کیاذخیرہ احادیث کی حیثیت محض تاریخ کی سی ہے؟

ایک فیس بکی’ مفکر’ المعروف قاری صاحب لکھتے ہیں:

“حدیث کے سارے مجموعے تاریخ اسلام سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے،، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی 95٪ انہی راویوں کی روایات 12 جلدوں میں تاریخِ بخاری کہلاتی ھیں جبکہ 13 ویں جلد صحیح بخاری کہلاتی ہے- ہیں سب تاریخ تاریخِ اسلام اور شخصیات کی بائیو گرافی یعنی کہ ہسٹری آف اسلام اکارڈنگ ٹو محمد اسماعیل بخاری ۔”

تبصرہ :

یہ بات موصوف نے مشہور منکرحدیث اسلم جیراج پوری اور غلام احمد پرویز سے لی۔ دارہ” طلوع اسلام” کی طرف سے اکثر وبیشتر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ذخیرہ احادیث کی حیثیت محض تاریخ کی سی ہے۔ زیادہ سے زیادہ اس کو “دینی تاریخ” کہا جاسکتا ہے لیکن یہ دین نہیں ہوسکتا۔ اس پر دلیل بھی دی جاتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب( جو آج کل صحیح البخاری کے نام سے موسول ہے) کا نام رکھا تھا””.الجامع الصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وایامہ”(مقام حدیث)

لطف کی بات یہ ہے کہ اس نام میں امور اور ایام کے الفاظ پر خاصا زور دیا جاتا ہے کیونکہ ان الفاظ سے تاریخ ہونا ثابت ہوتا ہے۔ لیکن دوسرے الفاظ جو حدیث کو تاریخ سے بلند تر مرتبہ پر فائز کرتے ہیں۔ ان کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس نام پر غور کرنے سے تاریخ اور حدیث کا فرق بہت حد تک واضح ہوجاتا ہے جو کچھ اس طرح ہے:

1- الجامع:

محدثین کی اصلاح میں”الجماع” کا لفظ اس مجموعہ حدیث کے لیے بولا جاتا ہے کہ جو زندگی کے جملہ پہلووں کو محیط ہو۔ تاریخ کا میدان یہ ہے کہ مؤرخ کسی بادشاہ یا علاقہ کے سیاسی حالات کو قلمبند کرے پھر اس میں ضمناً کچھ نہ کچھ معاشی اور معاشرتی پہلوؤں کا ذکر بھی آجاتا ہے۔لیکن” الجامع” کا میدان اس سے بہت زیادہ وسیع ہے۔ وہ عقائد واعمال ، اخلاق وعادات ، معیشت ومعاشرت ، اکتساب ومعاملات حتی کہ مابعد الطبیعات تک کے مسائل مثلاً حشرنشر، مکافات عمل اور جنت و دوزخ تک سب کو محیط ہے۔

2- الصحیح:

یہ کتاب” الصحیح” بھی ہے۔ محدثین کی اصطلاح میں صحیح حدیث وہ ہے جس کے تمام راوی ثقہ یعنی عادل و ضابط ہوں۔ پھر ان تمام راویوں میں اتصال ہو اور وہ حدیث کسی دوسری صحیح حدیث سے متصادم بھی نہ ہو۔

اب دنیا بھر کی کوئی تاریخ کی کتاب اٹھا کر دیکھئے ۔ ان کے مؤرخین نے لکھتے وقت ایسی کسی ایک شرط کی بھی پابندی کی ہے؟

3.المختصر:

کا مطلب یہ ہے کہ بخاری میں ان جملہ احادیث صحیحہ کو درج نہیں کیا گیا، جو امام بخاری کی شرائط پر پوری اترتی تھیں۔ جتنی احادیث سے سیرت طیبہ کے جملہ پہلوؤں پر روشنی پڑسکتی ہے یا ان سے شرعی مسائل کا استنباط کیا جاسکتا ہے۔ اتنی ہی درج کی گئی ہیں۔ طوالت سے بچنے کی خاطر”تکرار برائے تکرار” کے اصول کو نہیں اپنایا گیا۔

4.من امور رسول اللہﷺ:

یعنی اس کتاب میں صرف ایک ہستی یعنی محمد رسول اللہﷺ سے متعلق ہر پہلو پرروشنی ڈالنے والی احادیث کو جمع کیا گیا ہے۔

یہاں سے تاریخ کا میدان پھر حدیث سے الگ ہوجاتا ہے۔ تاریخ میں کسی ملک کے ایک طویل دور کی داستان قلمبند کی جاتی ہے۔ علاقہ وسیع، مدت طویل اور مؤرخ ایک شخص یا دو یا چند اشخاص پر مشتمل ادارہ۔ لیکن حدیث میں صرف اور صرف ایک شخص کی ذات کے جملے پہلوؤں کو قلمبند کیا جاتا ہے۔ اور اس تاریخ ساز ہستی کے ابتدائی مؤرخین(محدثین) کی تعداد کم از کم چار ہزار(4000) ہے۔ جو آپ کی ایک ایک بات کی تحقیق کے لیے مہینوں کا سفر گوارا کرلیتے، مصائب جھیلتے اور بے دریغ مال ودولت صرف کرتے ہیں۔ پھر ان مؤرخین میں جہاں مرد ہیں وہاں عورتیں بھی ہیں۔ جن کی وجہ سے آپ کی خانگی زندگی کا کوئی گوشہ پس پردہ نہیں رہ گیا۔ یہی صورت تھی جس کی وجہ سے آپ نے فرمایا تھا:((.جئت بدین بیضاء لیلھا کنھارھا.))<17>undefinedیعنی”میں ایسا روشن دین لے کر آیا ہوں۔ جس کی رات بھی اسی طرح تابناک ہے۔ جس طرح اس کا دن۔”

اب بتلایے! آپ کی ہستی کے سوا دنیا کا کوئی انسان: خواہ وہ پیغمبر ہو یا بادشاہ، جرنیل ہو یا فاتح ، ایسا ہے جس کی سوانح حیات اس انداز میں لکھی گئی ہو؟ یقیناً ایسی کوئی تاریخ نہ آپﷺ سے پہلے مرتب ہوئی اور نہ ہی آئندہ تاقیامت ہوسکتی ہے۔ پھر حدیث اور تاریخ کا درجہ ایک جیسا کیونکہ ہوسکتا ہے؟

5.واسننہ وایامہ:

“ایامہ” کے الفاظ سے گو بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ یا اسلام کے ابتدائی دور کی تاریخ ہے۔ جب اس لفظ کو “سننہ” کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض اسلام کے ابتدائی دور کی تاریخ نہیں۔ صرف عرب کے علاقہ کی بھی نہیں۔ صرف اس دور کی بھی نہیں بلکہ کتب احادیث میں جملہ نوع انسانیت کے لیے اور قیامت تک کے لیے ضابطہ حیات کے اصول بیان کیے گئے ہیں۔ اسی وجہ سے اس تاریخ نویسی میں ایسی کڑی شرائط کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔

تاریخ اور حدیث کا تقابل

1-تاریخ کی بنیاد افواہوں پر رکھی جاتی ہے۔ جنٰ سے بعد میں قرائن و قیاسات سے ترتیب دے کر تاریخ مرتب کری جاتی ہے۔

جبکہ: حدیث کا مواد عینی شاہدوں کے بیانات پر مشتمل ہوتاہے۔ ان شاہدوں میں کچھ ایسے بھی تھے جو سفر و حضر غرض یہ کہ ہر وقت آپ ﷺ کے ساتھ اور آپﷺ کے صحبت میں رہتے تھے۔ مثلاًً: سیدنا انس، سیدنا ابوہریرہ ، سیدنا عبد للہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ۔

2-مؤرخ کا صاحبِ تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

جبکہ:محدثین کاصاحب حدیث سے گہرا قلبی لگاؤ ہونا ضروری ہے۔

3-مؤرخ کے ذاتی کردار کو کبھی زیر بحث نہیں لایا جاتا۔

جبکہ:محدثین کا قبل اعتماد ہونا ضروری شرط ہے اور سب سے پہلے راوی کا کردار ہی زیر بحث لایا جاتا ہے۔

4-تاریخ کا تعلق کسی خاص ملک اور خاص دور سے ہوتا ہے۔

جبکہ:حدیث کا تعلق تمام نوع انسانیت سے ہے اور قیامت تک کے لیے ہے۔

5-تاریخ میں کسی حکمران اور اس کے قبیلہ (یا اس کی کابینہ) کے حالات قلم بند کیے جاتے ہیں۔

جبکہ:ابتدائی راویوں کے تعداد چار ہزار(4000) ہے۔ پھر بعد میں اس سلسلہ میں منسلک ہونے والے بھی شامل کیے جائیں تو یہ تعداد لاکھوں تک جا پہنچتی ہے۔

6-مؤرخین کی تعداد کم اور حلقہ تحقیق زیادہ ہونے کی وجہ سے اکثر غلطیوں کا امکان ہوتاہے۔

جبکہ:محدثین کی تعداد کثیر اور حلقہ تحقیق صرف ایک ہستی ہونے کی وجہ سے غلطی کا امکان بہت کم رہ جاتا ہے۔ پھر ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی لکھی ہوئی احادیث کی رسول اللہﷺ سے تصحیح وتصویب بھی کرالی تھی۔

7-مؤرخ کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ وضاحت کرے کہ اس نے یہ مواد کن ذرائع سے حاصل کیا ہے۔ تاکہ دیکھا جاسکے کہ آیا وہ ذرائع قابل اعتماد بھی ہیں یا نہیں؟

جبکہ:محدث کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ ان تمام ذرائع اور اسانید کا ذکر کرے، پھر ان ذرائع کا بھی قابل اعتماد ہونا ضروری ہوتا ہے۔

8-تاریخ کا میدان صرف کسی علاقہ میں مخصوص دور کے سیاسی نظام کو قلمبند کرنا ہے ۔ پھر اس میں اس دور کی تہذیب وتمدن پر بھی کچھ روشنی پڑجاتی ہے۔

جبکہ:حدیث کا میدان اس سے بہت زیادہ وسیع ہے۔ پر وہ بات جس کا تعلق رسول اللہﷺ کی ذات سے ہو، وہی اس کا میدان ہے۔ پھر ان ابتدائی محدثین میں چونکہ عورتیں بھی شامل ہیں۔ لہٰذا ٓپ کی خانگی زندگی کا ہر گوشہ سامنے آجاتا ہے۔

9-تاریخ نویسی میں مؤرخ کے ذاتی اور قومی رجحانات کو بڑا دخل ہے۔ لہٰذا ہر دور میں کسی مخصوص علاقہ کی تاریخ موڑ توڑ کر پیش کی جاتی ہے۔

جبکہ:حدیث کے معاملہ میں صورت حال یہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ جہاں محدثین کی تعداد کی یہ کثرت ہو اور ان میں ملک ملک کے باشندے شامل ہوں تو ایسے احتمالات ختم ہوجاتے ہیں۔

10-تاریخ کے سلسلہ میں غلط بیانی اور غلط نویسی پر کوئی قدغن نہیں ہوتی ۔ لہٰذا مؤرخ اپنی رائے کے مطابق بات کرنے میں آزاد ہوتا ہے۔

جبکہ:حدیث کے معاملہ میں غلط بیانی کی صورت میں جہنم کی وعید کی تلوار ہر وقت سر پر لٹکتی رہتی ہے۔ لہٰذا محدث پوری حزم و احتیاط اور ثوق سے بات کہتا ہے، یا پھر چپ رہتا ہے۔

11– تاریخ لکھنے والے مؤرخ یا ادارے معقول معاوضے پاتے ہیں اور حکومتوں کا اس تاریخ تویسی پر لاکھوں روپیہ خرچ ہوتا ہے۔

جبکہ:محدثین کا کچھ لینا تو درکنار ۔ انھوں نے اپنا تن ، من، دھن سب کچھ اس راستہ پر نثار کردیا۔

ذرا غور فرمایے! جن معیاروں پر اس اسوہ حسنہ کو کس کر پیش کیا گیا ہے۔ کیا دنیا کی کوئی دوسری کتاب اس کا مقابلہ کرسکتی ہے؟ تاریخ تو درکنار انجیل تک کا یہ حال ہے کہ اس کے ابتدائی راوی صرف چار (4) ہیں۔ پھر انھوں نے بھی خود قلمبند نہیں کی۔ بلکہ بعد میں آنے والے شاگردوں نے کی۔سلسلہ اسناد کا کوئی ذکر نہیں۔ روایت اور درایت کا کوئی میعار نہیں۔ تورات قوم موسیٰ کو لکھی لکھائی مل گئی۔ جو بعد میں دو دفعہ ضائع ہوئی ۔ پھر سینکڑوں سال بعد دوبارہ ضبط تحریر میں لائی گئی۔ ان دونوں کتابوں میں قرآن کی روح سے تحریف بھی ثابت ہے۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کتابوں سے کبھی اتنا بدظن نہیں کیا۔ جتنا ہمارے یہ کرم فرما ہمیں اس ذخیرہ حدیث سے بدظن کرنا چاہتے ہیں جو انسان کی ممکنہ کوششوں کی حد تک مُنقَّح (غلطیوں سے پاک) کردیا گیا ہے۔

تاریخی ذخائر سے حدیث کے امتیازات پر مشتمل ایک تحریر ہم پہلے بھی پیش کرچکے ہیں جو اس لنک سے دیکھی جاسکتی ہے۔