اشتراکیت کی درآمد قرآن کے جعلی پرمٹ پر
تحریر : محمد دین قاسمی
(1)ملکیتِ ارضی اورقرآن مجید:
پرویز صاحب بغیر کسی حجاب و ہچکچاہٹ اور شرم و حیا کے برملا یہ کہتے ہیں کہ “جہاں تک کمیونزم کے معاشی نظام کا تعلق ہے وہ قرآن کے تجویز کردہ معاشی نظام کے متماثل ہے۔” (نظامِ ربوبیت، ص 358)
چونکہ کمیونزم کو افراد کی ذاتی ملکیت کا وجود مسلم نہیں ہے۔ اس لئے اگر قرآن کا معاشی نظام اور کمیونزم کا معاشی نظام باہم متماثل ہیں تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ اسلام شخصی ملکیت کا قائل ہو۔چنانچہ پرویز صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ:
” ألأرض لله ” کہنے سے مقصود، خدا کی شانِ ملکوتی کا اظہار نہیں، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ زمین کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہو سکتی، ایسا نہ سمجھنا (یعنی کسی انسان کو ذمین کے رقبے کا مالک قرار دینا) کفر ہے، شرک ہے۔” (نظام، ربوبیت، ص280-281)
“زمین پر کسی شخص کی انفرادی ملکیت قائم نہیں ہو سکتی۔” یہ وہ بات ہے جسے پرویز صاحب نے اپنی متعدد تصانیف میں بتکرارِ بسیار دہرایا ہے۔ ملکیتِ زمین کے مسئلہ میں مابہ النزاع چیز یہ نہیں ہے کہ اس کا اصل مالک خدائے قدوس یا انسان ہے؟ (ہر مسلمان یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ زمین کیا کائنات کی ہر چیز حتیٰ کہ خود انسان اور اس کی ہر چیز بھی اللہ ہی کی ملکیت ہے) اختلاف صرف اس امر میں ہے کہ آیا اللہ کے حکم کے تحت، خدائی قانون کی رُو سے، کوئی شخص، اللہ کی عطاء و عنایت سے بھی زمین کا مالک ہو سکتا ہے یا کہ نہیں۔ جناب پرویز صاحب کے نزدیک وسائل پیداوار خواہ بصورتِ زمین ہوں یا بصورتِ سرمایہ، فطری ہوں یا مصنوعی، کسی شخص کی ذاتی ملکیت میں نہیں ہو سکتے۔
“قرآن کریم کسی کے پاس فاضلہ دولت رہنے نہیں دیتا اور وسائل پیداوار پر (خواہ وہ فطری ہوں یا مصنوعی) کسی کی ذاتی ملکیت کے اصول کو تسلیم نہیں کرتا۔” (نظامِ وربوبیت ص 23)
اسی بنیاد پر پرویز صاحب ذاتی ملکیت کو کفروشرک قرار دیتے ہیں جیسا کہ پہلے حوالہ گزر چکا ہے۔ چنانچہ وہ ان الفاظِ قرآنی کا کہ’’ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّـهِ أَندَادًا” کا مفہوم ہی یہ بیان کرتے ہیں کہ:”کسی کو زمین کا مالک سمجھنا اسے خدا کا شریک بنانا ہے۔” (نظامِ ربوبیت، ص 280)
کیا ملکیت الارض للہ اور الحکم للہ کے خلاف ہے؟
الارض للہ کا یہ مفہوم تو ایک متفق علیہ حقیقت ہے کہ زمین بلکہ پوری کائنات کا اصلا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے مگر یہ کہ وہ کسی کو اس کی آزمائش کے لئے عارضی طور پر بھی زمین کے کسی حصے کا مالک نہیں بنا سکتا (یا نہیں بناتا) ہے، خلافِ حقیقت ہے۔ جس طرح قرآن کریم نے ” الارض للہ ” کہہ کر ملکیت زمین کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے، بالکل اسی طرح وہ أرضنا أرضكم،أرضهم” اور ” أموالكم”کے الفاظ سے مال و دولت اور زمین کی ملکیت کو افراد کی طرف بھی منسوب کرتا ہے اور جب کوئی شخص، خدا کی ملکیت کو تسلیم کرتے ہوئے، اسی قوانین کے مطابق زمین پر تصرف کرتا ہے اور خدا ہی کی مقرر کردہ حدود کے اندر ایسا کرتا ہے، تو کوئی وجہ نہیں کہ اسے ملکیتِ زمین سے بے دخل کیا جائے۔ اب دیکھئے قرآن نے جس طرح “ألأرض لله ” کہا ہے بالکل اسی طرح “ألحكم لله” بھی کہا ہے بلکہ﴿ فَالْحُكْمُ لِلَّهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيرِ ﴿١٢﴾…غافر ” ساتھ ساتھ یہ کہتے ہوئے بھی کہ ﴿وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا ﴿٢٦﴾…الكهف” قرآن کریم برملا یہ اعلان کرتاہے کہ اللہ تعالے نے جملہ انبیاء کرام’’الحکم‘‘دیا ہے ﴿أُولَـئِكَ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ … ٨٩﴾…الأنعام پس جس طرح ’’فالحکم للہ‘‘کی حقیقت قطعیہ کے بعد، خدائے قدوس کا کسی کو اپنے ’’الحکم‘‘ سے سرفراز فرمانا کہ ’’له االحكم لله‘‘ کے منافی نہیں ہے بالکل اسی طرح ’’الارض للہ‘‘ کے ارشاد خداوندی کے بعد ’’ارضہم،ارضکم، اور اموالہم‘‘ وغیرہ کے الفاظ میں مذکور ملکیتِ مال و دولت کو افراد کی طرف منسوب کرنا بھی خلافِ قرآن نہیں ہے۔
الارض للہ کی وضاحت ایک اور مثال سے:
قرآن کریم سے اسی قسم کی ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیے۔قرآن کریم استفہامِ انکاری کے اسلوبِ بیان میں یہ واضح کرتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی “حکم” نہیں ہے۔﴿ أَفَغَيْرَ اللَّـهِ أَبْتَغِي حَكَمًا … ١١٤﴾…الأنعام، “پھر کیا میں اللہ کے سوا کوئی دوسرا حکم تلاش کر لوں۔” اس کے بعد خود ہی ایک اَمرِ خداوندی کو بایں الفاظ پیش کرتا ہے۔
﴿فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا … ٣٥﴾…النساء
(میاں بیوی کے باہمی نزاع کی صورت میں) ایک حکم شوہر کے خاندان میں سے اور ایک حکم بیوی کے خاندان میں سے مقرر کر لو۔”
اب جبکہ قرآن، خود ہی یہ کہہ کر کہ “اللہ کے سوا کوئی حکم نہیں ہے۔” اہل ایمان کو ایک ازدواجی معاملے میں حکم بنانے میں حکم دیتا ہے، تو اس کا مطلب آخر اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ خدا ہی کے فرمان کے تحت کسی کو حکم بنانا اِس امر کے منافی نہیں ہے کہ “اللہ کے سوا کوئی حکم نہیں ہے۔” بالکل یہی حال ملکیتِ زمین کا ہے کہ خدا کے اذن و حکم کے تحت کسی شخص کا مالک زمین بن جانا الارض للہ کی حقیقت کے منافی نہیں ہے، کیونکہ قرآن الارض للہ کے اعلان کے ساتھ یہ بھی برملا کہتا ہے کہ:﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا … ٢٩﴾…البقرة
“وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کی ساری چیزیں پیدا کی ہیں۔”
بہرحال، اگر کوئی شخص زمین کی شخصی اور انفرادی ملکیت کے بارے میں پہلے سے اشتراکی نقطہ نظر کو قبول نہ کر چکا ہو، تو الارض للہ کے الفاظ سے وہ مفہوم کشید نہیں کیا جا سکتا جو کیا جا رہا ہے۔﴿أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُم مِّمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا أَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَ ﴿٧١﴾ …یس
“کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہم نے اپنی بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لئے مویشی پیدا کئے ہیں، جن کے یہ لوگ مالک ہیں۔”
جس طرح آج کے دور میں بار برداری کے لئے ٹرک، ٹرالی، ٹریکٹر، مال گاڑیاں، ہوائی اور بحری جہاز ذرائع پیداوار ہیں۔ بالکل اسی طرح دورِ نزول قرآن میں مویشی ذرائع پیداوار میں داخل تھے۔ ان پر شخصی ملکیت کو قرآن نے ” فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَ ” کہہ کر واضح کر دیا ہے۔
پرویز صاحب کے ایک فکری ہمنوا مولانا عمر احمد عثمانی صاحب نے اس آیت کی یہ تاویل کی ہے کہ:
” فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَ ” کہہ کر قرآن نے افراد کی مالکانہ حیثیت کو تسلیم نہیں کیا بلکہ ان پر تعریض کی ہے کہ وہ ان مویشیوں کے مالک بن بیٹھے ہیں، جن کو خود انہوں نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔”
لیکن یہ تاویل درست نہیں ہے۔ قرآن نے یہاں لوگوں کو ان نعمتوں کی طرف متوجہ کیا ہے، جو اللہ تعالیٰ نے ان پر کی ہیں۔ مویشیوں کو پیدا کر کے ان کو بنی نوع انسان کے لئے مطیع و منقاد کرتے ہوئے ان کی ملکیت میں سونپ دینا خدا کا وہ احسان، انعام اور فضل و رحمت ہے جس پر انسان کو متوجہ الی اللہ کیا گیا ہے۔ قرآن کریم کی یہ آیت بنی نوعِ انسان کے حق میں تعریض کا پہلو رکھتی ہے یا تحدیثِ نعمت کا۔ خود پرویز صاحب کے قلم سے ملاحظہ فرمائیے:
“سورۃ یٰسین میں ” فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَ ” کے بعد ” وَذَلَّلْنَاهَا ” نے یہ واضح کر دیا ہے کہ مالک وہ ہے، جس کے تابع دوسرا ہو جائے۔” (لغات القرآن، ص 1557)
یہاں بنی نوع انسان کے سامنے جانوروں کو اس طرح تابع قرار دیا گیا ہے کہ وہ ان کی ملکیت قرار پاتے ہیں۔
علاوہ ازیں، قرآن پاک نے غلاموں، لونڈیوں اور دیگر اشیاء کے لئے ” مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ “جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے” کے الفاظ بکثرت استعمال کئے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قرآن کریم نے ” مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ “جس کا مالک تمہارا داہنا ہاتھ ہوا” کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ یہ الفاظ بجائے خود ذاتی اور شخصی ملکیت پر کھلی دلیل ہیں۔
اسلام نے اس معاملے میں صرف یہ اصلاح فرمائی ہے کہ انسان کے انسانی جان پر حق ملکیت کو ساقط کر دیا ہے، اس کے علاوہ باقی اشیاء پر جن میں پیداوار کے جملہ ذرائع و وسائل بھی شامل ہیں، ذاتی ملکیت کے اصول کو برقرار رکھا ہے۔ واضح رہے کہ کلمہ “مَا” اصلا بے جان اشیاء کے لئے ہی آتا ہے (بجز چند مستثنیات کے) اور کلمہ “من” جاندار اشیاء کے لئے مستعمل ہے۔ اس لئے اب ” مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ” کے الفاظ میں انسانی ملکیت کے خاتمے کے بعد دیگر بے جان اشیاء کی ملکیت کا انفرادی حق بہرطور مسلم ہے۔ چونکہ شخصی ملکیت کی یہ بحث آگے بھی آ رہی ہے۔ اس لئے ہم یہاں اسی پر اکتفاء کرتے ہیں۔
:البتہ ایک چیز کی وضاحت ضروری ہے، جناب پرویز صاحب رقم طراز ہیں:
“اگر کسی کا کوئی ترکہ ہو گا تو وہ ان اشیاءِ مستعملہ تک محدود ہو گا، جنہیں حکومت نے ذاتی ملکیت میں رکھنے کی اجازت دے رکھی ہو گی۔” (تفسیر مطالب الفرقان، ج3، ص 84)
میں نے پرویز صاحب کا جملہ لٹریچر پڑھ ڈالا ہے۔ الا ماشاءاللہ، مجھے کسی مقام پر بھی ان کے اس فرق و تفاوت کی کوئی دلیل نہیں مل پائی، جو انہوں نے “اشیاء مستعملہ” اور “ذرائع پیداوار” میں کیا ہے اور پھر اس کی بنیاد پر وہ اول الذکر کی ذاتی ملکیت کے قائل ہیں اور ثانی الذکر کی شخصی ملکیت کے منکر ہیں۔ قرآن سے اگر ذاتی ملکیت کا اثبات ہوتا ہے، تو یہ اثبات دونوں قسم کی اشیاء پر مشتمل ہے اور اگر بقول پرویز صاحب، قرآن ذاتی ملکیت کی نفی کرتا ہے، تو یہ نفی بھی ان دونوں قسم کی اشیاء کو محیط ہے، شخصی ملکیت کے بطلان پر قرآن سے دلیل کشید کرنا اور پھر اس دلیل میں سے ایک قسم کی اشیاء کو داخل کرنا اور دوسری قسم کی اشیاء کو خارج کرنا قطعی طور پر غیر قرآنی طرزِ عمل ہے، جو قرآن کا نام لے کر اختیار کیا جاتا ہے۔
زمین کی شخصی ملکیت کا وجود عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت راشدہ میں (پرویز صاحب کی زبانی):
بہرحال زمین کی شخصی ملکیت کی نفی پر قرآن میں سرے سے کوئی دلیل نہیں ہے، پھر عملا قرآن کی بنیاد پر، جو معاشرہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافتِ راشدہ میں متشکل ہو چکا تھا۔ اس میں ایسے بے شمار واقعات موجود ہیں، جو زمین کی شخصی ملکیت کا منہ بولتا ثبوت ہین مگر میں ان بے شمار واقعات کو صرف اس لئے پیش نہیں کر سکتا کہ پرویز صاحب کی تقلید میں، ان کے مقلدین یہ کہہ دیں گے کہ یہ سب تاریخی واقعات ہیں اور:
“دین میں سند نہ تاریخ کے مشمولات ہیں اور نہ مسلمانوں کے متواتر و متوارث عقائد و مسالک، سند رہے خدا کی کتاب۔” (نظامِ ربوبیت، ص 192)
اس لئے میں اپنے آپ کو مجبور پا رہا ہوں کہ ان بے شمار واقعات سے صرفِ نظر کر لوں۔ تاہم مجھے ان واقعات کو پیش کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے، جو پرویز صاحب کی قرآنی “بصیرت” کی کسوٹی پر پورے اُتر کر ان کی کتب میں استشہادا (نہ کہ تردیدا) جگہ پا چکے ہیں۔
عہدِ نبوی میں زمین کی شخصی ملکیت:
غزوہ خیبر میں اہل ایمان کو فتح نصیب ہوئی۔ یہود نے اہل اسلام سے صلح کی درخواست کی۔ جس کے نتیجے میں:
“یہودیوں کی زمین اُن سے لے لی گئی۔ اس زمین کا نصف بیت المال میں تمام ضروریات کے لئے رکھ لیا گیا اور باقی نصف مجاہدین میں برابر تقسیم کر دی گئی۔ پیدل کو ایک (1) حصہ اور سوا دو (2) امیر وقت، امامِ امت، سالارِ جیش (سپہ سالار فوج) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی عام مجاہدین کے برابر ایک ہی حصہ ملا۔” (معارف القرآن، ج4، ص565)
پرویز صاحب کا یہ اقتباس اس اَمر کو شک و شبہ سے بالا کر دیتا ہے کہ غزوہ خیبر کے بعد تک اراضی و اموال میں ذاتی ملکیت کا اصول رائج تھا۔ اس بناء پر خیبر کی اراضی کا نصف مجاہدین میں تقسیم کیا گیا۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ اور زمین کی شخصی ملکیت:
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کا جو معاشی نظام قائم فرمایا تھا۔ اس میں افراد کی شخصی ملکیت کا اصول رائج و متداول تھا۔ یہاں تک کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اپنی ملکیت میں بھی کچھ اراضی تھی، جسے آپ کی وصیت کے مطابق فروخت کیا گیا اور اس معاوضے کے عوض، جو آپ نے کارِ خلافت سرانجام دیتے ہوئے بیت المال سے وصول کیا، اس قطعہ اراضی کی قیمت داخل بیت المال کر دی گئی۔ خود پرویز صاحب کو بھی ایک مقام پر اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہی بنی:
“خلافت سے پہلے آپ تجارت کرتے تھے اور اچھے خوشحال تھے، خلافت کی ذمہ داریوں نے آپ کا سارا وقت لے لیا، تو آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تجویز اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے مشورے سے بیت المال کا وظیفہ لینا قبول کر لیا۔ لیکن وہ اتنا ہی تھا جس میں آپ کا اور آپ کے اہل و عیال کا غریبانہ انداز میں گزارا ہو سکے۔ جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا، تو آپ کو یہ خیال بار بار ستا رہا تھا کہ معلوم نہیں، میں نے مسلمانوں کے بیت المال سے جس قدر لیا ہے، اس کے مطابق ان کی خدمت بھی کر سکا ہوں یا نہیں۔ اس اضطراب کو مبدل بہ سکون کرنے کے لئے انہوں نے اپنے رشتہ داروں سے کہا کہ ایک مختصر سا قطعہ زمین ان کے پاس ہے، اسے فروخت کر دیا جائے اور جس قدر رقم انہوں نے بیت المال سے لی ہے، اسے واپس کر دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور وہ اس حساب کو یہیں بے باق کر کے خدا کے سامنے گئے۔” (شاہکارِ رسالت، ص359، ایڈیشن 1987ء)
خلافتِ راشدہ میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ذاتی ملکیتِ اراضی کا یہ واقعہ جس میں ان کی وصیت کے مطابق اسے فروکت کر ڈالنے کا بھی ذکر ہے۔ اسلامی نظامِ معیشت میں زمین کی شخصی ملکیت کا کھلا ہوا ثبوت ہے جس کا انکار کوئی حق پرست شخص نہیں کر سکتا۔ پرویز صاحب کا افراد کی نجی ملکیت کے اصول کی نفی کرنا محض اس لئے ہے کہ وہ بدل و جان اشتراکیت پر ایمان لا چکے تھے۔ پھر اس پیشگی ایمان کے بعد انہوں نے تحریف کی راہ سے اُسے مشرف بہ اسلام کرنے کی کوشش کی، لیکن حقیقت بہرحال حقیقت ہے، جو بالآخر ان کے قلم سے ٹپک پڑی۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اگر اسلام نے شخصی ملکیت کو ناجائز قرار دیا ہوتا، تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اپنی ملکیت میں کوئی اراضی رہتی؟ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ وہ شخص ہیں، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ترین ساتھی اور سب سے زیادہ انہیں ہی صحبتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی سعادت حاصل ہوئی پھر وہ مجمع عام میں اپنی زمین کو فروخت کر ڈالنے کی وصیت کرتے ہیں اور کوئی شخص یہ نہیں کہتا کہ جب اسلام میں شخصی ملکیت کا وجود ہی ثابت نہیں، تو آپ کے ہاں یہ اراضی کیسی؟
عہد فاروقی رضی اللہ عنہ اور زمین کی شخصی ملکیت:
عہد فاروقی رضی اللہ عنہ میں بھی لوگوں کو زمین پر شخصی ملکیت کا حق حاصل تھا۔ اس کی دلیل وہ واقعہ ہے جسے پرویز صاحب نے بایں الفاظ بیان کیا ہے:
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ تھا کہ کسی مسلمان کا مال، اس کی رضا مندی کے بغیر نہیں لیا جا سکتا، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک شخص نے شکایت کی کہ اس کی زمین تک پانی اس صورت میں پہنچ سکتا ہے کہ پانی کی نالی فلاں شخص کی زمین میں سے گزرے اور وہ اس کے لئے رضامند نہیں ہوتا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ وہ شخص اسے پانی لے جانے دے اور اس کے راستہ میں بالکل مزاحم نہ ہو۔” (طلوعِ اسلام ، جنوری 1971ء)
یہ واقعہ اس حقیقت کو آفتابِ نیمروز کی طرح واضح کر دیتا ہے کہ وہ نہ صرف دورِ نبوت میں بلکہ دورِ خلفائے راشدین میں بھی افراد معاشرہ کو اراضی کی ذاتی ملکیت کا حق حاصل تھا اور اس کا نظامِ معیشت اسی اصل و اساس پر قائم تھا۔ اگر اسلام نے افراد کو یہ حق ملکیت نہ دیا ہوتا اور اراضی ملکیتِ ریاست ہوتی اور اس پر کام کرنے والے کی حیثیت محض سرکاری مزارع کی ہوتی، تو پانی کی نالی نکالنے کا یہ مسئلہ سرے سے پیدا ہی نہ ہوتا۔ آپ خود سوچئے کہ اگر کسی لینڈ لرڈ کی ملکیت میں دو سو مربع اراضی ہو اور اس پر دو سو مزارع کام کر رہے ہوں تو اس مزارع کو آقائے زمین کی خواہش کی مزاحمت کرنے کی کیا ضرورت ہے، اگر زمین واقعی کاشتکار کی ذاتی ملکیت میں ہو تو بلاشبہ وہ مزاحم ہو سکتا ہے مگر جب زمین سرے سے اس کی ہے ہی نہیں اور کوئی دوسرا شخص اس کا مالک ہے اور وہ مالک ہی کی حیثیت سے کوئی کھال کیا، نہر بھی کھودنا چاہے، تو مزارع کس طرح مانع و مزاحم ہو سکتا ہے۔ عہدِ فاروقی رضی اللہ عنہ کے اس واقعہ میں ایک شخص کا دوسرے شخص کو اپنی زمین میں سے پانی کا راستہ دینے میں مزاحم ہونا، خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنی اراضی کا مالک تھا اس لئے وہ کسی دوسرے کو بذریعہ کھال پانی فراہم کرنے کے لئے اپنی زمین کے نقصان کو برداشت کرنے کو تیار نہ تھا۔ البتہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ اجتماعی مصالح کے پیش نظر ذاتی ملکیت کے اصول کو قربان کئے بغیر مالکِ زمین کو اگر کچھ قربانی و ایثار سے کام لینا پڑے، تو اسے دریغ نہیں کرنا چاہئے۔
عراقی اراضی کے علاوہ دیگر زمینوں کی افراد میں تقسیم:
زمین کے افراد کی شخصی ملکیت میں رہنے کا ثبوت اس امر سے بھی ملتا ہے کہ عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور دورِ صدیقی رضی اللہ عنہ میں ہر قسم کا مالِ غنیمت (جس میں مزروعہ اراضی بھی شامل تھی) افراد، معاشرہ یا مجاہدین میں تقسیم کی گئی۔ عہدِ فاروقی میں مخصوص وجہ سے عراقی زمین کی تقسیم عمل میں نہیں آئی، لیکن اس کے علاوہ ہر قسم کی زمین عام اُصولِ اسلام کے مطابق تقسیم ہو کر افراد کی نجی ملکیتوں میں داخل کی جاتی رہی ہے۔ پرویز صاحب رقم طراز ہیں:
“رسول اللہ اور خلافت صدیقی میں، قانون یہ تھا کہ مالِ غنیمت مجاہدین میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ فتح عراق کے وقت، مالِ غنیمت میں کثیر مزروعہ زمینیں بھی ملیں، سابقہ قاعدہ کے مطابق مطالبہ ہوا کہ انہیں بھی سپاہیوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے اختلاف کیا اور کہا کہ ان زمینوں کی پیداوار پر ساری امت اور آنے والی نسلوں کا دارومدار ہے۔ اس لئے انہیں انفرادی ملکیت میں نہیں دیا جا سکتا۔ یہ مملکت کی تحویل میں رہیں گی۔” (شاہکار رسالت، ص 279)
عہد فاروقی میں صرف عراق کی زمینوں کا تقسیم نہ کیا جانا اور باقی ممالک کی اراضی اور غنائم کا افراد میں تقسیم کیا جانا، خود اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اسلام نجی ملکیت کی نفی نہیں کرتا بلکہ اس کی معیشت نجی ملکیت کے اصول پر استوار ہے۔ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، دورِ صدیقی رضی اللہ عنہ اور خلافتِ فاروقی رضی اللہ عنہ میں شخصی ملکیت کے اصول کی کارفرمائی کو دیکھتے ہوئے جب ہم ان استدلالات کو دیکھتے ہیں، جو طلوعِ اسلام نے بالعموم اور پرویز صاحب نے بالخصوص ” سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ ” اور ” وَضَعَهَا لِلْأَنَامِ ” کے قرآنی الفاظ سے کشید کئے ہیں، تو ہمیں وہ بیرونی نظریات کو قرآن میں گھسیڑنے کی بھونڈی کوشش دکھائی دیتے ہیں۔
(2)ملکیتِ مال اور قرآن مجید:
قل العفو (29/2) پر بحث:
قرآن کریم میں اس بات کی کیا دلیل ہے کہ افراد اپنی محنت کی کمائی میں سے صرف اس قدر کے ہی حق دار ہیں، جو فرد کا سب کی محنت کے بقدر ہو اور اس سے زائد کمائی کے وہ مالک نہیں ہو سکتے؟ اس کے جواب میں سورۃ البقرۃ کی یہ آیت پیش کی جاتی ہے:
﴿وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ … ٢١٩﴾… البقرة
“وہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں؟ کہو جو بہترین چیز ہو۔”
پرویز صاحب کا استدلال یہ ہے کہ یہاں عفو کے انفاق کا حکم ہے لغتِ عرب میں چونکہ عفو المال کے معنی زائد از ضرورت ، مال کے بھی ہیں۔ اس لئے یہاں تمام زائد از ضرورت مال کے، انفاق کا حکم دیا گیا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ لوگ فاضلہ دولت کے مالک نہیں ہو سکتے ہیں۔
لیکن یہ استدلال کرتے ہوئے ادارہ طلوعِ اسلام کے بانی نے یہ قطعا نہیں سوچا کہ زائد از ضرورت مال و دولت خرچ کرنے کی یہ ترغیب اہل ایمان کو اس لئے تو دی گئی ہے کہ وہ اس مال کے خود مالک ہیں۔ اگر وہ اس فاضلہ دولت کے مالک ہی نہ ہوتے اور قرآن کریم کے اس حکم کی روشنی میں کہ:
﴿لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوا ۖ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ … ٣٢﴾…النساء
وہ اپنی سعی و کاوش اور محنت کے ماحصل کے حق دار ہی نہیں، تو انہیں انفاقِ مال کی یہ ترغیب وہی ہی کیوں جاتی۔پھر بجائے اس کے کہ قرآن اربابِ اقتدار سے یہ کہے کہ:
“تم اہل مال و دولت سے فاضلہ دولت حاصل کر لو، کیونکہ وہ اس کے حقدار نہیں ہیں۔” الٹا اہل مال سے یہ کہتا ہے کہ:
“آپ اپنی “زائد از ضرورت” کمائی کو راہِ خدا میں صرف کر دیں۔”
یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ فاضلہ دولت کر پہلے افراد کی ملکیت سمجھتا ہے اور پھر انہیں یہ ترغیب دیتا ہے کہ وہ اپنے عضو المال میں سے “راہِ خدا” میں صرف کریں۔
خذ العفو (199/7) پر بحث:
ممکن ہے کہ کسی کے ذہن میں یہ بات آ جائے کہ اربابِ اقتدار کو قران نے یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ اہل مال سے زائد از ضرورت مال لے لیں اور دلیل میں آیت (199/7) کے ابتدائی ٹکڑے پیش کریں جس کے متعلق پرویز صاحب کا یہ فرمان ہے کہ:
‘اس آیت میں اسلامی نظام یا اس کے سربراہ سے کہا گیا ہے کہ جماعت مومنین کا زائد از ضرورت مال اپنی تحویل میں لے لیا کرو۔” (تفسیر مطالب الفرقان، ج6، ص 55)
حالانکہ اس سے قبل وہ “خذ العفو” کا ترجمہ “درگزر کرنا” کرتے رہے ہیں جیسا کہ مندرجہ ذیل عبارت سے ظاہر ہے:
﴿خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ ﴿١٩٩﴾…الأعراف
“(بہرحال تم ان کی ان باتوں کی وجہ سے اپنے پروگرام میں رکو نہیں) تم ان سے درگزر کرتے ہوئے آگے بڑھتے جاؤ اور قاعدے اور قانون کے مطابق، انہیں خدا کے احکام دیتے جاؤ اور جہلاء سے کنارہ کش رہو۔” (مفہوم القرآن (199/7)
ہمارے نزدیک پرویز صاحب کا یہ جدید مفہوم قطعی غلط ہے۔
اولا: اس لئے کہ عفو کا مفہوم زائد از ضرورت مال صرف اسی صورت میں لیا جا سکتا ہے جبکہ اس کے ساتھ مال کا لفظ بطورِ مضاف الیہ موجود ہو (جیسے عفو المال) یا پھر عفو کے ساتھ کوئی قرینہ ہو جو اس معنی پر دلالت کرتا ہو اور ازروئے لغت اس کے علاوہ کوئی اور معنی مراد لینا متعذر ہو لیکن یہاں آیت (199/7) میں ” خُذِ الْعَفْوَ وَالمال” کی بجائے ” خُذِ الْعَفْوَ ” کے الفاظ ہیں۔ اس لئے یہاں “زائد از ضرورت” مال کا مفہوم مراد نہیں لیا جا سکتا بلکہ “درگزر کرنے” کا مفہوم ہی صحیح مفہوم ہے۔
ثانیا: اس لئے کہ یہ آیت قبل از ہجرت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تھی اور مکی دور میں سرے سے وہ نظامِ حکومت قائم ہی نہیں ہوا تھا (جسے پرویز صاحب نظامِ ربوبیت کا نام دے رہے ہیں) کہ اس کے سربراہ کو یہ کہنے کی ضرورت پڑتی کہ ۔۔ “آپ لوگوں کے عفو المال اپنی تحویل میں لے لیں۔” ۔۔ وہاں تو صورتحال یہ تھی کہ غریب مسلمان کفارِ مکہ کی چیرہ دستیوں کا شکار تھے۔ ان کے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے تھے۔ مارپیٹ، استہزاء و تضحیک، طعن و تشنیع، سب و شتم، مخالفت و عداوت اور سب و نہب کی فضاء میں ان کے لئے سانس لینا مشکل تھا۔ اس صورت حال میں ان ستم رسیدہ اور مظلوم و مقہور مسلمانوں سے ان کے ضرورت سے زائد مال کو اپنی تحویل میں لے لینے کا حکم قطعی طور پر غیر معقول حکم ہے اس صورتحال سے یہ حکم کوئی میل نہیں کھاتا۔ اس لئے لامحالہ “خذ العفو” کا یہ معنیٰ کہ ۔۔”اہل مال سے زائد از ضرورت مال لے کر اسے اپنی تحویل میں کر لو۔۔” قطعی غلط معنیٰ ہے۔ آیت کا صحیھ مفہوم یہی ہے کہ ۔۔اے نبی! نرمی و درگزر کا رویہ اختیار کرو۔ معروف کی تلقین کئے جاؤ اور جاہلوں سے نہ اُلجھو۔”
ثالثا: اس لئے کہ ربطِ آیات کا تقاضا یہ ہے کہ “خذ العفو” کو “درگزر” کے مفہوم میں لیا جائے۔ آیت میں تین حکم دئیے گئے ہین:
1۔ عفو کو اختیار کیجئے۔
2۔ معروف کی تلقین کرتے رہئے۔
3۔ جاہلوں کی جہالت سے کنارہ کش رہئے۔
خذ العفو کا معنی “زائد از ضرورت مال” لینے کی صورت میں پہلا حکم اہل ایمان سے وابستہ ہو گا جبکہ اسی آیت کے باقی دونوں احکام (امر بالمعروف اور اعراض عن الجاھلین) کا تعلق کفار سے قائم ہو گا۔ اس طرح آیت کے ابتدائی حسے کا تعلق، اہل ایمان سے جوڑنا اور باقی ماندہ احکام کو اہل کفر سے وابستہ کرنا، اختلالِ نظم کا موجب ہے جبکہ تینوں احکام کا تعلق ایک ہی فریق (کفار) کے جوڑنے میں کسی قسم کا خلل اور سقم واقع نہیں ہوتا۔ اس لئے “خذ العفو’ کا یہ معنیٰ کہ “درگزر کیجئے” ہی صحیح اور مناسب معنی ہے۔
رابعا: اس لئے کہ ان الفاظ کا “زائد از ضرورت مال” کا معنی لینے کی صورت میں عفو کے بعد مال کو بطور مضاف الیہ محذوف ماننا پڑتا ہے، لیکن “درگزر” کا معنیٰ مراد لینے کی صورت میں کوئی محذوف نہیں ماننا پڑتا۔ اور یہ بات عالم تو رہا ایک طرف عام آدمی بھی جانتا ہے کہ قرآن کا معنیٰ کرتے ہوئے اپنی طرف سے کوئی محذوف ماننے کی بجائے، بغیر محذوف کو مانے ہوئے اس کا مفہوم بیان کرنا اولیٰ انسب اور افضل ہے۔
خامسا: اس لئے کہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حکمتِ تبلیغ کی تعلیم دی ہے۔ اس لئے ان آیات کے ؐجمون و مدعا کی روشنی میں، ان جملہ احکام کو ان معانی پر محمول کرنا جو حکمت تبلیغ سے میل کھاتے ہوں اقرب الی الصواب ہے بہ نسبت اس کے کہ انہیں خود ساختہ محذوفات کی بدولت ایسے معانی پہنچائے جائیں جو نہ تو سیاقِ کلام سے کوئی مناسبت رکھتے ہیں اور نہ ہی اس دور سے جس میں یہ آیات نازل ہوئی تھیں۔
ان وجوہ کی بناء پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ “خذ العفو” کا وہی سابقہ مفہوم ہی درست ہے، جو پرویز صاحب اپنے اس نئے مفہوم سے قبل یوں پیش کرتے رہے ہیں:
﴿خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ ﴿١٩٩﴾…الأعراف
(بہرحال، تم ان کی ان باتوں کی وجہ سے اپنے پروگرام میں رکو نہیں) تم ان سے درگزر کرتے ہوئے، آگے بڑھتے جاؤ اور قاعدے اور قانون کے مطابق، انہیں خدا کے احکام دیتے جاؤ اور جہلاء سے کنارہ کش رہو۔ (اگر تم ان سے الجھتے رہے، تو یہ ناحق تمہارا وقت ضائع کریں گے)” (مفہوم القرآن 199/7)
آیت (219/2)
اب آئیے! آیت (219/2) کی طرف، جناب پرویز صاحب نے اس کا معنیٰ یوں کیا ہے:
“پوچھتے ہیں کہ اپنی کمائی کا کتنا حصہ دوسروں کے لئے کھلا رکھنا ہو گا۔ ان سے کہو جتنا تمہاری ضروریات سے زائد ہو۔” (نظامِ ربوبیت، ص 158)
اگرچہ قواعدِ لغت کے اعتبارسے “عفو” کا یہ ترجمہ غلط نہیں ہے۔ لیکن ترجمہ کرتے ہوئے صرف قواعدِ لغت کو ہی نہیں دیکھا جاتا، بلکہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ ترجمہ قرآن کی مجموعی تعلیم کے بھی مطابق ہے یا نہیں۔ جناب پرویز صاحب رقم طراز ہیں:
“جب کسی لفظ کے ایک سے زیادہ معانی ہوں اور قرآن کریم میں وہ لفظ مختلف آیات میں آیا ہو، تو قرآنی طالب علم کے لئے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ اس آیت میں اس لفظ کے متعدد معانی میں سے کون سا معنیٰ زیادہ موزوں ہے۔ اس لئے قرآن کے دیگر مقامات کو بھی سامنے رکھنا ہو گا۔ اس طریق سے جن معانی کو ترجیح دی جائے گی وہ قرآنی مفکر کا فکری اجتہاد ہو گا اور یہ ظاہر ہے کہ کسی (بڑے سے بڑے مفکر) کا فکری اجتہاد بھی نہ وحی خداوندی کی طرح حرفِ آخر ہو سکتا ہے اور نہ غیر متبدل، دوسرے تو ایک طرف، وہ خود بھی مزید غوروتدبر سے اپنے سابقہ فکری استنباط میں تبدیلی کر سکتا ہے بشرطیکہ اس کی تائید لغت اور قرآن کی کلی تعلیم سے ہوتی ہو۔” (تفسیر مطالب الفرقان، ج6، ص 55)
اگرچہ لغت کی رُو سے (الْعَفْوَ) کے قرینہ سے) عفو کا معنیٰ یہاں “زائد از ضرورت مال” ہو سکتا ہے، لیکن ہمیں دیکھنا یہ چاہئے کہ اس معنیٰ کی تائید قرآن کریم کی کلی تعلیم سے ہوتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ قرآن نے کہیں بھی یہ نہیں کہا کہ ۔۔ وہ اپنی ساری زائد از ضرورت دولت کو صرف کر دے ۔۔ بلکہ جہاں بھی حکم دیا ہے یہی حکم دیا ہے کہ ۔۔ “وہ خدا کے عطا کردہ رزق میں سے بعض کو راہِ خدا میں صرف کر دے۔” اور یہ بعض حصہ بھی اس فاضلہ دولت میں سے ماخوذ ہو گا، جو فرد کا سب کی ضروریات سے زائد ہو۔ کیونکہ مال بقدرِ ضرورت و کفایت کا تو وہ ہر حال میں مستحق و مالک ہو گا۔ خواہ وہ خود کمائے یا کمانے سے معذور ہونے کی صورت میں حکومت کی طرف سے اسے عطاء کیا گیا ہو خود کمانے کی صورت میں تو اس کا استحقاق ظاہر ہی ہے اور معذور ہونے کی صورت میں بقدرِ کفایت مال اس کے حوالے کرنا اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
الغرض! قرآن کی مجموعی اور کلی تعلیم یہ نہیں ہے کہ فرد کا سب اپنا تمام عفو المال حکومت کے حوالے کر ڈالے، بلکہ یہ ہے کہ وہ خدا کے عطا کردہ اس رزق میں سے بعض کو اس کی راہ میں صرف کر دے۔ چند آیات کو ملاحظہ فرمائیے جن سے آپ کو اسلام کی کلی اور مجموعی تعلیم کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ… ٢٥٤﴾…البقرة
“اے ایمان والو! جو مال ہم نے تمہیں بخشا ہے اس میں سے خرچ کرو۔ قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خرید و فروخت ہو گی نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش چلے گی۔”
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ… ٢٦٧﴾… البقرة
“اے ایمان والو! جو مال تم نے کمائے ہیں اور جو کچھ ہم نے زمین سے تمہارے لئے نکالا ہے اس میں سے بہتر حصہ راہِ خدا میں خرچ کرو۔”
﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّـهُ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا …﴿٤٧﴾…يس
“جب بھی ان سے کہا گیا کہ اللہ نے جو رزق تمہیں دیا ہے اس میں سے کچھ اللہ کی راہ میں بھی خرچ کرو، تو کفار نے یہی کہا کہ ۔۔۔”
امتِ مسلمہ کے افراد کو انفاقِ اموال کا جو حکم دیا گیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:
﴿أَنفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُم مُّسْتَخْلَفِينَ فِيهِ … ٧﴾…الحدید
“ان چیزوں میں سے خرچ کرو، جن پر اللہ نے تم کو خلیفہ بنایا ہے۔”
﴿وَأَنفِقُوا مِن مَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ … ١٠﴾…المنافقون
“جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو، قبل اس کے کہ تم میں سے کسی پر موت آ جائے۔”
﴿قُل لِّعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا يُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ … ٣١﴾…ابراهيم
“اے نبی! میرے صاحبِ ایمان بندوں کو فرما دو کہ وہ نماز قائم رکھیں اور جو کچھ ہم نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہیں۔”
مشتے نمونہ از خروارے۔ یہ آیات اس امر کو واضح کر دیتی ہیں کہ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو یہ حکم دیا ہی نہیں ہے کہ وہ اپنی ساری زائد از ضرورت دولت حکومت کی تحویل میں دے دیں بلکہ اس کا حکم صرف یہ ہے کہ اس دولت کا بعض حصہ راہِ خدا میں صرف کر دیا جائے۔ یہ تو وہ آیات ہیں جن میں انفاق کا حکم دیا گیا ہے۔ اب وہ آیات ملاحظہ فرمائیے، جن میں ان احکام پر عمل پیرا ہونے والے مومنین کی تحسین فرمائی گئی ہے اور وہ بھی ان کے اس فعل پر نہیں کہ وہ اپنی ساری زائد از ضرورت دولت حکومت کی تحویل میں دے دیتے ہیں بلکہ اس پر کہ وہ اپنے اموال میں سے ایک حصہ خدا کی راہ میں صرف کر دیتے ہیں۔
سورۃ البقرۃ کی ابتداء میں اہل تقویٰ مومنین کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
﴿الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٣﴾…البقرة
“وہ لوگ غیب پر ایمان اور نماز قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔”
انہی لوگوں کو قرآن نے سندِ فلاح و کامیابی عطا فرمائی ہے۔
﴿أُولَـٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٥﴾… البقرة “یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی کامیاب و کامران لوگ ہیں۔”
سورۃ الانفال میں، جن لوگوں کو سچے اور پکے مومن قرار دیا گیا ہے۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ:
﴿الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٣﴾…الأنفال
“یہ وہ لوگ ہیں، جو نماز قائم رکھتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔”
سورۃ الحج میں اہل ایمان کا تذکرہ یوں کیا گیا ہے:
﴿وَالْمُقِيمِي الصَّلَاةِ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٣٥﴾…الحج
“وہ نماز قائم کرنے والے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔”
سورۃ القصص میں مومنین کے انفاق کی مدح سرائی یوں کی گئی ہے:
﴿…وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٥٤﴾…القصص
“وہ برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں عطا کر رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔”
سورۃ السجدہ میں ان کے انفاق کا حال بایں الفاظ پیش کیا گیا ہے:
﴿…يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾…السجدة
“وہ اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں اور ہمارے عطا کردہ رزق میں سے خرچ کرتے ہیں۔”
سورۃ الشوریٰ سے میں مومنین کے اوصاف یوں بیان کئے گئے ہیں:
﴿…وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٣٨﴾…الشورى
“وہ اپنے معاملات باہمی مشورے سے چلاتے ہیں اور ہم نے جو کچھ بھی رزق انہیں دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔”
ان آیات کی روشنی میں ہر شخص خود دیکھ سکتا ہے کہ قرآن کی کلی اور مجموعی تعلیم یہ ہے کہ تمام زائد از ضرورت دولت کو خرچ کرتے ہوئے حوالہ حکومت کیا جائے یا یہ کہ عفو المال میں سے ایک حصہ صرف کیا جائے، خواہ حکومت کے اجتماعی نظام کے توسط سے یا براہِ راست؟
اگر کوئی شخص فی الواقعہ خالی الذہن ہو کر قرآن کی ان آیات کا مطالعہ کرے تو وہ ہرگز یہ باور نہیں کر سکتا کہ قرآن پورے عفو المال کو خرچ کر دینے کا حکم دیتا ہے۔ یہ مفہوم قرآن سے اس وقت بتکلف نچوڑا جاتا ہے جب کوئی شخص اشتراکیت پر پیشگی ایمان لا کر قرآن کا مطالعہ کرتا ہے پھر تو ظاہر ہے کہ ساون کے اندھے کو ہر طرف ہرا ہی ہرا نظر آئے گا۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنے دل و دماغ کو ہر قسم کے تصورات سے پاک کر کے بارگاہِ قرآن میں آتا ہے، تو وہ یہ باور کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ قرآن پورے عفو المال کے انفاق کا روا دار نہیں ہے بلکہ وہ اعتدال اور توسط کی ایسی تعلیم دیتا ہے کہ نہ کوئی اسراف و تبذیر پر اترتا ہے اور نہ ہی بخل و کنجوسی پر۔ وہ مومنین کی مدح سرائی ان الفاظ میں کرتا ہے کہ:
﴿وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا ﴿٦٧﴾…الفرقان
“یہ وہ لوگ ہیں جو خرچ کرتے ہیں، تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں، نہ بخل، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے۔”
غور فرمائیے! اگر قرآن کی تعلیم واقعی یہ ہوتی کہ۔۔۔افراد کے پاس زائد از ضرورت دولت رہ ہی نہیں سکتی۔۔ اور افراد کی انفرادی ملکیت صرف بقدر کفایت مال تک محدود ہوتی تو اس صورت میں اسراف کا سرے سے کوئی امکان ہی نہیں رہتا کہ اسے اسراف سے منع کیا جاتا اور میانہ روی کا حکم دیا جاتا ” بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا ” کی روش تو وہی شخص اختیار کر سکتا ہے جس کے پاس زائد از ضرورت دولت ہو اور پھر خرچ کرنے میں افراط و تفریط کی دونوں راہیں اس کے لئے کھلی ہوئی ہوں مگر وہ اپنے تقاضائے ایمان سے نہ بخل کرے اور نہ ہی اسراف و تبذیر کرے۔ جس کے پاس مال ہو ہی حسب ضرورت اور بقدرِ کفایت وہ بیچارا کیا اسراف و بخل کرے گا۔ ایک مقام پر قرآن کے الفاظ یہ ہیں:
﴿وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا ﴿٢٩﴾ … الإسراء
“نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھے رکھ اور نہ اسے بالکل کھلا چھوڑ کہ تو ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جائے۔”
اگر فی الواقعہ قرآن کے پیش نظر اشتراکیت کو وہی نظام قائم کرنا ہوتا جس پر پرویز صاحب نے “نظامِ ربوبیت” کا لیبل چپکا دیا ہے اور جس میں افراد معاشرہ، حکومت کے قیدیوں کی حیثیت میں کولہو کے بیل کی طرح سارا دن کام کاج میں جتے رہتے اور شام کو بقدرِ کفایت چند سکے اور دو روٹیاں اس کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بالکل اسی طرح مل جائیں جس طرح کولہو کے بیک کو شام کے وقت ہرہ بھری گھاس مل جاتی ہے اور افراد کے پاس ان کی محنت کے ماحصل میں سے صرف بقدرِ ضرورت ہی انہیں میسر آتا اور باقی اس کی محنت کی کمائی حکومت کی تحویل میں چلی جاتی تو قرآن صرفِ اموال میں اعتدال و توسط کی یہ تعلیم ہی سرے سے نہ دیتا۔ قرآن کی مجموعی اور کلی تعلیم میں ان امور کا موجود ہونا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ ایسے نظام معیشت کا علمبردار ہے، جو ذاتی ملکیت کے اصولوں کی نفی نہیں کرتا بلکہ وہ اس بات کے حق میں ہے کہ افراد کے پاس عفو المال رہے اور وہ اپنے ایمانی تقاضوں کی روشنی میں دل و دماغ کی پوری آمادگی کے ساتھ راہِ خدا میں فراخدلی سے خرچ کرتے رہیں۔
” قُلِ الْعَفْوَ” کا صحیح مفہوم:
اب آئیے ” قُلِ الْعَفْوَ”کے معنی و مفہوم کی طرف۔ ہمارے نزدیک “عفو” کا مفہوم “زائد از ضرورت مال” نہیں ہے بلکہ “بہترین اور محبوب مال” ہے، لغت اورقرآن دونوں سے اس معنیٰ کی تائید ہوتی ہے۔ جہاں تک لغت کا تعلق ہے وہ “عفو” کے دیگر معانی کے علاوہ اس معنیٰ کو بھی تسلیم کرتی ہے، جو ہم نے پیش کیا ہے۔ خود جناب پرویز صاحب رقم طراز ہیں:
“عفو” کے معنی “بہترین چیز” کے ہوتے ہیں۔ نیز وہ چیز جس میں کسی قسم کی تکلیف و مشقت نہ اٹھانی پڑے۔” (لغات الفرقان، ص 1178)
جہاں تک قرآن کا تعلق ہے وہ یہ کہتا ہے کہ ﴿أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ … ٢٦٧﴾…البقرة کی وضاحت کرتے ہوئے جناب پرویز صاحب رقم طراز ہیں:
طیب۔ راغب نے کہا ہے کہ اس کے اصل معنی ہیں وہ چیز جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی، یعنی ہر وہ چیز جو دیکھنے، سونگھنے، سننے اور کھانے میں بھی پسندیدہ ہو اور اس سے انسانی نفس بھی کیف اندوز ہوں۔ الاطبابیب اور المطابیب پسندیدہ اور بہترین چیزیں۔” (لغات القرآن 1102)
اس کے بعد آیت ( 267/2) کا وہ مفہوم بھی ملاحظہ فرمائیے، جو جناب پرویز صاحب نے لکھا ہے:
“اے مومنین! تم زمین کی پیداوار میں سے بھی اور اپنی صنعت و حرفت میں سے بھی جو کچھ کماؤ اس میں سے بہترین حصہ کو نظامِ ربوبیت کے قیام کے لئے کھلا رکھو۔ اس قسم کے بھولے سے بھی ارادہ نہ کرو کہ اس مد میں ایسی نکمی چیزیں دی جائیں ، جو ۔۔۔” (مفہوم القرآن، ص 106)
ایک اور مقام پر قرآن یہ بیان کرتا ہے کہ:
﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ … ٩٢﴾…آل عمران
“تم نیکی کو نہیں پا سکتے جب تک کہ تم اپنی محبوب اشیاء میں سے (راہِ خدا میں) خرچ نہ کرو۔”
اور ظاہر ہے کہ انسان کی محبوب اشیاء وہی ہوتی ہیں، جو ابھی اور بہترین ہوں۔
اس کے علاوہ اس معنی کو یہ چیز بھی تقویت پہنچاتی ہے کہ قرآن کریم کے تئیس سالہ دورِ نزول میں ہر مرحلے پر اللہ تعالیٰ نے ایسے احکام نازل فرمائے ہیں جو بالواسطہ یا بلاواسطہ فاضلہ دولت کی انفرادی ملکیت پر دلالت کناں ہیں۔ ان احکام کے نتیجہ میں عملا جو نظام متشکل ہو اس میں کہیں بھی اس اصول کی نفی نہیں کی گئی۔ ترکہ و میراث ، بیع و شراء، صدقہ و خیرات اور لین دین کے احکام (جو انفرادی ملکیت اور فاضلہ دولت کے وجود کو متضمن ہیں) آخری دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تک نازل ہوتے رہے۔ ان کے لئے یہ کہنا کہ ۔۔۔” یہ سب عبوری دور کے احکام ہیں۔” (نظامِ ربوبیت، ص 194) قطعی بے جا بات ہے۔ یہ محج ایک دعویٰ ہے جس کی پشت پر کوئی دلیل و برہان نہیں ہے۔ دورِ نبوی تو رہا ایک طرف، خلافتِ راشدہ تک میں شخصی اور انفرادی ملکیت کو ثابت کرنے والے بے شمار واقعات ہیں اور خود قرآن بھی اس حقیقت پر شاہد عدل ہے۔ سورۃ التوبۃ قرآن کی ان سورتوں میں ہے، جو سب سے آخر میں نازل ہوئی ہیں۔ اس سورہ میں غزوہ تبوک پر تبصرہ کیا گیا ہے اور غزوہ تبوک رجب 9ھ میں ہوا تھا جس سے یہ ظاہر ہے کہ سورۃ التوبۃ رجب 9ھ کے بعد ہی نازل ہوئی ہے۔ اس سورت میں ان آیات کو ملاحظہ فرمائیے جو ذاتی ملکیت کا منہ بولتا ثبقت ہیں:
﴿وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَن يَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ مَغْرَمًا … ٩٨﴾…التوبة
“ان بدویوں میں ایسے لوگ بھی ہیں، جو راہِ خدا میں خرچ کرنے کو اپنے اوپر زبردستی کی چٹی سمجھتے ہیں۔
﴿وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَن يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ قُرُبَاتٍ عِندَ اللَّـهِ… ٩٩﴾…التوبة
“ان بدویوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور راہِ خدا میں کرچ کرنے کو تقربِ الہیٰ کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔”
غزوہ تبوک میں دامے درمے قدمے سخنے حصہ لینے والے والے مخلصین کو یہ خوشخبری دی گئی:
﴿وَلَا يُنفِقُونَ نَفَقَةً صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً وَلَا يَقْطَعُونَ وَادِيًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ لِيَجْزِيَهُمُ اللَّـهُ أَحْسَنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٢١﴾… التوبة
“ایسا کبھی نہیں ہو گا کہ اہل ایمان (راہِ خدا میں) تھوڑا یا بہت کوئی خرچ کریں اور (سعی جہاد میں) کوئی وادی عبور کریں اور ان کے حق میں اسے لکھ نہ لیا جائے تاکہ اللہ ان کے ان کارناموں پر انہیں بہت ہی بہتر اجر عطا فرمائے۔”
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل ایمان سے “صدقات” وصول کرنے کا حکم دیا گیا:
﴿خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ … ١٠٣﴾…ا لتوبة
“اے نبی! تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کرو اور نیکی میں انہیں آگے بڑھاؤ اور ان کے حق میں دعا کرو۔”
ان جملہ آیات میں انفاقِ اموال کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ فاضلہ دولت کی انفرادی ملکیت گویا اسلامی نظامِ معیشت کی ایک طے شدہ پالیسی ہے۔ اگر ” قُلِ الْعَفْوَ” اور ” خُذِ الْعَفْوَ” کا یہی مفہوم ہوتا کہ افراد کی زائد از ضرورت دولت کو ریاست اپنی تحویل میں لے لے تو “نفقۃ صغیرہ اور “نفقۃ کبیرۃ” کا وجود ہی نہ ہوتا اور افراد کے پاس کچھ خرچ کرنے کے لئے زائد از ضرورت دولت کا وجود ہی نہ ہوتا۔ کجا یہ کہ ہ خرچ کرتے اور پھر اپنے ان انفاقات کو زبردستی کی چٹی سمجھتے یا قربِ الہیٰ کا ذریعہ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اصلی “صدقات” کا حکم اسی لئے تو دیا گیا ہے کہ لوگ اپنی فاضلہ دولت کے آپ مالک تھے۔ اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سربراہِ مملکت کی حیثیت سے لوگوں کے پاس بقدرِ کفایت اور حسبِ ضرورت ہی مال و دولت چھوتے تو ان کے پاس سرے سے وہ عفو المال ہی نہ ہوتا جس میں سے آپ “صدقات” وصول فرماتے۔
الگرض! ان آیات سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ رجب 9ھ کے بعد تک عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ذاتی ملکیت اور فاضلہ دولت کے شخصی قبضے میں رہنے کا اصول جاری تھا۔ پھر ہمیں نہیں معلوم کہ ” قُلِ الْعَفْوَ” اور ” خُذِ الْعَفْوَ”کی روشنی میں اشتراکیت کا جو ایڈیشن “قرآنی نظام ربوبیت” کے نام سے موسوم کیا جا رہا ہے۔وہ کب نفاذ پذیر ہوا تھا؟
قابل غور بات:
یہاں ایک اور قابلِ غور بات ہے۔ اگر عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں واقعی لوگوں میں زائد از ضرورت دولت، ان کی شخصی ملکیت سے نکل کر ریاست کی تحویل میں آتی رہتی تو بیت المال میں اس قدر مال و دولت کی فراوانی ہوتی کہ غزوہ تبوک میں اہل ایمان کو قلتِ اسلحہ اور اسباب جنگ و سفر کی کمی واقع نہ ہوتی، لیکن غزوہ تبوک میں حال یہ تھا کہ بعض افراد، جن کو سفر جنگ کے لئے سواری بھی میسر نہ تھی۔ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو بیت المال میں بھی اس وقت قلتِ وسائل و ذرائع کا یہ عالم تھا کہ آپ انہیں کوئی سواری مہیا نہ کر سکے اور وہ لوگ اپنی اس معذوری پر بے بسی سے آنسو بہاتے ہوئے واپس آ گئے۔ قرآن کریم نے ایسے لوگوں کا ذکر آیت (92/9) میں کیا ہے، جناب پرویز صاحب اس آیت کا مفہوم یوں بیان فرماتے ہیں:
“نہ ہی وہ لوگ پیچھے رہ جانے میں موردِ الزام قرار دئیے جا سکتے ہیں جن کی یہ حالت ہے کہ وہ (سفر کے لئے) سواری کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، اس لئے وہ تیرے پاس درخواست لے کر آئے کہ ان کے لئے سواری کا انتظام کر دیا جائے اور تنگی کا یہ عالم تھا کہ تم بھی اس کا کچھ انتظام نہیں کر سکتے تھے اس لئے تم نے بھی اپنی معذوری کا اظہار کر دیا۔ چنانچہ وہ بےبس ہو کر لوٹ گئے۔ دریں عالم کہ ان کی آنکھوں میں آنسو رواں تھے اور ان کا دل اس احساس سے پٹھا جاتا تھا کہ افسوس! آج ہمارے پاس اتنا بھی نہیں کہ ہم اس سے جہاد کے لئے سواری کا انتظام کر سکیں۔” (مفہوم القرآن، ص 443)
یہ واقعہ اور قرآن پاک کی اس قسم کی آیات میں اس امر کو ہر شک و شبہ سے بالاتر کر دیتی ہیں کہ غزوہ تبوک کے بعد بھی فاضلہ دولت کی شخصی ملکیت کا اصول رائج تھا۔
علاوہ ازیں تاریخ و سیر اور کتبِ احادیث میں ایسے بے شمار واقعات مذکور ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ نہ صرف عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بلکہ خلافتِ راشدہ میں بھی شخصی ملکیت کا اصول رائج تھا اور اسی نام ناد “قرآنی نظامِ ربوبیت” کا نام تک نہ تھا جسے جناب پرویز صاحب کی قلم کاری نے ” قُلِ الْعَفْوَ” اور ” خُذِ الْعَفْوَ” کے قرآنی الفاظ سے کتاب اللہ کی علمی اور مجموعی تعلیم کے خلاف کشید کر ڈالا ہے مگر میں ان بے شمار واقعات کو صرف اس لئے پیش نہیں کر سکتا کہ پرویز صاحب ان کے جواب میں یہ فرما دیں گے کہ یہ سب تاریخی واقعات ہیں اور:
“دین میں سند نہ تاریخ کے مشمولات ہیں اور نہ مسلمانوں کے متواتر و متوارث عقائد و مسالک، سند ہے خدا کی کتاب۔” (نظامِ ربوبیت، ص 192)
“تاریخ بہرحال ظنی ہے اور قرآن یقنی، ظنی چیز کو یقینی کی روشنی میں پرکھنا ہو گا نہ کہ یقینی کو ظنی کے تابع رکھنا۔” (نظامِ ربوبیت، ص 191)
واقعی! یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ قرآن فی الواقعہ وحی ہے۔ لہذا قطعی اور یقینی ہے۔ اس معاملے میں ہمیں جناب پرویز صاحب سے سو فیصد اتفاق ہے۔ ہمیں ان سے اختلاف تو اس امر میں ہے کہ وہ ایک ذاتی اپچ اختیار کرتے ہیں اور اسے منسوب الی القرآن کر کے یہ کہتے ہیں کہ ۔۔۔”یہی قرآنی مفہوم ہے اس کے سوا جو کچھ ہے وہ خلافِ قرآن ہے۔ فلہذا قابلِ رد ہے۔” ۔۔حالانکہ جسے وہ “قابلِ رد” قرار دیتے ہیں وہ قطعا قرآن کے خلاف نہیں ہوتا۔بلکہ وہ صرف اس مفہوم کے خلاف ہوتا ہے جسے منسوب الی القرآن کر دیا جاتا ہے۔ اس لئے میں خود کو مجبور پا رہا ہوں کہ کتب احادیث و سیر میں مذکور شخصی ملکیت پر دلالت کرنے والے ان لاتعداد واقعات سے صرف، نظر کر لوں، جو زیرِ بحث مسئلہ میں پرویز صاحب کے موقف کے بطلان پر شاہد عدل ہیں، لیکن ان میں سے ان واقعات کو پیش کرنے کا ہمیں پورا پورا حق حاصل ہے جو ان کی “قرآنی بصیرت” کی کسوٹی پر پورے اُتر کر ان کی کتب میں استشہادا جگہ پا چکے ہیں۔
شخصی ملکیت پر دالہ واقعات:
قبل اس کے کہ ہم ان واقعات کو پیش کریں جو مال و دولت کی ذاتی ملکیت پر دلالت کناں ہیں۔ قارئین کے لئے یہ جان لینا ضروری ہے کہ اگر ” قُلِ الْعَفْوَ” کا حکم بعد از ہجرت نازل ہوا تھا اور ” خُذِ الْعَفْوَ” کا حکم تو ہجرت سے بھی پہلے مکی دور میں نازل ہو چکا تھا۔ جب ہنوز نظامِ اسلامی نفاذ پذیر ہی نہیں ہوا تھا۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ ان دونوں آیات (219/2 اور 199/7) کے نزول کے بعد بھی اموال و اراضی کی شخصی ملکیت کا اُصول اس نظامِ مملکت میں رائج تھا، جو جناب رسالتٰ مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا تھا اور خلافت راشدہ میں بھی برقرار رہا تھا۔
عہد نبوی میں دولتِ زر کی شخصی ملکیت:
غزوہ تبوک (جو رجب 9ھ میں وقوع پذیر ہوا) میں لوگوں نے جس ایثار و قربانی سے کام لے کر اپنے اموال پیش کئے۔ اس کی تفصیل پرویز صاحب نے یوں بیان کی ہے:
“یہ معرکہ، اخلاص و منافقت کی امتحان گاہ تھا۔ چنانچہ ایک طرف صحابہ کا یہ عالم تھا کہ جو کچھ کسی کے پاس تھا، لے کر حاضر ہو گیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے نو سو (900) اونٹ، ایک سو گھوڑے اور ایک ہزار دینار پیش کئے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے چالیس ہزار درہم پیش کئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کئی ہزار روپے کا نقد و جنس لے کر حاضر ہوئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں اللہ اور رسول کی محبت کے سوا کچھ بھی چھوڑ کر نہ آئے، حضرت ابوعقیل انصاری رضی اللہ عنہ نے دو سیر چھوہارے لا کر حاضر کئے اور عرض کی کہ رات بھر کسی کے کھیت پر مزدوری کر کے چار(4) سیر چھوہارے حاصل کئے تھے۔ دو سیر بچوں کو دے آیا ہوں۔ اور دو 02) سیر خدمتِ اقدس میں حاضر ہین۔” (معارف القرآن، ج4، ص 580)
یہ واقعہ اموالِ فاضلہ کی ذاتی ملکیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگر آیت 219/2 اور 199/7 کی روشنی میں “بقول پرویز صاحب’ واقعی قرآنی حکم یہی ہوتا کہ افراد “زائد از ضرورت مال” اپنے پاس نہیں رکھ سکتے اور نظامِ حکومت کا واقعی یہی فریضہ ہوتا کہ وہ افراد سے ان کا عفو المال اپنی تحویل میں لے لیتا، تو صحابہ کرام کے پاس یقینا اپنی ضروریات سے زائد یہ مال نہ ہوتا جو اب وہ غزوہ تبوک (رجب 9ھ) میں پیش کر رہے ہیں۔ پھر یہ واقعہ، عفو سے متعلقہ دونوں آیات کے نزول کے برسوں بعد کا واقعہ ہے حتیٰ کہ فتح مکہ کے بھی بعد کا یہ وقوع پذیر ہوا، اس لئے یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ شاید ابھی تک اسلامی حکومت قائم نہ ہو پائی ہو کیونکہ اسلامی حکومت کا قیام، مدینۃ الرسول میں ہجرت کے فورا بعد عمل میں آ چکا تھا اور غزوہ تبوک تک اس کی قلمرو میں تقریبا پورا جزیرۃ العرب شامل ہو چکا تھا۔”
لہذا عہد رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ بات ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ وہاں ذاتی ملکیت کی نفی کا اصول قطعی معدوم تھا۔ لوگ محنت کے ماحصل کو پاتے تھے۔ ذاتی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد فاضلہ دولت ان کی ملکیت میں رہتی تھی۔ اس میں سے حسبِ استطاعت ملک کی راہ میں فراخدلی سے خرچ کرتے تھے۔
عہد نبوی و صدیقی میں تقسیمِ غنائم:
اموالِ غنیمت میں سے چار خمس (5/4) کا مجاہدین میں تقسیم کیا جانا بھی مال و دولت کی انفرادی ملکیت کا زبردست ثبوت ہے۔ غنائم کی تقسیم اگرچہ ہر دور میں وقوع پذیر رہی ہے مگر عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور دورِ صدیقی میں تقسیم غنائم کا ذکر، خود پرویز صاحب نے بھی کیا ہے:
“رسول اللہ اور خلافتِ صدیقی میں قانون یہ تھا کہ مالِ غنیمت مجاہدین میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔” (شاہکارِ رسالت، ص 379)
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ (سیف اللہ) کی معزولی پر بحث کرتے ہوئے پرویز صاحب نے لکھا ہے کہ:
“حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں (خالد رضی اللہ عنہ) کو مدینہ بلایا اور ان سے کہا کہ: “تم کہاں کے ایسے دولت مند تھے کہ اس قدر خطیر رقم انعام میں دے دی۔” انہوں نے کہا کہ: “ان فتوحات میں ساٹھ (60000) ہزار درہم بطورِ مالِ غنیمت میرے حصہ میں آیا ہے، آپ حساب کر لیجئے جس قدر اس سے زائد ہو وہ لے لیجئے۔” چنانچہ حساب کیا گیا، تو 80 ہزار درہم نکلے، ان میں سے 60 ہزار چھوڑ دئیے گئے اور باقی بیس (20) ہزار بیت المال میں داخل کر دئیے گئے۔۔۔”
الغرض! مالِ غنیمت کا سپاہ میں تقسیم کیا جانا، مال و دولت کی انفرادی ملکیت کا کھلا ثبوت ہے۔
عہد فاروقی اور مال و دولت کی شخصی ملکیت:
عہد فاروقی کا درج ذیل واقعہ بھی مال و دولت کی شخصی ملکیت کا آئینہ نہ رہے:
“یہ واقعہ مشہور ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ لوگ اپنی بیویوں کا مہر مقرر کرنے میں بڑی افراط سے کام لر رہے ہیں تو آپ نے ایک اجتماع میں اس کا ذکر کیا اور چاہا کہ مہر کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کر دی جائے۔ اس پر ایک کونے سے ایک عورت کی آواز آئی کہ یہ کیا؟ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے کہ: ﴿وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا … ٢٠﴾… النساء ’’اور تم نے بیویوں میں سے کسی کو ڈھیروں مال بھی دے دیا ہو، تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔” حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر بول اٹھے کہ عورت نے سچ کہا ہے۔ عمر غلطی پر تھا۔ (شاہکارِ رسالت، ص 277)
شادی کے موقعہ پر لوگوں کا اپنی مالی حیثیت کے مطابق ” على الموسع قدره و على المقتر قدره” کی روشنی میں حقیر یا خطیر رقم کو بصورتِ حق مہر بیویوں کو دے دینے کا عمل صریحا اس معاشرت سے میل کھاتا ہے جس میں ذاتی ملکیتِ مال و دولت کا اصول متداول ہو اور لوگوں میں مساواتِ شکم کی بجائے، تفاضل فی الرزق پایا جاتا ہو۔ خلافتِ فاروقی کا یہ واقعہ، اس امر کو مبرہن کر ڈالتا ہے کہ اس دور میں بھی مال و زر کی انفرادی ملکیت کا اصول کارفرما تھا۔ اگر ریاستِ فاروقی، لوگوں کی کمائی میں سے جملہ فاضلہ دولت خود اپنی تحویل میں لے لیا کرتی تو قنطار (ڈھیر سا مال) دئیے جانے کا سرے سے کوئی امکان ہی نہ رہتا۔ اگر ریاست لوگوں کو عفو المال سے محروم کر دیا کرتی تو حق مہر کے تعین میں ان کے لئے کوئی راستہ ہی نہ رہتا کجا یہ کہ وہ افراط سے کام لیتے اور خلیفہ وقت کو ایک بیش بیش حد مقرر کرنے کی نوبت پیش آتی اور خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ سے مخاطب عورت، اس دروازے کو کھلا رکھنے پر زور دیتی جس سے بیویوں کے لئے حصولِ قنطار کا امکان وابستہ رہتا تھا۔ یہ سب کچھ تو اس نظامِ حکومت اور معاشرے ہی میں ممکن ہے۔ جہاں شخصی ملکیت کا اُصول جاری ہو اور لوگوں میں وہ مساواتِ شکم مفقود ہو جو آج ” سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ ﴿١٠﴾…فصلت ” کے الفاظ سے کشید کی جا رہی ہے بلکہ ان میں تفاضل فی الرزق پایا جاتا ہو اور ” لَا رَيْبَ” خلافتِ فاروقی ایسے ہی نظامِ حکومت اور سماج کا منظر پیش کرتی ہے نہ کہ وہ منظر، جو ذہنِ پرویز کی خلاقی کا کرشمہ ہے۔
پرویز صاحب کا ایک تحریفی کارنامہ؟
ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ اموالِ غنیمت کا سپاہِ افواج میں تقسیم کیا جانا بجائے خود مال و دولت کی کھلی دلیل ہے اور اسلام میں تقسیم غنائم کے قانون کا موجود ہونا اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ انفرادی ملکیت کا علمبردار ہے۔ یہ نقطہ نظر چونکہ پرویز صاحب کے اس مارکسزم کے خلاف ہے جسے وہ “نظامِ ربوبیت” کے نام سے پیش کرتے رہے ہیں اس لئے انہیں اس قانون میں مطلوبہ تبدیلی واقع کرنے کے لئے تحریف کی راہ اختیار کرنا پڑی۔
قرآن کریم نے مالِ غنیمت کے متعلق یہ اصول دیا ہے کہ کل مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ خدا و رسول، رشتہ دار، یتامیٰ، مساکین اور مسافروں کے لئے ہے اور بقیہ چار خمس سپاہِ فوج میں تقسیم کر دئیے جاتے ہین۔ مجاہدین میں مالِ غنیمت کی یہ تقسیم چونکہ صریح طور پر فاضلہ دولت کی شخصی ملکیت کے وجود پر دلالت کرتی ہے، اس لئے پرویز صاحب نے اس بدیہی حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لئے، آیت غنیمت کے مفہوم میں ایسی ترمیم بلکہ تحریف کی ہے جو قواعدِ زبان کے یکسر خلاف ہے۔ آیتِ غنیمت کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے:
﴿وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّـهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ… ٤١﴾…الأنفال”اور یہ جان لو کہ جو کچھ مالِ غنیمت تم نے پایا ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ، رسول، رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے۔”
آیت غنیمت کا جدید مفہوم پرویز:
لیکن آج پرویز صاحب نے ان الفاظ کا مفہوم نے ان الفاظ کا مفہوم یہ بیان کیا ہے:
“یاد رکھو! میدانِ جنگ میں جو مالِ غنیمت بھی ملے گا اس میں سے پانچواں حصہ “خدا و رسول” یعنی مملکت کی انتظامی ضروریات کے لئے رکھ کر باقی (یعنی 5/4 حصہ “قاسمی”) ضرورت مندوں کی جروریات پوری کرنے کے لئے صرف کیا جائے گا۔۔۔مثلا (میدان جنگ میں جانے اور کام آ جانے والوں کے) اقرباء کے لئے یتیموں اور معاشرہ میں بے یار و مددگار، تنہا رہ جانے والوں کے لئے جو مدد کے محتاج ہوں۔” (مفہوم القرآن (41/8) مطالب الفرقان ج6، ص 96)
پرویز صاحب کے اس جدید مفہوم کے لحاظ سے کل مالِ غنیمت کا پانچواں حسہ “خدا و رسول” یعنی مملکت کی انتظامی ضروریات کے لئے ہو گا اور بقیہ (5/4 (چار خمس) <1>undefinedقرابتداروں، یتامیٰ، مساکین اور مسافروں کے لئے مخصوص ہوں گے۔ جبکہ چودہ صدیوں پر محیط اسلامی ادب میں علماء امت کے نزدیک کل مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ (5/1 حصہ) خدا، رسول، ذوی القربیٰ، یتامیٰ، مساکین اور مسافر سب کے لئے ہے اور بقیہ چار خمس (5/4) سپاہ افواج میں تقسیم ہوں گے۔
پرویز صاحب نے اپنے اس جدید ترجمہ و مفہوم میں آیت کو بدترین تحریف کا نشانہ بنایا ہے۔ الفاظ آیت میں ” لِلَّـهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُول” کی بنیاد پر خدا و رسول کو باقی مستحقین غنیمت سے علیحدہ کر کے ان کے لئے ایک خمس مخصوص کرنا اور ” وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ” کو، خدا و رسول نے الفاظ سے اکھاڑ کر انہیں چار خمس کا مستحق قرار دینا، قواعدِ زبان کے قطعی خلاف ہے کیونکہ جس حرفِ جار (لام) کے تحت “خدا و رسول” کا ذکر ہے۔ اسی حرف جار کے تحت باقی مستحقین بھی مذکور ہیں۔ لہذا یہ تمام لوگ (جو آیت میں مذکور ہیں) خدا و رسول کے ساتھ صرف اور صرف ایک خمس کے مستحق ہیں۔
ہمارا جی چاہتا ہے کہ ہم پرویز صاحب کے مؤقف کی تردید میں جمیع علماء امت کے اقتباسات پیش کریں، جس سے قانونِ غنیمت کے اس مفہوم کی تصویب ہو جاتی، جو ہم نے پیش کیا، لیکن ہم اسے صرف اس لئے پیش نہیں کریں گے کہ اتباعپرویز، ان کی تقلید میں یہ کہہ دیں گے کہ اسلاف کی سیدھی راہ پر چلنا، اندھے کی لاٹھی کا سہارا لینے کے مترادف ہے۔ اس لئے ہم یہاں پرویز صاحب ہی کا ایک اقتباس پیش کر رہے ہیں کیونکہ:
مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری
“اور جان رکھو کہ جو تمہیں مال، غنیمت میں ملے، اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے، رسول کے لئے (رسول کے) قرابتداروں کے لئے، یتیموں کے لئے، مسکینوں کے لئے اور مسافروں کے لئے نکالنا چاہئے اور بقایا چار (4) حصہ مجاہدین میں تقسیم کر دئیے جا سکتے ہیں۔”
اس ترجمہ کے حاشیہ میں پرویز صاحب کے یہ الفاظ بھی موجود ہیں:
“مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ بیت المال میں جمع ہو گا اور باقی چار حصے سپاہیوں میں تقسیم ہوں گے۔” (معارف القرآن ج4 ص 624)
ایک اور قابل غور بات
یہاں ایک اور بات بھی قابلِ غور ہے۔ سوال یہ ہے کہ “خدا و رسول” کے نام پر مالِ غنیمت کا ایک خمس الگ کر کے “نظامِ خداوندی” کی تحویل میں رکھا گیا ہے۔ اس کا مصرف کیا ہے؟ ۔۔۔پرویز صاحب لکھتے ہیں:
“یہ مال سب کا سب نظامِ خداوندی کی تحویل میں رہنا چاہئے تاکہ اس کو ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے صرف کیا جائے۔” (تفسیر مطالب الفرقان، ج6، ص 97)
اور مالِ غنیمت میں سے ایک خمس نکال باقی چار خمس کا مصرف کیا ہے؟ پرویز صاحب رقم طراز ہیں:
“یاد رکھو! میدانِ جنگ میں جو مالِ غنیمت بھی ملے گا اس میں سے پانچواں حصہ “خدا و رسول” یعنی انتظامی ضروریاتِ مملکت کے لئے رکھ کر باقی ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے صرف کیا جائے گا۔” (مفہوم القرآن (41/8) مطالب الفرقان، ج6، ص 96)
اب جبکہ “خدا و رسول” کے نام سے الگ کیا جانے والا ایک خمس غنیمت اور باقی مذکورین آیت کے نام سے الگ کئے جانے والے چار اخماس غنیمت کا مصرف ایک ہی ٹھہرا، تو پھر فہرست ِ مستحقین غنیمت میں یہ فرق و امتیاز کیسا؟ جب سارا مال غنیمت ضرورت مندوں کے لئے ہی ہے، تو ایک خمس اور چار خمس میں اس کی تقسیم کیوں؟ پانی میں اس مدھانی کے چلانے کا فائدہ کیا؟
(جاری ہے)