند سورج کی روشنی کو منعکس کرتا ہے۔ یہ دعوٰ شبیر لی نے

(حاشیہ: نقل کفر ، کفر نہ باشد ۔)

اپنے کتابچے میں اور ڈاکٹر ذاکر نے اپنی تقریر میں بڑے زور و شور سے کیا ہے۔ اپنی ویڈیو ” کیا قرآن کلامِ الہی ہے؟ ” میں ذاکر نائیک واضح طور پر کہتے ہیں:

“۔ ۔ ۔ ۔ چاند سے آنے والی روشنی آتی کہاں سے ہے؟ پہلے ہمارا خیال تھا کہ یہ چاند کی اپنی روشنی ہوتی ہے۔ لیکن آج سائنسی ترقی کی وجہ سے ہم جانتے ہیں کہ چاند کی روشنی اس کی اپنی نہیں ہوتی بلکہ سورج کی روشنی کا انعکاس ہوتی ہے۔ یہاں میں ایک سوال پوچھوں گا۔ قرآنِ مجید کی سورۃ فرقان میں ارشاد ہوتا ہے:

تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُنِيرًا (سورۃ الفرقان 25 آیت 61)

” بڑا متربک ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں ایک چراغ اور ایک چمکتا چاند روشن کیا۔

عربی میں چاند کے لیے لفظ قمر استعمال ہوتا ہے اور اس کی روشنی کے لیے منیر کا لفظ استعمال ہوا ہے جو کہ منعکس روشنی یا ” نور ” کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ گویا قرآن یہ کہتا ہے کہ چاند کی روشنی منعکس روشنی ہے، تم کہتے ہو کہ تم نے یہ بات آج دریافت کی ہے تو پھر قرآن نے یہ بات 1400 برس پہلے ہی کس طرح بیان کردی تھی؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”

ہم دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر ذاکر نے یہاں بتایا چاند کو عربی میں قمر کہتے ہیں اور اس کی روشنی کے لیے منیر کا لفظ استعمال ہوا ہے جو کہ نور یا منعکس روشنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نے واضح طور پر نور کو منعکس روشنی قرار دیا ہے۔ ان کا یہ دعوٰی نہ صرف سائنسی حقائق کے مطابق ہونا چاہیئے بلکہ اس کا ایک معجزاتی پہلو بھی ہے۔ وہ یہ کہ یہ بات کہ چاند کی روشنی منعکس ہوتی ہے نسبتاً حال ہی میں دریافت ہوئی ہے۔

یہ بات تو بالکل درست ہے کہ چاند کی روشنی اپنی نہیں ہوتی بلکہ درحقیقت سورج کی روشنی کا انعکاس ہوتی ہے لیکن یہ بات محمد ﷺ کے دور سے ایک ہزار برس پہلے ہی معلوم تھی۔ اور یہ کوئی جدید دریافت نہیں ہے۔ ارسطو نے 360 ق م میں ہی چاند پر زمین کا سایہ پڑنے کی بات کی تھی اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ زمین گول ہے۔ اور چاند پر سایہ پڑنے کی بات وہ اسی صورت میں کرسکتا تھا اگر اسے یہ علم تھا کہ چاند سے روشنی خارج نہیں ہوتی۔ اگر آپ اس کے باوجود اسے معجزہ قرار دینے پر مصر ہیں تو پھر ہمیں دیکھنا پرے گا کہ خود قرآن سے بھی اس دعوے کی تائید ہوتی ہے یا نہیں ؟

سب سے پہلے ہم لفظ ” سراج ” پر غور کریں گے۔

یہ لفظ سورۃ نوح میں استعمال ہوا ہے جس کا حوالہ پہلے دیا گیا۔ پھر سورۃ فرقان میں، جہاں اس کا مطلب چراغ ہے اور سورج کیلئے استعمال ہوا ہے۔ پھر سورۃ النباء میں جہاں ( سراجاً وھاجا ) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یعنی ” نہایت روشن اور گرم چراغ “۔

لفظ ” نور ” اور ” منیر ” ایک ہی مادے سے نکلے ہیں۔ لفظ منیر قرآن میں چھ مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ سورۃ آل عمران ، سورۃ حج، سورۃ لقمان اور سورۃ فاطر میں، ایک اصطلاح استعمال ہوئی ” کتاب المنیر ” جس کا ترجمہ پکتھال نے “The Scripture giving Light” اور عبداللہ یوسف علی نے “A Book of Enlightment” کیا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہاں مراد علم کی روشنی پھیلانے والی کتاب ہے اور ” منعکس روشنی ” کا کوئی ذکر نہیں، نور کا لفظ سورۃ نوح اور سورۃ یونس میں استعمال ہوا ہے۔ کہا گیا ہے کہ ” وہی ہے جس نے چاند کا نور بنایا “۔ یہاں خود چاند کو روشنی بتایا جارہا ہے اور یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ چاند روشنی کو منعکس کرتا ہے۔

مزید برآن بعض دیگر آیات میں خود اللہ کو نور قرار دیا گیا ہے۔

مثال کے طور پر سورۃ نور میں قرآن کا ایک خوبصورت بیان ہے جس میں کہا گیا ہے۔:

اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ (سورۃ النور 24 آیت 35)

” اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ ( کائنات میں ) اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہے۔ چراغ ایک فانوس میں ہو، فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا۔ اور وہ چراغ زیتوں کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو اور نہ غربی ۔ جس کا تیل آپ ہی بھڑکا پڑتا ہو، چاہے اس کو آگ لگے نہ لگے۔ ”

چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ ” نور ” کا لفظ چاند کے لیے بھی استعمال ہوا ہے اور اللہ کے لیئے بھی۔ تو کیا ہم یہ کہیں گے کہ اللہ کانور بھی منعکس نور ہے ؟ میرے خیال میں تو نہیں۔ لیکن اگر آپ اس پر مصر ہیں کہ ” نور ” منعکس یا ” مانگی ہوئی رونشی ” ہی کو کہتے ہیں تو پھر ہم متذکرہ بالا آیت میں دیکھ چکے ہیں کہ اللہ زمین اور آسمانوں کا نور ہے۔ تو پھر اس روشنی کا ” سراج ” یا اصل منبع کیا ہے جس کا نور اللہ ہے ؟

ذرا سوچیئے؟

اگر اللہ کو ” نور ” کیا گیا ہے تو پھر یہ کس روشنی کا، کس ” سراج ” کا عکس ہے؟

دیکھیئے قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ ” سراج ” کون ہے؟ لیکن قرآن کا جواب اپ کو حیران کردے گا ، سورۃ الاحزاب میں ہم دیکھتے ہیں:

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا (٤٥)وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا (٤٦) (سورۃ الاحزاب 33 آیات 45 تا 46)

” اے نبی ﷺ! ہم نے تمہیں بھیجا گیا ہے، گوانا کر ، بشارت دینے والے اور ڈرانے والا بنا کر، اللہ کی اجازت اس کی طرف دعوت دینے والا بنا کر اور روشن چراغ بنا کر ۔”

اس آیت میں محمد ﷺ کو ” روشن چراغ ” کہا گیا ہے۔ عربی میں ( َسِرَاجًا مُنِيرًا) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ لسانی اور روحانی ہر دولحاظ سے یہاں بحث کا اختتام ہوجاتا ہے۔ لسانی لحاظ سے دیکھا جائے تو یہاں ” سراج ” اور ” منیر” کے الفاظ بیک وقت استعمال ہوئے ہیں او ایک ہی معنی میں استعمال ہوئے ہیں یعنی محمدﷺ کی روشن شخصیت کے لیے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ منیر کا لفظ اس آیت میں ” منعکس روشنی ” کے لیے استعمال نہیں ہوا، بلکہ کسی بھی ایت میں یہ لفظ ان معنوں میں استعمال نہیں ہوا۔ اس کا مطلب صرف ” روشن ” ہے۔ محمد ﷺ کے زمانے کے لوگ سمجھتے تھے کہ چاند روشن ہے اور درست سمجھتے تھے، اسی طرح جس طرح موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے لوگ سورج کو بڑی روشنی اور چاند کو چھوٹی روشنی سمجھتے تھے اور وہ بھی ٹھیک سمجھتے تھے۔

لیکن اگر آپ اپنی بات اصرار کریں گے کہ عربی لفظ “نور” کا مطلب ” منعکس روشنی ” ہی ہوتا ہے پھر قرآن میں ان الفاظ کے استعمال سے یہ نتیجہ برآمد ہوگا کہ محمد ﷺ سورج کی طرح اور اللہ چاند کے مانند ہے۔ کیا ڈاکٹر ذاکر نائیک واقعی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ محمد ﷺ روشنی کا اصل ذریعہ ہیں اور اللہ اس روشنی کا عکس ہے؟

اس قسم کے نام نہاد ” سائنسی دعوے ” کیے ہی کیوں جاتے ہیں جن کا دفاع کوئی مسلمان خود قرآن کی روشنی میں بھی نہیں کرسکتا۔ اس طرح ہوتا یہ ہے کہ اس قسم کے مکالمے میں ایمان دارانہ بحث مباحثے کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں بلکہ تقریباً ناممکن ہوجاتے ہیں۔

اب ہم آگے چلتے ہیں اور آبی چکر “Water Cycle” کا جائزہ لیتے ہیں۔ بعض مسلمانوں کا کہنا ہے کہ قرآن ہمیں جدید سائنس سے پہلے ہی آبی چکر کے بارے میں معلومات فراہم کرچکا تھا۔

آبی چکر ہوتا کیا ہے؟

آبی چکر کے چار مراحل ہوتے ہیں۔

پہلے مرحلے میں سمندروں اور زمین پر موجود پانی سے بخارات اٹھتے ہیں دوسرے مرحلے میں یہ بخارات بادلوں میں تبدیل ہوتے ہیں تیسرے مرحلے میں بادلوں سے بارش ہوتی ہے اور چوتھے مرحلے میں اس بارش کی وجہ سے نباتات اگتی ہیں۔ یہ سب کچھ بڑا سیدھا سارا معلوم ہوتا ہے اور دوسرے، تیسرے اور چوتھے مرحلے کے بارے میں تو ہر کوئی جانتا ہے، شہروں میں رہنے والے لوگ بھی بہ خوبی جانتے ہیں کہ بادل آتے ہیں پھر بارش ہوتی ہے اور پھر پودے بڑھتے ہیں۔ البتہ بات پہلے مرحلے کی ہے یعنی بخارات اٹھنے کی، کیوں کہ یہ عمل ہمیں نظر نہیں آتا، یہی مرحل مشکل ہے اور اسی مرحلے کا ذکر قرآن میں موجود نہیں۔ اب ہم بائبل کی طرف دیکھتے ہیں، بائبل میں ایک پیغمبر جس کا تعلق 700 قبل مسیح سے ہے، کہتا ہے:

” وہی ثریا اور جبار ستاروں کا خالق ہے جو موت کے سایہ کو مطلعِ نور اور روزِ روشن کو شبِ دیجور بنا دیتا ہے اور سمندر کے پانی کو بلاتا اور روئے زمین پر پھیلاتا ہے، جس کا نام خداوند ہے۔” ( عاموس 2:8)

ایک اور نبی ایوب علیہ السلام ہیں جن کا زمانہ سنہ ہجری کے آغاز سے کم از کم ایک ہزار سال قبل کا ہے، وہ کہتے ہیں۔

” دیکھ خدا بزرگ ہے اورہم اسے نہیں جانتے

اس کے برسوں کا شمار دریافت سے باہر ہے۔

کیوں کہ وہ پانی کے قطروں کو اوپر کھینچتا ہے۔

جن کو افلاک انڈیلتے اور انسان پر کثرت سے برساتے ہیں۔”

( ایوب 32 ، 26-28)

سو یہاں، بائبل میں ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے یعنی سب سے مشکل مرحلے کا بیان قرآن سے ہزار سال پہلے سے موجود ہے، اب ہم آگے بڑھتے ہیں اور پہاڑوں کے ذکر کا جائزہ لیتے ہیں۔ قرآن میں کوئی درجن بھر آیات ایسی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ اللہ نے پہاڑوں کو زمین پر مضبوطی سے قائم کیا ہے۔ اور ان میں چند آیات میں پہاڑوں کو ایمان والوں کے لئے رحمت اور کافروں کے لیے یادوہانی قرار دیا گیا ہے۔

اس کی ایک مثال سورۃ لقمان میں موجود ہے:

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا وَأَلْقَى فِي الأرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ (١٠)هَذَا خَلْقُ اللَّهِ فَأَرُونِي مَاذَا خَلَقَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ بَلِ الظَّالِمُونَ فِي ضَلالٍ مُبِينٍ (١١) ( سورۃ لقمان 31 آیات 10 تا 11)

” اس نے آسمانوں کو پیدا کیا بغیر ستونوں کے جو تم کو نظر آئیں، اس نے زمین میں پہاڑ جما دیئے تاکہ تم کو لے کر ڈھلک نہ جائے۔ اس نے ہر طرح کے جانور زمین میں پھیلا دیئے اور آمسان سے پانی برسایا اور زمین میں قسم قسم کی عمدہ چیزیں اُگا دیں۔ یہ تو ہے اللہ کی تخلیق، اب ذرا مجھے دکھاؤ ان دوسروں نے کیا پیدا کیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔ ”

اس آیت میں پہاڑ چھ یاددہانیوں میں سے ایک ہے۔ اسی طرح سورۃ النبیاء میں کہا گیا ہے:

وَجَعَلْنَا فِي الأرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِهِمْ وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجًا سُبُلا لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ (سورۃ الانبیاء 21 آیت 31)

” اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیئے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے او اس میں کشادہ راہیں بنا دیں، شاید کہ لوگ اپنا راستہ معلوم کرلیں۔”

سورۃ النحل میں کہا گیا:

وَأَلْقَى فِي الأرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ وَأَنْهَارًا وَسُبُلا لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ( سورۃ النحل 16 آیت 15)

” اس نے زمین میں پہاڑوں کی میخیں گاڑدیں تاکہ زمین تم کو لے کر ڈھلک نہ جائے، اس نے دریا جاری کئے اور قدرتی راستے بنائے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔”

اگلی دو آیات میں ایک اور تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔

سورۃ النباء میں کہا گیا:

أَلَمْ نَجْعَلِ الأرْضَ مِهَادًا (٦)وَالْجِبَالَ أَوْتَادًا (٧) ( سورۃ النباء 78)

” کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمیں کو فرش بنایا اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا۔”

( اَوتَادًا ) وہ میخیں ہوتی ہیں جو خیمہ گاڑنے کے کام آتی ہیں۔ اسی طرح سورۃ غاشیہ میں کہا جاتا ہے:

أَفَلا يَنْظُرُونَ إِلَى الإبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ (١٧)وَإِلَى السَّمَاءِ كَيْفَ رُفِعَتْ (١٨)وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ (١٩) (سورۃ الخاشیہ 88)

” ( یہ لوگ نہیں مانتے ) تو کیا یہ انٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے؟ آسمان کو نہیں دیکھتے کہ کیسے اُٹھایا گیا؟ پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے جمائے گئے؟ اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی؟”

ایک تیسری تصویر لفظ ” رواسی ” کے استعمال سے سامنے آتی ہے، یہ لفظ اسی مداے سے نکلا ہے جس سے وہ لفظ نکلا ہے جو عربی میں ” لنگر” کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ گویا یہاں بھی وہی تصویر موجود ہے، زمین کو کانپنے سے بچانے کا۔ ان سب تصورات سے یہ بات واضح ہے کہ محمد ﷺ کے ماننے والے یہی یقین رکھتے تھے کہ پہاڑ دراصل زمین میں لنگر یا میخوں کی طرح پھینکے گئے ہیں تاکہ یہ زمین کو قائم رکھیں جس طرح لنگر جہاز کو روکے رکھتا ہے یا میخیں خیمے کو روکے رکھتی ہے۔ تاکہ زمین حرکت نہ کرے یا بالفاظ دیگر زلزلے نہ آئیں۔

لیکن درحقیقت یہ بات غلط ہے، کیوں کہ پہاڑوں کی تشکیل تو زلزلوں کا سبب بنتی ہے۔ لہذا یہ آیات یقیناً ایک مسئلہ پیش کرتی ہیں۔ ڈاکٹر موریس بوکایئے کو بھی اس بات کا اندازہ تھا اور انہوں نے اپنی کتاب ” بائبل ، قرآن اور سائنس ” میں اس حوالے سے بحث بھی کی ہے۔ پہاڑوں کے بارے میں مذکورہ بالا آیات درج کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ جدید ماہرین ارضیات کہتے ہیں کہ یہ سطح ارضی کئے نقائص پہاڑوں کو بنیادیں فراہم کرتے ہیں۔ اور سطح ارضی کی مضبوطی کا سبب یہی نقائص ہوتے ہیں۔

جب اس بارے میں ارضیات کے پروفیسر Dr. David A. Young سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا:

” اگرچہ یہ بات درست ہے کہ بہت سے پہاڑی سلسلے چٹانوں کی تہوں پر مشتمل ہوتے ہیں اور یہ تہیں بہت عظیم الشان ہوتی ہیں لیکن یہ بات درست نہیں کہ ان تہوں کی وجہ سے سطح ارضی مستحکم ہوتی ہے۔ بلکہ ان تہوں کی موجودگی بذاتِ خود چٹانوں کے عدم استحکام کی نشانی ہوتی ہے۔”

گویا بہ الفاظِ دیگر پہاڑ زمین کے استحکام کا باعث نہیں ہوتے بلکہ اس کے برعکس پہاڑوں کی تشکیل زمین کے کانپنے کا سبب بنتی رہی ہے ارو آج بھی بنتی ہے۔ دور جدید کے ارضیاتی نظریات کی روشنی میں دیکھا جائے تو سطح ارضی کا تجزیہ اس طرح کیا گیا ہے کہ ٹھوس ارضی سطح دراصل مختلف تہوں اور حصوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ تہیں ایک دوسرے کے لحاظ سے حرکت بھی کرتی ہیں۔ بعض اوقات تو یہ تہیں علیحدہ بھی ہوجاتی ہیں۔ جس کی مثال شمالی اور جنوبی امریکہ کی یورپ اور جنوبی افریقہ سے علیحدگی ہے۔ اسی طرح بعض اوقات اس کے برعکس یہ ہوتا ہے کہ یہ تہیں ایک دوسرے کے قریب ہوجاتی ہیں اور ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں، جس کے نتیجے میں زلزلے آتے ہیں۔ اس کی ایک مثال مشرقِ وسطٰی میں ملتی ہے جہاں عرب علاقے کی ایران کی جانب حرکت کے نتیجے میں ایک پہاڑی سلسلے نے تشکیل پائی۔

اسی طرح دنیا بھر میں سڑک پر سفر کرتے ہوئے ایسے مشاہدات ہوتے ہیں کہ کچھ ریتلی پہاڑیاں، جن کی شکل پہلے مختلف تھی اب بدل چکی ہے۔ ان کی حالت تبدیل ہونے کا سبب بھی زلزے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات یہ تہیں ایک دوسرے سے رگڑ کھانا شروع کردیتی ہیں۔ اس دوران بہت بڑے پیمانے پر قوت پیدا ہوتی ہے۔ اس قوت کے نتیجے میں ایک بہت بری لہر پیدا ہوتی ہے اور پھر فوراً ہر چیز ساکن ہوجاتی ہے۔

میکسیکو میں انے والے ایک حالیہ زلزلے کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ جب زلزلہ آیا تو ایک تہہ پورے تین میٹر تک اچھلی تھی۔ آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ اگر آپ کا گھر اچانک تین میٹر اچھلے تو کیا قیامت برپا ہوگی؟ ایک دوسری طرح کے پہاڑ وہ ہوتے ہیں جو آتش فشاں کے ذریعے بنتے ہیں۔ زمین کے اندر سے لاوا اور راکھ قوت کے ساتھ یوں برآمد ہوتے ہیں کہ ان سے ایک پہاڑ بن جاتا ہے۔ ایسا پہاڑ سمندر کی تہہ سے بھی برآمد ہوسکتا ہے۔ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ لاوے کے دباؤ سے ایک سطح ابھرتی ہے مگر پھٹتی نہیں ایسی جگہ پر جب دباؤ بڑھتا ہے تو یہ پھٹ جاتی ہے جسے آتش فشاں کا پھٹنا کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایسا ایک واقعہ جنوبی بحر الکاحل میں کیکاٹو کے مقام پر 1883ء میں ہوا تھا۔ اس واقعہ میں ایک پورا جزیرہ ہی پھٹ گیا تھا۔ اسی طرح ماؤنٹ سینٹ ہیلینا کے واقعے میں بھی ایک پورا پہاڑ ہی پھٹ گیا تھا۔

مندرجہ بالا معلومات کی روشنی میں ہم یہ نتیجہ اخز کرسکتے ہیں کہ پہاڑوں کی تشکیل پہلے بھی سطح زمین کی طرح اور زلزلوں کے باعث ہوئی تھی اور آج بھی اسی طرح ہوتی ہے۔

جس کا نتیجہ زلزلوں کی صورت میں سامنے آتا ہے سطح ارضی کی تہیں جب ایک دوسرے سے رگڑ کھاتی ہیں تو زلزلے آتے ہیں۔ اسی طرح آتش فشاں بھی زلزلے کا سبب بنتے ہیں۔

لیکن یہ بات بھی واضح ہے کہ محمد ﷺ کے پیروکاروں کے لیے ان آیات کا مطلب یہ تھا کہ اللہ نے پہاڑوں کو زمین میں گاڑا ہے، کیخوں کی مانند یا لنگر کی طرح، تاکہ زمین حرکت نہ کرے اور مستحکم رہے۔ پہاڑوں کو زمین میں گاڑے جانے کی بات تو شاید شاعرانہ ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ پہاڑ زمین کو کانپنے سے بچاتے ہیں، یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے کیوں کہ یہ بات جدید سائنس کی رُو سے غلط ہے۔

اب ہم مختصراً اس بات کا جائزہ لیں گے کہ قرآن سورج کے بارے میں ہمیں کیا بتاتا ہے۔؟ سورۃ کہف میں کہا گیا ہے:

حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ وَوَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًا قُلْنَا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ وَإِمَّا أَنْ تَتَّخِذَ فِيهِمْ حُسْنًا (٨٦) ( سورۃ الکہف 18 )

” حتی کہ جب وہ غروبِ آفتاب کی حد تہ پہنچ گیا، تو اس نے سورج کو ایک کالے پانی میں ڈوبتے دیکھا اور وہاں اسے ایک قوم ملی، ہم نھ کہا؛ اے ذوالقرنین! تجھے یہ مقدرت بھی حاصل ہے کہ ان کو تکلیف پہنچائے اور یہ بھی کہ ان کے ساتھ نیک رویہ اختیار کرے۔”

پھر سورۃ فرقان میں یہ بھی کہا گیا:

أَلَمْ تَرَ إِلَى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَاءَ لَجَعَلَهُ سَاكِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيلا (٤٥)ثُمَّ قَبَضْنَاهُ إِلَيْنَا قَبْضًا يَسِيرًا (٤٦) ( سورۃ الفرقان 25)

” تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارا رب کس طرح سایہ پھیلا دیتا ہے؟ اگر وہ چاہتا تو اسے دائمی بنا دیتا۔ ہم نے سورج کو اس پر دلیل بنایا، پھر ( جیسے جیسے سورج اٹھتا جاتا ہے ) ہم اس سائے کو رفتہ رفتہ اپنی طرف سمیٹتے جاتے ہیں۔”

اگر ہم اس طرح سوچیں کہ جب سورج ہمارے سر پر ہوتا ہے تو سایہ نہیں ہوتا یا نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے لیکن جوں جوں سورج آگے بڑھتا ہے اس کے مخالف سمت میں سایہ طویل تر ہوتا چلا جاتا ہے۔

لیکن بات یہ ہے کہ سورج تو زمین کے لحاظ سے ساکن ہے۔ زمین کی گردش در حقیقت سائے کے گھٹنے یا بڑھنے کا سبب بنتی ہے۔ گویا زمین کی حرکت سائے کو گھٹانے بڑھانے کا سبب بنتی ہے۔

اب میں ایک مختلف موضوع کی طرف آتا ہوں۔ قرآن میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کا واقعہ بیان ہوا ہے اور کہا گیا ہے کہ ان کی وفات کا جنوں کو پتہ اس وقت چلا جب ان کے عصا کو گھن لگ گیا۔ اور وہ گر پڑے۔

گویا صورتِ حال یہ ہے کہ سلیمان علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں لیکن ان کا جسم عصا کے سہارے کھڑا ہے، کوئی باورچی ان کے پاس نہیں آتا کہ پوچھے؛ حضرت آج کیا کھائیں گے۔ کوئی جنرل احکامات لینے نہیں آتا۔ کوئی درباری آکر یہ نہیں کہتا کہ شکار پر چلیں۔ میرے لیے یہ کہانی ناقابل یقین ہے کیوں کہ بادشاہ کو کبھی بھی اس طرح اکیلا نہیں چھوڑا جاتا تھا۔

اب ہم ذرا ” دودھ ” کا جائزہ لیتے ہیں۔ سورۃ النحل میں کہا گیا ہے:

وَإِنَّ لَكُمْ فِي الأنْعَامِ لَعِبْرَةً نُسْقِيكُمْ مِمَّا فِي بُطُونِهِ مِنْ بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِلشَّارِبِينَ (٦٦) (سورۃ النحل 16)

” اور تہمارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجود ہے۔ ان کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان ہم تمہیں ایک چیز پلاتے ہیں، یعنی خالص دودھ جو پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوار ہے۔”

پیٹ میں سے؟ جہاں آنتیں ہوتی ہیں؟ معاف کیجیے گا۔ بیسیوں صدی کا علم طب کے مطابق Mammary Glands جن سے دودھ بنتا ہے۔ ان کا آنتوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اب ہم آتے ہیں ایک اور موضوع کی جانب۔ سورۃ الانعام میں کہا گیا ہے:

وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الأرْضِ وَلا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ (٣٨) (سورۃ الانعام 6)

” زمین میں چلنے والے جانور کسی جانور اور ہوا میں پروں سے اڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو، یہ سب تمہاری ہی طرح کی انواع ہیں، ہم نے ان کی تقدیر کے نوشتے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ پھر یہ سب اپنے رب کی طرف سمیٹے جاتے ہیں۔”

اس آیت میں یہ کہا جارہا ہے کہ ہر جانو اور ہرپرندے کا تعلق ہم انسانوں جسی انواع سے ہے۔ بعض مکڑیوں میں ایسا بھی ہے ہوتا ہےکہ نر مکڑی کو مادہ مکڑی کھا جاتی ہے۔ اور مجھے خوشی ہے کہ میری بیوی مجھے نہیں کھائے گی۔ اسی طرح شہد کی مکھیوں میں بھی ضرور سے زاید نر مکھیوں کو چھتے سے نکال دیا جاتا ہے۔ شکر ہے کہ میری بیوی نے مجھے گھر سے باہر نہیں نکال دیا۔ اسی طرح شیروں میں جب ایک نر شیر بوڑھا ہوجاتا ہے تو جوان شیر اسے بھگا دیتے ہیں۔ اور اس کے بچوں کو مار دیتے ہیں۔

لہذا میں یہ نہیں سمجھتا کہ دیگر تمام جانور بھی نوعِ انسانی کی طرح رہتے ہیں۔

نتیجتاً میں کہوں گا کہ یہ واضح ہے کہ قرآن میں بہت سی سائنسی غلطیاں موجود ہیں۔ (1)

عمومی طور پر قرآن اپنے دور کی علمی سطح کےک مطابق ہے اور اس کے تقاضے پورے کرتا ہے۔ یعنی ساتویں صدی عیسوی کی علمی سطح۔

ہم آج یہاں حق کی تلاش میں جمع ہوئے ہیں۔ میں نے اپنی استطاعت کی حد تک مصدقہ معلومات پیش کی ہیں۔ اگر آپ مکمل حولے دیکھنا چاہیں تو وہ میری کتاب؛

“The Quran and the Bible, in the light of History & Science.”

سچائی کا خدا آپ کی رہنمائی کرے۔

شکریہ

خطاب :ڈاکٹر ذاکر نائیک

محترم ڈاکٹر ولیم کیمپبل صاحب، ڈاکٹر مارکوس، ڈاکٹر جمال، سیموئیل نعمان، ڈاکٹر محمد نائیک اور میرے عزیز بھائیو اور بہنو، میں آپ سب کو اسلامی طریقہ سے خوش آمدید کہتا ہوں۔

السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!

میں دعا کرتا ہوں کہ آپ سب پر اللہ سبحانہ و تعالی کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں۔ ہماری اج کی گفتگو کا موضوع ہے؛

” قرآن اور بائبل جدید سائنس کی روشنی میں ”

قرآن مجید وحی کی آخری اور مکمل صورت ہے جو اللہ تعالی کے آخر پیغمبر ﷺ پر نازل ہوئی، ہر وہ کتاب جس کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جائے کہ وہ منزل من اللہ ہے اسے وقت کی آزمائش پر پورا اترنا چاہیئے۔

دور گزشتہ کو دیکھا جائے تو وہ زمانہ معجزات کا زمانہ تھا۔ الحمد للہ قرآنِ پاک معجزوں کا معجزہ ہے، اس کے بعد وہ دور آیا جسے ادب اور شاعری کا دور کہنا چاہیئے اور کیا مسلم کیا غیر مسلم، سب اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن روئے زمین پر عربی ادب کا بہترین نمونہ ہے۔

لیکن آج کا دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ آئے دیکھتے ہیں کہ قرآن جدید سائنس سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں”

البرٹ آئن سٹائن نے کہا تھا:

” مذہب سائنس کے بنغیر لنگڑا ہے اور سائنس مذہب کے بغیر اندھی ہے۔”

سب سے پہلے تو میں آپ کو یاد کرانا چاہوں گا کہ قرآنِ مبین سائنس کی کتاب نہیں ہے۔ گویا یہ سائنس (Science) کی کتاب نہیں ہے، بلکہ نشانیوں (Signs) کی کتاب ہے۔ اس کتاب میں چھ ہزار سے زیادہ نشانیاں یعنی آیات ہیں جن میں تقریباً ایک ہزار ایسی ہیں جن کا تعلق سائنس سے ہے۔

سائنس اور قرآن کے حوالے سے جہاں تک میری گفتگو کا تعلق ہے تو میں اسے صرف ایسے سائنسی حقائق تک محدود رکھوں گا جو ثابت شدہ ہوں۔ میں ان سائنسی نظریات کے بارے میں بات نہیں کروں گا جن کی حیثیت محض مفروضوں اور اندازوں سے زیادہ نہیں، جن کا کوئی ثبوت موجود نہیں، کیوں کہ ہم سب جانتے ہیں کہ سائنس بعض اوقات پلٹا بھی کھا جاتی ہے۔

ڈاکٹر ولیم کیمپبل نے ڈاکٹر موریس بوکائیے کی کتاب ” بائبل، قرآن اور سائنس ” کے جواب میں ” بائبل اور قرآن، تاریخ اور سائنس کی روشنی میں ” لکھی ہے۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ دو طریقہ ہائے کار موجود ہیں۔ ایک تطبیق کا طریقہ کار ہے جس کے تحت ایک شخص سائنسی نظریات اور مذہبی بیانات میں مطابقت پیدا کرنے کی وشش کرتا ہے۔

دوسرا طریقہ کار اختلاف کا ہے یونی سائنس اور مذہب کے مابین اختلاف کو سامنے لایا جائے۔ ( اور ایک کی روشنی میں دوسرے کو غلط قرار دیا جائے۔ )

جیسا کہ محترم ڈاکٹر ولیم کیمپبل نے بڑی خوبی سے کیا ہے۔

لیکن جہاں تک قرآن کا تعلق ہے، اس سے قطع نظر کہ کوئی شخص تطبیق کا طریقہ کار اختیار کرتا ہے یا تردید کا، اگر آپ منطقی دلائل کی روشنی میں اور منطقی طریقہ کار کے تحت آگے بڑھتے ہیں تو کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہوگا جو قرآن کے کسی ایک بیان کو بھی جدید سائنس کی روشنی میں غلط ثابت کرسکے۔

ڈاکٹر ولیم کیمپبل نے جدید سائنس کی روشنی میں قرآن میں متعدد نام نہاد غلطیوں کی نشان دہی کی ہے۔ جن کا جوان مجھے تقریب کے دوسرے حصے یعنی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جوابی خطاب میں دینا ہے۔ لیکن چوں کہ انہوں نے پہلے گفتگو کا فیصلہ کیا تھا لہذا ان کے چند نکات کا جواب میں اسی گفتگو کے دوران دوں گا۔ ان کی گفتگو کا بیش تر حصہ علم الجنین اور ارضیات سے متعلق تھا، لہذا اس حوالے سے ان کے اعتراضات کو جواب میں ابھی دے دوں گا جب کہ باقی ماندہ اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش میں ان شاء اللہ اپنی جوابی گفتگو میں کروں گا۔

بات یہ ہے کہ ہمارا موضوع ” قرآن اور بائبل، سائنس کی روشنی میں ” ہے۔ لہذا یہ مناسب نہیں ہے کہ میں ایک ہی کتاب مقدسہ کے بارے میں بات کرو۔ یہ موجوع سے انصاف نہیں ہوگا۔ میں قرآن اور بائبل دونوں کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کروں گا۔ ڈاکٹر ولیم کیمپبل نے بائبل کے بارے میں مشل سے ایک دو باتیں ہی کی ہیں۔ ان شاء اللہ میں اس بارے میں مفصل بات کروں گا۔ کیوں کہ میں موضوع سے انصاف کرنا چاہتا ہوں جہاں تک قرآن اور جدید سائنس کا تعلق ہے، ہم بات کا آغاز فلکیات سے کریں گے، چند دہائیاں پیش تر سائنسداوں اور ماہرکین فلکیات نے ہمیں بتایا کہ کائنات کس طرح سے وجود میں آئی، وہ نظرئے کو ” عظیم دھماکہ ” یا Big Bang کہتے ہیں اس کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں کہ ایک Primary Nebula بہت بڑے دھماکے کے ساتھ پھٹا اور اس کے نتیجے میں کہکشائیں اور اجرام فلکی وجود میں آئے، یعنی ستارے ، سورج، چاند اور وہ زمین بھی جس پر آج ہم رہ رہے ہیں۔ یہ ساری معلومات قرآن میں نہایت اختصار کے ساتھ بیان کردی گئی ہیں۔

سورۃ الانبیاء میں ارشاد ہوتا ہے:

أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلا يُؤْمِنُونَ (٣٠) ( سورۃ الانبیاء 41)

” کیا وہ لوگ جنہوں نے ( نبی ﷺ کی بات ماننے سے ) انکار کردیا ہے، غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے ، پھر ہم نے انہیں جدا کیا اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی؟ کیا وہ ( ہماری اس خلاقی کو ) نہیں مانتے؟”

ذرا تصور کیجیئے، یہ بات حال ہی میں ہمارے علم میں آئی ہے لیکن قرآن میں یہ بات آج سے چودہ سو سال پہلے ہی بیان کی جاچکی تھی، جب میں سکول میں تھا تو ہمیں بتایا جاتا تھا کہ سورج ساکن ہے جب کہ زمین اور چاند اپنے مداروں میں سورج کے گرد گردش کرررہے ہیں، یعنی چاند اور زمین تو اپنے مداروں میں متحرک کہیں مگر سورج ایک مقام پرساکن ہے ۔ لیکن قرآنِ مجید کی ایک آیت میں فرمایا گیا ہے:

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ (٣٣) ( سورۃ النبیاء 44)

” اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات کو دن بنائے او ر سورج اور چاند کو پیدا کیا۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے۔”

یعنی ہر کوئی اپنے اپنے فلک میں، اپنے اپنے مدار میں حرکررہا ہے۔ الحمد للہ آج جدید سائنس بھی اس آیت قرآنی کی تصدیر کرچکی ہے۔ قرآن مین اس مقام پر جو عربی کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ ہے ( یُسَبِحُونِ )۔ یہ لفظ ایک ایسے جسم کی حرکت ظاہر کرتا ہے جو اپنے مقام پر بھی متحرک ہو، گویا جہاں اجرامِ فلکی کا ذکر ہو وہاں یہ لفظ اپنے مرکز کے گرد حرکت کو بھی ظاہر کتا ہے۔

پس قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ چاند اور سورج اپنے مرکز کے گرد بھی گھومتے ہیں ارو اپنے اپنے مداروں میں بھی تیر رہے ہیں۔ آج جدید سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ سورج تقریباً 25 دن میں اپنے مرکز کے گرد ایک چکر کو پورا کرلیتا ہے۔

ایڈون ہبل وہ سائنس دان تھا جس نے پہلی بار یہ حقیقت دریافت کی کہ ہماری کائنات مسلسل پھیل رہی ہے۔ لیکن قرآنِ مجید کی سورۃ ذاریات میں فرمایا گیا ہے:

وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ (سورۃ ذاریات 51 آیت 47)

” آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا ہے اور ہم اسے وسیع کرنے والے ہیں۔”

یہاں کائنات کے پھیلنے کا ذکر ہے، عربی کے لفظ (َمُوسِعُونَ ) کا مطلب وسعت دینے والا، وسیع کرنے والا۔

فلکیات کے حوالے سے جن باتوں کا ذکر ڈاکٹر ولیم کیمپبل نے کیا ہے ان کا جواب میں اپنی جوابی گفتگو کے دوران ہی دوں گا۔ ان شاء اللہ۔

جہاں تک “آبی چکر ” کا تعلق ہے ڈاکٹر ولیم کیمپبل نے اپنی گفتگو میں چار مراحل کا حوالہ دیا ہے۔ جب کہ اپنی کتاب میں وہ چوتھے مرحلے (a) کا (b) دو حصوں کا ذکر کرتے ہیں۔ آخری مرحلے کا ذکر انہوں نے اپنی گفتگو میں نہیں کیا۔ پتہ نہیں کیوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ مرحلہ Driplination کہلاتا ہے، شاید انہوں نے اس لیے نظر انداز کردیا ہوگا کہ اس کا ذکر بائبل میں موجود نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں قرآن کی کسی آیت میں بھی بخارات بننے کا عمل کا ذکر نہیں ہے۔ قرآن آبی چکر کے بارے میں ہمیں بڑی وضاحت سے بتاتا ہے۔ سورۃ الطارق میں ارشادِ باری تعالٰی ہے:

وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجْعِ (سورۃ الطارق 86 آیت 11)

” اور قسم ہے پلٹانے والے آسمان کی۔”

تقریباً تمام مفسرین کہتے ہیں کہ یہاں اس ایت میں جو رجوع یا پلٹانے کی بات کی گئی ہے اس سے مراد بارش کو پلٹانے یا بخارات کی صورت میں پانی کے بادلوں میں تبدیل ہونے کی حقیقت ہے۔

ڈاکٹر ولیم کیمپبل جو عربی جانتے ہیں، اس موقع پر یہ بھی کہ سکتے ہیں کہ اللہ سبحانہ تعالی نے یہ بات واضح الفاظ میں یہ بیان کیوں نہیں کی؟ صاف صاف الفاظ میں یہ کیوں نہیں کہا کہ آسمان بخارات کو بارش کی صورت میں پلٹا دیتا ہے؟

لیکن آج ہم جانتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے یوں کیوں نہیں فرمایا؟ اسی میں حکمت تھی کیوں کہ آج ہمیں یہ علم ہوا ہے کہ زمین کے اوپر موجود فضائی سطح Ozonosphere نہ صرف بخارات اور بادلوں کو بارش کی صورت میں زمین کی طرف پلٹائی ہے بلکہ زمین سے اوپر جانے والی فائدہ مند حرات اور قوت کو بھی واپس پلٹاتی ہے جو کہ انسانیت کے لیے فائدہ مند ہیں۔

آج ہمیں یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ یہ سطح ریڈیو، ٹی وی وغیرہ کی نشریاتی لہروں کو پلٹانے کا بھی سبب بنتی ہے۔

مزید برآں یہ سطح یعنی Ozonosphere بیرون خلا سے آنے والی نقصان دہ شعاعوں کو روکنے اور پلٹانے کا سبب بھی بنتی ہیں۔ مثال کے طورپر سورج کی آنے والی بالا بنفشی شعاعیں، جنہیں اوزون کی سطح جذب کرلیتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو زمین پر حیات ختم ہوسکتی ہے۔

لہذا اللہ سبحانہ و تعالی عظیم ہے اور بالکل بجا طور پر ارشاد فرماتا ہے:

وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجْعِ (سورۃ الطارق 86 آیت 11)

” اور قسم ہے پلٹانے والے آسمان کی۔”

دیگر باتیں جن کا انہوں نے ذکر کیا ہے، وہ بھی قرآن میں موجود ہیں، تفصیل کے لیے آپ میری ویڈیو کیسٹ دیکھ سکتے ہیں، (ڈاکٹر صاحب کی اس تقریر کا اردو ترجمہ ” قرآن اور سائنس” کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ ( ناشر)) قرآن تو آبی چکر کا ذکر بڑی وضاحت کے ساتھ کرتا ہے۔

جہاں تک بائبل میں آبی چکر کے زکر کا تعلق ہے ، تو انھوں نے پہلے تو آبی چکر کے پہلے اور تیسرے مرحلے کا حوالہ دیا اور بعد ازاں پہلے، تیسرے اور دوسرے مرحلے کا، انہوں نے کہا کہ پانی اوپر جاتا ہے اور بارش کی صورت میں دوبارہ زمین پر آتا ہے۔ یہ ملی ٹس کا فلسفہ ہے جو کہ ساتویں صدی قبل مسیض کا فلسفی تھا۔ اس کا خیال تھا کہ سمندر کی سطح سے بخارات کو ہوا اُٹھا کر لے جاتی ہے جو بعد ازاں بارش کی صورت میں برستے ہیں۔ اس فلسفے میں بادلوں کا کہیں ذکر نہیں ہے۔

دوسرا حوالہ جو ڈاکٹر کیمپبل نے دیا، اس میں پہلی بات یہ کی گئی کہ پانی بخارات میں تبدیل ہوتاہے ، ہم اس بات اس بات سے اتفاق کرتے ہیں، ہمیں بائبل کے ساتھ تطبیق کا رویہ اختیار کرنے پر کوئی اعتراض نہیں، اس کے بعد بارش کا ذکر ہے اور پھر دوبارہ بادلوں کا، یہ سب بجا ہے لیکن یہ مکمل آبی چکر نہیں ہے۔

الحمد للہ قرآن اس آبی چکر کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے اور وہ بھی متعدد مقامات پر، بادلوں کا بننا، ان کی حرکت ، ان کا برسنا اور پھر پانی کی دوبارہ بخارات میں تبدیلی، ان سب مراحل کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔

مندرجہ ذیل آیاتِ قرآنی میں ہمیں آبی چکر کا ذکر ملتا ہے۔

سورۃ نور، آیت 43،

سورۃ روم، آیت 48،

سورۃ الزمر، آیت 21

سورۃ المؤمنون، آیت 18

سورۃ روم، آیت 24

سورۃ حجر، آیت 22

سورۃ الاعراف، آیت 57

سورۃ الرعد، ایت 17

سورۃ الفرقان، آیات 48 تا 49

سورۃ فاطر، آیات 9

سورۃ جاثیہ، آیت 5

سورۃ ق، آیت 9

سورۃ واقعہ، ایات 68 تا 70

سورۃ الملک، آیت 30

قرآنِ مجید کی مندرجہ بالا تمام آیاتِ کریمہ میں آبی چکر Water Cycle کا ذکر موجود ہے۔

ڈآکٹر ولیم کیمپبل نے اپنی گفتگو کا بیش تر وقت علم جنین Embryology کے حوالے سے گفتگو میں صرف کیا، میں نے نوت کیا تھا، ان کی تقریباً نصف گفتگو علم الجنین سے متعلق تھی، اس کے بعد انہوں نے ارضیات کے حوالے سے نسبتاً زیادہ گفتگو کی اور پھر چھ دیگر موضوعات کے حوالے سے سرسری گفتگو کی۔

جہاں تک ارضیات کا تعلق ہے۔ جدید ماہرین ارضیات ہمیں بتاتے ہیں کہ زمین کا قطر تقریباً تین ہزار سات سو پچاس میل ہے، زمین کی سب سے باہری سطح ٹھنڈی ہے لیکن اندرونی پرتیں انتہائی گرم اور پگھلی ہوئی حالت میں ہیں، جہاں زندگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ اور یہ کہ زمین کی سب سے بیرونی پرت جس پر ہم آباد ہیں، نسبتاً انتہائی باریک ہے، اس کی موٹائی ایک میل سے لے کر 30 میل تک ہے، چند حصے نسبتاً زیادہ موٹے ہوسکتے ہیں لیکن عموماً یہ پرت ایک سے تیس میل کے درمیان ہی ہوتی ہے۔

اس پرت یا سطح کے ” ہلنے ” کے قوی امکانات موجود رہتے ہیں جس کی ایک وجہ ” بل پڑنے کا عمل ” ہے، جس کے نتیجے میں پہاڑ بنتے ہیں اور زمین کی سطح کو استحکام ملتا ہے۔

قرآن کی سورۃ نباء میں ارشاد ہوتا ہے:

أَلَمْ نَجْعَلِ الأرْضَ مِهَادًا (٦)وَالْجِبَالَ أَوْتَادًا (٧) ( سورۃ النباء 78 آیات 6 تا 7)

” کیا یہ واقعہ نہیں ہےھ ھکہ ہم نے زمین کر فرش بنایا اور پہاڑوں کو میخیں۔”

قرآن یہ نہیں کہتا کہ پہاڑوں کو میخوں کی طرح زمین میں اوپر سے گاڑا گیا ہے بلکہ یہ کہ پہاڑوں کو میخوں کی طرح بنایا گیا ہے، اوتاداً کا مطلب خیمے گاڑنے والی میخیں ہی ہوتا ہے، آج جدید ارضیات بھی اس بات کی تائید کرتی ہے کہ پہاڑوں کی جڑیں زمین میں گہرائی تک ہوتی ہیں۔ یہ بات انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں سامنے آئی تھی کہ پہاڈ کا بیش تر حصہ زمین کے اندر ہوتا ہے اور صرف تھوڑا سا حصہ ہمیں نظر آتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے زمین میں گڑی ہوئی میخ کا بیش تر حصہ ہماری نظروں سے اوجھل ہوتا ہے۔ یا جس طرح ” آئس برگ ” کی صرف چوٹی ہمیں نظر آتی ہے۔ جب کہ 90 فیصد حصہ پانی کے اندر ہوتا ہے۔

وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ (سورۃ الخاشیہ 88 آیت 19)

” اور پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے جمائے گئے؟ ”

ایک اور جگہ ارشادِ باری تعالی ہےی:

وَالْجِبَالَ أَرْسَاهَا (سورۃ النازعات 79 آیت 32)

” اور پہاڑ اس میں کھڑے کردیئے۔”

جدید ارضیاتی نظریئے اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ پہاری سلسلے سطح زمین کو استحکام فراہم کرتے ہیں۔ تمام ماہرین ارضیات نہیں لیکن کئی ماہرین یہی کہتے ہیں۔ میں ڈاکٹر ولیم کیمپبل کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ علم ارضیات کی کسی ایک مستند کتاب میں وہ بات دکھا دیں جو انہوں نے کی۔ اور میں مستند کتاب کا ذکر کررہا ہوں۔ ان کی ” ذاتی خط و کتابت ” کا نہیں۔ دستاویزی ثبوت مانگ رہا ہوں۔

دوسری طرف ایک کتاب جس کا نام ہے “زمین (Earth) ” یہ کتاب بیش تر یونیورسٹیوں کے ارضیات کے نصاب میں شامل ہے، اس کتاب کے مصنفین میں ڈاکٹر فرینک پریس بھی شامل ہیں جو سابق امریکی صدر جمی کارٹر کے مشیر رہ چکے ہیں اور امریکہ کی اکیڈمی آف سائنسز کے بھی صدر رہے ہیں۔ وہ اس کتاب میں کہتے ہیں کہ پہاڑ مثلث نما ہوتے ہیں، زمین کے اندر گہرائی تک ان کی جڑیں ہوتی ہیں۔ اور یہ کہ پہاڑ زمین کو استحکام فراہم کرتے ہیں۔

جب قرآن کہتا ہے:

وَجَعَلْنَا فِي الأرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِهِمْ وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجًا سُبُلا لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ (سورۃ الانبیاء 21 آیت 31)

” اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیئے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جاے اور اس میں کشادہ راہیں بنا دیں، شاید کہ لوگ اپنا راستہ معلوم کرلیں۔”

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا وَأَلْقَى فِي الأرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ (سورۃ لقمان 31آیت )

” اس نے آسمانوں کو پیدا کیا بغیر ستونوں کے جو تم کو نظر ائیں۔ اس نے زمین میں پہاڑ جما دیئے، تاکہ وہ تمہیں لے کر ڈھلک نہ جائے۔”

وَأَلْقَى فِي الأرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ وَأَنْهَارًا وَسُبُلا لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (سورۃ النحل ا6 آیت 15 )

” اس نے زمین میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں تاکہ زمین تم کو لے کر ڈھلک نہ جائے، اس نے دریا جاری کیے اور قدرتی راستے بنائے ، تاکہ تم ہدایت پاؤ۔”

گویا قرآن میں بھی پہاڑوں کا مقصد یہی بتایا گیا ہے کہ وہ سطح زمین کو استحکام فراہم کرتے ہیں۔ قرآن کی ان آیات میں یہ کہیں بھی نہیں کہا گیا کہ پہاڑ زلزلوں کو روکتے ہیں۔ ڈاکٹر ولیم کیمپبلل نے اپنی کتاب میں یہ بات لکھی ہے اور اپنی گفتگو میں بھی کہا ہے کہ پہاڑی علاقوں میں زلزلے زیادہ آتے ہیں اور یہ کہ پہاڑ زلزلوں کا باعث بنتےہیں۔

یہاں قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن میں یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ پہاڑ زلزلوں کو روکتے ہیں۔ عربی میں زلزلے کے لیے ” زلزال ” کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ڈاکٹر کیمپبل چوں کہ عربی جانتے ہیں لہذا یہ بات انکے بھی علم میں ہوگی۔ لیکن ان تینوں آیات میں، جن کا میں نے حوالہ دیا ہے، کہیں بھی زلزلے کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔ ان میں جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ ہے ” تمیداً ” جس کے معنی ” ڈھلکنے” یا “جھولنے ” کے ہوتے ہیں اور قرآن ان تینوں آیات میں یہی لفظ استعمال کرتا ہے کہ زمین تمہیں لے کر ڈھلک نہ جائے، جھول نہ پڑے۔ اگر پہاڑ نہ ہوتے تو زمین حرکت کرتی۔ یہی بات قرآن میں کہی گئی ہے۔ اور یہی بات ڈاکٹر فرینک پریس کررہے ہیں۔ یہی بات ڈاکٹر جٓنجات لکھتے ہیں۔ ڈاکڑز نجات کا تعلق سعودی عرب سے ہے اور انہوں نے قرآن کے ارضیاتی تصورات پر ایک کتاب لکھی ہے۔ اور یہ کتاب ڈاکٹر ولیم کیمپبل کے جملہ اعتراضات کے تفصیلی جوابات فراہم کردیتی ہے۔

یعنی ڈاکٹر ولیم کیمپبل کا کہنا یہ تھا کہ اگر پہاڑ زمین کو کانپنے سے روکتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ پہاڑی علاقوں میں زلزلے زیادہ آتے ہیں؟

اور میرا جواب یہ ہے کہ نہیں، قرآن میں کہاں لکھا ہوا ہے کہ پہاڑ زلزلوں کو روکتے ہیں؟ زلزلے کو عربی میں زلزال کہتے ہیں، آکسفورڈ ڈکشنری میں زلزلے کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے:

Earthquake is due to convulsion of he superficial crust of the earth, due to relief of compressed seismic waves, due to a crack in the rock or due to volcanic reaction.

زلزلے کا بھونچال کا ذکر قرآن سورۃ زلزال میں کرتا ہے۔ لیکن یہاں زلزال کا لفظ استعمال نہیں ہورہا بلکہ ” تمید بکم ” کا لفظ استعمال ہوا ہے یعنی ڈولنے کا ڈھلکنے کا ذکر ہے۔

اسی طرح جہاں تک اس بیان کا تعلق ہے:

” اگر پہاڑ زلزلوں کو روکتے ہیں تو پھر پہاڑی علاقوں میں ہی زیادہ زلزلے کیوں آتے ہیں؟”

تو اس بات کا جواب دینے کے لیے ایک مثال پیش کرنا چاہوں گا۔ فرض کیجیئے میں کہتا ہوں کہ ڈاکٹر حضرات انسانوں کو لاح ہونے والی بیماریوں اور امراض کا علاج کرتے ہیں۔ اب اگر کوئی شخص مجھ پر اعتراض کرتے ہوئے کہے کہ اگر ڈاکٹر بیماریوں کو ٹھیک کرتے ہیں تو پھر زیادہ مریض ہسپتالوں میں کیوں پائے جاتے ہیں جہاں زیادہ تعداد میں ڈاکٹر موجود ہوتے ہیں، بہ نسبت گھروں کے، جہاں ڈاکٹر نہیں ہوتے؟ تو کیا اس معترض کا استدلال درست ہوگا؟

اب ہم سمندروں کے موضوع کی طرف آتے ہیں، قرآن مجید میں اللہ سبحانہ و تعلای کا ارشاد ہے:

وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ أَمَرْتَهُمْ لَيَخْرُجُنَّ قُلْ لا تُقْسِمُوا طَاعَةٌ مَعْرُوفَةٌ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (سورۃ الفرقان 25 آیت 53)

” اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھا ہے، ایک لذیذ و شیریں دوسرا تلخ و شور۔ اور دنوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے، ایک رکاوٹ ہے جو انہیں گڈ مڈ ہونے سے روکے ہوئے ہے۔”

اسی طرح قرآن مجید کی سورۃ رحمان میں ارشاد ہوتا ہے:

مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ (١٩)بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لا يَبْغِيَانِ (٢٠) (سورۃ الرحمٰن 55)

” دو سمندروں کو اس نے چھوڑ دیا کہ باہم مل جائیں پھر بھی ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے۔”

قدیم مفسرین قرآن کے اس مقام کی وضاحت کرتے ہوئے بڑے پریشان ہوتے تھے کہ اس آیت کا کیا مفہوم بیان کریں۔ انہیں کڑوے اور میٹھے پانی کا تو علم تھا لیکن یہ کہ ایسی کوئی رکاوٹ ہے یا پردہ ہے جو انہیں آپس میں حل نہیں ہونے دیتا، اس بات کی وضاحت ان کے لئے مشکل تھی۔

لیکن آج علم بحریات ترقی کرچکا ہے، لہذا ہم جانتے ہیں کہ جب ایک قسم کا پانی دوسری قسم کے پانی کے ساتھ ملتا ہے تو دونوں کےا جزاء ایک دوسرے میں حل ہوتے ہیں، اور یوں ایک طرح کا محلول تیار ہوتا ہے، یہ یکساں محلول، جس میں دونوں طرح کے پانی کی خصوسیات موجود ہوتی ہیں، لیکن یہ دونوں طرح کے پانیوں کو الگ الگ بھی رکھتا ہے۔ قرآن اس کے کئے ” برزخ ککی اصطلاح استعمال کرتا ہے، اس بات پر متعدد بڑے سائنس دانوں کا اتفاق رائے ہے، جن میں امریکہ کے ایک سائنس دان Dr. Hay بھی شامل ہیں جو کہ بحری علوم کے ماہر ہیں۔

ڈاکٹر ولیم کیمپبل اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ یہ تو ایک عام سی بات ہے، اور اُس دور کے ماہی گیر بھی جانتے تھے کہ دو طرح کا پانی ہوتا ہے میٹھا اور کڑوا۔ اور حضرت محمد ﷺ اپنے سفر شام کے دوران میں سمندری سفر کے ذریعے یا ان ماہی گیروں کے ساتھ گفتگو کے ذریعے اس صورتِ حال سے آگاہ ہوسکتے تھے۔

اب ہم آتے ہیں علم جنین والے معاملے کی جانب، ڈاکٹر ولیم کیمپبل کی گفتگو کا نصف سے زیادہ حصہ اسی موضوع سے متعلق تھا، وقت مجھے اتنی اجازت نہیں دیتا کہ میں ان کی ہر غیر منطقی بات کا جواب دے سکوں۔ لہذا میں مختصر جواب دوں گا۔ مزید تفصیل کے لیے آپ میری کتاب ” قران اور جدید سائنس” اور اس موضوع پر میری تقاریر سے استفادہ کرسکتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل عربوں نے علم جنین سے متعلق قرآن مجید اور احادیث نبویہ کا اکھٹا کیا اور یہ سارا لوازمہ انہوں نے کینیڈا ڈاکٹر کیتھ مور کو پیش کردیا جو یونیورسٹی آف ٹورانٹو کینیڈا میں اس شعبہ کے سربراہ ہیں او دورِ حاضر میں ان کا شمار علم الجنین کے بڑے ماہرین میں ہوتا ہے۔ ان آیات و احادیث کے تراجم کا مطالعہ کرنے کے بعد جب ان سے تبصرے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان میں سے بیش تر آیات اور احادیث تو جدید ترین تحقیقات سے مکمل مطابقت رکھتی ہیں۔ البتہ چند باتیں ایسی ہیں جنہیں نہ وہ درست قرار دے سکتے ہیں اور نہ ہی غلط کہ سکتے ہیں کیون کہ جدید سائنس نے ابھی تک ان کی مکمل وضاحت ہی نہیں کی یعنی انہوں نے کہا کہ وہ خود ان کے بارے میں مکمل علم نہیں رکھتے۔ اور ان میں دو آیات وہ تھیں جو ترتیب نزولی کے اعتبار سے قرآن کی اولین آیات ہیں:

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (١)خَلَقَ الإنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (٢) ( سورۃ العلق 96)

” پڑھو ( اے نبی ﷺ) اپنے رب کے نام کے ساتھ، جس نے پیدا کیا جس نے ” علقہ ” سے انسان کی تخلیق کی ۔”

” علق ” سے مراد کوئی چپکنے والی چیز یا جونک نما چیز ہے۔

جہاں تک ڈاکٹر ولیم کیمپبل کے اس بیان کا تعلق ہے کہ ہمیں کسی کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے الفاظ کے وہی معنی سامنے رکھنے چاہئیں جو اس وقت مراد لیے جاتے تھے جب کتاب تحریر ہوئی تھی۔ یا وہی معنی قبول کرنے چاہیئے جو معنی اولین مخاطبین کے نزدیک درست تھے۔

میں ڈاکٹر ولیم کیمپبل کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں لیکن صرف بائبل کے معاملے میں، بائبل کے حق میں تو ان کی یہ بات بلکل درست ہے کیونکہ بائبل ایک ایسی کتاب ہے جس کے مخاطبین صرف اس دور کے لوگ تھے۔ بلکہ صرف بنی اسرائیل تھے، یہ بات بائبل میں اس طرح بیان ہوئی ہے، بارہ حواریوں کے نام بیان کرنے کے بعد تحریر ہے:

” ان بارہ یکو یسوع نے بھیجا اور ان کو حکم دے کرکہا: ” غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہوان۔ بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا۔” ( متی، باب 6،7،10)

یہاں انہیں غیر قوموں کی طرف جانے سے خود حضرت عیسٰی علیہ السلام منع کررہے ہیں۔ گیر قوموں سے کیا مراد ہے؟ غیر قوموں سے مراد ہندو ہیں، مسلمان ہیں، تمام غیر یہودی اقوام ہیں۔ اس طرح متی کی انجیل میں دوبارہ کہا گیا ہے:

” میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا کسی اور کے پاس نہیں بھیجا گیا۔” ( متی۔ باب 15 تا 24)

گویا بائبل اور حضرت یسوع مسیح علیہ السلام کا پیغام ہدایت صرف بنی اسرائیل کے لیے تھا اور چونکہ یہ پیغام صرف ایک قوم تک محدود تھا لہذا یہاں وہ معانی مراد لینا درست ہوگا جو ان لوگوں کے نزدیک تھا۔

لیکن قرآن کا معاملہ مختلف ہے۔ قرآن صرف اس دور کے عربوں کے لیے نازل نہیں ہوا تھا۔ قرآن کا پیغام صرف مسلمانوں کے لیے بھی نہیں ہے۔ یہ تو پوری انسانیت کے لئے پیغام ہدایت ہے۔ اور ہر زمانے کے لیئے بھیجا گیا ہے۔

سورۃ ابراہیم میں ارشاد ہوتا ہے:

هَذَا بَلاغٌ (سورۃ ابراہیم 14 آیت 52)

” یہ پیغام ہے سب انسانوں کے لئے۔”

اسی طرح سورۃ بقرہ میں کہا گیا:

الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ (سورۃ البقرہ 2 آیت 185)

” قرآن انسانوں کے لئے سراسر ہدایت ہے۔”

سورۃ الزمر میں ارشاد ہوتا ہے:

إِنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ لِلنَّاسِ (سورۃ الزمر 39 آیت 41)

” ( اے نبی ﷺ ) ہم نے سب انسانوں کے لئے یہ کتاب برحق تم پر نازل کردی ہے۔”

ان آیات سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن کا پیغام پوری نبی نوع انسانیت کے لئے ہے۔ اور حضرت محمد ﷺ کو صرف عربوں کے لئے ہدایت دے کر نہیں بھیجا گیا تھا۔

اللہ تعالی سورۃ الانبیاء میں ارشاد فرماتا ہے:

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ (سورۃ الانبیاء 21 آیت 107)

” ( اے نبی ﷺ !) ہم نے تو آپ کو دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔”

لہذا جہاں تک قرآن کا تعلق ہے، آپ قرآنی الفاظ کے معانی کو قطعاً اس دور تک محدود نہیں کرسکتے جس دور میں یہ نازل ہوا تھا۔ کیونکہ اس کتاب کا پیغام کسی زمانے تک محدود نہیں ہے۔

( اب ہم سابقہ گفتگو کی طرف لوٹتے ہیں) عَلَقَ کا ایک مطلب جونک نما چیز یا چپکنے والی چیز ہوتا ہے۔ ڈاکٹر کیتھ مور کہتے ہیں کہ مجھے علم نیں تھا کہ جنین کی ابتدائی مرحلے میں جونک سے کوئی مشابہت ہوتی ہے یا نہیں۔ ” لہذا موصوف اپنی تجربہ گاہ میں گئے اور جنین کے ابتدائی مرحلے کا خوردبین سے جائزہ لینے کے بعد اس کا تقابل جونک کی تصویر سے کیا اور وہ دونوں کے درمیان موجود حیرت انگیز مشابہت کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔

ڈاکٹر ولیم کیمپبل نے آپ کو بالکل مختلف تناظر میں دکھایا ہے۔ ان کی کتاب میں جو تصویر ہے وہ مختلف رُخ سے ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ ایک ہی چیز کو جب مختلف تناظر میں دیکھا جائے تو وہ خاصی مختلف محسوس ہوسکتی ہے۔

ڈاکٹر کیتھ مور سے 80 سوالات کیئے گئے۔ ڈاکٹر کیتھ میور نے یہ بھی کہا کہ اگر یہ 80 سوالات ان سے 30 سال قبل کئے جاتے تو شاید وہ پچاس فی صد سوالات کا بھی جوان نہ دے پاتے۔ کیوں کہ گذشتہ تیس سال کے عرصے میں علم الجنین نے بہت زیادہ ترقی کی ہے۔ اور یہ بات ڈاکٹر کیتھ مور نے 1980ء کی دھائی میں کی تھی۔

اب صورت یہ ہے کہ ڈاکٹر کیتھ مور کا یہ بیان تحریری صورت میں بھی دستیاب ہے اور ان کی گفتگو کی ریکارڈنگ بھی موجود ہے۔ آپ ویڈیو کیسٹ میں خود بھی دیکھ سکتے ہیں تو اب یہ بتائیے کہ ان کے اس بیان پر یقین کیا جائے گا یا ڈاکٹر کیمپبل کے ساتھ ان کی نجی گفتگو پر؟

ڈاکٹر کیتھ مور نے یہ تحقیقات ایک کتاب کی صورت میں بھی پیش کی تھیں جس کا عنوان تھا “The Developing Human” اس کتاب کو اس سال کسی ایک مصنف کی لکھی ہوئی بہترین طبی کتاب کا ایوارڈ بھی ملا تھا۔ اس کتاب کا اسلامی ایڈیشن ڈاکٹر عبدالمجید الزندانی نے شائع کیا تھا جس پر ڈاکٹر مور کی تصدیق بھی موجود ہے۔

قرآن مجید کی سورۃ مؤمنون میں ارشاد ہوتا ہے:

ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِينٍ (١٣)

“پھر اسے ایکی محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا۔”

سورۃ حج میں بلکہ قرآن میں 11 مقامات پر یہ بات کہی گئی ہے کہ انسان کی تخلیق نطفے سے ہوئی ہے۔ اور نطفہ عربی زبان میں ” مایع کی انتہائی قلیل مقدار” کو کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ مقدار جو پیالے کی تہ سے لگی رہ جاتی ہے یعنی قلیل ترین مقدار۔

آج ہم جانتے ہیں کہ مادہ منویہ میں موجود کروڑوں جرثوموں میں سے کوئی ایک بھی جنین کی تشکیل کے لیئے کافی ہوتا ہے۔ اور یہ نہایت ہی چھوٹی سی مقدار ہوتی ہے جس کے لیئے قرآن “نطفہ ” کا لفظ استعمال کرتا ہے۔

قرآن مجید کی سورۃ سجدہ میں ارشاد ہوتا ہے۔:

ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِنْ سُلالَةٍ مِنْ مَاءٍ مَهِينٍ (سورۃ السجدہ 32 آیت 8)

” پھر اس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے۔”

” ست یا سلالۃ ” سے مراد کسی چیز کا جوہر، کسی شے کا بہترین حصہ۔ یایوں کہیئے کہ کروڑوں جرثوموں میں سے وہ ایک جرثومہ جو بیضے کو بارآور کرنے کا باعث بنتا ہے۔ قرآن اسی لیے تو یہاں لفظ ” سلالۃ ” یعنی بہترین حصہ استعمال کرتا ہے۔

سورۃ الدھر میں مزید ارشاد ہوتا ہے:

إِنَّا خَلَقْنَا الإنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا (سورۃ الدھر 76 آیت 2)

” ہم نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیئے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔”

یہاں قرآن ” نطفہ امشاج ” کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ یعنی مخلوط نطفہ۔ گویا یہاں اشارہ بیضون اور مادہ منویہ کی طرف ہے۔ کیونکہ جنین کی تشکیل کے لیئے ان دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جنین کے ارتقا کے مختلف مراحل کا ذکر قرآن بڑی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ کرتا ہے۔

سورۃ مؤمنون میں ارشاد ہوتا ہے:

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإنْسَانَ مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طِينٍ (١٢)ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِينٍ (١٣)ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ (١٤)

( سورۃ المؤمنون 23 آیات 12 تا 14)

” ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا، پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنادیا، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کر کھڑا کیا، پس بڑا ہی بابرکت ہے اللہ، سب کاریگروں سے اچھا کاریگر۔”

مندرجہ بالا آیات میں بتایا گیا ہے کہ انسان کی تخلیق ہوئی ” نُطفہ ” سے جو مائع کی انتہائی قلیل مقدار ہے۔

پھر اسے ” قرار مکین ” میں رکھا گیا یعنی محفوظ جگہ پھر وہ ” علقہ ” میں تبدیل ہوا یعنی ” جونک نما شے” یا ” چپکنے والی شے ” یا ” خون کا لوتھڑا ۔”

“پھر علقہ کو تبدیل کیا گیا “مضغۃ ” میں یعنی چبائی ہوئی شے یا بوتی۔

پھر ” مضغۃ ” سے “عظاما ” یعنی ہڈیاں بنائی گئیں۔

پھر “لحم” یونی گوشت تشکیل ہوئی۔

ان تین آیات قرآن میں جنین کے ارتقائی مراحل بڑی وضاحت سے بیان کر دیئے گئے ہیں۔ سب سے پہلے تو نطفہ، قرار مکین میں پہنچتا ہے یعنی رحم مادر میں اور پھر وہ علقہ میں تبدیل ہوتا ہے۔ لفظ “علقۃ” کے تین معانی ہیں: پہلا معنی تو “چپکنے والی چیز” ہے اور یہ معانی بالکل درست ہے کیونکہ جنین رحم کی دیوار سے چپکا رہتا ہے ، دوسرے معنی ” جونک نما شے ” ہیں، اور جیسا کہ پہلے وضاحت کرچکا ہوں کہ جنین اپنے ابدتائی مراحل میں واقعی جونک سے مشابہ ہوتا ہے۔ شکل و صورت کے لحاظ سے بھی اور کچھ اس لحاظ سے بھی کہ جونک کی طرح اس کی پرورش بھی خون سے ہورہی ہوتیہ ے۔

تیسے معانی ” خون کا لوتھڑا ” بھی ہوتے ہیں اور انہی معانی پر ڈاکٹر ولیم کیمپبل نے اعتراض کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہاں قرآن غلطی پر ہے، لیکن میں عرض کرنا چاہوں گا کہ قرآن ہرگز غلطی پر نہیں ہے بلکہ ڈاکٹر ولیم کیمپبل غلطی پر ہیں، کیونکہ آج، جب علم طب اس قدر ترقی کرچکا ہے ، آج ڈاکٹر کیتھ مور ، یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جنین ابتدائی مراحل میں خون کے لوتھڑے کی مانند بھی نظر آتا ہے۔ آپ تصاویر کی مدد سے بھی اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں کہ علقہ تین سے چار ہفتے کی عمر میں لوتھڑے سے مشابہ نظر آتا ہے یا نہیں؟

ڈاکٹر کیمپبل کے تمام اعترافات کا جواب ایک جملے میں دیا جاسکتاہے اور وہ جملہ یہ ہے کہ:

” قرآن میں جنین کے ارتقا کے مختلف مراحل کو ان کی شباہت کی بنا پر نام دیے گئے ہیں۔”

جنین بہ ظاہر اسی طرح نظر آتا ہے جس طرح قرآن میں بیان کیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں واقعی اس کی شباہت لوتھڑے ، جونک یا چپکنے والی چیز کی طرح ہوتی ہے۔ پھر قرآن کہتا ہے کہ “علقہ” کو “مضغہ” میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ یعنی وہ کسی چبائی ہوئی شے کی مانند ہوجاتا ہے اور یہ بات بھی درست ہے، ڈاکٹر کیتھ مور نے پلاسٹک کے ایک ٹکڑے کو دانتوں سے دبا کر دیکھا۔ ڈاکٹر مور لکھتے ہیں کہ “علقہ ” کے ” مضغۃ” میں تبدیلی ہونے کے بعد بھی ” چپکاؤ” موجود رہتا ہے تقریباً ساڑھے آٹھ ماہ کی عمر تک ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ قرآن کا بیان غلط ہے۔ قرآنی بیان بالکل درست ہے کیونکہ ” جیسا کہ میں نے پہلے کہا، قرآن نے یہ نام جنین کی ظاہر صورت کی بنا پر دیے ہیں۔ بے شک جنین تقریباً آخر تک ” چپکنے والی شے ” رہتا ہے لیکن اس کی ظاہر شباہت ” جونک نما چیز ” کی بجائے ” چبائی ہوئی چیز ” جیسی ہوجاتی ہے۔

اس کے بعد قرآن کہتا ہے کہ ” عِظَامًا ” یعنی ہڈیوں اور پھر ” لَحمًا ” یعنی گوشت کی تشکیل ہوتی ہے۔ ڈاکٹر کیمپبل کا کہنا ہے کہ ہڈیوں اور پٹھوں کی تشکیل بیک وقت ہوتی ہے۔ میں ان سے اتفاق کرتا ہوں، واقعی اسی طرح ہوتا ہے۔

آج علم الجنین کی جدید تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ہڈیوں اور پٹھوں کی ابتدائی تشکیل پچیسویں سے چالیسویں دن کے درمیان ہوتی ہے۔ اور بظاہر ایک ڈھانچے کی صورت نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ لیکن پٹھوں یعنی گوشت کی تشکیل مکمل نہیں ہوئی ہوتی۔ یہ ساتویں اور آٹھویں ہفتے میں مکمل ہوتی ہے۔ جب کہ بیالیسویں دن تک مکمل ہوچکی ہوتی ہیں، ڈھانچہ بن چکا ہوتا ہے۔ لہذا ثابت ہوا کہ قرآنی ترتیب بالکل درست ہے۔

یعنی سب سے پہلے “علقہ ” پھر “مضغۃ ” پھر ” عظاماً ” اور پھر ” لحما ” قرآن کی بیان کردہ ترتیب ہی درست ہے۔

ڈاکٹر کیتھ مور کا کہنا ہے کہ جدید علم الجنین کے بیان کردہ مراحل یعنی پہلا، دوسرا، تیسرا، چوتھا اور پانچواں مرحلہ اور ان کی تفاسیل انتہائی پیچیدہ اور عسیر الفہم ہیں۔ جب کہ صورت اور شباہت کی بنیاد پر بیان کردہ قرآنی مراحل سادہ اور آسانی سے سمجھ میں آنے والے ہیں۔ اس لیئے کہ ڈاکٹر کیتھ مور کہتے ہیں ” کہ مجھے یہ بات ماننے پر کوئی اعتراض نہیں کہ محمد ﷺ خدا کے پیغمبر تھے اور کیونکہ قرآن مجید ایک الہامی کتاب ہی ہوسکتی ہے۔” یعنی یہ معلومات کسی ایسی کتاب میں ہی ہوسکتی ہیں جو منزل من اللہ ہو۔

قرآن مجید کی سورۃ النساء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِيهِمْ نَارًا كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَزِيزًا حَكِيمًا (٥٦)

” جن لوگوں نے ہماری آیات کو ماننے سے انکار کردیا، انہیں بالیقین ہم آگ میں جھونکیں گے ارو جب ان کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کردیں گے، تاکہ وہ خوب عذاب کا مزہ چکھیں۔ اللہ بڑی قدرت رکھتا ہے اور اپنے فیصلوں کو عمل میں لانے کی حکمت خوب جانتا ہے۔”

اس آیت کا تعلق ” درد کے احساس ” سے ہے۔ پہلے ڈاکٹر حضرات کا خیال تھا کہ درد کے احساس کا تعلق صرف دماغ کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن آج ہم یہ جانتے ہیں کہ درد کا احساس صرف دماغ کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ ہماری جلد میں بھی ایسے “Receptors” موجود ہوتے ہیں جو درد اور تکلیف کا احساس پیدا کرتے ہیں، انہیں “Pain Receptors” کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی مذکورہ بالا ایت میں اللہ سبحانہ و تعالی کا ارشاد ہے کہ انکار کرنے والوں یعنی کفار کو آگ کے حوالے کیا جائے گا اور جب ان کی کھال جل جائے گی تو ان کے جسم پر نئی کھال پیدا کردی جائے گی تاکہ انہیں دوبارہ درد کا احساس ہوسکے۔

اس آیت میں واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ جلد میں ایسی کوئی خصوصیت موجود ہے جس کی وجہ سے درد کا احساس ہوتا ہے۔ یعنی قرآن اس آیت میں “Pain Receptors” کی طرف اشارہ کررہا ہے۔

تھائی لینڈ کی چانگ مائی یونیورسٹی کے شعبہ اناٹومی کے سربراہ پروفیسر تھاگا ڈا شان صرف اس ایک آیت کی وجہ سے مسلمان ہوچکے ہیں۔ ریاض، سعودی عریبیہ میں ہونے والی آٹھویں میڈیکل کانفرنس میں انہوں نے اعلان کیا:

” میں شھادت دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ تعالی کےک پیغام بر ہیں۔”

اللہ سبحانہ و تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں:

سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (٥٣) ( سورۃ حم السجدہ ( فصلت) 41)

” عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی، یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے، کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تیرا رب ہر چیز کا شاہد ہے۔”

ڈاکٹر تھاگاڈا کے لیے ایک ہی نشانی حق کی نشان دہی کے لیے کافی ہوگئی، یعنی اس بات پر ایمان لانے کے لیئے کہ قرآن کلام خداوندی ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جنہیں دس نشانیاں درکار ہوں گی اور کچھ ایسے جنہیں سو نشانیاں درکار ہوں گی۔ لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ایک ہزار نشانیان دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔

ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن کہتا ہے:

صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لا يَرْجِعُونَ (١٨)

” یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، یہ اب نہ پلٹیں گے۔ ”

” میں ان تمثیلوں میں اس لے باتیں کرتا ہوں کہ وہ دیکھتے ہوئے نہیں دیکھتے اور سنتے ہوئے نہیں سنتے اور نہیں سمھجھتے۔ ” ( متی بات 13-13)

جہاں تک علم الجنین سے متعلق دیگر نکات کا تعلق ہے، ان کا ذکر بھی میں ان شاء اللہ اپنی جوانی تقریر میں کروں گا لیکن مجھے موضوع کے دوسرے حصے سے بھی انصاف کرنا ہے یعنی ” بائبل، سائنس کی روشنی میں ”

سب سے پہلے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ قرآن سے ہمیں یہ اطلاع ملتی ہے:

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلا مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَنْ يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلا بِإِذْنِ اللَّهِ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ (٣٨)يَمْحُوا اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ (٣٩) ( سورہ الرعد 13 آیات 38 تا 39)

” ہر دور کیلئے ایک کتاب ہے۔ اللہ جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے، قائم رکھتا ہے، ام الکتاب اسی کے پاس ہے۔”

یعنی اللہ تعالی نے بہت سی کتابیں نازل فرمائی ہیں۔ لیکن نام صرف چار کا مذکور ہے۔

تورات، زبور، انجیل اور قرآن۔ تورات بھی وحی خداوندی ہے اور زبو بھی۔ انجیل وہ وحی ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی اور قرآن اللہ تعالی کی وہ وحی ہے جو اس کے آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوئی اور اللہ تعالی کی جانب سے آخری وحی ہے۔

یہاں ایک بات میں واضح طور پر بیان کردینا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ جس انجیل کو آج کل مسیحی حضرات اپنی کتاب مقدسہ قرار دیتے ہیں، ہم مسلمانوں کے نزدیک یہ وہ انجیل نہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔ ہمارے خیال میں یہ ممکن ہے کہ اس انجیل میں کلام خداوندی بھی شامل ہو۔ لیکن اس میں دیگر کئی چیزیں بھی شامل ہیں۔ اس میں حواریوں کا کلام بھی شامل ہے، تاریخ دانوں کے بیانات بھی شامل ہیں اور کچھ بے معنی اور مہمل باتیں بھی، مزید برآں اس میں کچھ فحش بیانات اور لا تعداد سائنسی اغلاط بھی موجود ہیں۔ اگر بائبل میں کچھ باتیں سائنسی طور پر درست ہیں تو اس کا امکان موجود ہے کیونکہ بائبل میں کلامِ الہی کے شامل ہونے کا امکان ہم تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اغلاط کے بارے میں کیا کیا جائے؟

کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ ان اغلاط کو خدا کی طرف منسوب کیا جائے؟

میں یہ بات اپنے مسیحی بھائیوں کے سامنے بالکل واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میری گفتگو کا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں ہے۔ اگر بائبل اور سائنس پر گفتگو کرتے ہوئے میری کسی بات سے آپ کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں اس کے لیئے پیشگی معذرت خواہ ہوں۔

ہماری گفتگو کا مقصد تو صرف یہ بتانا ہے کہ کلامِ خداوندی میں غلطی نہیں ہوسکتی۔ اس میں سائنسی غلطیوں کا امکان ہی نہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی یہی فرماتے تھے کہ سچائی کو تلاش کرو۔

دیکھیے ہمارے پاس عہد نامہ قدیم ہے، عہد نامہ جدید ہے اور خدا کی آخری وحی بھی ہمارے پاس قرآن کی صورت میں موجود ہے۔

جہاں تک ڈاکٹر ولیم کیمپبل کا تعلق ہے، ان کے ساتھ میں خاصی بے تکلفی برت سکتا ہوں کیونکہ وہ ایک کتاب لکھ چکے ہیں جس کا عنوان ہے ” قرآن اور بائبل تاریخ اور سائنس کی روشنی میں ۔”

وہ ایک بیان دے چکے ہیں اور ویسے بھی وہ ایک ڈاکٹر ہیں لہذا ان کے معاملے میں مجھے تکلف برتنے کی کوئی ضرورت نہیں لیکن جہاں تک دوسرے مسیحی بہن بھائیوں کا تعلق ہے اگر دورانِ گفتگو ان کے جذبات مجروح ہوں تو ان سے معذرت خواہ ہوں۔

آئیے! اب ہم دیکھتے ہیں کہ بائبل، سائنس کے بارے میں کیا کہتی ہے؟

آغاز ہم فلکیات سے کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ بائبل ہمیں علم فلکیات کے بارے میں کیا بتاتی ہے۔ بائبل میں تخلیق کائنات کے بارے میں بات کی گئی ہے۔ بائبل کے آغاز میں ہی تخلیق کائنات کا ذکر موجود ہے یعنی پہلی کتاب، پیدائش میں بتایا گیا ہے:

“خدا نے ابتدا میں زمین و آسمان کو پیدا کیا، اور زمین ویران اور سنسان تھی اور گہراؤ کے اوپر اندھیرا تھا اور خدا کی روح پانی کی سطح پر جنبش کرتی تھی اور خدا نے دیکھا کہ روشنی اچھی ہے اور خدا نے روشنی کو تو دن کہا اور تاریکی تو رات اور شام ہوئی اور صبح ہوئی سو پہلا دن ہوا۔” ( پیدائش، باب 1 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1 تا 5)

بائبل ہمیں بتاتنی ہے کہ خدا نے کائنات کو چھ دن میں پیدا کیا اور بائبل صبح اور شام کا بھی ذکر کرتی ہے یعنی چوبیس گھنٹے والے دن کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ سائنس دان ہمیں بتاتے ہیں کہ چوبیس گھنٹے والے چھ دنوں میں کائنات کی تشکیل ممکن ہی نہیں ہے۔

قرآن بھی اس حوالے سے چھ ایام کا ذکر کرتا ہے۔ عربی لفظ ایام جس کا واحد یوم ہوتا ہے ۔ لفظ یوم کا مطلب چوبیس گھنٹے کا ایک دن بھی ہوتا ہے اور اس سے مراد طویل عرصہ بھی ہوسکتا ہے یعنی ” ایک زمانہ ۔ ” اور یہ بات تسلیم کرنے میں کسی سائنس دان کو کوئی اعتراض نہ ہوگا کہ دنیا چھ ” طویل وقفوں ” یا ” زمانوں ” میں تخلیق ہوئی ہے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ بائبل اپنی بالکل ابتدائی آیات یعنی آیات 3 تا 5 میں یہ بتاتی ہے کہ روشنی پہلے دن تخلیق ہوئی جب کہ روشنی کے اسباب سورج اور ستارے وغیرہ چوتھے دن تخلیق ہورہے ہیں۔ اب یہ کس طرح ممکن ہے کہ روشنی کے اسباب و ذرائع چوتھے دن تخلیق ہوں جب کہ روشنی پہلے ہی دن تخلیق ہوچکی ہو۔ یہ ایک بالکل غیر سائنسی بات ہے۔ مزید برآں تیسرا نکتہ یہ ہے کہ آیات نمبر 9 تا 13 میں بتایا جارہا ہے کہ زمین تخلیق ہوئی تو اگر زمین اس مرحلے میں تخلیق ہورہی ہے تو صبح اور شام پہلے دن کس طرح تخلیق ہوگئے تھے، دن اور رات کا انحصار ہی زمین کی گردش پر ہے اور اگر زمین نہیں بنی تھی تو دن اور رات کا تصور ہی ممکن نہیں تھا۔

چوتھا نکتہ یہ کہ کتاب پیدائش، پہلے باب کی آیات 9 تا 13 ہمیں بتاتی ہیں کہ زمین کی تشکیل تیسرے دن ہوئی تھی جب کہ آیات 14 تا 19 سے پتہ چلتا ہے کہ سورج اور چاند چوتھے دن بنائے گئے، لیکن جدید سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ زمین دراصل سورج ہی کا ایک حصہ ہے، لہذا اس سورج سے پہلے تخلیق ہونا ممکن ہی نہیں ہے، یہ غیر سائنسی بات ہے۔

پانچواں نکتہ یہ ہے کہ کتاب پیدائس پہلے باب کی آیات نمبر 9 تا 13 ہمیں بتاتی ہیں کہ زمین پر گھاس اور بوٹیاں اور درخت تیسرے دن تخلیق ہوئے جب کہ سورج کی تشکیل چوتھے دن ہوئی جیسا کہ آیات 14 تا 19 میں درج ہے۔ سائنس کا سوال یہ ہے کہ سورج کی روشنی کے بغیر نباتات کی نشونما اور بقا کس طرح ممکن ہے؟

چھٹا نکتہ یہ کہ کتاب پیدائش باب 1، آیت 17 میں کہا گیا ہے کہ:

” سو خدا نے دو برے نیر بنائے۔ ایک نیرا اکبر کہ دن پر حکم کرے اور ایک نیر اصغر کہ رات پر حکم کرے اور اس نے ستاروں کو بھی بنایا۔”

اس آیت اور آیات ما بعد سے پتہ چلتا ہے کہ چاند اور سورج دونوں روشن اجسام ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ بات مسلمہ سائنسی حقائق کے خلاف جاتی ہے۔

کچھ لوگ مطابقت پیدا کرنے کے لیئے یہ مؤقف اختیار کرتے ہیں کہ بائبل میں بیان کردہ چھ دن بھی در حقیقت چھ زمانے ہیں لیکن ان کی یہ بات بھی غیر منطقی ہے۔ کیونکہ آپ صآف دیکھ سکتے ہیں کہ بائبل میں صبح کا ذکر ہورہا ہے اور شام کا بھی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں چوبیس گھنٹے والا دن ہی مراد ہے۔ لیکن بالفرض میں یہ غیر منطقی دلیل تسلیم کر بھی لوں تو اس طرح زیادہ سے زیادہ پہلے دو نکات کا جواب ملتا ہے جب کہ باقی ماندہ چار سوالات پھر بھی جوان طلب ہی رہ جاتے ہیں۔

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر یہاں عام دن ہی مراد ہے تو پھر نباتات چوبیس گھنٹے روشنی کے بغیر بھی گزار سکتی ہیں۔ میں کہتا ہوں چلیے آپ کی یہ بات تسلیم کیے لیتے ہیں لیکن اس طرح نباتات والا مسئلہ تو حل ہوتا ہے دیگر مسائل پھر جواب طلب رہ جاتے ہیں۔ آپ ” چت بھی میری ، پٹ بھی میری ” والا رویہ نہیں اپنا سکتے۔

لہذا اب میں یہ بات ڈاکٹر ولیم کیمپبل پر چھوڑ دیتا ہوں ۔ ان کے پاس دو صورتیں ہیں:

یا تو وہ یہ تسلیم کرلیں کہ دن سے مراد ایک طویل زمانہ ہے تو آپ پہلا اور تیسرا نکتہ حل کرلیں گے لیکن دوسرا، چوتھا، پانچواں اور چھٹا نکتہ حل طلب رہ جائے گا۔

دوسری صورت یہ ہے کہ وہ دن کو 24 گھنٹے کا عام دن ہی فرض کریں، اس صورت میں وہ صرف پانچویں نکتے کا جواب مہیا کردیں گے لیکن باقی تمام نکات حل طلب رہ جائیں گے۔

اب جہاں تک زمین کا تعلق ہے اس بارے میں متعدد سائنسی نظریات موجود ہیں۔ یہ نظریات محض مفروضے ہیں جو درست بھی ہوسکتے ہیں اور غلط بھی، لیکن یا تو زمین بالآخر فنا ہوجائے گی اور یا ہمیشہ موجود رہے گی۔ ان میں سے کوئی ایک نظریہ ہی درست ہوسکتا ہے دونوں باتیں بیک وقت درست نہیں ہوسکتیں۔ یہ ایک غیر سائنسی بات ہوگئی۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بائبل یہی کہتی ہے یعنی دونں باتوں کا ذکر کرتی ہے۔ عبرانیوں کے نام پولس رسول کے خط کے پہلے بابت کی گیارہویں اور بارھویں آیت میں کہا گیا ہے:

” اے خداوند !

تو انے ابتدا زمین کی نیو ڈالی

اور آسمان تیرے ہاتھ کی کاریگری ہیں۔

وہ نیست ہوجائیں گے مگر تو باقی رہے گا۔

اور وہ سب پوشاک کی ماندد پرانے ہوجائیں گے۔

اسی طرح کتاب ابور کے باب نمبر 102 میں کہا گیا:

” تو نے قدیم سے زمین کی بنیاد ڈالی

آسمان تیرے ہاتھ کی صنعت ہے۔

وہ نیست ہوجائیں گے پر تو باقی رہے گا۔”

لیکن دوسری طرف اس کے بالکل برعکس اور متضاد بیانات بھی بائبل میں موجود ہیں۔

” انسانیت کو اس ساری محنت سے جو وہ کرتا ہے کیا حاصل ہے؟

ایک پشت جاتی ہے دوسری پشت آتی ہے پر زمین ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ ” ( واعظ، باب 1 ۔ ۔ ۔ ۔3 تا 4)

اسی طرح زبور میں کہا گیا:

” اور اپنے مقدس کو پہاڑوں کی مانند تعمیر کیا اور زمین کی مانند جسے اس نے ہمیشہ کےلیئے قائم کیا ہے۔” ( زبور، بابا 78-69)

اب میں یہ بات ڈاکٹر ولیم کیمپبل پر چھوڑ دیتا ہوں کہ وہ خود انتخاب کرلیں کہ کون سی بات غلط ہے کیونکہ دونوں باتیں بیک وقت درست تو نہیں ہوسکتیں۔ دنیا بیک وقت فانی اور غیر فانی نہیں ہوسکتی ہے۔

اب ہم آسمان کی طرف آتے ہیں۔ بائبل میں کہا گیا ہے:

” اور آسمان کے ستون کانپتے ہیں

اور اسکی جھڑکی سے حیرا ن ہوتے ہیں۔ ” (ایوب، باب 26-11)

جب کہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ (سورۃ لقمان 31 آیت 10)

” اس نے آسمانوں کو پیدا کیا بغیر ستونوں کے۔”

بائبل کہتی ہےکہ آمسان کے ستون ہیں، قرآن کہتا ہے کہ آسمان بغیر ستونوں کے ہے، کیا آپ خود نہیں دیکھ سکتے کہ آسمان کے ستون موجود ہیں یا نہیں؟

بائبل نہ صرف یہ کہتی ہے کہ آسمان کے ستون ہیں بلکہ وہ تو زمین کے بارے میں بھی یہی بات کرتی ہے:

” زمین کے ستون خداوند کے ہیں۔

اس نے دنیا کو ان ہی پر قائم کیا ہے۔” ( سیموئل۔ 1، باب 2 -8)

” زمین اور اس کے سب باشندے گداز ہوگئے ہیں

میں نے اس کے ستونوں کو قایم کردیا ہے۔” ( زبور، باب 75-3)

” وہ زمین کو اس کی جگہ سے ہلا دیتا ہے۔

اور اسے ستون کانپنے لگتے ہیں۔ ” ( ایوب، باب 9- 7)

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ (سورۃ لقمان 31 آیت 10)

” اس نے آسمانوں کو پیدا کیا بغیر ستونوں کے۔”

بائبل کہتی ہے کہ آسمان کے ستون ہیں، قرآن کہتا ہے کہ آسمان بغیر ستونوں کے ہے۔ کیا آپ خود نہیں دیکھ سکتے کہ آسمان کے ستون موجود ہیں یا نہیں؟

بائبل نہ صرف یہ کہتی ہے کہ آسمان کے ستون موجود ہیں بلکہ وہ تو زمین کے بارے میں بھی یہی بات کرتی ہے:

” زمین کے ستون خداوند کے ہیں۔

اس نے دنیا کو ان ہی پر قائم کیا ہے۔ ” ( سیموئیل۔ 1 باتب 2-8)

” زمین اور اس کے سب باشندے گداز ہوگئے ہیں

میں نے اس کے ستونوں کو قائم کردیا ہے۔” ( زبور، باب 75-3)

“وہ زمین کو اس کی جگہ سے ہلا دیتا ہے۔

اور اسکے ستون کانپنے لگتے ہیں۔ ” ( ایوب، باب 9-2)

اب ہم آتے ہیں غذائیات کی طرف ۔ کتاب پیدائش میں کہا گیا:

” اور خدا نے کہا دیکھو میں تمام روئی ، زمین کی کل بیج دار سبزی اور ہر درخت جس میں اس کا بیج دار پھل ہو ، تم کو دیتا ہوں، یہ تمہارے کھانے کو ہوں۔ ( پیدائش، باب 1، 29)

آج ایک عامل آدمی بھی بخوبی جانتا ہے کہ کچھ بیج دار نباتات اس قدر زہریلی ہوتی ہیں کہ انہیں کھانے والا یقنینی طو ر پر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ جب کہ بائبل کہتی ہے کہ ایسے تمام پھل کھانے کے لیے ہیں۔ میں امید رکھتا ہوں کہ ڈاکٹر ولیم کیمپبل اپنے مریضوں کو یہ پھل نہیں دیتے ہوں گے۔

بائبل میں ایک ایسا طریقہ کار بتایا گیا ہے جس کی مدد سے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کون حقیقی ایماندار ہے۔

” اور ایمان لانے والوں کے درمیان یہ معجزے ہوں گے۔

وہ میرے نام سے بدروحون کو نکال لیںگے۔

نئی نئی زبانیں بولیںگے۔

سانپوں کو اُٹھا لیں گے۔

اور اگر کوئی ہلاک کرنے والی چیز پیئیں گے تو انہیں کوئی ضرر نہ پہنچے گا، وہ بیماروں پر ہاتھ رکھیں گے تو اچھے ہوجائیں گے۔ ” ( مرقس، باب 16،18،17)

یہ ایک سائنسی ٹسٹ ہے، سائنس کی اصطلاح میں ہم اسے ایک Confirmatory Test کہ سکتے ہیں۔ جس کے ذریعے ایک حقیقی مسیحی کا پتہ چلایا جاسکتا ہے۔

اپنی زندگی کے گزشتہ دل سالوں کے دوران میں، مجھے بلا مبالغہ ہزاروں عیسائیوں سے واسطہ پڑا ہے جن میں عیسائیت کے مبلغین بھی شامل تھے، لیکن میں نے آج تک کوئی ایک بھی ایسا عیسائی نہیں دیکھا جو اجنیل کے اس امتحان میں کامیاب ہوسکے۔ میں نے کوئی ایک بھی عیسائی نہیں دیکھا جو زہر کھائے لیکن اس پر زہر کام نہ کرے۔ سائنسی اصطلاح میں ہم اس امتحان کو Falsification Test بھی کہ سکتے ہیں یعنی اگر کوئی غلط آدمی یہ امتحان دے گا تو وہ ناکام ہوجائے گا۔ اگر غلط آدمی زہر کھائے گا تو مرجائے گا۔ کوئی غلط آدمی یہ امتحان دینے کی جرأت ہی نہیں کرے گا۔ اگر آپ ایک حقیقی عیسائی نہیں ہیں تو آپ کبھی بھی امتحان نہیں دیں گے۔

میں ڈاکٹر ولیم کیمپبل کی کتاب “The Quran & The Bible, In the Light of History and Science” پڑھی ہے اور میرا خیال ہے کہ وہ ایک حقیقی مسیحی ہیں۔ اور میری خواہش ہے کہ کم از کم وہ یہ امتحان ضرور دیں۔ مٰں ان سے یہ تو نہیں کہ سکتا کہ وہ کئی خطرناک زہر کھا کر دکھائیں کیونکہ اس طرح تو ہمارا یہ مباحثہ ہی خراب ہوجائے گا۔ میں ان سے صرف یہ درخواست کروں گا کہ وہ ہمیں نئی زبانیں بول کر دکھائیں۔ آپ میں سے بہت سے لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ ہندوستان میں ایک ہزار سے زیادہ مختلف زبانیں اور لہجے موجود ہیں۔ ان میں سے 17 زبانیں ایسی ہیں جنہیں سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ میں ڈاکٹر صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ صرف تین الفاظ ان 17 زبانوں میں بھول کر دکھائیں یعنی ” ایک سو روپے ”

ڈاکٹر صاحب کی مدد کے لیے میں انہیں سو روپے کا نوٹ بھی پیش کردیتا ہوں۔ اس نوٹ پر یہ سترہ زبانیں موجود ہیں۔ انگریزی اور ہندی سمیت۔ انگریزی میں One Hundred Rupees تو وہ پڑھ لیں گے۔ ہندی میں انہیں بتا دیتا ہوں ” ایک سو روپے ”

اب باقی پندرہ زبانوں میں یہ تین الفاظ بول دیں۔ میں جانتا ہوں کہ انجیل کے بیان کے مطابق انہیں یہ زبانیں بغیر کسی کی مدد سے بولنی چاہئیں لیکن میں ان کی مدد کررہا ہوں کیوں کہ میں چاہتا ہوں کہ کوئی تو یہ ٹسٹ پاس کرے۔ میں تو آج تک کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جو یہ امتحان پاس کرسکے۔

لہذا مٰیں یہ نوٹ انہیں پیش کرتا ہوں۔ وہ یہ تین الفاظ پندرہ زبانوں مٰں پڑھ دیں۔ ” ایک سو روپے ”

اب ہم آبیات یا ” علم الآب” Hydrology کا ذکر کرتے ہیں۔ بائبل میں کہا گیا ہے:

“میں اپنی کمان کو بادل میں رکھت اہوں۔

وہ میرے اور زمین کے درمیان عہد کا نشان ہوگی۔

اور ایسا ہوگا کہ جب میں زمین پر بادل لاؤں گا۔

تو میری کمان بادل میں دکھائی دے گی۔

اور میں اپنے عہد کو جو میرے اور تمہارے

اور ہر طرح کے جاندار کےک درمیان ہے، یاد کروں گا۔

اور تما م جان داروں کی ہلاکت کے لیے پانی کا طوفان پھر نہ ہوگا۔

اور کمان بادل مٰں ہوگی اور مٰں اس پر نگاہ کروں گا۔

تاکہ اس ابدی عہد کو یاد کروں جو خدا کے

اور زمین کے سب طرح کے جانداروں کے درمیان ہے۔

پس خدا نے نوح سےکہا

کہ یہ اس عہد کا نشان ہے

جو میں اپنے اور زمین کے کل جانداروں کے درمیان قایم کرتا ہوں۔ ( پیدائش، باب 9-17-14)

مندرجہ بالا بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ طوفانِ نوح کے اترنے کے بعد یہ عہد خدا ور حضرت نوح علیہ السلام کے مابین ہوا اور اس کی نشانی کے طور پر فلک میں قوس قزح نظر آئی، یعنی اس سے پہلے قوس قزح نہیں ہوا کرتی تھی، لیکن یہ ایک غیر سائنسی بیان ہے۔ یہ بات کیوں کر تسلیم کی جاسکتی ہے کہ طوفانِ نوح علیہ السلام سے قبل بادل تو ہوتے تھے، بارش تو برستی تھی لیکن قس قزح نہیں بنتی تھی۔ کیا اس وقت Law of Refractionموجود نہیں تھا؟ یقیناً حضرت نوح علیہ السلام کے دور سے پہلے بھی بے شمار مرتبہ قوس قزح بنتی رہی ہوگی۔

اب ہم آتے ہیں علم طب کی جانب۔ انجیل میں گھر کے کوڑھ کی وبا سے محفوظ کرنے کے لیے ایک طریقہ بتایا گیا ہے، جو کچھ یوں ہے:

” اور اس گھر کو پاک قرار دینے کے لیے

دو پرندے اور دیوار کی لکڑی اور سرخ کپڑا اور زوفا لے

اور وہ ان پرندوں میں سے ایک کو متی کے کسی برتن میں

بہتے ہوئے پانی پر ذبح کرے

پھر وہ دیوار کی لکڑی اور زوفا اور سرخ کپرے

اور اس زندہ پرندے کو لے کر

اس کو اس ذبح کیے ہوئے پرندے کے خون

میں اور بہتے ہوئے پانی مٰیں غوطہ دے

اور سات بار اس گھر پر چھڑکے

اور اس پرندے کے خون سے

اور بہتے ہوئے پانی

اور زندہ پرندے ، دیوار کی لکڑی اور زوفا اور

سرخ کپڑے سے اس گھر کو صاف کرے

اور اس زندہ پرندے کو شہر کے باہر

کھلے میدان میں چھوڑ دے

یوں ہو گھر کے لیے کفارہ دے تو گھر پاک ٹھہرے گا۔ ” ( احبار، باب 14،53،49)

یعنی گھر کو کوڑھ کے جراثیم سے پاک کرنے کے لیے اس میں خون چھڑکا جائے۔ آپ جانتے ہیں کہ خون جراثیم کو پھیلانے کا بہترین ذریعہ ہے نہ کہ جراثیم کو ختم کرنے کا۔

مجھے امید ہے کہ ڈاکٹر کیمپبل اس طریقہ سے اپنے آپریشن تھیڑ کی صفائی نہیں کرتے ہوں گے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ نفاس کا خون، وہ خون جو بچے کی پیدائش کے دوران یا اس کے بعد آتا ہے ناپاک ہوتا ہے لیکن بائبل اس بارے میں کہتی ہے:

” اور خداوند نے موسیٰ سے کہا

بنی اسرائیل سے کہہ کہ

اگر کوئی عورت حاملہ ہو اور اس کا لڑکا ہو

تو وہ سات دن ناپاک رہے گی

جیسے حیض کے ایام میں رہتی ہے

اور آٹھویں دن لڑکے کا ختنہ کیا جائے

اس کے بعد تینتیس دن تک وہ طہارت کے خون میں رہے اور جب تک اس کی طہارت کے ایام پورے نہ ہوں تب تک نہ تو کسی مقدس چیز کو چھوئے اور نہ مقدس میں داخل ہو۔

اور اگر اس کے لڑکی ہو

تو دوہفتے ناپاک رہے گی

جیسے حیض کے ایام میں رہتی ہے

اس کے بعد چھیاسٹھ دن تک وہ طہارت کے خون میں رہے۔” ( احبار، باب 12، 6-1)

یعنی اگر وہ بیٹے کو جنم دیتی ہے تو چالیس دن ناپاک رہے گی لیکن اگر وہ بیٹی کو جنم دیتی ہے تو پورے اسی دن تک ناپاک رہے گی۔ میں ڈاکٹر ولیم کیمپبل سے درخواست کروں گا کہ وہ وضاحت فرمائیں کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ سائنسی طور پر عورت بیٹی پیدا ہونے کی صورت میں دگنے عرصے تک کیوں ناپاک رہتی ہے۔

انجیل میں کسی عورت کی بدکرداری ثابت کرنے کیلئے بھی ایک امتحان بیان کیا گیا ہے۔ اس کی تفصیل گنتی کے باب نمبر 5 کی آیات 11 تا 31 میں موجود ہے۔ میں اس کا خلاصہ بیان کرتا ہوں۔

” اگر کسی کی بیوی گمراہ ہوکر اس سے بے وفائی کرے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پر نہ تو کوئی شاہد ہو اور نہ وہ عین فعل کے وقت پکڑی گئی ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو وہ شخص اپنی بیوی کو کاہن کے پاس لائے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کاہن مٹی کے ایک برتن میں مقدس پانی لے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور مسکن کے فرش کے گرد لے کر اس پانی میں ڈالے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ کڑوا پانی اس عورت کو پلائے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب وہ اس کو پانی پلا چکے گا تو ایسا ہوگا کہ اگر وہ ناپاک ہوئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو وہ پانی جو لعنت کو لاتا ہے اس کے پیٹ میں جاکر کڑوا ہوجائے گا، اس کا پیٹ پھول جائے گا، اس کی ران سڑ جائے گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پر اگر وہ ناپاک نہیں ہوئی بلکہ پاک ہے تو بے الزام ٹھہرے گی اور اس سے اولاد ہوگی۔” ( گنتی۔ باب نمبر 5، 11 تا 31)

آپ جانتے ہیں کہ آج کل عدالتوں میں اس قسم کے بے شمار کیس پوری دنیا میں فیصلے کے منتظر ہیں، جن میں عورت پر اس شک کا اظہار کیا گیا ہے کہ وہ بدکردار ہے ۔ بلکہ مجھے اخبارات سے معلوم ہوا ہے کہ اس عظیم ملک امریکہ کے صدر جناب بل کلنٹن پر بھی چند سال پہلے اس قسم کے الزامات لگائے گئے تھے۔ میں سوچتا ہوں کہ امریکی عدالتیں ایسے مواقع پر انجیل میں بتایا گیا یہ امتحان کیوں نہیں لیتیں؟

ریاضی بھی سائنس کا ایک شعبہ ہے اور انتہائی اہم شعبہ ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو بائبل میں ہمیں سینکڑوں تضادات نظر آتے ہیں۔ میں ان میں سے صرف چند کا ہی ذکر کروں گا۔

جب بنی اسرائیل کو بال سے رہائی ملی تو وہ واپس آئے۔ ان کی فہرست بائبل میں موجود ہے۔ عزرا کے دوسرے باب کی ایات نمبر 2 تا 63 اور نحمیاۃ باب نمبر 7 آیات 7 تا 65۔ ان آیات میں مکمل فہرست دی گئی ہے۔ لیکن ان دونوں فہرستوں میں کم از کم 18 جگہ تضادات موجود ہیں۔

مزید برآں کتاب عزرا میں کل تعداد بیالیس ہزار تین سو ساٹھ بتائی گئی ہے جبکہ نحمیاۃ میں بھی کل تعداد یہی بتائی گئی ہے یعنی بیالیس ہزار تین سو ساٹھ لیکن جن میں نے خود اس تعداد کو جمع کیا تو جاب بلکل مختلف تھا۔۔

یعنی عزرا میں بیان کی گئی تعداد انتیس ہزار آٹھ سو اٹھارہ بنتی ہے۔ اسی طرح نحمیاۃ میں بیان کی گئی تعداد کو جمع کیا جائے تو وہاں بھی میزان اکتیس ہزار انانوے (31،089) آئے گا۔

اگر بائبل کا مصنف سیدھا سادا میزان بھی نہیں کرسکتا تھا تو کیا اس کتاب کو خدا کی جانب سے نازل کردہ تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ نعوذ باللہ

آگے چلیے۔ عزرا میں کہا گیا ہے کہ :

” ان کے ساتھ دو سو گانے والے اور گانے والیاں تھیں۔”

جب کہ نحمیاۃ میں کہا جارہا ہے:

” اور ان کے ساتھ دو سو پینتالیس گانے والے اور گانے والیاں تھیں۔”

اب آپ ہی بتائیے کہ یہ تعداد دو سو تھی یا دو سو پینتالیس؟ کیوں کہ بات ایک ہی سیاق و سباق میں ہورہی ہے لیکن ریاضیاتی تضاد موجود ہے۔ اسی طرح سلاطین کے باب نمبر 24 میں تحریر ہے:

” اور یہویاکین جب سلطنت کرنے لگا تو اٹھارہ برس کا تھا اور یروشلم میں اس نے تین مہینے سلطنت کی۔ ” ( آیت نمبر 8)

لیکن تواریخ ۔2 کے باب ننمبر 36 میں کہا جارہا ہے:

” یہویاکین آٹھ برس کا تھا جب وہ سلطنت کرنے لگا اور اس نے تین مہینے دس دن حکومت کی۔” ( آیت نمبر 9)

تضاد بالکل واضح ہے۔ میں ڈاکٹر کیمپبل سے پوچھنا چاہوں گا کہ جب یہویا کین نے سلطنت شروع کی تو اس کی عمر آتھ برس تھی یا اٹھارہ برس؟ اور یہ بھی کہ اس نے حکومت 3 مہینے کی یا تین مہینے دس دن؟

مزید برآں بائبل میں ہیکل سلیمانی کا ذکر کرتے ہوئے سلاطین ۔1 کے باب 7 کی آیت نمبر 26 مٰں تحریر ہے:

” اور دل اس کی چار انگل تھا اور اس کا کنارہ پیالہ کے کنارہ کی طرح گِل سوس کے مانند تھا اور اس میں دو ہزار بت کی سمائی تھی۔ ”

دوسری جگہ یعنی تواریخ ۔2، باب4، آیت 5 میں ہیکل سلیمانی ہی کے ذکر میں یہ بات اس طرح مذکور ہے:

” اور اس کی موٹائی چار انگل تھی اور اس کا کنارہ پیالہ کےکنارہ کی طرح اور سوسن کے پھول سے مشابہ تھا۔ اس میں تین ہزار بت کی سمائی تھی۔”

اب میں ڈاکٹر کیمپبل پر چھوڑتا ہوں۔ وہ ہمیں بتائیں کہ وہاں تین ہزار بت کی سمائی تھی یا دو ہزار بت کی ؟

یہاں ایک واضح ریاضیاتی تضاد ہمارے سامنے موجود ہے۔

آگے چلیے، سلاطین، 1 کے باب نمبر 15 کی آیات 33، 34 پڑھیئے۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہِ یہوداہ آسا کے چھبیسویں سال بعشا مرگیا تھا اور اسکی جگہ اس کا بیٹا ایلہ حکومت کرنے لگا۔

لیکن تواریخ۔2 کا سولھواں باب پڑھنا شروع کیجیئے۔ یہاں کہا گیا ہے کہ آسا کے بعد چھتیسواں برس بعشا نے یہوداہ پر حملہ کیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بعشا پنی موت کے دس سال بعد کس طرح یہوداہ پر چڑھائی کرسکتا ہے؟ یہ ایک بالکل غیر سائنسی بات ہے۔

ڈاکٹر ولیم کیمپبل کی آسانی کے لیے میں اپنی گفتگو کا خلاصہ بیان کردیتا ہوں تاکہ وہ اس کا جواب دے سکیں۔

پہلا نکتہ یہ کہ بائبل کے بیان کے مطابق کائنات چھ دنوں میں یعنی چوبیس گھنٹے والے دنوں میں تخلیق ہوئی جو کہ ظاہر ہے کہ غیر سائنسی بات ہے۔

دوسرا یہ کہ بائبل کے بیان کے مطابق روشنی کی تخلیق سورج اور ستاروں سے پہلے ہوئی تھی۔ یہ بات بھی غیر منطقی ہے۔

تیسرا نکتہ یہ تھا کہ دن اور رات کی تشکیل زمین کے تخلیق ہونے سے قبل ممکن نہیں لیکن بائبل ایسا ہی ظاہر کرتی ہے۔

چوتھا نکتہ میں نے یہ بیان کیا تھا کہ بائبل کے مطابق نباتات کی تخلیق سورج سے قبل ہوگئی تھی۔ یہ غیر سائنسی بیان ہے کیوں کہ پودوں کی اپنی نشوونما کے لیے سورج کی روشنی درکار ہوتی ہے۔

پانچویں بات میں نے یہ کی کہ زمین کی تخلیق سورج سے قبل بتائی گئی ہے اور یہ بات سائنس کی روشنی میں بالکل درست نہیں۔

چھٹا نکتہ یہ تھا کہ بائبل کے بیان کے مطابق چاند کی روشنی اس کی اپنی روشنی ہے۔

ساتواں نکتہ یہ تھا کہ زمین ہمیشہ قائم رہے گی یا فنا ہوجائے گی؟

آٹھواں نکتہ یہ ہے کہ بائبل میں زمین کے ستون بیان کیئے ۔

دوسواں یہ کہ بائبل کے بیان کے مطابق تمام بیج دار پھل انسان کے کھانے کے لیے بنائے گئے ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ ان مٰیں کئی انتہائی زہریلے بھی ہوتے ہیں۔

گیارھویں بات میں نے یہ کی تھی کہ بائبل میں ایک امتحان بتایا گیا ہے جس سے ایک سچے مسیحی کا ایمان معلوم کیا جاسکتا ہے۔ کیا کوئی مسیحی یہ امتحان دینے کے لیئے تیار ہے؟

بارھواں نکتہ یہ تھا کہ بیٹی کی پیدائش کی صورت میں ماں دگنے عرصے تک کیوں ناپاک رہتی ہے؟

تیرھواں نکتہ یہ تھا کہ بائبل میں مکان کو کوڑھ کو وبا سے محفوظ رکھنے کے لیے خون چھڑکنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ جو کہ قطعاً غیر سائنسی ہے۔

چودھواں نکتہ یہ کہ بدکرداری معلوم کرنے کے لیے جو کڑوے پانی کا امتحان بیان کیا گیا ہے اس کی وضاحت کی جائے۔

پندرھواں نکتہ یہ کہ بائبل میں ایک ہی جگہ ساٹھ سے بھی کم آیات میں اٹھارہ نکات ہیں۔

سولھواں نکتہ یہ کہ مندرجہ بالا معاملے میں دونں جگہ تعداد مختلف ہے یعنی ایک تو بیان کردہ کل تعداد غلط ہے اور دوسرے دونوں ابواب میں میزان مختلف نکلتا ہے۔

سوال نمبر سترہ یہ ہے کہ مندرجہ بالا موقع پر یعنی بابل سے بنی اسرائیل کی رہائی کے موقع پر گانے والیوں اور گانے والیوں کی تعداد دو سو تھی یا دو سو پینتالیس؟

اٹھارواں سوال یہ کہ جب یہویا کین نے سلطنت شروع کی اس کی عمر اٹھارہ سال تھی یا آٹھ سال؟

انیسواں سوال یہ ہے کہ اس نے حکومت تیین ماہ کی تھی یا تین ماہ اور دس دن؟

بیسواں سوال یہ ہے کہ ہیکل سلیمانی میں ” دو ہزات بت کی سماجی تھی” یا ” تین ہزار بت” کی؟

اکیسواں سوال یہ کہ بعشا اپنی موت کے دس سال بعد کیوں کر یہوداہ پر چڑھائی کرسکتا تھا؟

بائیسواں نکتہ یہ تھا کہ قوس قزح کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ طوفان نوح کے بعد خدا کے وعدے کی نشانی کے طور پر ظاہر ہوئی۔

میں نے بائبل میں موجود سینکڑوں سائنسی اغلاط میں سے صرف بائیس کی نشان دہی کی ہے میں ڈاکٹر ولیم کیمپبل سے درخواست کروں گا کہ وہ ان کا جواب دین وہ منطقی اور سائنسی طور پر ان 22 نکات کا جواب کبھی بھی نہیں دے سکیں گے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ہمارا بھی ایمان ہے۔ انہیں انجیل عطاء کی گئی تھی۔ لیکن وہ انجیل نہیں ہے۔ شاید اس میں جزوی طور پر خداوندی موجود ہو لیکن مجموعی طور پر وہ انجیل ہرگز نہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔ اس کی غیر سائنسی اور غیر منطقی حصہ ہرگز منزل من اللہ نہیں ہے۔

میں اپنی گفتگو کا اختتام اس ایت پر کرنا چاہوں گا:

فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلا فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ (سورۃ البقرہ 2 آیات 79)

” پس ہلاکت اور تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے شرع کا نوشتہ لکھتے ہیں پر لوگوں سے کہتے ہیں کہ اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے۔ تاکہ اس کے بدلے معاوضے میں تھوڑا سا فائدہ حاصل کرلیں۔ ان کے ہاتھوں کا یہ لکھا بھی ان کے لیے تباہی کا سامان ہے اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لیے موجب ہلاکت۔”

و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین


جوابی خطاب:ڈاکٹر ولیم کیمپبل

دیکھیئے، ڈاکٹر ذاکر نائیک کچھ حقیقی نوعیت کے مسائل سامنے لائے ہیں۔ جہاںتک قرآن کا تعلق ہے میں ان کے جواب سے اتفاق نہیں کرتا۔ یعنی جہاں تک ” علقۃ ” اور ” مضغۃ ” کے الفاظ کا تعلق ہے، میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے لیکن ظاہر ہے کہ ان کا ایک نقطئہ نظر ہے اور میرا بھی ایک نقطئہ نظر ہے۔ دونوں نقطئہ نظر سننے کے بعد ہر سکی کو گھر جاکر خود اس مسئلے پر غور کرنا چاہیئے۔

جہاں تک زہر والے امتحان کا تعلق ہے ، میں کسی ایسے شخص کو تو آپ کے سامنے پیش نہیں کرسکتا جو یہ امتحان دے چکا ہو، کیوں کہ وہ شخص فوت ہوچکا ہے لیکن میں اس کا واقعہ آپ کے سامنے بیان کرسکتا ہوں۔

میرے ایک دوست جن کا نام ہیری رینکلف تھا، وہ مراکش کے جنوبی علاقے کے ایک علاقے کے ایک قصبے میں رہائش پذیر تھے۔ اسی قصبے کے ایک شخص نے جسے وہ اپنا دوست سمجھتے تھے، ان کی دعوت کی، اس نے ان کی بیوی اور بیٹے کو بھی دعوت میں مدعو کیا۔ ہیری نے یہ دعوت قبول کرلی۔ لیکن بعد میں کسی شخص نے آکر انہیں بتایا کہ وہ شخص انہیں زہر دینا چاہتا ہے۔ اس کے باوجود وہ اس دعوت میں گئے۔ ہیری نے مذکورہ آیت کی روشنی میں فیصلہ کیا کہ اسے وہاں جانا چاہیئے۔ لہذا وہ دعوت میں گئے۔ انہوں نے کوشش کی کہ اگر موقع ملے تو وہ پلیٹیں تبدیل کردیں۔ لیکن ا نہیں یہ موقع نہ مل سکا۔ البتہ اپنے بیٹے کو وہ اچھی طرح کھانا کھلا کر لے گئے تھے۔ ان کی بیوی نے بھی زیادہ کھانا نہیں کھایا۔ لیکن ہیری کو کھانا ہی پڑا۔

اس رات ہیری کے معدے میں تکلیف ہوئی اور کچھ دیگر مسائل ہوئے لیکن وہ زندہ رہا، دو دن بعد ہیری اُس شخص کے گھر گیا، دروازے پر دستک دی، جب وہ باہر آیا تو ہیری کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس کا چہرہ سفید پڑگیا۔ لیکن ہیری دعوت کا شکریہ ادا کرکے واپس آگیا۔

چوں کہ یہ واقعہ مجھے یاد آگیا تھا۔ لہذا میں نے سوچا آپ کو سنا ہی دیا جائے۔

اچھا، ایک بات آپ نے یہ کی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صرف یہودیوں کی طرف بھیجا گیا تھا اور دیگر اقوام کی طرف نہیں۔

لیکن خود قرآن میں کہا گیا ہے:

وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِنَّا وَكَانَ أَمْرًا مَقْضِيًّا (سورۃ مریم 19 آیت 21)

” اور ہم یہ اس لیے کریں گے کہ اس لڑکے کو لوگوں کیلئے نشانی بنائیں اور اپنی طرف سے رحمت۔ ” ( سورۃ مریم 19 آیت 21)

اسی طرح انجیل میں کہا گیا ہے۔:

” یسوع نے پاس آکر ان سے باتیں کیں اور کہا آسمان اور زمین کا کل اختیار مجھے دیا گیا ہے۔ پس تم جاکر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور ان کو باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نام سے بپتسمہ دو۔ ” ( متی بات 28، 18-19)

لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے شاگردوں کو صرف یہودیوں کی طرف جانے کے لیے بھی کہا تھا اور اس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ کیوں کہ یہودیوں کو ایک یقینی موقع دیا جانا تھا۔

انجیل میں ایک کہانی بیان کی گئی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلکہ شیاد مجھے ” کہانی ” کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیئے، یہ تو تاریخ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں تو حکایت کچھ یوں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک انجیر کے درخت کے پاس آئے۔ اس درخت پر تین سال سے پھل نہیں آیا تھا۔ جب پوچھا گیا کہ کیا اس درخت کو اُکھاڑ پھینکا جائے تو حضرت عیسٰی علیہ السلام نے جواب دیا کہ ” نہیں ” ایک سال مزید انتظار کرو اور دیکھو ، شاید درخت پھل لے آئے۔

یہ ایک تمثیل تھی، بنی اسرائیل کے بارے میں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تین سال تک انہیں تبلیغ کی تھی اور چھ ماہ تک مزید تبلیغ کرنی تھی۔ اسی طرح مزید تمثیلات بھی موجود ہیں۔ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نعمت ان سے لے کر غیر اقوام کے حوالے کردی جائے گی۔

ڈاکٹر نایک نے ” دن کے ضمن میں ” زمانوں ” کے بارے میں بھی بات کی ہے۔ بائبل میں ” دن ” کے لفظ سے مراد ایک طویل زمانہ بھی ہوسکتا ہے۔ ضرور نہیں کہ اس سے چوبیس گھنٹے والا دن ہی مراد ہو جیسا کہ ڈاکٹر موریس بوکائیے نے اپنی کتاب میں ثابت کرنا چاہا۔ میرا خیال یہی ہے کہ اس سے طویل زمانے مراد ہیں۔ دیگر مسائل بھی ہیں جن کا ذکر ڈاکٹر نائیک نے کیا ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ مسائل موجود ہیں اور ان کے مناسب جوابات میرے پاس نہیں ہیں۔

لیکن میں یہاں اس حوالے سے بات ضرور کرنا چاہوں گا کہ ڈاکٹر صاحب نے دو طرح کے پانی کا ذکر کیا ، نمکین یا کھارا پانی اورمیٹھا پانی۔ میں اس سلسلے میں ان کی وضاحت سے بالکل مطمئن نہیں ہوں۔ قرآن یہ کہتا ہے کہ دو طرح کے پانی ہیں جو اکھٹے ہوتے ہیں لیکن ان کے درمیان ایک روک ہوتی ہے جو انہیں ملنے نہیں دیتی۔ یہاں روک یا رکاوٹ کے لیے قرآن نے جو لفظ استعمال کیا ہے ، وہ ہے برزخ، برزخ کے معانی وقفہ ، رکاوٹ ، فاصلہ وغیرہ ہوتے ہیں۔

یہی بات سورۃ فرقان میں بھی کہی گئی ہے:

وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَحْجُورًا (سورۃ الفرقان 25 آیت 53)

” اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھا ہے۔ ایک لذیذ و شیریں، دوسرا تلخ و شور، اور دونوں کے درمیان، ایک پردہ حائل ہے، ایک رکاوٹ ہے جو دونوں کو گڈ مڈ ہونے سے روکے ہوئے ہے۔ ”

یہاں عربی کے دو الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ جن کا مادہ ایک ہی ہے اور ایسا ہر زبان میں اس وقت کیا جتا ہے جب کسی بات پر زور دیا جانا مقصور ہو۔ تاکید مطلوب ہے لہذا یہاں ترجمہ یہی ہونا چاہیئے کہ کوئی باقاعدہ روک ہے جو کہ دونں طرح کے پانیوں کے مابین موجود ہے۔

لیکن میرے دوست نے کہا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ دونوں طرح کے پانی الگ الگ رہتے ہیں۔ یعنی نمکین پانی اور تازہ پانی ایک دوسرے سے علیحدہ رہتے ہیں۔ ڈاکٹر بوکائیے نے بھی اس حوالے سے کافی بحث کی ہے اور تسلیم کیا ہے کہ سمندر میں آگے جاکر بالآخر پانی آپس میں مل جاتے ہیں۔ بات صرف یہ ہے کہ اتنی زیادہ مقدار میں پانی کو حل ہونے کے لیے کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔

ایک چھوٹی سی مثال میں ذاتی طور پر بھی پیش کرسکتا ہوں، تیونس میں میرا ایک دوست ہے جو آکٹوپس پکڑتا ہے، ایک دفعہ اس سے ملنے گیا، میں پانی میں تیر رہا تھا۔ اچانک مجھے محسوس ہوتا کہ پانی اوپر سے ٹھنڈا اور نیچے سے گرم ہے ۔ میں حیران ہوا کہ یہ کیوں کر ممکن ہے۔

غور کرنے پو اندازہ ہوا کہ قریب ہی ایک ندی آکر سمندر میں گرررہی تھی۔ ٹھنڈا پانی ندی کا تھا اور گرم پانی سمندر کا۔ سمندری پانی چوں کہ نمکین ہونے کی وجہ سے بھاری ہوتا ہے، لہذا وہ نیچے تھا اور تازہ پانی ہلکا ہونے کی وجہ سے اوپر تھا۔ یہی معاملہ ہوتا ہے، رکاوٹ کوئی نہیں ہوتی۔

ڈاکٹر صاحب نے زبانوں کی بات کی اور ظاہر ہے میں ہندوستانی زبانیں نہیں بول سکتا بلکہ امریکی ہندیوں Red Indians کی زبانیں بھی نہیں بول سکتا لہذا امریکہ اور ہندوستان سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن بات یہ ہے کہ انجیل کے جس مقام کے بارے میں وہ بات کررہے ہیں وہاں بات حواریوں کے بارے میں ہورہی ہے جنہیں یہ صلاحیت ایک معجزے کے طور پر دی گئی تھی۔ لیکن یہ وہ زبانیں تھیں جو وہاں کے موجود لوگ بولا کرتے تھے۔ اس سے مراد دنیا بھر کی چھوٹی چھوٹی اور گمنام زبانیں نہیں۔ ہوتا یہ تھا کہ اگر وئی شخص سپین سے آیا ہے تو حواری اس کے ساتھ سپین کی زبان میں گفتگو کرتا تھا۔ اگر کوئی دوسرا شخص ترکی سے آیا ہے تو اس کے ساتھ اس کی زبان میں گفتگو کی جاتی تھی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب ہم بات کریں گے پیش گوئیوں کے بارے میں، ایک سچے نبی کو پہچاننے کا طریقہ یہ بھی ہے کہ کیا اس کی پیش گوئیاں سچ ثابت ہوئیں؟ آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بھی یہ سوال کرسکتے ہیں کہ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیش گوئیاں پوری ہوئیں؟ کیا، ان سے معجزات کا صدور ہوا؟

ہم پیش گوئیوں کا ریاضیاتی تجزیہ کریں گے۔ اس نظریے کو Theory of Probabilities بھی کہتے ہیں۔ میں ایک مثال پیش کرتا ہوں۔

فرض کیجیئے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے پاس دس قمیصیں ہیں اور ان میں ایک کا رنگ سرخ ہے۔ اب میں پیش گوئی کرتا ہوں کہ ” کل ڈاکٹر ذاکر نائیک سرخ قمیص پہنیں گے۔” اور فرض کیجیئے اگلے دن واقعی ڈاکٹر ذاکر نائیک سرخ قمیص پہنتے ہیں۔ اگر میں اپنی اس پیش گوئی کی بنیاد پر نبوت کا دعوٰی کروں تو کیا ہوگا؟ میرا ہر دوست کہے گا کہ نہیں نہیں، یہ تو محض اتفاق ہے۔

لیکن فرض کیجیئے میں ایسی ہی پیش گوئی ڈاکٹر سمویل نعمان کے بارے میں بھی کردیتا ہوں کہ وہ اپنی تین سو جوتیوں میں کل کون سی جوتی پہنیں گے۔ اسی طرح ڈاکٹر سبیل احمد کے بارے میں بھی پیش گوئی کردیتا کہ وہ اپنی پانچ ٹوپیوں میں سے کل کون سی ٹوپی پہنیں گے تو میری ان تین پیش گوئیوں کے بیک وقت درست ثابت ہونے کا امکانات کس قدر ہیں؟

یہ امکان ڈیڈہ سو میں سے ایک ہے۔ ہم یہاں دس پیش گوئیوں کا ذکر کریں گے۔ ہمارے پاس وقت محدود ہے، اس لیے صرف دس پیش گوئیوں کا ذکر کیا جائے گا۔

پہلی پیش گوئی یرمیاہ کی ہے۔ 600 قبل مسیح میں پیش گوئی کردی گئی کہ مسیح کا تعلق داؤد کی نسل سے ہوگا۔ یرمیاہ میں بتادیا گیا کہ داؤد کی نسل سے ایک بادشاہ کے آنے کا وقت آرہا ہے جو یہوواہ کہلائے گا۔ یہ پیش گوئی پوری ہوئی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم پیدا ہوئے، بنی اسرائیل میں اولادِ داؤد کا تناسب میرے خیال میں دو سو ایک تھا۔ یعنی اس پیش گوئی کے پورا ہونے کا امکان دو سو میں ایک ہی تھا۔

دوسری پیش گوئی کہ دائمی حکومت کرنے والا بیت اللحم میں پیدا ہوگا۔ یہ بات میکاہ میں کی گئی یعنی 750قم میں۔ اب یہ دیکھیئے کہ بیت اللحم میں پیدا ہونے کے امکانات کیا ہیں، اگر حساب لگایا جائے تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تقریباً 280 میں سے ایک امکان یہ ہے۔

تیسری پیش گوئی ملا کی کے تیسرے باب میں کی گئی ہے:

” دیکھو میں رسول بھیجوں گا اور میرے آگے راہ درست کردے گا اور خداوند جس کے تم طالب ہو، ناگہاں اپنی ہیکل میں آموجود ہوگا۔ ہاں عہد کا رسول جس کے تم آرزو مند ہو۔”

یہ بات 400 قم کی ہے۔ یحیٰی ابن زکریا نے بھی یہی پیش گوئی کی ۔ قرآن بھی اس کی تائید کرتا ہے۔ سورۃ آل عمران میں کہا گیا ہے۔:

فَنَادَتْهُ الْمَلائِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ أَنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَى مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَسَيِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِيًّا مِنَ الصَّالِحِينَ (٣٩)قَالَ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلامٌ وَقَدْ بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ وَامْرَأَتِي عَاقِرٌ قَالَ كَذَلِكَ اللَّهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ (٤٠)قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِي آيَةً قَالَ آيَتُكَ أَلا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ إِلا رَمْزًا وَاذْكُرْ رَبَّكَ كَثِيرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالإبْكَارِ (٤١)وَإِذْ قَالَتِ الْمَلائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاءِ الْعَالَمِينَ (٤٢)يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ (٤٣)ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ (٤٤)إِذْ قَالَتِ الْمَلائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ (سورۃ آل عمران 3 آیات 39 تا 45)

” فرشتوں نے آواز دی جب کہ وہ محراب میں کھڑا نماز پڑھ رہا تھا، کہ ” اللہ تجھے یحیٰی علیہ السلام کی خوش خبری دیتا ہے۔ وہ اللہ کی طرف سے ایک فرمان ( یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ) کی تصدیق کرنے والا بن کر آئے گا۔ اس میں سرداری و بزرگی کی شان ہوگی۔ کمال درجے کا ضابط ہوگا۔ نبوت سے سرفراز ہوگا اور صالحین میں شمار کیا جائے گا۔” زکریا علیہ السلام نے کہا ” پروردگار! بھلا میرے ہاں لڑکا کہاں سے ہوگا؟ میں تو بہت بوڑھا ہوچکا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے۔”

جواب ملا: ” ایسا ہی ہوگا، اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔” عرض کیا ” مالک ، پھر کوئی نشانی میرے لیے مقرر فرما دے۔” کہا ” نشانی یہ ہے کہ تم تین دن تک لوگوں سے اشارہ کےک سوا کوئی بات چیت نہ کرو گے ( یا نہ کرسکو گے )۔ اس دوران اپنے رب کو بہت یاد کرنا اور صبح شام اس کی تسبیح کرتے رہنا۔ ”

پھر وہ وقت آیا جب مریم علیہا السلام سے فرشتوں نے آکر کہا ” ابن مریم ( علیہ السلام )! اللہ نے تجھے برگزیدہ کیا اور پاکیزگی عطا کی اور تمام دنیا کی عورتوں پر تجھ کو ترجیح دے کر اپنی خدمت میں چل لیا۔ اے مریم ( علیہ السلام )! اپنے رب کی تابع فرمان بن کر رہ۔ اس کے آگے سربہ سجود ہو، اور جو بندے اس کے حضور جھکنے والے ہیں ان کے ساتھ تو بھی جھک جا۔”

اے نبی ﷺ ! یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تم کو وحی کے ذریعے سے بتا رہے ہیں۔ ورنہ تم اس وقت وہاں موجود نہ تھے جب ہیکل کے خادم یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ مریم علیہ السلام کا سرپرست کون ہو؟ اپنے اپنے قلم پھینک رہے تھے، اور نہ تم اس وقت حاضر تھے جب ان کے درمیان جھگڑا برپا تھا۔

اور جب فرشتوں نے کہا: ” اے مریم علیہ السلام! اللہ تجھے اپنے ایک فرمان کی خوش خبری دیتا ہے۔ اس کا نام مسیح عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم ہوگا۔ دنیا اور آخرت میں معزز ہوگا۔ اللہ کے مقرب بندوں میں شمار کیا جائے گا۔ لوگوں سے گہوارے میں بھی کلام کرے گا اور بڑی عمر کو پہنچ کر بھی، اور وہ ایک مردِ صالح ہوگا۔”

چوتھی پیش گوئی یہ کہ مسیح علیہ السلام سے معجزات کا صدور ہوگا۔ ہم انجیل میں پڑھتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام کی پیش گوئی میں کہا گیا ہے کہ مسیح علیہ السلام سے بہت سے معجزات صادر ہوں گے۔ وہ اندھوں، بہروں اور گونگے لوگوں کو ٹھیک کردے گا۔

ہم انجیل اور قرآن دونوں میں دیکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کس قدر معجزات کا صدور ہوا۔ بعض اوقات ان کے پاس آنے والے سبھی لوگ شفایاف ہوجاتے تھے۔

بہت سے مسلمانوں کا خیال ہے کہ انبیائے کرام کی کل تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان 1,24,000 انبیاء علیھم السلام میں سے واحد تھے، جن پر یہ پیش گوئی صادق آتی ہے۔

پانچویں پیش گوئی یہ کہ ان کے بھائی ان کی مخالفت کریں گے۔ اس پیش گوئی کے پورا ہونے کے امکانات کتنے تھے؟ چوں کہ بہت سے رہنماؤں کے رشتہ دار ان کی مخالفت کرتے ہیں، لہذا ہم کہ سکتے ہیں کہ پانچ میں سے ایک امکان تھا۔

چھٹی پیش گوئی جو کہ حضرت زکریا علیہ السلام نے 520 ق م کی، اور وہ یہ کہ مسیح گدھے پر سوار ہوکر یروشلم میں داخل ہوگا۔ کتنے حکمران ہیں جو گدھے پر سوار ہوکر یروشلم میں داخل ہوں گے۔ آج کل تو ظاہر ہے کہ لوگ مرسیڈیز کارں میں ہوتے ہیں۔ اس وقت بھی میرے خیال میں سو میں سے ایک چانس تھا۔

ساتویں پیش گوئی ہیکل کی تباہی سے متعلق ہے جو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خود کی تھی۔ 30ء میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پیش گوئی کی اور چالیس سال بعد یہ پیش گوئی پوری ہوئی، جب رومی جرنیل ٹائی ٹس نے طویل محاصرے کے بعد یروشلم پر قبضہ کیا۔

اس پیش گوئی کے پورا ہونے کا امکان پانچ میں سے ایک تھا۔ کیوں کہ یہودیوں کی بغاوت اور پھر ان کا کچلا جانا کچھ ایسا غیر متوقع نہیں تھا۔

آٹھویں پیش گوئی یہ کہ مسیح کو مصلوب کیا جائے گا۔

کتنے لوگ مصلوب ہوئے ہیں؟ ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اس پیش گوئی کے پورے ہونے کا امکان دس ہزار میں سے ایک تھا۔

نویں پیش گوئی یہ کہ لوگ اس کے کپڑے آپس میں تقسیم کرلیں گے۔ اس پیش گوئی کے پورا ہونے کا امکان، میرے خیال مٰں ، سو میں سے ایک تھا۔

بے گناہ ہونے کے باوجود اپنی موت کے لحاظ سے ، گناہ گاروں اور امنیر لوگوں کے ساتھ شامل کردیا جائے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ڈاکؤں کے ساتھ مصلوب کیا گیا تھا۔ اس پیش گوئی کے پورا ہونے کا امکان ہزار میں سے ایک تھا۔

آخری پیش گوئی یہ کہ مصلوب ہونے کے بعد دوبارہ جی اُٹھے گا۔ اس پیش گوئی کے ساتھ تو ظاہر ہے کہ کوئی بھی قدر وابستہ کی ہی نہیں جاسکتی۔

اب ہم ذرا ان تمام پیش گوئیوں کے پورا ہونے کے امکانات کا حساب لگاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ امکان، 28,0,000,000,000 میں سے ایک ہے۔

ایک آسان مثال یہ ہے کہ فرض کرلیجیئے پوری ریاست ٹیکساس میں ایک ایک ڈالر کے سکوں کی ایک میٹر اونچی تہہ بچھا دی جائے اور پھر آپ کو اس میں سے ایک نشان زدہ سکہ ڈھونڈنے کو کہا جائے تو جس قدر امکان آپ کے وہ سکہ ڈھونڈ لینے کا ہے۔ اسی قدر امکان ان پیش گوئیوں کے پورا ہونے کا ہے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں کوئی امکان نہیں ہے۔

ایسی بہت سی دیگر پیش گوئیاں بھی ہیں اور یہ ثبوت ہیں اس بات کا کہ انجیل برحق ہے اور یہوداہ الوہیم کی جانب سے نازل شدہ ہے۔

انجیل ہمیں یہ بتاتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہمارے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لے تشریف لائے تھے۔ یہ ایک اچھی خبر ہے جب کہ قرآن ہمیں بُری خبر سناتا ہے۔ سورۃ النحل میں تحریر ہے:

وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَا تَرَكَ عَلَيْهَا مِنْ دَابَّةٍ وَلَكِنْ يُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلا يَسْتَقْدِمُونَ (سورۃ النحل 16 آیت 61)

” اگر کہیں اللہ لوگوں کو ان کی زیادتی پر فوراً ہی پکڑ لیا کرتا تو روئے زمین پر کسی متنفس کو نہ چھوڑتا۔ لیکن وہ سب کو ایک وقت مقرر تک مہلت دیتا ہے پھر جب وہ وقت آجاتا ہے تو اس سے کوئی ایک گھڑی بھر بھی آگے یا پیچھے نہیں ہوسکتا۔”

مسئلہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو اپنی پوری کوشش کرلیں۔ ان کے بارے میں بھی قرآن محض ایک امکان ہی پیش کرتا ہے، یعنی ” شاید ”

مثلاً سورۃ قصص میں کہا گیا:

فَأَمَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَعَسَى أَنْ يَكُونَ مِنَ الْمُفْلِحِينَ (سورۃ القصص 28 آیت 68)

” البتہ جس نے آج توبہ کرلی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیے، وہی یہ توقع کرسکتا ہے کہ وہاں فلاح پانے والوں میں سے ہوگا۔”

یعنی وہ بھی یقین نہ رکھے ، بلکہ محض توقع ہی رکھ سکتا ہے۔ اسی طرح سورۃ تحریم میں کہا گیا ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأنْهَارُ (سورۃ التحریم 66 آیت 8)

” اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ سے توبہ کرو، خالص توبہ، بعید نہیں کہ اللہ تمہاری برائیاں دُور کردے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل فرما دے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی۔”

سورۃ توبہ میں تحریر ہے:

إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلا اللَّهَ فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ (سورۃ التوبہ 9 آیت 18)

” اللہ کی مسجدوں کے آباد کار ( مجاور و خادم ) تو وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو اللہ اور روزِ آخر کو مانیں اور نماز قائم کریں، زکواۃ دیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریںِ انہی سے یہ توقع ہے کہ سیدھی راہ چلیں گے۔”

یعنی بالآخر تنہائی ہے۔ اگر ایک شخص ایمان نہیں لاتا تو وہ یقیقی طور پر جہنم میں جائے گا۔ لیکن اگر وہ ایمان لے بھی آتا ہے تو روزِ محشر وہ یک و تنہا خدا کے سامنے کھڑا ہوگا۔ نہ کوئی دوست ہوگا نہ سفارشی، اور محض توقع ہی کرسکتا ہے، امید ہی رکھ سکتا ہے کہ شاید وہ بخشے جانے والوں میں شامل ہوجائے۔ اور یہ بڑی سخت خبرہے۔ مندرجہ بالا آیات میں لفظ ” عسٰی ” استعمال ہوا ہے جس کا مطلب ہے ” شاید ہوسکتا ہے، امکان ہے۔ ” وگیرہ

دوسری طرف انجیل میں ہمیں اچھی خبر ملتی ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں:

” میں خدمت کروانے کے لیے نہیں بلکہ خدمت کرنے کے لیے آیا ہوں تاکہ اپنی زندگی، بہت سی زندگیوں کے کفارے میں دے سکوں۔”

اسی طرح بائبل میں مزید کہا گیا ہے:

” اگر تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لاؤ اور دل سے یہ یقین رکھو کہ خدا نے انہیں زندہ کردیا تھا تو تمہاری نجات یقینی ہے۔”

یہ ایک حیرت انگیز طو رپر خوش کن خبر ہے۔ آپ پوری ہونے والی پیش گوئیوں کو ثبوت کے طور پر پڑھیں۔ 500 لوگوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو مصلوب ہونے کے بعد، زندہ دیکھا تھا۔ بہت سے آثار قدیمہ بھی ایسے دریافت ہوئے ہیں جو بائبل کی تائید کرتے ہیں۔

میں آپ سب کو یہ دعوت دیتا ہوں کہ آپ بائبل کا مطالعہ کریں۔ آپ کو اپنی روح کے لیے بہت سی خوش خبریاں ملیں گی۔ خدا آپ پر رحم کرے۔

بہت بہت شکریہ

جوابی خطاب:ڈاکٹر ذاکر نائیک

محترم ڈاکٹر ولیم کیمپبل صاحب، سٹیج پر تشریف فرما دیگر معززین، میرے بزرگو، بھائیو اور بہنو! میں آپ سب کو دوبارہ اسلامی طریقے سے خوش آمدید کہتا ہوں:

السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

ڈاکٹر ولیم کیمپبل نے میرے بیان کردہ بائیس نکات میں سے صرف دو نکات کو چھیڑا ہے، جی ہاں، صرف دو نکات کو۔

پہلا نکتہ جس کا انہوں نےجواب دینے کی کوشش کی وہ یہ تھا کہ بائبل میں کائنات کی نشکیل چھ دنوں میں ہونے کا بتایا گیا ہے، ان دنوں سے کیا مراد ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ان دنوں سے مراد طویل زمانے ہیں، اس بات کا جواب میں اپنی گفتگو میں پہلے ہی دے چکا ہوں کہ اگر آپ ” دن ” سے مراد ایک طویل زمانہ لیتے ہیں تو آپ چھ میں سے صرف دو مسائل حل کرتے ہیں، باقی چار مسائل حل طلب ہی رہ جاتے ہیں۔ آفرینش کائنات کے حوالے سے وہ ان مسائل کو تسلیم کرتے ہیں، یہ اچھی بات ہے۔

دوسرا نکتہ جس کا انہوں نے ذکر کیا، وہ مرقس کی انجیل میں بتائے گئے امتحان کے بارے میں تھا۔ اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ان کےایک دوست نے جس کا نام ہیری تھا یا جو کچھ بھی اس کا نام تھا، مراکس میں اس نے زہر کھایا اور اس پر اثر نہیں ہوا۔ لیکن انجیل تو کہتی ہے کہ :

” اور اگر کچھ ہلاک کرنے والی چیز پیئیں گے تو انہیں کچھ ضرر نہ پہنچے گا۔” ( مرقس، باب 16-18)

یہاں واضح طو پر پینے کا ذکر ہے، کھانے کا نہیں، لیکن پھر بھی میں ان کی بات مانے لیتا ہوں کہ کھانے یا پینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر کوئی زہر پینے کی بنجائے کھالے تو بھی وہ اس امتحان پر پورا اُترے گا۔ لیکن ذرا تصور کیجیئے ایک شخص، وہ بھی مراکش میں، وہ بھی فوت ہوچکا ہے، مجےے بتایا گیا ہے کہ دنیا میں دو ارب مسیحی ہیں، اب دو ارب لوگوں میں سے کوئی بھی آگے نہیں آئے گا؟

میرا تو خیال تھا کہ ڈاکٹر ولیم کیمپبل خود یاک صاحب ایمان مسیحی ہیں۔ وہ خود یہ امتحان دینے کے لیئے آگے بڑھیں، نہ کہ ان کا دوست جو پہلے ہی فوت ہوچکا ہے۔

دوسری بات یہ تھی کہ وہ نئی نئی زبانیں بولیں گے، ڈاکٹر صاحب نے کہا اس وقت وہ لوگ یہ زبانیں بولتے تھے، یہ امتحان دینا ذرا بھی مشکل نہیں تھا۔ آخر آپ کو ان چند زبانوں میں ایک ایک جملہ بولنا تھا۔ ان زبانوں کو سمجھنے والے یہاں موجود ہوں گے۔

لیکن بات یہ ہے کہ میں اپنی زندگی میں ہزاروں مسیحیوں سے مل چک اہوں اور ان میں سے کوئی ایک بھی اس امتحان میں پورا نہیں اُترا۔ اگر آج تک اس امتحان میں ناکام رہنے والوں کی تعداد ایک ہزار تھی تو آج ایک ہزار ایک ہوگئی ہے۔ کیوں کہ ڈاکٹر ولیم کیمپبل سے بھی ملاقات ہوگئی ہے۔

میرے بیان کردہ بائیس نکات میں سے ڈاکٹر ولیم نے انہی دو نکات کو چھیڑا اور باقی ماندہ بیس نکات کا ذکر ہی نہیں کیا۔ اس کی بجائے انہوں نے پیش گوئیوں کی بحث شروع کر دی۔ پیش گوئیوں کا زیر بحث موضوع ، یعنی ” بائبل اور جدید سائنس ” سے کیا تعلق ہے؟

اگر پیش گوئیاں ہی معیار ہیں تو پھر ناسٹراڈیمس کی کتاب بہترین کتاب ہے۔ اس بیناد پر تو اسے کلامِ خداوندی تسلیم کرلیا جانا چاہیئے۔ ڈاکٹر ولیم نے Theory of Probability کا ذکر کیا اور اس کا اطلاق بائبل کی پیش گوئیوں پرکیا۔ اگر آپ اس تھیوری کا درست اطلاق دیکھنا چاہتے ہیں تو میری کتاب ” قرآن اور سائنس ” کا مطالعہ کیجیئے۔

اگر میں چاہوں تو انجیل کی انہی پیش گوئیوں کو غلط بھی ثابت کرسکتا ہوں لیکن میں ایسا نہیں کروں گا۔ میں تسلیم کرلیتا ہوں کہ جتنی پیش گوئیوں کا ذکر انہوں نے کیا وہ سب مکمل طور پر درست ہیں لیکن ان کا طرزِ استدلال سے بھی یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر انجیل کی ایک بھی پیش گوئی غلط ثابت ہوجائے تو اس کا مطلب ہوگا کہ یہ کتاب منزل من اللہ نہیں ہے۔ اور میں ایسی پیش گوئیوں کی پوری فہرست آپ کے سامنے پیش کرسکتا ہوں۔

مثال کے طور پر کتاب پیدائش کے چوتھے باب کے بارھویں آیت میں قائن سے کہا گیا کہ:

” جب تو زمین کو جوتے گا تو اہ اب تجھے اپنی پیداوار نہ دے گی اور زمین پر تو خانہ خراب اور آوارہ ہوگا۔”

لیکن چند ہی سطروں کے بعد ایت نمبر 17 میں پتہ چلتا ہے:

” اور اس نے ایک شہر بسایا اور اس کا نام اپنے بیٹے کے نام پر حنوک رکھا۔”

یعنی پیش گوئی بالکل غلط ثابت ہوئی۔

اسی طرح یرمیاۃ کے باب 36 کی آیت 30 میں ہم پڑھتے ہیں:

” اس لیے شاہ یہوواہ یہو یقییم کی بابت خداوند یوں فرماتا ہے کہ اس کی نسل میں کوئی باقی نہ رہے گا جو داؤد کے تخت پر بیٹھے اور اس کی لاش پھینکی جائے گی تاکہ دن کو گرمی میں، رات کو پالے میں پڑی رہے۔”

لیکن اگر سلاطین ۔ 2 کے چوبیسویں باب کی چھٹی آیت کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ:

” اور یہو یقیم اپنے باپ دادا کےک ساتھ سوگیا اور اس کا بیٹا یہویاکین اس کی جگہ بادشاہ ہوا۔”

یعنی پیش گوئی غلط ثابت ہوئی۔

اگرچہ ایک ہی پیش گوئی کا غلط ہونا ثابت کردیتا ہے کہ موجودہ انجیل کلام خداوندی نہیں ہے۔ لیکن میں بہت سی مثالیں پیش کرسکتا ہوں۔

حزقی ایل، باب 26، کی آیت نمبر 8 میں بتایا گیا ہے کہ بنوکدرضر، شاہِ بابل ، صور کے شہر کو تباہ کرے گا لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ اس شہر کو سکندر اعظم نے تباہ کیا تھا، گویا یہ پیش گوئی بھی درست ثابت نہیں ہوئی۔

یسیعیاہ، باب نمبر 7، ایت 14 میں کہا گیا ہے:

” دیکھو، ایک کنواری حاملہ ہوگی اور بیٹا پیدا ہوگا اور وہ اس کا نام عمانوایل رکھے گی۔”

اول تو یہاں غلط ترجمہ کیا جارہا ہے کیوں کہ جو اصل عبرانی لفظ یہاں استعمال ہوا ہے، اس کا مطلب ” کنواری ” نہیں ہوتا بلکہ اس کے معنی “جوان عورت ” ہیں۔ لیکن مسیحی حضرات کا کہنا ہے کہ یہ بات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہ جارہی ہے۔ لہذا ہم ان کی مانے لیتے ہیں کہ واقعی یہاں لفظ کنواری استعمال ہوا ہے لیکن یہ آیت کہتی ہے کہ اس کا نام عما نوایل ہوگا اور پوری بائبل میں کسی بھی جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عمانوایل کے نام سے نہیں پکارا گیا۔ لہذا بہرصورت یہ پیش گوئی غلط ثابت ہوئی۔

میں بہت سی مثالیں مزید بھی پیش کرسکتا ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا، ایک ہی مثال یہ ثابت کرنے کے لیے کفایت کرتی ہے۔ کہ بائبل کلامِ خداوندی نہیں ہے۔ میں نے تو بہت سی مثالیں پیش کردی ہیں۔ لہذا آپ کے پش کردہ نظرئیے کے مطابق بھی یہی ثابت ہوتا ہھےکہ بائبل کلامِ خداوندی نہیں ہے۔

ڈاکٹر ولیم کیمپبل نے میرے اُٹھائے ہوئے نکات کا جواب دینے کے علاوہ بھی چھ سات باتیں کی ہیں جن کا میں ان شاء اللہ اختصار کے ساتھ جواب ضرور دوں گا۔

انہوں نے ایک بات ، میرے حوالے سے اور برادر شبیر علی کے حوالے سے کی کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن کے مطابق چاند کی روشنی منعکس روشنی ہوتی ہے۔ جب کہ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔

میں دوبارہ عرض کرتا ہوں، سورۃ فرقان میں ارشاد ہوتا ہے:

تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُنِيرًا (سورۃ الفرقان 25 آیت 61)

” بڑآ متربک ہے وہ جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس میں ایک چراغ اور ایک چمکتا چاند روشن کیا۔”

اس آیت میں سورج کو چراغ قرار دیا گیا ہے۔ اور چاند کے لیے لفظ قمر استعمال ہوا ہے ، قمر کے ساتھ ہمیشہ منیر کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی منعکس یا مستعار روشنی ہے ہیں۔ سورج کے لیے شمس کا لفظ استعمال ہوا ہے اور سورج کو ہمیشہ روشن چراغ ہی قرار دیا گیا ہے۔ میں حوالے پیش کرسکتا ہوں۔ مثال کے طور پر:

سورۃ نور، آیات 15 تا 16

سورۃ یونس ، آیت 5

اور اسی طرح متعدد آیات

انہوں نے مزید یہ کہا کہ اگر ” نور ” سے مراد منعکس روشنی ہے تو یہ لفظ سورۃ نور میں خود اللہ سبحانہ و تعالی کے لیے بھی استعمال ہوا ہے جہاں اللہ تعالی کے بارے میں ارشاد ہے کہ وہی زمین و آسمان کا نور ہے۔

آپ پوری آیت کا مطالعہ کیجیئے۔ اور پھر دیکھیے کہ یہاں کیا کہا جارہا ہے ؟

اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الأمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (سورۃ النور 24 آیت 35)

” اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ ( کائنات میں ) اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو۔ وہ چراغ ایک فانوس میں ہو، فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا، اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقہ ہو نہ غربی، جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہو چاہے آگ اس کو نہ لگے۔ ( اس طرح ) روشنی پر روشنی ( بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہوگئے ہوں )۔ اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے، رہنمائی فرماتا ہے۔ وہ لوگوں کو مثالوں سے بات سمجھاتا ہے، وہ ہر چیز سے خوب واقف ہے۔”

اس آیت کے مطالعہ سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ اس مثال میں اگر اللہ تعالی نور یعنی منعکس روشنی ہے تو اس روشنی کا منبع یا چراغ بھی وہ خود ہے۔ یعنی اس آیت میں جو مثال پیش کی گئی ہے اس میں روشنی بھی وہ خود ہے اور اس روشنی کا عکس بھی وہ خود۔ فانوس کی مثال دی گئی ہے جس کے اندر روشنی کا ذریعہ بھی ہوتا ہے اور یہ روشنی کو منعکس بھی کرتا ہے۔

ڈاکٹر ولیکم کیمپبل نے کہا کہ قرآن بھی نور ہے،تو کی یہ بھی عکس ہے؟ یقیناً قرآن اللہ سبحانہ و تعالی کی ہدایات کی روشنی اور عکس ہے۔

مزید برآں انہوں نے حضرت محمد ﷺ کے سراج ہونے کا ذکر کیا۔ یقیناً وہ سراج ہیں جن کی روشنی کا عکس احادیث کی صورت میں ہم تک پہنچ رہا ہے۔ اور چونکہ وہ احکامات الہیہ ہم تک پہنچانے کا سبب ہیں لہذا اس لحاظ سے وہ نور بھی ہیں۔

لہذا آپ کسی بھی لحاظ سے دیکھیں ، نور یا منیر کا مطلب منعکس ، منعطف یا مستعار روشنی ہی بنتا ہے۔

دوسری بات ڈاکٹر ولیم نھے سورۃ کہف کی آیت 76 کے حوالے سے کی کہ ذوالقرنین نے سورج کو گدلے پانی میں ڈوبتے دیکھا۔ سورج کے گدلے پانی میں ڈوب جانا یقیناً غیر سائنسی بات ہے۔ لیکن یہاں عربی لفظ ” وَجَدَ ” استعمال ہوا ہے۔ جس کامطلب ہے نظر آنا۔ سو اللہ سبحانہ و تعالی یہاں فرما رہے ہیں کہ ذوالقرنین کو ایسا نظر آیا۔

اگر میں کہوں کہ دوسری جماعت کے ایک بچے نے کہا کہ دو اور دو پانچ ہوتے ہیں تو کیا آپ کہیں گے کہ ” ذاکر کہتا ہے کہ دو اور دو پانچ ہوتے ہیں ” یہ میں نہیں کہ رہا بلکہ اپ کو بتا رہا ہوں کہ بچہ کیا کہ رہا ہے۔ میں غلط نہیں کہ رہا بلکہ وہ بچہ غلط کہ رہا ہے۔

اس آیت کو سمجھنے کے متعدد طریقے ہیں۔ ایک تو یہی ” وَجَدَ ” کے معانی پر غور کیا جائے، جو کہ ہیں ” نظر آیا ” اور محمد اس کے بقول دوسرا طریقہ یہ ہے کہ لفظ مغرب کے معانی پر غور کیا جائے، عربی کے لفظ مغرب کے دو معانی ہیں۔ ایک تو سمت کے لیے استعمال ہوتا ہے یعنی مغرب کی سمت (West) اور دوسرے وقت کے لیے یعنی غروب آفتاب کا وقت۔

لہذا اگر زیر نظر آیت میں غروب آفتاب کے مقام کی بجائے غروب آفتاب کا وقت مراد لیا جائے مسئلہ ہی حل ہوجاتا ہے۔ متعدد طریقوں سے اس آیت کو سمجھا جاسکتا ہے۔ لیکن ہوسکتا ہے کہ ڈاکٹر ولیم کیمپبل اس پر اعتراض کریں اور کہیں کہ ہم باتیں فرض کررہے ہیں اور ہمیں الفاظ کو ان کے ظاہر معانی میں ہی قبول کرنا چاہیئے۔ چلیے اس نہج پر تجزیئے کو آگے بڑھاتے ہیں۔ جب ہم روز مرہ گفتگو میں سورج کے نکلنے اور غروب ہونے کا ذکر کرتے ہیں تو کیا ہم واقعی سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کا ذکر کررہے ہوتے ہیں؟ اخبارات میں ہم سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کے اوقات دیکھتے ہیں تو کیا اخبارات واقعی سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کا ذکر کررہے ہوتے ہیں؟ سائنسی طور پر ہم سب جانتے ہیں کہ سورج نہ تو نکلتا ہے اور نہ ڈوبتا ہے، دراصل یہ زمین کی گرد ہوتی ہے جس کے سبب ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے۔ تو کیا یہ اخبارات غلط بیانی کررہے ہوتے ہیں؟

جب میں لفظ Disaster استعمال کرتا ہوں تو میری مراد ایک بڑا حادثہ ہوتی ہے۔ یہ لفظ انہی معانی میں استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے لغوی معانی ” ایک منحوس ستارے ” کے ہوتے ہیں تو کیا جب یہ لفظ استعمال کیا جائے تو ہمیں اس کے لغوی معانی ہی مراد لینے چاہئیں؟

میں اور ڈاکٹر ولیم کیمپبل دونوں بعض اوقات پاگل شخص کے لیے ایک لفظ استعمال کرتے ہیں Lunatic، اس لفظ کے لغوی معانی ہوتے ہیں “Struck by the Moon” تو کیا ہم اس لفظ کو اس کے لغوی معانی ہی میں استعمال کرتے ہیں؟

لیکن بات یہ ہے کہ زبان کا ارتقا اسی طرح ہوا ہے۔ سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کو بھی اسی طرح دیکھنا اور سمجھنا چاہیئے اس طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سورۃ کہف کی اس آیت میں سورج کے ڈوبنے سے کیا مراد ہے؟ یہاں کوئی بات سائنس کے خلاف نہیں ہے۔

انہوں نے سورۃ فرقان کا بھی حوالہ دیا ہے:

أَلَمْ تَرَ إِلَى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَاءَ لَجَعَلَهُ سَاكِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيلا (سورۃ الفرقان 25 آیت 45)

” تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارا رب کس طرح سایہ پھیلا دیتا ہے؟ اگر وہ چاہتا تو اسے دائمی سایہ بنا دیتا۔ ہم نے سورج کو اس پر دلیل بنایا۔”

ڈاکٹر ولیم اپنی کتاب میں اس آیت کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ” سورج کہاں حرکت کرتا ہے؟” لیکن آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس آیت میں کہیں بھی سورج کی حرکت کا ذکر ہی نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب اپنی گفتگو میں بھی اور اپنی کتاب میں بھی یہی سوال اُٹھاتے ہیں کہ سورج حرکت نہیں کرتا لیکن اس آیت مبارکہ میں تو صرف اتنا ہی کہا گیا ہے کہ سورج کو سائے کی حرکت پر دلیل بنایا گیا ہے۔ اور یہ بات تو وہ شخص بھی جانتا ہے جس نے کبھی مدرسے کا منہ بھی نہیں دیکھا، کہ سائے کا سبب سورج کی روشنی ہوتی ہے۔ لہذا قرآن کی یہ بات بالکل درست ہے ۔ کیوں کہ قرآن یہ نہیں کہ رہا کہ سورج کی حرکت کی وجہ سے سایہ گھٹتا اور بڑھتا ہے۔ یہ بات ڈاکٹر صاحب خود قرآن سے وابستہ کررہے ہیں۔ سورج سائے پر دلیل ہے کیوں کہ سورج کی روشنی کی وجہ سے ہی سایہ گھٹتا اور بڑھتا ہے۔ اگر روشنی نہ ہوتو سایہ بھی نہیں ہوگا۔ سایہ تو ظاہر ہے دیگر روشنی کے ذرائع کی وجہ سے بھی بن سکتا ہے لیکن یہاں خاص سائے کی بات ہورہی ہے جو گھٹتا بھی ہے اور بڑھتا بھی ہے اور یہ سایہ سورج کی وجہ سے ہوتا ہے۔

ڈاکٹر کیمپبل نے سلیمان علیہ السلام کی وفات کا بھی ذکر کیا ہے۔ انہوں نے سورۃ السبا کی ایت کا حوالہ دیا ہے:

فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَى مَوْتِهِ إِلا دَابَّةُ الأرْضِ تَأْكُلُ مِنْسَأَتَهُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَنْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ (سورۃ السبا 34 آیت 14)

” پھر جب سلیمان علیہ السلام پر ہم نے موت کا فیصلہ نافذ کیا تو جنوں کو اس کی موت کا پتہ دینے والی کوئی چیز اس گھن کے سوا نہ تھی جو اس کے عصاکو کھا رہا تھا، اس طرح جب سلیمان گرپڑا تو جنوں پر یہ بات کھل گئی کہ اگر وہ غیب کے جاننے والے ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں مبتلا نہ رہتے۔”

اس آیت کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک شخص چھڑی کے سہارے کھڑا ہو وہ فوت ہوجائے اور کسی کو پتہ ہی نہ چلا۔

اس آیت کریمہ کی وضاحت بھی متعدد طریقوں سے ممکن ہے۔ پہلی بات تو یہی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ تعالی کے پیغمبر تھے اور یہ ان کا ایک معجزہ ہوسکتا ہے۔ جب بائبل یہ کہتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو زندہ کردیا کرتے تھے اور یہ کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے تو یہ بات حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعے کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ناقابل یوین ہوتی ہے۔ آپ خود بتائیے کسی مردے کا زندہ کردینا اور بغیر باپ کے پیدا ہونا زیادہ حیرت انگیز ہے یا کسی مردہ شخص کا چھڑی کے سہارے کھڑے رہنا؟

سو اگر اللہ سبحانہ وتعالی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ذریعے سے معجزات ظاہر فرما سکتا ہے تو حضرت سلیمان علیہ السلام کے ذریعے کیوں نہیں فرما سکتا؟

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے سمندر میں راستہ بن سکتا ہے، ان کا عصا اژدھا میں تبدیل ہوسکتا ہے، بائبل یہ بتاتی ہے، قرآن بھی یہی بتاتا ہے ، سو اگر اللہ تعالی کے لیے یہ ممکن ہے تو حضرت سلیمان علیہ السلام والا واقعہ کیوں ممکن نہیں ہے؟

متعدد دیگر تاویلات بھی ممکن ہیں کیوں کہ قرآن یہ تو کہ ہی نہیں رہا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام بہت ” طویل عرصے ” تک چھڑی کے سہارے کھڑے رہے تھے ۔ ۔ ۔۔ ۔ سورۃ النساء میں ارشاد ہوتا ہے:

أَفَلا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلافًا كَثِيرًا (سورۃ النساء 4 آیت 82)

” کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی ۔”

آپ کسی بی نقطہ نظر سے قرآن کا مطالعہ کریں۔ اگر آپ کا طریقہ کار منطقی ہے تو آپ قرآن میں کہیں بھی تضاد اور اختلاف نہیں پائیں گے۔ اور نہ ہی قرآن کی کوئی آیت مصدقہ سائنسی حقائق کے خلاف ہوگی۔

میں ڈاکٹر ولیم کیمپبل سے اتفاق کرتا ہوں، حضرت سلیمان علیہ السلام طویل عرصہ تک کھڑے رہے ہوں گے اور اس کی وجہ بھی اسی جگہ بیان کردی گئی ہے۔ جب حضرت سلیمان علیہ السلام گرے ہیں اور جنوں کو ان کی وفات کا علم ہوا تو انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں غیب کا علم ہوتا ہم اتنا عرصہ مشقت نہ کرتے۔ دراصل ان جنات کو اپنی طاقت کا بہت زعم تھا، جسے ختم کرنے کے لیے اللہ تعالی نے ان پر واضح فرایا کہ انہیں علم غیب حاصل نہیں ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے دودھ بننے کے عمل کا بھی ذکر کیا ہے۔ سورۃ النحل کی آیت کے حوالے سے انہوں نے اعتراض کیا ہے۔

سب سے پہلا شخص جس نے دورانِ خون کا علم دریافت کیا وہ ابن نفیس تھا۔ اس نے یہ دریافت نزولِ قرآن کے چھ سو سال بعد کی تھی، اور ابن نفیس کے بھی چار سو سال بعد ولیم ہاروی کے ذریعے یہ بات اہل مغرب کے علم میں آئی ۔ یعنی نزول قرآن کے ایک ہزار سال بعد۔

جو غذا ہم کھاتے ہیں وہ معدے اور آنتوں میں ہضم ہوتی ہے۔ ہضم کے بعد خوراک کے اجزا دوران خون کے ذریعے جسم کے مختلف اعضا تک پہنچتے ہیں جگر کا فعل بھی اس عمل میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ دورانِ خون کے اس عمل کے ذریعے ہی غذائی اجزء دودھ پیدا کرنے والے غدودوں تک بھی پہنچتے ہیں۔

جدید سائنس کی فراہم کردہ یہ تمام معلومات اجمال و اختصار کے ساتھ اس آیت قرآنی میں بیان کردی گئی ہیں:

وَإِنَّ لَكُمْ فِي الأنْعَامِ لَعِبْرَةً نُسْقِيكُمْ مِمَّا فِي بُطُونِهِ مِنْ بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِلشَّارِبِينَ (سورۃ النحل 16 آیت 66)

” اور تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجود ہے۔ ان کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں۔ یعنی خالص دودھ جو پینے والوں کیلئے نہایت خوش گوار ہے۔ ”

حمد و ثنا اللہ کے لیے جس نے ہمیں قرآن کے ذریعے چودہ سو سال پہلے ہی ان حقائق کا علم دیا، جن کے بارے میں جدید سائنس آج انکشافات کرررہی ہے، سورۃ مؤمنون میں بھی ارشاد ہوتا ہے:

وَإِنَّ لَكُمْ فِي الأنْعَامِ لَعِبْرَةً نُسْقِيكُمْ مِمَّا فِي بُطُونِهَا وَلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ (٢١)وَعَلَيْهَا وَعَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ (٢٢) ( سورۃ المؤمنون 23 آیات 21 تا 22)

” اور حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق ہے۔ ان کے پیٹوں میں جو کچھ ہے، اسی میں سے ایک چیز ( یعنی دودھ ) ہم تمہیں پلاتے ہیں اور تمہارے لیے ان میں بہت سے فائدے بھی ہیں، ان کو تم کھاتے ہو اور ان پر اور کشتیوں پر سوار بھی کئے جاتے ہو۔ ”

ڈاکٹر ولیم کیمپبل نے حیوانوں کے گروہوں میں رہنے کے حوالے سے بھی ایک نکتہ اُٹھایا ہے۔ متعلقہ آیت کریمہ قرآن مجید کی سورۃ الانعام میں ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے۔:

وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الأرْضِ وَلا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ (سورۃ الانعام 6 آیت 38)

” زمین پر چلنے والے کسی جانور اور ہوا میں پروں سے اُڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو، یہ سب تمہاری ہی طرح کی انواع ہیں، ہم نے ان کی تقدید کے نوشتے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، پھر یہ سب اپنے رب کی طرف سمیٹے جاتے ہیں۔”

قرآن مجید تو یہ کہ رہا ہے اور ڈاکٹر ولیم کہ رہے ہیں کہ مکڑی اپنے نر کو ہلاک کردیتی ہے اور شیریوں کرتا ہے اور ہاتھی یوں کرتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ

وہ رویوں کے بارے میں بات کررہے ہیں، قرآن رویے کی بات ہی نہیں کررہا ۔ اگر ڈاکٹر ولیم کیمپبل قرآن کی بات نہیں سمجھ پائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ قرآن کی بات غلط ہے۔

قرآن یہ کہ رہا ہے کہ یہ انواع ہیں تمہاری طرح، یعنی جانوروں اور پرندوں کے بھی انسانوں کی طرح گروہ ہوتے ہیں۔ قرآن ان کے رویوں کی بات نہیں کررہا۔

اور آج جدید سائنس بھی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ جانور اور پرندے بھی ہماری طرح گروہوں کی صورت میں ہی رہتے ہیں۔

میں علم الجنین کے حوالے سے تفصیلی گفتگو نہیں کرسکتا تھا کیوں کہ وقت محدود تھا ۔ ڈاکٹر ولیم کے اُٹھائے ہوئے تمام نکات کا جواب میں نے دے دیا ہے۔ اب ہم علم الجنین کے حوالے سے ذرا تفصیل سے بات کریں گے۔ جن نکات کا جواب میں دے چکا ہوں ان کے علاوہ ڈاکٹر ولیم نے کچھ باتیں کی ہیں۔ ایک بات انہوں نے یہ کی کہ جنین کی نشونما کے مراحل کا ذکر Hippocritus اور گالن وغیرہ نے بھی کیا ہے۔ یہاں ایک بنیادی نکتہ سمجھ لینا ضروری ہے۔ اگر کسی نے کوئی ایسی بات کی ہے جس سے قرآن کو اتفاق ہے تو اس سے مراد لینا ہرگز درست نہ ہوگا کہ وہ بات قرآن نے اس شخص سے اخذ کی ہوگی۔ مثال کے طور پر میں ایک بیان دیتا ہوں اور فرض کیجئے کہ وہ بیان درست ہے۔ اب اگر وہی بیان مجھ سے پہلے کوئی دے چکا ہے تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوجاتا کہ میں نے لازماً اس شخص کی نقل کی ہے یا اس سے استفادہ کیا ہے۔ اس کا امکان ضرور ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہے۔ لہذا ہمیں چاہیئے کہ صورتِ حال کا تجزیہ کریں۔

قرآن گالن اور ہیپو کریٹس وغیرہ کی ہر بات سے اتفاق نہیں کرتا۔ جنین کے ارتقا کے حوالے سے قرآن اور گالن وغیرہ کے نظریات میں مکمل یکسانیت نہیں پائی جاتی۔ اگر قرآن نے ( نعوذ باللہ ) ان سائنس دانوں کی نقل کی ہوتی تو دونوں میں مکمل یکسانیت پائی جاتی۔ یہ ایک منطقی بات ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا تھا کہ کچھ چیزوں کی تو نقل کرلی جاتی اور کچھ چیزیں جو غلط ہیں، وہ چھوڑ دی جاتیں۔ گالن اور ہیپوکریٹس وغیرہ ” جونک نما مرحلے ” کا ذکر نہیں کرتے۔ ان کے ہاں ” مضغۃ” کا تصور پایا ہی نہیں جاتا۔

مزید برآں ان سائنس دانوں نے یہ بھی کہا کہ عورت میں بھی مادہ منویہ ہوتا ہے۔ اور یہی بات بائبل میں بھی کی گئی ہے۔ لہذا گالن اور ہیپوکریٹس سے استفادہ دراصل انجیل میں کیا گیا ہے۔

بائبل میں ہم پڑھتے ہیں:

” کیا تو نے مجے دودھ کی طرح نہیں اُنڈیلا اور پنیر کی طرح نہیں جمایا؟ ”

( ایوب۔ باب 10-10)

یہ دودھ اور جمے ہوئے پنیر کا تذکرہ کیا ہے؟ سیدھی سیدھی گالن کی نقل ہے۔ نقل کیوں؟ کیوں کہ یہ جملہ کلامِ الہی نہیں ہے۔ یہ بات غلط ہے۔ دراصل یہ گالن ، ہیپوکریٹس اور دیگر یونانیوں کا خیال تھا کہ جنین کی تشکیل جمے ہوئے پنیر کی طرح ہوتی ہے، اور بائبل میں یہ بات بعینہ نقل کرلی گئی ہے۔ قرآن میں ہرگز ایسا نہیں ہے۔

اگر آپ علم الجنین کے حوالے سے لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کریں، مثال کے طور پر ڈاکٹر کیتھ مور کی کتاب دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ گالن، ہیپوکریٹس اور ارسطو وغیرہ نے اس موضوع پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی، ان کی کچھ باتیں درست ہیں تو بہت سی باتیں غلط بھی ہیں۔

ڈاکٹر مور مزید لکھتے ہیں کہ قرونِ وسطی یا اس وقت کے عربوں کے لحاظ سے قرآن ہمیں اضافی معلومات فراہم کرتا ہے۔ ڈاکٹر کیتھ مور اپنی کتاب میں قرآن کو خراج عقید پیش کرتےہیں۔ وہ ارسطو اور ہیپوکریٹس کا بھی اعتراف کرتے ہیں لیکن یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان کی باتیں غلط بھی ہیں۔ قرآن کے کسی بیان کے بارے میں وہ ایسا نہیں کہتے۔ یہی اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ قرآن، یونانی نظریات کی نقل نہیں کررہا۔

رہی بات چاند کی روشنی اور زمین کی گردش کی، تو مجھ پائتھا گورس کے بارے میں بھی پتہ ہے اور یہ بھی کہ زمانہ قبل مسیح میں ہی بعض یونانیوں کا خیال تھا کہ زمین گردش میں ہے، چاند کی روشنی دراصل سورج کی روشنی کا عکس ہے۔

لیکن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر رسول اللہ ﷺ ( نعوذ باللہ ) ان نظریات کی نقل کررہے ہوتے تو پھر وہ ان کے اس نظریے کو بھی قبول کرتے کہ سورج ساکن ہے اور پوری کائنات کا مرکز ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہوا کہ درست باتیں قبول کرلی گئیں اور غلط باتیں چھوڑ دی گئیں۔

ڈاکٹر ولیم کیمپبل ایک طویل فہرست پیش کردیتے ہیں۔ یونانی زبان سے Cyriac میں ترجمہ ہوا، اس سے عربی میں ہوا، لیکن قرآن کی ایک آیت اس طرزِ استدلال کی نفی کردیتے کیلئے کفایت کرتی ہے۔

سورۃ عنکبوت میں ارشادِ باری تعالٰی ہے:

وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ (سورۃ العنکبوت 29 آیت 48)

” ( اے نبی ﷺ) تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہ پڑھتے تھے، اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے، اگر ایسا ہوتا تو باطل پرست لوگ شک میں پڑسکتے تھے۔ ”

رسول اللہ ﷺ اُمی تھے وہ پڑھے لکھے نہیں تھے۔ یہ تاریخی حقیقت یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ انھوں نے کہیں سے، نقل نہیں کی، دیکھیئے ، تصور کیجیئے، ایک سائنس دان، تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بھی یہ سب کچھ معلوم نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن اللہ تعالی نے پھر بھی حکمت کے تحت رسول اللہ ﷺ کو اُمی رکھا ، تاکہ لوگوں کو، متکبر لوگوں کو، اسلام کے خلاف کتابیں لکھنے والے لوگوں کو، منہ کھولنے کا موقع نہ ملے۔

میں بائبل کے حوالے سے بہت سی باتیں کرسکتا ہوں۔ لیکن جہاں تک قرآن کا تعلق ہے میں ڈاکٹر ولیم کی جانب سے اُٹھائے گئے تمام نکات کا جواب دے چکا ہوں۔ الحمد للہ۔

کوئی ایک نکتہ ایسا نہیں بچہ جس سے قرآن کا سائنس کے خلاف ہونا ثابت ہو۔

انہوں نے میرے اُٹھائے ہوئے 22 نکات میں سے صرف دو نکات کو چھیڑا ہے اور انہیں بھی ثابت نہیں کرسکتے۔ لہذا یہ بائیس کے بائیس نکات ثابت کرتے ہیں کہ بائبل جدید سائنس سے مطابقت نہیں رکھتی۔

اب نکتہ نمبر 23 خدمت میں ہے۔ یہ نکتہ علم الحیوانات سے متعلق ہے۔

کتاب احبار، باب 11 کی چھٹی آیت دیکھیں:

” اور خرگوش کو کیوں کہ وہ جگالی تو کرتا ہے لیکن اس کے پاؤں الگ نہیں۔ وہ بھی تمہارے لیئے ناپاک ہے۔”

یہاں واضح طور پر کہا جارہا ہے کہ خرگوش جگالی کرتا ہے۔ حالاں کہ آج ہم جانتے ہیں کہ خرگوش جگالی نہیں کرتا، اور نہ ہی اس کے معدے کی بناوٹ جگالی کرنے والے جانوروں کی سی ہوتی ہے۔ دراصل اس کے منکہ کی مسلسل حرکت کی وجہ سے زمانہ قدیم میں ایسا سمجھا جاتا تھا۔

اسی طرح امثال ، باب 6، آیت 7 میں کہا گیا کہ چیونٹیوں کا نہ کوئی سردار ہے، نہ ناظر نہ حاکم، آج ہم جانتے ہیں کہ چیونٹیاں نہایت منظم اور مخلوق ہیں۔ ان کے ہاں ایک باقاعدہ نظام پایا جاتا ہے جس کے مطابق وہ محنت کرتی اور خوراک جمع کرتی ہیں۔ ان میں باقاعدہ سردار چیونٹی بھی ہوتی ہے اور نیچے درجہ بدرجہ کارکن چیونٹیاں ہوتی ہیں۔

یہ ایک سائنسی حقیقت ہے جسے بائبل نظر اندان کرتی ہے۔ لہذا بائبل کا بیان غیر سائنسی ہے۔

کتاب پیدائش، باب 3 ایت 14 اور پھر یسعیاہ ، باب 65، آیت 25 میں کہا گیا ہے کہ سانپ کی خوراک خاک ہے۔ حیاتیات کی کوئی کتاب ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ سانپ کی خوراک خاک ہے۔

مزید برآں بائبل میں ایسے جانوروں کا ذکر بھی موجود ہے جو سے سے وجود ہی نہیں رکھتے مثلاً ایک دو مالائی جانور Unicorn۔ یہ ایک سینگ والا گھوڑا ہے جو صرف اساطیر میں پایا جاتا ہے، حقیق دنیا میں وجود نہیں رکھتا۔

میرا وقت ختم ہونے والا ہے ۔ اگر میری کسی بات سے کسی مسیحی بھائی کے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو میں اس کے لیئے معذرت خواہ ہوں۔ میری نیت کسی کے جذبات مجروح کرنے کی نہیں تھی۔ مجھے تو ڈاکٹر ولیم کیمپبل کا جواب دینا ہے اور ان کی کتاب کا رد کرکے یہ ثابت کرنا ہے کہ قرآن اور جدید سائنس میں مکمل مطابقت پائی جاتی ہے۔

اور جہاں تک بائبل کا تعلق ہے، اس کے ایک حصے کے بارے میں تو ہم یہ امکان تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کلامِ خداوندی ہوسکتا ہے لیکن مجوعی طور، اس کی موجودہ صورت میں ہم بائبل کو منزل من اللہ نہیں سمجھتے۔

اب میں اپنی گفتگو ختم کرتا ہوں۔ میں اپنی بات قرآن کریم کی اس آیت پر ختم کرنا چاہوں گا:

وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (٨١)

” اور اعلان کردو کہ ” حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے۔ “”

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

سوال نمبر 1:طوفان نوح کی نوعیت کیا تھی؟

سوال: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرا سوال ڈاکٹر ولیم کیمپبل سے ہے، کتاب پیدائش میں کہا گیا ہے کہ طوفان نوح پوری دنیا میں آیا تھا۔ دنیا کی ہر چیز، ہر پہاڑ اس میں ڈوب گیا تھا۔ دوسری طرف یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پانی پندرہ ہاتھ اونچا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ دنیا کا بلند ترین پہاڑ پندہ ہاتھ اونچا نہیں تھا۔ پھر اس بات کا کیا مطلب ہے؟

ڈاکٹر ولیم کیمپبل: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سوال کے لیے شکریہ۔ میرے خیال میں بائبل یہ کہ رہی ہے کہ بلند ترین پہاڑ سے بھی پانی پندرہ ہاتھ اونچا تھا۔ یعنی اگر بلند ترین پہاڑ تین ہزار میٹر بلند تھا تو پانی کی بلندی تین ہزار میٹر اور پندرہ ہاتھ تھی۔

اور میرا خیال ہے کہ قرآن بھی طوفانِ نوح کا بیان اسی طریقے سے کرتا ہے۔

حَتَّى إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلا قَلِيلٌ (سورۃ ھود 11 آیت 40)

“یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور وہ تنور اُبل پڑا تو ہم نے کہا کہ ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو، اور اپنے گھر والوں کو بھی، سوائے ان اشخاص کے جن کی نشاندہی پہلے کی جاچکی ہے، اس میں سوار کرادو اور ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوح کے ساتھ ایمان لائے تھے۔”

اس کے بعد قرآن مختلف علاقوں کا ذکر کرتا ہے اور انبیائے کرام کی فہرست دیتا ہے، جس میں نوح سے پہلے کا کوئی نبی شامل نہیں، حالاں کہ حضرت آدم علیہ السلام بھی نبی ہوسکتے تھے۔ بہرحال میرے خیال میں قرآن بھی یہی کہتا ہے کہ یہ طوفان پوری دنیا میں آیا تھا۔

سوال نمبر 2:اللہ کے نور ہونے سے کیا مراد ہے؟

سوال: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر ذاکر صاحب! آپ نے اپنی گفتگو کے دوران میں کہا کہ اللہ نور ہے، میں آپ کی بات سمجھ نہیں سکتا۔ وضاحت کر دیجیئے۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھائی نے یہ سوال اس لیے کیا ہے کہ وہ ڈاکٹر ولیم کے جواب میں میری گفتگو کو سمجھ نہیں پائے جو اللہ اور نور کے حوالے سے تھی۔ قرآن مجید کی سورۃ نور کی پینتیسویں آیت میں ارشاد ہوت اہے:

اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (سورۃ النور 24 آیت 35)

” اللہ تعالی آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔”

نور کے معنی منعکس یا مستعار روشنی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے پوچھا تھا کہ کیا اللہ تعالی کی روشنی بھی مستعار ہے؟ اس سوال کے جواب میں کہا گیا تھا کہ اگرآپ اس آیت کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اس میں فانوس کی مثال دی گئی ہے۔ فانوس میں ایک چراغ ہوتا ہے جو اپنی روشنی رکھتا ہے۔ یعنی اللہ تعالی اپنی روشنی رکھتا ہے فانوس روشنی منعکس بھی کرتا ہے۔ اس لحاظ سے اس روشنی کو نور کہنا بھی روا ہے۔

آپ یہاں یہ ہیلوجن لیمپ دیکھ رہے ہیں۔ اس کے راڈ کو آپ سراج یا وہاج یا چراغ کہ سکتے ہیں۔ جب کہ اس کے Reflector کو منیر کہا جاسکتا ہے۔

لیکن ظاہر ہے کہ اس روشنی سے مراد عام روشنی نہیں ہے بلکہ اللہ سبحانہ و تعالی کی روحانی روشنی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ ڈاکٹر ولیم کیمپبل کو جواب دینے کے لیے جتنی ضرورت ھی میں نے اتنی ہی بات کی۔

البتہ چونکہ میرے پاس جواب کے لیے پانچ منٹ ہیں لہذا میں ایک اور بات بھی کرنا چاہوں گا۔ ڈاکٹر ولیم کیمپبل نے حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر کیا ہے۔ دیکھیئے میں بائبل کے حق میں Concordance Approach اور قرآن کے حق میں Conflict Approach استعمال کررہا ہوں کیوں کہ الحمد للہ کسی بھی صورت میں قرآن کو برحق ہی ثابت ہوتا ہے۔

اگر میں ڈاکٹر ولیم کی بات مان بھی جاؤں اور یہ بات تسلیم کر بھی لوں کہ طوفانِ نوح علیہ السلام کا پانی دنیا کے بلند ترین پہاڑ سے بھی پندہ ہاتھ بلند تھا تو ایک اور مسئلہ سامنے آتا ہے ۔ کتاب پیدائش کے باب نمبر 7 ایت 19 اور 20 میں کہا گیا ہے:

” اور پانی زمین پر چڑھتا ہی گیا اور بڑھا اور کشتی پانی کے اوپر تیرتی رہی اور پانی زمین پر بہت ہی زیادہ چڑھا اور سب اونچے پہاڑ جو دنیا میں ہیں پانی میں چھپ گئے۔”

اگر آپ طوفانِ نوح علیہ السلام کے وقت کا تعین انجیل کی مدد سے کریں تو یہ اکیسویں یا بائسیوں صدی قبل مسیح کا دور بنتا ہے۔ یہ وہ دور ہے جب بابل میں تیسرے اور مصر میں گیارھویں خاندان کی حکومت چل رہی تھی۔ لیکن وہاں اس طونان کا کوئی اثر نہی ملتا۔ یعنی یہ علاقے طوفانِ نوح کا علم گیر ہونا یعنی پوری زمین پر محیط ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔

رہا یہ سوال کہ قرآن اس بارے میں کیا کہتا ہے تو پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن تاریخ کا تعین نہیں کرتا۔ قرآن یہ نہیں کہتا کہ سیلاب بائیسویں صدی قبل مسیح میں ایا تھا یا پچاسویں صدی قبل مسیح میں آیا تھا۔

دوسری بات یہ کہ قرآن کہیں یہ نہیں کہتا کہ سیلاب عالم گیر تھا اور ساری زمین اس میں ڈوب گئی تھی۔ قران صرف حضرت نوح علیہ السلام اور انکی قوم کا ذکر کرتا ہے جو ایک چھوٹی قوم بھی ہوسکتی ہے اور بڑی بھی۔

آج ماہرین آثارِ قدیمہ یہ امکان تو تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا کا ایک مخصوص علاقہ زیر آب آگیا ہو لیکن عالم گیر سیلاب کا نظریہ کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا۔ لہذا الحمد للہ قرآن تو جدید ترین علوم کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے، لیکن بائبل نہیں۔

مزید برآں اگر آپ کتاب پیدائش کے چھٹے باب کے پندرھویں اور سولہویں آیت کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ خدا حضرت نوح علیہ السلام کو ھکم دیتا ہے:

” اور ایسا کرنا کہ کشتی کی لمبائی تین سو ہاتھ اور اس کی چوڑائی پچاس ہاتھ اور اس کی اونچائی تیس ہاتھ ہو۔”

اگر آپ حساب لگائیں تو پتہ چلتا ہے کہ کشتی کا کل حجم ڈیڈہ لاکھ مکعب فٹ سے زیادہ نہیں بنتا اور رقبہ بھی تقریباً 750، 33 مربع فٹ بنتا ہے۔ بائبل کہتی ہے کہ کشتی تین منزلہ تھی یعنی کل رقبہ تقریباً ایک لاکھ مربع فٹ تھا۔ یہ کل دستیاب جگہ تھی۔ ذرا تصور کیجیئے، دنیا کے ہر جاندار کا ایک جوڑا اس ایک لاکھ مربع فٹ میں آنا تھا کیا یہ ممکن ہے؟

دنیا میں لاکھوں اقسام کے جاندار ہیں، اگر میں یہ کہوں کہ اس آڈیٹوریم میں ایک لاکھ لوگ آئے تو کیا آپ تسلیم کرلیں گے؟ مجھے یاد ہے، پچھلے سال میں نے کیرالہ میں ایک خطاب کیا تھا، وہاں دس لاکھ لوگ آئے تھے، وہ میری زندگی کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔ تاحد نظر لوگ ہی لوگ تھے۔ میں آخر تک دیکھ بھی نہیں پارہا تھا۔ لیکن وہ ایک ملین لوگ کسی آڈیٹوریم میں نہیں تھے۔ یہ لوگ ساحل سمندر پر جمع ہوئے تھے، میں سامنے کے چند لوگوں کے علاوہ باقی لوگوں کو دیکھ بھی نہیں سکتا تھا۔ اگر آپ اس اجتماع کی ویڈیو دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ایک لاکھ لوگ کس قدر ہوتے ہیں۔ اسی طرح عرفات کے اجتماع سے بھی آپ کو اندازہ ہوسکتا ہے جہاں ڈھائی ملین لوگ جمع ہوتے ہیں۔

لہذا ایک لاکھ مربع فٹ رقبے میں لاکھوں جانداروں کا رہنا بالکل ناممکن ہے جب کہ انہوں نے اسی جگہ میں چالیس دن رہنا بھی ہو کھانا پینا بھی ہو اور حوائج ضروریہ سے بھی فارغ ہونا۔

ہم کہ سکتے ہیں کہ یہ بھی بائبل کی سائنسی اغلاط میں سے ہیے۔

سوال نمبر 3:ڈاکٹر ولیم کیمپبل بائبل کے مطابق خود امتحان کیوں نہیں دیتے؟

سوال: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر ولیم کیمپبل، آپ بائبل میں دیا گیا امتحان خود کیوں نہیں دیتے تاکہ یہاں موجود حاضرین پر یہ بات ثابت ہوجائے کہ آپ ایک حقیقی مسیح ہیں؟

ڈاکٹر ولیم کیمپبل: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے ڈاکٹر ذاکر نائیک کی تاویل سے اتفاق نہیں ہے۔ دیکھیئے، خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی بھٹکانے کی کوشش کی گئی تھی۔ شیطان نے ان سے کہا کہ اگر آپ ابن اللہ ہیں تو ہیکل سے نیچے چھلانگ لگا دیں۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ خدا کا امتحان نہیں لینا چاہیئے۔ میں بھی خدا کا امتحان لینے کی کوشش نہیں کروں گا۔ میں یہاں آپ کے سامنے معجزہ دکھانے کی کوشش نہیں کروں گا۔ میرے دوست ہیری نے دعوت میں جانے کا وعدہ کیا تھا اور انے اپنا وعدہ پورا کیا۔ لیکن وہ صورتِ حال مختلف تھی۔ میں خدا کی تقدیر پر ایمان رکھتا ہوں۔

سوال نمبر 4:کیا عقیدہ تثلیث کی سائنسی تاویل ممکن ہے؟

سوال: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسیحی حضرات عقیدہ تثلیث کی سائنسی تاویل اس طرح کرتے ہیں کہ جس طرح پانی کی تین طبعی صورتیں ٹھوس، مائع اور گیس ہوسکتی ہیں یعنی وہ برف ، پانی اور بھاپ کی شکل میں ہوسکتا ہے۔ اسی طرح خدا بھی باپ، بیٹے اور روح القدس کی تثلیث کی صورت میں ہے۔ کیا آپ اس تاویل کو درست سمجھتے ہیں؟

ڈاکٹر ذاکر نائیک: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ کے سوال کا جواب دینے سے پہلے میں ایک وضاحت چاہوں گا ۔ یہ بات درست ہے کہ ہمیں خدا کا امتحان لینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیئے لیکن یہ کوشش کون کررہا ہے؟ ہم تو ڈاکٹر ولیم کا امتحان لینے کی کوشش کررہے ہیں۔ خدا نے وعدہ کیا ہے کہ صاحب ایمان پر یہ خطرنام زہر اثر نہیں کرے گا۔ اور وہ نئی نئی زبانیں بولیں گے۔ ہم خدا کا امتحان نہیں لے رہے۔ خدا ہر ہمارا ایمان ہے کہ وہ ہر صاحب ایمان کو اس امتحان میں کامیاب کرے گا۔ ہم تو آپ کا امتحان لے رہے ہیں کہ آپ صاحب ایمان مسیحی ہیں یا نہیں؟

اب میں بہن کے سوال کی طرف آتا ہوں۔ ان کا سوال یہ ہے کہ مسیحی حضرات عقیدہ تثلیث کی سائنسی وضاحت اس طرح کرتے ہیں کہ” جس طرح پانی تین صورتوں یعنی ٹھوس، مائع اور گیس میں پایا جاتا ہے اسی طرح خدا بھی باپ، بیٹے اور روح القدس کی صورت میں موجود ہے۔

سائنسی لحاظ سے مجھے اس بات سے پورا اتفاق ہے کہ پانی کی تین طبعی حالتیں ہوتی ہیں، ٹھوس، مائع اور گیس یا برف، پانی اور بخارات، لیکن ہم جانتے ہیں کہ اپنے اجزا کے لحاظ سے یہ ایک ہی چیز رہتی ہے۔ پانی کا کیمیائی فامولا H2O ہے یعنی دو ایٹم ہائیڈروجن کے اور ایک ایٹم آکسیجن کا ۔ یہ اجزا اسی طرح رہتے ہیں۔ ان کا تناسب یہی رہتا ہے صرف طبعی حالت تبدیل ہوتی ہے۔

اب ہم عقیدہ تثلیثکا جائزہ لیتے ہیں۔ باپ، بیٹا، اور روح القدس۔ کیا یہاں بھی صرف حالت ہی تبدیل ہوتی ہے؟ چلیے ہم مان لیتے ہیں کہ یہاں بھی صرف حالت ہی کا فرق پڑتا ہے، کیا یہاں بھی اجزاء وہی رہتے ہیں؟

باپ اور روح القدس کا وجود روحانی ہےجب کہ انسان گوشت پوست کی مخلوق ہے۔ انسان کو زندہ رہنے کے لیے کھانے پینے کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ خدا ان ضرورتوں سے پاک ہے، دونوں مختلف ہیں دونوں ایک جیسے کس طرح ہوسکتے ہیں؟

اور یہ بات خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بیان سے بھی ثابت ہوتی ہے۔ وہ لوقا کی انجیل میں فرماتے ہیں:

“اس نے ان سے کہا ” تم کیوں گھبراتے ہو؟ اور کس واسطے تمہارے دل میں شک پیدا ہوتے ہیں؟ میرے اور میرے پاؤں دیکھو کہ میں وہی ہوں، مجھے چھو کر دیکھو کیوں کہ روح کے گوشت اور ہڈی نہیں ہوتی جیسا کہ مجھ میں دیکھتے ہو، یہ کہ اس نے انہیں اپنے ہاتھ اور پاؤں دکھائے، جب مارے خوشی کے ان کو یقین نہ آیا تو تعجب کرتے تھے تو اس نے ان سے کہا کیا یہاں تمہارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے؟ انہوں نے اسے بھنی ہوئی مچھلی کا قتلہ دیا۔ اس نے لے کر ان کے روبرو کھایا۔”

حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہاں خود فرمارہے ہیں کہ روح گوشت اور ہڈیاں نہیں رکھتی سائنسی طور پر یہ بات ثابت کرنے کے لیے کہ وہ خدا نہیں ہیں، انہوں نے ان کے روبرو مچھلی کا ٹکڑا کھایا اور اس طرح باپ بیٹے اور روح القدس کے ایک ہونے یعنی تثلیث کے عقیدے کو خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے رد کردیا۔

پوری بائبل میں تثلیث (Trinity) کا لفظ ہی موجود نہیں ہے۔ لیکن قرآن میں اس کا ذکر موجود ہے۔

سورۃ نساء میں ارشاد ہوتا ہے:

وَلا تَقُولُوا ثَلاثَةٌ انْتَهُوا خَيْرًا لَكُمْ إِنَّمَا اللَّهُ إِلَهٌ وَاحِدٌ (سورۃ النساء 4 آیت 171)

” اور نہ کہو کہ تین ہیں، باز آجاؤ یہ تمہارے ہی لیے بہتر ہے ۔ اللہ تو بس ایک ہی خدا ہے۔”

سورۃ مائدہ میں پھر ارشاد ہوتا ہے:

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلاثَةٍ وَمَا مِنْ إِلَهٍ إِلا إِلَهٌ وَاحِدٌ وَإِنْ لَمْ يَنْتَهُوا عَمَّا يَقُولُونَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (سورۃ المائدہ 5 آیت 73)

“یقیناً کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ تین میں کا ایک ہے۔ حالاں کہ ایک خدا کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ اگر یہ لوگ اپنی ان باتوں سے باز نہ آئے تو ان میں سے جس جس نے کفر کیا ہے۔ اس کو درد ناک سزا دی جائے گی۔”

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کبھی بھی یہ دعوٰی نہیں کیا کہ وہ خدا ہیں، بائبل میں بھی تثلیث کا تصور موجود نہیں ہے۔

واحد بیان جو تثلیث کے قریب ترین ہوسکتا ہے، یہ ہے:

” اور جو گواہی دیتا ہے وہ روح ہے کیوں کہ روح سچائی ہے، اور گواہی دینے والے تین ہیں، روح ، پانی اور خون، اور یہ تینوں ایک ہی بات پر متفق ہیں۔”

یوحنا کا پہلا خط۔ باب 7-5)

اور اس آیت کے بارے میں بائبل کے Revised Standard Version میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ یہ آیت الحاقی ہے یعنی اسے بائبل سے نکال ہی دیا گیا ہے۔ گویا حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کبھی دعوٰی الوہیت نہیں یا۔

پوری بائبل میں کوئی ایک ایسا بیان بھی موجود نہیں جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ہو کہ میں خدا ہوں۔ یا یہ کہا ہو کہ میری عبادت کرو، بلکہ اگر آپ بائبل کا مطالعہ کریں تو آپ کو اس قسم کی آیات ملیں گی۔:

“اتر تم مجھ سے محبت رکھتے تو اس بات سے کہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں خوش ہوتے کیوں کہ باپ مجھ سے بڑا ہے۔ ” ( یوحنا۔ باب 14 – 28)

” میرا باپ سب سے بڑا ہے۔” ( یوحنا، باب 10- 29)

” میں خدا کی روح کی مدد سے بد روحوں کو نکالتا ہوں۔ ” ( متی۔ باب 12 – 29)

” میں بدروحوں کو خدا کی قدرت سے نکالتا ہوں۔ ” ( لوقا۔ بابا 11 – 22)

“میں اپنے آپ سے کچھ نہیں کرسکتا۔ ” ( یوحنا۔ باب 5 – 30)

حضرت عیسی علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ میں اپنے آپ سے کچھ نہیں کرسکتا۔ یعنی جو کرتا ہوں ، اللہ تعالی کی مرضی سے کرتا ہوں اور یہی اسلامی عقیدہ ہے، مسلمان ہوتا ہی وہی ہے جو اپنی مرضی کو اللہ کی مرضی کے تابع کردے، حضرت عیسی علیہ السلام مسلمان تھے اور اللہ تعالی کے عظیم پیغمبروں میں سے ایک تھے۔

ہمارا ایمان ہے کہ ان کی پیدائش ایک معجزہ تھا۔ ہمارا ایمان ہے کہ وہ اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کردیتے تھے، اندھوں اور کوڑھیوں کو ٹھیک کردیتے تھے۔ ہم ایک عظیم الشان پیغمبر کے ہونے کی حیثیت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن وہ خدا نہیں ہیں۔ قرآن کہتا ہے۔

هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (١)

سوال نمبر 5:کیا ڈاکٹر ولیم آج کی گفتگو سے متاثر ہوئے ہیں؟

سوال: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر ولیکم کیمپبل ، کیا آج کی گفتگو کے بعد آپ کو کوئی فائدہ ہوا ہے؟ کیا اسلام کی حقانیت کی جانب آپ کو کوئی اشارہ ملا ہے؟

ڈاکٹر ولیم کیمپبل: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھیے، میں گذشتہ سوال کو آپ کے سوال کا جواب دینے کے لیئے استعمال کروں گا۔ ڈاکٹر نائیک کہتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے کہیں یہ نہیں کہا کہ وہ خدا ہیں۔ حالاں کہ مرقس کی انجیل میں ارشاد ہوتا ہے:

” سردار کاہن نے اس سے پھر سوال کیا اور کہا کیا تو اس ستودہ کا بیٹا مسیح ہے؟ یسوع نے کہا ہاں میں ہوں اور تم ابن آدم کو قادر مطلق کے دائیں طرف بیٹھے آسمان کے بادلوں کے ساتھ آتے دیکھو گے۔ ( مرقس۔ باب 5 – 61)

یہاں وہ خود کو واضح طور پر خدا کا بیٹا اور الوہی قرار دے رہے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر ذاکر نائیک صرف انہی آیات کا حوالہ دے رہے ہیں جن کا حوالہ وہ دینا چاہتے ہیں۔ یعنی جن آیات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بشری پہلو کا ذکر ہے۔ لیکن دیگر آیات میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میں اور باپ ایک ہی ہیں۔

خدا گوشت پوست کی صورت اختیار کرکے ہمارے بیچ رہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رہا میرے دوسرے کا سوال کہ کیا میں نے آج کی گفتگو سے کچھ سیکھا ہے؟ تو یقیناً ہم نے کئی باتیں سیکھی ہیں، اور میں ہمیشہ سیکھنے کے لیے تیار رہتا ہوں۔ لیکن میرا خیال یہی ہے کہ جن پانچ سو گواہیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مرنے کے بعد زندہ ہوتے ہوئے دیکھا تھا، ان کی گواہی میرے لیے زیادہ مضبوط ہے، بہ نسبت چھ سو سال بعد آنے والے محمد ﷺ کی تنہا گواہی کے۔

سوال نمبر 6:بائبل زمین کی ساخت کے بارے میں کیا کہتی ہے؟

سوال: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر ذاکر، اپنی گفتگو کے دوران ڈاکٹر کیمپبل نے قرآن کے تصورِ کائنات کے حوالے سے کچھ غلط غلط باتیں کیں۔ جن کا جواب آپ نے دیا۔ لیکن بائبل جو کچھ زمین کی ساخت وغیرہ کے بارے میں کہتی ہے اس کا ذکر آپ نے نہیں کیا؟

ڈاکٹر ذاکر نائیک: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہن نے پوچھا ہے کہ میں نے اس بارے میں گفتگو نہیں کی کہ بائبل زمین کی ساخت کے بارے میں کیا کہتی ہے؟ میرے پاس وقت محدود تھا۔ میں ایسے سو نکات مزید بیان کرسکتا ہوں جنہیں میں نے وقت کی کمی کی وجہ سے نہیں چھیڑا۔

بہرحال بہن جاننا چاہتی ہے کہ بائبل زمین کی ساخت کے بارے میں کیا کہتی ہے۔ بائبل میں کہا گیا ہے:

” پھر ابلیساسے ایک بہت اونچے پہاڑ پر لے گیا ار دنیا کی سب سلطنتیں اور ان کی شان و شوکت اسے دکھائی۔” ( متی۔ باب 4 – 8)

اب بات یہ ہے کہ آپ دنیا کے بلند ترین پہاڑ پر ہی کیوں نہ چلے جائیں۔ آپ ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی پر ہی کیوں نہ چلے جائیں اور فرض کیجیئے آپ بہت دُور تک دیکھ بھی سکتے ہوں، ہزاروں میل تک دیکھ سکتے ہوں، پھر بھی آپ دنیا کی تمام سلطنتیں نہیں دیکھ سکتے۔ کیوں کہ آدھی دنیا زمین کے دوسری طرف ہوگی۔ کسی اونچے مقام سے پوری دنیا کو دیکھان صرف اسی صورت میں ممکن ہے اگر زمین چپٹی ہو۔ اور یہی بائبل بتاتی ہے کہ زمین چپٹی ہے۔ پھر زمین کے بارے میں اسی طرح کا بیان بائبل میں ایک اور جگہ بھی موجود ہے:

“میں نے نگاہ کی اور کیا دیکھتا ہوں کہ زمین کے وسط میں ایک نہایت اونچا درخت ہے، وہ درخت بڑھا اور مضبوط ہوا اور اسکی چوٹی آسمان تک پہنچی اور وہ زمین کی انتہاء تک دکھائی دینے لگا۔” ( دانی ایل۔ باب 4 – 10 )

مندرجہ بالا صورتِ حال بھی صرف اسی صورت میں ممکن ہے اگر زمین چپٹی ہو کیوں کہ اگر زمین گول ہے توپھر زمین کی دوسری طرف سے اس درخت کو بھی نہیں دیکھا جاسکے گا۔

لیکن آج یہ بات ایک طے شدہ حقیقت کا درجہ رکھتی ہے کہ زمین گول ہے۔ مزید برآں تاریخ۔1 باب 16 ، آیت 30 میں کہا گیا ہے کہ:

” جہاں قایم ہے اور اسے جنبش نہیں۔”

یہ بات بائبل میں دوسری جگہ بھی کی گئی ہے کہ زمین حرکت نہیں کرتی۔

ایک بات ڈاکٹر کیمپبل کے اس بیان کے حوالے سے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے یہ کہا ہے کہ میں خدا ہوں۔ آپ میری کتاب ” مذاہب عالم میں تصور خدا ” میں تما حوالہ جات ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ جو حوالے ڈاکٹر کیمپبل نے دیئے ہیں انہی کو سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کبھی ایسا دعوٰی نہیں کیا۔

سوال نمبر 7:کیا قرآن میں گرامر کی غلطیاں موجود ہیںٰ؟

سوال: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب! آپ کہتے ہیں کہ قرآن میں کوئی غلطی نہیں ہے۔ میں گرامر کی 20 غلطیاں دکھا سکتا ہوں، مثال کے طور پر سورۃ بقرہ میں، سورۃ حج میں، سورۃ طہٰ میں، کیا آپ ان غلطیوں کی وضاحت کرسکتے ہیں؟

ڈاکٹر ذاکر نائیک: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھائی نے بڑا اچھا سوال پوچھا ہے۔ انہوں نے قرآن میں گرامر کی بیس غلطیوں کی بات کی ہے۔ جس کتاب کے حوالے سے وہ بات کر رہے ہیں۔ وہ عبدالفادی کی کتاب ہے۔ “Is Quran Inflabible” میں ان 20 غلطیوں کی وضاحت اکٹھی ہی کردوں گا۔ میں یہ کتاب بھی پڑھ چکا ہوں اور میرے بھائی میں ان سب غلطیوں کا جواب دیتا ہوں۔

پہلی بات تو سمجھنے کی یہ ہے کہ عربی زبان کی تمام تر گرامر لی ہی قرآن سے گئی ہے۔

قرآن عربی زبان و ادب کا اعلٰی ترین معیار اور حوالہ ہے۔ عربی گرامر کی نصابی کتاب ہی قرآن مجید ہے۔ جب قرآن ہی نصاب ہے اور قرآن ہی سے گرامر اخذ کی گئی ہے تو صاف ظاہر ہے کہ گرام کی کوئی غلطی قرآن میں ہوہی نہیں سکتی۔

اپ کےپاس پیمائش کے لیے ایک آلہ ہے۔ اسی آلے سے پیمائش کرکے آپ نے صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنا ہے۔ اس پیمانے کو آپ کس طرح غلط کہ سکتےہیں۔ یہ غیر منطقی بات ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ مختلف عرب قبائل کی زبان میں فرق موجود ہے، ڈاکٹر ولیم بھی جانتے ہیوں کہ زبان میں تبدیلی مختلف قبائل کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ ایک لفط کو ایک قبیلہ مؤنث سمجھتا ہے تو دوسرے لوگ اسے مذکر قرار دیتے ہیں۔ تذکیر و تانیث کا اختلاف بھی موجود رہے اور گرامر کا بھی۔

اس صورتِ حال میں آپ ان عرب قبائل کی زبان اور گرامر کو معیار بنا کر قرآن کی زبان کے بارے میں کوئی فیصلہ کس طرح صادر کرسکتے ہیں؟ قرآن کا معیارِ فصاحت و بلاغت اتنا بلند ہے کہ قرآن پر کوئی اعتراض اس حوالے سے ہوہی نہیں سکتا۔

کیا آپ جانتے ہیں ، اس حوالے سے متعدد کتابیں موجود ہیں۔ انٹرنیٹ پر کوئی بارہ غلطیاں گنوا رہا ہے اور کوئی بیس غلطیاں۔ آپ کا کیا خیال ہے، یہ غلطیاں تلاش کرنے والے کون ہیں؟ کیا یہ غیر مسلم ہیں؟ نہیں یہ مسلمان ہی ہیں۔ زامک شریف جیسےلوگ۔ یہ لوگ کرتے کیا ہیں۔ یہ جانتے ہیں کہقرآن کا معیار اس قدر بلند ہے کہ بعض اوقات قرآن گرامر کے عام اُصولوں سے بلند ہرکر بات کرتا ہے۔ اور قرآن کے اسی بلند معیار کو ثابت کرنے کے لیے ایس مثالیں علما پیش کرتے ہیں۔

انہی مثالوں کو بعض لوگ غلطیاں بنا کر پیش کردیتے ہیں۔ میں ایک مثال آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں اور آپ کو بیس کی بیس غلطیوں کا جواب مل جائے گا۔

حضرت لوط علیہ السلام کے حوالے سے کہا گیا ہے انہوں نے پیغمبروں کا انکار کیا، اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام کے حوالے سے بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے پیغمبروں کا ناکر کیا لیکن ہم جانتے ہیں کہ ان اقوال کی طرف ایک ایک پیغمبر کو مبعوث کیا گیا تھا۔ کیا قرآن کو واحد کا صیغہ استعمال کرنا چاہیئے تھا۔ ایک عام آدمی کے لحاظ سے یہ بھی گرامر کی غلطی ہے لیکن جو لوگ عربی ادب سے آشنا ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہی قرآنی اسلوب کا حسن ہے۔

آپ جانتے ہیں کہ تمام انبیائے کرام کا بنیادی پیغام ایک ہی تھا۔ لہذا ایک کا انکار درحقیقت سب کا انکار ہے۔

آپ نے قرآن کی بلاغت اور حسن ملاحطہ فرمایا۔ کوئی کہتا رہے کہ یہ غلطی ہے لیکن یہ غلطی ہرگز نہیں ہے۔

اسی طرح انیش شورش جسیے لوگ کہتے ہیں کہ ” کن فیکون ” غلط ہے کیونہ صیغہ ماضی کے لحاظ سے “کن فکان ” ہونا چاہیئے۔ لیکن یہاں بھی وہ قرآنی بیان کے حسن کو نہیں سمجھ پائے، یہاں جان بوجھ کر ماضی کا صیغہ نہیں استعمال کیا گیا۔ کیوں کہ اللہ تعالی نے ماضی میں ایسا کیا اور وہ حال اور مستقبل میں بھی ایسا کرسکتا ہے۔

سوال نمبر 8:کیا ذوالقرنین ، سکندر اعظم تھا؟

سوال: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر کیمپبل، اپنی گفتگو کی ابتداء میں آپ نے فرمایا کہ ذوالقرنین، ” سکندر اعظم ” تھا۔ کیا آپ بتائیں گئے کہ آپ کو کس طرح معلوم ہوا کہ ذوالقرنین دراصل سکندر اعظم تھا؟

ڈاکٹر ولیم کیمپبل: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے یہ بات عبدللہ یوسف علی کے ترجمہ قرآن کے حواشی میں پڑھی تھی۔ لیکن اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ذوالقرنین اصل میں سکندر اعظم ہی تھا یا کوئی اور۔ اصل بات یہ ہے کہ سورج گدلے پانی میں نہیں ڈوبتا جب کہ قرآن کی آیت یہی کہ رہی ہے۔

سوال نمبر 9:کیا حضرت یونس اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام میں مشابہت موجود ہے؟

سوال: ۔ ۔ ۔ ۔ بائبل میں کہا گیا ہے کہ یونس علیہ السلام تین دن اور تین رات مچھلی کے پیٹ میں رہے تھے، اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام تین دن اور تین رات زمین کے پیٹ میں رہیں گے، کیا یہ پیش گوئی پوری ہوئی؟

ڈاکٹر ذاکر نائیک: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہن جس آیت کا حوالہ دے رہی ہے وہ متی کی انجیل کے بارھویں باب میں ہے:

” اس پر بعض فقہیوں اور فریسیوں نے جواب میں اس سے کہا کہ اے استاد ہم تجچھ سے ایک نشان دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس نے جواب دے کر ان سے کہا اس زمانہ کے بُرے اور زنا کار لوگ نشان طلب کرتے ہیں مگر یوناہ نبی کے نشان کے علاوہ کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا۔ کیوں کہ جیسے یوناہ تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسے ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا۔”

دیکھیئے اس پیش گوئی میں واضح طور پر حضرت یونس علیہ السلام کی مثال دی گئی ہے۔ کہ جس طرح وہ تین راتیں اور تین دن مچھلی کے پیٹ میں رہے اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام تین راتیں اور تین دن زمین کے پیٹ میں رہیں گے لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب ہونے کی جو داستان ہمیں بائبل سناتی ہے اس کے مطابق تو انہیں جمعہ کے دن مصلوب کیا گیا۔ رات گئے فن کیا گیا اور اتوار کو قبر خالی تھی۔ یہ دو دن بھی نہیں بنتے بلکہ زیادہ سے زیادہ ایک دن اور دو راتیں بنتی ہیں۔ تین دن اور تین راتیں نہیں۔

ڈاکٹر ولیم اپنی کتاب میں اس بات کا جواب دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دن کے ایک حصے کو پورا دن شمار کیا جاسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ایک مریض ہفتے کی شب بیمار ہوا ہو۔ اگر پیر کے دن میں اس سے پوچھوں کہ وہ کتنے دن بیمار رہا تو وہ یہی جواب دے گا کہ تین دن سے۔

ہم ان کی بات مان لیتے ہیں۔ ٹھیک ہے، اسی طرح ہوگا۔ لیکن پیر کے دن کوئی مریض ہرگز نہیں کہے گا کہ تین دن اور تین راتیں۔ میں چیلنج کرتا ہوں۔ میں نے الحمد للہ بہت مریض دیکھے ہیں اور ان میں مسیحی مریض بھی شامل تھے۔ لیکن کسی بھی مریض نے جو گزشتہ پرسوں رات بیمار ہوا ہو یہ کبھی نہیں کہا کہ میں تین دنوں اور تین راتوں سےبیمار ہوں۔ جب کہ بائبل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمارہے ہیں تین دن اور تین راتیں۔ لہذا یہ ایک ریاضیاتی غلطی ہے۔

سائنسی لحاظ سے تقابل حضرت یونس علیہ السلام کے ساتھ کیا جائے تو یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ وہ تین دن مچھلی کے پیٹ میں کیسے رہے؟ زندہ یا مردہ؟ جواب ہوگا زندہ۔ مچھلی تین دن انہیں زندہ لے کر سمندر میں پھرتی رہی۔ وہ زندہ تھے۔ جب انہوں نے اللہ تعالی سے دعا فرمائی۔ جب مچھلی نے انہں ساحل پر اُگلا تو وہ زندہ تھ، زندہ ، زندہ ، زندہ۔

لیکن جب پوچھا جائے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السالم تین دن زمیں میں کیسے رہے تو جواب کیا ہوگا؟ زندہ یا مردہ؟

اگر وہ مردہ تھے تو پیش گوئی پوری نہیں ہوئی، اگر زندہ تھے تو پھر وہ مصلوب ہی نہیں ہوئے۔ میں اپنے ایک خطاب میں اس موضوع پر گفتگو کرچکا ہوں کہ حضرت مسیح علیہ السلام مصلوب ہوئے تھے یا نہیں؟ اور درست بات وہی ہے جو قرآن بتاتا ہے یعنی:

وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ (سورۃ النساء 4 آیت 157)

” حالانکہ فی الواقع انہوں نے نہ اس کو قتل کیا اور نہ صلیب پر چڑھایا۔ بلکہ معاملہ انکے لیے مشتبہ کردیا گیا۔”

سوال نمبر 10:کیا بائبل میں موجود طب سے متعلقہ بیانات کی وضاحت ممکن ہے؟

سوال: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈاکٹر ولیم کیمپبل، آپ ایک ڈاکٹر ہیں، کیا آپ بائبل کے طبی بیانات کی وضاحت کریں گے، کیوں کہ آپ نے اپنے جوابی خطاب میں ان چیزوں کا جواب نہیں دیا، مثال کے طور پر خون کا جراثیم کس کے طور پر استعمال؟ یا بیٹی کی پیدائش کی صورت میں دگنے عرصے تک ناپاک رہنا؟

ڈاکٹر ولیم کیمپبل: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شکریہ میں آپ کے سوال کی طرف آتا ہوں۔ لیکن ہو یہ رہا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک سے وہ سوالات کیے جارہے ہیں جو ایک مسیحی سے کیے جانے چاہئیں۔ بائبل کا اگر آپ مطالعہ کریں تو اس میں تین دن اور تیسرے دن کے الفاظ مترادفات کے طور پر استعمال ہوئے ہیں۔ جہاں تک میرا خیال ہے ان تمام الفاظ کا ایک ہی مطلب ہے۔

دوسری بات یہ کہ جب جمعرات کے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گرفتار کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ میرا وقت آچکا ہے۔ لہذا میںٰ تین دن اور تین رات کو اس وقت سے گنتا ہوں۔

یہ میرا کام نہیں کہ وضاحت کروں کہ خدا نے ان آیات میں کیا کہا ہے لیکن یہ میرا ایمان ہے کہ بائبل میں یہ باتیں خدا کی طرف سے ہیں۔

سوال نمبر 11:اسلام ہمیں ارتقاء کے بارے میں کیا بتاتا ہے؟

سوال: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسلام ہمیں ارتقا کے بارے میں کیا بتاتا ہے؟

ڈاکٹر ذاکر نائیک: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وال کے مکمل جواب کے لیے آپ میری کتاب ” قرآن اور سائنس ” سے رجوع کرسکتے ہیں۔ جب آپ ڈارون کے نظریہ ارتقا کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو ڈارون کا معاملہ یہ ہے کہ ویک ایک جہاز میں، جس کا نام ایچ، ایم ، ایچ بیگل تھا، ایک سفر پر نکلا، جزائر میں یگا، وہاں اس نے مشاہدات کیئے اور اس کے نتیجے میں قدرتی چناؤ کا نظریہ وضع کیا۔

لیکن اس نے اپنے ایک دوست تھامس ٹامپٹن کو ایک خط لکھا جس میں اس نے کہا کہ میں ” قدرتی چناؤ کے نظریے کے لیے کوئی ثبوت فراہم نہیں کرسکتا لیکن چوں کہ اس سے مجھے مدد ملتی ہے لہذا میں نے اسے اپنا لیا ہے۔”

ڈارون کا نظریہ محض ایک نظریہ ہے، کوئی ثابت شدہ حقیقت نہیں ہے۔ اور میں نے اپنی گفتگو کی ابتدا میں یہ بات واضح کردی تھی کہ قرآن نظریات اور مفروضوں کے خلاف تو ہوسکتا ہے، کیوں کہ یہ نظریات بعض اوقات بالکل ہی اُلٹے ہوجایا کرتے ہیں۔ لیکن آپ قرآن اور کسی ثابت شدہ حقیقت میں کوئی اختلاف نہیں پائیں گے۔

ہمارے سکولوں میں ڈارون کا نظیہ اس طرح پڑھایا جارہا ہے جیسے یہ کوئی ثابت شدہ حقیقت ہو۔ حالاں کہ یہ نظریہ ہرگز ثابت شدہ نہیں۔ اس کا کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں اور پھر یہ کہ بہت سی کڑیاں گم شدہ ہیں۔

یہی وجہ ہے ہم نے کسی دوست سے مذاق کرنا ہو یا اس کی تضحیک کرنی ہو تو کہتے ہیں کہ ” اگر تم ڈارون کے وقت میں ہوتے تو اس کا نظیہ درست ثابت ہوجاتا۔” جس سے مراد یہ ہوتیہ ے کہ وہ بندر نما ہے۔

میں ان چاروں طرح کے فوسلز کے بارے میں جانتا ہوں جو دستیاب ہیں لیکن اس کے باوجود کئی کڑیاں گمشدہ ہیں۔

حاتیات کے بارے میں قرآن ہمیں بتاتا ہے:

وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ (سورۃ الانبیاء 21 آیت 30)

” اور ( ہم نے ) پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی۔”

آج ہم جانتے ہیں کہ ہر مخلوق کی بنیادی اکائی خلیہ ہے اور کلیہ بیش تر سائٹو پلازم پر مشتمل ہوتا ہے جو کہ تقریباً 90 فی صد پانی ہوتا ہے۔ ہر زندہ مخلوق پچاس فی صد سے نوے فی صد پانی پر مشتمل ہوتی ہے۔ کیا عرب کے صحراؤں میں کسی کو یہ اندازہ ہوسکتا تھا یا ایسا خیال بھی آسکتا تھا کہ ہر زندہ چیز پانی سے بنی ہے۔

اور قرآن یہ حقیقت 1400 برس پہلے بیان کرچکا ہے۔

سوال نمبر 12:کیا بائبل کے تضادات کی وضاحت ممکن ہے؟

سوال: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر ڈاکٹر کیمپبل بائبل میں موجود تضادات کی وضاحت نہیں کرسکتے تو کیا انہیں تسلیم نہیں کرلینا چاہیئے کہ بائبل غیر سائنسی ہے اور منجانب اللہ نہیں ہے؟

ڈاکٹر ولیم کیمپبل: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس حوالے سے مجھے کچھ مسائل درپیش ہیں لیکن میرا ایمان ہے کہ رسولوں کی پیش گوئیاں درست ہیں۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی اصل بنیاد ہیں جن کے گرد یہ ساری عمارت تعمیر ہوئی ہے۔ حواریوں نے یہ انجیلیں انہی پیش گوئیوں کے پورا ہونے پر تحریر کیں۔

میں جانتا ہوں کہ یہ آپ کے سوال کا جواب نہیں ہے۔ لیکن میرا ایمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ہے۔

سوال نمبر 13: کیا ” متن” اور “ترجمہ” ایک ہی چیز ہے؟

سوال: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا متن اور ترجمہ ایک ہی چیز ہے؟ اگر نہیں تو کیا موجودہ انگریزی بائبل وہی انجیل ہے جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کو عطاء ہوئی تھی؟

ڈاکٹر ذاکر نائیک: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” متین” اور ” ترجمہ” دو مختلف الفاظ ہیں۔ جو دو مختلف معانی رکھتے ہیں۔ لہذا سائنسی طور پر آپ ایک متن اور اس کے ترجمے کو ایک ہی چیز نہیں قرار دے سکتے۔

کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسٰی علیہ السلام پر وحی انگریزی زبان میں نازل ہوئی تھی؟ یہ ایک بہت اچھا سوال ہے کہ کیا متن اور ترجمہ ایک ہی چیز ہوسکتے ہیں؟ جواب ہے “نہیں ” متن اور ترجمہ کبھی ایک چیز نہیں ہوسکتے۔ ترجمہ متن کے قریب ترین ہوسکتا ہے لیکن متن کا نعم البدل کبھی نہیں ہوسکتا۔

مولانا عبدالماجد دریا بادی نے کہا تھا کہ ترجمے کے لحاظ سے دنیا کی سب سے مشکل کتاب قرآن مجید ہے۔ کیونکہ قرآن کی زبان اس قدر بلیغ ہے، اس قدر بلند ہے، اس قدر عظیم ہے کہ اس کا ترجمہ مشکل ترین کام ہے۔ ایک ایک لفط کے متعدد معانی ہیں۔ اگر ترجمے میں کوئی غلطی ہوجاتیہ ے تو یہ انسانی کام ہے لہذا وہ انسانی غلطی ہوگی۔ اور ترجمہ کرنے والا اس کے لیے موردِ الزام ہوگا نہ کہ اللہ تعالی۔

بائبل انگریزی زبان میں نازل نہیں ہوئی تھی۔ عہد نامہ قدیم عبرانی زبان میں تحریر ہوا تھا۔ جب کہ عہد نامہ جدید یونی زبان میں۔

اگرچہ عیسیٰ علیہ السلام عبرانی زبان بولتے تھے لیکن انجیل کا مسودہ یونای زبان میں ہے۔ اصل عبرانی مسودہ دستیاب نہیں ہے۔ بلکہ کیا آپ جانتے ہیں کہ عہد نامہ قدیم کا عبرانی متن بھی دراصل یونانی زبان سے دوبارہ عبرانی ترجمہ ہے۔ یعنی عہد نامہ قدیم کا اصل عبرانی متن بھی دستیاب نہیں ہے۔ لہذا یہاں دوہرا مسئلہ ہے ۔ چنانچہ اس بات پر حیرت نہیں ہونی چاہیئے کہ اس میں بہت سی اغلاط موجود ہیں۔

لیکن قرآن کا معاملہ الحمد للہ یہ ہے کہ اصل عربی متن ہی محفوظ ہے۔ آپ سائنسی طور پر ثابت کرسکتے ہیں کہ یہ اصل متن ہے۔

لیکن ہمارا یقین اسی بات پر ہے جو قرآن میں کردی گئی ہے۔:

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلا مِنْ قَبْلِكَ (سورۃ الرعد 13 آیت 38)

” تم سے پہلے بھی ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں ۔”

ان رسولوں پر کتابیں بھی نازل ہوئی تھیں۔ جن میں سے چار کے ناموں کا بھی ذکر کیا گیا ہے، یعنی توراۃ، زبور، انجیل ، اور قرآن، توراۃ سے مراد وہ وحی ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔ زبور حضرت داؤد علیہ السلام پر، انجیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر جب کہ قرآن محمد ﷺ پر لیکن موجودہ بائبل ہرگز وہ انجیل نہیں ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔

سوال نمبر 14:کیا موجودہ انجیل وہی ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی؟

سوال: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا موجودہ بائبل وہی انجیل ہے جو حضرت عیسٰی علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی؟َ

ڈاکٹر ولیم کیمپبل: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موجودہ انجیل وہی ہے جو ہمیشہ سے تھی۔ ہمارے پاس متون موجود ہیں۔ 75 فیصد متن تو ایسا ہی جو 180ء سے موجود ہے۔ یعنی تحریر کیے جانے کے تقریباً 100 برس بعد کے وقت سے یہ متن موجود ہے۔ یوحنا نے اپنی زندگی میں یہ متن تحریر کیا۔ جب وہ متن تحریر کرررہے تھے تو اُس وقت کے بہت سے لوگ ابھی زندہ تھے۔ وہ اور ان کے باپ دادا یوحنا کے ذریعے ایمان لائے تھے۔ یہ متن کی صحت کا کافی ثبوت ہے۔ انجیل کی ایک مصدقہ تاریخ موجود ہے۔

باقی خدا ہر چیز پر قادر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو چاہے کرسکتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو منتخب کیا ۔ ۔ ۔ ۔ اصل بات یہ ہے کہ پیش گوئیوں کے پورا ہونے کا کس قدر امکان تھا؟ شکریہ

سوال نمبر 15: اگر قرآن اور سائنس میں مکمل مطابقت ہے تو یہ نطریئے تبدیل ہونے کی صورت میں کیا ہوگا؟

سوال: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سائنس تبدیل ہوتی رہتی ہے ۔ اگر قرآن اور سائنس میں اتنی ہی مطابقت ہے جتنی آپ بتا رہے ہیں تو پھر اس صورت میں کیا ہوگا۔ اگر سائنسی نظریات تبدیل ہوجائیں؟

ڈاکٹر ذاکر نائیک: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سوال بہت اہم ہے، کہ قرآن اور جدید سائنس کے درمیان مطابقت ثابت کرنے کے لیے اتنی محنت کی جاتی ہے۔ اگر جدید سائنس غلط ثابت ہوجائے تو پھر کیا ہوگا؟ کیا سائنس میں ہونے والی تبدیلیوں کے لحاظ سے قران بھی بدل جاتا ہے۔ یہ ایک بہت اچھا سوال ہے۔ اور قرآن کی مطابقت جدید سائنس کے ساتھ ثابت کرتے ہوئے ہمیں بہت احتیاط سے کام لینا چاہیئیے۔

اسی لیے میں نے اپنی گفتگو کے آغاز میں ہی یہ بات واضح کردی تھی کہ صرف اور صرف مصدقہ حقائق کے بارے میں ہی بات کروں گا۔ سائنسی نظریات اور مفروضوں کے بارے میں نہیں، کیوں کہ مصدقہ حقائق، ثابت شدہ حقائق تبدیل نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر یہ حقیقت کہ دنیا گول ہے، ثابت شدہ حقائق یوٹرن نہیں لیتے۔ لیکن غیر ثابت شدہ ، غیر مصدقہ نظریات کا معاملہ الگ ہوتا ہے کہ وہ یوٹرن لے سکتے ہیں۔

میں ایسے علماء کے بارے میں جانتا ہوں جو ڈارون کے نظریہ ارتقا کا ثبوت قرآن سے دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ یہ ایک نامعقول بات ہے۔ لہذا ہمیں یہ رویہ قطعاً نہیں اپنانا چاہیے کہ ہر چیز کو، جدید سائنس کے ہر نظریے کو قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش شروع کردیں۔ ہمیں پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ نظریے کی حیثیت ایک ثابت شدہ حقیقت کی ہے یا محض مفروضے کی ۔ مفروضہ درست بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی۔

مثال کے طور پر بک بینگ کے نظریے Big Bang Theory ہی کو دیکھیئے۔ آج اس کی حیثیت کی حقیقت کیا ہے لیکن کل یہ محض ایک مفروضہ تھا جب مفروضہ حقیقت میں تبدیل ہوجاتا ہے تو پھر ہم اسے استعمال کرسکتے ہیں۔

آپ جانتے ہیں کہ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ نسل انسانی کا ارتقاء جینز کے ایک جوڑے سے ہوا ہے اور جینز ہی آدم و ہوا تھے۔ لیکن میں اس نظریے کو کبھی اپنی گفتگو میں زیر بحث نہیں لاتا کیونکہ یہ نظریہ ابھی تک محتاج ثبوت ہے۔

چنانچہ قرآن اور سائنس کی مطابقت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بات ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہیئے کہ آپ مصدقہ حقائق کی بنیاد پر گفتگو کریں مفروضوں کی بنیاد پر نہیں۔

قرآن سائنس سے بدرجہا برتر ہے۔ لہذا جدید سائنس کے ذریعے قرآن کی حقانیت ثابت کرنے کی کوشش نہیں کررہا ۔ قرآن کے منزل من اللہ ہونے کا ثبوت جدید سائنس سے فراہم نہیں کررہا، ہرگز نہیں۔ بلکہ میں تو صرف یہ کرتا ہوں کہ چونکہ ایک مسلمان کے برعکس ایک غیر مسلم اور دہریئے کے لیے شاید اصل معیار جدید سائنس ہو لہذا میں انہی کے معیار، انہی کے پیمانے کو استعمال کرتے ہوئے قرآن کی برتری کا ثبوت فراہم کرتا ہوں، تاکہ وہ قرآن پر ایمان لائیں۔

سوال نمبر 16: اگر ڈاکٹر کیمپبل اعتراضات کے جوابات نہیں دے سکتے تو وہ تسلیم کیوں نہیں کرتے کہ بائبل میں اغلاط موجود ہیں؟

سوال: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر ڈاکٹر کیمپبل ان اعتراضات کا جواب دینے سے معذور ہیں جو ڈاکٹر ذاکر نائیک نے پیش کیے ہیں تو کیا وہ تسلیم کرتے ہیں کہ بائبل میں اغلاط موجود ہیں؟

ڈاکٹر ولیم کیمپبل: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وہی سوال ہے جو پہلے پوچھا جاچکا ہے۔ بات یہ ہے کہ بائبل میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کی وضاحت کرنا میرے لیئے ممکن نہیں۔ میں فوری طور پر ان باتوں کا جواب نہیں دے سکتا لیکن میں انتظار کرنے کے لیے تیار ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ مجھے ان باتوں کا جواب مل جائے۔ بہت سی باتوں کے حوالے سے بائبل کی حقانیت آثارِ قدیمہ کی دریافت سے ثابت ہوتی ہے۔ یعنی علاقوں اور بادشاہوں وغیرہ کے حوالے سے بائبل کے بیانات کی حقانیت ثابت ہوئی ہے۔ اور یہ بائبل کی صداقت کا ایک بہترین ثبوت ہے۔

سوال نمبر 17:کیا بائبل اور قرآن میں تضادات موجود ہیں؟

ڈاکٹر ذاکر نائیک: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سوال کی مجھے مکمل طور پر سمجھ تو نہیں آئی۔ آپ قرآن کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہیں یا بائبل کے بارے میں؟ بہر حال میں دونوں سوالات کا جواب دے دیتا ہوں۔

جہاں تک قرآن کا تعلق ہے۔ سورۃ النساء میں ارشادِ باری تعالی ہے:

أَفَلا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلافًا كَثِيرًا (سورۃ النساء 4 آیت 82)

” کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے ؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی۔”

لہذا قرآن میں تو تضاد کی کوئی ایک مثال موجود نہیں ہے۔ اور جہاں تک سوال ہے بائبل ہے بلکہ اگر مجھے پانچ دن بھی دے دیے جائیں تو پھر بھی یہ وقت تھوڑا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! ! !

کمپوزنگ: وسیم ارشد