اشکال: چندآیات سےاستدلال کہ قرآن ہی کی پیروی کاحکم ہے

اعتراض : جب قرآن میں حکم ہے کہ ” اتبعوا ما انزل اللہ الیکم من ربکم ولا تتبعو ا من دونہ اولیاء ( ۳ : ۷ ) صرف اس چیز کا اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نازل کی گئی ہے۔ اور اس کے علاوہ کسی ولی کا اتباع مت کرو۔پھر کسی اور کی پیرو کیوں ؟

جواب :

یہ بات درست ہے کہ قرآن مجید میں جہاں “نازل کرنے” کے ساتھ “کتاب” یا “ذکر” یا “فرقان” وغیرہ کی تصریح کی گئی ہے۔ صرف اسی جگہ ما انزل اللہ سے مراد قرآن ہے۔ لیکن کیا صرف اللہ نے کتاب ہی نازل فرمائی ؟ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ:

و انزل اللہ علیک الکتاب والحکمۃ و علّمک ما لم تکن تعلم (آیت: ۱۱۳)”اور اللہ نے تیرے اوپر نازل کی کتاب اور حکمت اور تجھے سکھایا وہ کچھ جو تو نہ جانتا تھا”

واذکروا نعمۃ اللہ علیکم و ما انزل علیکم من الکتاب والحکمۃ یعظکم بہ (آیت:۲۳۱) ” اور یاد رکھو اپنے اوپر اللہ کے احسان کو اور اس کتاب اور حکمت کو جو اس نے تم پر نازل کی ہے۔ اللہ تمہیں اس کا پاس رکھنے کی نصیحت فرماتا ہے”

اسی بات کو سورۂ احزاب میں دہرایا گیا ہے جہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر کی خواتین کو نصیحت فرمائی گئی ہے کہ:واذکرن ما یتلیٰ فی بیوتکن من ایٰت اللہ والحکمۃ (آیت:۳۴)

اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر کتاب کے علاوہ ایک چیز “حکمت” بھی نازل کی گئی تھی جس کی تعلیم آپ لوگوں کو دیتے تھے۔ اس کا مطلب آخر اس کے سوا کیا ہے کہ جس دانائی کے ساتھ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم قرآن مجید کی اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کام کرتے اور قیادت و رہنمائی کے فرائض انجام دیتے تھے، وہ محض آپ کی آزادانہ ذاتی قوتِ فیصلہ (Private Judgment) نہ تھی بلکہ یہ چیز بھی اللہ نے آپ پر نازل کی تھی۔ نیز یہ کوئی ایسی چیز تھی جسے آپ خود ہی استعمال نہ کرتے تھے بلکہ لوگوں کو سکھاتے بھی تھے (یعلمکم الکتاب و الحکمۃ)۔ اور ظاہر ہے کہ یہ سکھانے کا عمل یا تو قول کی صورت میں ہو سکتا تھا یا فعل کی صورت میں۔ اس لیے امت کو آنحضرتؐ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وہ دو چیزیں ملی تھیں۔ ایک کتاب۔ دوسری حکمت، حضورؐ کے اقوال میں بھی اور افعال کی صورت میں بھی۔

ان تصریحات کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن جب ہمیں دوسری سب چیزوں کو چھوڑ کر صرف ما انزل اللہ کی پیروی کرنے کا حکم دیتا ہے تو اس سے مراد محض قرآن ہی کی پیروی نہیں ہوتی بلکہ اس حکمت اور نور اور اس میزان کی پیروی بھی ہوتی ہے جو قرآن کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل کی گئی تھی اور جس کا ظہور لا محالہ حضورؐ کی سیرت و کردار اور حضورؐ کے اقوال و افعال ہی میں ہو سکتا تھا۔ اسی لیے قرآن کہیں یہ کہتا ہے کہ ما انزل اللہ کی پیروی کرو (مثلاً آیت ۳۰۷ میں) اور کہیں یہ ہدایت کرتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کرو (مثلاً آیات ۳۱:۳۔ ۳۳، ۲۱ اور ۱۵۶:۷ میں)۔ اگر یہ دو مختلف چیزیں ہوتیں تو ظاہر ہے کہ قرآن کی ہدایات متضاد ہو جاتیں۔

اعتراض:”

ان تمام اعمال میں جو حضورﷺ نے ۲۳ سالہ پیغمبرانہ میں کیے وہ اسی ما انزل اللہ کا جو کتاب اللہ میں موجود ہے ، اتباع کرتے تھے اور امت کو بھی یہی حکم ملا کہ اسی کا اتباع کرے۔ جہاں اتبعوا ما انزل اللہ الیک من ربکم ( ۳ : ۷ ) وہاں یہ بھی اعلان ہوا کہ حضورﷺ بھی اسی کا اتباع کرتے ہیں۔ قل ان اتبع ما یو حٰی الی من ربی ( ۷ : ۲۳) ۔ نہ معلوم آپ کن وجوہات کی بنا پر کتاب اللہ کے قانون کو نامکمل قرار دیتے ہیں”۔

تبصرہ:

آپ یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر صرف وہی وحی آتی تھی جو قرآن میں موجود ہے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو صرف اسی کی پیروی کا حکم تھا۔ حالانکہ خود قرآن سے یہ ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر قرآن کے علاوہ بھی وحی کے ذریعہ سے احکام نازل ہوتے تھے ۔تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے ہماری تحریر” کیا حضور ﷺ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی؟ پھر ‘قل ان اتبع ما یوحی الی ‘بذات خود حدیث کے الہامی ہونے کی دلیل ہے ، یہ واضح کرتی ہے کہ حضور ﷺ کی ہر بات وحی کے تابع ہوتی تھی ۔

دوسری بات آپ یہ فرماتے ہیں کہ امت کو صرف قرآن کی پیروی کا حکم ہے حالانکہ قرآن یہ کہتا ہے کہ امت کو رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کا حکم بھی ہے:

قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ (آل عمران:31)”اے نبی کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میرا اتباع کرو، اللہ تم سے محبت فرمائے گا (آل عمران:31)”۔

ورحمتی وسعت کل شئ فساکتبھاللذین یتقون ویؤتون الزکوٰۃ والذین ہم باٰیتنا یؤمنون الذین یتبعون الرسول النبی الامی الذی یجودنہ مکتوباً عندھم فی التوراۃ االانجیل (الاعراف : 156-157) “میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے اور اس رحمت کو میں ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو تقویٰ کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں، جو پیروی کرتے ہیں اس رسولِ نبیِ اُمی کی جس کا ذکر وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں (الاعراف:156-157)”۔

ان آیات میں رسول کی پیروی کرنے کے حکم کو تاویل کے خراد پر چڑھا کر یہ معنی نہیں پہنائے جا سکتے کہ اس سے مراد دراصل قرآن کی پیروی ہے۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں، اگر واقعی مقصود یہی ہوتا کہ لوگ رسول کی نہیں بلکہ قرآن کی پیروی کریں تو آخر کیا وجہ ہے کہ آیت نمبر 1 میں اللہ تعالیٰ نے فاتبعوا کتاب اللہ کہنے کے بجائے فاتبعونی کے الفاظ استعمال فرمائے؟ کیا آپ کی رائے میں یہاں اللہ میاں سے چوک ہو گئی ہے؟پھر آیت نمبر2میں تو اس تاویل کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ اس میں آیات خداوندی پر ایمان لانے کا ذکر الگ ہے اور نبی امی صلی اللہ علیہ و سلم کے اتباع کا ذکر الگ۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے فرائض رسالت کی جو تفصیل بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ آپ اللہ کی کتاب پہچانے والے ہیں۔ اس کتاب کی تشریح و توضیع کرنے والے ہیں، اس کے مطابق کام کرنے کی حکمت سکھانے والے ہیں، افراد اور جماعت کا تزکیہ کرنے والے ہیں، مسلمانوں کے لیے نمونۂ تقلید ہیں، وہ رہنما ہیں جس کی پیروی خدا کے حکم سے واجب ہے، امر و نہی اور تحلیل و تحریم کے اختیارات رکھنے والے شارع (Law Giver) ہیں، قاضی ہیں اور حاکم مطاع ہیں۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ یہ تمام مناصب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو رسول ہونے کی حیثیت سے حاصل تھے اور منصب رسالت پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مامور ہونے کا مطلب ہی یہ تھا کہ آپ ان مناصب پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور کیے گئے۔ اس باب میں قرآن کے واضح ارشادات میں پہلے نقل کر چکا ہوں جنہیں دہرانے کی حاجت نہیں۔

کیا کتاب اللہ کا قانون نامکمل تھا؟

یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے جو علم قانون کے ایک مسلم قاعدے کو نہ سمجھنے کی وجہ سے آپ کو لاحق ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں یہ قاعدہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ قانون سازی کا اختیار اعلیٰ جس کو حاصل ہو وہ اگر ایک مجمل حکم دے کر یا ایک عمل کا حکم دے کر، یا ایک اصول طے کر کے اپنے ماتحت کسی شخص یا ادارے کو اس کی تفصیلات کے بارے میں قواعد و ضوابط مرتب کرنے کے اختیارات تفویض کر دے تو اس کے مرتب کردہ قواعد و ضوابط قانون سے الگ کوئی جز نہیں ہوتے بلکہ اسی قانون کا ایک حصہ ہوتے ہیں۔ قانون ساز کا اپنا منشا یہ ہوتا ہے کہ جس عمل کا حکم بھی میں نے دیا ہے، ذیلی قواعد بنا کر اس پر عمل درآمد کا طریقہ مقرر کر دیا جاۓ، جو اصول اس نے طے کیا ہے اس کی مطابق مفصل قوانین بنائے جائیں اور جو مجمل ہدایت اس نے دی ہے اس کے منشا کو تفصیلی شکل میں واضح کر دیا جائے۔ اسی غرض کے لیے وہ خود اپنے ماتحت شخص یا اشخاص یا اداروں کو قواعد و ضوابط مرتب کرنے کا مجاز کرتا ہے۔یہ ذیلی قواعد بلاشبہ اصل ابتدائی قانون کے ساتھ مل کر اس کی تشکیل و تکمیل کرتے ہیں۔ مگر اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ قانون ساز نے غلطی سے ناقص قانون بنایا تھا اور کسی دوسرے نے آ کر اس کا نقص دور کیا بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ قانون ساز نے اپنے قانون کا بنیادی حصہ خود بیان کیا اور تفصیلی حصہ اپنے مقرر کیے ہوۓ ایک شخص یا ادارے کے ذریعے سے مرتب کرا دیا۔

حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے تشریعی کام کی نوعیت:

اللہ تعالیٰ نے اپنی قانون سازی میں یہی قاعدہ استعمال فرمایا ہے۔ اس نے قرآن میں مجمل احکام اور ہدایات دے کر، یا کچھ اصول بیان کر کے، یا اپنی پسندو ناپسند کا اظہار کر کے یہ کام اپنے رسول ﷺ کے سپرد کیا کہ وہ نہ صرف لفظی طور پر اس قانون کی تفصیلی شکل مرتب کریں بلکہ عملاً اسے برت کر اور اس کے مطابق کام کر کے بھی دکھا دیں۔ یہ تفویضِ اختیارات کا فرمان خود قانون کے متن (یعنی قرآن مجید) میں موجود ہے۔

“اور (اے نبی) ہم نے یہ ذکر تمہاری طرف اس لیے نازل کیا ہے کہ تم لوگوں کے لیے واضح کر دو اس تعلیم کو جو ان کی طرف اتاری گئی ہے۔(النمل:44)

اس صریح فرمانِ تفویض کے بعد آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قولی اور عملی بیان، قرآن کے قانون سے الگ کوئی چیز ہے۔ یہ درحقیقت قرآن ہی کی رو سے اس کے قانون کا ایک حصہ ہے۔ اس کو چیلنج کرنے کے معنی خود قرآن کو اور خدا کے پروانۂ تفویض جو چیلنج کرنے کے ہیں۔یہ اگرچہ آپ کے نکتے کا پورا جواب ہے، لیکن میں مزید تفہیم کی خاطر چند مثالیں دیتا ہوں جن سے آپ یہ سمجھ سکیں گے کہ قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شرح و بیان کے درمیان کس قسم کا تعلق ہے۔

1. قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا کہ وہ پاکیزگی کو پسند کرتا ہے۔ واللہ یحب المطھرین (التوبہ:10) اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت کی کہ اپنے لباس کو پاک رکھیں۔ وثیابک فطھر (المدثر:4) حضور ﷺ نے اس منشا پر عمل درآمد کے لیے استنجا اور طہارتِ جسم و لباس کے متعلق مفصل ہدایات دیں اور ان پر خود عمل کر کے بتایا۔

2. قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اگر تم کو جنابت لاحق ہو گئی تو پاک ہوۓ بغیر نماز نہ پڑھو (النساء:43، المائدہ:6)۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تفصیل کے ساتھ بتایا کہ جنابت سے کیا مراد ہے۔ اس کا اطلاق کن حالتوں پر ہوتا ہے اور کن حالتوں پر نہیں ہوتا اور اس سے پاک ہونے کا طریقہ کیا ہے۔

3. قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنا منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھولو، سر پر مسح کرو اور پاؤں دھوؤ، یا ان پر مسح کرو (المائدہ:6) نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا کہ منہ دھونے کے حکم میں کلی کرنا اور ناک صاف کرنا بھی شامل ہے۔ کان سر کا ایک حصہ ہیں اور سر کے ساتھ ان پر بھی مسح کرنا چاہئیے۔ پاؤں میں موزے ہوں تو مسح کیا جائے اور موزے نہ ہوں تو ان کو دھونا چاہیے۔ اس کے ساتھ آپ نے تفصیل کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ وضو کن حالات میں ٹوٹ جاتا ہے اور کن حالات میں باقی رہتا ہے۔

4. قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ روزہ رکھنے والا رات کو اس وقت تک کھا پی سکتا ہے جب تک فجر کے وقت کالا تاگا سفید تاگے سے ممیز نہ ہو جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا کہ اس سے مراد تاریکیِ شب کے مقابلہ میں سپید ۂ صبح کا نمایاں ہونا ہے۔

5. قرآن میں اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے کی چیزوں میں بعض اشیاء کے حرام اور بعض کے حلال ہونے کی تصریح کرنے کے بعد باقی اشیاء کے متعلق یہ عام ہدایت فرمائی کہ تمہارے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کی گئی ہیں (المائدہ:4) نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے قول اور عمل سے اس کی تفصیل بتائی کہ پاک چیزیں کیا ہیں جنہیں ہم کھاسکتے ہیں اور ناپاک چیزیں کون سی ہیں جن سے ہم کو بچنا چاہیے۔

6. قرآن میں اللہ تعالیٰ نے وراثت کا قانون بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر میت کی نرینہ اولاد کوئی نہ ہو اور ایک لڑکی ہو تو وہ نصف ترکہ پائے گی اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زائد لڑکیاں ہوں تو ان کو ترکے کا دو تہائی حصہ ملے گا (النساء:11)۔ اس میں یہ بات واضح نہ تھی کہ اگر دو لڑکیاں ہوں تو وہ کتنا حصہ پائیں گی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے توضیح فرمائی کہ دو لڑکیوں کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا دو سے زائد لڑکیوں کا مقرر کیا گیا ہے۔

7. قرآن میں اللہ تعالیٰ نے دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں جمع کرنے سے منع فرمایا (النساء:23)۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا کہ پھوپھی، بھتیجی اور خالہ بھانجی کو جمع کرنا بھی اسی حکم میں داخل ہے۔

8. قرآن مردوں کو اجازت دیتا ہے کہ دو دو، تین تین ، چار چار عورتوں سے نکاح کر لیں (النساء:3) یہ الفاظ اس معاملہ میں قطعاً واضح نہیں ہیں کہ ایک مرد بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں نہیں رکھ سکتا۔ حکم کے اس منشاء کی وضاحت نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمائی اور جن لوگوں کے نکاح میں چار سے زائد بیویاں تھیں ان کو آپ نے حکم دیا کہ زائد بیویوں کو طلاق دے دیں۔

9. قرآن حج کی فرضیت کا عام حکم دیتا ہے اور یہ صراحت نہیں کرتا کہ اس فریضہ کو انجام دینے کے لیے آیا ہر مسلمان کو ہر سال حج کرنا چاہیے یا عمر میں ایک بار کافی ہے، یا ایک سے زیادہ مرتبہ جانا چاہیے (آل عمران:97)۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی تشریح ہے جس سے ہم کو معلوم ہوا کہ عمر میں صرف ایک مرتبہ حج کر کے آدمی فریضۂ حج سے سبکدوش ہو جاتا ہے۔

10. قرآن سونے اور چاندی کے جمع کرنے پر سخت وعید فرماتا ہے۔ سورۂ توبہ کی آیت 34 کے الفاظ ملاحظہ فرما لیجئے۔ اس کے عموم میں اتنی گنجائش بھی نظر نہیں آتی کہ آپ روز مرہ کے خرچ سے زائد پیسہ بھی اپنے پاس رکھ سکیں، یا آپ کے گھر کی خواتین کے پاس سونے یا چاندی کا ایک تار بھی زیور کے طور پر رہ سکے۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہی ہیں جنہوں نے بتایا کہ سونے اور چاندی کا نصاب کیا ہے اور بقدر نصاب یا اس سے زیادہ سونا چاندی رکھنے والا آدمی اگر اس پر ڈھائی فی صدی کے حساب سے زکوٰۃ ادا کر دے تو وہ قرآن مجید کی اس وعید کا مستحق نہیں رہتا۔

ان چند مثالوں سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کے تفویض کردہ تشریعی اختیارات کو استعمال کر کے قرآن کے احکام و ہدایات اور اشارات و مضمرات کی کس طرح شرح و تفسیر فرمائی ہے۔ یہ چیز چونکہ خود قرآن میں دئیے ہوئے فرمانِ تفویض پر مبنی تھی اس لیے یہ قرآن سے الگ کوئی مستقل بالذات نہیں ہے بلکہ قرآن کے قانون ہی کا ایک حصہ ہے۔