محمدؐ خدا تو نہیں تھے کہ خدا کیطرح انکی پیروی کی جائے!

اعتراض:

“اسلام ایک خدائی دین ہے۔ یہ اپنی سند خدا سے اور صرف خدا ہی سے لیتا ہے۔ اگر یہ اسلام کا صحیح تصور ہے تو اس سے لازماً یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ محمد رسول اللہ کے اقوال و افعال اور کردار کو خدا کی طرف سے آئی ہوئی وحی کی سی حیثیت نہیں دی جا سکتی۔ کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ محمد رسول اللہ ایک کامل انسان تھے۔ نہ کوئی شخص یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ محمد رسول اللہ جس عزت اور تکریم کے مستحق ہیں یا جس عزت و تکریم کا ہم ان کے لیے اظہار کرنا چاہتے ہیں، اس کے اظہار کی قوت و قابلیت وہ رکھتا ہے۔ لیکن با ایں ہمہ وہ خدا نہ تھے، نہ خدا سمجھے جا سکتے ہیں۔ دوسرے تمام رسولوں کی طرح وہ بھی انسان ہی ہیں.وہ ہماری طرح فانی تھے۔ وہ ایک نذیر تھے مگر یقیناً خدا نہ تھے ان کو بھی اسی طرح خدا کے احکام کی پیروی کرنی پڑتی تھی جس طرح ہمیں۔ وہ مسلمانوں کو اس سے زیادہ کوئی چیز نہ دے سکتے تھے جو خدا کی طرف سے بذریعۂ وحی ان کو دی گئی تھی”.

جواب :

اصل مسئلہ جس کی تحقیق اس مقام پر مطلوب تھی وہ یہ نہیں تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم معاذ اللہ خدا ہیں یا نہیں اور وہ انسان ہیں یا کچھ اور دین کے احکام میں سند مرجع خدا کا حکم ہے یا کسی اور کا ۔بلکہ تحقیق جس چیز کی کرنی چاہیے تھی وہ یہ تھی کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے کس کام کے لیے مقرر کیا ، دین میں ان کی حیثیت اور اختیارات کیا ہیں؟ یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ وہ خدا نہیں ہیں، انسان ہی ہیں، مگر وہ ایسے انسان ہیں جن کو خدا نے اپنا نمائندۂ مجاز بنا کر بھیجا ہے۔ خدا کے احکام براہ راست ہمارے پاس نہیں آئے بلکہ ان کے واسطے سے آئے ہیں۔ وہ محض اس لیے مقرر نہیں کیے گئے کہ خدا کی کتاب کی آیات جو ان پر نازل ہوں، بس وہ پڑھ کر ہمیں سنا دیں بلکہ ان کے تقرر کا مقصد یہ ہے کہ وہ کتا ب کی تشریح کریں، اسکے احکامات کی وضاحت کریں ۔ ہم اس بات کی تحقیق کرتے ہیں کہ قرآن حضور ﷺ کو کس حیثیت سے پیش کرتا ہے ؟ قرآن میں اللہ تعالی نے حضور ﷺ کو کیا کیا اختیارات عنایت فرمائے ہیں ۔؟ اس سے واضح ہوجائے گا کہ کہ محمد رسول اللہ کے اقوال و افعال اور کردار کی دین میں کیا حیثیت ہے۔

رسول صلی اللہ علیہ و سلم بحیثیت شارح کتاب اللہ:

سورۂ النحل میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

“اور (اے نبی) یہ ذکر ہم نے تمہاری طرف اس لیے نازل کیا ہے کہ تم لوگوں کے لیے واضح کر دو اس تعلیم کو جو ان کی طرف اتاری گئی ہے”۔ (النمل: ۴۴)

اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سپرد یہ خدمت کی گئی تھی کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ جو احکام و ہدایات دے، ان کی آپ صلی اللہ علیہ و سلم توضیح و تشریح فرمائیں۔ ایک موٹی سی عقل کا آدمی بھی کم از کم اتنی بات تو سمجھ سکتا ہے کہ کسی کتاب کی توضیح و تشریح محض اس کتاب کے الفاظ پڑھ کر سنا دینے سے نہیں ہو جاتی بلکہ تشریح کرنے والا اس کے الفاظ سے زائد کچھ کہتا ہے تاکہ سننے والا کتاب کا مطلب پوری طرح سمجھ جائے اور اگر کتاب کی کوئی بات کسی عملی مسئلے سے متعلق ہو تو شارح عملی مظاہرہ کر کے بتاتا ہے کہ مصنف کا منشا اس طرح عمل کرنا ہے۔ یہ نہ ہو تو کتاب کے الفاظ کا مطلب و مدعا پوچھنے والے کو پھر کتاب کے الفاظ ہی سنا دینا کسی طفل مکتب کے نزدیک بھی تشریح و توضیح قرار نہیں پا سکتا۔

یہاں تو اللہ تعالیٰ اپنے رسول پر کتاب نازل کرنے کا مقصد ہی یہ بیان کر رہا ہے کہ رسول اپنے قول اور عمل سے اس کا مطلب واضح کرے۔ پھر کس طرح یہ ممکن ہے کہ شارح قرآن کی حیثیت سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے منصب کو رسالت کے منصب سے الگ قرار دیا جائے اور آپ کے پہنچائے ہوئے الفاظ قرآن کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شرح و تفسیر قبول کرنے سے انکار کر دیا جائے؟ کیا یہ انکار خود رسالت کا انکار نہ ہو گا۔

رسول صلی اللہ علیہ و سلم بحیثیت شارع:

سورۂ اعراف میں اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:

“وہ ان کو معروف کا حکم دیتا ہے اور منکر سے ان کو روکتا ہے اور ان کے لیے پاک چیزوں کو حلال کرتا ہے اور ان پر ناپاک چیزوں کو حرام کرتا ہے اور ان پر سے وہ بوجھ اور بندھن اتار دیتا ہے، جو ان پر چڑھے ہوئے تھے۔ (الاعراف: ۱۵۷)

اس آیت کے الفاظ اس امر میں بالکل صریح ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو تشریعی اختیارات (Legislative Powers) عطا کیے ہیں۔ اللہ کی طرف سے امر و نہی اور تحلیل و تحریم صرف وہی نہیں ہے جو قرآن میں بیان ہوئی ہے بلکہ جو کچھ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حرام یا حلال قرار دیا ہے اور جس چیز کا حضورﷺ نے حکم دیا ہے یا جس سے منع کیا ہے، وہ بھی اللہ کے دیئے ہوئے اختیارات سے ہے، اس لیے وہ بھی قانونِ خداوندی کا ایک حصہ ہے۔ یہی بات سورۂ حشر میں اسی صراحت کے ساتھ ارشاد ہوئی ہے:

“جو کچھ رسول تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے منع کر دے، اس سے رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے”۔

ان دونوں آیتوں میں سے کسی کی یہ تاویل نہیں کی جا سکتی کہ ان میں قرآن کے امر و نہی اور قرآن کی تحلیل و تحریم کا ذکر ہے۔ یہ تاویل نہیں بلکہ اللہ کے کلام میں ترمیم ہو گی۔ اللہ نے تو یہاں امر و نہی اور تحلیل و تحریم کو رسول کا فعل قرار دیا ہے نہ کہ قرآن کا۔

رسول صلی اللہ علیہ و سلم بحیثیت پیشوا و نمونہ تقلید:

قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ (آل عمران: ۳۱)” (اے نبی) کہو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔ کہو کہ اطاعت کرو اللہ اور رسول کی، پھر اگر وہ منہ موڑتے ہیں تو اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا”۔

اور لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ (الاحزاب: ۲۱)”تمہارے لیے اللہ کے رسول میں ایک تقلید ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو”۔

ان دونوں آیتوں میں خود اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو پیشوا مقرر کر رہا ہے، ان کی پیروی کا حکم دے رہا ہے، ان کی زندگی کو نمونۂ تقلید قرار دے رہا ہے اور صاف فرما رہا ہے کہ یہ روش اختیار نہ کرو گے تو مجھ سے کوئی امید نہ رکھو، میری محبت اس کے بغیر تمہیں حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ اس سے منہ موڑنا کفر ہے۔

اگر قرآن کے یہ الفاظ بالکل غیر مشتبہ طریقے سے آنحضور ﷺ کو مامور من اللہ رہنما و پیشوا قرار دے رہے ہیں۔ تو پھر آپ کی پیروی اور آپ کے نمونہ زندگی کی تقلید سے انکار کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اس کے جواب میں یہ کہنا سراسر لغو ہے کہ اس سے مراد قرآن کی پیروی ہے۔ اگر یہ مراد ہوتی تو فاتبعو القرآن فرمایا جاتا نہ کہ فاتبعونی۔ اور اس صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کو اسوۂ حسنہ کہنے کے تو کوئی معنی ہی نہ تھے۔

رسول صلی اللہ علیہ و سلم بحیثیت حاکم و فرمانروا

قرآن مجید اسی صراحت اور تکرار کے ساتھ بکثرت مقامات پر یہ بات بھی کہتا ہے کہ نبی ﷺ ، اللہ کی طرف سے مقرر کیے ہوئے حاکم و فرمانروا تھے اور آپ کو یہ منصب بھی رسول ہی کی حیثیت سے عطا ہوا تھا:

“ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا، مگر اس لیے کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے اذن سے۔ (النساء 64)”۔

جو رسول کی اطاعت کرے اس نے اللہ کی اطاعت کی (النساء 80)”۔

” (اے نبی) یقیناً جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ در حقیقت اللہ سے بیعت کرتے ہیں (الفتح 10)”۔

“اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب کسی معاملہ کا فیصلہ اللہ اور اس کا رسول کر دے تو پھر ان کے لیے اپنے اس معاملہ میں خود کوئی فیصلہ کر لینے کا اختیار باقی رہ جائے اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ کھلی گمراہی میں پڑ گیا (الاحزاب 36)”۔

اے لوگو، جو ایمان لائے ہو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے اولی الامر ہوں، پھر اگر تمہارے درمیان نزاع ہو جائے تو اس کو پھیر دو اللہ اور رسول کی طرف اگر تم ایمان رکھتے ہو، اللہ اور روز آخر پر (النساء 59)

یہ آیت صاف بتا رہی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت عین اللہ کی اطاعت ہے۔ اس سے بیعت در اصل اللہ سے بیعت ہے۔ اس کی اطاعت نہ کرنے کے معنی اللہ کی نافرمانی کے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آدمی کا کوئی عمل بھی اللہ کے ہاں مقبول نہ ہو۔ اس کے مقابلے میں اہل ایمان کو قطعاً یہ حق حاصل نہیں ہے کہ جس معاملہ کا فیصلہ وہ کر چکا ہو، اس میں وہ خود کوئی فیصلہ کریں۔

رسول صلی اللہ علیہ و سلم بحیثیت قاضی:

قرآن میں ایک جگہ نہیں، بکثرت مقامات پر اللہ تعالیٰ اس امر کی تصریح فرماتا ہے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو قاضی مقرر کیا ہے، مثال کے طور پر چند آیات ملاحظہ ہوں:

“(اے نبی) ہم نے تمہاری طرف حق کے ساتھ کتاب نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان اللہ کی دکھائی ہوئی روشنی میں فیصلہ کرو (النساء:105)”۔

“پس (اے نبی) تیرے رب کی قسم وہ ہرگز مومن نہ ہوں گے جب تک کہ وہ اپنے جھگڑوں میں تجھے فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو فیصلہ تو کرے اس کی طرف سے اپنے دل میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ اسے بسرو چشم قبول کر لیں (النساء:65)

یہ آیتیں اس امر میں بالکل صریح ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے جج تھے۔ دوسری آیت میں کہا گیا کہ رسول ﷺ کو جو شخص جج کی حیثیت سے تسلیم نہیں کرتا وہ مومن ہی نہیں ہے، حتیٰ کہ اگر رسول ﷺ کے دیے ہوئے فیصلے پر کوئی شخص اپنے دل میں بھی تنگی محسوس کرے تو اس کا ایمان ختم ہو جاتا ہے۔ کیا دنیا کے کسی جج کی یہ حیثیت ہو سکتی ہے کہ اس کا فیصلہ اگر کوئی نہ مانے یا اس پر تنقید کرے یا اپنے دل میں بھی اسے غلط سمجھے تو اس کا ایمان سلب ہو جائے گا؟

رسول صلی اللہ علیہ و سلم بحیثیت معلم و مربی:

اس کتابِ پاک میں چار مقامات پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے منصبِ رسالت کی یہ تفصیل بیان کی گئی ہے:

“اور یاد کرو جبکہ ابراہیم اور اسماعیل اس گھر (کعبہ) کی بنیادیں اٹھا رہے تھے (انہوں نے دعا کی) ۔۔ اے ہمارے پروردگار، ان لوگوں میں خود انہی کے اندر سے ایک رسول مبعوث فرما، جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے (البقرہ:129)”۔

“جس طرح ہم نے تمہارے اندر خود تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تم کو ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور تمہارا تزکیہ کرتا ہے اور تم کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے (البقرہ:151)”۔

“اللہ نے ایمان لانے والوں پر احسان فرمایا جبکہ ان کے اندر خود انہی میں سے ایک رسول مبعوث کیا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے (آل عمران:164)”۔

“وہی ہے جس نے امیوں کے درمیان خود انہی میں سے ایک رسول مبعوث کیا جو ان کو اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے (الجمعہ:2)”۔

ان آیات میں بار بار جس بات کو بتاکید دہرایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو صرف آیات قرآن سنا دینے کے لیے نہیں بھیجا تھا بلکہ اس کے ساتھ بعثت کے تین مقصد اور بھی تھے۔1. ایک یہ کہ آپ لوگوں کو کتاب کی تعلیم دیں۔2. دوسرے یہ کہ اس کتاب کے منشا کے مطابق کام کرنے کی حکمت سکھائیں۔3. اور تیسرے یہ کہ آپ افراد کا بھی اور ان کی اجتماعی ہئیت کا بھی تزکیہ کریں، یعنی اپنی تربیت سے ان کی انفرادی اور اجتماعی خرابیوں کو دور کریں اور ان کے اندر اچھے اوصاف اور بہتر نظام اجتماعی کو نشو و نما دیں۔ظاہر ہے کہ کتاب اور حکمت کی تعلیم صرف قرآن کے الفاظ سنادینے سے زائد ہی کوئی چیز تھی ورنہ اس کا الگ ذکر کرنا بے معنی تھا۔ اسی طرح افراد اور معاشرے کی تربیت کے لیے آپ جو تدابیر بھی اختیار فرماتے تھے، وہ بھی قرآن کے الفاظ پڑھ کر سنا دینے سے زائد ہی کچھ تھیں، ورنہ تربیت کی اس الگ خدمت کا ذکر کرنے کے کوئی معنی نہ تھے۔

کیا قرآن کی ان صاف اور مکرر تصریحات کے بعد اسی کتاب پر ایمان رکھنے والا کوئی شخص یہ کہنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ یہ دونوں مناصب رسالت کے اجزاء نہ تھے؟ اگر نہیں کہہ سکتا تو بتایئے کہ قرآن کے الفاظ سنانے سے زائد جو باتیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے تعلیم کتاب و حکمت کے سلسلے میں فرمائیں اور اپنے قول و عمل سے افراد اور معاشرہ کی جو تربیت حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے کی اسے من جانب اللہ ماننے اور سند تسلیم سے انکار خود رسالت کا انکار نہیں تو اور کیا ہے؟

معترض کا یہ جملہ لفظاً بالکل صحیح ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم “مسلمانوں کو اس سے زیادہ کوئی چیز نہ دے سکتے تھے جو خدا کی طرف سے بذریعۂ وحی ان کو دی گئی تھی۔”کیونکہ اگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ فرمانروا، قاضی اور رہنما تھے تو یہ ماننے کے سوا چارہ نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے فیصلے اور آپ کی تعلیمات و ہدایات اور آپ کے احکام من جانب اللہ تھے اور اس بنا پر لازماً وہ اسلام میں سند و حجت ہیں۔

سنت کے مآخذ قانون ہونے پر امت کا اجماع:

آپ اگر واقعی قرآن کو مانتے ہیں اور اس کتاب مقدس کا نام لے کر خود اپنے من گھڑت نظریات کے معتقد بنے ہوئے نہیں ہیں تو دیکھ لیجیے کہ قرآن مجید صاف و صریح اور قطعاً غیر مشتبہ الفاظ میں رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو خدا کی طرف سے مقر کیا ہوا معلم، مربی، پیشوا، رہنما، شارحِ کلام اللہ، شارع (Law Giver)، قاضی اور حاکم و فرمانروا قرار دے رہا ہے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے یہ تمام مناصب اس کتاب پاک کی رو سے منصبِ رسالت کے اجزائے لاینفک ہیں۔ کلام الٰہی کی یہی تصریحات ہیں جن کی بنا پر صحابہ کرام کے دور سے لیکر آج تک تمام مسلمانوں نے بالاتفاق یہ مانا ہے کہ مذکورہ بالا تمام حیثیات میں حضورﷺ نے جو کام کیا ہے وہ قرآن کے بعد دوسرا مآخذ قانون (Source of Law) ہے جب تک کوئی شخص انتہائی بر خود غلط نہ ہو، وہ اس پندار میں مبتلا نہیں ہو سکتا کہ تمام دنیا کے مسلمان اور ہر زمانے کے سارے مسلمان قرآن پاک کی ان آیات کو سمجھنے میں غلطی کر گئے ہیں اور ٹھیک مطلب بس اس نے سمجھا ہے کہ حضور ﷺ صرف قرآن پڑھ کر سنا دینے کی حد تک رسول صلی اللہ علیہ و سلم تھے۔ اور اس کے بعد آپ کی حیثیت ایک عام مسلمان کی تھی۔ آخر اس کے ہاتھ وہ کون سی نرالی لغت آ گئی ہے جس کی مدد سے قرآن کے الفاظ کا وہ مطلب اس نے سمجھا جو پوری امت کی سمجھ میں کبھی نہ آیا؟