یہ بات مسلماتِ شریعت میں ہے کہ سنت واجب الاتباع صرف وہی اقوال و افعال رسول ہیں جو حضورﷺ نے رسول کی حیثیت سے کیے ہیں۔ شخصی حیثیت سے جو کچھ آپ نے فرمایا یا عملاً کیا ہے وہ واجب الاحترام تو ضرور ہے مگر واجب الاتباع نہیں ہے۔ شاہ ولی اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں باب بیان اقسام علوم النبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عنوان سے اس پر مختصر مگر بڑی جامع بحث کی ہے۔ صحیح مسلم میں امام مسلم نے ایک پورا باب ہی اس اصول کی وضاحت میں مرتب کیا ہے اور اس کا عنوان یہ رکھا ہے: باب وجوب امتثال ما قالہ شرعاً دون ما ذکر صلی اللہ علیہ و سلم من معاش الدنیا علیٰ سبیل الرای (یعنی باب اس بیان میں کہ واجب صرف ان ارشادات کی پیروی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے شرعی حیثیت سے فرمائے ہیں نہ کہ ان باتوں کی جو دنیا کے معاملات میں آنحضور ﷺ نے اپنی رائے کے طور پر بیان فرمائی ہیں)
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کا جو حکم دیا ہے وہ آپ کے کسی ذاتی استحقاق کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس بنا پر ہے کہ آپؐ کو اس نے اپنا رسول بنایا ہے۔ اس لحاظ سے باعتبار نظریہ تو آپ کی شخصی حیثیت اور پیغمبرانہ حیثیت میں یقیناً فرق ہے۔ لیکن عملاً چونکہ ایک ہی ذات میں شخصی حیثیت اور پیغمبرانہ حیثیت دونوں جمع ہیں اور ہم کو آپ کی اطاعت کا مطلق حکم دیا گیا ہے، اس لیے ہم بطور خود یہ فیصلہ کر لینے کے مجاز نہیں ہیں کہ ہم حضورؐ کی فلاں بات مانیں گے کیونکہ وہ بحیثیت رسولؐ آپ نے کی یا کہی ہے اور فلاں بات نہ مانیں گے کیونکہ وہ آپؐ کی شخصی حیثیت سے تعلق رکھتی ہے، یہ کام خود حضورؐ ہی کا تھا کہ شخصی نوعیت کے معاملات میں آپ نہ صرف لوگوں کو آزادی عطا فرماتے تھے بلکہ آزادی برتنے کی تربیت بھی دیتے تھے اور جو معاملات رسالت سے تعلق رکھتے تھے ان میں آپؐ بے چون و چرا اطاعت کراتے تھے۔ اس معاملہ میں ہم کو جو کچھ بھی آزادی حاصل ہے، وہ رسول پاکؐ کی دی ہوئی آزادی ہے جس کے اصول اور حدود حضورؐ نے خود بتا دیئے ہیں۔ یہ ہماری خود مختارانہ آزادی نہیں ہے۔
جو امور براہ راست دین اور شریعت سے تعلق رکھتے ہیں ان میں تو حضورؐ کے ارشادات کی اطاعت اور آپ کے عمل کی پیروی طابق الفعل بالفعل کرنی ضروری ہے۔ مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور طہارت وغیرہ مسائل۔ ان میں سے جو کچھ آپؐ نے حکم دیا ہے اور جس طرح خود عمل کر کے بتایا ہے اس کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرنی لازم ہے۔ جو معاملات بظاہر بالکل شخصی معاملات ہیں، مثلاً ایک انسان کا کھانا، پینا، کپڑے پہننا، نکاح کرنا، بیوی بچوں کے ساتھ رہنا، گھر کا کام کرنا، غسل اور طہارت اور رفع حاجت وغیرہ۔ وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات میں خالص نجی نوعیت کے معاملات نہیں ہیں بلکہ انہی میں شرعی حدود اور طریقوں اور آداب کی تعلیم بھی ساتھ ساتھ شامل ہے۔ مثلاً حضورؐ کے کھانے پینے کے معاملہ کو لیجیے۔ اس کا ایک پہلو تو یہ تھا کہ آپؐ وہی کھانے کھاتے تھے جیسے آپؐ کے عہد میں اہل عرب کے گھروں میں پکتے تھے اور ان کے انتخاب میں بھی آپؐ کے اپنے ذوق کا دخل تھا۔ دوسرا پہلو یہ تھا کہ اسی کھانے اور پہننے میں آپؐ اپنے عمل اور قول سے شریعت کے حدود اور اسلامی آداب کی تعلیم دیتے تھے۔
اب یہ بات خود حضورؐ ہی کے سکھائے ہوئے اصول شریعت سے ہم کو معلوم ہوتی ہے کہ ان میں سے پہلی چیز آپؐ کی شخصی حیثیت سے تعلق رکھتی تھی اور دوسری چیز حیثیت نبویہ ہے۔ اس لیے کہ شریعت نے، جس کی تعلیم کے لیے آپؐ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور کیے گئے تھے، انسانی زندگی کے اس معاملہ کو اپنے دائرۂ عمل میں نہیں لیا ہے کہ لوگ اپنے کھانے کس طرح پکائیں۔ البتہ اس نے یہ چیز اپنے دائرۂ عمل میں لی ہے کہ کھانے کے معاملہ میں حرام اور حلال اور جائز اور ناجائز کے حدود متعین کرے اور لوگوں کو ان آداب کی تعلیم دے جو اہل ایمان کے اخلاق و تہذیب سے مناسبت رکھتے ہیں۔
اگر کوئی شخص نیک نیتی کے ساتھ حضورؐ کا اتباع کرنا چاہے اور اسی غرض سے آپؐ کی سنت کا مطالعہ کرے تو اس کے لیے یہ معلوم کرنا کچھ بھی مشکل نہیں کہ کن امور میں آپ کا اتباع طابق الفعل بالفعل ہونا چاہیے اور کن امور میں آپ کے ارشادات اور اعمال سے اصول اخذ کر کے قوانین وضع کرنے چاہئیں اور کن امور میں آپ کی سنت سے اخلاق و حکمت اور خیر و صلاح کے عام اصول مستنبط کرنے چاہئیں۔اتباع رسول کا صحیح مفہوم
اشکال :کیا آج کے ایٹمی دور میں جنگ کے اندر تیروں کا استعمال ہی ضروری ہے کیونکہ حضورﷺ نےجنگوں میں تیر استعمال کیے تھے ۔ اتباع کا یہ مفہوم “غیر فطری اور ناقابل عمل ہے ۔ یہ مفہوم اگر لیا جائے تو زندگی اجیرن ہو جائے گی۔
جواب:
اتباع سنت کے یہ معنی اہل علم نے کبھی نہیں لیے ہیں کہ ہم جہاد میں وہی اسلحے استعمال کریں جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں استعمال ہوتے تھے۔ بلکہ ہمیشہ اس کے معنی یہی سمجھے گئے ہیں کہ ہم جنگ میں ان مقاصد، ان اخلاقی اصولوں اور ان شرعی ضابطوں کو ملحوظ رکھیں جن کی ہدایت نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے قول اور عمل سے دی ہے اور ان اغراض کے لیے لڑنے اور وہ کاروائیاں کرنے سے باز رہیں جن سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ہے۔ اتنے بڑے بنیادی مسئلے کو بہت ہی سطحی انداز میں لے لینا غلط ہے۔
حدیث “تم اپنے دنیاوی معاملات بہتر جانتے ہو۔”سے ایک غلط استدلال:
مغرب سے مرعوب شدہ کچھ حلقوں کی جانب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حجیت و حاکمیت سے متعلق ایک اور نقطہ نظر پیش کیا جاتا رہا ہے اور وہ یہ کہ بلا شبہ تمام نسلوں اور تمام زمانوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حاکمیت قرآن مجید سے ثابت ہے لیکن اس حاکمیت کا دائرہ عمل صرف عقائد اور عبادات کے ساتھ مخصوص ہے۔ ان لوگوں کے نقطہ نظر کے مطابق کسی پیغمبر کا فرض منصبی صرف امت کے ایمان و عقائد کی درستگی اور اللہ تعالٰی کی عبادت کا طریقہ سکھلانے تک ہی محدود ہے اور جہاں تک روزمرہ کے دنیاوی معاملات کا تعلق ہے وہ اس حاکمیت کے ذیل میں نہیں آتے۔ ان دنیاوی معاملات میں، اس نقطہ نظر کے تحت، معاشی، معاشرتی اور سیاسی معاملات شامل ہیں جن کو ہر زمانے کے حالات کے مطابق اپنے طور پر طے کیا جانا چاہیے اور پیغمبری حاکمیت کا ان معاملات میں اطلاق نہیں ہوتا اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان معاملات میں کچھ ہدایات دی بھی ہیں تو وہ دراصل آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شخصی آراء ہیں جو بطور پیغمبر نہیں دی گئیں لہٰذا امت کے لیے ان ہدایات کی پیروی واجب نہیں ہے۔اس نظرئيے میں وزن پیدا کرنے کے لیے عموماً ایک مخصوص حدیث سیاق و سباق سے جدا کر کے نقل کی جاتی ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے اصحاب رضوان اللہ علیہم سے فرمایا تھا:انتم اعلم بامور دنیاکم”تم اپنے دنیاوی معاملات بہتر جانتے ہو۔”
اس سے قبل کہ میں اس حدیث شریف کا مکمل متن پیش کروں اس نقطہ نظر کی بنیاد کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ دراصل یہ نظریہ دین اسلام کی ساخت اور ڈھانچے کے متعلق ایک سنگین غلط فہمی پر مبنی ہے۔اور وہ غلط فہمی یہ ہے کہ دیگر تمام مذاہب کی طرح اسلام بھی کچھ عقائد اور کچھ رسومات کے مجموعے کا نام ہے اور انہیں تک محدود بھی ہے اور روز مرہ انسانی زندگی کے معاملات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ چند متعین نظریات مان لینے اور بعض مخصوص رسومات کی بجا آوری کے بعد ہر شخص آزاد ہے کہ وہ جس طرح چاہے اپنی زندگی گزارے۔ اس طرز زندگی کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اس نقطہ نظر کے موید اور ترجمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حاکمیت محض چند عقائد اور عبادات تک ہی تسلیم کرتے ہیں۔
کوئی ایسا شخص جس نے قرآن کریم کا مطالعہ کیا ہو، یہ بے بنیاد بات اس پر چسپاں نہیں کر سکتا کہ قرآن کی تعلیمات محض عبادات اور رسومات سے متعلق ہیں۔ قرآن کریم میں تو خرید، فروخت، قرض کے لین دین، گروی رکھنے، شراکت داری، تعزیری قوانین، وراثت، ازدواجی تعلقات، سیاسی معاملات، جنگ و امن کے مسائل اور بین الاقوامی تعلقات جیسے بیسیوں موضوعات پر خاص احکامات و فرامین موجود ہیں۔ اگر اسلامی تعلیمات محض عقائد اور رسومات کے پہلوؤں تک محدود ہوتیں تو ان احکامات و قوانین کی قرآن مجید میں موجودگی کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
بالکل اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت بھی معاشی، معاشرتی، سیاسی اور قانونی معاملات پر اس تفصیل سے بحث کرتی ہے کہ بے شمار ضخیم کتب محض اس کی تدوین و ترتیب کے لئے لکھی گئی ہیں۔ پھر یہ کیسے خیال کیا جا سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان موضوعات میں بغیر کسی حاکمیت اور اختیار کے اس قدر تفصیل کے ساتھ دخل دیا ہو۔ ان موضوعات پر قرآن و سنت کے احکامات اس قدر قطعی، حاکمانہ اور ہدایتی نوعیت کے ہیں کہ ان کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ قانونی قوت سے محروم، محض شخصی نصائح کا مجموعہ ہیں۔
یہ بات اگرچہ فی نفسہ درست ہے کہ اس میدان میں جسے اسلامی اصطلاح میں “معاملات” کہا جاتا ہے قرآن کریم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بیشتر مواقع پر لچکدار اور غیر جامد اصول پیش کئے ہیں اور اکثر تفصیلات کھلی چھوڑ دی ہیں تاکہ بدلتے ہوئے زمانوں میں ضروریات کے مطابق تبدیلی کی جا سکے۔ لیکن ایسا صرف اور صرف انہی اصولوں کے مطابق اور انہی کے اندر رہتے ہوئے کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ جن معاملات سے قرآن و سنت نے تعرض نہیں کیا وہ کھلے میدان ہیں جن میں مصلحتی ضروریات اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب قطعا نہیں ہے کہ قرآن و سنت کا حیات انسانی کی ایک ایسی اہم شاخ سے بالکل کوئی تعلق نہیں ہے جو تاریخ عالم میں ہمیشہ بے سکونی اور انقلابات کا بنیادی سبب رہی ہے۔ جس کے بارے میں نام نہاد ” عقلیت پسندانہ نقطہ نظر” سدا باہمدگر متصادم رہے ہیں اور جو بالآخر شیطانی خواہشات کا شکار ہو کر دنیا کو تباہی کی طرف لے گئے ہیں۔
کھجور کے درختوں پر تابیر کا واقعہ:
اب ہم اس حدیث پاک کی طرف آتے ہیں جو عموماً اس گمراہ کن نقطہ نظر کی تائید میں پیش کی جاتی ہے۔ حدیث ملاحظہ فرمائیے جسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔
“موسیٰ بن طلحہ اپنے والد ( حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا! میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا جو کہ کھجور کے درختوں پر چڑھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ کھجور کی تابیر کر رہے ہیں اور نر کھجور کے کچھ حصے کو مادہ کھجور کے کچھ حصے پر ڈال رہے ہیں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میرا تو گمان نہیں ہے کہ اس عمل سے کچھ فائدہ ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بعض لوگوں نے ان حضرات تک پہنچا دیا ( جو کہ تابیر کر رہے تھے) چنانچہ انہوں نے یہ عمل ترک کر دیا۔ بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو بتایا گیا ( کہ آپ کے اس ارشاد کی بناء پر انہوں نے تابیر ترک کر دی ہے) اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” اگر اس عمل سے انہیں فائدہ پہنچتا ہے تو ان کو چاہیے کہ وہ کرتے رہیں میں نے تو اپنے ایک گمان کا اظہار کیا تھا، میرے گمان پر مواخذہ نہ کیا کرو لیکن جب میں اللہ تعالٰی کی طرف سے کوئی بات بتاؤں تو اس پر ضرور عمل کرو کیونکہ میں اللہ پر جھوٹ نہیں باندھ سکتا۔”
صحابی رسول حضرت انس رضی اللہ عنہ کے مطابق آپ نے اس موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا!انتم اعلم بامور دنیاکم ” تم اپنے دنیاوی معاملات بہتر جانتے ہو۔”
مکمل سیاق و سباق اور متن کو دیکھنے کے بعد یہ بات بالکل روشن ہو جاتی ہے کہ اس حدیث کے الفاظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھجور کے درختوں کی تابیر کے خلاف کوئی حتمی اور قطعی ممانعت نہیں دی تھی، یہاں جائز اور ناجائز کا کوئی سوال نہیں تھا۔ جو کچھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرمایا وہ نہ تو کوئی حکم تھا نہ کوئی قانونی اور مذہبی ممانعت تھی اور نہ اس فعل کی کوئی اخلاقی مذمت۔ وہ تو حقیقتاً کوئی سوچا سمجھا تبصرہ بھی نہ تھابلکہ ایک سرسری انداز میں کہا ہوا ایک فقرہ تھا جو ایک عمومی اور فوری نوعیت کے اندازے پر مبنی تھا جیسا کہ آپ نے وضاحت فرما دی۔ ” میرا تو گمان نہیں ہے کہ اس عمل سے کچھ فائدہ ہو گا” کوئی شخص اس جملے کو کسی قانونی یا دینی تبصرے کا مفہوم نہیں دے سکتا اور یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ جملہ ان لوگوں سے نہیں فرمایا جو یہ عمل کر رہے تھے اور نہ ہی یہ پیغام ان تک پہنچانے کا حکم دیا بلکہ ان کو بعد میں دیگر لوگوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تبصرے کا علم ہوا۔
اگرچہ یہ تبصرہ باقاعدہ ممانعت کا حکم نہیں رکھتا تھا لیکن اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاک نفس اصحاب ہر بات میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دیوانہ وار اتباع کرنے کے عادی تھے اور صرف کسی قانونی پابندی کی وجہ سے نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے غیر معمولی اور بے پناہ الفت و تعلق کی بنا پر بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی کیا کرتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے تابیر کا یہ عمل بالکلیہ ترک کر دیا۔لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو معلوم ہوا کہ انہوں نے اس ارشاد کی بنا پر یہ عمل چھوڑ دیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غلط فہمی دور کرنے کے لئے بات کی وضاحت فرما دی۔اس وضاحت کا مفہوم یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تمام حتمی اور قطعی بیانات ہی واجب التعمیل ہیں کیونکہ وہ آپ نے پیغمبرانہ حیثیت میں اللہ تعالٰی ہی کی جانب سے ارشاد فرمائے ہیں اور جہاں تک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کسی ایسے لفظ کا تعلق ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی حتمی اور قطعی بیان کے طور پر نہیں، بلکہ محض ایک بشری گمان کے طور پر ارشاد فرمایا ہو، اگرچہ وہ بھی پوری تعظیم کا مستحق ہے، لیکن اس کو شریعت کا جز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا ہے روزمرہ معاملات میں جہاں شریعت نے براہ راست حکم جاری نہیں کیا وہاں لوگوں کے لئے ایک وسیع میدان چھوڑ دیا گیا ہے اور لوگوں کو اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ وہاں اپنی ضرورتوں اور مصلحتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے علم اور تجربے کی بنیاد پر معاملات چلائیں۔کسی بنجر اور بے نمو زمین کو کیسے زرخیز بنایا جا سکتا ہے؟ پودوں کی دیکھ بھال کس طرح کرنی چاہیے؟ دفاع کے مقاصد میں کون سے ہتھیار زیادہ کارآمد ہیں؟ سواری کے لئے کس قسم کے گھوڑے زیادہ موزوں ہوتے ہیں؟ کسی مخصوص بیماری کے لئے کون سی دوا زیادہ زود اثر ہے؟ یہ اور اس قسم کے تمام معاملات زندگی کے اس شعبے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں شریعت نے کوئی مخصوص جواب نہیں دیا اور اس نوعیت کے معاملات انسانی تجسس پر چھوڑ دیئے ہیں جو کہ ایسے مسائل کے حل کے لئے کافی ہے۔ ” مباحات” کا یہی وہ میدان ہے جس کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے۔انتم اعلم بامور دنیاکم
اس میں وہ دنیاوی معاملات شامل نہیں ہیں جہاں قرآن مجید یا سنت نے مخصوص اور متعین اصول وضع کئے ہیں یا کوئی واضح حکم دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کھجور کے درختوں کے معاملہ کو ایک کھلا میدان قرار دیا وہیں اس کے متصل بعد یہ بھی ارشاد فرمایا “لیکن جب میں اللہ تعالٰی کی طرف سے کوئی بات بتاؤں تو اس پر ضرور عمل کرو۔”خود قرآن ہی اس بات پر شاہد ہے کہ دیوانی اور فوجداری قوانین، عائلی قوانین، معاشی قوانین اور اسی طرح اجتماعی زندگی کے تمام معاملات کے متعلق احکام قوانین بیان کرنے کو دین اسلام نے اپنے دائرۂ عمل میں لیا ہے۔ ان امور کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایات کو رد کر دینے کے لیے مذکورہ بالا حدیث کو دلیل کیسے بنایا جا سکتا ہے۔مذکورہ بالا تمام بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسلامی قانون کا دوسرا سرچشمہ ہے، آنحضرت نے پیغمبرانہ حیثیت میں جو کچھ فرمایا یا عمل فرمایا وہ امت کے لئے واجب العمل ہے۔