مستشرقین ، ملحدین و منکرین حدیث صحیح بخاری کی حضور ﷺ کے جونیہ کے ساتھ نکاح والی ایک حدیث کو لوگوں کو نبی کریم ﷺ کی پاک شخصیت کے بارے میں گمراہ کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور منکرین حدیث کی طرف سے اس روایت کے سہارے ذخیرہ حدیث پر سوال اٹھائے جاتے ہیں ۔ ایک منکر حدیث لکھتے ہیں : آبادی سے دور کھجور کے باغ میں جونیہ نامی عورت لائی گئی تھی جسے رسول نے کہا کہ ہبی نفسک لی تو خود کو میرے حوالے کر دے تو اس عورت نے جواب میں کہا کہ وہل تہب الملکۃ نفسہا لسوقۃ ؟ یعنی کیا کوئی شہزادی اپنے آپ کو کسی بازاری شخص کے حوالے کر سکتی ہے؟(حوالہ کتاب بخاری ، کتاب) کچھ عرصہ قبل ایک فیس بکی متجدد المعروف قاری صاحب نے انتہائی مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے اس واقعہ کی فلمی اندازمیں منظر نگاری کی اور اپنے اس سکرپٹ کو حدیث اور امام بخاری کا بیان باور کرانے کے بعد اس سے حضور ﷺ کی توہین ثابت کرنے کی کوشش کی اور لکھا کہ یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے.حضورﷺ اور آپ کی ازواج کی شان کے خلاف ہے.حضورﷺ کے اخلاق عالی کے خلاف ہے۔ اس واقعہ کو جس انداز میں یہ سب لوگ پیش کرتے ہوئے ذخیرہ حدیث کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں وہ خیر خواہی کے نام پر حدیث کا انکار کروانے کی اک واضح مثال ہے .اس تحریر میں ہم جونیہ سے متعلق روایات کا تجزیہ پیش کریں گے ۔ اس سے ان سب کے اعتراضات کی حقیقت واضح ہوجائے گی ۔ انشاء اللہ
بخاری کی حدیث کچھ اس طرح ہے:
ابونعیم، عبدالرحمن بن غسیل، حمزہ بن ابی اسید، ابواسید کہتے ہیں کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکل کر ایک باغ پر پہنچے، جس کو شوط کہا جاتا تھا، جب ہم اس کی دو دیواروں کے درمیان پہنچے تو ہم وہاں بیٹھ گئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہیں بیٹھے رہو، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اندر تشریف لے گئے، وہاں جو نیہ لائی گئی اور امیمہ بنت نعمان بن شراحیل کے کھجور کے گھر میں اتاری گئی اور اس کے ساتھ ایک نگرانی کرنے والی دایہ تھی۔ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے قریب پہنچے تو فرمایا تو اپنے آپ کو میرے حوالہ کردے، اس نے کہا کیا کوئی شہزادی اپنے آپ کو کسی عام آدمی کے حوالہ کرسکتی ہے، آپ نے اپنا ہاتھ بڑھایا تاکہ اس کے سر پر رکھ کر اسے تسکین دیں، اس نے کہا میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتی ہوں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو نے ایسی ذات کی پناہ مانگی ہے جس کی پناہ مانگی جاتی ہے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اے ابواسید ! اس کو دورازقی کپڑے پہنا کر اس کے گھر والوں کے پاس پہنچادے۔ (صحیح بخاری، کتاب الطلاق، حدیث 5092)
بخاری کی اس حدیث میں اجمال ہے اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، اپنی لفاظی اور غلیظ سوچ سے غلط رنگ دے کر منکرین حدیث عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ علم حدیث سے بے خبر ایک عام آدمی بھی جب یہ “نامکمل” حدیث پڑھتا ہے تو اس کے دماغ میں اس بارے میں غلط خیال آنا عجیب نہیں، خاص طور پر جب اسے با قائدہ پروفیشنل اور تجربہ کار مخالفین حدیث کی طرف سے جان بوجھ کر گمراہ کیا جا رہا ہو۔ ہم نے اس روایت کو نامکمل اس لئے کہا ہے کہ اس میں اس واقعے سے متعلق ساری تفصیل نہیں ہے۔ اب آپ کے سامنے وہ روایت پیش کرتے ہیں ، جس میں اس کی مکمل تفصیل ہے۔
مکمل تفصیل :
“نعمان بن ابی جون الکندی نے اسلام قبول کیا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا، “میں آپ کی شادی عرب کی سب سے خوبصورت بیوہ سے نہ کروا دوں؟ اس کی اپنے چچا کے بیٹے سے شادی ہوئی تھی، جو اب مر چکا ہے۔وہ اب بیوہ ہے،آپ ﷺ کی طرف مائل ہے اور آپ ﷺ سے شادی کرنا چاہتی ہے(وہ بیوہ نعمان کی بیٹی امیمہ بنت نعمان بن شراحیل تھی، اس کی کنیت میں کچھ اختلاف ہے )۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے پانچ سو درہم مہر کے عوض شادی کر لی۔ انہوں (حضرت نعمان رضی اللہ عنہ) نے عرض کیا، “براہ مہربانی اس کامہر کم نہ کریں۔” رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا، “میں نے اپنی کسی بیوی یا بیٹی کا اس سے زیادہ مہر نہیں رکھا۔” نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا، “آپ کی مثال (ہمارے لئے)ایک اچھا نمونہ ہے۔” انہوں نے (مزید) کہا، “اے رسول اللہ ﷺ ، کسی آدمی کو بھیج دیں، جو آپ کی بیوی کو لے کر آئے۔ میں اس کے ساتھ جاؤں گا اور آپ کی بیوی کو اس کو ساتھ بھیج دوں گا۔”چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ابواسید رضی اللہ عنہ کو ان کے ساتھ بھیج دیا۔۔۔
ابواسید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، ” میں ان کے ساتھ تین دن رہا، اس کے بعد میں نے اس عورت کو پالکی میں بٹھا کر اونٹ پر سوار کروایا اور اسے مدینہ لا کر بنی سعدہ کے ساتھ ٹھہرا دیا۔ قبیلے کی عورتیں اس کے پاس آئیں اور اس کا استقبال کیا، اور واپس جا کر اس کے حسن کے تذکرے بھی کئے۔ چنانچہ اس کی آمد کی خبر پورے مدینہ میں پھیل گئی۔” ابواسید رضی اللہ عنہ (مزید) کہتے ہیں، “میں رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا، جب آپ ﷺ بنو عمرو بن عوف کے ساتھ تھے، اور آپ ﷺ کو اس (عورت) کی آمد کے بارے میں بتایا۔وہ عورتوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھی، جب مدینے کی عورتوں کو اس کی خوبصورتی کا پتا چلا تو وہ اسے دیکھنے اس کے پاس آئیں۔ ان میں سے ایک عورت نے اسے کہا، ‘تم ایک ملکہ ہو۔ اگر تم رسول اللہ ﷺ کے قریب ہونا چاہتی ہوتو جب وہ تمہارے قریب آئیں تو کہنا: میں آپ سے (اللہ کی) پناہ مانگتی ہوں۔(اس طرح) تم ان کی پسندیدہ بن جاؤ گی اور آپ ﷺ تمہاری طرف بہت زیادہ راغب ہو جائیں گے۔'” ( طبقات الکبریٰ 8/114)
اسی طرح ابن سعد کی بیان کردہ ایک اور روایت اسے مکمل کرتی ہے:
“جو نیہ نے رسول اللہ ﷺ سے پناہ مانگی کیونکہ اسے بتایا گیا تھا کہ یہ لفظ اسے رسول ﷺ کی نظر میں پسندیدہ بنا دے گا۔ کسی اور عورت نے آپ ﷺ سے پناہ نہیں مانگی۔ یہ دھوکا اسے اس کی خوبصورتی کی وجہ سے دیا گیا ۔جب اسے دھوکا دینے والیوں کا ذکر رسول اللہ ﷺ کے سامنے کیا گیا تو آپ نے کہا: ‘یہ حضرت یوسف علیہ السلام کی عورتوں کی طرح ہیں اور ان کا مکروفریب بہت بڑا ہے۔'” ( طبقات الکبریٰ 8/114)
حافظ ابن حجر نے بھی اس حدیث کو بیان کرنے اور اس کی تشریح کرنے کے لئے فتح الباری میں یہ روایات نقل کی ہیں۔
اوپر دی گئی تفصیلات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ:
1. اسکی رسول اللہ ﷺ سے شادی ہوچکی تھی۔
2. اس کے اپنے والد نے شادی کے لئے انتظام کیا تھا۔
3. رسول اللہ ﷺ کو بتایا گیا تھا کہ وہ عورت خود آپ ﷺ کی طرف مائل ہے اور آپ ﷺ سے شادی کرنا چاہتی ہے۔
4. بظاہر آپ ﷺ کا اس سے شادی کرنے کا مقصد ایک اہم قبیلے کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانا تھا۔
5. اسے نبی اکرم ﷺ سے نفرت نہیں تھی، بلکہ اسے آپ ﷺ سے بہت محبت تھی۔ اسے ایک عورت کی طرف سے دھوکا دیا گیا تھا، جس کی وجہ عورتوں میں قدرتی طور پر موجود ایک دوسرے سے حاسدانہ طبیعت تھی ۔ اس عورت نے کہا (اعوذباللہ منک ) میں تم سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں۔ اس بارے میں بعض علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسوقت پہچان نہیں پائی تھی ۔اس عورت کانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ جاننے کی دلیل صحیح بخاری میں ہی موجود ہے کہ اس عورت سے کہا گیا کہ تم جانتی ہو کہ یہ کون ہیں ؟تو اس نے کہا :نہیں ۔(کتاب الاشربۃ باب الشرب من قدح النبی صلی اللہ علیہ وسلم وآنیتہ رقم الحدیث5637)
6. اگرچہ بخاری کی مذکورہ پہلی حدیث میں مکمل تفصیل نہیں ہے، لیکن بخاری کا اس حدیث کو “کتاب الطلاق” میں رکھنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ انہیں اس کے سیاق و سباق کا علم تھا، لیکن انہوں نے صرف اس حدیث کو شامل کیا جو انکے موضوع سے مطابقت رکھتا تھا۔حضورﷺنے اسے سامنے طلاق دے دی اور طلاق کے دو (کتانی) جوڑے دے کر رخصت فرمادیا، اس پر امام بخاریؒ نے یہ باب باندھا ہے:”بَاب مَنْ طَلَّقَ وَهَلْ يُوَاجِهُ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ بِالطَّلَاقِ”۔(صحیح بخاری:۲/۷۹)ترجمہ: آیامرد اپنی عورت کوسامنے طلاق دے۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ جونیہ آپ کی ازواج میں سے تھی اور اس کا حضورﷺ سے نکاح ہوچکا تھا.
7. آپ کا اسے “هَبِي نَفْسَكِ” (ترجمہ:مجھے اپنا آپ بخش دے) کہنا نکاح کے لیے نہ تھا، زوجیت پرآمادہ کرنے کے لیے تھا، یہ الفاظ نکاح کے لیے بھی آتے ہیں؛ لیکن یہاں یہ دوسرے معنی میں ہیں اور باقی روایات / سیاق کلام اسی کا تقاضا کرتا ہے. حافظ ابن حجر اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں: “آپ ﷺ کے الفاظ ‘اپنے آپ کو میرے حوالے کر دو ‘ اسے پرسکون کرنے اور اس کا دل جیتنے کے لئے تھے”۔ یہ نہ تو شادی کا پیغام تھا اور نہ ہی مہر کے بغیر شادی کرنے کی درخواست تھی۔ ابن حجر آگے لکھتے ہیں: “اور اسے ابن سعد کی اس روایت کی تائید حاصل ہے کہ آپ ﷺ کی اس کے والد سے مہر کی مقدار سے متعلق بات طے ہو گئی تھی اور اس کے والد نے آپ ﷺ سے یہ بھی کہا تھا کہ’ وہ آپ ﷺ کی طرف مائل ہے اور آپ ﷺ سے شادی کرنا چاہتی ہے۔” (فتح الباری: 9/360)
8. جونیہ کے جملہ “هَلْ تَهَبُ الْمَلِكَةُ نَفْسَهَا لِلسُّوقَةِ” (ترجمہ:کیا ملکہ اپنے کورعیت کے سپرد کرسکتی ہے؟) کوبھی غلط معنی پہنائے جاتے ہیں اورملحدین و منکرین حدیث “سوقۃ” کے معنی نعوذ باللہ(بازاری) کے کرتے ہیں کہ اس نے کہا: میں اپنے آپ کوکیسے بازاری کے سپرد کروں (نعوذبااللہ)۔ سُوقَۃ کا ترجمہ ”بازاری” کرنا عربی زبان سے مطلق جہالت کا کرشمہ ہے۔ صحیح معنیٰ کے مطابق اس سے مراد وہ شخص ہے جو بادشاہ نہ ہو۔ عربی زبان کی معروف اور معتبر لغت ”لسان العرب”میں اس حدیث کا معنیٰ یوں مرقوم ہے :فقال لہا : (( ھبی لی نفسک )) ، فقالت : ہل تھب الملکۃ نفسہا للسوقۃ ؟ السُوقۃ من الناس الرعیّۃ ومن دون الملک ۔”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے فرمایا : تو اپنے نفس کو میرے لیے ہبہ کر دے۔ اس نے کہا: کیا کوئی شہزادی کسی غیربادشاہ کے لیے اپنے آپ کو ہبہ کر سکتی ہے؟ سُوقہ سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا شمار رعایا میں ہوتا ہو اور وہ جو بادشاہ نہ ہوں۔”
ترجمے کی اسی غلطی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
وکثیر من الناس یظنّون أنّ السُوقۃ أہل الأسواق ، والسُوقۃ من الناس من لم یکن ذا سلطان ۔ ”بہت سے لوگ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ سُوقہ بازاری لوگوں کو کہا جاتا ہے حالانکہ لوگوں میں سے وہ افراد سُوقہ کہلاتے ہیں جن کے پاس بادشاہت نہیں ہوتی۔”
(لسان العرب لابن منظور : ١٠/١٦٦، طبع دار صادر بیروت)
لغت عرب کی ایک اور معروف کتاب ”تاج العروس ”میں ہے :والسوقۃ بالضمّ خلاف الملک ، وہم الرعیّۃ التی تسوسہا الملک ۔”سُوقہ کا لفظ بادشاہ کا متضاد ہے، یعنی وہ رعایا جن پر بادشاہ حکومت کرتے ہیں۔”(تاج العروس لمرتضی الزبیدی : ٢٥/٤٧٩، طبع دار الہدایۃ)
بازاری شخص کے لیے عربی میں سُوقِیّ کا لفظ مستعمل ہے۔ حافظ ابن حجررحمہ اللہ اسی حدیث کے تحت لکھتے ہیں : ”رہے بازاری لوگ تو ان میں سے واحد کو سُوقِی کہتے ہیں۔ابن منیر کا کہنا ہے کہ(یہ عورت نئی نئی مسلمان ہوئی تھی اور) یہ روش اس میں موجود جاہلیت کی باقی ماندہ باتوں میں سے ایک تھی۔ عربوں کے ہاں سُوقہ اس شخص کو کہا جاتا تھا جو بادشاہ نہ ہو ، چاہے وہ جو بھی ہو۔اس عورت نے بعید سمجھا کہ ایک شہزادی ایسے شخص سے شادی کرے جو بادشاہ نہیں۔ ”(فتح الباری : ٩/٣٥٨، طبع دار المعرفۃ، بیروت)
9. جونیہ ایک قبیلے کے سردار کی بیٹی تھی، جو ابھی ابھی مسلمان ہوا تھا۔ چونکہ اسے(جونیہ کو) یہ بات پتا تھی کہ رسول اللہ ﷺ مسلمانوں کے قائد ہیں، اس لئے اس نے یقیناً سوچا ہو گا کہ آپ ﷺ بادشاہوں کی طرح رہتے ہیں۔ لیکن جب اسکی حضور سے ملاقات ہوئی تو اسے علم ہوا کہ آپ ﷺ تو بالکل سادہ زندگی گزارنے کے عادی ہیں جو بادشاہ تو درکنار، کسی قبیلے کو سردار کی طرح بھی نہیں تھی۔ یہی اسکے ایسا جملہ کہنے کی وجہ تھی. .
رسول اللہ ﷺ نے اس کی اس بات کو نظر انداز کر دیا، کیوں کہ اسے اسلام کی تعلیمات سے متعلق کوئی علم نہیں تھااور اسکی گستاخی کا بھی بالکل برا نہیں منایا اور اسے دو جوڑے تحفے دے کر اسی احترام کیساتھ اس کے خاندان کے پاس واپس بھیجوا دیا ۔
ان تفصیلات سے اس حدیث کو قرآن و سیرت رسول ص کے خلاف قرار دینے والوں کے تمام اعتراضات کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے . اس حدیث میں محض اک واقعہ کا ذکر تھا جس میں اک عورت حضور ص کے سامنے چند سخت الفاظ بولتی ہے . منکرین حدیث و متجددین نے عورت کی اس بے ادبی کو حدیث کے ذمہ لگادیا حالانکہ قرآن میں بھی مشرکین و یہود کی طرف سےکی گئی اللہ اور اسکے رسولوں کی گستاخیوں کا ذکر ہے لیکن آج تک کسی نے ایسی کسی آیت کو گستاخانہ نہیں قرار دیا . یہ ان خیرخواہوں کا ہی کمال ہے کہ ایسی احادیث کو گستاخانہ کہہ دیں اور محض حدیث دشمنی میں اک ایسی حدیث کو بھی حضور ص کے اخلاق کے خلاف قرار دے دیں جو انکے اچھے اخلاق ہی بیان کررہی ہے ۔ یہ میرے نبیﷺ کا اخلاق ہی تو ہے کہ جو عورت رضامند نہیں تھی آپ نے باوجود قدرت کے اس کے ساتھ زبردستی نہیں کی اسے انعام و اکرام کے ساتھ واپس کیا۔ اس نبیﷺ کو ملحدین نعوذباللہ جنس زدہ ثابت کرتے ہو۔ کیا جنس زدہ شخص کا کردار ایسا ہوتا ہے؟