حضورؐپرخودکشی کی تہمت اور حدیث

عیسائ مشنری بخاری شریف کی اُس حدیث جو حضرت محمد ﷺ کے مبینہ خودکشی کی کوشش کے بارے میں ہے’بہت پرجوش ہیں اور اس سے نتیجہ اخذ کرنے میں بہت دور جاتے ہیں.آئیے روایت کا تجزیہ کرتے ہیں اور دیکھتے ھیں کہ دعویٰ روایات کے قواعد کی جانچ پڑتال کے مطابق کتنا سچ ہے؟

الحدیث:

یہ صحیح بخاری کی ایک لمبی حدیث ہے، ہمارے موضوع کا متعلقہ حصہ یہ ہے:

ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ وَفَتَرَ الْوَحْيُ فَتْرَةً حَتَّى حَزِنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا بَلَغَنَا حُزْنًا غَدَا مِنْهُ مِرَارًا كَيْ يَتَرَدَّى مِنْ رُءُوسِ شَوَاهِقِ الْجِبَالِ فَكُلَّمَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ لِكَيْ يُلْقِيَ مِنْهُ نَفْسَهُ تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا فَيَسْكُنُ لِذَلِكَ جَأْشُهُ وَتَقِرُّ نَفْسُهُ فَيَرْجِعُ

مفہوم:

“.. کچھ ہی دنوں بعد ورقہ کا انتقال ہوگیا اور وحی کا سلسلہ کٹ گیا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی وجہ سے اتنا غم تھا جیسا کہ ہم نے سنا ہے کہ آپ نے کئی مرتبہ پہاڑ کی بلند چوٹی سے اپنے آپ کو گرا دینا چاہا لیکن جب بھی آپ کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھے تاکہ اس پر سے اپنے آپ کو گرا دیں تو جبرائیل (علیہ السلام) آپ کے سامنے آگئے اور کہا کہ یا محمد ! آپ یقیناً اللہ کے رسول ہیں۔ اس سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سکون ہوتا اور آپ واپس آجاتے (صحیح بخاری ، کتاب التعبیر، حدیث 6467)

خودکشی کے لفظوں کے بارے میں:

یہ مکمل حدیث جسکا ہم نے اقتباس نقل کیا مستند ہے۔ اس حدیث کے قابل اعتبار راویوں کا ایک مسلسل سلسلہ ہے۔ لیکن خودکشی کے بارے میں الفاظ اس (راویوں کے) سلسلہ میں کسی سے منقول نہیں ، ایک روایت میں صرف زہری سے منقول ہے جو کہ ایک راوی ہیں۔ہم واضح طور پر الفاظ دیکھ سکتے ہیں

فِيمَا بَلَغَنَا مفہوم: “ھم نے سنا ہے کہ”

اس سے واضح ہے کہ جو راویوں کا سلسلہ شروع میں ذکر ہے ان میں کسی سے بھی یہ منقول نہیں اور اسکی حیثیت ایک افواہ سے ذیادہ نہیں ہے۔

حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:

إِنَّ الْقَائِل فِيمَا بَلَغَنَا هُوَ الزُّهْرِيّ ، وَمَعْنَى الْكَلَام أَنَّ فِي جُمْلَة مَا وَصَلَ إِلَيْنَا مِنْ خَبَر رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذِهِ الْقِصَّة وَهُوَ مِنْ بَلَاغَات الزُّهْرِيّ وَلَيْسَ مَوْصُولًا

مفہوم:”ایک شخص جو کہتے ہیں” فِيمَا بَلَغَنَا ” ‘ہم نے سنا ہیں ‘ وہ امام زہری ہے۔ اور اسکا مطلب یہ ہے کہ حضور ﷺ کے متعلق اس روایت میں سے یہ جو جملہ ہم تک پہنچا ہے، یہ روایت زہری کے غیر صفاتی روایتوں میں سے ہے،اور مکمل طور پر منسلک نہیں ہے۔”(فتح الباری 19/449 ، کتاب التعبیر)

حدیث کے الفاظ پر بحث:

وہ روایت جو مکمل طور پر منسلک نہ ہو اور بلخصوص امام زہری کے غیر صفاتی (روایات) کا سلسلہ محدثین کے نزدیک غیر یقینی سمجھا جاتا ہے۔

اس بات کو جانتے ہوئے کہ اسلامی سائنس کی باریکیوں سے لاعلم کسی غیرمسلم کو مسلمان علماء کی رائے سے اتفاق نہیں ہوگا ‘ ہم ایک مستشرق کاحوالہ بھی پیش کردیتے ہیں :

انگریز الفرڈ گلیم ایک مشہور انگریزی ماہر عرب لکھتا ہے؛

“ایک لفظ جو اکثر ایک جملہ سے پہلے آتا ہے وہ زعما یا زعمو “وہ جو تہمت لگاتے ہیں” ہے، یہ اپنے ساتھ یہ اشارہ دیتا ہے کہ یہ بیان شاید درست نا ہو ، گوکہ دوسری جگہ یہ درست بھی ہوسکتا ہے۔ ۔ آگے لکھتا ہے

Another indication of reserve if not skepticism underlies the expression fi ma dhukira li, as in the story of the jinn who listened to Muhammad as he prayed…An expression of similar import is fi ma balaghani “

(The Life of Muhammad: A translation of Ishaq’s Sirat Rasul Allah with introduction and notes by A. Guilluame Oxford University Press, Karachi, Seventeenth impression, 2004, p. xix)

پس معلوم ھوا کہ حتی کہ ایک عیسائی بھی اس بات سے متفق ھےکہ نقل شدہ جملے جو “فِيمَا بَلَغَنَا” سے شروع ہورہے ہیں مشکوک ہیں۔

اس بات کو بہت سی روایات سپورٹ کرتی ہیں حتی کہ یہی روایت خود صحیح بخاری میں دوسری جگہ (حدیث 3)، صحیح مسلم (حدیث 231) ، مستدرک الحاکم (حدیث 4830)، بیہقی دلائل النبو ۃ (حدیث445) ، مسند احمد (حدیث 24681) میں دیکھی جاسکتی ہے اور جیسا کہ ابن حجر نے لکھا کہ ابو نعیم، اسماعیلی اور ابن مرضیہ کے متعلق لکھا ھے کہ ان میں سے کو ئی بھی مبینہ خود کشی کی کوشش کے الفاظ نہیں رکھتے ۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ الفاظ ھم تک ایک غیر صفاتی طریقہ سے اس شخص سے پہنچےہےجو حضرت محمد ﷺ سےکبھی ملا ہی نہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سی روایات جن میں سے بہت سی انہی امام زہری رحمہ اللہ سے منقول ہیں ‘ میں بھی اس خودکشی کی کوشش کا ذکر نہیں ۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مبینہ خود کشی کی کوشش کے با رے میں کوئی مستند روایت یا ثبوت موجود نہیں ہے۔

خلاصہ :

1- صحیح بخاری کی روایت جس سے یہ مسئلہ سامنے آیا یہ ان احادیث کی طرح مستند ھے جنہیں زیادہ تر وسیع پیمانے پر سراہے گئے مجموعہ سے لیا گیا ھے لیکن مبینہ خودکشی کی کوششوں کے الفاظ کی سند اسی سطح کی نہیں ہیں بلکہ یہ مشکوک ہیں.

2- نہ صرف ایک عظیم مستند اسلامی سکالر بلکہ ایک مغربی مستشرق بھی اس بات کی گواھی دیتا ھے کہ وہ روایت جسمیں “فِيمَا بَلَغَنَا” کا جملہ ھے یقینا مشکوک ھے۔ لہذا عیسائی مشنریز بھی مسلمانوں کے اصول کو لاگو کرنے کے طریقہ کار کو مد نظر رکھ کر اپنی قیاس آرائی اور سوال نہیں کر سکتے۔

3- یہ واقعہ بہت سے دوسری سندوں سے بھی مروی ہے اور ان میں سے کسی ایک میں بھی ان مشکوک جملوں کا ذکر نہیں۔

ان سب نکات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ الفاظ یقینا قابل اعتماد نہیں۔ چنانچہ حضرت محمد ﷺ کے با رے میں مبینہ خودکشی کی کوشش کسی بھی قابل اعتماد روایت سے ثابت نہیں اور اس حوالے سے حدیث پر اعتراض بلاوجہ ہے۔ اس بحث سے یہ بھی واضح ہے کہ محدثین نے ہر روایت کے الفاظ کو بھی کس حد تک پرکھا اور جانچا ہے۔ چاہے وہ روایت کتنی ہی مستند ہو اور کتنی ہی بڑی شخصیت سے مروی ہو اسکے ایک ایک لفظ کی باقائدہ تحقیق کی گئی ہے۔