منکرین حدیث کی حدیث دشمنی میں علمی خیانتیں

منکرین حدیث اور ابن قتیبہؒ کے حوالے سے بدترین علمی خیانت:

ابن قتیبہؒ پہلے خود معتزلہ سے متاثر اور ان کے ہاں آیا جایا کرتے تھے۔ پھر جب انھیں معتزلہ کی جسارت اور احادیث صحیحہ کو بھی رد کرنے کا علم ہوا اور دیکھا کہ وہ قرآن کی تفسیر دوسری قرآنی آیات کو توڑ مروڑ کر اپنے عقائد باطلہ کے ہم آہنگ بنا لینے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ ان سے الگ ہوگئے۔ ”مختلف الحدیث“ میں ابن قتیبہ نے معتزلہ کے پوشیدہ عیوب و نقائص کو طشت از بام کیا ہے۔ سب سے پہلے نظام معتزلی کا ذکر کیا ہے جس نے حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت ابن مسعودؓ، حضرت حذیفہ بن یمانؓ اور حضرت ابوہریرہؓ سب کو اپنی تنقید کا ہدف بنایا ہے۔ پھر ان اعتراضات کا ازالہ کیا ہے اس کے بعد مشہور معتزلین ابو ہذیل علاف، عبیداللہ بن حسن اور ہشام بن حکم کا ذکر کر کے ان کی یا وہ گوئی اور تناقضات پر تبصرہ کیا ہے۔ بعد ازاں معتزلین کے خطیب جاحظ کا ذکر کیا ہے کہ جھوٹا آدمی تھا۔ خود حدیثیں وضع کرتا تھا اور صحیح حدیثوں کا مذاق اڑاتا تھا۔ پھر اس کے بعد معتزلہ کے دیگر مزعومات باطلہ اور عجیب و غریب اقوال درج کیے ہیں اور متعارض حدیثوں کی توجیہہ پیش کی ہے۔

امام ابن قتیبہ کی یہ کتاب منکرین حدیث کے لیے بہت کارآمد ثابت ہوئی وہ اس کتاب سے حدیث پر اعتراضات و مطاعن تو بعینہ نقل کر دیتے ہیں مگر ان کے جو جوابات ابن قتیبہ نے دیئے ہیں یا ان پر جو جرح یا تبصرہ کیا ہے اسے مطلقاً نظر انداز کر جاتے ہیں اور اعتراضات بھی اس انداز سے پیش کرتے ہیں گویا یہ صحابہ و اہل حدیث کے بارے میں ابن قتیبہ کے ذاتی افکار و آراءہیں ۔ منکرین حدیث کو جامع بیان العلم کے ۳۸۱ ابواب میں سے مندرجہ ذیل چار باب بہت پسند ہیں:

۱۔ کراہیة کتابة العلم و تخلیدہ فی الصحف یعنی علم کو لکھنے کی اور اسے ہمیشہ لکھا رکھنے کی ناپسندیدگی۔ ”کیونکہ بعض صحابہ حدیث حفظ ہو جانے کے بعد اسے مٹا دیتے تھے۔

۲۔ ”اختلاف العلماءفی بعض الفروع“ یہ باب ان فروعی اختلاف کو اچھال کر احادیث سے برگشتہ کرنے کے لیے بہترین مواد کا کام دیتا ہے۔

۳۔ من ذم الاکثار من الحدیث بغیر تفہیم و تفقہ یعنی ان لوگوں کے اقوال جنھوں نے حدیث میں فہم و تفقہ پیدا کیے بغیر تکثیر روایت کی مذمت کی ہے۔

۴۔ ”لایقبل قول بعض العلماءفی بعض الاببینة“ یعنی ایک عالم کی دوسرے عالم کے حق میں جرح بغیر دلیل کے ناقابل قبول ہے۔ اس باب کے عنوان سے صرف نظر کر کے منکرین حدیث صرف وہ اقوال درج کر دیتے ہیں جو کسی عالم نے دوسرے کے خلاف کہے اور اس طرح جرح اور تعدیل کے فن کو بے کار ثابت کرتے ہیں اس کتاب کے باقی ۹۷۱ ابواب منکرین حدیث کے خیال میں بے کار اور ناقابل التفات ہیں۔

اسی طرح توجیہہ النظر میں تیسری فصل <ص ۱۱، تا ۹۱>undefined منکرین حدیث کے لیے بڑے کام کی چیز ہے اس کا عنوان ہے ”الفصل الثلث فی تثبت السلف فی امر الحدیث خشیة ان یدخل فیہ مالیس منہ یعنی حدیث کے معاملہ میں سلف کی تحقیق اس خدشہ کے پیش نظر کہ مبادا حدیث میں وہ شامل نہ ہوجائے جو حقیقتاً اس میں شامل نہیں۔

یہی صورت تذکرة الحفاظ للذہبی کی ہے۔ ان تمام کتابوں سے مصنف کی منشاءکے علی الرغم عبارتیں نقل کر کے اس کا غلط سلط مطلب عوام کے سامنے پیش کر کے انھیں حدیث سے بدظن اور برگشتہ کرنے کا فریضہ منکرین حدیث مدتوں سے سر انجام دے رہے ہیں۔

حال ہی میں ایک فیس بکی منکر حدیث نے احادیث پر اعتراض کے لیے ایک روایت کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے لکھتے ہیں:

“یہ کہتے ھیں کہ خیبر سے رسول اللہ ﷺ کو ایک گدھا مال غنیمت میں ملا جس نے رسول اللہ ﷺ سے انسانی زبان میں کلام کیا اور بتایا کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اس کے دادا کے ماتھے پر ہاتھ پھیرا تھا اور کہا تھا کہ اس کی پشت سے ایک ایسا گدھا شریف پیدا ھو گا جس پر آخری نبی سواری کرے گا- اس گدھے نے مزید کہا کہ میری نسل میں ساٹھ گدھے ایسے پیدا ھوئے ھیں کہ جن پر سوائے رسولوں کے کسی نے سواری نہیں کی اور میرے ماں باپ آپ پر فدا آج مجھے آپ کی سواری کا شرف حاصل ھو رھا ھے- میرا نام یزید بن شھاب ھے، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا نام “یعفور” ھے، اس کے بعد آپ نے اس کو آواز دی یا یعفور،، لبیک یا رسول اللہ، گدھے نے جواب دیا،، آپ ﷺ نے اس سے سوال کیا کہ تمہیں عورت دیکھ کر ھوشیاری آتی ھے؟ اس نے کہا کہ نہیں ((میں اولی الاربۃ من الرجال میں سے ھوں لہذا مجھ سے پردہ واجب نہیں ھے))

اس حدیث میں اور بھی بہت کچھ ھے، مگر میرا مقصد اس روایت کا یہی حصہ ھے، گدھے کے رسول اللہ ﷺ سے کلام پر بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں، اللہ کے رسول در اصل اللہ کے نمائندے اور نائب ھوتے ھیں وہ ھر چیز سے کلام کر سکتے ھیں اگر اللہ پاک چاھے تو- جیسے حضرت سلیمان کا حیوانات سے گفتگو کرنا، مگر رسول اللہ ﷺ کی گفتگو میں سے جو کردار برآمد کیا ھے راوی نے وہ قابلِ اعتراض ھے، ان راویوں کے نزدیک نبئ کریم ﷺ جنس زدہ تھے، آپ کا ذھن ھر وقت جنسی سوچ میں ھی مصروف رھتا تھا، معاذ اللہ ثم معاذ اللہ، نقلِ کفر کفر نباشد،،، ایک گدھا رسول اللہ ﷺ سے معجزانہ گفتگو کر رھا ھے، جس کے دوران وہ اپنے ماضی کے کئ قصے سناتا ھے مگرجب رسول اللہ ﷺ اس سے مخاطب ھوتے ھیں تو بس ایک ھی جملہ بولتے ھیں اور وہ جملہ جنس سے متعلق ھے کہ ” کیا تجھے عورتیں دیکھ کر ھوشیاری آتی ھے؟ اگر ان اناث کو گدھے کی مؤنث یعنی گدھیاں بھی لے لیا جائے تو کیا گدھے سے بھی پاک دامنی مطلوب ھے؟ یا گدھے کو گدھی دیکھ کر ھوشیاری آ جائے تو کیا یہ کبیرہ گناہ اور بدنظری ھے؟ ایک صاحب شریعت نبی گدھے سے یہ سوال کر کے کیا حاصل کرنا چاھتا ھے؟ کیا اگر گدھا کہہ دیتا کہ جی ھاں مجھے عورتیں دیکھ کر کھلبلی سی ھوتی ھے تو رسول اللہ عورتوں کا اس گدھے سے پردہ کرا دیتے؟ روایت اور اس کے حوالہ جات موجود ھیں اور یہ روایت اھلسنت کے یہاں ھی نہیں بلکہ شیعہ لٹریچر میں کلینی کی روایت میں موجود ھے!”

تبصرہ:

موصوف نے اس روایت کے حوالے تو بہت بیان کیے ہیں لیکن علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کی کتاب “الموضوعات” کا حوالہ دینا بھول گئے ہیں شاید۔۔۔!

علامہ ابن جوزی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث منگھڑت ہے اور جس نے بھی گھڑی ہے، اللہ اس پر لعنت کرے۔ اور جس نے بھی اسے گھڑا ہے، اس کا مقصد اسلام کا مذاق اڑانا تھا۔ امام ابو حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی کوئی “اصل” نہیں ہے اور اس کی سند کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے۔ امام سیوطی، امام شوکانی، علامہ البانی نے اس حدیث کو “موضوع” undefined، امام ابن کثیر، امام ابن اثیر نے “منکر” اور امام ذہبی رحمہم اللہ نے “باطل” کہا ہے۔ دعا کریں ان صاحب کے ہاتھ کتاب “الموضوعات” کا ترجمہ نہ لگ جائے، یقین مانیے، اگر انہوں نے وہاں سے حدیثیں نقل کرنا شروع کر دیں، تو آپ سب کے لیے حدیث کا دفاع بہت مشکل ہو جائے گا۔

موصوف نے ابن اثیر کا جو حوالہ دیا ، اس حوالے کو پورا پیش کرنا گوارہ نہیں کیا ۔امام ابن اثیر رحمہ اللہ اس واقعے کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ یہ قصہ سند اور متن کے اعتبار سے باطل ہے اور کسی کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس قصے کو میرے ریفرنس سے کسی کو بیان کرے سوائے اس کے کہ جو حکم میں نے بیان کیا ہے، وہ بھی ساتھ ہی نقل کرے۔۔۔ هذا حديثٌ منكرٌ جداً إسناداً ومتناً ، لا أحلُ لأحدٍ أن يرويهِ عني إلا مع كلامي عليهِ۔۔ تو انہوں نے تو یہ بتلانے کے لیے نقل کیا ہے کہ یہ باطل اور منکر روایت ہے۔

اس قصے کے بارے ابن کثیر کا حوالہ نقل کیا حالانکہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس قصے کے نقل کرنے سے پہلے ہی کہا ہے: وقد أنكرهُ غيرُ واحدٍ من الحفاظِ الكبارِ .. کہ کبار محدثین اس قصے کی صحت کا انکار کرتے ہیں۔۔

سیوطی کا حوالہ دیا حالانکہ امام سیوطی رحمہ اللہ نے اللآلی المصنوعہ میں اس کو موضوع کہا ہے۔۔

منکرین حدیث کی تہی دامنی ملاحظہ فرمائیے موضوع روایات کی دیوار پر کھڑے ہو کر انکار حدیث کا مقدمہ مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔

استفادہ تحریر: انکارحدیث، ماہنامہ ساحل اگست2007، یعفورگدھے کا قصہ، حافظ زبیر