لفظ”ظن” کی لغوی بحث:
اس لغوی بحث میں ہم اپنی طرف سے کچھ نہیں لکھنا چاہتے بلکہ مفردات امام راغب سے اس کی تفصیل نقل کیے دیتے ہیں، جسے”طلوح اسلام” نے بھی لغات القرآن کے مقدمہ مین ایک مستند لغت کی حیثیت سے تسلیم کیا ہے اور اس سے کافی حد تک استفادہ بھی کیا ہے۔
“کسی چیز کی علامت سے جو نتیجہ حاصل ہوتا ہے اسے”ظن” کہتے ہیں۔ جب یہ علامات قوی ہوں تو ان سے علم کا درجہ حاصل ہوتا ہے مگر جب بہت کمزور ہوں تو وہ نتیجہ وہم کی حد سے آگے تجاوز نہیں کرتا۔”
“یہی وجہ ہے کہ جب نتیجہ قوی ہو اور علم کا درجہ حاصل کرے تو اس کے بعد”.اَنَّ.” یا”اَن.” کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً آیات:
1-.الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ .<البقرہ:46>undefined
“(اللہ تعالیٰ کا ڈر رکھنے والے وہ لوگ ہیں) جو یقین کیئے ہوئے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں۔”
2-.قَالَ الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوا اللّٰهِ كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ.<القبرہ:249>undefined
“کہا ان لوگوں نے جو لوگ یقین رکھتے ہیں کہ انھیں اللہ کے روپرو حاضر ہونا ہے۔ بسا اوقات چھوٹی سی جماعتیں بڑی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غلبہ پالیتی ہیں۔”
3-.وَّ ظَنَّ اَنَّهُ الْفِرَاقُۙ<القیامۃ:28>undefined
“اور اس (جاں بلب شخص) نے یقین کر لیا کہ اب سب سے جدائی ہے ۔”
مندرجہ بالا آیات میں “ظن ” کا لفظ علم ویقین کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس کے بعد امام راغب رحمہ اللہ نے مزید آٹھ(8) قرآنی آیات سے استشہاد(استدلال) کیا ہے جہاں ظن کا لفظ علم و یقین کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ جنہیں ہم طلوالت سے بچنے کی خاطر نظر انداز کر رہے ہیں۔
پھر امام راغب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
” مگر جب وہ ظن کمزور ہو اور وہم کے درجہ سے آگے نہ بڑھے تو پھر اس کے ساتھ اِن یا انَّ استعمال ہوتا ہے۔ جو کسی قول یا فعل کے عدم کے ساتھ مختص ہے”( اور اس کی دوسری علامت یہ ہوتی ہے ۔ ظن کے مقابلہ میں یقین، علم ، حق یا اس جیسے دوسرے الفاظ موجود ہوتے ہیں۔ جو ظن کے معنی کو وہم کے ساتھ مختص کردیتے ہیں۔ بالفاظ دیگر” ظن” کا معنی” وہم” صرف اس صورت میں ہوگا جب اس کے لیے قرینہ موجود ہوگا۔ اب ایسی مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
1-.يَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ.<آل عمران:154>undefined
“اور وہ(منافقین) اللہ تعالیٰ کے بارے میں ناحق زمانہ جاہلیت کے سے گمان رکھتے ہیں۔”
2-. اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ١ۚ وَ اِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِيْ مِنَ الْحَقِّ شَيْـًٔاۚ.<النجم:28>undefined
“بے شک(ظن) یقین کے مقابلے میں کچھ کام نہیں آتا ۔”
3-.وَّ يُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِيْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ وَ الْمُشْرِكِيْنَ وَ الْمُشْرِكٰتِ الظَّآنِّيْنَ بِاللّٰهِ ظَنَّ السَّوْءِ.<الفتح:6>undefined
“اور تاکہ (اللہ تعالیٰ) ان منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو عذاب سے دو چار کرے جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں برے خیال رکھتے ہیں۔”
4-.وَ اِذَا قِيْلَ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ السَّاعَةُ لَا رَيْبَ فِيْهَا قُلْتُمْ مَّا نَدْرِيْ مَا السَّاعَةُ١ۙ اِنْ نَّظُنُّ اِلَّا ظَنًّا وَّ مَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِيْنَ.<الجائیۃ:32>undefined
“اور جب کبھی کہا جاتا کہ اللہ کا وعدہ یقیناً سچا ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں تو(کافرو!) تم جواب دیتے تھے کہ ہم نہیں جانتے قیامت کیا چیز ہے؟ ہم تو اسے محض وہم ہی خیال کرتے ہیں اور اس پر یقین نہیں رکھتے ”
[ مفردات القرآن(اردو ترجمہ) صفحہ نمبر :657، طابع و ناشر شیخ شمس الحق۔ اقبال ٹاؤن لاھور۔[
“طلوع اسلام” کی دیانت:
اوپر کی بحث یہ واضح ہے کہ قرآن نے ظن کو دونوں معنی میں استعمال کیا ہے اور “طلو ع اسلام” کی دیانت یہ ہے کہ لفظ “ظن” کی بحث میں قرآن سے صرف ایسی آیات پیش کرتے ہیں جہاں لفظ” ظن” کا معنی وہم و قیاس ہو اور ایسی آیات کو یکسر نظر انداز کر دے گا جن میں “ظن” یقین یا علم کے معنی دیتا ہے۔ حالانکہ قرآن مجید میں ایسی آیات جن میں “ظن” علم و یقین کے معنی میں استعمال ہوا ہے، آیات سے بہت زیادہ ہیں ، جن میں “ظن” بمعنی وہم و گمان استعمال ہوا ہے۔
چنانچہ کہتے ہیں دین قطعی اور یقینی ہونا چاہیے، دین کی بنیاد ظن وتخمین پررکھنا، دین کوکمزور کرنے کے مترادف ہے،پھردلیل کے طورپر چند ایک آیات کووہ پیش کرتے
(۱)اٰلٓمo ذَلِكَ الْكِتَابُ لَارَيْبَ فِيهِ (البقرۃ:۲،۱) یہ کتاب وہ ہے جس میں کوئی بھی شک کسی درجہ میں نہیں ہے
وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ هُوَالْحَقُّ (فاطر:۳۱) ترجمہ:یعنی جوکتاب ہم نے آپ کووحی کی ہے وہ سچی ہے۔
جب کہ حدیث کا معاملہ یہ ہے کہ یہ ظنی ہےاور اللہ عزوجل نے ظن کی اتباع کی مذمت فرمائی ہے وَمَايَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّاظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لَايُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا(یونس:۳۶) اسی طرح فرمایا: وَلَاتَقْفُ مَالَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ (الاسراء:۳۶) گویا قرآن امریقینی اور قطعی کی اتباع کا حکم دیتا ہے اور ظن کی اتباع سے منع کرتا ہے
اسی طرح کہتے ہیں
“قرآنِ كريم از اوّل تا آخر سورة البقرة سے لے كر سورة الناس كے آخر تك يقينى ہے، اس كى جملہ آيات يقينى و حتمى ہيں جبكہ شانِ نزول اور روايات بالكل ظنى اور غير يقينى ہيں – اس صورت ميں آيات كى تفسیر كا مدار و انحصار روايات اور شانِ نزول پرركھنا بالكل غير مناسب اور عقل كے خلاف ہے اور آيات كے مفہوم كو بهى غير يقينى اور ظنى بنانا ہے۔( طلوع اسلام، مئی 2005ء، ص27)
مغالطے کی حقیقت:
حدیث میں ظنی کیا ہے اسکی تفصیل ہم گزشتہ تحریر میں پیش کرچکے ہیں ۔يہاں اصل اور بنيادى چيز یں جو دريافت طلب ہیں وہ دو ہیں :
1۔ کیا صرف الفاظِ قرآن ہى يقينى اور حتمى ہيں ؟ يا اسکے الفاظ كا معنى ومفہوم بھى؟
2۔ اگر قرآنی تعبیر ات ظنی ہیں تو اسکی کونسی تعبیر اس ظن کے قریب ہے جسے قرآن نے علم ویقین کے معنی میں لیا ہے ۔محدثین کی یا منکرین حدیث کی ؟
اگر آپ الفاظِ قرآن كے حتمى اور يقينى ہونے كے قائل ہيں تو يہ امر تمام مسلمانوں ميں (بلكہ غير مسلموں ميں بھى) متفق علیہ ہے، اس ميں كسى كو بھى اختلاف نہيں ہے ليكن اگر آپ الفاظِ قرآن كے معنى و مفہوم كو بھى حتمى اور يقينى سمجھتے ہيں تو آپ كا يہ نظريہ وہم و گمان سے زيادہ كوئى حيثيت نہيں ركھتا- كوئى بڑے سے بڑامنكر ِحديث حتىٰ كہ خود پرويز صاحب بھى اس كے مدعى نہيں ہوئے- اگر متن قرآن كا مفہوم و مدلول بھى حتمى اور يقينى ہوتا تو تفسير قرآن كا قطعاً اختلاف نہ ہوتا- منكرين حديث كے جملہ گروہوں ميں خو اہ وہ ماضى كے احزاب ہوں يا دورِ حاضر كے ٹولے ہوں ، يہ اختلاف موجود رہے ہيں (باوجوديكہ ہر ٹولہ تمسك بالقرآن ہى كو رافع اختلاف قرار ديتا رہا ہے) حتىٰ كہ عبادات و عقائد تك ميں اور فروعى نہيں بلكہ اُصولى امور تك ميں يہ افتراقات و تنازعات اب تك برقرار ہيں اور اِنہى كى بنياد پر خود پرويز صاحب منكرين حديث كے دوسرے گروہوں كو گمراہ،دشمن دين اور مُخْزيالقرآن قرار ديتے رہے ہيں – پھر يہ تفسيرى اختلافات مسلك ِانكارِ حديث كے علمبردار مختلف دهڑوں ہى ميں نہيں پائے جاتے، بلكہ ان كے كسى ايك ہى گروہ ميں بھى وقتاً فوقتاً موجود رہے ہيں اور پرويز صاحب كا تو خير سے پورا لٹريچر ہى ماشاء الله ان ہى اختلافات كى بنياد پر تضادات و تناقضات سے اٹا پڑا ہے جو اس بات كا واضح ثبوت ہے كہ قرآن كريم كے الفاظ ہى حتمى و يقينى ہيں ، مگر ان كا معنى و مفہوم ہرگز ہرگز حتمى اور يقينى نہيں ہے، پرويز صاحب خود ايك مقام پر يہ لکھتے ہيں كہ
“قرآن تو وحى الٰہى ہے جس ميں غلطى كا كوئى امكان نہيں ، ليكن ميں اپنى قرآنى بصيرت كو كبهى وحى الٰہى قرار نہيں ديتا، اس لئے اس ميں سہواور خطا دونوں كا امكان ہوتا ہے- بنابريں ميں اس پر اصرار نہيں كرتا كہ جو كچھ ميں نے سمجھا ہے وہ اس باب ميں حرفِ آخر ہے اور وحى الٰہى كى طرح منزہ عن الخطاء” ( نظام ربوبیت، ص 23)
جب پرويز صاحب كے نزديك بھى انسانى تعبير قرآن سہو و خطا كا امكان ركھتى ہے اور وہ تعبير و تفسير وحى الٰہى كى طرح منزہ عن الخطا نہيں ہے تو پھر اس كے ظنى اور غير يقينى ہونے ميں كيا شك رہ جاتا ہے؟
الغرض، قرآن كے الفاظ تو بلا شبہ قطعى،حتمى اور يقينى ہيں ليكن ان كا مفہوم و مراد ہرگز ايسا نہيں ہے بلكہ وہ ظنى اور غير يقينى ہے اور عملى حيثيت سے اگر ديكھا جائے تو اتباعِ قرآن اور پيروى كتاب اللہ كے لئے ہم الفاظِ قرآن سے كہيں زيادہ مفہومِ قرآن كے محتاج ہيں جو بحرحال ظنى ہى ہے- لہٰذا يہاں عملاً دين ميں حجت اور سند وہ چيز (مفہوم آياتِ قرآن) بن رہى ہے جو غير يقينى اور ظنى ہى ہے- جب عملاً صورتِ حال يہ ہے تو پھر حديث و سنت نے كيا قصور كيا ہے كہ وہ تو ہر طرح جانچ پڑتال کے بھی ظنى حجت سے محروم ہوجائے؟
یہ کیسا انصاف ہے کہ رواياتِ رسول اور احاديث ِنبى مکمل حفاظت کے انتظام اور پھر لاکھوں محدثین کی تحقیق و اعتماد کے بعد بھی ظنى ہونے كى بنا پر مرد و د و مسترد ہوں ليكن انگریز کے محکمہ انفارمیشن کے ایک ملازم مسٹر پرويز صاحب كى اپنی مرضی کی تعبيرات ظنى ہونے كے باوجود مقبول ومحمود ٹھہریں ؟
اتباعِ ظن کا الزام اس شخص پر لگانا جواحادیث نبویہ پرعمل کرتا ہو اور حجت مانتا ہو کھلی ہوئی دھاندلی ہے، اس کی دووجہیں ہیں:
پہلی بات تویہ ہے کہ حدیث کا ایک بڑا ذخیرہ قطعی اور یقینی ہے ۔ اگر اخبار آحاد ظنی (مفید) ہیں توکیا قرآنِ کریم کی بہت سی آیات مفید ظن نہیں؟ کیونکہ بہت سی آیات کی دلالت اپنی مراد پرقطعی ویقینی نہیں ہوتی ان میں ایک سے زائد معانی کا احتمال ہوتا ہے بلکہ مفسرین اور مجتہدین میں قرائن کی بنیاد پران آیات کی مراد متعین کرنے میں اختلاف بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا قرآن اگر قطعی الثبوت ہے تو ضروری نہیں کہ اس کی ہرآیت قطعی الدلالۃ ہو بلکہ بہت سی آیات ظنی الدلالۃ ہیں۔ پس اگرمحض مفیدِ ظن ہونے کی بنیاد پر حدیث کا چھوڑنا ضروری ہوتوعین اسی علت کی بنیاد پرقرآن کا چھوڑنا بھی لازم آئےگا، جس کا قائل فریقین میں سے کوئی نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جس ظن کی اتباع کی مذمت فرمائی ہے، وہ ظن ہے جو محض وہم اور گمان ہو اور کسی دلیل قطعی سے معارض ہو ۔ حدیث کا معاملہ اس قبیل سے نہیں ہے جیسا کہ اوپر ظن کی بحث سے واضح ہے۔