یہ شبہ حجیت حدیث کے منکر حلقوں کی جانب سے اکثر بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ مسلمانوں پر سردار اور حاکم تھے اس لیے مسلمانوں کو آپ ﷺ کی اطاعت اور اتباع کا حکم دیا گیا لیکن پھر جب آپ ﷺ کا وصال ہو گیا تو آپ ﷺ کی ذاتی اطاعت لازمی نہ رہی بلکہ اب جو کوئی بھی سربراہ اور حاکم بنے گا وہ اسی اطاعت کا حقدار ہو گا اور مسلمانوں پر اس کی پیروی لازمی ہو گی۔
قرآن اس بارے میں کیا کہتا ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک محدود وقت اور مخصوص قوم کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجے گئےتھے یاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت تمام بنی توع انسان اور ہر زمانے کے لیے عام ہے آیئے اس سوال کا جواب خود قرآن کریم میں تلاش کریں ۔ چند آیا ت پیش ہیں :
قُلْ یَا اَیُّھَا النَّاسُ إِ نِّی رَسُوْلُ اللّٰہ إِلَیْکُمْ جَمِیْعاً (الاعراف :۱۵۸)
(اے محمد) کہہ دو کہ اے انسانو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ﴿سبا:٢٨﴾
اور (اے محمد) نہیں بھیجا ہم نے تم کو مگر تمام انسانوں کی طرف بشارت دینے والا متنبہ کرنے والا بنا کر۔
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ﴿الانبیاء:١٠٧﴾
” اور ہم نے آپ کو اور کسی بات کے واسطے نہیں بھیجا مگر دنیا جہاں کے لوگوں پر مہربانی کرنے کے لیے۔” (۱۰۷ – ۲)
تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا ﴿الفرقان:١﴾
” بڑی عالیشان ذات ہے جس نے یہ فیصلہ کی کتاب اپنے بندہ خاص پر نازل فرمائی تاکہ وہ ( بندہ) تمام دنیا جہاں والوں کے لیے ڈرانے والا ہو۔” (۱ -۲۵)
وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولًا ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ شَهِيدًا ﴿النساء:٧٩﴾
” اور ہم نے آپ کو لوگوں کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا ہے اور اللہ تعالٰی گواہ کافی ہیں۔” (۷۹ – ۴)۔
اور کل بنی نوع انسان کو اس طرح مخاطب کیا گیا ہے۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الرَّسُولُ بِالْحَقِّ مِن رَّبِّكُمْ فَآمِنُوا خَيْرًا لَّكُمْ ۚ وَإِن تَكْفُرُوا فَإِنَّ لِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴿النساء:١٧٠﴾
” اے تمام لوگو! تمہارے پاس (یہ) رسول (ﷺ) سچی بات لے کر تمہارے پروردگار کی طرف سے تشریف لائے ہیں سو تم یقین رکھو یہ تمہارے لیے بہتر ہو گا اور اگر تم منکر رہے تو خدا تعالٰی کی ملک ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے اور اللہ تعالٰی پوری اطلاع رکھتے ہیں کامل حکمت والے ہیں۔” (۱۷۰ – ۴)
ان آیات کریمہ کے لیے کسی وضاحت و تفصیل کی ضرورت نہیں یہ خود تشریحی آیات اس امر پر ناطق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی مخصوص قوم کی طرف نہیں بلکہ تمام بنی نوع آدم کی طرف مبعوث کئے گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی رسالت نہ تو کسی زمانے تک مخصوص ہے اور نہ کسی علاقے تک محدود۔قرآن کریم میں یہ بھی ارشاد فرمایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی ذات اقدس پیغمبروں میں سب سے آخری ہے اور آپ ﷺ کے بعد کوئی نیا پیغمبر آنے والا نہیں ہے۔
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّـهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ﴿الاحزاب:٤٠﴾
“محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ﷺ ہیں سب نبیوں کے ختم پر ہیں۔ اور اللہ تعالٰی ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔” (۳۳-۴۰)
اس آیت کریمہ میں صاف بتلایا گیا ہے کہ پیغمبروں کے سلسلۃ الذھب میں رسول اکرم ﷺ آخری پیغمبر ہیں۔ سابقہ پیغمبر اکثر کسی خاص قوم اور خاص زمانے کے لیے مبعوث کئے گئے تھے۔ کیونکہ ان کے بعد دوسرے پیغمبر بھی آنے والے تھے لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی پیغمبر کو نہیں آنا تھا۔ لہٰذا آپ ﷺ کی رسالت و نبوت کی وسعت تمام زمانوں اور تمام اقوام تک ہے اور یہی بات خود آنحضرت ﷺ نے مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان فرمائی ہے۔”بنی اسرائیل کی رہنمائی پیغمبر کیا کرتے تھے۔ جب کبھی کسی پیغمبر کا انتقال ہو جاتا تو اس کی جگہ دوسرا پیغمبر لے لیتا لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ البتہ میرے بعد خلفاء ہوں گے کافی تعداد میں ہوں گے۔( صحیح بخاری باب نمبر ۵۰ انبیاء، حدیث نمبر ۳۴۵۵)”
اس کے علاوہ اگر رسول اللہ ﷺ کی رسالت و نبوت کا دائرہ اثر اگلی نسلوں تک وسیع نہ ہوتا تو بعد کی نسلوں کے افراد پیغمبری رشد و ہدایت اور رہنمائی سے محروم رہ جاتے جبکہ سنت اللہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کسی شخص کو پیغمبرانہ رہنمائی سے محروم نہیں رکھتا۔ چنانچہ مندرجہ بالا آیات اور گفتگو کی روشنی میں اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں رہتا کہ نبی اکرم ﷺ تمام اقوام پر تا ابد تمام زمانوں کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجے گئے ہیں۔
چند مزید نکات:
۱ ۔ جب کبھی اور جہاں کہیں بھی قرآن مجید نے آنحضرت ﷺ کی اطاعت کا حکم دیا ہے وہاں ہمیشہ “رسول کی اطاعت” کے الفاظ اختیار کئے گئے ہیں اور کسی بھی جگہ “سربراہ کی اطاعت” یا “بحیثیت ایک فرد کے محمد ﷺ” کی اطاعت کا ذکر نہیں ہے، یہ اسلوب واضح طور پر اس کی نشان دہی کرتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی اطاعت بحیثیت پیغمبر لازمی ہے۔
۲ ۔ کم از کم ایک موقعے پر قرآن مجید نے غلط معنی نکالنے کے اس بعید ترین امکان کو بھی ختم کر دیا ہے۔ ارشاد فرمایا گیا ہے ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ ﴿النساء:٥٩﴾
“اے ایمان والو! تم اللہ کا کہنا مانو اور رسول کا کہنا مانو اور تم میں جو لوگ اہل حکومت ہیں ان کا بھی۔” (۴-۵۹)
یہاں “رسول کی اطاعت” سربراہوں اور حکام کی اطاعت سے علیحدہ اور ممتاز کر کے بیان کی گئی ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ پیغمبر اور حاکم دونوں مناصب کا اطاعت ان کی مختلف حیثیات میں بجا لانا ضروری ہے۔
یہاں یہ بات اہم اور قابل توجہ ہے کہ جہاں تک آنحضرت ﷺ کا تعلق ہے آپ کی ذات اقدس میں یہ دونوں مناصب اور حیثیات جمع تھیں۔ آپ نہ صرف ایک پیغمبر تھے بلکہ مسلمانوں کے سربراہ اور حاکم بھی تھے۔ چنانچہ اگر “آنحضرت ﷺ کی اطاعت” کو صرف آپ ﷺ کی حیات طیبہ تک محدود کرنا ہی قرآن کریم کا مقصود ہوتا تو باسانی کہا جا سکتا تھا کہ “محمد کی اطاعت کرو” لیکن قرآن کریم نے ان الفاظ سے احتراز کر کے واضح طور پر آنحضرت ﷺ کی دو حیثیات و مناصب جدا جدا بیان کر دی ہیں اور ان دونوں کو امتیازی طور پر علیحدہ علیحدہ ذکر کر کے اس غلط فہمی کے بعید ترین امکان کو بھی ختم کر دیا ہے۔ چنانچہ اس طرح ان دونوں حیثیات کو آپس میں خلط ملط کرنے کی گنجائش باقی نہیں چھوڑی۔
اس کے علاوہ اسی آیت میں ایک اور لطیف نکتہ بھی قابل توجہ ہے یہاں لفظ “رسول” کے لئے صیغہ واحد استعمال کیا گیا ہے جبکہ “تمہارے حاکموں” کے الفاظ میں صیغہ جمع میں ذکر کئے گئے ہیں۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ آخری رسول ہیں جن کے بعد کوئی نیا پیغمبر نہیں آئے گا لہٰذا آپ ﷺ کی اطاعت بحیثیت پیغمبر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے صرف آپ ہی کے لئے مخصوص و محدود رہے گی اور مستقبل میں کوئی شخص اس اطاعت میں آپ ﷺ کے ساتھ شریک نہیں ہو سکتا اس کے برعکس دوسری طرف سربراہوں اور حاکموں کی ایک بڑی تعداد ہو گی جو ایک کے بعد ایک دوسرے کی جگہ لیں گے۔اس قسم کی اطاعت صرف نزول وحی کے وقت کے حاکم تک مخصوص نہ رہے گی بلکہ اس کا دائرہ اثر بعد میں آنے والے تمام حاکموں تک پھیلتا جائے گا۔
۳ ۔ اللہ تعالٰی کی جانب سے بھیجا جانے والا پیغمبر جو رضائے الٰہی کا ترجمان بھی ہے ہمیشہ خدائی نگرانی میں رہتا ہے۔ پیغمبر کی جانب سے ادا کیا جانے والا کوئی فعل یا اس کا کوئی قول اگر رضائے الٰہی سے کلی طور پر مطابقت نہ رکھتا ہو تو اسے ہمیشہ اس بارے میں متنبہ کر دیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ایسی کئی آیات موجود ہیں جن میں کئی ایسے معاملات پر اللہ تعالٰی کی ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے جو رسول اللہ ﷺ نے انجام دیئے تھے یا آپ ﷺ کا ان کو انجام دینے کا ارادہ تھا چنانچہ آنحضرت ﷺ کا کوئی بھی عمل ایسا نہیں ہے جو اللہ تعالٰی کی جانب سے جانچا نہ جا چکا ہو۔اس پس منظر میں اگر آپ ﷺ کی جانب سے کوئی کام انجام دیا جاتا ہے یا کوئی حکم صادر ہوتا ہے اور اس کی نامنظوری کے لئے کوئی وحی نازل نہیں ہوتی تو اس کا لازمی مفہوم یہ ہو گا کہ اللہ تعالٰی کی جانب سے اس کام یا حکم کو رضامندی حاصل ہے۔ لہٰذا اس کی روشنی میں یہ بات بالکل درست ہے کہ آنحضرت ﷺ کے تمام احکامات اور تمام افعال براہ راست یا بالواسطہ طور پر وحی پر مبنی ہیں۔یہ منصب آپ ﷺ کے بعد کسی سربراہ کو حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ وحی کا نزول آپ ﷺ پر ختم ہو چکا اور یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نے پیغمبر کی اطاعت کو حکام کی اطاعت سے جدا اور ممتاز طور پر بیان کیا ہے۔
یہ وہ تین بڑی وجوہات ہیں جن کی موجودگی میں اس غلط فہمی کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ قرآن حکیم نے “رسول کی اطاعت” کی جو بار بار تاکید کی ہے اور اسے جس اہمیت کے ساتھ ذکر کیا ہے اس سے دراصل مراد سربراہ اور حکام وقت (اولی الامر) کی اطاعت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی اطاعت کی اس کے علاوہ کوئی وجہ نہیں ہے کہ آپ ﷺ کو اللہ تعالٰی کی جانب سے رسول بنا کر بھیجا گیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی رضا مندی کے ترجمان تھے چنانچہ ” سنت” جو تمام تر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور افعال کے ذخیرے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے، اللہ اور کتاب اللہ پر ایمان رکھنے والے تمام مسلمانوں کے لئے واجب التعمیل اور حجت ثابت ہوتی ہے۔
عقلی دلائل :
اس سلسلے میں ایک اور نکتہ بھی قابل توجہ ہے۔ اللہ تعالٰی جل شانہ نے کوئی آسمانی کتاب کسی پیغمبر کے بغیر نازل نہیں فرمائی اور اللہ تعالٰی نے یہ بھی واضح فرما دیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کتاب کی “تعلیم اور تشریح” کے لیے بھیجے گئے ہیں۔قبل ازیں اس امر کا ثبوت بھی پیش کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی بیان کردہ تشریحات اور تفصیلات سے قطع نظر کر کے کوئی شخص صرف فرض نمازوں کی ادائیگی کا طریقہ بھی صحیح طور پر نہیں جان سکتا۔
یہ سب باتیں مدنظر رکھتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ تشریحات محض عہد نبوت کے عربوں ہی کے لیے ضروری تھیں؟ جہاں تک عربی زبان کا تعلق ہے مکہ کے عرب ہم سے کہیں زیادہ اچھی طرح اس سے واقف تھے۔ وہ قرآن کریم کے اسلوب سے کہیں بہتر طور پر آشنا تھے۔ وہ نزول وحی کے مواقع پر خود موجود تھے اور گرد و پیش کے ان تمام حالات و واقعات اور پس و پیش منظر کا براہ راست مشاہدہ کرنے والے تھے جن میں قرآن کریم نازل ہوا۔ انہوں نے قرآن کریم کی آیات کریمہ خود رسالت ماب نبی اکرم ﷺ کے زبان مبارک سے سنی تھیں اور ان تمام اجزا و عناصر کو بخوبی جانتے تھے جن کا جاننا وحی الہٰی کا صحیح اور درست مفہوم سمجھنے کے لیے ضروری ہے لیکن ان سب کے باوجود رسول اللہ ﷺ کی بیان کردہ تشریحات ان کے لیے ضروری بلکہ لازمی سمجھی گئیں اور ان کی تعمیل بھی ان پر واجب کی گئی۔
اگر یہ درست ہے اور بلاشبہ اس کے درست ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی عام آدمی بقائمی ہوش و حواس یہ سمجھ لے کہ موجودہ عہد کے ان لوگوں کے لیے جو مذکورہ تمام فوائد سے محروم بھی ہیں پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کی تشریحات کی کوکئی ضرورت نہیں ہے۔ حالانکہ موازنہ کیا جائے تو ہمیں نہ تو عربی زبان و بیان پر ایسی قدرت حاصل ہے جو ان لوگوں کو تھی اور نہ ہی ہم قرآنی اسلوب سے اس درجہ آشنا ہیں جتنا وہ تھے۔ جن حالات و واقعات کے درمیان قرآن کریم نازل ہوا اور جس کے وہ عینی شاہد تھے، ہم تو ان سے بھی مکمل طور پر واقف نہیں ہیں۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود اگر انہیں قرآن کریم کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی تشریحات کی ضرورت تھی تو پھر ہمیں یقیناً کہیں زیادہ اس کی ضرورت ہے۔
اگر قرآن کریم کی حاکمیت کے لیے وقت اور زمانے کی کوئی حد آخر نہیں ہے اور اگر قرآن کریم آنے والے تمام زمانوں اور تمام نسلوں کے لیے واجب التعمیل ہے تو پھر آنحضرت ﷺ کی وہ حاکمیت جس کے لیے خود قرآن حکیم نے وقت کی کوئی حد متعین نہیں کی، قرآن کریم ہی کی طرح ہمیشہ
ہمیشہ مؤثر اور واجب العمل رہے گی۔ قرآن کریم نے جب یہ کہا تو محض مکہ اور مدینہ کے عربوں ہی کو نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کو خطاب کر کے کہا تھا۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﴿محمد:٣٣﴾
“اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔” (۴۷-۳۳)
اگر “اللہ تعالٰی کی اطاعت” ہمیشہ “رسول کی اطاعت” کے ساتھ ساتھ ذکر کی گئی ہے، جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں تو اب اس امر کی گنجائش نہیں ہے کہ ایک کو دوسرے سے علیحدہ کر دیا جائے۔ اگر ایک سے مراد تا ابد اور تمام زمانوں کے لیے اطاعت ہے تو پھر دوسرے کو مخصوص وقت کی کسی حد میں مقید نہیں کیا جا سکتا۔ ایک اور مقام پر قرآن کریم نے اللہ تعالٰی اور اس کے رسول کے مابین ایسی کسی تفریق سے اس طرح خبردار کیا ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّـهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا ﴿١٥٠﴾ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا ﴿النساء:١٥١﴾
“جو لوگ کفر کرتے ہیں اللہ تعالٰی کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ اور یوں چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان میں فرق رکھیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعضوں پر تو ایمان لاتے ہیں اور بعضوں کے منکر ہیں اور یوں چاہتے ہیں کہ بین بین ایک راہ تجویز کریں، ایسے لوگ یقیناً کافر ہیں اور کافروں کے لیے ہم نے اہانت آمیز سزا تیار کر رکھی ہے۔” (النساء : ۱۵۰-۱۵۱)
پس رسول اللہ ﷺ کی نبوت پر ایمان کا لازمی جزو آپ ﷺ کی حاکمیت کی اطاعت ہے اور یہ جزو اصل سے کبھی جدا نہیں کیا جا سکتا لہٰذا اسلام کے ابتدائی زمانے میں آنحضرت ﷺ کی حاکمیت ماننا اور بعد کے زمانوں میں اس سے انکار کرنا ایسا گمراہ کن نظریہ ہے جس کی اسلامی ماخذ سے کوئی مدد نہیں مل سکتی اور نہ عقل و منطق کی کسی بنیاد پر اسے تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
حیرت ہے جن خلفائے راشدین کو پرویز صاحب مرکز ان ملت قرار دے کر اللہ اور رسولؐ کی گدی پر براجمان کرکے انھیں یہ اعزاز عطا فرمارہے ہیں ان کو خود ساری عمر اس اعزازی مسند کی خبر تک نہیں ہوئی۔ یہ مرکز ملت (مثلا حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ ) خود عدالتوں میں حاضر ہوئے اور لطف کی بات یہ ہے کہ فیصلے بھی ان کے خلاف ہی ہوئے۔ انھیں اس بات کی سمجھ ہی نہ آئی کہ اللہ اور رسول تو ہم خود ہیں، ہماری اطاعت ہی اللہ اور رسول کی اطاعت ہے۔
غلام احمد پرویز صاحب کے مزعومہ مرکز ملت کے دلائل کا جائزہ ہم پہلے بھی ایک تحریر میں لے چکے ہیں۔ تحریر اس لنک سے ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔