اردن کے ماہر فلکیات نے اس رائے کا اظہار کیا کہ مئی کے درمیان میں موجودہ وبا کے ختم ہوجانے کی طرف بعض احادیث میں اشارہ ہے۔(لنک) اور اس کے بعد یہ بات اردو خواں طبقے میں بھی پھیلنا شروع ہو گئی۔ ان صاحب نے دو روایات اس ضمن میں پیش کیں۔
۱: پہلی روایت مسند احمد کی ہے اور درج ذیل ہے:
حدثنا محمد بن عبد الله حدثنا ابن أبي ذئب عن عثمان بن عبد الله بن سرَاقة قال: سألت ابن عمر عن بيع الثمار؟، فقال: نهى رسول الله -صلي الله عليه وسلم – عن بيع الثمار حتى تَذْهب العاهة، قلت: ومتى ذاك؟، قال: حتى تطلع الثُّرَيّا.
ترجمہ: راوی حدیث، عثمان بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن عمر – رضي الله تعالى عنهما – سے پھلوں کے بیچنے کے حوالے سے پوچھا؟ آپ نے فرمایا کہ: “اللہ کے نبی – صلى الله عليه وسلم – نے اس وقت تک پھلوں کو بیچنے سے منع فرمایا ہے جب تک بیماری نہ چلی جائے”
راوی کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ: “یہ کب تک ہے؟” عبد اللہ بن عمر – رضي الله تعالى عنهما – نے فرمایا کہ ثریا ستارے کے طلوع ہونے تک۔
یہاں واضح طور سے، ثریا ستارے کے طلوع ہونے کی بات اللہ کے نبی –صلى الله عليه وسلم – کی اپنی نہیں، بلکہ حضرت عبد اللہ بن عمر – رضي الله تعالى عنهما – نے اس کی وضاحت فرمائی ہے جس کا تعلق ان کے عرف اور علاقے کے ساتھ تھا ۔ عرب میں یہ مشہور اور ان کے ہاں مجرب تھا کہ بہار کے ساتھ بیماریاں آتی ہیں اور جوں ہی گرمی کی شدت ہوتی ہے، وہ ختم ہو جاتی ہے۔ (اسی طرح، ہمارے علاقوں میں بھی ایسا ہی ہے)
اور اس حدیث میں صاف الفاظ میں بات ہی پھلوں کی ہو رہی ہے۔ اس لیے، اس حدیث سے یہ بات اخذ کرنا بالکل درست نہیں کہ اللہ کے نبی – صلى الله عليه وسلم – کے ارشاد کے مطابق مئی کے وسط تک، رمضان میں، موجودہ وبا زائل ہو جائے گی۔
۲: دوسری روایت جس میں اللہ کے نبی –صلى الله عليه وسلم – ہی کی طرف سے یہ ثریا ستارے کے طلوع ہونے کا تذکرہ ہے وہ بھی مسند احمد میں ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں:
ما طلع النجم صباحا قط، وتقوم عاهة، إلا رفعت عنهم أو خفت(مسند أحمد، بنشر مؤسسة الرسالة، رقم الحديث: 9093)
ترجمہ: “جب کبھی صبح کے وقت ستارہ طلوع ہوا اور کوئی بیماری ہوئی، تو لوگوں سے اٹھا لی گئی یا اس کا زور کم ہو گیا”
اس روایت سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس ستارے کے طلوع ہونے سے بیماری اٹھا لی جاتی ہے اور ہر قسم کی بیماری اٹھ جاتی ہے اور جنہوں نے یہ بات کہی کہ مئی کے وسط تک موجودہ بیماری کے ختم ہوجانے کا امکان ہے انہوں نے سب سے جاندار استدلال اسی روایت سے کیا۔
یہاں اس بات کا تذکرہ مناسب ہو گا کہ مسند احمد کی روایت میں کچھ ضعف ہے لیکن اسے دوسری روایات کی بنیاد پر “حسن لغیرہ” قرار دیا گیا ہے۔
البتہ امام محمد نے امام ابو حنیفہ سے ابو ہریرہ – رضي الله تعالى عنه – کی یہی روایت نقل فرمائی ہے جسے امام طحاوی نے اپنی کتاب “شرح مشكل الآثار”میں جگہ دی اور اس کی سند درست ہے۔ اس کے الفاظ کچھ یوں ہے:
“إذا طلع النجم رفعت العاهة عن أهل كل بلد” (شرح مشكل الآثار، باب بيان مشكل ما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في طلوع النجم الذي ترتفع بطلوعه العاهة أو تخف أي النجوم هو)
ترجمہ: جب ثریاستارہ ظاہر ہوتا ہے تو ہر علاقے کے لوگوں سے بیماری اٹھا لی جاتی ہے۔
علامہ طحاوی – رحمه الله تعالى – نے اپنی حدیث کی اسی کتاب ہی میں
اس حدیث کے مختلف طریقوں کو یکجا کیا (کہ کسی بھی حدیث کے معنے اور اس کا موقع محل سمجھنے کے لیے یہ نا گزیر ہے) اور فرمایا کہ:
” عقلنا به أيضا أن المقصود برفع العاهة عنه هو ثمار النخل” (أيضا)
ترجمہ: اس (بحث )سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیماری کے اٹھا لینے سے مقصود کھجور کے درختوں کی بیماری ہے۔
اس لیے، ابو ہریرہ – رضي الله تعالى عنه – کی حدیث کا مدلول بھی محض پھلوں کی بیماری ہے کیونکہ ان روایات کا سیاق وسباق دراصل خرید وفروخت کے حوالے سے شریعت کا اصول ہے کہ جب تک پھل پک کر تیار نہ ہوجائے ، اسے درختوں ہی پر بیچنا ممنوع ہے۔ ان احادیث کا تعلق ہر قسم کی وبا سے نہیں۔ محدثین وفقہا نے اسے ایسا ہی سمجھ ہے۔
ایک عام طبعی مظہر ہے کہ بہار کا موسم معتدل ہوتا ہے، جیسے انسان خوش وخرم ہوتے ہیں ایسے ہی جراثیم کو بھی پھلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے۔ لیکن اللہ تعالی کا نظام ہے کہ جب گرمی آتی ہے، تو وہ ان جراثیم اور ان سے نتھی بیماریوں کے خاتمے کا سبب بن جاتی ہے۔ اللہ کے نبی – صلى الله عليه وسلم – نے بھی جب خرید وفروخت کا اصول بیان فرمایا تو اسی موقع پر ، صحابہ کے سوال کرنے پر یا از خود، حجاز کے موسم کے پیش نظر بتا دیا کہ کب پھل پکتے ہیں جیسا کہ حضرت ابن عمر – رضي الله تعالى عنهما – کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے جب اللہ کے نبی – صلى الله عليه وسلم – کی حدیث بیان فرمائی، تو ان کے شاگرد نے پوچھا یہ موسم کب ہوتا ہے؟
اور یہ فقہ وقانون کی عملی تطبیق میں عام بات ہے کہ لوگوں کو ایک تجریدی قاعدہ منطبق کرتے ہوئے دشواری ہوتی ہے، ہربندہ نہیں کر سکتا۔ اسی وجہ سے اجتہاد کے دو مراتب ہیں:
نصوص سے قانون اخذ کرنا
اور قانون کسی زمینی واقعے پرچسپاں کرنا۔ (عام اصولی کتابوں میں جو اجتہاد کا در بند ہونے سے متعلق بحث ہوتی ہے وہ پہلے مرتبے سے تعلق رکھتی ہے، دوسرے سے ہرگز نہیں)
چناچہ پانی کی پاکی ناپاکی کے حوالے سے فقہا نے “قلیل وکثیر” کا فرق ذکر کیا جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے، پر عام لوگوں کے لیے عملی زندگی میں اس کی تطبیق مشکل ہو جاتی ہے۔ اس لیے، بعض نے اس کی ایک تعیین کر دی کہ اگر ایک مخصوص پیمائش کے مطابق پانی ہو تو وہ کثیر شمار ہو گا ورنہ قلیل۔
اسی طرح، اللہ کے نبی – صلى الله عليه وسلم – نے حجاز کے موسم کے پیش نظر ایک علامت بیان فرما دی کہ کس موسم کے بعد عام طور سے پھل پک کر تیار ہو جاتے ہیں اور بیماری کا خدشہ کم ہو جاتا ہے۔ چناچہ اگر کہیں اس ستارے کے طلوع ہونے کے بعد بھی پھل پک کر تیار نہ ہو، تو اس کی خرید وفروخت ممنوع ہو گی۔
نیز اس حدیث کا اسلوب بھی ایسا نہیں جیسا کہ کسی مستقبل اور غیب کی خبر دینے کا ہے جیسے دجال کا آنا وغیرہ۔ بلکہ حدیث میں تقریبی انداز میں بات کی گئی ہے کہ ثریا ستارے کے ظاہر ہونے کے بعد بیماری ختم ہو جاتی ہے یااس کا زور کم ہو جاتا ہے اور یہاں تعیین سرے سے مقصود ہی نہیں۔
اس گفتگو کے پہلو میں یہ بات بھی ہو گئی کہ اس حدیث کا تعلق ایک مخصوص علاقے کے ساتھ ہے۔ ورنہ کئی علاقے ایسے ہیں جہاں سردی ہی رہتی ہے اور کئی ایسے ہیں جہاں گرمی ہی رہتی ہے۔
اس پوری گفتگو سے مقصود، ان لوگوں کی نیک تمناوں پر پانی پھیرنا نہیں جو یہ توقع لگا رہے ہیں کہ گرمی میں موجودہ وبا کے زور کے ٹوٹنے کا امکان ہے۔ بلکہ ہم بھی اس تمنا میں ان کے ساتھ ہیں اور ان کے “منہ میں گھی شکر”۔ لیکن ایک عام بندے کی بات اور نبی کی بات میں بہت فرق ہے۔ اگر اللہ کے نبی – صلى الله عليه وسلم – کی طرف کوئی پیش گوئی منسوب کی جائے ، تو اس پر ایمان لانا ضروری ہے اگر وہ صحیح سند سے ثابت ہو ۔ پر اگر سیاق سباق چھوڑ کر حدیث سے کوئی ایسی پیش گوئی اخذ کر لی جائے جو حقیقت میں مقصود نہیں اور پھر لوگوں میں اسے پھیلانا بھی شروع کر دیا جائے، تو ایسی باتیں کئی لوگوں کے ایمان کے لیے آزمائش بن جاتی ہیں اور دین پر اعتراض کا پیش خیمہ، جو ایک ایمان والے کے لیے بڑی سے بڑی وبا سے بھی زیادہ پریشان کن بات ہونی چاہیے۔
یہاں اس بات کی وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ اس تحریر میں ابو العباس قرطبی کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ اکثر علما کی رائے یہی ہے کہ اس حدیث کا تعلق پھلوں کی بیماری سے ہے، لیکن بعض علما نے دوسری روایت سے یہ سمجھا ہے کہ حدیث دراصل ہر قسم کی بیماری سے متعلق ہے۔ پھر انہوں نے تاریخی بنیاد پر فرمایا کہ عام طور سے ایسا ہی ہوا اور اللہ تعالی کی عادت بھی یہی جاری رہی کہ ثریا ستارے کے طلوع سے پہلے اگر کوئی بیماری ہو، تو وہ اس وقت کے آتے آتے ختم ہو گئی یا اس کا زور ٹوٹ گیا۔ اس لیے، ان کے مطابق اس روایت کو عام قرار دینا ہی راجح ہے۔
مجھے خود یہ بات نہ مل سکی کہ انہوں نے یہ بات کہاں کہی ۔ لیکن بفرض صحت، یہ جمہور کی رائے نہیں اور حدیث کا سیاق وسباق اس کی تایید نہیں کرتا۔ البتہ اللہ کے نبی – صلى الله عليه وسلم – کے زبان اقدس سے نکلی ہوئی بات کی اپنی برکات ہیں۔ اس لیے، اس کی امید باندھی جا سکتی ہے جیسا کہ اوپر بھی اشارہ کیا۔ لیکن بہر کیف، حدیث کا مدلول یا مفہوم کی تعیین میں اصول فقہ بنیاد ہے، تاریخ نہیں۔ اور اس طرح کے اشارات کو (جو اصول فقہ کے إشارة النص سے ثابت شدہ معنے سے بالکل ایک الگ معاملہ ہے) عام کرتے ہوئے بہت سوچ سمجھ سے کام لینا اور اس بات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ جن لوگوں تک یہ بات پہنچ رہی ہو، وہ ان حدیث کے مفہوم اور اس طرح کے اشارات کے فرق کو علمی لحاظ سے سمجھ سکیں گے۔
نیز بعض شارحین حدیث کا کہنا ہے کہ یہ ستارہ روزانہ ہی نظر آتا ہے۔ اس لیے، حدیث میں دراصل مراد خاص فجر کے وقت طلوع ہونا ہے اور بعض روایات میں اس کی تصریح بھی ہے۔۔ (أوجز المسالك إلى مؤطأ مالك للشيخ محمد زكريا الكاندهلوي)
مولانا مشرف بیگ اشرف