11۔اشتراکیت اور قرآن کی تشریحات
ایک زمانہ تھا، جب پرویز صاحب ابھی کارل مارکس کی ترتیب دی ہوئی معاشی فکر، سوشلزم یا کمیونزم کے اسیر ِزلف نہیں ہوئے تھے۔ وہ اگر قرآن پر غور بھی کرتے تھے تو ان کی آنکھوں پر بہرحال اشتراکیت کی عینک نہیں تھی۔ اس لئے وہ قرآنی آیات کا ترجمہ کرتے ہوئے ان ‘ذہنی تحفظات’کا خیال نہیں کیا کرتے تھے جو بعد میں اشتراکیت کے رنگ میں مصبوغ ہونے کے بعد، اب ان کے قلب و ذہن میں راسخ ہوگئے تھے اور جن کا لحاظ کرنا ان کی مجبوری بن گیا تھا۔ نظامِ ربوبیت کا نقشہ، ذہن پرویز کی کارگاہ میں، بہت بعد میں تراشا گیا۔ ۱۹۴۷ء سے قبل پرویز صاحب کو اگر ان کی تحریروں کے آئینے میں دیکھاجائے تو وہ واضح طور پر مال و دولت اور زمین کی شخصی ملکیت کے قائل تھے۔ پھر ہر شخص کے معاشی حالات کے تنوع اور ان کی اکتسابی صلاحیتوں میں تفاوت کی بنا پر وہ تفاضل فی الرزق کے بھی قائل تھے۔ بالاوپست معاشی طبقات میں وہ اہل ثروت پر اسلام کی طرف سے عائد ہونے والی ڈھائی فیصد زکوۃ کے بھی معترف بلکہ مُعلن تھے۔ صدقہ و خیرات اور قانونِ میراث کے متعلق بھی وہ اس با ت کے مقر تھے کہ یہ دائمی اور مستقل احکام ہیں نہ کہ عبوری دور کے احکام ہیں جو وقتی یا ہنگامی صورتحال میں دیئے گئے ہوں۔ قُلِ الْعَفْوَ کے دو الفاظ کی بنیاد پر آج اشتراکیت پر قرآن کا ٹھپہ لگا کر جس ‘نظام ربوبیت’ کا کریملین تعمیر کیا گیا ہے، ان دنوں ان الفاظ کا مفہوم، آج کے مفہوم سے قطعی مختلف تھا، چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے :
پرویز صاحب کا قدیم نقطۂ نظر
الف۔ذاتی ملکیت قرآن سے ثابت فرمائی:
’’اشتراکیت ، ذاتی اور انفرادی ملکیت کو تسلیم نہیں کرتی، لیکن اسلام ہر شخص کی کمائی کو اس کی ذاتی ملکیت قرار دیتاہے۔ زمانۂ ظہورِ اسلام میں جائیداد و املاک عموماً مویشیوں کی شکل میں تھیں، ان کے متعلق فرمایا: اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا خَلقْنَا لَھْمْ مِمَّا عَمِلَتْ اَیْدِیْنَا اَنْعَامًا فَھْمْ لَھَا مَالِکُوْنَ ۔ ترجمہ :’’کیا ان لوگوں نے اس پر نظر نہیں کی کہ ہم نے ان کے لیے دستِ قدرت سے مویشی پیدا کیے ہیں جن کے یہ لوگ مالک ہیں‘‘ ۔۔۔ جب خدا کی بنائی ہوئی چیزیں، انسان کی ملکیت ہوسکتی ہیں تو انسان کی اپنی کمائی اور مصنوعات تو یقیناً اس کی ملکیت ہوں گی، ارشاد ہے: لِلرّ جَالِ نَصِیْب مِمَّا اکْتَسَبُوْا وَلِلنّسَاءِ نَصِیبٌ ممّا اکْتَسَبْنَ۔ ترجمہ :’’ جو مردکمائیں، وہ مردوں کا حصہ ہے اور جو عورتیں کمائیں، وہ عورتوں کا حصہ ہے‘‘۔
اشتراکیت کے اُصولِ نفی ملکیت سے اسلام کا معاشی ، تمدنی اور عمرانی ہر قسم کا نظام منہدم ہوجاتا ہے۔ قرآن میں ہے :
وَاٰتِ ذَا الْقْرْبیٰ حَقَّہ‘ وَالْمِسْکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَلَا تْبَذّرْ تَبْذِیْرَا ۔ ترجمہ :’’قرابت دار کو اس کا حق دیتے رہنا اور محتاج اور مسافر کو بھی، مال کو بے موقع نہ اڑانا‘‘۔
ظاہر ہے کہ ان حقوق کی ادائیگی ، اس صورت میں ہوسکتی ہے جب کوئی چیز کسی کی ملکیت میں ہو اگر ہر چیز غیر کی ملکیت میں ہو اور کمانے والے کو صرف اس کی ضرورت کے مطابق حصہ ملے تو وہ دوسروں کے حقوق کیسے ادا کرسکتا ہے۔
یہی حال، ترکہ اور وراثت کے احکام کا ہے جس پر ذاتی ملکیت کی <غیر>undefined موجودگی میں عمل ہو ہی نہیں سکتا، حکم ہے: وَلِکْلّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالَا قرَبْوُنَ وَ الَّذِیْنَ عَقَدَتُ اَیْمَانُکُمْ فَا تُو ھْمْ نَصِیبھْم ’’ہر ایسے مال کے لیے جسے والدین اور رشتہ دار چھوڑ جائیں ہم نے وارث مقرر کردیے ہیں اور جن لوگوں سے تمہارے عہد بندھے ہوئے ہیں، ان کو ان کا حصہ دو‘‘۔ <ماہنامہ طلوع اسلام: جولائی ۳۹ء ، ص ۵۹ تا ۵۷>undefined
اَنفقُوا مِن طَیّبَاتِ مَا کَسَبتم <۲۶۷؍۲>undefined ’’اپنی کمائی میں سے عمدہ چیز خرچ کرو‘‘ میں ماکسبتم سے مطلب ہی یہ ہے کہ جو کچھ تم کھاتے ہو، وہ تمہاری ملکیت ہے‘‘ <طلوع اسلام، جولائی ۳۹، ص ۶۰>undefined
ب۔زکوۃ کے قائل تھے :
’’اشتراکیت کے حامی کہہ سکتے ہیں کہ جب کسی کا سرمایہ جائیداد ، کمائی، وِرثہ سب کچھ حکومت لے لے، تو یہ انفاق کی وہ حد ہے جس سے بڑھ کر قربانی اور ایثار کی کوئی مثال نہیں ہوسکتی،لیکن اسلامی انفاق ، جو <تقویٰ پر مبنی ہے>undefined او راس قسم کے جبر میں بڑا فرق ہے، اسلام نے بھی ایک ٹیکس <زکوٰۃ>undefined مقرر کیا ہے جو بہر حال وصول کیا جاتا ہے:
’’ان کے مالو ں میں سے صدقہ لیجیے کہ اس سے یہ ظاہر و باطن میں پاک ہوجائیں گے اور پھر ان کے لیے دعا کیجیے‘‘۔ <۱۰۳؍۹>undefined <طلوع اسلام، جولائی ۳۹ء ص ۶۱>undefined
’’لیکن ساتھ ہی، اس نے خیرات کا حکم بھی دیا ہے جس میں جبرو اکراہ کو دخل نہیں: ’’آپ سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں؟ کہہ دیجیے کہ جتنا آسان ہو‘‘۔ <۲۱۹؍۲>undefined <جولائی ۳۹ء : ص ۶۱>undefined
بعد میں پرویز صاحب نے یہ نظریہ پیش کیا کہ جو کچھ ضرورت سے زیادہ ہے ریاست وہ جبراً وصول کر لے گی لوگوں کو صرف بستر برتن گھر وغیرہ استعمال کے لیے دے گی یہی لوگوں کی ملکیت ہوں گے۔ اوپر حوالہ گزر چکا ۔
ج۔ رزق میں فضیلت کی بھی تائید:
قرآن کی رو سے ایک دوسرے پر رزق میں فضیلت جائز ہے وَاللہ فضل بعضکم علی بعض فی الرزق <۷۱؍۱۶>undefined ’’اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر باعتبار رزق فضیلت دی ہے‘‘ اور وہ غلام اور آزاد میں یہی فرق بتاتا ہے کہ آزاد اپنی محنت کے ماحصل کا مالک ہوتا ہے، غلام کو اس پر کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ ضرب اللہ مثلا عبدا مملوکا لایقدر علی شیئی ومن رزقنہ منا رزقا حسنا فہو ینفق منہ سرا وجھرا ’’اللہ ایک مثال بیان کرتا ہے، ایک غلام ہے، دوسرے کی ملک، وہ خود کسی بات کی قدر نہیں رکھتا اور ایک دوسرا آدمی ہے جسے ہم نے اپنے فضل سے نہایت عمدہ روزی دے رکھی ہے۔ وہ ظاہر پوشیدہ جس طرح چاہتا ہے، اسے خرچ کرتا ہے کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟‘‘
رزق میں مختلف مدارج اس لیے ضروری ہیں کہ دنیا کا کاروبار چل ہی اس انداز سے سکتا ہے، تقسیم عمل کے لیے اختلافِ مدارج لاینفک ہے نحت قسمنا بینھم معشتھم فی الحیاۃ الدنیا و رفعنا بعضم فوق بعض درجات لیتخذ بعضھم بعضا سخریا ’’دنیاوی زندگی میں ان کی روزی ہم ہی تقسیم کرتے ہیں اور ہم نے ایک کو دوسرے پر فوقیت دے رکھی ہے تاکہ ایک دوسرے سے کام لیتا رہے۔‘‘ <معارف القرآن، جلد اول، ص۱۲۱>undefined
د- عہد صحابہ میں معاشی مساوات کے قائل نہ تھے :
’’مالی تفوق کے اعتبار سے خود دورِ صحابہ میں بھی مختلف طبقات موجود تھے۔ حضرت زبیر بن العوامؓ کے کاروبار میں ایک ہزار مزدور روزانہ کام کرتے تھے۔ حضرت طلحہؓ کی روزانہ آمدنی کا اوسط ایک ہزار دینار تھا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کی تجارتی ترقی کا یہ عالم تھا کہ ایک بار ان کا قافلہ مدینہ میں آیا تو اس میں سات سو اونٹوں پر صرف اشیاء خوردنی لد رہی تھیں، لیکن مسلمانوں میں ان ہستیوں کا نام اگر آج تک صلوٰۃ و سلام کے ساتھ لیا جاتا ہے تو اس کی وجہ ان کی دولت و ثروت نہیں، بلکہ ان کا وہ ایمان، تقویٰ، اعمالِ صالحہ، ایثار و قربانی ہیں جو آنے والی نسلوں کے لیے انھوں نے بطورِ نمونہ کے یادگار چھوڑا ہے۔ انہی متمول صحابہ کے ساتھ ساتھ اصحابِ صفہ جیسے مفلوک الحال حضرات کا نام بھی آج تک مسلمانوں کے لیے باعثِ افزائش ایمان و عمل ہے‘‘۔ <جولائی ۳۹ء: ص۶۹>undefined
صحابہ کے معاشی تفاوت کی کیفیت بیان کرتے ہیں
’’یہ معرکہ، اخلاص و منافقت کی امتحان گاہ تھا چنانچہ ایک طرف صحابہ کا یہ عالم تھا کہ جو کچھ کسی کے پاس تھا، لے کر حاضر ہوگیا۔ حضرت عثمانؓ نے نو سو اونٹ، ایک سو گھوڑے اور ایک ہزار دینار پیش کیے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے چالیس ہزار درہم دیئے۔ حضرت عمرؓ کئی ہزار روپے کا نقد و جنس لے کر حاضر ہوئے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ اپنے گھر میں اللہ اور رسولؐ کی محبت کے سوا کچھ بھی چھوڑ کر نہ آئے۔ حضرت ابو عقیل انصاریؓ نے دو سیر چھوہارے لا کر حاضر کر دیئے اورعرض کیا کہ رات بھر کسی کے کھیت پر مزدوری کر کے چار سیر چھوہارے حاصل کیے تھے، دو سیر بال بچوں کو دے آیا ہوں اور دو سیر خدمتِ اقدس میں حاضر ہیں‘‘۔ <معارف القرآن: جلد چہارم، ص ۵۸۰>undefined
بعد میں اس کے الٹ اشتراکی نظریات قرآن سے ثابت ہونے لگے:
اشراکیت کے مطالعے کے بعد قرآن میں ذاتی ملکیت کی تمام نئی مارکسی تفاسیر پرویز صاحب نے پیش کیں ’’نظام ربوبیت‘‘ کے نام سے کتاب لکھی اور اوپر مذکو ر تمام عبارات کے اشتراکی نظریات کے مطابق ترجمے کردیے ۔اب ذاتی ملکیت کفر و شرک ٹھہری:
’’قرآنِ کریم کی رو سے زمین <وسائل پیداوار>undefined پر ذاتی ملکیت کا تصور ہی باطل اور شرک کے مترادف ہے‘‘ <مئی ۶۸: ص۱۷>undefined
اشتراکیت سے متاثر ہوتے ہی پرویز صاحب نے انفاق کا معنی ’’خرچ کرنا‘‘ نہیں بلکہ ’’کھلا رکھنا‘‘ بیان کیا اسی طرح ’’العفو‘‘ کا مفہوم بھی ذہنی تغیر کے ساتھ تبدیل ہوگیا۔
یسئلونک ماذا ینفقون قل العفو <۲۱۹؍۲>undefined ’’تم سے پوچھتے ہیں کہ ہم کس قدر دوسروں کے لیے ’’کھلا رکھیں‘‘؟ ان سے کہہ دو کہ جس قدر تمہاری ضرورت سے زائد ہے، سب کا سب‘‘۔ <اسلام کیا ہے؟ ص۱۴۵[ جبکہ پہلے تھا:
یسئلونک ماذا ینفقون قل العفو [۲۱۹؍۲>undefined
یسئلونک ماذا ینفقون قل العفو [۲۱۹؍۲> ’’آپ سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں؟ کہہ دیجیے کہ جتنا آسان ہو‘‘۔ <جولائی۳۹: ص۶۱>undefined
اب وہ آیات جو تفاضل فی ا لرزق پردلالت کرتی ہیں، ان کا مفہوم بھی بدل گیا۔ مثلاً آیت (۷۱؍۱۶) کے ابتدائی جملہ کا ترجمہ اب یہ قرار پایا :
﴿وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعضَكُم عَلىٰ بَعضٍ فِى الرِّزقِ…٧١ ﴾… سورة النحل ”مختلف افراد میں، اکتسابی استعداد کا تفاوت، خدا کی طرف سے ہے (تمہارا اپنا پیدا کردہ نہیں)۔ ” (نظامِ ربوبیت: ص۱۳۲)
جبکہ سابقہ دورِ پرویز میں ان الفاظ کا ترجمہ یہ تھا… ”اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر باعتبارِ روزی کے برتری دی ہے۔” (معارف القرآن: جلد اول، ص۱۲۱)
رہا صحابہ کے درمیان، معاشی تفاوت اور تفاضل، تو اسے اب یہ کہہ کر ردّ کردیا گیا کہ جب قرآن، قُلِ الْعَفْوَ کے حکم کی بنا پر کسی کے پاس فاضلہ دولت رہنے ہی نہیں دیتا او راپنی ‘زائد از ضرورت دولت’ سے ہر ایک کو دست کش ہونا پڑتا ہے، تو پھر وہ تمام روایاتِ تاریخ جو صحابہ کے معاشی تفاضل و برتری کا ذکر کرتی ہیں، قرآن سے متصادم ہوجاتی ہیں؛ لہٰذا
”جب بھی قرآن کے کسی بیان اورعہد ِمحمد رسول اللہﷺ والذین معہ کی تاریخ کے کسی واقعہ میں تضاد نظر آئے تو قرآن کے بیان کو صحیح اور تاریخ کے واقعہ کو غلط قرار دینا چاہئے۔” (جولائی ۵۹ئ،ص ۱۲)
اب سوال پیدا ہوا کہ کیا عہد ِنبوی میں زمین پر شخصی ملکیت کا خاتمہ کیا گیا تھا؟ کیونکہ ‘نظامِ ربوبیت’ کے نفاذ کی راہ میں اس سوال سے سابقہ پیش آنا ناگزیر ہے۔ چنانچہ اس کا جواب ڈھونڈنے کے لئے قرآن کی ورق گردانی شروع ہوئی۔ نگاہ مطلب جو، سورۃ الرعد اور سورۃ الانبیاء کی ان دو آیات پر ٹکی جن کے الفاظ ایک جیسے ہیں۔ اگرچہ ان سے زمین کی شخصی ملکیت کا خاتمہ تو ثابت نہ ہوسکا، البتہ خدع و فریب کے ہتھیار استعمال کرتے ہوئے اوّل مرحلے پر ‘زمینی ملکیتوںکی حد بندی’ کشید کر ڈالی گئی۔ دونوں آیات مع ترجمہ ملاحظہ فرمائیے :
﴿ أَوَلَم يَرَوا أَنّا نَأتِى الأَرضَ نَنقُصُها مِن أَطرافِها…٤١ ﴾… سورة الرعد” ترجمہ : کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم ان (ظالموں) پر ہر طرف سے زمین تنگ کرتے چلے آرہے ہیں۔”اور
﴿أَفَلا يَرَونَ أَنّا نَأتِى الأَرضَ نَنقُصُها مِن أَطرافِها ۚ أَفَهُمُ الغـٰلِبونَ ٤٤ ﴾… سورة الأنبياء. ترجمہ :”کیا یہ کفار نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو تمام سمتوں سے ان پر تنگ کرتے چلے آرہے ہیں، کیا وہ غالب ہوں گے؟”
آپ یقینا حیران ہوں گے کہ آیت میں تو ‘رقبہ ہائے اراضی کی حد بندی’ کی سرے سے کوئی بات ہی نہیں ہے، پھر آخر اس سے یہ مطلب کیسے نچوڑ لیا گیا؟ لیکن اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؛ مفکر ِقرآن، لغت ہائے حجازی کے قارون بھی ہیں، اس قارونی خزانے سے وہ خود فائدہ نہ اُٹھائیں تو اور کون اٹھائے گا۔ لغوی موشگافیوں کے نتیجہ میں آیت کا ترجمہ وہ نہیں رہ گیا جو اوپر درج ہے، بلکہ اس کا ترجمہ یوں قرار پایا :
”کیا یہ لوگ اس حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ ہم کس طرح زمین کے رقبوں کو جاگیرداروں کی ملکیت سے کم کرتے جاتے ہیں…” (۴۱؍۱۴) (نظامِ ربوبیت: ص۴۰۰)
میں اگر پرویز صاحب کے اس تحریفی کارنامے کی قلعی کھولنے کے لئے لغوی اور صرفی و نحوی طور پر اغلاط پرویز کو واضح کروں تو اس کا فائدہ نہیں، کیونکہ ‘مفکر ِقرآن’ کو خوش نصیبی سے ایسے اندھے عقیدت مند میسر آئے ہیں جو ان کے ہر تحریفی کارنامے کو ایسا ‘علمی نکتہ’ قرار دیتے ہیں، جس پر ‘ملا’ نے اب تک پردے ڈال رکھے تھے۔ اس لئے میں بغیر کسی لمبی چوڑی بحث میں پڑے، ان ہی آیات کے وہ صحیح تراجم پیش کئے دیتا ہوں جو سابقہ دور میں خود انہوں نے کئے تھے :
﴿ أَوَلَم يَرَوا أَنّا نَأتِى الأَرضَ نَنقُصُها مِن أَطرافِها ۚ وَاللَّهُ يَحكُمُ لا مُعَقِّبَ لِحُكمِهِ ۚ وَهُوَ سَريعُ الحِسابِ ٤١ ﴾… سورة الرعد
”پھر کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہم اس سرزمین کا قصد کر رہے ہیں؟ اسے اطراف سے گھٹا کر (ظالموں پر) اس کی وسعت تنگ کر رہے ہیں، اور جو فیصلہ اللہ کرتاہے کوئی نہیں جو اسے ٹال سکے، وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے۔” (معارف القرآن: جلد اوّل، ص۴۷۴)
﴿ بَل مَتَّعنا هـٰؤُلاءِ وَءاباءَهُم حَتّىٰ طالَ عَلَيهِمُ العُمُرُ ۗ أَفَلا يَرَونَ أَنّا نَأتِى الأَرضَ نَنقُصُها مِن أَطرافِها ۚ أَفَهُمُ الغـٰلِبونَ ٤٤ ﴾… سورة الانبياء
”اصل یہ ہے کہ ہم نے انہیں او ران کے باپ دادوں کو (فوائد ِزندگی سے) بہرہ ور ہونے کے موقعے دیے۔یہاں تک کہ (خوش حالیوں کی سرشاری میں) ان کی بڑی بڑی عمریں گزر گئیں (اور اب غفلت ان کی رگ رگ میں رچ گئی ہے) مگر کیا یہ لوگ نہیں دیکھ رہے کہ ہم زمین کو چاروں طرف سے ان پر تنگ کرتے ہوئے چلے آرہے ہیں؟ پھر کیا وہ (اس مقابلہ میں) غالب ہو رہے ہیں؟” (معارف القرآن: جلد سوم، ص۶۶۳)
پرویز صاحب کے تضادات و تناقضات کو کہاں تک بیان کیا جائے ع
سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے !
پرویز صاحب کے ان تعبیری تضادات کو دیکھئے اور پھر داد دیجئے۔ پرویز صاحب کے مقلدین کو جو یہ شور مچایا کرتے تھے کہ:
”پرویز صاحب کی تحریروں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ نہ کبھی پرانی ہوتی ہیں اور نہ ہی ان میں کہیں تضاد واقع ہوتا ہے۔ اس لئے کہ وہ جو کچھ لکھتے ہیں، قرآنِ کریم کی روشنی میں لکھتے ہیں اور قرآن کا یہ اعجاز ہے کہ اس کے حقائق کبھی پرانے نہیں ہوتے، نہ ہی ان میں کسی قسم کا تضاد و تخالف ہے۔” (فروری ۸۳ئ: ص ۲۶)
اس سے اندازہ کر لیجئے کہ پرویز صاحب کے واضح،صاف، بین اور چمکتے ہوئے تضادات کے وجود کا صریح انکار، مقلدین ِپرویز کی فکری صلاحیتوں کو کس قدر مفلوج کر چکا ہے۔ وہ پرویز صاحب کو قرآن میں ایسی اتھارٹی سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی متضاد و متخالف تعبیرات میں سے جس تعبیر کو بھی مختلف اوقات میں پیش کیا، اس قومِ نے اسے من و عن قبول کر لیا اور ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ان کی متضاد اور متناقض تحریروں کی بنا پر کسی تحریر سے، انہوں نے اختلاف کیا ہو۔
پرویز صاحب نے کہاکہ ”اشتراکیت شخصی ملکیت کی قائل نہیں جبکہ اسلام اس کا قائل ہے۔”
سعادت مند مقلدین نے کہا: ”اٰمَنَّا وَصَدَّقْنَا”
پھر کہا کہ ”اسلام میں شخصی ملکیت کا کوئی وجود نہیں۔”
شاگردانِ نیک بخت نے کہا ”بالکل درست”…
مفکر ِقرآن نے کہا کہ ”قتل عمد میں قصاص (قتل کا بدلہ قتل) دیت اور عفو کے تینوں پہلو موجود ہیں”
پیروکاروں نے کہا ”بجا ارشاد فرمایا”
پھر پینترا بدل کر کہاکہ ”قتل عمد کی سزا صرف قتل ہے، رہے عفو اور دیت کے پہلو، تو ان کا تعلق قتل عمد سے ہے ہی نہیں۔”
انہوں نے کہا ”درست فرمایا”…
مفکر قرآن نے کہا کہ ”اسلام میں ڈھائی فیصد زکوٰۃ امر واقعہ ہے’
‘ یہ بولے ”أحسنت ومرحبا”
پھر ا س کے برعکس یہ کہا: ”یہ ڈھائی فیصد زکوٰۃ تو عجمی اسلام کی سازش کے ذریعہ اُمت ِمسلمہ کے گلے مڑھ دی گئی ہے، بھلا اسلام کا اس سے کیا تعلق؟”
فکر و شعور سے عاری قوم نے کہا ”سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا” …
الغرض، مفکر ِقرآن عمر بھر جس متناقض قول کوبھی پیش کرتے رہے، مفلوج الفکر مقلدین نے ہر مقام پر یہی کہا :
سرتسلیم خم ہے، جو مزاجِ یار میں آئے!
کبھی یہ لوگ ایک مقام پر کھڑے ہو کر سوچیں کہ پرویز صاحب ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ:
”قرآن کو سند اور حجت ماننے والا تو ساری عمر میں دو متضاد باتیں بھی قرآن کی سند سے نہیں کہہ سکتا۔” (اپریل۶۷ئ:ص ۵۸)
اور دوسری طرف وہ ساری عمر، قرآن کا نام لے کر تضادات کا خارزار ہی پیدا کرتے رہے، لیکن سوچے تو وہ جس کی فکر میں صحت اور سلامتی کی کوئی رمق باقی رہ گئی ہو۔ یہ تو بس بھیڑوں کی قطار ہے جو برسوں سے اس رستے پر چلی جارہی ہے جس پر کبھی کوئی پہلی بھیڑ چل نکلی تھی:
﴿كَمَثَلِ الَّذى يَنعِقُ بِما لا يَسمَعُ إِلّا دُعاءً وَنِداءً…١٧١ ﴾… سورة البقرة
اسے ‘مفکر ِقرآن’ کی خوش قسمتی ہی کہیے کہ اسے اس قسم کے پیروکار میسر آگئے جو لب و دہن اور گوش و بصر بند کرکے اس کے پیچھے، اس کی وفات کے بعد بھی اسی طرح چلتے جارہے ہیں جیسے شعرا کے پیچھے ‘غاوون’ کی ٹولی بھٹکا کرتی ہے۔