بلاشبہ سنت کی تحقیق اور اس کے تعین میں بہت سے اختلافات ہوئے ہیں اور آئندہ بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن ایسے ہی اختلافات قرآن کے بہت سے احکام و اشارات کے معنی متعین کرنے میں بھی ہوئے ہیں اور ہو سکتے ہیں۔ ایسے اختلافات اگر قرآن کو چھوڑ دینے کے لیے دلیل نہیں بن سکتے تو سنت کو چھوڑ دینے کے لیے انہیں کیسے دلیل بنایا جا سکتا ہے؟ یہ اصول پہلے بھی مانا گیا ہے اور آج بھی اسے ماننے کے سوا چارہ نہیں ہے کہ جو شخص بھی کسی چیز کے حکمِ قرآن یا حکمِ سنت ہونے کا دعویٰ کرے وہ اپنے قول کی دلیل دے۔ اس کا قول اگر وزنی ہو گا تو امت کے اہلِ علم سے، یا کم از کم ان کے کسی بڑے گروہ سے اپنا سکہ منوا لے گا اور جو بات دلیل کے اعتبار سے بے وزن ہو گی وہ بہرحال نہ چل سکے گی۔ یہی اصول ہے جس کی بنا پر دنیا کے مختلف حصوں میں کروڑوں مسلمان کسی ایک مذہب فقہی پر مجتمع ہوئے ہیں اور ان کی بڑی بڑی آبادیوں نے احکام قرآنی کی کسی تفسیر و تعبیر اور سننِ ثابتہ کے کسی مجموعہ پر اپنی اجتماعی زندگی کے نظام کو قائم کیا ہے”۔ (ترجمان القرآن، جنوری 58ء، صفحہ 219)
اگر مختلف فیہ، سنت کا بجائے خود مرجع و سند (Authority) ہونا نہیں ہے بلکہ اختلاف جو کچھ بھی واقع ہوتا ہے اور ہوا ہے وہ اس امر میں ہے کہ کسی خاص مسئلے میں جس چیز کے سنت ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہو وہ فی الوقت سنتِ ثابتہ ہے یا نہیں، تو ایسا ہی اختلاف قرآن کی آیات کا مفہوم و منشا متعین کرنے میں بھی واقع ہوتا ہے۔ ہر صاحبِ علم یہ بحث اٹھا سکتا ہے کہ جو حکم کسی مسئلے میں قرآن سے نکالا جا رہا ہے وہ در حقیقت اس سے نکلتا ہے یا نہیں۔ جب خود منکرین حدیث نے بھی قرآن مجید میں اختلافِ تفسیر و تعبیر کا ذکر کیا ہے اور اس اختلاف کی گنجائش ہونے کے باوجود وہ بجائے خود قرآن کو مرجع و سند مانتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسی طرح الگ الگ مسائل کے متعلق سنتوں کے ثبوت و تحقیق میں اختلاف کی گنجائش ہونے کے باوجود فی نفسہ “سنت” کو مرجع و سند تسلیم کرنے میں انہیں کیوں تامل ہے۔
یہ بات ایک فاضل قانون دان سے مخفی نہیں رہ سکتی کہ قرآن کے کسی حکم کی مختلف ممکن تعبیرات میں سے جس شخص، ادارے یا عدالت نے تفسیر و تعبیر کے معروف علمی طریقے استعمال کرنے کے بعد بالآخر جس تعبیر کو حکم کا اصل منشا قرار دیا ہو، اس کے علم اور دائرۂ کار کی حد تک وہی حکمِ خدا ہے۔ اگرچہ یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ حقیقت میں بھی وہی حکمِ خدا ہے۔ بالکل اسی طرح سنت کی تحقیق کے علمی ذرائع استعمال کر لے۔ کسی مسئلے میں جو سنت بھی ایک فقیہ، یا لیجسلیچر، یا عدالت کے نزدیک ثابت ہو جائے وہی اس کے لیے حکمِ رسول ہے۔ اگرچہ قطعی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حقیقت میں رسول کا حکم وہی ہے۔ ان دونوں صورتوں میں یہ امر تو ضرور مختلف فیہ رہتا ہے کہ میرے نزدیک خدا یا رسول کا حکم کیا ہے اور آپ کے نزدیک کیا، لیکن جب تک میں اور آپ خدا اور رسول کو آخری سند (Final Authority) مان رہے ہیں، ہمارے درمیان یہ امر مختلف فیہ نہیں ہو سکتا کہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا حکم بجائے خود ہمارے لیے قانونِ واجب الاتباع ہے”۔ (ترجمان القرآن، دسمبر 58ء، صفحہ 162)
“سنتوں کا معتدبِہ حصہ فقہاء اور محدثین کے درمیان متفق علیہ ہے اور ایک حصے میں اختلافات ہیں، بعض لوگوں نے کسی چیز کو سنت مانا ہے اور بعض نے اسے نہیں مانا۔ مگر اس طرح کے تمام اختلافات میں صدیوں اہل علم کے درمیان بحثیں جاری رہی ہیں اور نہایت تفصیل کے ساتھ ہر نقطۂ نظر کا استدلال اور وہ بنیادی مواد جس پر یہ استدلال مبنی ہے، فقہ اور حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ آج کسی صاحبِ علم کے لیے بھی یہ مشکل نہیں ہے کہ کسی چیز کے سنت ہونے یا نہ ہونے کے متعلق خود تحقیق سے رائے قائم کر سکے۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ سنت کے نام سے متوحش ہونے کی کسی کے لیے بھی کوئی معقول وجہ ہو سکتی ہے۔ البتہ ان لوگوں کا معاملہ مختلف ہے جو اس شعبۂ علم سے واقف نہیں ہے۔ اور جنہیں بس دور ہی سے حدیثوں میں اختلافات کا ذکر سن کر گھبراہٹ لاحق ہو گئی ہے”۔ (ترجمان القرآن، دسمبر 58ء، صفحہ 169)
اس آسمان کے نیچے دنیا میں وہ کیا چیز ایسی ہے جو انسانی زندگی کے معاملات و مسائل سے بحث کرتی ہو اور اس میں انسانی ذہن اختلاف کی گنجائش نہ پا سکیں؟ آپ قرآن کے متعلق اس سے زیادہ کوئی دعویٰ نہیں کر سکتے کہ اس کا متن متفق علیہ ہے اور اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ فلاں فقرہ قرآن کی آیت ہے۔ لیکن کیا آپ اس بات سے انکار کر سکتے ہیں کہ آیات قرآنی کا منشا سمجھنے اور ان سے احکام اخذ کرنے میں بے شمار اختلافات ہو سکتے ہیں اور ہوئے ہیں؟ اگر ایک آئین کی اصل غرض الفاظ بیان کرنا نہیں بلکہ احکام بیان کرنا ہے تو اس غرض کے لحاظ سے الفاظ میں اتفاق کا کیا فائدہ ہوا جبکہ احکام اخذ کرنے میں اختلاف ہے، رہا ہے اور ہمیشہ ہو سکتا ہے؟ اس لیے یا تو اس نقطۂ نظر میں تبدیلی کرنی ہو گی کہ “آئین کی بنیاد صرف وہی چیز بن سکتی ہے جس میں اختلاف نہ ہو سکے”۔ یا پھر قرآن کو بھی اساس آئین ماننے سے انکار کرنا ہو گا۔ درَحقیقت اس شرط کے ساتھ تو دنیا میں سرے سے کوئی آئین ہو ہی نہیں سکتا۔ جن سلطنتوں کا کوئی مکتوب آئین سرے سے ہے ہی نہیں (مثلاً برطانیہ) ان کے نظام کا تو خیر خدا ہی حافظ ہے، مگر جن کے ہاں ایک مکتوب آئین موجود ہے، ان کے ہاں بھی صرف آئین کی عبارات ہی متفق علیہ ہیں۔ تعبیرات ان میں سے کسی کی متفق علیہ ہوں تو براہِ کرم اس کی نشاندہی فرمائیں۔
بنیادی حقیقتیں:
1. سنتوں کا بہت بڑا حصہ امت میں متفق علیہ ہے۔ اسلامی نظام حیات کا بنیادی ڈھانچہ جن سنتوں سے بنتا ہے وہ تو قریب قریب سب ہی متفق علیہ ہیں۔ ان کے علاوہ اصول اور کلیات شریعت جن سنتوں پر مبنی ہیں، ان میں بھی زیادہ تر اتفاق ہے۔ اختلاف اکثر و بیشتر ان سنتوں میں ہے جن سے جزئی احکام نکلتے ہیں اور وہ بھی سب مختلف فیہ نہیں ہیں بلکہ ان کا بھی ایک اچھا خاصہ حصہ ایسا ہے جن پر علمائے امت کے درمیان اتفاق پایا جاتا ہے۔ صرف یہ بات کہ ان اختلافی مسائل کو بحثوں اور مناظروں میں زیادہ اچھالا گیا ہے، یہ فیصلہ کر دینے کے لیے کافی نہیں ہے کہ “سنت” پوری کی پوری مختلف فیہ ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی سنتوں کے بڑے حصے کو متفق علیہ قرار دینے میں مانع نہیں ہے کہ چند چھوٹے چھوٹے خبطی اور زیادہ تر بے علم گروہوں نے کبھی کہیں اور کبھی کہیں اٹھ کر متفق علیہ چیزوں کو بھی اختلافی بنانے کی کوشش کی ہے۔ ایسے گروہوں نے ایک سنت ہی پر ہاتھ صاف نہیں کیا ہے بلکہ ان میں سے بعض تحریف قرآن تک کے مدعی ہوئے ہیں۔ مگر اس قسم کے چند سرپھرے اور کم سواد لوگوں کا وجود امت مسلمہ کے بحیثیت مجموعی اتفاق کو باطل نہیں کر سکتا۔ ایسے دو چار سو یا دو چار ہزار آدمیوں کو آخر یہ اجازت کیوں دی جائے کہ پورے ملک کے لیے جو آئین بن رہا ہو اس میں سے ایک ایسی چیز کو خارج کر دینے کے لیے کھڑے ہو جائیں جسے قرآن کے بعد ساری امت اسلامی قانون کی دوسری بنیاد مانتی ہے اور ہمیشہ سے مانتی رہی ہے۔
2. جزئی احکام سے متعلق جن سنتوں میں اختلاف ہے ان کی نوعیت بھی یہ نہیں ہے کہ فرد فرد ان میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتا ہو بلکہ “دنیا کے مختلف حصوں میں کروڑوں مسلمان کسی ایک مذہب فقہی پر مجتمع ہو گئے ہیں اور ان کی بڑی بڑی آبادیوں نے احکام قرآنی کی کسی ایک تعبیر و تفسیر اور سننِ ثابتہ کے کسی ایک مجموعہ پر اپنی اجتماعی زندگی کے نظام کو قائم کر لیا ہے”۔ مثال کے طور پر اپنے اسی ملک، پاکستان کو لے لیجیے قانون کے معاملہ میں اس ملک کی پوری مسلم آبادی صرف تین بڑے بڑے گروہوں پر مشتمل ہے۔ ایک حنفی، دوسرے شیعہ، تیسرے اہلِ حدیث۔ ان میں سے ہر ایک گروہ احکام قرآن کی ایک تعبیر اور سنن ثابتہ کے ایک مجموعہ کو مانتا ہے۔ کیا جمہوری اصول پر ہم آئین کے مسئلے کو اس طرح با آسانی حل نہیں کر سکتے کہ شخصی قانون (پرسنل لاء) کی حد تک ہر ایک گروہ کے لیے احکامِ قرآن کی وہی تعبیر اور سنن ثابتہ کا وہی مجموعہ معتبر ہو، جسے وہ مانتا ہے اور ملکی قانون (پبلک لاء) اس تعبیرِ قرآن اور ان سننِ ثابتہ کے مطابق ہو جس پر اکثریت اتفاق کرے؟
اعتراض :سنت محفوظ ہے تو نماز اور اذان، نکاح اور طلاق اور وراثت وغیرہ میں تمام امت متفق کیوں نہیں ہے؟”
جواب
نماز اور اذان اور نکاح و طلاق اور وراثت وغیرہ امور کے متعلق جتنی چیزوں پر امت میں اتفاق ہے ان کو ایک طرف جمع کر لیجیئے اور دوسری طرف وہ چیزیں نوٹ کر لیجئے جن میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ اتفاق کس قدر زیادہ ہے اور اختلاف کس قدر کم۔ بنیادی امور قریب قریب سب متفق علیہ ہیں اور اختلاف زیادہ تر جزئیات میں ہے لیکن چونکہ بحث اتفاقی امور میں نہیں بلکہ ہمیشہ اختلافی امور میں ہوتی ہے، اس لیے بحثوں نے اختلافات کو نمایاں کر دیا ہے جس کی وجہ سے کم علم لوگوں کو یہ غلط فہمی لاحق ہوتی ہے کہ امت میں کوئی چیز بھی متفق علیہ نہیں ہے۔
مثال کے طور پر نماز ہی کو لے لیجیئے۔ تمام دنیا کے مسلمان ان امور پر پوری طرح متفق ہیں کہ پانچ وقت کی نماز فرض ہے۔ اس کے اوقات یہ ہیں۔ اس کے لیے جسم اور لباس پاک ہونا چاہیے۔ اس کے لیے با وضو ہونا چاہیے۔ اس کو قبلہ رُخ پڑھنا چاہیے۔ اس میں قیام اور رکوع اور سجدہ اور قعود اس ترتیب سے ہونا چاہیے۔ ہر وقت کی اتنی اتنی رکعتیں فرض ہیں۔ نماز کی ابتدا تکبیر تحریمہ سے ہونی چاہیے۔ نماز میں بحالت قیام فلاں چیزیں بحالت رکوع فلاں، بحالت سجود فلاں اور بحالتِ قعود فلاں چیزیں پڑھنی چاہیں۔ غرض یہ کہ بحیثیت مجموعی نماز کا پورا بنیادی ڈھانچہ متفق علیہ ہے۔ اختلاف صرف اس طرح کے معاملات میں ہے کہ ہاتھ باندھا جائے یا چھوڑا جائے، باندھا جائے تو سینے پر یا ناف پر، امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھی جائے یا نہیں، سورۂ فاتحہ کے بعد آمین زور سے کہی جائے یا آہستہ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان چھوٹے چھوٹے اختلافات کو بنیاد بنا کر یہ دعویٰ کرنا صحیح ہو گا کہ نماز کے معاملہ میں امت سرے سے کسی متفق علیہ طریقہ پر ہے ہی نہیں؟ اذان میں اس کے سوا کوئی اختلاف نہیں کہ شیعہ حی علیٰ خیر العمل کہتے ہیں اور سُنّی نہیں کہتے۔ باقی اذان کے تمام کلمات اور متعلقہ مسائل بالکل متفق علیہ ہیں۔ کیا اس ذرا سے اختلاف کو اس بات کی دلیل بنایا جا سکتا ہے کہ اذان بجائے خود مختلف فیہ ہے؟
قرآن سے ایک مثال حاضر ہے۔ قرآن کی آیتِ تیمم میں یہ فرمایا گیا ہے کہ فامسحوا بوجوھکم و ایدیکم منہ (المائدہ:7) ” اس مٹی سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کر لو۔”اب دیکھۓ۔ ایک شخص “ہاتھ ” سے مراد پہنچے تک لیتا ہے اور اسی پر مسح کرتا ہے۔ دوسرا کہنی تک لیتا ہے اور وہاں تک ہاتھ پھیرتا ہے اور تیسرا خیال کرتا ہے کہ لفظ ہاتھ کا اطلاق تو شانے تک پورے ہاتھ پر ہوتا ہے اس لیے وہ مسح میں اس بھی شامل کر لیتا ہے۔ بتایئے اس اختلاف کی گنجائش قرآن کے الفاظ میں ہے یا نہیں؟ پھر کیا یہ اختلاف معصیت کا موجب ہو جاتا؟
کیا سنت نے اختلافات بڑھائے ہیں ؟
منکرینِ حدیث کچھ عقل سے کام لیتے تو وہ خود دیکھ سکتے تھے کہ سنت نے اختلافات کے دائرے کو بہت محدود کر دیا ہے۔ ورنہ اگر سنت نہ ہوتی تو قرآن مجید سے احکام اخذ کرنے میں اتنے اختلافات ہوتے کہ دو مسلمان بھی مل کر کوئی اجتماعی عمل نہ کر سکتے۔ مثلاً قرآن بار بار صلوٰۃ کا حکم دیتا ہے۔ اگر سنت اس کی شکل اور طریقہ مقرر نہ کر دیتی تو لوگ ہر گز یہ طے نہ کر سکتے کہ اس حکم کی تعمیل کیسے کریں۔ قرآن زکوٰۃ کا حکم دیتا ہے۔ اگر سنت نے اس کی تشریح نہ کر دی ہوتی تو کبھی اس امر میں اتفاق نہ ہو سکتا کہ یہ فریضہ کس طرح بجا لایا جائے۔ ایسا ہی معاملہ قرآن کی اکثر و بیشتر ہدایات و احکام کا ہے کہ خدا کی طرف سے ایک بااختیار معلم (صلی اللہ علیہ و سلم) نے ان پر عمل درآمد کی شکل بتا کر اور عملاً دکھا کر اختلافات کا سد باب کر دیا ہے۔ اگر یہ چیز نہ ہوتی اور امت صرف قرآن کو لے کر لغت کی مدد سے کوئی نظام زندگی بنانا چاہتی تو بنیادی امور میں بھی اس حد تک اتفاق رائے حاصل نہ ہو سکتا کہ کوئی مشترک تمدن بن جاتا۔ یہ سنت ہی کا طفیل ہے کہ تمام امکانی اختلافات سمٹ کر دنیائے اسلام میں آج صرف آٹھ فرقے پائے جاتے ہیں۔ اور ان میں بھی بڑے فرقے صرف پانچ ہیں جن کے اندر کروڑوں مسلمان ایک ایک فقہ پر مجتمع ہو گئے ہیں۔ اسی اجتماع کی بدولت ان کا ایک نظام زندگی بن اور چل رہا ہے لیکن منکرین حدیث سنت کے خلاف جو کھیل کھیل رہے ہیں اس میں اگر وہ کامیاب ہو جائیں تو اس کا نتیجہ یہ نہیں ہو گا کہ قرآن کی تفسیر و تعبیر پر سب متفق ہو جائیں گے۔ بلکہ یہ ہو گا کہ جن امور میں آج اتفاق ہے وہ سب بھی اختلافی بن کر رہ جائیں گے۔