رسالت محمدی کا ظہور پوری انسانیت کی تاریخ میں عام طور پر اور عربوں کی تاریخ میں خاص طور پر ایک عظیم الشان واقعہ تھا، اس لئے عربوں کی زندگی رسول اللہ ﷺ کے عہد میں آپ کی حیات طیبہ اور آپ کے لائے ہوئے دین کے گرد گردس کرتی تھی وہ کہیں اکٹھا ہوتے تو آپ ﷺ ہی ان کا موضوع گفتگو ہوتے، اور کہیں سے اٹھتے تو آپ ﷺ ہی کے بارے میں منصوبے تیار کرکے اٹھتے، ان کی محفلوں میں چرچا ہوتا تو بس آپ ﷺ کا اور ان کی فوجی ٹولیاں اور لشکر فوج کی کشی کیلئے روانہ ہوتے تو آپ ﷺ ہی سے مقابلے کے لئے۔ آں حضرت ﷺ کا عظیم الشان کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے انہیں اسلام پر مجتمع کردیا اور وہ سخت جاہلیت اور شدید گمراہی سے نکل کر نورِ ہدایت میں آگئے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ عرب قوم جس کی دیگر قوموں کے نزدیک کوئی اہمیت نہ تھی اور جوارد گرد کے لوگوں کی دست درازیوں سے محفوظ نہ تھی، زندگی کے میدانوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے لگی، انسانوں کو راہ ہدایت دکھانے کا فریضہ انجام دینے لگی اور بلند ہمتی، شجاعت، ایثار، حمایت حق اور نیکی اور تقوی کے کاموں میں تعاون اور اچھے اخلاق سے بہرہ ور ہونے میں ا س کی مثال دی جانے لگی،
یہ ہے خلاصہ نبی ﷺاور آپ کے اصحاب کی سیرت کا جنہوں نے آپ ﷺ کی پیش کردہ ہدایت اور دین حق کا اتباع کیا اور زندہ جاوید کارنامے انجام دے کر مجدو شرف اور عظمت و فخر کے صحیفے رقم کئے۔
عربوں کے نزدیک تاریخ نویسی:
نبی ﷺ کی بعثت سے قبل عربوں کے یہاں تاریخ کے فن میں کوئی چیز نہیں تھی سوائے جالیت اولیٰ کی چند خبروں کے جو زبانی روایت کی شکل میں نسلاً بعد نسل منتقل ہوتی آئی تھیں اور جو ان کے درمیان عام تھیں ۔ مثلاً ان کے آباؤ اجداد کے واقعات اور انساب اوران سے متعلق مشہور ایسے قصے جن سے ان کی شجاعت، سخاوت اور وفاداری کااظہار ہوتا تھا یا خانہ کعبہ، زمزم اور قبیلہ جرہم کے بارے میں ان تک پہنچنے والی معلومات یا ان خانوادوں کا تذکرہ جنہیں یکے بعد دیگرے قبیلہ قریش کی سرداری حاصل رہی، یا سدِ مآرب کے ٹوٹ جانے کا واقعہ جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگ مختلف علاقوں میں منتشر ہوگئے وغیرہ ان چیزوں کے بارے میں ان کی زبانی روایت تحریری نوشتوں کا متبادل بن گئی تھی لوگ انہیں سنتے یاد رکھتے اور دوسروں کو سناتے تھے۔
نبی ﷺ اور آپ کی دعوت کے ظہور سے تاریخ کا ایک نیا سرچشمہ منظر عام پر آیا اور وہ تھا آں حضرت ﷺ کی ولادت، حیاتِ طیبہ اور اس کی سرگرمیوں ( اللہ کی راہ میں جہاد، مشرکین اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ ٹکراؤ، توحید کی دعوت اور اس پر زبانی اور مسلح مخالتوں کے اثرات وغیرہ) سے متعلق صحابہ کرام کے بیانات یہ چیزیں اولاً تاریخ کا، ثانیاً سیرت کا مواد بنیں۔
سیرت نگاری:
سیرت پر تصنیف و تالیف آج تک منقطع نہیں ہوا ہے لیکن یہ موضوع فی نفسہ ایسا نہیں جو تجربات پر مبنی یا دلیل و برہان پر قائم ہوا اور ا سکی حیثیت ان سائنسی نظریات کی سی نہیں جن میں اہل علم زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ تجدید یا تبدیلی کرتے رہتے ہیں بلکہ یہ ایسا علم ہے جس کی بنیاد نقل روایت پرہے ۔
اس فن سے اشتعال رکھتے والے ابتداء میں محدثین اور روایا نِ حدیث و سیرت تھے۔ بعد کے لوگوں نے جمع و تبویب کا کام کیا۔ پھر نقد وتعلیق کا مر حلہ آیا ، جیسا کہ ابن ہشام نے سیرت ابن اسحاق میں کیا ۔
جو صحابہ کرام علم حدیث کے ذخائر تابعین تک پہنچا رہے وہ خود بھی درس وتدریس اختیار کئے ہوئے تھے ۔ ان میں سے کئی صحابہ کرام ایسے تھے جنہوں نے عام مضامین حدیث کی بجائے خاص اہتمام اور دلچسپی کے ساتھ سیرت کے مو ضوعات پرتوجہ اور سیرت کے مو ضوعات کے درس وتد ویس کا شغلہ اپنایا۔ حضرت براء بن عازب مشہو ر انصاری صحابہ ہیں ۔ان کے بارے میں تذکرہ ملتاہے کہ وہ صرف مغاری اور سیرت کے بارے میں املا کرایا کرتے تھے ۔ ان کے شاگرد ابواسحاق السبیعی ہیں ۔ انہوں نے ان سے روایات لیں اوران کے سارے مجموعے کو مرتب کیا۔ اس طرح سے حضرت براء ابن عازب کے پاس علم سیرت کے جو کچھ ذخائر تھے وہ ان کے شاگرہ ابو اسحاق کے پاس آگئے ۔ امام بخاری کی صحیح بخاری میں مغازی اور سیرت کے بارے میں درجنوں روایات ایسی ہیں جو براء ابن عازب اور ابو اسحاق کی روایت تک پہنچی تھیں وہ درجہ بدر جہ امام بخاری تک پہنچ گئیں ، اور امام بخاری نے ان کو اپنی کتاب میں محفوظ کرلیا ۔
حدیث کے متعلق مستشرقین کی غلطی
مستشرقین اور انکے مشرق عقید ت مند کہتے ہیں کہ علم حدیث کا ساراذخیرہ چو تھی صدی ہجری میں لکھا گیا ان کیا غلط فہمیوں کی ایک وجہ معلوم ہوتی ہے کہ احادیث کے جو بڑے بڑے مجموعے امت میں مقبول ہوئے وہ زیادہ تر تیسری اور کچھ چوتھی صدی ہجری کے لکھے ہوئے ہیں ۔ یہ لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں ،یا شاید بھلادیتے ہیں، کہ زیادہ مکمل اور زیادہ بہتر کام جلدی مقبول ہو جاتاہے اور کم درجہ کے یا ابتدائی مرحلہ کے کام سے لوگوں کو مستغنی کردیتا ہے ۔ تیسری اور چوتھی صدی ہجری کی کتابیں اس لئے مقبول ہوئیں کہ چوتھی صدی ہجری تک وہ سارا مواد ایک ایک کرکے سامنے آگیا تھا جو پہلی اور دوسری صدی میں مدوّن ہواتھا۔
مثلا حضرت براء ابن عازب کا مجموعہ تو ظاہر ہے کہ دو چار سوروایات پر مشتمل ہوگا ۔واقعات پر مبنی ہوگا جو انہوں نے خود دیکھے ۔ لیکن بعد میں آنے والے تابعین نے حضرت براء کی معلومات بھی لیں ۔حضرت خالد بن ولیدؓ سے آنے والی معلومات بھی لیں ۔ بقیہ صحابہ سے بھی معلومات لیں اوران کو یکجا کردیا ۔ تو ایک تابعی کے پاس ایک صحابی کی بجائے دس صحابہ کے مجموعے آگئے ۔ تبع کے پاس بیس صحابہ کے مجموعے آ گئے۔تبع تابعین کے بعد جو لوگ آئے ان کے پاس اور زیادہ معلومات جمع ہوگئیں ۔ یو ں جب امام بخاری اور ان کے معاصرین کا زمانہ آیا تو یہ استیعاب ء کا زمانہ تھااستیعاب اوراستقصاء کی وجہ سے حدیث کے زیاد ہ بہتر ،زیادہ جامع اورزیادہ مکمل مجموعوں کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ یعنی اگر کسی کے پاس صحیح بخاری موجود ہوتو اس کویہ بیس بیس تیس احادیث کے چھوٹے چھوٹے مجموعے رکھنے کی کیا ضرروت تھی ۔ چھوٹے مجموعوں کی تاریخی اہمیت تو اپنی جگہ برقرار رہی۔ لیکن عام درسی اور تصنیفی ضروریات کے لئے بڑے مجموعوں نے لوگوں کو چھوٹے مجموعوں سے مستغنی کردیا ۔ جس طرح آج ہر جگہ حدیث کی بڑی بڑی کتابیں موجودہیں۔ لیکن سو پچاس سال بعد شاید ان کی ضرورت نہیں ہوگی۔ کیونکہ ایک سی ڈی پر کئی کتابیں دستیاب ہوں گی۔ اب آگے چل کر اگر کوئی یہ کہے کہ جناب سی ڈی پر احادیث کی اکتابیں تو بیسوی صدی میں مرتب ہوئی ہیں لٰہذا یہ ثابت ہو ا کہ اس سے پہلے کچھ نہیں تھا۔ یہ بات غلط ہوگی کیونکہ اکیسویں صدی کی سی ڈیوں پر جو کچھ مواد فراہم ہوگا و ہ پہلے پھچلی صدیوں میں ہونے والے کام کی بنیاد پر ہی ہوگا۔ خلاصہ یہ کہ امام بخاری ،امام مسلم ، یہ حضرات جو مجموعے مرتب کررہے تھے ،یہ انہی تحریری اورزبانی ذخائر کی بنیاد پر مرتب کررہے تھے جو ان تک پہنچے تھے۔
علم سیرومغازی :
حضرت عبد اﷲبن عباسؓ کے بارے واضح طور پریہ بات آئی ہے کہ وہ مختلف علوم کے طلبہ کو پڑھایا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباس پہلے صحابی تھے جن کا لقب ترجمان القرآن تھا۔ ان کے وقت کا ایک حصہ عربی زبان و ادب کے لئے مقرر تھا۔ وہ عربی زبان و ادب کے بہت بڑے ماہر تھے۔ ان کے وقت کا ایک حصہ تفسیر کے لئے مقرر تھا جس میں وہ تفسیر پڑھایا کرتے تھے۔ ایک مقررہ وقت میں وہ حدیث پڑھایا کرتے تھے۔ اک خاص وقت میں وہ مغازی پڑھایا کرتے تھے اور غزوات اور سیرت کے بارے میں جو معلوم ان کو ملیں وہ معلومات تابعین تک پہنچایا کرتے تھے۔
علم حدیث اور علم مغاری شروی میں ایک ہی علم یا فن کا حصہ تھے اور محد ثین اور اصحاب سیر دونوں کی یکساں دلچسپی کے مو ضوعات تھے ۔ صحابہ کرام جو احادیث بیان کیاکرتے تھے وہ مغاری کے باب میں بھی بیان کرتے تھے۔ لیکن وقت گز رنے کے ساتھ ساتھ یہ دونوں علم ترقی کرکے الگ الگ ہوئے گئے ۔ علم حدیث الگ اورعلم مغاری الگ ہوتا گیا۔ دونوں میں تخصص بھی الگ الگ نمایاں طور پر سامنے آگیا ۔ کچھ لوگ مغاری کے متخصص قرار پائے اور کچھ لوگ علم حدیث کے متخصص بن گئے۔ پھر مغاری کا مطالعہ دو پہلوؤں سے ہونے لگا ۔ کچھ لوگوں نے واقعات اور تاریخ کے نقطہ نظر سے کیا۔ کچھ حضرات نے مغاری کا مطالعہ اسلام کے قانون جنگ و صلح کے ماخذ کے طو ر پرکیا ۔ اسلام کا بین الاقوامی قانون اوّل اوّل مغاری کی صورت میں سامنے آتاہے۔ رسولﷺ نے کیا کیا ارشادارت فرمائے۔لوگوں سے معاملہ کیسے کیا۔ کس طرح سے اپنی جنگوں کو منظّم کیا۔ قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ۔معاہدے کئے تو کیسے کئے اوران کی پاسداری کی تو کیسے کی ۔ کچھ لوگ ان مو ضوعات میں دلچسپی لینے لگے ۔ اس لئے پہلی صدی ہجری کے اوراخراوردوسری صدی ہجری کے شروع سے یہ دو الگ الگ فن بن گئے۔ ایک علم سِیرَکہلایاجس کو آپ اسلام کا بین الاقوامی قانون کہہ سکتے ہیں ، اور دوسرا علم مغاری کہلایاجو گو یا سیرت کاایک شعبہ بنا۔ بعد میں پھر مغاری میں اور موضوعات بھی شامل ہوگئے اور اس کو علم سیرت کے نام سے یادکیاگیا۔
صحابہ کرام میں کم سے کم ایک درجن حضرات ایسے تھے جن کی خاص دلچسپی اور ذوق یہ تھاکہ وہ لوگوں کے سامنے حضورعلیہ السلام کی جنگوں اورمہمات کے بارے میں معلومات بیان کیاکرتے تھے۔ اسی طرح سے کچھ صحابہ کرام میں سیرت ،حضور کی ذات اور شمائل مبارکہ کے بارے میں تخصص کا رجحان پید اہوا۔
تابعین میں سے جن حضرات نے اس معاملہ بہت دلچسپی لی اور ان معلومات کو صحابہ کرام سے حاصل کیاان میں تویوں توکئی بزرگوں کے نام آتے ہیں لیکن ان میں دوبزرگ سب سے زیادہ نمایاں ہیں ۔ ان دونوں بزرگوں کا تعلق دو بڑے صحابہ کرام سے ہے ۔ ایک حضرت ابان بن عثمان ہیں جو حضرت عثمان غنی ذوالنورین کے صاحبز ادے ہیں ۔ یہ مغاری کے خصوصی متخصص تھے اوررانہوں نے مغاری کے بارے میں مختلف صحابہ کرام جمع کیں اور مغاری کاایک مجموعہ مرتب کیا جو مغاری ابان بن عثمان کہلاتاتھا۔ یہ اپنے طلبہ کو تعلیم بھی دیا کرتے تھے اور ان کو اپنے اس مجموعے کااملابھی کرایا کرتے تھے ۔ ان کے طلبہ اس کتاب کے نسخے تیار کیاکرتے تھے۔
تابعین میں دوسرا مشہور اور نمایاں نام بلکہ غالباً سب سے زیادہ نمایاں نام حضرت عروہ بن زبیرکاہے جو حضرت عائشہ صدیقہؓ کے بھانجے اور حضرت ابوبکرصدیقؓ کے نواسے تھے۔حضرت عائشہ صدیقہؓ نے ان کی تربیت میں خاص دلچسپی لی ۔ انہوں نے علم سیرت اور مغاری کے بارے میں ایک مجموعہ مرتب کیا۔وہ مجموعہ تحریری بھی تھااور اپنے طلبہ کو وہ پڑھایا بھی کرتے تھے ۔اس تحریری مجموعہ کی تیاری میں بعض خلفانے بھی دلچسپی لی اوربعض دوسرے حضرات نے بھی ان سے درخواست کی کہ وہ مجموعہ ان کے لئے بھی مرتب کیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے اپنا یہ مجموعہ ایک سے زائد مرتبہ مرتب کیا۔ انہوں نے خود اپنے دست مبارک سے جو نسخہ لکھا تھاوہ ہم تک نہیں پہنچا سکا۔ لیکن انہوں نے اپنے شاگردوں کو جو چیز املا کرائی تھیں وہ محفوظ ہیں ۔ان کے شاگردوں کالکھا ہوامحموعہ مشہور مؤرخین اسلام طبری ،ابن سعداور واقدی تک پہنچا۔ ان سب مؤرخین نے اس سے پوراپورا استفادہ کیا اور اس کے مندر جات کو اپنی اپنی کتابوں میں سمویا۔آج سے کوئی پند رہ بیس سال پہلے ڈاکٹر مصطفےٰ اعظمی نے ان ساری کتابوں سے عروہ بن زبیر کی اس کتاب کے سارے حوالوں کو جمع کرکے مغاری عروہ بن زبیر کے نا م سے ایک کتاب مرتب کردی ۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اس طرح حضرت عروہ بن زبیر کی معلومات کاسارا ذخیرہ یکجا جمع ہوگیاہے۔ لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس طرح ان کے ذخیرہ معلومات کاخاصا حصہ دریافت ہوکر یکجا ہوگیا ہے اور آج مطبوعہ موجو د ہے ۔ حضرت عروہ بن زبیر کا تفصیلی تذکرہ آگے آئے گا۔
تابعین میں مزید تین ایسے نام ہمارے پاس موجود ہیں جنہوں نے سیرت اورمغاری کے بارے میں صحابہ کرام سے آنے والی معلومات کے ذخائز کو مرتب اورمنظم کرنے میں بہت نمایاں دلچسپی لی اور قابل ذکر کام کیا۔ ان میں سے ایک وہب بن منبہ (متوفی۱۲۸ھ)ہیں ۔یہ انہی ہمام بن منبہ کے چھوٹے بھائی ہیں جوحضرت ابویرہ کے شاگردتھے۔
یہ دونوں بھائی حضرات ابویرہ کے شاگردتھے۔ ہمام بن منبہ نے احادیث مرتب کیں ۔ وہب بن منبہ نے سیرت اورمغاری کی روایات جمع کیں ۔ ان کی اس کتاب کی ایک کاپی جوان کی وفات کے سو سال بعد۲۲۸ھ میں لکھا گیا تھا جرمنی کے ایک کتب خانہ میں موجود بتایاجاتاہے۔ اس کتاب میں ہجرت کے واقعات بیان کئے گئے ہیں ۔ ان کے بعد دوسرے مشہور تابعی جنہوں نے تدوین سیرت میں نمایاں کام کیا’ شر جیل بن سعد تھے۔ آخری تابعی محمد بن شہاب زہری تھے جو امام مالک سمیت بہت سے بڑے بڑے محدیثن کے استاد ہیں ۔ سیرت ان ابتدائی تالیفات میں جو تابعین کے قلم سے ہیں ایک تابعی سلیمان بن طرخان (المتوفی ۱۷۴۳ھ) کی کتاب ’السیرۃ الصحیتہ’ کاذکر بھی کیا جاناچاہئے ۔ یہ کتاب چھپ چکی ہے ۔ مشہور متشرق فان کریمر نے اس کا متن مغاری واقد ی کے آخرمیں لگادیکھا۔اس نے ان دونوں کو ایڈٹ کرکے شائع کیا۔
تابعین میں ان پانچ حضرات کے ساتھ ساتھ ایک اور انتہائی محبوب اور ایک انتہائی قابل احترام نا م ایک اور تابعی حضرت امام علی بن حسین زین العابدین کاہے۔ انہوں نے اپنی یادداشت کے لئے سیر ودمغاری کاایک مجموعہ مرتب کیاتھا۔ان کے بارے میں واقدی نے بھی صراحت کی ہے اورعلامہ ابن کثیر نے اپنی کتاب البدایہ والنہایتہ میں بھی صراحت کی ہے کہ امام زین العابدین نے اپنی یادداشت کے لئے سیر ت اور مغاری کے موضوعات پرمشتمل ایک مجموعہ مرتب کیاتھا ۔ غالًبا یاتو امام زین العابدین کے کوئی باقاعدہ شاگردنہیں تھے، اگرتھے تو انہوں نے یہ نسخہ دوسرں تک نہیں پہنچا یا، یااگر پہنچا یاتھا تو بعد والوں تک نہیں پہنچا ۔ اس لئے کتب سیرت میں امام زین العابدین کی اس یادداشت کے حوالے بہت کم ملتے ہیں ۔
تابعین حضرت عروہ بن زبیر وغیرہ:
تدوین سیر ت میں سب سے نمایاں نام حضرت عروہ بن زبیرکا ہے۔ حضرت عروہ بن زبیر ایک طویل عرصہ تک اپنی خالہ جان حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس رہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ کے پاس کتنا ذخیرہ علم ہوگا اس کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔حضرت عروہ بن زبیر نے اس کوسن کر، لکھ لکھ کراور زبانی یاد کرکرکے محفوظ کرلیااپنی خالہ کے علاوہ ان کی والدہ محترمہ یعنی حضرت اسماء بنت ابی ابو بکرؓخود بھی ابتدائی مکی دورسے صحابیہ تھیں ۔ ہجرت کے واقعات میں براہ راست شریک تھیں ۔ ہجر ت کاسارا سفر ان کے سامنے ہواور اس سارے عمل کی تیاری وتکمیل میں ان کا حصہ اورکر دار بہت اہم تھا۔ اس لئے سیرت کے یہ واقعات اُن سے بڑھ کرکون بیان کرسکتا تھا۔ ان کے والد حضرت زبیر بن العوامؓ عشرہ مبشرہ میں سے تھے جو روزاول سے اسلام صف اول کے جاں نثاروں میں سے تھے۔ یہ سب تو حضرت عروہ بن زبیرؓ کے اپنے ہی گھر کے لوگ تھے۔ ان حضرات کے علاوہ متعدوصحابہ کرام سے بھی انہوں بطور خاص کسب فیض کیا۔ان میں سیدناعلی بن ابی طالبؓ ،حضرت سعید بن زید،حضرت زیدبن ثابتؓ کاتب وحی، حضر ت اسامہ بن زید ،حضرت ابوہریرہ، میزبان رسول حضرت ابو ایوب انصاری ، ام المؤمنین حضرت ام سلمہ ، حضرت عبداﷲبن عباس ترجمان القران ،حضرت عبداﷲبن عمرؓ جن سے زیادہ متبع سنت اور کوئی نہیں تھا۔ یہ سب حضرت عروہ کے اساتذہ تھے۔
امام زہری جو محدثین میں بہت بڑا مقام رکھتے ہیں اور حضرت عروہ بن زبیر کے شاگردوں میں سے ہیں ۔ وہ کہتے تھے کہ ’’کان عروۃ بحراً لا تکدرہ الدلا ء ‘‘ یعنی عروہ ایک ایسا سمندر ہیں جس سے جتنا چاہو پانی نکالو،گدلا نہیں ہوتا‘یعنی ان کی معلومات اتنی زیادہ ہیں کہ نہ وہ پرانی ہوتی ہیں اورنہ ان میں تکرار ہوتی ہے۔ جب بھی کسب فیض کے لئے کچھ پوچھا گیا تو ان کوئی نئی معلومات ملیں ۔ مشہور محد ث حافظ ابن حجر عسقلانی کی ایک کتاب ہے تہذیب التہذ یب ، جو صحابہ کرام اور دیگر روایان حدیث کے تذکرے پرمشتمل ہے ۔اس کتاب میں انہوں نے عروہ بن زبیر کے بارے میں لکھا ہے کہ روایت ، مغاری اور سیرت کے بارے میں ان کی معلومات کایہ حال تھا کہ بعض اوقات بڑے بڑے صحابہ کرام بھی ان سے پوچھا کرتے تھے کہ فلاں معاملہ کیاتھا اور کس طرح پیش آیاتھا ،یاسیرت کافلاں واقعہ کیسے ہواتھا۔حضرت عروہ بن زبیر صرف حدیث ، سیر ت اورمغاری کے عالم نہیں تھے۔ وہ بہت بڑے فقیہ بھی تھے۔ فقہائے سبعہ کانام ہم سب نے سناہے۔ ایک زمانے میں مدینہ منورہ کے سات بڑے فقہائے سبعہ میں حضرت عروہ بن زبیر بھی شامل تھے۔
ایک طرف تو حضرت عروہ زبیر خود بھی یہ کام کررہے تھے اور پھر جو ذخیرہ کو اپنے والدین سے ، اپنے خاندان اور دوسرے صحابہ سے ملا تھا وہ اس کو اپنے شاگردوں تک پہنچایا کرتے تھے۔ حضرت عروہ کے شاگردوں میں سے متعدد حضرات نے اس کام پر خصوصی توجہ دی۔ امام زہری ان کے شاگردوں میں ایک نمایاں نام ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بعض دوسرے حضرات نے بھی ان کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ زیادہ مفصل انداز میں ان معلومات کو آگے کی نسلوں کو دے سکیں۔
جس زمانے میں مروان بن حکم مدینہ منورہ کے گورنر تھے تو ان کی ایک خاص دلچسپی یہ تھی کہ وہ مختلف صحابہ کرام اور تابعین سے معلومات کو جمع کرنے اور فراہم کرنے کی درخواست کرتے رہتے تھے۔ انہوں نے کئی بار حضرت عروہ بن زبیر سے بھی یہ کام کرانے کے لئے کہاا۔ایک مشہور صحابی حضرت حکیم بن حزام، جو رسول اللہ ﷺ کے قبل از اسلام کے دوست تھے اور حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کے قریبی رشتہ دار تھے۔ جب شعب بنی ہاشم میں حضور کے پورے خاندان کو صحابہ کے ساتھ محصور کردیا گیا تھا۔ توقریش کے وہ لوگ جو اسلام نہیں لائے تھے لیکن در پردہ مسلمانوں کی مددکیا کرتے تھے اور جن کی کوشش سے بعد میں وہ ظالمانہ معاہدہ ختم کیا گیا تو ان میں حضرت حکیم بن حزام بھی شامل تھے۔ حکم بن حزام کے پاس بھی عزوات کے بارے میں بہت کچھ معلومات تھیں۔ جن غزوات کے بارے میں انہوں نے دوسروں سے سنا اور بعد میں جن عزوات میں وہ خو د شریک ہوئے ۔ ان کے بارہ میں تفصیلات کومحفوظ رکھنے کا وہ خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ مروان بن حکم نے ان سے درخواست کی کہ آپ اپنی ان معلومات کو ایک جگہ مرتب کرلیں ۔ چنانچہ انہوں نے یہ معلومات مرتب کرلیں ۔
مروان بن حکم کے علاوہ ان علوم کو جمع کرنے میں جس امور خلیفہ کا بہت زیادہ حصہ ہے وہ مراون کے صاحبزادے عبد الملک بن خود ایک بہت ہی وہ صاحب علم انسان تھے اور حضرت عبد اﷲبن عمرکے شاگرد تھے۔ حضرت عبد اﷲبن عمر کے انتقال کے وقت ان سے پوچھا گیا کہ آپ کے بعد فتاویٰ کے لئے کس سے رجو ع کیا جائے؟انہوں نے فرمایا کہ عبد الملک بن مروان سے رجوع کیا جائے۔
عبد الملک بن مروان علمی اور دینی اعتبار سے اس درجہ اور مقام و مرتبہ کے انسان تھے امام مالک نے مو طا میں کئی جگہ کسی چیز کا سنت ہونا عبد الملک کے طرز عمل کے حوالہ سے بیان کیاہے ۔ مثلاً کہا ہے کہ فلاں چیز کا سنت ہے اور اس کے دلیل یہ ہے کہ اہل علم نے عبد الملک بن مروان کو اس طرح کرتے دیکھا ہے ۔ گویا امام عبد الملک بن مروان کے طرز عمل کوسنت کی ایک دلیل قرار دیا ۔ عبد الملک بن مردان نے عروہ بن زبیر کو سیرت سے متعلق متعدد تفصیلات اور کئی ایک معاملات کو ضبط تحریر میں لانے کو مشورہ دیا۔ نہ صرف تحریر کرنے کا مشورہ دیا بلکہ وہ قتاُقتاُ کچھ معاملات کے بارہ میں سوالات حضرت عروہ کی خدمت میں بھیجا کرتے تھے۔ عروہ بن زبیر سوالات تفصیلی جواب دیاکرتے تھے ۔ عبد الملک کے خطوط اورعروہ کے جوابات آج بڑی حد تک محفوظ ہیں ۔ ان میں سے بہت سے سوالات وجوابات امام طبری نے اپنی تاریخ میں نقل کئے ہیں۔ کئی ایک واقدمی اورابن سعد نے بھی نقل کئے ہیں اورکئی دوسرے مورخین نے بھی اس خط وکتابت کا تذکرہ کیاہے۔یہ سوالات و جوابات پوری سند کے ساتھ طبری میں موجود ہیں ۔ میں صرف مثال کے طور پر طبری کاایک حوالہ دیتاہوں ۔اپنی پوری سند بیان کرنے کے بعد طبری نقل کرتے ہیں کہ عن عروہ انہ کتب الی عبد الملک بن مروان ‘عروہ نے عبد الملک بن مروان کو یہ لکھا ’اما بعد فانک کتبت الیّ تسلئی عن خالد بن الولید ‘آپ نے مجھے خط لکھا ہے اور خالد بن ولید کے بارے میں یہ پوچھا ہے کہ’ھل اغاریوم الفتح‘کیا ان کے دستے نے فتح مکہ کے موقع پر حملہ کردیا تھا‘،ہے کہ ’ھل اغاریوم الفتح ‘اور اگر حملہ کیاتھا کس کے حکم سے کیا تھا۔ پھر حضرت عروہ نے اس سوال کا پوراجواب دیاہے۔
ایک اورخط میں لکھاہے کہ آپ نے یہ پوچھا کہ حضرت خدیجہؓ کی تاریخ وفات کیاہے۔ اس کا جواب انہوں نے دیا ہے ۔ یادرہے کہ حضرت عروہ کے والد حضرت زبیر بن العوام حضرت خد یجہ کے سگے بھیتجے تھے۔ گویا والدکی پھوپی کے بارے میں مستند معلومات بھیتجے کے بیٹے سے ہی مل سکتی تھیں ۔ اسی طرح سے ابن سعد ، طبری اور واقدی کی کتابوں کا جائز ہ لیا جائے تو عبد الملک کے بھیتجے ہوئے سوالات اور ان کے لکھے ہوئے بہت سے استفارات کا تذکرہ ملتاہے اور حضرت عروہ بن زبیر نے ان جو جوابات دیئے ان کی تفصیل بھی ملتی ہے۔ ڈاکٹر مصطفےٰ اعظمی نے جو کتاب تالیف کی ہے اس میں یہ سارے دستاویزی واقعات اورثبوت ان تمام کتابوں سے نقل کرکے جمع کردئے گئے ہیں ۔ اس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت مغاری حضرت عروہ بن زبیر کے نا م سے جو کتاب مطبوعہ موجود ہے، جو 1980میں ریاض میں ڈاکٹر مصطفےٰ اعظمی کی تحقیق سے چھپی ہے، یہ اس وقت سیرت کی ایک قدیم ترین کتاب ہے جو سیرت پرالگ سے لکھی گئی ہے۔ اس کے براہ راست راوی عروہ بن زبیر ہیں جو اپنی خالہ، والدہ سے اور اپنے والد سے روایت کرتے ہیں جو رسول ﷺ کے ساتھ ہر معرکہ اورہر مہم میں شریک رہے۔
اگرچہ اس وقت تک سیر ت کی عام طور پر دستیاب اور متداول کتابوں کے ذریعے سیر ت کے بارے میں جو معلومات دستیاب نہیں تھیں عروہ کی اس کتاب کے چھپنے سے ان میں سے کوئی نئی بات ہمارے سامنے نہیں آئی ۔ لیکن اس کتاب کے چھپ جانے سے یہ تصدیق ضرور ہوگی کہ عروہ نے صحابہ کرام کے فوراً بعد تدوین سیرت کے پہلے مرحلے میں جو معلومات اگلی نسل تک پہنچائی تھیں وہ پوری صحت کے ساتھ پہنچائی تھیں ۔اور پورے دیانت دار انہ وثوق کے ساتھ جو باتیں آپ نے دوسروں تک پہنچائی تھیں وہ جوں کو توں اس کتاب میں دستیاب ہیں۔
حضرت عروہ بن زبیر کی اس کتاب کا بہت سے قدیم مصنفین نے ذکر کیاہے۔ مثلاًواقدی کایہ بیان ہے کہ عروہ ابن زبیر مغاری پر کتاب لکھنے والے پہلے مصنف ہیں ۔ ھواول من صنّف المغازی ۔ ممکن ہے یہا ں صنّف سے مراد مغازی کی کلا سیفیکیشن بھی ہو۔ ابن ندیم نے بھی عروہ کی کتاب المغازی کاتذکرہ کیاہے۔ان کے شاگرد ابوالاسوداس کتاب کا ایک نسخہ لے کر مصر چلے گئے تھے اوروہاں اس کتاب کی روایت کیا کرتے تھے۔ یوں جلد ہی ان کی تحقیقات ایشیا سے نکل کرافریقہ تک جاپہنچیں ۔
عروہ کی روایات کی یہی مقبولیت اور اہمیت تھی جس کے پیش نظر صحاح ستہ کی ہر کتا ب میں ان کے اس مجموعہ کی روایت نظر آتی ہیں ۔ تہذیب التہذ یب میں حافظ ابن حجر نے لکھاہے کہ بعض اوقات صحابہ کرام بھی سیرت اور مغازی کی تفصیلات معلوم کرنے کے لئے عروہ بن زبیر سے رجوع کرتے تھے۔
عاصم بن عمربن قتادہ بن نعمان الاانصاری
تابعین میں سے عاصم بن عمربن قتادہ بن نعمان الاانصاری کا شریک رہے محدثین نے لکھا ہے کہ’شھدالمشاھد کلھا‘ رسول اﷲﷺ کے ساتھ تمام غزوات اور معرکوں میں شریک رہے۔ یہ وہی صحابی ہیں جن کی آنکھ غزوہ احد میں نکل پڑی تھی اور چہرے پر لٹک آئی تھی ۔ حضرت قتادہ فوراً حضور کے پاس آئے اور عرض کیا کہ یارسول اﷲ! دیکھیں میری آنکھ باہر نکل آئی ہے، اب کیاکروں ۔ آپؐ نے اپنے دست مبارک سے آنکھ کو اپنی جگہ واپس رکھ دیا۔ شاید کچھ پڑھ کر پھونکا بھی اور کچھ آرام کرنے کامشورہ دیا ۔ ان کی وہ آنکھ نہ صرف بالکل ٹھیک ہوگئی ، بلکہ پھر دوسری آنکھ کے مقابلہ میں زیادہ بینا اور زیادہ صحت مند رہی اور اخیر تک اس آنکھ میں کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ ان کے صاحبزادے عمر بن قتادہ تھے جنہوں نے اپنے والد سے مغازی کی روایت اور تفصیلات حاصل کیں ۔ ان کو مرتب کیا اور اپنے صاحبز ادے عاصم بن عمر بن قتادہ بن نعمان الاانصاری تک پہنچایا۔ عاصم کے بارے میں محدثین نے لکھے ہے کہ’کان راویۃ للعلم ‘وہ علم کی بہت زیادہ روایت کرنے والے تھے۔ ایک جگہ لکھاہے ولہ علم بالمغازی والسیر‘ان کے پاس مغازی اورسیرت کا بہت زیادہ علم تھا۔ ان کو حضرت عمربن عبد العزیز نے اپنے دور خلافت میں اس کام کے لئے مقرر کیاتھا کہ روزانہ دمشق کی جامع مسجد میں بیٹھ کرمغازی اور سیر ت کادرس دیاکریں ، لوگوں کو اس کی تعلیم دیا کریں ، چنانچہ ا نہوں نے یہ کام کیا ۔میں کہ سکتا ہوں کہ حضرت عمر بن عبد لعز یز نے پہلی سیر ت چیئر قائم کی اور عاصم بن عمر قتادہ بن نعمان الانصاری کو اس چیئر پر مقررکیا جو خلیفہ وقت کے کہنے پروہاں سیرت اورمغازی کی تعلیم دیاکرتے تھے ۔
حضرت عبید اﷲبن عبداﷲبن عتبہ
حضرت عروہ ہی کے ہم عصر ایک اور تابعی عبید اﷲبن عبداﷲبن عتبہ تھے ۔ یہ بھی صحابی زار سے تھے ۔ ان کے بارے میں کہا گیا کہ اشعر الفقھا،یعنی اپنے زمانے کے فقہا میں سب سے بڑے شاعر اور افقہ اشعر یعنی اپنے زمانے کے شعرا میں سب سے بڑے فقیہ ۔ یہ عبید اﷲبن اﷲ بھی مدینہ کے سات شہرۂ آفاق فقہا میں سے شمار ہوتے تھے اور قرآن ، حدیث ، سیرت ، انساب،زبان وادب کے میدانوں میں مہارت رکھتے تھے۔ حضرت عروہ بن زبیر کی طرح انہوں نے بھی حضرت عائشہؓ صدیقہ اوردوسرے متعد د صحابہ کرام سے کسب فیض کیا۔
عروہ اورعبید اﷲکے جہاں اساتذہ مشترک ہیں وہاں کئی تلامذہ بھی مشترک ہیں ۔ان دونوں کے مشترک تلامذہ میں امام محمد بن مسلم بن شہاب زہری کانام علم سیرت کی تاریخ میں بہت نمایاں ہے۔
حضرت عروہ بن زبیر کی روایات امام زہری تک پہنچیں ۔ابان بن عثمان ،عاصم بن قتادہ بن نعمان الانصاری کی روایات بھی ان تک پہنچیں ۔ انہوں نے ان تمام روایات کو جمع کرکے ایک بڑا ذخیرہ مرتب کیا۔ اس اعتبار سے پہلی ضغیم یا پہلی مفصل کتا ب ہم کہہ سکتے ہیں کہ امام زہری نے مرتب کی ۔ لیکن وہ دوسرے شاگردوں کے ذریعے ہم تک آئی براہ راست نہیں آئی ۔ وہ معلومات ان کے تلامذہ کے ذریعے ہم تک آئی ۔ ان کے تلامذہ نے جومعلومات آگے ہم پہنچائیں وہ محدثین اور سیرت نگاروں نے اپنی کتابوں میں مرتب کرلیں۔
امام زہری اور انکے تلامذہ
امام زہری
امام زہری نے اپنے زمانے میں تمام بڑے بڑے تابعین سے کسب فیض کیا۔ صحابہ کرام کے سامنے زانوئے تلمذتہہ کیا ۔ ان کی دلچسپی کے میدان علم حدیث اور قرآن کے ساتھ ساتھ سیرت اورمغازی بھی تھے۔ وہ طویل عرصہ تک مدینہ منورہ میں رہیں ۔ امام مالک نے بھی ان سے کسب فیض کیا ۔ امام مالک امام زہری کے تلامذہ میں سے ہیں اور ان کی موطا میں امام زہری کی بہت سی روایات موجود ہیں ۔ امام زہری اپنے وقت کو اس طرح صرف کرتے تھے کہ گھر گھرپوچھتے تھے کہ تمہارے گھر میں کوئی بزرگ زندہ ہیں ۔ ان سے ملاقات کرتے تھے۔اس سے کہتے تھے کہ آپ نے اپنے والد نے فلاں غزوہ کے بارے میں کیا سنا ہے، فلاں غزوہ کے بارے میں کیا سناہے، حتی کہ پردہ نشین خواتین سے پردہ کے پپچھے سے غزوات کی تفصیلات پوچھتے تھے۔یوں خواتین ، مردوں اور عورتوں سے الگ الگ جاکر معلومات جمع کرتے جاتے تھے۔
امام زہری کی معلومات میں وسعت اور گہرائی بلا کی تھی ۔ امام لیث بن سعد کا کہنا ہے کہ میں نے زہری سے بڑ اعالم نہیں دیکھا ۔ وہ جس فن پر بولتے تھے تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اسی کے مختصص ہیں ۔
امام زہری کے تلامذہ میں یوں تو بے شمار لوگ ہیں ۔ بڑے بڑے محدثین اور کا بر فقہا ان کے شاگردوں میں شامل ہیں ۔ امام لیث بن سعد امام شافعی اور امام مالک کے استاد ہیں وہ امام زہری کے تلامذہ میں سے ہیں ۔ سیرت کی حد تک ان کے تلامذہ میں تین نام بڑے نمایاں ہیں
ایک موسیٰ بن عقبہ ‘دوسرے معمربن راشداورتیسرے محمد بن اسحاق ہیں ۔
موسیٰ بن عقبہ
موسیٰ بن عقبہ اپنے وقت کے ایک بہت بڑے محدث بھی تھے۔ علم حدیث میں بھی ان کا اونچا مقام تھا۔ مغازی اورسیرت میں بھی ان کا کوبڑا درجہ حاصل تھا ۔موسیٰ بن عقبہ نے امام زہری کی روایات کو قلمبند کیا، نئے انداز سے ترتیب دی اور مدینہ منورہ میں ان گو اہی سند کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ یہاں تک کہ جب کوئی امام مالک سے پوچھتاتھا کہ مغازی یا سیر میں کس سے معلومات حاصل کریں تو امام مالک کہا کرتے تھے کہ’علیکم بمفازی موسیٰ بن عقبہ فانہ ثقہ‘موسیٰ بن عقبہ سے مغازی کا علم حاصل کرو کیونکہ وہ مستند اور ثفہ آدمی ہیں ۔ جرح وتعدیل کے اپنے زمانہ کے سب سے بڑے امام اور صف اول کے محدث امام یحیٰ بن معین بھی موسیٰ بن عقبہ کی اس کتاب کو سیرت کی سب سے مستند کتاب قرار دیا کرتے تھے۔ موسیٰ بن عقبہ کے دو بھائی ابراہیم بن عقبہ اور محمد بن عقبہ تھے۔یہ تینوں بھائی فقیہ اور محدث تھے اور ایک زمانے میں تینوں کاالگ الگ حلقہ درس مسجد نبوی میں لگا کرتا تھا۔
موسیٰ بن عقبہ کی مکمل کتاب تو ہم تک نہیں پہنچی لیکن اس کا ایک محفوظ پر وشیا میں ، جو پہلی جنگ عظیم سے پہلے یورپ کاایک ملک تھا اور بعد میں فاتح طاقتور نے اس کے حصے بخر ے کرکے اس کے کچھ حصے جرمنی میں اور کچھ چیکو والیہ میں ضم کردیئے ۔ و ہاں کے ایک کتب خانے میں اُس کا ایک حصہ موجود تھا۔ مشہور مستشرق ایڈ ورڈ ز سخاؤ نے 1940میں اس کو ایڈ ٹ کرکے شائع کردیا تھا اور یہ اب عام طورپرکتب خانوں میں موجود ہے۔ ایک نامکمل نسخہ برلن میں ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ پروشیا کے نسخہ کی بنیا د پر چھپنے والے نسخہ اور برلن والے نسخہ میں کیاقدر مشترک ہے۔ موسیٰ بن عقبہ کے ان مغازی کے علاوہ ، جو چھپ گئے ہیں ، ان کی روایات کا ایک بڑا حصہ طبقا ت ابن سعدمیں جا بجا ملتا ہے ۔ ابن سعد دوداسطوں سے موسیٰ بن عقبہ کے شاگرد ہیں ۔موسیٰ بن عقبہ نے اپنے شاگردوں کو جو املا کرایا ہوگا وہ روایات ان کے شاگردوں کے ذریعے ابن سعد تک پہنچیں۔
موسیٰ بن عقبہ کاایک بڑا کا رنامہ اور ہے جو آج چلا آرہا ہے۔ وہ یہ کہ سب سے پہلے ان کو یہ خیال آیا کہ اصحاب بدر کی مکمل فہرست بنائیں ۔ قرآن پاک میں اصحاب بدر کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے اور صحابہ کرام میں ان کی فضیلت مشہور و معروف تھی۔ بعد کے صحابہ میں بد ر یین کا بڑا اونچا مقام تھا۔ یہاں تک کہ خلفائے راشدین کے زمانے میں اصحاب بدر کو ایک انتخاب ادارہ یا الیکٹورل کالج کی حیثیت حاصل تھی ۔ خلفائے راشدین کا انتخاب اصحاب بدر ہی کیاکرتے تھے۔ جب حضرت عثمان کی شہادت کے بعد سیدنا حضرت علی بن ابی طالب سے لوگوں نے کہا کہ آپ خلیفہ بن جائیں تو آپ نے ان سے کہا کہ ’لیس ذالک الیکم ‘یہ فیصلہ کرنے کا اختیار تمہیں نہیں ہے۔ ’انما ذالک الی اھل بدر ‘یہ فیصلہ کرنے کا حق تو اہل بدر کو ہے ’فمن رضی بہ اھل بدر فھوالخلیفہ‘ جس سے اہل بدر راضی ہوں گے وہی خلیفہ ہوگا۔ اہل بدر کی اس اہمیت کی وجہ سے ضرورت تھی کہ ان کی مکمل اور مستند فہرست موجود ہو۔ ایسی پہلی مکمل فہرست موسیٰ بن عقبہ نے بنائی جس کی امام مالک نے بھی تصدیق کی اور اس کو مستند قرار دیا۔
معمربن راشد (متوفی۱۵۴ھ)
زہری کے شاگردوں میں دوسرانمایاں نام معمربن راشد (متوفی۱۵۴ھ)کاہے۔ وہ یمن کے رہنے والے تھے ، انہوں نے بھی مغازی پر ایک کتا ب ’کتاب لمغازی ‘کے نام سے لکھی تھی جس کاتذکرہ ابن ندیم نے کتا ب الفہر ست میں کیا ہے۔ معمر راشد کی اس کتاب کے اقتباسات طبری م واقدی ، ابن سعد ، بلاذری اور دوسرے اہل علم کے ہا ں ملتے ہی۔ معمر زہری کی روایا ت سے کیاہے ۔ امام زہری کے پاس مغازی اورسیر کے بارے میں جو کچھ معلومات تھیں وہ سب معمر بن راشد کے پاس آگئیں جو انہوں نے مزید اضافوں کے ساتھ ایک کتاب المغازی کی شکل میں مرتب کردیں ۔
یحیٰ بن معین جو ایک مشہور محدث ہیں ۔ محدثین میں ان کابہت اونچا مقام ہے اور اس اعتباری سے وہ بڑے اہم ہیں کہ جرح وتعدیل یعنی کسی راوی کو مستند یا غیر مستند قرار دینے کا جوفن ہے اس کے سب سے بڑے ماہر تھے اور اس سلسلہ میں ان کا شمار متشددین میں ہوتاتھا۔ متشددین وہ لوگ تھے جو روایوں کو بہت سختی سے پر کھتے تھے اور ان کی رائے کی بہت اہمیت ہوتی تھی اسی لئے یحیٰ بن معین کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ جس راوی کو یحیٰ بن معین مستند قرادر دے دیں تو پھر آنکھیں بندکر کے اس کو قبول کرلینا چاہئے۔ امام احمد ب بن حنبل کا قو ل ہے کہ’عضو اعلیہ بالنوو اجذ‘ کہ جس روای کویحیٰ بن معین قابل قبول قراردے دیں اس کو دانتوں سے پکڑ لو ۔ اس لئے کہ اس کے بعد کسی اور کی تعدیل کی ضرورنہیں۔یحیٰ بن معین نے معمر بن راشد کے بارے میں تصدیق کی ہے کہ زہری کے تلامذہ معمر بن راشد مستند ترین ہیں اور ان کے پاس جو معلومات ہیں وہ ہم تک انتہائی استناد اور ثقاہت کے ساتھ پہنچی ہیں ۔
معمر بن راشد کے شگردوں میں بہت سے نامور حضرات شامل ہیں ۔ لیکن سب سے نمایاں اما م عبد الرزاق بن ہمام الصنعانی(متوفی ۲۱۱ھ)کا نام ہے جو اساتذہ میں سے ہیں ۔ انہوں نے بھی ابن ندیم کے بقول ایک کتاب المغازی لکھی تھی۔ یہ اس بات کا ایک انتہائی اہم ثبوت ہے کہ سیرت کے ذخائز ہر دور میں تحریری طور پر بھی مدوّن ہورہے تھے اور زبانی طورپر بھی روایت کئے جارہے تھے ۔ اس کا ایک اور ثبوت یہ بھی ہے کہ معمر بن راشد اور ان کے شاگردوں کے تحریری ذخائر بھی موجود ہیں امام زہری کے تحریری ذخائر کا تذکرہ کیا جاچکاہے۔ حکیم بن حزم براہ راست پڑھا یا کرتے تھے ، ان کے تحریری ذخائر ہیں لٰہذا یہ تما م روایات ومعلومات نہ صرف زبانی روایت بلکہ تحریری ذرائع سے بھی ہم تک پہنچی ہیں ۔ شرحبیل بن سعد کاابھی میں نے ذکر کیا ۔ یہ تین بڑے نمایاں صحابہ یعنی زید بن ثابت،ابوہریرہ اور ابوسعید خدری کے شاگردوں میں سے ہیں ۔ انہوں نے ایک کام یہ کیاتھا کہ انہوں نے مدینہ منورہ ہجرت کرکے آنے والے مہاجر صحابہ کی فہرست بنانے کی طرف توجہ دی اوراس پر زوردیا۔ یعنی وہ صحابہ جو السابقوں الا ولون من المہاجرین میں شامل تھے۔ ’اول من دوّن قوام المھا جرین من السابقین ال ولین الی المدینہ ‘آپ نے ان لوگو ں کی ایک فہرست بنائی ۔ پھربدر اوراح دمیں جن حضرات نے شرکت کی،ان سب کی انہو ں نے ایک فہرست بنائی۔ یہ سب فہرستیں بنانے والے اورمعلومات کومرتب کرنے وہ لوگ ہیں جن کا شمار یا تو صغارتابعین میں ہے یاکبارتابعین میں ہے۔
امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ :
امام زہری کے آخری شاگرد محمد بن اسحاق تھے۔ ابن اسحاق سیر ت کے فن میں اتنا بڑا نام ہے کہ ان کے کارنامے نے بقیہ لوگوں کے کارنامے کو بھلادیا۔ ابن اسحاق کے کام پرایک جرمن مستشرق جوزف ہورووٹس نے1927-28کے الگ بھگ ایک کتاب لکھی تھی جس کا اردو اور عربی ترجمہ بھی موجود ہے ۔ اس کتاب میں اس نے ابن اسحاق کے اس کام کاپوراپس منظر اوران کے اساتذہ اور ماخذ کے بارے میں تفصیل بیان کی ہے۔ کتاب اچھی ہے، معلومات بھی مستند ہیں کہیں کہیں مغربی تعصب کی جھلک نظر آتی ہے لیکن کچھ زیادہ نہیں اوراس سے استفادہ کیاجاسکتاہے۔
ابن اسحاق کے بارے میں اگر ہم کہیں کہ ان کو علوم سیرت میں اتنا ہی بڑامقام حاصل ہے جو حکیم ارسطا طالیس کو منطق میں حاصل ہے تو شاید غلط ہوگا ۔ ابن اسحاق نے تین ضخیم جلد وں پر مبنی ایک جامع کتاب سیرت پرلکھی تھی ۔ انہوں ان تمام اصحاب سے جن کا ابھی تذکرہ ہوا، انہوں نے بالواسطہ یا بلاواسطہ کسب فیض کیا۔ ان سب کے تحریر ی ذخائز کو حاصل کیا۔ ان تمام مقامات اور علاقوں کو جاکر دیکھا ۔ جن جن حضرات کے بارے میں معلوت ہوا کہ ان کا تعلق شرکا ئے بدر کے خاندان سے ہے یاشر کائے احد یا فلاں واقعہ سے ان کاکوئی تعلق ہے تو ان کے پسماندگان کے پاس جا کران سے معلومات جمع کرتے تھے اور پھر ان معلومات کاآپس میں مقابلہ کرتے تھے اور چیک کرتے تھے کہ جو بات کہی گہی ہے وہ درست ہے یانہیں ہے۔ ان سب معلومات کی روشنی میں انہوں نے ایک کتاب مرتب کی جو جامع ترین اور مکمل کتاب ہے جوایک اہم واسطہ سے ہم تک پہنچی ہے۔کہاجاتا ہے کہ یہ کتاب ابن اسحاق نے عباسی خلیفہ منصور کے کہنے پرلکھی تھی کہ آپ سنت کا ایک مجموعہ مرتب کریں ۔ چنانچہ امام مالک نے موطامنصورکے کہنے پرلکھی تھی ۔ہوسکتا ہے کہ منصور کویہ خیال ہواہوکہ مغازی اور سیر ت پربھی کوئی کتاب ہونی چائیے اس لئے یہ بات بعید ازمکان نہیں کہ ابن اسحاق کہ ابن اسحاق نے یہ کتاب منصورہی کے کہنے پر مرتب کی ہو۔
اس کتا ب کے تین حصے تھے۔ ایک حصہ کانام ’کتاب المبتدأ تھا۔ اس میں انہوں نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر رسول اﷲﷺ کے جد امجد معد بن عدنان تک تمام اہم اور مشہور شخصیتوں کے بارے میں جومعلومات ان کوملی وہ انہوں نے مرتب کیں ۔ ان معلومات کے بارے میں بعض محدثین اور کچھ محتاط اہل علم کا خیال تھا کہ کتا ب کا یہ حصہ بہت غیر مستندہے۔ کتاب کایہ حصہ اکثر و بیشتر ان معلومات پر مشتمل تھا جو یہودی اور عیسائی ذرائع سے ملی تھیں ۔
حضرت ابراہیم اورحضرت موسیٰ علیہ السلام سے دلچسپی یہودیوں اور عیسائیوں دونوں کوتھی ۔اس سے پہلے تاریخ انبیا کا سلسلہ یہودیوں اورمسلمانوں میں مشترک تھا ۔ اس لئے ابن اسحاق نے یہودی اور عیسائی مصادر سے یہ معلومات حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا ۔
اس کتاب کادوسرا حصہ المبعث کے نام سے تھا۔ رسول اﷲﷺکی بعثت سے لے کر بلکہ آپ کے خاندان اور برادری کے تذکرہ سے لے کر آپ ﷺ کی وفات تک اس دوسرے سے حصہ بحث کی گئی تھی ۔تیسرا حصہ مغازی تھا جس میں جنگوں کاالگ سے تفصیل سے بیان ہواتھا۔ ابن اسحاق کی یہ کتاب ایک طویل عرصہ تک مقبول رہی ۔ اس کے نسخے ساتوں آٹھویں صدی ہجری تک بہت عام تھے۔ علامہ ابن اثیر الجزری (متوفی ۶۳۰ھ) کے پاس بھی یہ کتاب موجود تھی ۔ان کی کتاب اسد الغابہ میں کثرت سے اس کے حوالے ملتے ہیں ۔ ایک ابن اثیر ہی کیا، تقریباً تمام سیرت نگاروں نے اس کتاب سے استفادہ کیا۔ اس کے مضامین کواپنے مجموعوں میں شامل کیا ۔ اس کے خلاصے لکھے ۔ اس کی شرحیں لکھی گئیں ۔ یہ کتاب بڑی دیانت داری سے لکھی گئی تھی ۔ خودمغربی مصنفین نے اس کا اعراف کیاہے۔ الفرڈ گیام جس نے کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی کیاہے۔ وہ کہتا ہے کہ بڑی دیانت داری ، صداقت اور غیر جانبداری سے یہ کتاب لکھی گئی ہے۔
اس کتاب کے تقریباً پندرہ مختلف نسخوں versions کاتذکرہ ملتاہے ۔ اُس زمانے میں یہ ہوتاتھا کہ ہر صاحب علم فقیہ یا حدیث کی جو بھی کتاب مرتب کرتاتھا۔ اس کا املا اپنے طلبہ کو کراتا تھا۔ طلبہ اس کا املالے کر اس کو یاد کرتے تھے اور حفظ کیاکرتے تھے ۔ان طلبہ میں سے کچھ آگے چل کرعلم میں مزید ترقی کرلیتے تھے مزید ترقی کے بعد وہ اس مجموعے میں مزیداضافوں اور ترامیم کا سلسلہ جاری رکھتے تھے۔ جہاں ان کو استاذ کی رائے سے اختلاف ہے ۔ اُس زمانے تو اس کا بھی ذکرکردیا کرتے تھے کہ یہاں ہمیں استاذ کی رائے سے اختلاف ہے۔ اُس زمانے میں علم کسی کی ذاتی میراث نہیں ہوتا تھا کہ ایک آدمی جس نے کچھ کہہ دیایا لکھ دیا تو اس پر کاپی رائٹ کے تحت اس کی اجا رہ داری قائم ہوجائے ۔ کسی کو اُس سے استفادہ کی اجازت نہ ہو، یہ اسلامی تہذیب کے مزاج کے خلاف ہے۔ اس لئے جو علم کسی استاد نے شاگردوں تک پہنچایاوہ انسانیت کی مشترکہ میراث ہوتی تھی اور ہر شخص کواس میں رائے دینے کاحق ہوتا تھا ۔ خود امام مالک کے موطا کے پندرہ بیس نسخے ہیں ۔ ایک نسخہ ان کے شاگرد امام محمد کاہے ۔ اس میں امام محمد نے اپنی رائے کے مطابق بہت سے اضافے کئے ہیں ۔ جہاں جہاں ان کو امام مالک کی رائے سے اختلافت تھا اس کو بیان کیا۔ اپنے استادامام ابو حنیفہ کے ارشادات بھی بیان کئے۔ وہ نسخہ اگرچہ موطا ء امام مالک کاہے لیکن موطا امام محمد کہلاتا ہے۔ اسی طرح سے کئی بڑی کتابیں ہیں جن کے ایک سے زیادہ نسخے یا ورژ نز موجود ہیں ۔سیرت ابن اسحاق کے پندرہ ورژ نز کا تذکرہ ملتا ہے اور قدیم مصنفین مثلاً طبری ، واقدی ، ابن سعد اور ازرقی وغیر ہ کے ہاں اس کتاب کے اقتباسات یا روایتیں ہمیں ملتی ہیں۔
محمد بن اسحاق یوں توامام زہری کے شاگرد تھے اور انہوں نے زیادہ ترکسب فیض امام زہری ہی سے کیا۔لیکن امام زہری کے بعد دوسرے اکا بر علمائے سیرت سے بھی انہوں نے استفادہ کیا۔ ان میں ایک عبداﷲبن ابی بکر بن عمر وبن حزم بھی تھے ۔یہ عمروبن حزم وہی ہیں جن کو یمن کے علاقے میں بھتیجے وقت حضور نے ایک دستا ویز لکھ کردی تھی۔ ان کے پاس وہ دستاویز او ر حضور کے زمانے کی کئی دوسری مزید دستاویزات موجود تھیں ۔ ان کے پوتے عبد اﷲ بن ابی بکر بن عمر وبن حزم تھے ۔ یہ عبداﷲبھی بڑے عالم تھے اورمحمد بن اسحاق نے ان سے کسب فیض کیا۔ انہوں نے بھی کتاب مغازی پرلکھی تھی لیکن وہ ہم تک نہیں پہنچی ۔
محمد بن اسحاق نے براہ راست صحابہ سے تو کسب فیض نہیں کیا تھا لیکن ان کو بعض صحابہ کرام کی زیارت نصیب ہوئی تھی۔ انہوں نے حضرت انس بن مالک کو دیکھا تھا ۔ امام ابوحنیفہ نے بھی حضرت انس بن مالک کی زیارت کی تھی ۔ اور ان کو بھی تابعیت کاشرف حاصل ہے۔ ابن اسحاق اور امام ابوحنیفہ تقریباًمعاصر تھے۔ امام صاحب کاانتقال 150ھ میں اور ابن اسحاق کا 151ھ میں ہوا۔ حضرت انس کا قیام عموماً امدینہ منورہ اور پھر دمشق اور بصرہ میں ہوتاتھا۔ امام ابوحنیفہ بیان کرتے ہیں کہ میں بارہ تیرہ سال کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ حج کرنے گیاتھا۔ حرم میں داخل ہواتو دیکھا کہ ایک ہجوم ہے اور لوگ پروانہ وار لپک لپک کراس ہجوم کے اند ر گھسنے کوشش کررہے ہیں۔ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ یہ کیاہورہاہے۔ والدنے کسی سے پوچھ کر مجھے بتایا کہ صحابئ رسول حضرت انس بن مالک تشریف لائے ہیں اور لوگ ان کی زیارت کے لئے ٹوٹے پڑے ہیں۔میں بھی والد سے ہاتھ چھڑا کرلوگو ں کی ٹانگون میں سے راستہ بتا تاہوا دوڑا اور دیکھا کہ حضرت انس بن مالک کھڑے تھے اوررسول اﷲﷺکی احادیث بیان فرمارہے تھے۔
ابن اسحاق کی کسی کتاب میں حضر ت انس کی کوئی براہ راست روایت نہیں ہے۔ خیال یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے حضرت انس سے براہ راست کوئی روایت نہیں سنی۔ لیکن جن تابعین سے انہوں نے کچھ کسب فیض کیا ان میں سعید بن مسّیب بھی شامل ہیں ۔ جو سید التابعین کہلاتا ہیں اور حضرت ابوہرہ کے تلامذہ میں بڑا نمایاں مقام رکھتے ہیں ۔ ابن اسحاق نے حضرت ابان بن عثمان ، عاصم بن محمد جو حضرت ابو بکر صدیق کے پوتے تھے ، ان سے اور امام باقر سے بھی کسب فیض کیا۔ امام نافع اور اعران جو امالک کے اساتذہ میں سے تھے ۔ امام نافع جو حضرت عبداﷲبن عمر کے خاص الخاص شاگرد تھے اور طویل عرصہ تک ان کے ساتھ رہے ۔ ان سب سے ابن اسحاق نے کسب فیض کیا ۔ خود ابن اسحاق کے تلامذہ میں سے بڑے بڑے نام ہیں ،ان میں امام یحیٰ بن سعید الانصاری ، امام سفیان ثوری ، امام سفیان بن عیینہ اوراما م شبعہ بن الحجاج جیسے کبارائمہ حدیث شامل ہیں ۔ لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے کمی کی وجہ سے میں ان کاتذکرہ چھوڑ دیتاہوں ۔
محمد بن اسحاق نے سیرت اورمغازی کے بارے اتنی واقفیت بہم پہنچائی اور اپنے علم کو اتنا وسیع کیا کہ خود ان کے استا د امام زہری فرمایا کرتے تھے کہ’ھذا اعلم الناس بہا‘یعنی میرا یہ شاگرد اس مضموں کاسب سے بڑا عالم ہے امام شافعی نے کہا ہے کہ ’من اراد یتبحر فی المغازی فھو عیال علی ابن اسحاق‘۔ یعنی جوعلم مغازی میں تبحر حاصل کرنا چاہے وہ ابن اسحاق کا ممنون احسان ہو کر رہے گا اور انکے علم سے فائدہ اٹھائے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ سید الناس نے اپنی کتاب عیون الاثر کے مقد مہ میں دوسرے مشاہیر کے بھی بہت سے اقوال ابن اسحاق کے مقام ومرتبہ کے بارے میں نقل کئے ہیں ۔
ابن اسحاق اور چند محدثین کی بے اعتمادی کی وجہ :
علم وفضل کی اس وسعت اور گہر ائی کے باوجو د بعض محتاط محد ثین نے ابن اسحاق کی روایات پر بہت زیادہ اعتماد نہیں کیا ۔ ان کے بارے میں محدثین کے تحفظات کے اسباب میں سے پہلی بات تو یہ تھی کہ انہوں نے یہود و نصاریٰ سے وہ روایات لے لیں جو سابقہ انبیا کے بارے میں تھیں اور ان روایات کو اپنی کتاب ’کتاب المبتدأ میں شامل کرلیا ۔اب محد ثین کاکہنا یہ تھا کہ جب رسول اﷲﷺ کی سو انح عمر ی لکھی جائے اور اس کے پس منظر ، مقدمہ اور تمہید میں یہود و نصاریٰ کی روایات لی جائیں تویہ بات قابل قبول نہیں ۔
محدثین کے انتہائی تقو یٰ اوراونچے معیار کے لحاظ سے ابن اسحٰق کی دوسری بڑی غلطی تھی کہ وہ ہر راوی کابیان الگ الگ نقل کرنے کے بجائے سب راویوں کی معلومات کو یکجا کرتے ہیں جن جن راویوں سے جو جو ارشادسنے ہوئے تھے تو ان سب ناموں کی صراحت کے ساتھ پوری سند کے ساتھ بیان کرتے تھے۔مثلاً قال حدثنی عبد الدزاق ،قال حدثنی معمر،قال حدثنی محمد بن شھاب الذ ھری،قال حدثنی نافعِ،قال حدثنی عبد اﷲبن عمران النبیﷺ قال،کہ میں نے رسول اﷲﷺ کویہ فرماتے ہوئے سنا ، یہاں کوئی ایک یادو جملے بیان ہوئے گے۔ اب اس کے بعد اگر ایک جملہ اور ہے تو پھر آپ پوری سند بیان کریں ۔اب جن لوگوں کوعلم حدیث سے دلچسپی تھی تو ان کی حد تک تو یہ اسلوب ٹھیک تھا۔ لیکن اگرکوئی شخص سیرت کاکوئی واقعہ بیان کریں ۔مثلاًوہ یہ بیان کرنا چاہتا ہے کہ ہجرت کیسے ہوئی تو اس کے لئے یہ انداز اختیار کرنا بہت مشکل ہوگاکہ ہر جملے پر یہ کہے کہ مجھ سے بیان کیا فلان نے اور اس سے فلاں نے ۔کہ جب حضرت اسماء نے حضور کاناشتہ دان باندھا تو اپنا پنکا کھول کراس کے دو حصے کرکے باندھ دیا۔ پھرکہے مجھ سے بیان کیافلاں نے فلاں سے فلاں نے فلاں سے فلاں نے کہ انہوں نے دوسرے پٹکے سے دودھ کی مشک میں گرہ لگادی ، پھر مجھ سے بیان کیا فلاں ،فلاں سے فلاں نے اورفلاں نے فلاں سے کہ کھانالانے کی ذمہ داری عامر بن فہیرہ کی تھی ۔اب یہ سب تفصیلات ایسی ہیں کہ اس انداز بیان سے ان میں تسلسل رہ سکتا ۔ نہ واقعہ مکمل طور پر بیان کیا جاسکتا ہے ۔ اس لئے ابن اسحاق نے زیادہ اور باقی لوگو ں نے کم یہ کیا کہا آغاز میں انہوں نے یہ بتانے پر اکتفاء کیا کہ یہ روایات ہجرت کی ہیں اور یہ میں نے فلاں فلاں راویوں سے لی ہیں ۔ یعنی بیان کرنے والے دس بارہ افراد کے نام ایک ساتھ بیان کئے ہیں اورپھر بتایا ہے کہ واقعہ کی تفصیل یہ ہے ۔محدثین کواس پر یہ اعراض ہے کہ اس طرح بیان کرنے سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ کون ساجملہ کس راوی کاہے تاکہ انداز ہ کیاجاسکے کہ اس بیان کا کون سا حصہ کم مستند ہے اور کون سا زیادہ ۔ لٰہذا علم حدیث کے معیار کے مطابق یہ انداز روایت قابل قبول نہیں تھا۔ یہ پس منظر تھا جس میں ابن اسحاق اور آگے چل کر واقدی اور ابن سعد اور دوسرے بہت سے لوگ محدثین کے معیار سے فروتر قرارپائے۔
امام احمد بن حنبل کاشمار انتہائی محتاط محدثین میں ہوتا ہے۔ان کے صاحبزاد نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ ابن اسحاق کو غیر مستند سمجھتے ہیں ۔ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں ۔انہوں نے پوچھا کہ پھر آپ ان کی روایت کیوں نہیں لیتے؟
امام صاحب نے جواب دیاکہ ’واللہ انی رأیہ یحدث عن جماعتہ بالحدیث میں نے ان کودیکھا کہ وہ بہت سے لوگوں سے ایک ہی واقعہ بیان کرتے ہیں ’ولا یفصل کلام ذامن ذا‘اور اس کی بات کو اُ س کی بات سے الگ نہیں کرتے ۔اس لئے میں اعتماد نہیں کرسکتا کہ کون ساحصہ مستند ہے اور کون ساغیر مستندہے۔
اس لئے کے باوجود محدثین میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو ابن اسحاق کے تقویٰ اور زہد کی وجہ سے ان کی روایت پر اعتماد کرتے ہیں ۔کچھ لوگ ان کے بیانات کوان کے ان ’’جرائم ‘‘ کی وجہ سے زیادہ قابل اعتماد نہیں سمجھتے تھے۔ ابن اسحاق کے اس اسلوب روایت پر جن محدثین نے تفظ کا اظہار کیا ہے ان میں واقعہ یہ ہے کہ بڑے بڑے ائمہ حدیث شامل ہیں امام مالک ، امام نسائی ،امام احمد، امام دار قطنی ،امام بخاری ،کے استاد مکی بن ابراہیم اور ائمہ جرح وتعدیل امام یحیٰ بن سعید اور یحیٰ بن معین جیسے ماہرین جیسے ماہر ین فن نے ابن اسحاق کے اس اسلوب پرشدید تنقید کی ہے ۔ ۔ابن سید الناس نے ان ساری تنقیدات کاجائزہ لے کر ابن اسحاق کا شدہ مدسے جو دفاع کیاہے وہ قابل دیدہے۔
ابن اسحاق کے بارے میں اَئمہ جرح وتعدیل کے اقوال کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک جانب اگر بعض لوگوں نے ان کی تنقیص میں مبالغہ سے کام لیا ہے تو دوسری جانب بعض دوسرے لوگوں نے خوب بڑ ھاچڑ ھا کران کی مد ح سرائی کی۔ابن اسحاق پرجو دوسرے الزامات لگائے گئے ہیں ۔ ان کے سلسلے میں خطیب بغدادی نے ’’تاریخ بغداد‘‘اور ابن سیّد الناس نے ’’عیون الاثر ‘‘میں دوفصلیں منعقد کی اور ان تمام الزامات کا جواب دیاہے۔
ابن اسحاق سے ثقہ راویوں اورائمہ حدیث نے روایتیں لی ہیں۔امام مسلم ؒ نے مبایعات میں ان سے حدیث روایت کی ہے۔ امام بخاریؒ نے متعد د مقامات پران سے اشتہادکیاہے۔ ان کی روایت سنن ابی داؤد،جامع ترمذی ،سنن لسانی اورسنن ابن ماجہ میں بھی موجود ہیں ۔
سیرتِ ابن اسحاق میں ابن ہِشام کا کام
پھر الﷲنے ابن اسحاق کی اس علمی کاوش پرمزید کام کرنے کی توفیق ایک ایسے شخص کودی جو اس کااہل تھا۔ یعنی ابن ہشام المعافری ۔ انھوں نے اس کے جمع وتدوین کی خدمت انجام دی ، اس کاخلاصہ کیا اوران پر نقد اور استدراک کیا ۔ کوئی روایت ابن اسحاق سے رہ گئی تھی تو اسے درج کیا۔ کچھ واقعات کاذکر نہیں تھا تو ان کااضافہ کے انداز تالیف کا نجوبی انداز ہوجاتا ہے:
’’میں انشاء اﷲاس کتاب کاآغاز حضرت اسماعیل بن ابراہیم سے ،علیہما السلام کے تذکرہ سے کروں گا ۔ اس کے بعد ایک ترتیب سے ،ان کی نسل میں سے ان لوگوں کا ذکر کروں گا جن سے رسول اﷲﷺکا نسبی تعلق تھا ،اور ان کے حالات بیان کروں گا ۔ حضرت اسماعیل ؑ کی نسل میں سے ا ن لوگوں کا تذکرہ چھوڑوں گاجن کاحضرت محمدﷺسے نسبی تعلق نہ ہوگا۔ ایسا میں اختصار کے پیش نظر کروں گا۔ ابن اسحاق نے اپنی کتاب میں بعض ایسی چیز یں بھی بیان کی ہیں جو رسول اﷲﷺسے متعلق ہیں نہ ان کے بارے مین قرآن میں کچھ نازل ہوا ہے اورنہ سیرت سے متعلق کسی واقعہ کا سبب تشریح یا دلیل ہیں۔ انہیں میں نے اختصار کے پیش نظر حذف کردیا ہے، انہوں نے کچھ ایسے اشعار نقل کئے ہیں جن سے شاعری میں درک رکھنے والا کوئی شخص واقف نہیں ہے کچھ ایسی باتیں ذکر کی ہیں جو ناشائستہ ہیں یا ان تذکرہ بعض لوگوں کو ناگوار ہوگا یا بکائی نے ان کی روایت کا اعتراف نہیں کیا ہے میں نے ایسی تمام چیزیں حذف کردی ہیں ان کے علاوہ دیگر باتوں کا انشاء اللہ استقصاء کروں گا۔ “(سیرت ابن ہشام)
اقتباسِ بالا سے واضح ہے کہ ابن ہشام نے ابن اسحاق کی سیر ت سے حضرت آدمؑ سے حضر ت ابراہیم ؑ تک انبیا ء کی تاریخ اور حضرت اسماعیلؑ کی نسل میں سے آں حضرت ﷺ کے شبحرہُ نسب میں نہ آنے والوں کا تذکرہ حذ ف کردیا ہے۔ اسی طرح انھوں نے وہ واقعات خارج کردیے ہیں جو ان کے نزدیک ناقابل بیان تھے اوروہ اشعار بھی نکال دیے ہیں جو ان کے نزدیک ناقابل بیان تھے اور وہ اشعار بھی نکال دیے ہین جو ان کے نزدیک پاپہ ثبوت کو نہ پہنچتے تھے۔ دوسری طرف انھوں نے بہت سی معلومات اور افکار کا اضافہ کیا ہے۔ اس طر ح یہ کتا ب سیر ت ان کے نام سے معروف اور ان سے منسوب ہوگئی ، یہا ں تک کہ لوگ اس کے پہلے مُو لّف ابن اسحاق کو بھول گئے۔
امام محمد بن عمر الواقدی:
سیر ت کے فن کو جس مؤرخ اورسیرت نگار نے اپنی زندگی بھر کی تحقیق اور کاوش سے چار چاند لگادیئے ۔ جس نے مغازی پرساری معلومات جمع کرکے ہمارے سامنے پیش کردیں کہ آج غزوہ بدر، غزوہ احداور حنین دہوازن اس طرح ہمارے سامنے ہیں جیسے کسی کے سامنے فلم دکھادی گئی ہو۔ یہ کارنامہ جن بزرگ کاہے نام محمد بن عمر الواقدی ہے۔ محمد بن عمر الواقدی سیر ت نگاروں میں بڑا نمایاں نام اور مقام رکھتے ہیں ۔ جو بات کل ابن اسحٰق کے بارے میں کہی گئی تھی وہ واقدی پر بھی بدرجۂ تم صادق آتی ہے۔
ابن اسحٰق سے کہیں زیادہ واقدی کے بارے میں اختلاف رہا ہے کہ ان کے بیانات کی دینی اور استنادی حیثیت کیاہے۔ ابن اسحٰق کی طرح واقدی کے بارے میں بھی بہت سے محد ثین نے یہ تامل ظاہر کیا کہ وہ تمام روایات کو جمع کرکے ان کو ایک مرتب نقشہ کی شکل میں پیش کرتے ہیں اورمحدثین کے لئے یہ تعین کرنا دشوار ہو جاتاہے کہ اس پوری روایت بلکہ قصہ یا مجموعہ روایات میں کون سالفظ کس راوی نے بیان کیا ہے۔ یوں ان اجزا کا الگ الگ طور پرمعیار استناد مقر دکرنا ممکن نہیں رہتا ۔ وہی اعتراض جو محدثین نے بہت سے مورخین اور ارباب سیر ت پرکیا ہے اور واقدی پر بھی کیا۔
خطیب بغدادی جو خود ایک بہت بڑے محدث ہیں اورعلم حدیث کے ائمہ میں ان کا شمارہے۔ علوم حدیث پران کی کتابیں بہت اونچا مقام رکھتی ہیں ۔ انہوں نے واقدی کے بارے میں لکھا ہے کہ واقد ی نے مشرق سے لے کے مغرب تک دنیا ئے اسلام کے لوگوں سے کِسب فیض کیا۔ ان کا ذکر مشرق و مغرب میں ہر جگہ موجودہے۔ اور کسی شخص کے لئے جوسیرت اورابتدائی تاریخ اسلام سے شغف رکھتاہو،یہ ممکن نہیں ہے کہ واقدی کی تحقیقات ، تصنیفات اور کارناموں سے صرف نظر کرسکے۔
واقدی نے مغازی کے علاوہ براہ راست سیر ت کے مختلف پہلوؤں پر ،طبقات پر، رسول اﷲﷺ سے متعلق بہت سے ایسے معاملات پرجو عام سیرت نگاراس وقت بیان نہیں کرتے تھے ،ان سب کو اپنی تحقیقات کا موضوع بنایا۔ علاوہ ازیں واقدی ایک بہت بڑے فقیہ اورقاضی تھے ۔ ان کا شمار ان لوگوں میں ہے جنہوں نے علم مغازی اورسیریعنی اسلام کے بین الا قوامی قانون کے قواعد و ضوابط وضع کئے اور ان کو اس موضوع پر ابتدائی تالیفات میں سے ایک تالیف پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔ جیسا کہ پہلے عرض کی جاچکا ہے کہ مغازی سے دلچسپی دو قسم کے حضرات کو تھی یعنی مورخ کو اور قانون دان اور فقیہ کو ۔ مورخ اور سیر ت نگار کی دلچسپی واقعات اور تفصیلات کو جمع کرنے سے تھی۔ مورخ اور سیرت نگار کی دلچسپی یہ بھی تھی کہ کسی واقعہ کامکمل نقشہ سامنے آجائے۔ فقیہ اور قانون دان کی دلچسپی یہ تھی کہ اس واقعہ سے ، جو جنگ کا وا قعہ ہو،صلح کا واقعہ ہو، معاہدے کا واقعہ ہو، جو قوانین بین الاقوامی تعلقات کو منضبط کرنے کے لئے نکلتے ہیں ، ان کی نشاندہی کی جائے۔ واقدی کاشمار دونوں قسم کی شخصیات میں ہے۔وہ قاضی بھی رہے۔انہوں نے فقیہ پربھی کتاب لکھی۔ ایک کتاب انہوں نے اختلاف حدیث پربھی لکھی ۔ یعنی وہ احادیث جن کے بظاہر احکام نکلتے ہیں ان دونوں کے درمیان تطبیق کیسے پید ا کی جائے ۔ اور اس ظاہر ی اختلاف کو کیسے دور کیا جائے ۔ اس پر متقد مین کے زمانے سے لوگ کتابین لکھتے چلے آئے ہیں ۔ امام شافعی نے اس پر کتاب لکھی ۔ اور بھی کئی محدثین اور فقہانے اس پر کام کیاہے۔
سیرت پر واقدی کاجوکانامہ ہے لوگ اس سے بخوبی واقف ہیں ۔ واقدی ضخیم کتاب مغازی پر مطبوعہ موجود ہیں ۔ لیکن انہوں نے جو کام بین الاقوامی قانون پرکیا تھا اس کا تذکرہ نسبتاکم ہوتا ہے۔ ان کا یہ کام بھی دستیاب ہے اورآج ہمارے پاس موجو دہے۔ امام شافعی جیسے محتاط اور قابل احترام فقیہ اومحدث نے واقدی کے کام کو محفوظ کرلیاہے۔امام شافعی کی آٹھ جلد وں میں ایک ضخیم کتاب ہے جو فقیہ شافعی کی اساس اور بنیا د دمانی جاتی ہے ، کتاب لام یعنی mother book۔ان آٹھ جلد وں میں چوتھی جلد میں اما م شافعی سیر الواقدی کے نام سے ایک کتاب بیان کی جو واقدی کی سیر کاوہ حصہ ہے جس پرامام شافعی نے کوئی تبصرہ یاcommentکرنا چاہا ۔ یہ مکمل کتاب واقدی کی نہیں اور نہ واقدی کی کتاب کا بقیہ حصہ ہم تک پہنچا ہے۔ تاہم اس سے یہ انداز بخوبی ہوتاہے کہ واقدی کو علم سیر اورمغازی دونوں سے دلچسپی تھی۔ بطور مورخ اور سیرت نگار کے بھی اور بطور فقیہ اور ای قانون ماہر کے بھی۔
مغازی اور سیرت نبوی کے بارے میں تمام مورخین اور سیر ت نگاروں نے تسلیم کیا ہے کہ مغازی کے بارے میں ان سے زیادہ جاننے والا کوئی اورآدمی اس وقت دنیا ئے اسلام میں موجود نہیں تھا۔ محمد بن اسلام الحمبحی ایک مشہور مورخ اور ادیب ہیں ، جنہوں نے طبقات پر ایک کتاب لکھی ہے’طبقات الشعر ا‘یہ واقدی کے جونئیر عصر تھے ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’کان الو اقدی عالم دھرہ‘ واقدی اپنے زمانے کا سب سے بڑا عالم تھاجو مغازی کے علم کے بارے میں واقفیت رکھتا تھا۔
یہ واقدی کا پس منظر ہے۔ انہوں نے ساری عمر لکھنے پڑھنے میں گزاری ۔ ابن ندیم نے اپنی فہرست میں واقدی کی لکھی ہوئی 28کتابوں کا تذکرہ کیاہے۔ ان میں قرآن ، حدیث ،فقیہ ، سیرت اور تاریخ کے موضوعات پرکتابیں شامل ہیں ۔ واقدی نے بڑے بڑے اساتذہ سے کسب فیض کیا جن میں امام مالک اور معمر بن راشد بھی شامل ہیں ۔
واقدی کی زندگی کا بیشتر حصہ مدینہ منورہ میں گزرا۔ مدینہ منورہ میں وہ دن رات اسی کام میں مصروف رہتے تھے۔ واقدی کا طریقہ یہ تھا کہ صحابہ کرام کے خاندانوں میں جایا کرتے تھے اوریہ پوچھتے تھے کہ کیا آپ کے خاندان میں کوئی ایساشخص ہے جوحضوعلیہ والسلام کے مغازی کاعلم رکھتا ہو۔ کیاکوئی ایسا شخص ہے جس کے آباد واجد اد میں کوئی شہید ہواہو۔ کیا کوئی شخص ہے جس نے حضور کے ساتھ کسی جنگ میں حصہ لیاہو یا حضور نے اس کو کسی مہم پربھیجا ہو۔ جب ایسا ہوتاتھا کہ فلاں خاندان میں کوئی شخص نکل آیا تو اس سے جا کر ملتے ، واقعہ کی تفصیلات پوچھتے ۔ غزوہ کے موقع پر جا کر اس جگہ کا خود مطالعہ اور مشاہد ہ کرتے تھے اوران کے سامنے آسکے ۔ یہ بات واقدی کے تقریباً تمام تذکرہ نگاروں نے لکھی ہے کہ انہوں نے محض نظری طور پر معلومات جمع کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان مقامات کو دیکھنے کی کوشش کی اور ہر جگہ خود دجاکر اس نقشہ اور اس جگہ کامعائنہ کیا ۔ وہاں جو بھی جغرافیائی چیزیں موجود ہو تین ان سب کو ضبط تحریر میں لاتے اوراس جگہ کا مکمل نقشہ بناتے۔
تاریخ کے طالب علم کے نزدیک واقدی کی جو خو بی ہے وہ محدثین کے ہاں قابل اعتراض بات ہے۔ مثال کے طور پر جب وہ رسول ﷺ کی ہجرت کا واقعہ بیان کرتے ہیں تو پوری واقعہ کا مکمل نقشہ بیان کرنے سے پہلے تقریباً پچیس راویوں کے نام دے کرلکھتے ہیں کہ ’فکل حد ثنی من ھدا بطائفہ ‘، ان میں سے ہر ایک نے اس واقعہ کا ایک حصہ مجھ سے بیان کیا۔’وبعضھم اوعیٰ من بعضِِ‘،بعض لوگ جو حصہ بیان کرتے تھے ان کو بہت اچھی طرح یاد تھا، بعض کویہ بات اچھی طرح یاد تھا بہت سے حضرات نے یہ واقعات بیان کئے ہیں ۔ ’فکتب کل ماحد ثنی ایضاً‘،جو کچھ جس شخص نے بیان کیا میں نے وہ سب قلم بند کیا’فقالو‘،انہوں نے یہ کہا ۔ اس کے بعد پھر ہجرت کا پورا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے کہ رسول اﷲﷺ کس تاریخ کو مدینہ منورہ قدم رنحبہ ہوئے ۔ کس وقت اورکس دن یہ واقعہ پیش آیا ۔ واقدی نے خاص طور پر تاریخوں کا تعین کرنے کا بڑا اہتمام کیا ہے ۔ کون ساواقعہ کس دن اور کس تاریخ کو پیش آیا۔ کون سے غزوات اور سرایا کے لئے حضور کس وقت نکلے ۔ نماز پڑھ کر مدینہ منورہ سے نکلے یا پہلی منزل پر پہنچ کر نماز پڑھی ۔ اس طرح کی جزوی تفصیلات کا واقدی نے بڑا اہتمام کیاہے۔
واقدی نے شروع کے آٹھ دس صفحات میں پہلے تمام غزاوت کا ایک خلاصہ دیاہے ۔ اس میں 27غزوات اور47سرایا کا ذکر کیا ہے ۔یعنی 27مہمات وہ تھیں جن میں رسول اﷲﷺنے براہ راست شرکت فرمائی اور47دستے وہ تھے جو آپ نے مختلف صحابہ کرام کی سرکردگی میں بھیجے ۔ تین مرتبہ حضور نے عمر ہ فرمایا ۔ یہ واقدی کی ایک رائے یا تحقیق ہے جس سے بہت سے محدثین اتفاق کرتے ہیں اوربعض محدثین اختلاف بھی کرتے ہیں ۔
واقدی کا انداز خالص مورخانہ ہے۔ انہوں نے ایک منطقی اور مرتب و مر بوط انداز سے معاملات اور تفصیلات کو بیان کیا ہے۔پہلے وہ ماخد اور حوالہ جات بیان کرتے ہیں ۔ سب کے نام بتاتے ہیں ۔ واقعہ کو بیان کرتے ہیں۔ تاریخ اورمحل وقوع کوبیان کرتے ہیں ۔ متعلقہ معلومات دیتے ہیں ۔
واقدی کے ہاں تمام جزوی تفصیلات فراہم کرنے کا اہتما م ہے۔ ان کی یہ تحقیق راویوں کے بیانات اور چشم دید گواہی پر مشتمل ہے۔ غزوہ بد ر کس مقام پر ہوا۔آج تو وہ مقامات خاصے بدل گئے ۔لیکن واقدی کے زمانے میں بالکل ہی وہی شکل رہی ہوگئی ۔ اس لئے واقدی نے محل وقوع کی جوتفصیلات بیان کی ہیں ۔ان کے قطعی اور یقینی ہونے واقدی نے جو معلومات جمع کی ہیں ، ان کے بارے میں محدثین کے تحفظات اور ملاحظات کے باوجود عام طور پر سیر ت نگاروں نے واقدی کی جمع کردہ ان تفصیلات کو قبول کیاہے۔ایک مغربی مورخ نے لکھا ہے کہ واقدی نے سیرت اور غزوات کے بارے میں جو کچھ بھی بیان کیاہے اس کے بیشتر حصہ کی تائید حدیث کی کتابو ں سے ہو جاتی ہے۔حتیٰ کہ مسند امام احمد میں بہت سی ایسی احادیث ہیں جوواقدی کے ان کے بیانات کی تائید کرتی ہیں جن کی عام کتب حدیث سے تائیدہوتی ۔
ایک اور بات ایک بہت بڑے آدمی ابن سید الناس نے کہی ہے۔ ایک حد تک درست بھی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جب ایک آدمی بہت زیادہ لکھتا ہے تو بعض باتیں عا م ڈگر سے ہٹ کر بھی کہہ جاتاہے۔ جب عام ڈ گر سے ہٹ کر وہ کوئی بات کہتا ہے تو پھر اعتراض بھی ہوتا ہے اور اعتراض کرنے والوں میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں ۔ کچھ لوگ سخت اعتراض کرتے ہیں اور کچھ نرمی بھی کرلیتے ہیں ۔ چونکہ واقدی نے لکھا۔ اس میں میں ایسی تفضیلات بھی آگئیں جو عام ڈگر سے ہٹ کر تھیں ۔ لوگوں نے اس کو عجیب سمجھا ۔ عام لوگوں کو مزاج یہ ہے کہ ان کے مزاج سے ہٹ کر کوئی بات کی جائے تو وہ اس کو پسند کرتے ہیں اور اس کو ناقابل اعتنا سمجھتے ہیں اس لئے واقدی کو بھی قابل اعتراض سمجھا گیا۔
واقدی کی یہ کتاب ،یعنی کتاب المغازی ایشیا ٹک سوسائٹی بنگال میں 1855میں چھپی تھی ۔ ڈاکٹر اسپر نگرنے اس کتاب کی اشاعت میں بہت دلچسپی لی ۔ یہ وہی ڈاکٹر اسپر نگر ہیں ۔ جو کلکتہ میں رہتے تھے اور مشہور محقق اور مستشرق تھے۔ جن کی علمی خدمات کابہت سے لوگوں نے اعتراف کیاہے۔ مسلمانوں نے بھی اعتراف کیا ہے۔ انہوں نے حافظ ابن حجرکی الا صابہ کی بھی مرتب کرکے شائع کرائی تھی۔
جرمن مستشر ق دل ہاوزن نے اس جرمن ترجمہ بھی کیا۔ یہ1882میں چھیا ۔ جرمن ترجمہ دل ہاؤزن نے کس معیار کا کیا میں نہیں جانتا، کیونکہ میں جرمن زبان سے بخوبی واقف نہیں ہوں ۔ لیکن بعض مستشرقین نے اس ترجمہ پرایک دلچسپ بات لکھ دی ۔ ا س پر 1920-25میں ہنددستان میں بڑی بحث و تمحیص ہوئی ۔ مار گو لیتھ ایک مشہور مستشرق ہیں ۔ انہوں نے سیرت پر انگریزی میں ایک کتاب لکھی ہے۔ انہوں نے لکھا ، نقل کفر کفرنہ باشد۔میں ا ن کی بات کہہ رہا ہوں ۔ انہوں نے کہ رسول اﷲﷺنعوذ باﷲبہاد ر نہیں تھے ۔اُس نے اور لفظ بولا تھا میں اس کو دوسرے الفا ظ میں بیان کررہا ہوں ۔ اس دعوں کی تائید میں انہوں نے کہا کہ غزوہ بد ر میں حضور نے جو خون کا پہلا چھینٹا دیکھا تو آپ خوف سے بے ہوش ہوگئے ۔ ہوش آیا تو دیکھا کہ جنگ ہورہی ہے۔
اب یہ بات تو ہر کسی کے علم میں ہے کہ حضور نے ہر جنگ میں قائدانہ حصہ لیا۔ اسلام سے پہلے بھی ایک معر کہ میں شرکت فرمائی تھی ۔ یہ بات جو مارگو لیتھ نے کہی یہ کسی بھی سیرت نگار نے یا حضور کے قریب رہنے والے لوگوں میں سے کسی نے بھی نہیں کہی ۔ بلکہ ہر ایک نے یہی گواہی دی کہ حضور اشجع الناس تھے۔ بہادر ترین تھے۔ جنگ میں صحابہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی حفاظت کے لئے حضور کے پاس جاکھڑے ہوتے تھے ۔ کئی مواقع پر ایسا ہوا کہ حضورﷺ تن تنہا دشمن کی خبر لینے چلے گئے۔ ایک زمانے میں مدینہ منورہ شدید خطرے کی زد میں تھا۔ صحابہ کرام راتوں کو پہر ہ دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ شہر کے باہر سے کسی شور کوآتے سنا۔ پہر ے داروں نے یہ سمجھا کہ شاید حملہ ہورہا ہے۔ کسی نے کہا کہ رسول اﷲﷺ کو اطلاع دی جائے ۔ کسی نے کہا کہ نہ دی جائے۔ پہلے جاکر دیکھ لیں کہ واقعہ کیا ہے ، ابھی لوگ یہ طے کررہے تھے کہ جد ھر سے شور آرہا تھا کہ اسی طرف سے ایک سوار گھوڑ ا ادو ڑاتا ہواآرہا ہے۔ قریب آیا تو دیکھا کہ رسول اﷲﷺخو د گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے اورکہہ رہے تھے کہ ڈرنے کی ضرورت نہیں،میں دیکھ آیاہوں ، کوئی خاص بات نہیں ہے۔ اس طرح کے واقعات میں یہ بات اس نے کیسے کہی کہ غزوہ بدر کے موقع پر آپ تعوذ باﷲخوف سے بے ہوش ہوگئے۔؟
اس بارے میں علامہ سید سلیمان ندوی نے مارگولیتھ کوخط لکھا ۔ اس نے جواب دیا کہ یہ بات میں نے ول ہاؤزن کے ترجمہ سے لی ہے۔ ول ہاؤزن کے تر جمے میں انہوں نے دیکھا تو واقعی اس نے یہی لکھا تھا۔ ول ہاؤزن نے دعویٰ کیاکہ واقدی نے بھی یہی لکھا ہے۔ واقدی نے وہی لکھا ہے جو عام سیرت نگاربیان کرتے ہیں۔ اس کا قرآن پاک میں بھی ذکر ہے جس وقت غزوہ بدر شروع ہونے والاتھاتو’اذیغشکم النعاس‘تم پرایک نیند ک ایک ہلکا ساجھو نکاآیا اوراﷲتعالیٰ نے تم کومدد کی بشارت دے دی ۔ ہوایہ تھا کہ صحابہ کرام کے مشورہ سے رسول اﷲﷺ کے لئے ایک چھوٹی سی چٹان پرایک چھیربنادیاگیاتھا ۔ آپ اورحضر ت ابوبکر صدیق اس چھپڑ پر تشریف فرماتھے ۔ فجر کی نماز کے بعد سے حضور دعا میں مصروف تھے۔ تمام رات فوجوں کی ترتیب میں مصروف رہے تھے ۔ فوجوں کی صف بندی اورجنگ کی منصوبہ بندی میں ساری رات جاگ کرگز اری تھی۔ چھپڑ پیچھے تھاسامنے مسلمان فوج تھی۔ بعد میں حضور مسلسل دعا میں مصروف رہے۔ ابھی سورج نکلنے ہی والاتھا کہ حضورکو ہلکی سی اونگھ آگئی’۔فغشیہ النوم‘ یہ واقدی کے الفاظ ہیں کہ آپ کو نیند نے آلیا ۔ اسی اثنا میں ،جبکہ حضور علیہ والسلام کو نیند کاایک جھونکا آیا ، کفار قریش نے تیراندازی شروع کردی ۔ ا س سے بعض مسلمان زخمی ہوئے اور خون بہہ نکلا ۔ جب حضور کو اطلاع ہوئی کہ کفار نے حملہ کردی ۔ اورمسلمان کو خون بہہ نکلا ہے تو حضور ایک د م سے گھبر اکر اٹھے ۔ یہ عبارت ہے جس کا ترجمہ ہاوزن نے یہ کیا کہ غشی آگئی اور بے ہوش ہوگئے اور گھبر اکراٹھے گویا ڈرکراٹھے ،یوں ’گھبرا کر‘کو’ڈرکر ‘کردیا۔ ممکن ہے ول ہاؤزن کاساراہی ترجمہ ایسا ہو، میں نہیں جانتا۔ لیکن واقدی کی اس سادہ عبارت کے اس ترجمہ سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی۔
امام واقدی کی کتا بِ سیرت کا صرف آخری حصہ ’کتاب المغازی ‘دستیاب و مطبوعہ ہے،دو اولین اجزا ء سرے سے مفقود ہیں ۔ البتہ ان دونوں کی بہت سی روایات واخبار اور امام واقدی کے تبصرے اور تجزیے بلاذری، کلاعی اور ابن سید الناس وغیرہ کے ہاں ملتے ہیں ۔ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ واقدی کی کتاب سیرت پہلے کامل مؤلفِ سیرت امام ابن اسحاق کے طرز پر مرتب ومہذب کی گئی تھی۔
واقدی کے شاگردوں میں سب سے مشہور نا م محمد بن سعد کاہے جن کی کتاب طبقات ابن سعد مشہور ہے ۔ محمد ابن سعد نے واقدی کی روایات کو جابجا جگہ دی، ابن سعد اپنے استاد سے زیادہ مستند سمجھے گئے ۔ اپنی تحقیق کے معیار اورعلمی سطح کے اعتبار سے ان کو نسبتہً زیادہ اونچا مقام ملا۔ انہوں نے سیر ت ،تذکرہ اورصحابہ کی سوانح عمری کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ۔ وہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے دلائل نبوت پر مواد جمع کیا ۔ حضور کے معجزات اورنبوت کے دلائل پروقیع معلومات جمع کئے ۔ وہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے شمائل نبوی پر سب سے پہلے اتنابڑا مجموعہ فراہم کیا۔
استفادہ:
محاضرات سیرت ازڈاکٹر محمود احمدغازی
سیر ت ابن ہشام ، مقدمہ از مصطفی السقا،ابراہیم الابیاری، ابراھیم شبلی ترجمہ ڈاکٹر رضی السلام ندوی،سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ