اشکال : قرآن يقينى اور حدیث ظنی ہے اور ظن دین نہیں ہوسکتا
ذخیرہ کتب احادیث کو بے کار ثابت کرنے کے لیے” طلوع اسلام” نے جس موضوع پر سب سے زیادہ زور دیا ہے، وہ ظن اور یقین کی بحث ہے”طلوع اسلام” نے اپنے دعویٰ کو یوں دہرایا ہے:”دین کے متعلق ایک چیز سے متعلق تو یقناً آپ متفق ہوں گے ۔ یعنی یہ کہ دین وہی ہوسکتا ہے جو یقینی ہو۔ ظنی اور قیاسی نہ ہو”(مقام حدیث صفحہ4)
اس اعتراض کا جواب دینے سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ فن حدیث میں ظن کا مطلب کیا ہے
محدثین کے نزدیک لفظ “ظن” کا مفہوم:
بلاشبہ بعض محدثین نے علم حدیث میں “ظن” کا لفظ استعمال کیا ہے۔ لیکن اس سے ان کی ایسی مراد ہر گز نہ تھی جیسا تاثر منکرین حدیث دینا چاہتے ہیں ۔ بلکہ وہ اس لفظ ظن کو ان جملہ پہلوؤں میں لیتے تھےجن پر قرآن کریم نے روشنی ڈالی ہے جسکا تذکرہ آگے آئے گا۔ محدثین نے احادیث کی اس لحاظ سے تقسیم کردی ہے۔ مثلاً:
1.سُنَن مُتَوَاتِرہ وَمُتَعَامِلَہ:
جن پر امت دور صحابہ سے لے کر آج تک بلا اختلاف کا ربند چلی آرہی ہے اور ان کا ذکر احادیث میں ملتا ہے۔ مثلاً یہ کہ نمازوں کی تعداد پانچ ہے۔ نماز کی ادائیگی کی ترکیب ، رکعت کا تعین، حج اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے طریقے ، نکاح و طلاق ، قوانین عدل و انصاف اور اسلامی عدالتوں کا طریق کار، انفرادی عقائد و اعمال۔ اس لحاظ سے احادیث کا بہت بڑا حصہ متواتر ہے۔ جو بغیر کسی انقطاع کے نَسلًا بَعدَ نَسل کروڑہا انسانوں کے ذریعہ مشرق و مغرب میں منتقل ہوتا ہوا ہم تک پہنچا ہے۔ یہ تعامل ِ امت قطعی اور یقینی ہے۔
2 احادیثِ مُتَوَاتِرَہ.:
بعض ایسی احدیث بھی ہیں جن کا عمل سے نہیں بلکہ عقیدہ سے تعلق ہوتا ہے مثلاً:
1.اِنَّمَا الاَعمَالُ بالنَّیَّات. ترجمہ: “تمام اعمال کا دار و مدار صرف نیتوں پر ہے”( صحیح البخاری: بَدہ الوحی (قبل کتاب الایمان) باب کیف کان بدہ الوحی الی رسول اللہﷺ، الحدیث: 1/ صحیح مسلم: کتاب الامارۃ: باب قولہﷺ (انما الاعمال بانیات) ، الحدیث:1907.
2.مَن کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلیَتَبَوَّا مَقعَدَہ منَ النَّار۔ ترجمہ : ” میرے ذمے جو کوئی بات جان بوجھ کر لگائے حالانکہ میں نے وہ نہ کہی ہو تو وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ کی) آگ میں بنالے۔(صحیح البخاری: کتاب العلم باب اثم من کذب علی النبیﷺ ، الحدیث:107/ صحیح مسلم، المقدمۃ: باب تغلیظ الکذب علی رسول اللہﷺ۔.
3-حدیث عزیز اور مشہور:
حدیث عزیز وہ ہوتی ہے جس کے راوی ہر سطح پر دو ہوں اور وہ عادل و ضابط بھی ہوں اور حدیث مشہور وہ ہے ، جس کے راوی ہر سطح پر دو سے زیادہ رہے ہوں۔ ایسی احادیث سے واضح دلائل کی بناء پر گمان غالب حاصل ہوتا ہے۔
4-حدیث غریب:
ایسی حدیث ہے جس کے راوی کسی سطح پر صرف ایک ہی رہ گیا ہو۔ یہ خبر واحد ہے ۔ ان احادیث اخبار آحاد کہا جاتا ہے ۔ ان کے متعلق محدثین نے “ظنی علم” کا لفظ استعمال کیا ہے۔لیکن یہاں بھی ظن کے ساتھ علم کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہاں بھی” ظن ” وہم اور شک کے معنوں میں استعمال نہیں ہوا۔
خبر واحد کا یقینی پہلو:
محدثین کرام نے جہاں خبر واحد کو مفید ِظن کہا ہے وہاں یہ بھی وضاحت کردی ہے کہ اگر خبر واحد کے ساتھ دوسرے قرائن و شواہد وابستہ ہوں تو یقین کا پہلو نکل آتا ہے۔ یعنی بعض خبر واحد مشتمل جو قرائن و شواہد پر مشتمل ہیں علم الیقین کا فائدہ دیتی ہے۔اصولِ حدیث کی کتابوں میں ان قرائن و شواہد کی تین مثالیں دی گئی ہیں :
(۱) بخاری و مسلم کی وہ تمام روایات جو محدثین کے نقد و تبصرے میں رہی ہیں صحت و قوت اور قبولیت ِعام کے لحاظ سے ان کا درجہ ان روایات سے کہیں زیادہ بلند ہے جو صرف راویوں کی ثقاہت کی بنا پر قابل اعتماد ٹھہرائی گئی ہیں۔ ان دونوں کتابوں کو تلقّی بالقبول(قبولیت ِعلما) کا مقام حاصل ہونا، اور ان کی صحت قابل اعتماد ہونے پر اُمت کا اجماع و اتفاق ہونا، ایسے مضبوط قرائن وشواہد ہیں کہ جن کی بنا پر یہ احادیث مفید ِعلم و یقین قرا رپاتی ہیں۔
(۲) حدیث مشہور مفید ِعلم و یقین ہے جب کہ وہ متعدد الگ الگ سندوں سے مروی ہو اور ہر قسم کی فنی خامی اور راویوں کے ضعف سے پاک ہو۔
(۳) حدیث ِمسلسل بالائمہ، یعنی ایسی حدیث جس کے راوی ہردور میں مشہور اہل علم میں سے ہوں بشرطیکہ وہ اس حدیث کے بیان کرنے میں منفرد نہ ہوں بلکہ علم و تقویٰ کے لحاظ سے ان کی ہم پلہ کوئی دوسری شخصیت بھی ان کی ہم نوا ہو۔ مثلاً امام احمد بن حنبل، امام شافعی سے روایت کریں اور وہ بھی امام مالک سے۔ ظاہر ہے ان تینوں بزرگوں کی ثقاہت اور علمی جلالت و عظمت سے کس کو انکار ہوسکتا ہے۔ اب اگر ان میں سے ہرامام کے ساتھ ایک دوسرا جلیل القدر عالم بھی شریک ِروایت ہوتو سہو و نسیان کا امکان انتہائی کم سے کم رہ جاتاہے
اگر مذکورہ بالا تینوں شکلیں کسی ایک ہی حدیث میں یکجا ہوجائیں یعنی جب ایک روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں درج ہو، راویوں کی تعداد کے لحاظ سے مشہور ہو، اور راوی بھی اکابر ائمہ دین میں سے ہوں تو اس صورت میں قطعیت اور یقین کا پہلو اور بھی زیادہ ہوجاتا ہے۔
اس تفصیل سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ خبر واحد کی بھی متعدد انواع مفید ِعلم الیقین ہیں۔ اب صرف وہ اخبارِ آحاد رہ جاتی ہیں، جن کے راوی تقوے اور حافظہ کے لحاظ سے تو قابل اعتماد ہیں لیکن دوسرے قرائن و شواہد سے ان کو تقویت اور تائید حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ان روایات کو بھی صحت و قوت کے لحاظ سے مختلف مراتب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مثلاً صحیح لذاتہ، حسن لذاتہ، صحیح لغیرہ، حسن لغیرہ۔
1.صحیح لذاتہ سے مراد وہ روایت ہے جس کے راوی عدالت (تقویٰ) اور قوتِ حافظہ کے لحاظ سے قابل اعتماد ہوں، سند کی تما م کڑیاں باہمی متصل و مربوط ہوں، انقطاع کے نقص سے پاک ہوں اور ہر قسم کی ان فنی خامیوں سے مبرا ہوں۔ جن کو فن حدیث کے ماہرین ہی جان سکتے ہیں، اسی طرح وہ روایت ہر قسم کے شذوذ سے پاک ہو یہ پانچ شرطیں جس حدیث میں پورے کمال کے ساتھ پائی جائیں وہ ‘صحیح لذاتہ’ شمار ہوگی۔
2.اگر تمام شرائط کے باوجود حافظہ میں کچھ کمی پائی جاتی ہے تو اس روایت کو حسن لذاتہ کہا جاتا ہے۔
3. حسن لذاتہ’ اگر کئی طرق (سندوں) سے مروی ہو تو اس کا نام صحیح لغیرہ ہے۔
4.اگر کسی روایت میں ضعف کے متعدد وجودہ موجود ہوں، لیکن اس ضعف کی تلافی اس بنا پر ہوگئی ہو کہ وہ روایت کئی سندوں سے مروی ہے تو ایسی حدیث کو ‘حسن لغیرہ’ کہا جاتاہے۔ محدثین کرام نے کسی روایت کو غرابت یاضعف سے پاک کرنے کے لئے توابع و شواہد کی جستجو کا بھی اہتمام کیا ہے۔
مثلا ایک شخص مولانا شبیر احمد عثمانی اور ان کے اساتذہ کے واسطے سے ایک قول شاہ ولی اللہ کی طرف منسوب کرتا ہے، اب اگر تلاش و جستجو سے مولانا مرحوم کا کوئی دوسرا شاگرد بھی اس قول کا راوی نکل آتا ہے تو اسے محدثین کی اصطلاح میں ‘تابع’ کہتے ہیں، لیکن اگر کسی دوسری سند مثلاً مولانا سید نذیر حسین دہلوی کے واسطے سے اس قول کی تائید ہوجاتی ہے تو اسے ‘شاہد’ کہتے ہیں، اصول حدیث میں توابع و شواہد کی جستجو کا نام ‘اعتبار’ ہے۔محدثین کے ہاں اس ‘اعتبار’ کی بڑی قدروقیمت ہے۔ انہوں نے انتہائی کوشش اور جانفشانی سے ہزاروں روایات کے شواہد و توابع کو ڈھونڈھ نکالا ہے۔ اس لئے پورے وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ احکام و مسائل کے بارے میں شاید ہی ایسی کوئی منفرد روایت ہو جس کے توابع و شواہد کا کھوج محدثین نے نہ لگایا ہو۔ان شواہد و توابع، کی بنا پر بہت سی غریب یا حسن روایات گمان غالب سے بڑھ کر یقین کے درجہ تک پہنچ گئی ہیں۔
“طلوع اسلام” کا احادیث پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ اقوال منسوب الی الرسول کی دو قسمیں ہونی چاہئیں کہ آیا وہ صحیح ہے یا غلط؟ یہ کیا ہوا کہ کسی حدیث کو صحیح کہہ دیتے ہیں ، کسی کو حسن، کسی کو ضعیف ، کسی کو مترول وغیرہ وغیرہ۔
” طلو ع اسلام” کا یہ اعتراض لاعلمی پرمبنی ہے۔ کیونکہ قبولیت کے لحاظ سے احادیث کی دو ہی قسمیں ہیں۔ ایک مقبول دوسری مردود(“طلوع اسلام” کے الفاظ میں ایک صحیح اور دوسری غلط) پھر صحت و عدم صحت کے درجات کے لحاظ سے مقبول اور مردود احادیث کی کئی اقسام ہیں۔ جوفن حدیث کی وسعت اور تجرعلمی پر دلالت کرتی ہیں۔ اب جو لوگ ان علوم سے بے بہرہ ہوں یا ان سے کچھ دلچسپی نہیں رکھتے انہیں اس کی کیا قدر ہو سکتی ہے؟وہ اپنی لاعلمی کی بناہ پر ان اقسام پر اعتراض نہ کریں تو کیا کریں؟
حدیث مقبول کی اقسام:
1-متواتر2-مشہور3-عزیز4-غریب5-صحیح6-حسن7-محکم8-محفوظ9-معروف10-مُرسَل الصحابی11 -مختلف الحدیث12-ناسخ13-مُسَلَلُ التَّامُ
حدیث مردود کی اقسام:
1- موضوع2- متروک3- ضعیف4- مضطرب5- شاذ(محفوظ کی ضد)6- منکر(معروف کی ضد)7- مّعلَّل8- مُعضَل9- منقطع10- مقلوب11- منسوخ
12- مبہم13- مُرسَل الخَفیِ14- مُرسلُ التَابعینَ
ان اقسام کی تشریح و توضیح ہم پہلے ایک تحریر میں پیش کرچکے ہیں اس لنک سے ملاحظہ کی جاسکتی ہے ۔
اس تفصیل سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ محدثین نے اس فن کو کس حد کمال تک پہنچایا ہے ۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ حدیث کی حیثیت جانے بغیر کسی حدیث کو لے کر تمام ذخائر حدیث اور محدثین پر انگشت نمائی کرتے ہیں ، ایک حدیث جو خود محدیثین کے ہاں ضعیف اور موضوع ہوتی ہے اسکی بنیاد پر اشکالات و مفروضوں کے محل کھڑے کیے جارہے ہوتے ہیں اور اس سے وہ نتائج اخذ کیے جارہے ہوتے ہیں جو اسکے متعلق ہوتے ہی نہیں۔ ایسا کرنے والوں کو شاید یہ معلوم نہیں ہوتا یا وہ اپنے مخصوص نظریے کی اشاعت کے لیے ایسا کرتے ہیں کہ اِس امّت نے اوّل روز سے اِس بات کا اہتمام کیا تھا کہ جس ذات پاکؐ کے اقوال و افعال قانون کا درجہ رکھتے ہیں اس کی طرف کوئی غلط بات منسوب نہ ہونے پائے۔ صحیح و غلط روایات کی تمیز کا ایک عظیم الشان علم ترتیب دیا گیا جو مسلمانوں کے سِوا دنیا کی کسی قوم نے آج تک ایجاد نہیں کیا ۔سخت بد نصیب ہیں وہ لوگ جو اس علم کو حاصل کیے بغیر مغربی مستشرقین کے بہکائے میں آکر حدیث و سنت کو نا قابلِ اعتبار ٹھیراتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اپنی اِس جا ہلانہ جسارت سے وہ اسلام کو کتنا بڑا نقصان پہنچا رہے ہیں۔