حضرت ابراھیمؑ اورتین جھوٹ-تحقیقی جائزہ

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق ایک حدیث نقل کی جاتی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین باتیں خلافِ واقعہ کہیںــان میں سے دوکا ذکر قرآنِ پاک میں بھی ہے۔ منکرین حدیث یہاں اس بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ ان باتوں کی جواصل حقیقت ہے قرآن کے بیان میں اسے اختیار کرلیتے ہیں اور حدیث کے بیان میں اسے حدیث پر طعنہ بنادیتے ہیں کہ قرآن کہتا ہے کہ حضرت ابراھیم ؑ سچے نبی تھے اور حدیث کہتی ہے کہ انہوں نے جھوٹ بولے۔ اس لئے یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے۔ اس تحریر میں ہم قرآن و حدیث کے بیان کا جائزہ پیش کریں گے اس سے پہلے چند باتیں سمجھ لیں اس سے ان آیات /حدیث کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

٭کذب کی لغوی تحقیق٭

عربی زبان میں ایک ہی لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے ۔ کذب بھی ایک ایسا لفظ ہے جو اپنے معانی میں بہت وسعت رکھتا ہے۔ ایسا اَمر جو حقیقت میں ہو تو صحیح مگر بظاہر خلافِ واقعہ معلوم ہوتا ہو کذب ہی کہلاتا ہے۔اس طرح مغالطہ، اخفاء، کنایہ، خطا، سہو و نسیان اور فریب نظر بات پر بھی یہ الفاظ اطلاق پاتا ہے۔ مثلا کذب کے معنی ترغیب دلانا بھی مستعمل ہے، کذبتہ نفسہ کے معنی ہیں:‌اس کے دل نے اسے ترغیب دلائی۔ اسطرح جوہری اور فراء کہتے ہیں:‌کذب معنی وجب پر ہے۔ ]النھایۃ فی غریب الاثر لابن الاثیر 282/4ْْ]

غلطی یا خطا کے معنی میں‌بھی یہی لفظ‌کذب استعمال ہوتا ہے۔ ذو الرمہ شاعر نے کہا: ما فی سمعہ کذب۔ اس کے سماع میں غلطی نہیں۔<النھایۃ: 282/4>undefined

راغب کی مفردات القرآن 288/2 میں اور دیگر کتب لغات میں بھی اسی قسم کی تفصیل موجود ہے۔ مثلاً دیکھئے:لسان العرب : 708/1،الفائق للزمخشری: 250/3،القاموس المحیط: 166،تاج العروس: 897/1۔

٭کذب بمعنی تعریض اور توریہ٭

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں سچ اور کذب کی تشخیص میں نفس الامر اور متکلم کے قصد اور ارادہ کو بھی دخل ہے۔ اس لحاظ سے اس کی تین صورتیں ہوں گی۔

1. متکلم صحیح اور واقعہ کے مطابق کہے اور مخاطب کو وہی سمجھانا چاہے جو فی الحقیقت ہے۔ یہ دونوں لحاظ (واقعہ اور ارادہ) سے سچ ہے۔

2. متکلم خلاف واقعہ کہے اور مخاطب کو اپنے مقصد سے آگاہ نہ کرنا چاہے بلکہ ایک تیسری صورت پیدا کر دے جو نہ صحیح ہو اور نہ ہی متکلم کا مطلب اور مراد ہو۔ یہ واقعہ اور ارادہ دونوں لحاظ سے جھوٹ ہوگا۔

3. اگر متکلم صحیح اور نفس الامر کے مطابق گفتگو کرے لیکن مخاطب کو اندھیرے میں رکھنا چاہے اور اپنے مقصد کو اس پر ظاہر نہ ہونے دے اسے تعریض اور توریہ کہا جاتا ہے۔ یہ متکلم کے لحاظ سے صدق ہے اور تفہیم کے لحاظ سے کذب ہے۔

صدق اور کذب میں جس طرح واقعے کو دخل ہے، اسی طرح ارادے کو بھی دخل ہے۔ چنانچہ جب متکلم خبر واقع اور مخبر عنہ کے مطابق دے، لیکن اس واقع اور حقیقت کو مخاطب سے مخفی رکھنا چاہے، تو اسے تعریض یا توریہ کہتے ہیں۔ راغب رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔”تعریض ایسی گفتگو ہوتی ہے، جس کے ہر دو پہلو ہوتے ہیں۔ من وجہ صدق اور من وجہ کذب۔ جیسے فیما عرضتم بہ من خطبۃ النساء سے واضح ہے۔”<مفردات القرآن : 85/2>undefined

حدیث سے مثال :یہی تعریض یا توریہ بہت سی جگہوں پر ثابت ہے۔ مثلاً سفر ہجرت میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے جب پوچھا جاتا کہ تمہارے ساتھ کون ہیں تو فرماتے: رجل یھدینی السبیل، کہ میرے رہبر ہیں۔ یہ مکمل صدق بھی نہیں کہ مخاطب اس سے دنیاوی رہبر سمجھتا تھا۔ اور مکمل جھوٹ بھی نہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہرحال دینی لحاظ سے تو رہبر ہی ہیں۔

قرآن سے مثال : اللہ تعالی ٰ نے منافقین کے تذکرہ میں فرمایا:إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ

جب آپ کے پاس منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ الله کے رسول ہیں اور الله جانتا ہے کہ بے شک آپ اس کے رسول ہیں اور الله گواہی دیتا ہے کہ بے شک منافق جھوٹے ہیں.<المنافقون: 1>undefined

یہاں منافقین کی صحیح بات کی بھی تصدیق نہیں فرمائی ، اس لئے کہ یہ ان کے ضمیر کی آواز نہیں، بلکہ ضمیر کی آواز اس کے خلاف ہے۔ اگرچہ ان کی بات درحقیقت سچ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ لیکن ان کا ضمیر اس حقیقت کو قبول کرنے میں مانع ہے، لہٰذا فقط غلط ارادے کی بنیاد پر ان کی مکمل بات ہی کی تغلیط کر دی۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ فقط حقیقت واقعہ کی اہمیت نہیں، بلکہ اس پر متکلم کا ارادہ بھی جھوٹ کا اطلاق کرنے کے لئے ازحد ضروری ہے۔

٭حضرت ابراھیم ؑ کے تین کذبات(توریہ)٭

حدیث میں ذکر :

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابراہیم علیہ السلام نے تین مرتبہ توریہ کیا تھا ، دو ان میں سے خالص اللہ عزوجل کی رضا کے لیے تھے ۔ ایک تو ان کافرمانا ( بطور توریہ کے ) کہ ” میں بیمار ہوں ” اور دوسرا ان کا یہ فرمانا کہ ” بلکہ یہ کام تو ان کے بڑے ( بت ) نے کیا ہے ” اور بیان کیا کہ ایک مرتبہ ابراہیم علیہ السلام اور سارہ علیہا السلام ایک ظالم بادشاہ کی حدود سلطنت سے گزررہے تھے ۔ بادشاہ کو خبرملی کہ یہاں ایک شخص آیا ہوا ہے اور اس کے ساتھ دنیا کی ایک خوبصورت ترین عورت ہے ۔ بادشاہ نے ابراہیم علیہ السلام کے پاس اپنا آدمی بھیج کر انہیں بلوایا اور حضرت سارہ علیہ السلام کے متعلق پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ میری بہن ہیں ۔ پھر آپ سارہ علیہ السلام کے پاس آئے اور فرمایا کہ اے سارہ ! یہاں میرے اور تمہارے سوا اور کوئی بھی مومن نہیں ہے اور اس بادشاہ نے مجھ سے پوچھا تو میں نے اس سے کہہ دیا کہ تم میری ( دینی اعتبار سے ) بہن ہو ۔ اس لیے اب تم کوئی ایسی بات نہ کہنا جس سے میں جھوٹا بنوں ۔ پھر اس ظالم نے حضرت سارہ کو بلوایا اور جب وہ اس کے پاس گئیں تو اس نے ان کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا لیکن فوراً ہی پکڑلیاگیا ۔ پھر وہ کہنے لگا کہ میرے لیے اللہ سے دعا کرو ( کہ اس مصیبت سے نجات دے ) میں اب تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاوں گا ، چنانچہ انہوں نے اللہ سے دعا کی اور وہ چھوڑدیاگیا ۔ لیکن پھر دوسری مرتبہ اس نے ہاتھ بڑھایا اور اس مرتبہ بھی اسی طرح پکڑلیاگیا ، بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت اور پھر کہنے لگا کہ اللہ سے میرے لیے دعا کرو ، میں اب تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاوں گا ۔ سارہ علیہ السلام نے دعا کی اور وہ چھوڑ دیاگیا ۔ اس کے بعداس نے اپنے کسی خدمت گار کو بلاکر کہا کہ تم لوگ میرے پاس کسی انسان کو نہیں لائے ہو ، یہ تو کوئی سرکش جن ہے ( جاتے ہوئے ) سارہ علیہ السلام کے لیے اس نے ہاجرہ علیہ السلام کو خدمت کے لیے دیا ۔ جب سارہ آئیں تو ابراہیم علیہ السلام کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ۔ آپ نے ہاتھ کے اشارہ سے ان کا حال پوچھا ۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے کافر یا ( یہ کہا کہ ) فاجر کے فریب کو اسی کے منھ پر دے مارا اور ہاجرہ کو خدمت کے لیے دیا ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے بنی ماءالسماء( اے آسمانی پانی کی اولاد ! یعنی اہل عرب ) تمہاری والدہ یہی ( حضرت ہاجرہ علیہ السلام ) ہیں ۔(متفق علیہ)

قرآن میں ذکر :

اوپر حدیث میں مذکور پہلے دو واقعات کا ذکر قرآن میں بھی ہے ۔

پہلا واقعہ: بت شکنی:

(سورہ الانبیاء آیت 52 – 66)

ترجمہ :وہ وقت یاد کرو جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ : یہ کیا مورتیں ہیں جن کے آگے تم دھرنا دیے بیٹھے ہو ؟ 52؀ وہ بولے کہ : ہم نے اپنے باپ دادوں کو ان کی عبادت کرتے ہوئے پایا ہے۔ 53؀ ابراہیم نے کہا : حقیقت یہ ہے کہ تم بھی اور تمہارے باپ دادے بھی کھلی گمراہی میں مبتلا رہے ہو۔ 54؀انہوں نے کہا : کیا تم ہم سے سچ مچ کی بات کر رہے ہو، یا دل لگی کر رہے ہو ؟ (٢٤) 55؀ ابراہیم نے کہا : نہیں، بلکہ تمہارا پروردگار وہ ہے جو تمام آسمانوں اور زمین کا مالک ہے، جس نے یہ ساری چیزیں پیدا کی ہیں، اور لوگو میں اس بات پر گواہی دیتا ہوں۔ 56؀ اور اللہ کی قسم ! جب تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے تو میں تمہارے بتوں کے ساتھ ایک (ایسا) کام کروں گا (جس سے ان کی حقیقت کھل جائے گی) 57؀ چناچہ ابراہیم نے ان کے بڑے بت کے سوا سارے بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا، تاکہ وہ لوگ ان کی طرف رجوع کریں۔ (٢٥) 58؀ وہ کہنے لگے کہ : ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کس نے کی ہے ؟ وہ کوئی بڑا ہی ظالم تھا۔ 59؀ کچھ لوگوں نے کہا : ہم نے ایک نوجوان کو سنا ہے کہ وہ ان بتوں کے بارے میں باتیں بنایا کرتا ہے، اسے ابراہیم کہتے ہیں۔ 60؀ۭ انہوں نے کہا : تو پھر اس کو سب لوگوں کے سامنے لے کر آؤ، تاکہ سب گواہ بن جائیں۔ 61؀ (پھر جب ابراہیم کو لایا گیا تو) وہ بولے : ابراہیم ! کیا ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت تم ہی نے کی ہے ؟ 62؀ۭ ابراہیم نے کہا : نہیں، بلکہ یہ حرکت ان کے اس بڑے سردار نے کی ہے، اب انہی بتوں سے پوچھ لو، اگر یہ بولتے ہوں۔ 63؀ اس پر وہ لوگ اپنے دل میں کچھ سوچنے لگے، اور (اپنے آپ سے) کہنے لگے کہ : سچی بات تو یہی ہے کہ تم خود ظالم ہو۔ 64؀ۙ پھر انہوں نے اپنے سر جھکا لیے، اور کہا : تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ یہ بولتے نہیں ہیں۔ 65؀ ابراہیم نے کہا : بھلا بتاؤ کہ کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی عبادت کر رہے ہو جو تمہیں نہ کچھ فائدہ پہنچاتی ہیں نہ نقصان ؟ 66؀ۭ تف ہے تم پر بھی، اور ان پر بھی جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرے ہو۔ بھلا کیا تمہیں اتنی سمجھ نہیں ؟ 67؀ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی )

اس واقعے میں آیت نمبر 63 میں حضرت ابراہیم کا یہ جملہ کہا کہ یہ کیا دھرا اس بڑے بت کا ہے۔ اس میں ان کی نیت فقط سمجھانے کی تھی کہ وہ غور کریں جب یہ بت بول نہیں سکتے تو ہماری مدد کیا کریں گے۔ ابراہیم علیہ السلام کی تدبیر کا فوری اثر بھی ہوا جیسا کہ آیت بتاتی ہے ۔ علم معانی میں یہ طریقِ گفتگو تعریض کہلاتا ہے۔ یعنی کسی امر کو ایسے پیرایہ میں بیان کرنا جس کا بطلان خود واضح ہو جائے۔ ہر زبان میں یہ اسلوب مستعمل ہے اور جھوٹ نہیں کہلاتا۔ علماء کا بھی یہی قول ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مذکورہ بالا اسلوب بطور تنبیہ و تعریض اختیار کیا ہے۔ علامہ قرطبی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس اسلوب بیان کو ایسا استدلال بلیغ قرار دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مشرکین لاجواب اور شرمندہ ہو گئے۔ حدیث میں بھی اسکو کذب بمعنی تعریض یا توریہ کہا گیا ۔

اگر منکرین حدیث حدیث میں لفظ کذب سے جھوٹ مراد لیتے ہیں تو پھر یہ جھوٹ تو خود قرآن سے ثابت ہے۔ لہٰذا حدیث لکھ کر نعوذباللہ اور استغفراللہ کی گردان کرنے والوں کو آیت 21:63 لکھ کر بھی یہی گردان کرنی چاہئے۔ اور اگر آپ ہماری طرح یہاں توریہ یا تعریض مراد لیتے ہیں تو فبہا، کیونکہ اس طرح قرآن و حدیث دونوں کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام پر کوئی آنچ نہیں آتی۔

دوسرا واقعہ: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی علالت

لوگ کسی تہوار یا اجتماعی کام کے لیے جانا چاہتے تھے، ان کی خواہش تھی حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کے ہمراہ چلیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بتوں کو توڑنے کا پروگرام تھا۔ چنانچہ آیت بیان کرتی ہے:

فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ88؀ فَقَالَ اِنِّىْ سَقِيْمٌ 89؀ فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِيْنَ 90؀فَرَاغَ اِلٰٓى اٰلِـهَــتِهِمْ فَقَالَ اَلَا تَاْكُلُوْنَ 91؀ۚ(سورت الصافات آیت 89-91)

پھر اس نے ستاروں کی طرف دیکھا 88؀ اور کہا میری طبیعت خراب ہے۔ 89؀ چناچہ وہ لوگ پیٹھ موڑ کر ان کے پاس سے چلے گئے۔ 90؀ اس کے بعد یہ ان کے بنائے ہوئے معبودوں (یعنی بتوں) میں جا گھسے (اور ان سے) کہا : کیا تم کھاتے نہیں ہو ؟ 91؀ۚ(آسان ترجمہ قرآن تقی عثمانی )

اس کے بعد ابراہیم نے پورے بت خانہ کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا جس کا اوپر مذکور آیات میں بھی ذکر ہے۔ اب یہاں سقیم کے اظہار میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے توریہ سے کام لیا۔ اسلوب بیان وہی ہے جو سورۃ الانبیاء میں اختیار فرمایا گیا ہے۔ مشرک تاثیراتِ کواکب پر یقین رکھتے تھے اور اسی وجہ سے ان میں ستارہ پرستی رائج تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے باطل ثابت کیا اور ستاروں کو دیکھ کر فرمایا: تمہارے علم نجوم کے مطابق میں اس وقت بیمار ہونے والا ہوں اور آپ علیہ السلام کا یہ فرمانہ کاہنوں کے طریق پر تو ٹھیک تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ علیہ السلام بیمار نہیں ہوئے۔ یہ ابہام اور تعریض تھی جو بالکل سچائی اور حقیقت پر مبنی تھی، مگر قوم نے اسے واقعی اہم بیماری سمجھا۔ انہیں حق ہے کہ اس من وجہ صداقت کو کذب سے تعبیر کریں اس لئے تعریض اور توریہ کو من وجہ کذب کہا جا سکتا ہے۔

حدیث میں مذکور تیسرے واقعے کا ذکر قرآن نے نہیں کیا ۔ منکرین حدیث عموما اپنی تنقید و بے جا الزامات ‌کا رخ‌فقط اسی واقعہ کی جانب رکھتے ہیں ۔کیونکہ اگر وہ پہلے دو واقعات بھی پیش کر دئے جاتے تو پھر خود پر بھی زد پڑتی۔ اس واقعے میں ایک کافر ظالم کے دست تظلم سے بچنے کی خاطر حضرت ابراھیم ؑ نےایک ظاہر اور انسانی تدبیر اختیار کی تھی کہ یہ میری (دینی)بہن ہے ۔ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک قول نقل کیا ہے کہ حضرت سارہ رشتے میں ان کی چچا زاد بہن بھی تھیں ۔ چنانچہ آپؑ پر ایک تعلق کا اظہار اور دوسرے تعلق کے اخفاء سے جھوٹ کا الزام عائد نہیں ہوتا۔ یہ تینوں باتیں تعریضی ہیں جیسا کہ امام نودی اور حافظ ابن حجر(۵۱۸) نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ انکی حقیقت کذب کی نہیں ان سے توریہ مقصود ہے اس لیے حدیث میں صاف وارد ہوا کہ یہ سب خدا کے لیے تھیں۔ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صرف خدا کے واسطے ایسی تعریضی باتیں کہیں ۔

*خلاصہ*

اہل اسلام پہلے دن سے حدیث میں کذب کے لفظ سے توریہ و تعریض ہی مراد لیتے رہے ہیں جیسا کہ اوپر پیش کی گئی تحقیق اور علماء کے اقوال سے واضح ہے ۔ حتی کہ امام بخاری رحمہ اللہ جنہیں اس حدیث کے نقل کرنے کی وجہ سے مطعون کیا جاتا ہے ‘نے بھی دوسرے موقع پر ایک باب خاص اسی مسئلہ تعریض کے متعلق باندھا ہے اَلْمَعَادِیْضُ ممدُوْحَۃٌ عَنِ الْکِذْبِ(۵۱۹) (کتاب الادب) ۔ یعنی تعریضات حقیقتاً جھوٹ نہیں ہوتیں۔ منکرین حدیث چلاکی یہ کرتے ہیں اس لفظ کذب سے خود جھوٹ مراد لیتے ہیں اور اسے علماء و محدثین کے سر تھونپ دیتے ہیں ۔

قرآن اور حدیث میں اگرفرق ہے توصرف یہ ہے کہ قرآن میں ان میں سے دوباتیں مذکور ہیں اور حدیث میں تین۔ اب اگر کوئی اس نسبت کو ‘الزام تراشی’اور ‘دروغ بافی’ کامرقع قرار دیتا ہے تو اسکے اس الزام کا صرف ۱/۳ حصہ صحیح بخاری پر عائد ہوتا ہے جس کے جواز کا فتویٰ دینے میں خود قرآن بھی شریک ہے اور اس الزام کا باقی ۲/۳ حصہ قرآن پر عائد ہوتا ہے۔ ان لوگوں کے دفاع قرآن کا انداز ملاحظہ کیجیے کہ محض حدیث دشمنی کے جوش میں قرآنِ مجید ہی کو ‘الزام تراشی’ اور ‘دروغ بافی’ کامرقع قرا ردے رہے ہیں ۔ دیانت اور شرافت کیا اس کی مقتضی نہیں کہ جس طرح ان میں سے دوباتوں کی توجیہ کی جاتی ہے اسی طرح تیسری بات کی بھی کوئی توجیہ کرلی جائے اور حدیث کے اقتباسات کو لے کر جس نہج پر تنقید کی جاتی ہے، قرآن سے وہی چیز ثابت ہو جائے تو قرآن کو بھی لپیٹ میں لے لیا جائے یا پھر اللہ سے ڈر جائیں اور حدیث پر غیر ضروری اور نامناسب شکوک و شبہات پید اکرنے سے باز آ جائیں۔