منکرین حدیث کی طرف سے عموما یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ حدیث ہی فرقوں / مسالک/مذہبی انتشار کے وجود کی ذمہ دار ہے۔ اس اعتراض کے جواب میں ہم انتہائ اختصارکے ساتھ ان چند اہم پوائنٹس پر بات کریں گے :
آئمہ اربعہ کے درمیان اختلاف کی نوعیت کیا ہے؟
کیا آئمہ مجتہدین کا فروعی مسائل میں اختلاف تفرقہ بازی ہے ؟؟
کیا یہ اختلاف آپس میں جنگ وجدل وحسد وبغض کی وجہ سے ہے یا کسی اور جائز ومقبول ومعقول امور کی وجہ سے ہے ؟؟
مذاہب اربعہ اور آئمہ مجتہدین اورفقہاء اسلام کے مابین مسائل میں اختلاف کی وجوہات کیا ہیں ؟
کیا اس طرح کا کوئی اختلاف صحابہ و تابعین میں بھی پایا جاتا تھا؟
اختلاف اور صحابہ :
قرآن وحدیث کے اولین مخاطب حضرات صحابہ تھے، وہ براہِ راست حضور اکرمﷺ سے فیض یافتہ تھے؛ اس لیے وہی حضرات قرآن وحدیث کی مراد کوصحیح طور پرسمجھ سکتے ہیں؛ لہٰذا ان حضرات نے جوسمجھا ہے وہ ہمارے لیے معیار اور مشعلِ راہ ہے اور قرآن ورسول کے ایک ہوتے ہوئےحضراتِ صحابہؓ کے مابین بے شمار مسائل میں اختلاف تھا، ائمہ اربعہ چونکہ ان ہی حضرات اور ان سے فیض یافتہ حضرات یعنی (تابعین) کی فہم وبصیرت پراعتماد کیا ہے اور ان ہی کے اقوال ومذاہب کواختیار کیا ہے؛ اس لیے ائمہ اربعہ کے درمیان جن مسائل میں اختلاف واقع ہوا وہ دراصل صحابہؓ کے اختلاف کی وجہ سے ہوا ہے ۔ حضورِاکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے :اختلاف امتی رحمۃ۔ ترجمہ:میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔ (تفسیرابی السعود:۲/۶۸، داراحیاء التراث العربی ، بیروت)۔حدیث پاک میں جس اختلاف کورحمت فرمایا ہے، اس کا صحیح مصداق یہی صحابہ وائمہ کا اختلاف ہے،۔صحابہ کے باہمی اختلاف کی بےشمار مثالیں حدیث کی کتابوں میں ملتی ہیں،
حاصل یہ ہے کہ احادیث کی بنیاد پر صحابہ کے مابین اس طرح کا اختلاف رونما ہوا؛ پھران سے تابعین نے اسی طرح حاصل کیا، اس کو یاد کیا اور سمجھا اور مختلف امور کوجمع کیا اور بعض اقوال کوبعض پرترجیح دی اور بعض کواپنی نظر میں ضعیف سمجھا؛ گرچہ وہ کبارِ صحابہؓ ہی سے مروی تھے؛ پھران سے جب ائمہ نے ان کے علوم کوحاصل کیا توانھوں نے ان سے اسی طرح اخذ کیا جس طرح ان تابعی حضرات نے حضراتِ صحابہؓ سے حاصل کیا تھا۔
آئمہ اربعہ کے درمیان اختلاف کی نوعیت:
مذاھب مُعتبرہ مذاہب أربعہ یعنی مالكيہ وحنفيہ وشافعيہ وحنابلہ کے مابین عقائد وأصول الدين میں کوئ اختلاف نہیں ہے بلکہ فروعی مسائل میں ایک جُزئي اورغیرمُضراختلاف ہے اوریہ اختلاف بھی شرعی دلائل وبراہین کی بنیاد پرہے اورتاريخ الإسلام میں کبھی یہ نہیں سنا گیا کہ مذاھب أربعہ کا اختلاف محض جھگڑا ونزاع وفساد ہے۔ یہ پھرفروعی مسائل میں اختلاف صرف مذاہب اربعہ اور آئمہ مجتہدین کے مابین ہی نہیں بلکہ صحابہ کرام کے مابین بھی موجود تھا اورصحابہ کرام جودین اسلام اورقرآن وسنت کے اولین راوی وناقل وحامل جماعت ہے ہم تک سارا دین انھی مقدس ومحترم شخصیات کے واسطے سے پہنچا ہے لہذا جب ان کے مابین فروعی مسائل میں اختلاف موجود تھا تو لازم ہے کہ ان کے بعد آنے والے تابعین وتبع تابعین وعلماء امت کے درمیان بھی یہ اختلاف موجود ہو اورایسا ہی ہوا کہ بعد کے آئمہ مجتہدین وعلماء اسلام کے مابین یہ اختلاف موجود چلا آرہا ہے۔
اختلاف کی اقسام :
علماء کرام نے اسلام میں رد وقبول کے اعتبار سے اختلاف کی دو بنیادی قسمیں بیان کی ہیں ، پہلی قسم ہے اختلاف تضاد (contradiction) ، دوسری قسم ہے اختلاف تنوع (variety)۔
1۔اختلاف تضاد : تضاد لغت میں ضد کوکہتے ہیں جمع اس کی أضداد آتی ہے اور لغت میں ضِدُّ الشَيء کسی چیزکے مخالف ومُبائن اورالٹ چیزکوکہا جاتا ہے اور دو مَتضَاد چیزیں وہ ہوتی ہیں جوآپس میں جمع نہیں ہوسکتے جیسے دن اور رات یعنی دو چیزوں میں اختلاف تضاد کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کا اجتماع ناممکن ہو ، بعض علماء نے اختلاف تضاد کی تعریف ألقَولان المُتنَافِيَان سے کی ہے ، اور پھر یہ اختلاف اصول میں ہوتا ہے اور یقینا اھل سنت کے مابین اصول دین میں کوئ اختلاف نہیں ہے لہذا یہ اختلاف مذموم و ناجائز ہے ۔ جیسا کہ أھل سنت والجماعت کا اختلاف فِرَق باطلہ وضالہ کے ساتھ اصول دین میں ۔.
2۔اختلاف تنَوُّع : تنوع کا مطلب یہ ہے کہ کوئ چیز متعدد ہو لیکن حقیقت میں متفق ہو، یعنی ہروہ اختلاف جس میں کئ وجوہات جائز ہوں ، اوراس اختلاف میں مُنافات نہیں ہوتا یعنی ایک قول دوسرے کی نفي وإبطال نہیں کرتا بلکہ ہرقول دوسرے کا ایک نوع ہوتا ہے ضد نہیں ہوتا ، اوراس میں تمام اقوال صحیح ہوتے ہیں ، اور پھر یہ کئ قسم پرہوتا ہے مثلا:
ایک یہ کہ دونوں فعل اوردونوں قول جائز وحق ہوں۔ جیسا کہ قرآن کی قرأت کہ صحابہ کے مابین ان میں اختلاف ہوا ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو قراءت کرتے ہوئے سنا حالانکہ میں نے نبی صلى اللہ عليہ وسلم سے اس کے برخلاف پڑھتے ہوئے سنا تھا یعنی جو قراءت یہ آدمی پڑھ رہا تھا نبی صلى اللہ عليہ وسلم سے میں نے اس طرح نہیں سنا لہذا میں نے اس کو نبی صلى اللہ عليہ وسلم کی خدمت میں حاضرکیا اورمیں نے نبی صلى اللھ عليہ وسلم کو اس اختلاف کی خبردی ، پس میں نے نبی صلى اللہ عليہ وسلم کے چہرہ ( مبارک ) پرناپسندیدگی کے آثار دیکھے ، اورنبی صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمایا تم دونوں درست ہو، یعنی قراءت کی روایت میں ، علامہ طيبي رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ آدمی اپنی قراءت میں درست ہے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جو نبی صلى اللہ عليہ وسلم سے سنا وہ اس میں درست ہے۔رواہ البخاري
اسی طرح دو مختلف معانی کسی قول سے لیئے جائیں لیکن دونوں متضاد نہ ہوں بلکہ دونوں قول باوجود مختلف ہونے کے صحیح ہوں اوریہ اکثراختلافی مسائل میں موجود ہے اوراس طرح کا اختلاف خود رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کے عہد مبارک میں واقع ہوا ہے اورآپ نے دونوں اقوال کو درست قراردیا ، مثال اس کی یہ ہے : غزوة الأحزاب : کے بعد رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ « من كان يؤمن باللہ واليوم الآخر فلا يصلين العصر إلا في بني قريظة » (رواھ البخاري ومسلم وغيرھما). یعنی جوشخص اللہ پراورآخرت کے دن پرایمان رکھتا ہے وہ عصرکی نمازنہ پڑھے مگر بَنی قریظہ میں .اب جب غروب کا وقت قریب ہوگیا تو رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کے اس قول مبارک کے سمجھنے میں صحابہ کرام کے مابین اختلاف واقع ہوگیا ۔بعض صحابہ نے یہ سمجھا کہ مراد اس قول سے سرعت اورجلدی ہے اوراگرنمازکا وقت راستے میں آجائے تو راستے میں پڑھ لی جائے لہذا انھوں نے عصرکی نماز راستے میں ہی پڑھ لی ، لیکن بعض صحابہ نے راستے میں نماز نہیں پڑھی اوراس قول کا مطلب یہ سمجھا کہ ہم عصرکی نماز بني قريظة میں ہی پڑھیں گے اگرچہ غروب کے بعد ہی کیوں نہ ہو ، رسولُ اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے کسی ایک پر بھی انکار نہیں فرمایا بلکہ دونوں کو صحیح قرار دیا ، اوراس طرح کے اختلاف میں دونوں فریق بلاشک مُصیب اوردرست ہیں ۔
غور کیا جائے تو اسی قسم کا اختلاف مذاہب اربعہ اور آئمہ مجتہدین کے مابین بھی بکثرت موجود ہے، کیا کوئ عقل مند شخص مذکورہ بالا حدیث پڑھنے کے بعد یہ کہہ سکتا ہے کہ معاذاللہ یہ اختلاف تفرقہ بازی ہے ؟؟ یادرہے کہ تمام فروعی اختلافی مسائل اسی قسم کے تحت آتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ اختلاف جائز ومقبول ومحمود ہے اورائمہ اربعہ کا اختلاف اذان واقامت ، واستفتاح ، وتشھد ، وغیرہ کے الفاظ میں اسی طرح صلاة الخوف ، وتكبيرات العيد، وتكبيرات الجنازة ، وفاتحة خلف الامام ، رفع یدین وعدم رفع یدین ، وآمین بالجھر وغیرہ مسائل میں اختلاف اسی قبیل سے ہیں الخ
کیا یہ فروعی اختلاف کسی جنگ و جدل و نفرت کا باعث بنا؟
یہ اختلاف معاذاللہ ضد وفساد وتفرقہ بازی وبائیکاٹ نہیں تھا اس لیے اس فروعی اختلاف کے باوجود سلف صالحین وعلماء اسلام آپس میں انتہاء درجہ محبت وعقیدت رکھتے تھے اورایک دوسرے کو گمراہ اورغلط وباطل نہیں کہتے تھے۔ اس بارے میں سلف صالحین کی سیرتوں میں بے شمار واقعات ومثالیں موجود ہیں ، میں صرف ایک مثال عرض کرتا ہوں إمام مالك بن أنس رحمہ اللھ نے أھل المدينہ یعنی أولاد صحابہ سے علم حاصل کیا اوراسی علم کواپنی کتاب مُوطأ میں جمع کیا ، إمام الشافعي رحمہ اللہ نے إمام مالك بن أنس رحمہ اللہ سے شرف تلمذ حاصل کیا اوران سے علم حاصل کیا اوران کی احادیث کو روایت کیا ، لیکن اس سب کچھ کے باوجود إمام الشافعي رحمہ اللہ نے بہت سارے اجتہادی مسائل میں إمام مالك بن أنس رحمہ اللہ کی مخالفت کی ، لیکن کبھی بھی إمام مالك رحمہ اللہ کے اجتہاد کوغلط نہیں کہا بلکہ یہ فرمایا کہ ، أنا مجتھد وھو مجتھد ولكل مجتھد نصيب ، یعنی میں بھی مجتہد ہوں اور إمام مالك بھی مجتھد ہے اورہرمجتھد کا اپنا نصیب وحصہ ہے ۔اور جب إمام الشافعي رحمہ اللہ سے یہ کہا گیا کہ کیا ہم إمام مالك کے مُقلد کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں ؟؟ تو إمام الشافعي رحمہ اللہ غصہ ہوئے اور فرمایا کہ ألستُ أصلي خلف مالك ؟ کیا میں إمام مالك کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا ؟یعنی إمام مالك تو میرا شیخ واستاذ ہے لہذا میں ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہوں اگرچہ میں نے بعض أمور اجتھاديہ میں ان کی مخالفت کی ہے ، مثلا إمام مالك رحمہ اللہ فاتحہ اور سورت میں بسم اللہ جھرا (اونچی آوازسے ) پڑھنے کے قائل نہیں ہیں ، لیکن إمام الشافعي رحمہ اللھ بسم اللہ جھرا پڑھنے کے قائل ہیں وغیرہ ذالک اور یہی حال دیگر تمام ائمہ مجتھدین کا ہے ، رحمھم اللہ تعالی
حضرت الامام الشيخ شاہ ولي اللہ الدھلوي رحمہ اللہ اپنی کتاب حجة اللہ البالغة میں اختلاف الصحابة في الأحكام كثير عنوان کے تحت فرماتے ہیں کہ “صحابہ وتابعین میں اور ان کے بعد کے زمانے میں بعض ایسے ہیں جونماز میں بسم اللہ جہراً پڑھتے تھے اور بعض جہراً نہیں پڑھتےتھے اور بعض نمازِ فجر میں دعائے قنوت پڑھتے تھے اور بعض نہیں پڑھتے تھے، بعض پچھنا لگانے، نکسیر پھوٹنے اور قئے کرنے کی وجہ سے وضو کرتے تھے اور بعض نہیں کرتے اور اس کوناقض وضو نہیں سمجھتے، بعض لوگ مس ذکر اور عورت کو شہوت سے ہاتھ لگانے سے وضو کرتے تھے اور بعض نہیں کرتے تھے، بعض لوگ آگ سے پکی ہوئی اشیاء کوکھانے کے بعد وضو کرتے تھے اور بعض نہیں کرتے تھے،بعض اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرتے تھے اور بعض نہیں کرتے تھے”۔(حجۃ ٓللہ البالغہ، بحوالہ رحمۃ اللہ الواسعہ:۲/۷۱4
شاہ ولي اللہ الدھلوي رحمہ اللہ نے اسکی بھی وضاحت فرمائی کہ آئمہ کا یہ اختلاف اندھے تعصب کی وجہ سے نہیں تھا ( بلکہ شرعی دلیل کی بنیاد پرتھا ) لہذا باوجود اس اختلاف وہ ایک دوسرے پیچھے نمازپڑھتے تھے جیسے امام أبو حنيفة اوران کے أصحاب اورامام شافعي وغيرھم رضي اللہ عنھم مدینہ کے مالكي مذھب کے ائمہ کے پیچھے نمازپڑھتے تھے اگرچہ وہ نماز میں بسم اللھ سراً اور جھراً نہیں پڑھتے . اور ھارون الرشید نے سینگی لگانے کے بعد نماز پڑھائ اور الإمام أبو يوسف حنفی نے ان کی امامت نماز پڑھی اورنماز کا اعادہ نہیں کیا ، الإمام أحمد بن حنبل سینگی اورنکسیر آنے کے بعد وضوء کے قائل تھے ، ان سے کہا گیا کہ اگرامام کا خون نکل گیا اور وضوء نہیں کیا توآپ اس کے پیچھے نمازپڑھتے ہیں ؟؟ توفرمایا کیوں نہیں میں الإمام مالك وسعيد بن المسيب کے پیچھے نمازپڑھتا ہوں ، اور روایت کیا گیا ہے کہ امام أبويوسف وامام محمد عیدین میں ابن عباس رضی اللھ عنھما کی تکبیر کہتے تھے کیونکہ ھارون الرشيد اس تکبیر کو پسند کرتے تھے ، اورامام الشافعي رحمہ اللہ نے امام أبي حنيفة رحمہ اللہ کی مقبرہ کے قریب صبح کی نماز پڑھی تو امام أبي حنيفة رحمہ اللھ کی ادب کی وجہ سے نماز میں قنوت نہیں پڑھا،
اورامام الشافعي رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ کئ دفعہ ہم أھلُ العراق کے مذھب کو بھی لیتے ہیں الخ حجة اللھ البالغة 1/295،296
حضرت شاہ ولي اللہ الدھلوي رحمہ اللہ نے اس باب میں ایک مستقل کتاب بنام ( ألانصاف في بيان أسباب الاختلاف ) لکھی ہے ، یہ کتاب حجم میں تو اتنی بڑی نہیں ہے لیکن معارف وحقائق سے بھرپور ہے اور تاريخ التشريع اور فقھی اختلافات کے اسباب وعلل وغیرہ مسائل پر مشتمل انتہائ اہم کتاب ہے اھل علم اس کتاب سے استفادہ کرسکتے ہیں ، اسی طرح الإمام السيوطي رحمہ اللَّہ نے اس باب میں جزيلُ المَواھب في اختلاف المَذاھب کے نام سے ایک رسالہ لکھا ہے ، اوربہت سارے علماء امت نے اس باب میں کتب ورسائل ومستقل ابحاث لکھی ہیں ،
ان سے یہ بات واضح اور روشن ہوجاتی ہے کہ ائمہ مجتھدین وسلف صالحین کے مابین فروعی واجتہادی مسائل میں اختلاف شرعی دلیل وبرہان کی بناء پرتھا ضد وتعصب وحسد ونفرت کی بنیاد پرنہیں تھا ، اورپھراس اختلاف کے باوجود وہ ایک دوسرے پر غلط وباطل ہونے کا فتوی نہیں لگاتے بلکہ آپس میں باہم شیر وشکرتھے اورایک دوسرے کے اجتہادات کا احترام کرتے تھے اور آپس میں حد درجہ احترام وعقیدت کا رشتہ رکھتے تھے اورادب واحترام کے اتنے اونچے مقام پرفائز تھے کہ بعض دفعہ دوسرے کسی مجتھد کے قول کے خاطر اپنے اجتہادی قول پرعمل بھی چھوڑ دیتے جیسا اوپر امام الشافعي رحمہ اللھ کی بات ذکرہوئ کہ انھوں نے امام أبي حنيفة رحمہ اللہ کی ادب کی وجہ سے صبح کی نماز میں قنوت نہیں پڑھا حالانکہ ان کا قول واجتہاد قنوت پڑھنے کا ہے ۔ ان اکابراعلام واسلاف امت کے اس طرح واقعات واحوال بکثرت موجود ہیں ۔
آئمہ مجتہدین و فقہماء اسلام کے مابین اختلافات کے اسباب:
1۔ لغت عربيہ کی أسالیب اورألفاظ کا معانی پردلالت میں اختلاف:
جیسا کہ معلوم ہے کہ لغت عرب لغة القرآن الكريم اورلغة الحديث النبوي الشريف ہے اور پهرعربی زبان دنیا کی سب سے بڑی فصیح وبلیغ و وسیع وأدق ترین زبان ہے عربی زبان میں مُؤوَّل ومُشترك ،حقیقت ومجاز ،عموم وخصوص ، صریح وکنایہ وغیره اصطلاحات بکثرت استعمال ہوتے ہیں اسی بناء پراجتہاد واستنباط بھی مختلف ہوجاتا ہے ۔
مثالیں :
الله تعالی کا فرمان مبارک ہے وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِھنَّ ثَلاثَةَ قُرُوءٍ البقرة:
اس آیت میں ائمہ مجتهدین وفقهاأسلام کا لفظ ( قُرُوءٍ ) میں اختلاف ہوا ہے۔ قُرُوءٍ جمع ہے قرءَ کی اورلغت میں ( القرء ) کا نام حيض وطهر ( پاکی ) دونوں کے لیئے استعمال ہوتا ہے ، لیکن یہاں آیت میں کون سا معنی مراد ہے ؟؟ تو ائمہ مجتهدین کا اس میں اختلاف ہے۔ احناف یہ فرماتے ہیں کہ یہاں ( القرء ) سے مراد حیض ہے اور شوافع فرماتے ہیں کہ یہاں ( القرء ) سے مراد طهر ( پاکی ) ہے ۔
اسی طرح عورت کو چھونے سے وضوء کے ٹوٹنے اور نہ ٹوٹنے کا اختلاف ہے احناف یہ فرماتے ہیں کہ عورت کو چهونے سے وضوء نہیں ٹوٹتا لیکن شوافع فرماتے ہیں کہ عورت کو چهونے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے ، اختلاف کی اصل وجہ اس آیت مبارکہ ( أَوْ لامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوّاً غَفُوراً) (النساء:) میں وارد لفظ ( المَسّ ) ہے ، شوافع یہ فرماتے ہیں کہ آیت میں لفظ ( مَسّ ) یعنی چهُونے سے مراد لغوی معنی ہے یعنی صرف چهُونا، لہذا عورت کو صرف چهُونے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے ۔ احناف یہ فرماتے ہیں کہ یہاں لفظ مَسّ ) سے لغوی حقیقت مُراد نہیں ہے بلکہ اس سے مراد (المباشَرة الفاحشة) یعنی انتشارکے ساتهہ دونوں کی شرمگاہوں کا ایک دوسرے کوچهُونا مراد ہے ، لہذا عورت کو صرف چهُونے سے وضوء نہیں ٹوٹے گا ۔ان دونوں مسائل میں دونوں طرف کے دلائل وقرائن کتب فقہ میں تفصیل کے ساتھ موجود ہیں ۔.
2۔ أفهام وعُقول وعلوم میں تفاوت کا اختلاف
جیسا کہ ظاہر ہے کہ یہ ایک طبعي أمر ہے کہ لوگ علم وفہم وعقل وسمجهہ کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں ، ایسا ہی ائمہ اسلام وعلماء امت کا حال ہے لہذا اسی وجہ سے دلائل شرعیہ سے أحکام مُستنبَط کرنے اوراجتہاد کرنے میں اختلاف واقع ہوا ، اوراس کی ایک مثال بني قريظة میں عصر کی نماز کے حوالے سے صحابہ کا اختلاف جس کی تفصیل اوپر گذر چکی (لا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ …) أخرجه البخاري ومسلم
ایک جماعت نے عصر کی نماز راستے میں پڑهی اور دوسری جماعت نے بني قريظة میں پڑهی ، اور دونوں کا اجتهاد صحیح ودرست ہے
3۔ کسی حدیث یا کسی راوي کی صحت وضعف پر اختلاف
قرآن الكريم کے بعد سنت مُطهرة اسلام کی دوسری بڑی بنیاد واساس ہے اور یہ سنت مُطهرة واحادیث مبارکہ ہماری طرف مختلف رجال کے واسطہ سے پہنچے ہیں ، اور یہ سب چونکہ بشر وانسان تھے بشری تقاضوں سے ماوراء نہیں ہے، اورحدیث وسنت ہمارا دین ہے،اس لیئے علماء امت نے انتہائ سختی کے ساتھ ایسے حضرات کی جانچ پڑتال کی جوحدیث وسنت روایت کرتے ہیں اوراس باب میں انتہائ سخت شرائط واصول وقواعد متعین کیئے اور یہ شرائط واصول چونکہ اجتهادی تھے اس لیئے محدثین کے مابین اس باب میں اختلاف واقع ہوا۔ مثلااحادیث کی روایت میں ناسخ ومنسوخ بھی ہوتا ہے، اتصال کی شرط بعض محدثین کے یہاں ضروری ہے تودوسرے بعض محدثین مثلاً امام مالکؒ اور امام ابوحنیفہؒ کے یہاں یہ شرط ضروری نہیں ہے؛ چنانچہ ان کے یہاں قرون مشہودلہا بالخیر (جن کے متعلق خیرہونے کی گواہی پیغمبرﷺ نے دی ہے) کا کوئی راوی ارسال یاانقطاع کے ساتھ کوئی حدیث روایت کرے تووہ ان کے نزدیک حجت ہوتی ہے؛ اسی طرح بعض شرطوں کے صحتِ حدیث کے لیے ضروری قرار دینے میں اتفاق اور بعض احادیث میں اس کے بالفعل پائے جانے کا فیصلہ کرنے میں اختلاف ہوجاتا ہے۔
مثلاً ایسا راوی جومدلس نہ ہواگر عن فلان کہہ کر اپنے شیخ سے روایت کرے جب کہ اس کے شیخ سے اس کی ملاقات ثابت نہ ہو توعام محدثین کے نزدیک وہ سند متصل سمجھی جائے گی اور بقیہ شرائط کی موجودگی میں اس پرصحت کا حکم لگے گا، جب کہ بعض محدثین (جیسے امام بخاریؒ اور علی بن مدینیؒ) کے نقطۂ نظر کے مطابق اس سند میں اتصال کی شرط مفقود ہے؛ اس لیے بقیہ شرائطِ صحت کے ہوتے ہوئے بھی وہ لوگ اس پرمنقطع (یاضعیف) کا حکم لگائیں گے۔
4۔ ظني نص یعنی غير قطعي نص کا مطلب ومراد سمجهنے میں اختلاف
یعنی کبھی کسی نص ظني ( قرآن وسنت کے کسی حکم ) کا معنی پوشیده ہوتا ہے یا تاویل کا احتمال رکھتا ہے تو یہ بھی أئمہ مجتهدین کے مابین اختلاف کا سبب ہے ، اور یاد رہے کہ الله تعالی نے أحكام شرعية کے تمام دلائل کو قطعي نہیں بنایا بلکہ أكثرأحكام شرعية کو ظنيُ الدلالة بھی بنایا ہے تاکہ لوگوں کے لیئے مُكلفين کے لیئےآسانی اور وسعت حاصل ہو ، اوراجتهاد واستنباط کی صلاحیت رکهنے والے افراد کے لیئے میدان ومَجال وسیع ہو ، اور اس میں أفهام وعُقول میں تفاوت کا احترام و رعایت بھی ہے ۔
5۔بعض مَصادرُ التشريع ودلائل كى تعيين میں اختلاف
یعنی جب کسی مسئلہ میں كتاب الله یا حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم سے کوئی نص قاطع کوئ واضح دلیل موجود نہ ہو تو ایسی صورت میں أئمہ مجتهدین کے مابین اختلاف واقع ہوا ہے ،جیسے استحسان ، مصالح المُرسَلة ، قولُ الصحابي ، عمل أهل المدينة ، وغیره ذالک ، ان میں سے بعض کو بعض أئمہ مجتهدین حجت ودلیل مانتے ہیں اور بعض نہیں مانتے ، جیسا کہ کتب أصول الفقه میں پوری تفصیل موجود ہے ۔
6۔مختلف نصوص ودلائل کے مابین جمع وترجیح میں اختلاف
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک نص ثابت ہوتا ہے اورعلماء کا اس کے ثبوت پراتفاق ہوتا ہے لیکن اختلاف واعتراض اس وقت ہوتا ہے جب ظاہری طور پر اس نص کے مُعارض ومُخالف کوئ دوسری صحیح نص موجود ہو ، تو پھر اس صورت میں أئمہ مجتهدین وفقهاأسلام کے مابین جمع وترجیح کے طریقوں میں اختلاف واقع ہوجاتا ہے ، یعنی مثلا دو صحیح دلائل آپس میں بظاہر مُتعارض ہوں توان کے درمیان جمع وترجیح کے مختلف طریقے ہیں ، جیسے عام وخاص، ومُطلق ومُقيد، وناسخ ومَنسوخ ،امر ونهي، وغیره ذالک کی دلالت کا اختلاف ، جیسا کہ کتب أصول الفقه میں پوری تفصیل موجود ہے .
7۔قواعد ومَبادئ الأصوليه میں اختلاف
یعنی وه قواعد واصول جن کو أئمہ مجتهدین نے اپنے اجتهادات سے وضع کیا ہے جس کی بناء پرمجتهدین کی مختلف آراء ہوتے ہیں لہذا یہ بھی اختلاف کا سبب ہے۔
یہ سب ان سب امور میں اختلاف بھی شرعی دلائل سے ثابت ہے اورجن مذکوره بالا چند اہم اسباب کا تذکره ہوا ان کے علاوه کئ اوراسباب بھی ہیں جس کا تفصیلی ذکرعلماء امت نے اپنی کتب میں کیا ہے جیسا کہ حضرت الامام شاه ولی الله دهلوی رحمه الله نے اپنی کتاب “الإنصاف في أسباب الاختلاف”میں اوراسی طرح کئ اورعلماء نے بهی مستقل بحث کی ہے ، مثلا ایک کتاب ہے ” أسباب اختلاف العلماء” للشيخ على الخفيف ، رفعُ الملام عن الأئمة الأعلام ، للشیخ ابن تيمية ، أثرالحديث في اختلاف الأئمة ، للشیخ محمد عوامة ، جزيل المواهب في اختلاف المذاهب ، للشیخ السیوطی ، وغیرهم رحمهم الله تعالی
ان علمی اسباب کی بنیاد پریہ بات سمجھنے کی ہے کہ فقہاء کے مابین یہ اختلاف عین تقاضائے شریعت ہے اور چونکہ احکام وآراء میں یہ اختلاف اجتہاد، اخلاص وللّٰہیت، تلاشِ حق، منشائے خداوندی کوسمجھنے اور مرادِ نبوی کی حقیقت کوجاننے کے لیے ہوا ہے اس لیے اس کومذموم اوربُرا نہیں کہا جاسکتا؛ اگرمنشائے خداوندی یہ ہوتا کہ فقہاء کے مابین اس قسم کا اختلاف بالکل رونما نہ ہوتو اللہ عزوجل ان تمام جزوی مسائل کوبھی انہیں قطعی دلائل کے ساتھ نازل فرماتے اور ان کے تعلق سے بھی روایات اسی تواتر وتسلسل کے ساتھ وارد ہوتی؛ جیسا کہ شریعت کے بنیادی امور اور دین کے ضروری احکام قطعی دلائل اور متواتر روایات کے ضمن میں بیان کئے گئے ہیں؛ بلکہ شریعت نے خود یہ چاہا ہے کہ ائمہ کے درمیان جزوی مسائل میں اسطرح کا اختلاف رونماہو، زمانے کے حالات وضروریات اوراس کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق اس عمل کومختلف طریقے سے انجام دیا جاسکے، اور مختلف مذاہب ومسالک کی شکل میں حضوراکرمﷺ کی متفرق سنتیں اور طریقے زندہ ہوں اور سماج ومعاشرے میں رواج پائیں، تنگی کے وقت سہولت کا باعث بنیں؛ ہردور کے حالات اور ضروریات اور عرف ورواج کے مطابق عمل کی مختلف شکلیں وجود میں آسکیں اور اس نے اپنے احکام میں ایسی گنجائش اور کشائش رکھی ہے کہ ایک ہی عمل کومختلف شکل میں انجام دیا جاسکے۔