حضورؐ کی ایک رات میں تمام بیویوں سےمباثرت کی حدیث

ایک منکر حدیث حدیث پیش کرتے ہیں :

”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام بیویوں کے پاس ہررات میں دورہ فرمالیا کرتے تھے اور وہ تعداد میں ٩ تھیں۔”

اس کے بعد لکھتے ہیں حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کو اُمت کی مصروفیات سے اتنی فرصت کہاں تھی اور وہ پاک ہستی تھے (معاذاللہ) جنسی مشین نہ تھے۔( اسلام کے مجرم )

جواب:۔

حدیث کا اصل متن اور اسکادرست مفہوم:

امام بخاری نے یہ حدیث اپنی صحیح میں ذکرفرمائی اور حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں

عن انس ان النبیی صلی اللہ علیہ وسلم طوف علی نسائہ فی لیلۃ واحدۃ ولہ تسع نسوا۔ ترجمہ: ”انس سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات میں اپنی بیویوں کے پاس جایا کرتے تھے اور وہ تعداد میں نو تھیں” (صحیح بخاری کتاب النکاح باب 4 حدیث 5068۔)

کچھ غیر مسلم اور منکرین حدیث اس حدیث میں لفظ ”یطوف” سے جماع مراد لیتے ہیں حالانکہ”یطوف” کا معنی ہے ”دورہ کرنا ، چکر لگانا” اس حدیث کی مزید وضاحت دوسری احادیث سے ہو جاتی ہے ملاحظہ ہو ۔

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز کے بعد اپنی ازواج کے ہاں تشریف لے جاتے ۔”(صحیح بخاری کتاب النکاح رقم الحدیث 5216 )

صحیح مسلم میں ہے:اذا صلی العصر دار علی نسائہ۔ ترجمہ : ”آپ جب عصر کی نماز سے فارغ ہوجاتے تو اپنی ازواج کے ہاں دورہ فرماتے ۔” (صحیح مسلم کتاب الطلاق باب رجوب الکفاراعلی من حرم رقم الحدیث 3679)

حضور ﷺ کے اس دورے کی تفصیل:

عروہ (رح) نے بیان کیا کہ سیدہ عائشہ (رض) نے کہا : اے میرے بھانجے ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ( ہم ازواج میں ) باری مقرر کرنے کے معاملے میں ، یعنی ہمارے پاس ٹھہرنے کے معاملے میں ہم میں سے کسی کو کسی پر فضیلت نہ دیا کرتے تھے ۔ اور آپ تقریباً ہر روز ہم سب کے پاس چکر لگایا کرتے تھے اور ہر بیوی کے قریب ہوتے ۔ یہ نہیں کہ آپ صحبت کرتے تھے ۔ حتیٰ کہ اس کے پاس جا پہنچتے جس کی باری کا دن ہوتا اور رات اس کے ہاں گزارتے ۔ (سنن ابوداود حدیث مرفوع صحیح ،حدیث نمبر:،2135)

اس حدیث سے واضح ہے حضور ﷺ تمام بیویوں کے پاس تشریف لے جاتے تھے اور سب کے ساتھ جماع نہیں فرماتے صرف اسکے ساتھ جسکی اس دن باری ہوتی تھی ۔یعنی آپ روزانہ صبح وشام کے اوقات میں اپنی ازواج کی گھریلو ضروریات کو پورا کرنے اور ان کی دل جوئی کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے اگر آپ ایسانہ کرتے تو ہر بیوی کے پاس نو دن بعد پہنچتے اور اتنے طویل عرصے تک آپ کو یہ خبر نہ ہوتی کہ وہ کس حال میں ہیں اوران پر کیاگزررہی ہے لہٰذا اس مشترک وقت میں جو لیل ونہار کی ایک گھڑی تھی آپ سب کے ہاں تشریف لے جاتے۔

اور جہاں تک بات ہے ”امت کی مصروفیات اور حقوق ازواج”کی اس کے جواب میں ہم ایک غیر مسلم مؤلف پال برنٹن کے الفاظ نقل کئے دیتے ہیں۔

I could not but respect the wisdom of the Prophet Muhammad(S.A.W) for so deftly teaching his followers to mingle the life of religious devotion with the life of the busy world،(A search in the secret Egypt by Paul Bruntin page 134)

”میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دانائی کی تکریم کئے بغیر نہیں رہ سکتا جنہوں نے اپنے پیرو کاروں کو اتنی خوش اسلوبی کے ساتھ دینی زندگی کو دنیاوی مصروف زندگی کے ساتھ سمونا سکھا دیا۔”

مزید تفصیل :

اس مسئلے میں ایک حدیث اور پیش کی جاسکتی ہے وہ یہ کہ قتادہ کہتے ہیں کہ مجھے انس بن مالک نے بتایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دن ہو یا رات ایک ہی وقت میں اپنی گیارہ بیویوں سے مجامعت فرمایا کرتے تھے، میں نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اتنی طاقت تھی کہا آپ میں تیس مردوں کی طاقت موجود تھی۔ (بخاری)

کوئی اس سے یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ حضور ﷺ روز تمام بیویوں کے ساتھ جماع فرماتے تھے ۔ لیکن کسی صحابی کا فہم خود حضورﷺ کی بیوی کی بیان کردہ مستند حدیث کے مقابلے میں کیسے حجت بن سکتا ہے ؟ حضور ﷺ کی ذاتی زندگی کے ایسے معاملات کے متعلق اتنی کلوز ڈیٹیل کے متعلق درست رائے صرف آپ کی ازواج کی ہی قرار دی سکتی ہے ۔ اگر لفظ ‘ یطوف ‘ سے جماع بھی مراد لے لیا جائے تو وہ حضور ﷺ کی بیوی کی بیان کردہ تفصیل کے مقابلے میں حجت نہیں بن سکتا۔