منکرین حدیث کا ماخذ دین پر بنیادی اعتراض یہ ہے کہ سنت و حدیث کو حجت ماننے کے باعث عالم اسلام میں متعدد فرقے رونما ہوئے۔ اگر امت صرف قرآن کو حجت تسلیم کرتی تو امت اس انتشار، تفرقے تقسیم سے محفوظ رہتی جس کا واحد سبب حدیث کو ماخذ قانون تسلیم کرنا ہے۔ اس موقف کو حافظ اسلم جیراج پوری نے مقام حدیث کے صفحہ ۱۴ پر تفصیل سے بیان کیا ہے:
ان <احادیث>undefined کو دین مان لینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ امت میں سینکڑوں فرقے بن گئے اور ملت کا شیرازہ بکھر گیا، سنیوں کی حدیثیں الگ ہیں اور شیعوں کی الگ، ہر فرقے نے اپنے مذہب کی تعبیر اپنے حسب منشاء روایات سے کی ہے، وہ صرف اپنی ہی حدیثوں کو صحیح سمجھتا ہے اور دوسروں کی حدیثوں کو غلط، جب کہ فرقہ بندی قرآن کریم کی رو سے شرک ہے‘‘۔
اس طرح کے ایک اعتراض کی حقیقت ہم پہلے اس لنک پر پیش کرچکے ہیں اب ہمارا سوال یہ ہے کہ قرآن کو واحد ماخذ قانون ماننے والوں کے فرقے کیوں ہیں؟ وہ سب کسی ایک موقف پر کیوں جمع نہ ہوسکے؟
منکرین حدیث کے پاس اس سوال کا بھی کوئی جواب نہیں کہ خوارج، معتزلہ نے حدیث و سنت کو حجت تسلیم نہیں، انھوں نے اپنے آپ کو اہل قرآن قرار دیا اور قرآن سے براہ راست استدلال کیا اور حدیث و سنت سے احتراز برتا، لیکن اس کے باوجود ان کے اندر بے شمار فرقے پیدا ہوگئے، ہر فرقہ دوسرے فرقے کی تردید کرتا تھا۔ ان فرقوں کی تعداد بالترتیب ۲۷ اور ستر تک پہنچ گئی تھی۔ ہر ایک کا دعویٰ تھا کہ وہ حق ہے باقی تمام باطل حتیٰ کہ تردید کے اس عمل کے نتیجے میں خوارج اور معتزلہ فرقے دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹ گئے، ان کی پیروی میں جتنے فرقے بعد میں پیدا ہوئے وہ بھی ختم ہوگئے اور ان کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں رہ گیا۔ یہ فرقہ بندی کے خلاف تھے خود فرقہ فرقہ کیوں ہوگئے جب کہ یہ عاملین و حاملین قرآن تھے، سنت و حدیث ترک کرچکے تھے۔ ؟؟؟
موجودہ دور کے اہل قرآن کے فرقے:
انیسویں صدی میں منکرین حدیث کی جدیدیت سر سید احمد خان، احمد دین امرتسری، خواجہ کمال الدین، عبداللہ چکڑالوی، حافظ اسلم جیراج پوری، غلام احمد پرویز، علامہ مشرقی، ڈاکٹر غلام جیلانی برق کے ذریعے مختلف رنگ و روپ میں ظاہر ہوئی۔ یہ تمام حضرات قرآن کریم کو واحد ماخذ قانون تسلیم کرتے تھے اور حدیث و سنت کی حجیت تسلیم نہیں کرتے تھے۔ لہٰذا اصولاً ان تمام افراد کے افکار اور ان کے مکاتب فکر کے طرز عمل میں یکسانیت ضروری تھی کیونکہ قرآن حکیم انتشار افکار سے نکال کر وحدت افکار اور وحدت امت تک پہنچاتا ہے اور حدیث و سنت کے نتیجے میں وحدت ختم ہوتی اور انتشار پیدا ہوتا ہے۔ یہ منکرین کا دعوی تھا لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ اولاً ان منکرین حدیث کے افکار و خیالات میں کوئی مماثلت نہیں حتیٰ کہ شاگرد و استاد کے افکار و اعمال میں بھی دیرینہ مغائرت محسوس ہوتی ہے۔ ان کے ہر فرقے میں ذیلی فرقے پیدا ہوئے، ہر ایک کا نقطہ نظر قرآن سے اخذ شدہ تھا اور ہر ایک کا دعویٰ تھا کہ اس کا نقطہ نظر ہی درست قرآنی نقطہ نظر ہے۔ سوال یہ ہے کہ قرآن کو ماخذ قانون تسلیم کرنے کے بعد منکرین حدیث کے درمیان فرقہ بندی کی لہر کا اصل سبب کیا تھا؟
منکرین حدیث کے درمیان شدید اختلافات کیوں؟
منکرین حدیث کے مکتبہ فکر کے ہر فلسفی اپنے پیش رو فلسفی کے نظام فکر سے مختلف نظام فکر پیش کرتا ہے جس کے نتیجے میں عبادات اور اعمال کی شکل و صورت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ صرف یہی نہیں کہ ایک فلسفی کا نظام فکر دوسرے فلسفی کے نظام فکر سے مختلف ہے بلکہ ان تمام فلاسفہ کے نظام فکر میں بنیادی نوعیت کے تضادات موجود ہیں۔ ان کے افکار میں ہم آہنگی نہیں ہے اور ان کی قرآنی فکر مسلسل ارتقاء پذیر رہتی ہے۔
ایک ہی مفکر کے یہاں تاریخ کے مختلف مرحلوں میں ایک ہی قرآنی آیت کا مفہوم کچھ ہوتا ہے دوسرے مرحلے میں کچھ سے کچھ ہوجاتا ہے۔ پرویز صاحب اور ان کے ہم نوا افراد کے درمیان ایمان باللہ، ایمان بالملائکہ، ایمان بالرسل ایمان بالکتاب اور ایمان بالآخرۃ سے لے کر صوم صلوٰۃ، زکوٰۃ، درود، قربانی اور متعدد دوسرے شعائر میں اختلاف ہی نہیں تضادات بھی موجود ہیں۔ اس کی تفصیلات افتخار احمد بلخی کی کتاب ’’فتنہ انکار حدیث کا منظر پس منظر کی جلد سوم میں صفحات ۳۰۷ تا ۳۶۰ میں پڑھی جاسکتی ہیں۔ یہ وہی صورت حال ہے جو فلاسفہ کو درپیش ہے اور جس کا اعتراف
There is not a single statement by any philosopher since Descartes that cannot be immediately contradicted by another statement of another philosopher or some time from the same one.
صرف صلوٰۃ کے معاملے پر منکرین حدیث کے اختلافات:
دین کو جب فلسفہ بنا دیا جائے اور دین کے ہر حکم کا عقل محض کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے تو دین کا انجام یہی ہوتا ہے جو منکرین حدیث کے ہاتھوں ہوا۔اس کے برعکس تمام مسلمہ دینی مکاتب فکر میں چند فروعی اختلافات کے باوجود تمام بنیادی امور میں مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ مذاہب عالم کی اخلاقیات میں بھی مشترکہ امور کثرت سے مل جاتے ہیں۔ کیونکہ بیشتر محرف مذاہب اصلاً وحی الٰہی کی پیروی کرتے ہیں۔
اس روشنی میں جدیدیت پسند منکرین حدیث کے تضادات و اختلافات صلوٰۃ جیسے مسئلے میں ملاحظہ کیجیے جب کہ صلوٰۃ کے معاملے میں شیعہ سنی مکاتب فکر میں بھی بنیادی نوعیت کا کوئی اختلاف نہیں ہے، جزئیات میں کچھ مسائل الگ ہیں لیکن فرائض میں کوئی اختلاف نہیں۔
۱۔ سرسیدؒ پانچ نمازوں کے قائل تھے، عبداللہ چکڑالوی صاحب بھی پانچ نمازوں کے قائل تھے لیکن نماز میں اللہ اکبر کو شرک کہتے تھے، اور اس کی جگہ ان اللہ علیٰ کان کبیراً کا ورد کرتے تھے، سجدے کی حالت میں ایک گھٹنا اوپر رکھتے تھے۔
۲۔ عبداللہ چکڑالوی صاحب کے فرقہ اہل قرآن کے منحرف گروہ کے سربراہ مستری محمد رمضان تین وقت کی نماز کے قائل تھے ہر نماز میں صرف دو رکعت اور ہر رکعت میں صرف ایک سجدے کے قائل تھے۔
۳۔ عبداللہ چکڑالوی صاحب کے ایک اور منحرف گروہ کے سربراہ سید رفیع الدین ملتانی قرآن کریم کی روشنی میں صرف چار نمازوں کے قائل تھے ان کا موقف تھا کہ ہر نماز میں صرف دو رکعتیں قرآن سے ثابت ہیں اور دلیل یہ تھی کہ قرآن میں حالت جنگ و خوف میں ایک رکعت نماز کا حکم ہے لہٰذا ایک رکعت نصف نماز ہے تو حالت امن میں اصل نماز صرف دو رکعات ہے، محبوب شاہ گوجرانوالہ اور سید عمر شاہ گجراتی کی رائے بالکل مختلف تھی۔
۴۔ مولوی احمد دین امرتسری صاحب جن سے علامہ اقبال بھی بے حد متاثر تھے۔ منکرین حدیث کے علمی امام اور اصل پیشوا احمد دین امرتسری صرف دو نمازوں کے قائل تھے، نماز کو قرآن سے حجت نہیں سمجھتے تھے اسے رسول اللہ کے قابل تقلید اجتہاد کے طور پر قبول کرتے تھے۔
۵۔ غلام احمد پرویز صاحب نماز کی جگہ نظام ربوبیت کے قائل تھے لہٰذا انھوں نے کبھی نہ مسجد بنائی نہ کسی مسجد میں نماز پڑھنے کی زحمت فرمائی۔ وہ نماز کی موجودہ حنفی شکل کو درست سمجھتے تھے لیکن ان کا خیال تھا کہ مرکز ملت اس کی تعداد وغیرہ از سر نو مقرر کرسکتا ہے۔ ان کے حلقے بزم طلوع اسلام کے اجتماعات میں کبھی کسی کو نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔
۶۔ اسلم جیراج پوری صاحب نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ کو رسول اللہ کا متواتر اسوہ حسنہ سمجھتے تھے اور اس کی مخالفت کو قرآن کی مخالفت قرار دیتے تھے۔
۷۔ واضح رہے کہ اسلم جیراج پوری صاحب احمد دین امرتسری صاحب سے بے پناہ متاثر تھے، ان کا موقف تھا کہ احمد دین امرتسری کے مسلک سے اختلاف کرنا ممکن نہیں ہے جب کہ احمد دین امرتسری صرف دو نمازوں کے قائل تھے ’’تعلیمات‘‘ میں صفحہ ۱۵۶ پر اسلم جیراج پوری کا یہ موقف تحریر ہے کہ ’’نماز متواتر اسوہ حسنہ ہے یقینی ہے اور دینی ہے اور اس کی مخالفت خود قرآن کی مخالفت ہے۔ لیکن ان کا یہ موقف بھی عجیب تھا کہ احمد دین امرتسری صاحب کی دو نمازوں کے فلسفے سے اختلاف کرنا ممکن نہیں۔
۔
۹۔ حضرت علامہ مشرقی نماز کو پریڈ سے تشبیہ دیتے تھے تاکہ افواج اسلامی ورزش کے ذریعے چاق و چوبند رہیں ان کی صحت اچھی رہے اور وہ دنیاوی امور میں بہتر طور پر حصہ لے سکیں۔
۱۰۔ مصر میں منکرین حدیث کے سربراہ ڈاکٹر توفیق صدقی بھی صرف دو نمازوں کے قائل تھے۔
ان تمام تضادات کو اگر کولن ولسن کے محولہ بالا اقتباس کی روشنی میں پرکھا جائے تو منکرین حدیث کی وحدت پارہ پارہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ ہم نے صرف صلوٰۃ کو مثال کے طور پر لیا ہے اگر اسی طرح دیگر موضوعات کی بھی فہرست تضادات پیش کی جائے تو قدم قدم پر منکرین حدیث کے متضاد نقطۂ ہائے نظر ملتے چلے جائیں گے۔ کولن ولسن نے لکھا تھا کہ سقراط سے آج تک جتنے بھی فلسفی گزرے ہیں ہر ایک نے دوسرے کی تردید کی بلکہ خود فلسفی اپنے فلسفے کی تردید کرتے رہتے ہیں۔ کم و بیش یہی صورت حال منکرین حدیث اور فرقہ اہل قرآن کی ہے صرف ان کے فرقوں میں تضادات نہیں پائے جاتے بلکہ ان فرقوں کے بانیان کے افکار تضادات سے پر ہیں، مختلف مواقع پر یہ مختلف موقف اختیار کرتے ہیں۔
عبداللہ چکڑالوی پر پرویز صاحب کے اعتراضات:
غلام احمد پرویز صاحب سے جب اہل قرآن اور منکرین حدیث کے ان اختلافات کا جواب پوچھا گیا تو محض الزام تراشی کے وہ کوئی جواب نہ دے سکے۔ اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کے بجائے انھوں نے عبداللہ چکڑالوی کے فرقہ اہل قرآن پر اعتراضات وارد کر دیے، لیکن اس سوال کا جواب دینے سے قاصر رہے کہ محض قرآن حکیم کو ماخذ قانون تسلیم کرنے کے بعد عبداللہ چکڑالوی کی گمراہ کن فکر کا ازالہ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اور صلوٰۃ جو اس امت کا ’’شعار ہی سہی‘‘ اس کو کیسے ادا کیا جائے اس کا جواب پرویز صاحب کے الفاظ میں درج ذیل ہے:
’’بعض لوگوں کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ فرقہ اہل قرآن(عبداللہ چکڑالوی کا فرقہ ) کا دعویٰ ہے کہ وہ خالص قرآن سے احکام متعین کرتے ہیں لیکن ان میں بھی باہمی اختلاف ہے۔ ایسا کہنے والوں کو دراصل اس کا علم نہیں کہ فرقہ اہل قرآن نے کون سی باتیں، قرآن سے متعین کرنے کی کوشش کی اور ان میں باہمی اختلاف ہوا؟ قرآن نے جن امور کو اصولی طور پر بیان کیا ہے، یہ فرقہ ان کی جزئیات کو بھی قرآن سے متعین کرنے لگ گیا۔ اب ظاہر ہے کہ جو باتیں قرآن میں ہوں ہی نہ، اگر کوئی انھیں بھی قرآن سے متعین کرنے بیٹھ جائے تو ان میں اختلاف نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا؟ جو لوگ یہ بھی قرآن سے متعین کرنا چاہیں کہ نماز میں ہاتھ کہاں باندھنے چاہئیں، ان میں اختلاف کے سوا اور کیا ہوگا؟ فرقہ اہل قرآن کی یہی بنیادی غلطی تھی جس کی وجہ سے وہ خود ناکام رہا اور اس کی وجہ سے قرآن بدنام ہوگیا‘‘۔ <طلوع اسلام، اپریل ۶۷ء:ص۳۴>undefined
پرویز صاحب کی اس توضیح سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ دینی احکام کی جزئیات قرآن میں نہیں دی گئیں انھیں قرآن میں تلاش کرنا فعل عبث ہے۔ دوسرے لفظوں میں پرویز صاحب نے یہ تسلیم کرلیا کہ جزئیات دین قرآن سے اخذ نہیں کی جاسکتیں۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ کہاں سے اخذ کی جائیں۔ اگر نماز کی جزئیات قرآن سے متعین نہ کی جائیں تو سنت سے اور حدیث سے متعین ہوں گی جبکہ حدیث و سنت کے وہ قائل نہیں لہٰذا نماز کے مسائل کے لیے کس سے رجوع کیا جائے گا؟
طلوعِ اسلام، اپنے سوا دیگر اہل قرآن گروہوں کی ضلالت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے
” جب آج سے کچھ عرصہ پہلے فرقہ اہل قرآن کی اسی طرح مخالفت ہوئی ہے تو ہم نے سمجھا تھا کہ مخالفت، ان کی اس غلط روش کی بنا پر ہے جو فی الواقع غلط تھی۔ وہ اپنے غلو اور تشدد میں، رسول اللہﷺ کی صحیح حیثیت ہی کو بھلا بیٹھے اور انہوں نے حضور ؐ کا منصب صرف اس قدر سمجھا کہ آپ نے معاذ اللہ ایک چٹھی رساں کی طرح اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچا دیا یا آج کی اصطلاح میں یوں سمجھئے کہ ان کے نزدیک رسول ؐکی حیثیت معاذ اللہ ایک ریڈیو سیٹ (آلہ ابلاغ) کی سی ہے کہ محطۂ نشر الصوت(Broadcasting Station) میں جو کچھ نشر ہو، وہ آواز اس کے ذریعہ سننے والوں تک آپہنچی، یہ غلطی تھی۔” (طلوع اسلام جنوری ۴۲ئ: ص۱۱)
ٹھیک آج یہی گمراہی وابستگانِ طلوعِ اسلام نے بھی اختیار کر رکھی ہے، کیونکہ انکارِ حدیث کا یہ لازمی اور منطقی نتیجہ ہے۔ یہ لوگ بھی آج نبیؐ کو صرف اتنی حیثیت ہی دیتے ہیں کہ وہ ڈاکیا کی طرح محض قرآن پہنچا دینے کی حد تک ہی مامور من اللہ ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ‘اہل قرآن’ کے جملہ گروہ بشمول پرویزی فرقہ، اگر قرآن کے ساتھ حامل قرآنؐ اور کو بھی وہی حیثیت دیں جو خود قرآن نے انہیں دے رکھی ہے تو ان پر یہ امر واضح ہوجاتا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو شارع (Law Giver) کا مقام بھی دیا ہے :
﴿يَأمُرُهُم بِالمَعروفِ وَيَنهىٰهُم عَنِ المُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيهِمُ الخَبٰئِثَ وَيَضَعُ عَنهُم إِصرَهُم وَالأَغلٰلَ الَّتى كانَت عَلَيهِم ]سورة الاعراف…١٥٧ [
”وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لئے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور اُن پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے ہیں اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے ہیں۔”
مسئلہ صرف نماز کا نہیں ہے اس کے سوا بھی بے شمار معاملات میں چکڑالوی صاحب نے ٹھوکر کھائی، خود پرویز صاحب نے سو سے زیادہ معاملات میں قرآن سے دو اور تین قسم کے مختلف متضاد باہم متصادم نتائج اخذ کیے۔ یہ کیسا قرآن ہے جو ایک ہی مسئلے کے دو مختلف حل بتاتا ہے۔ حالانکہ اس مسئلے کا سبب نعوذباللہ قرآن نہیں، اہل قرآن کا انکار حدیث ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ منکرین حدیث جب قرآن کو صاحب قرآن ﷺ کے بغیر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہر تاویل مسئلے کو حل کرنے کے بجائے ایک نئی تاویل کا سبب بن جاتی ہے اور یہ الجھن بڑھتی چلی جاتی ہے جس کا انجام انکار دین ہوتا ہے۔
منکرین حدیث اگر خود شارع بننے کی بجائے، نبی ہی کو شارع قرار دیتے اور اپنی تشریح کرنے کی بجائے نبی ہی کی تشریحات کو قبول کرتے تو وہ کبھی اس گمراہی میں نہ پڑتے، جس کا الزام طلوعِ اسلام نے دوسرے ‘اہل قرآن’ گروہوں پر عائد کیا ہے۔ حالانکہ وہ خود بھی آج اسی گمراہی میں مبتلا ہے۔