جواب:
انبیاءسابقین پر کتاب الٰہی کے علاوہ بھی وحی نازل ہوتی تھی۔ چند مثالیں پیش ہیں :
آدم علیہ السلام:
اللہ تعالی فرماتا ہے:
قَالَ يٰٓاٰدَمُ اَنْۢبِئْھُمْ بِاَسْمَاۗىِٕہِمْ (بقرہ:۳۳)اے آدم فرشتوں کو ان کے نام بتادو۔
پھر ارشاد فرمایا:
وَقُلْنَا يٰٓاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّۃَ (بقرۃ:۳۵)اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور خوب کھاؤ جہاں سے جی چاہے مگر اس درخت کے قریب نہ جانا۔
لیکن شیطان کے بہکانے سے انہوں نے اس درخت میں سے کھا لیا۔
وَعَصٰٓى اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰى(طہ:۱۲۱)آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور بہک گئے۔
فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ﴿٣٧﴾ قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿٣٨﴾ (بقرۃ)۔
آدم علیہ السلام کو ان کے رب کی طرف سے چند کلمات سکھائے گئے پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول کی۔ بیشک اللہ تواب اور رحیم ہے۔ ہم نے کہا: تم سب یہاں سے اترو، پھر جب کبھی تمہارے پاس میری ہدایت آئے تو جس نے میری ہدایت کی پیروی کی تو وہ بے خوف و بےغم ہو گا۔
آدم علیہ السلام جنت سے اتارے جاتے ہیں۔ اس وقت کتاب ہدایت بھیجنے کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ گویا ابھی تک کتاب نہیں آئی تھی لیکن اللہ تعالی آدم علیہ السلام سے باتیں کرتا تھا۔ حتی کہ اس کتاب سے پہلے اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو چند کلمات بھی سکھائے تھے جن کے ذریعہ سے ان کی توبہ قبول ہوئی۔ ثابت ہوا کہ کتاب اللہ کے علاوہ بھی آدم علیہ السلام پر وحی آتی تھی۔
موسی علیہ السلام :
اللہ تعالی فرماتا ہے:
فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِيَ يَا مُوسَىٰ ﴿١١﴾ إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ۖ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى ﴿١٢﴾ جب موسی علیہ السلام آگ کے پاس پہنچے تو ان کو پکارا گیا: اے موسیٰ! میں تمہارا رب ہوں، اپنی جوتیاں اتار دے۔
فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوحَىٰ ﴿١٣﴾ سن جو کچھ وحی کی جا رہی ہے۔
وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي ﴿١٤﴾ میرے ذکر کے لئے نماز قائم کرو۔
پھر اللہ تعالی نے پوچھا:
وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَا مُوسَىٰ ﴿١٧﴾ اے موسیٰ: تیرے ہاتھ میں یہ کیا ہے؟
پھر عصا اور ید بیضاء کے معجزات عطا ہوئے۔ پھر ارشاد ہوا:
اذْهَبْ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَىٰ ﴿٢٤﴾ فرعون کے پاس جا۔ وہ بہت سرکش ہو گیا ہے۔
الغرض موسیٰ علیہ السلام فرعون کو تبلیغ کرتے ہیں۔ جادوگروں سے مقابلہ ہوتا ہے اس موقع پر پھر اللہ تعالی نے فرمایا:
لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنتَ الْأَعْلَىٰ ﴿٦٨﴾(طہ:۶۸) ڈرو مت تم ہی غالب رہو گے۔
پھر موسیٰ علیہ السلام وہاں سے ہجرت کرتے ہیں۔ فرعون غرق ہو جاتا ہے موسی علیہ السلام وادی سینا میں تشریف لے آتے ہیں۔ پھر اس موقع پر ان کو کتاب دی جاتی ہے۔ :
وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الْأَلْوَاحِ مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَتَفْصِيلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَأْمُرْ قَوْمَكَ يَأْخُذُوا بِأَحْسَنِهَا ۚ ۔۔۔۔﴿١٤٥﴾ (سورۃ الاعراف)
اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام کے لئے ہر قسم کے نصائح اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی اور حکم دیا کہ اس کو قوت کے ساتھ پکڑو اور اپنی قوم کو حکم کرو کہ ان اچھی باتوں پر عمل کرے۔
اس کے بعد موسیٰ علیہ السلام قوم کے پاس واپس آئے اور بچھڑا پوجنے کی وجہ سے ان پر اتنا غصہ آیا کہ وہ تختیاں زمین پر پٹخ دیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَاَلْقَى الْاَلْوَاحَ (الاعراف:۱۵۰) اور تختیاں پٹخ دیں
وَلَمَّا سَكَتَ عَنْ مُّوْسَى الْغَضَبُ اَخَذَ الْاَلْوَاحَ (الاعراف:۱۵۴)
اور جب موسیٰ علیہ السلام کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا تو تختیاں اٹھا لیں۔
کتاب تو اب ملی ہے لیکن اس سے پہلے اللہ تعالی موسیٰ علیہ السلام پر بےشمار مرتبہ وحی کر چکا تھا۔ کتاب دینے کے بعد فرمایا: اسے مضبوطی سے پکڑو اور تو اور کتاب جب نازل ہوئی تو ایسی کہ اس میں ہر قسم کی نصیحت اور ہر طرح کی تفصیل تھی لیکن اس کے بعد بھی وحی جاری رہی۔ موسیٰ علیہ السلام ستر آدمیوں کو کوہِ طور پر لے جاتے ہیں۔ یہ لوگ اللہ تعالی کو دیکھنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایک بجلی آتی ہے اور سب مر جاتے ہیں۔ موسی علیہ السلام دعا کرتے ہیں تو جواب ملتا ہے:
۔۔۔۔عَذَابِي أُصِيبُ بِهِ مَنْ أَشَاءُ ۖ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۔۔۔﴿١٥٦﴾(سورۃ الاعراف:۱۵۶) میں اپنا عذاب پہنچاتا ہوں جس کو چاہتا ہوں اور میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر لیا ہے۔
الغرض کتاب الٰہی سے پہلے بھی وحی جاری ہے، اور کتاب الٰہی کے بعد بھی وحی جاری ہے۔
خلاصہ: اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام سے مختلف مواقع پر گفتگو فرمائی جس کا خلاصہ یہ ہے، اے موسیٰ یہ مقدس وادی ہے جوتے اتار دو، یہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟ اسے زمین پر ڈال دو، ڈرو نہیں، میرے پاس رسول ڈرا نہیں کرتے۔ ا کو اٹھا لو، یہ پھر لاٹھی بن جائے گا۔ ہاتھ کو جیب میں ڈالو۔ فرعون کے پاس جاؤ۔ اس سے نرمی سے بات کرنا۔ انہوں نے جواب دیا ڈر لگتا ہے۔ کہیں وہ قتل نہ کر دے۔ دعا کی مجھے ایک وزیر چاہیے۔ میری زبان صاف نہیں۔ اس کی اصلاح فرمایئے۔ جواب ملا: اچھا یہ باتیں قبول۔ وغیرہ وغیرہ۔ حکم ملا گائے کو ذبح کرو۔ قوم نے طرح طرح کے بےہودہ سوالات کئے اللہ تعالی جواب دیتا رہا۔ غرض یہ کہ اس قسم کی بہت سی باتیں ہیں جو کہ قرآن میں مذکور ہیں۔ برق صاحب انصاف سے بتائیے کیا یہ سب باتیں اس کتاب الٰہی میں موجود تھیں۔ جو موسیٰ علیہ السلام کو دی گئی تھی۔
یوسف علیہ السلام:
ارشاد باری ہے:
فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهِ وَأَجْمَعُوا أَن يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هَـٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ﴿١٥﴾ (سورۃ یوسف)
جب وہ یوسف علیہ السلام کو لے کر چلے اور اس بات پر اتفاق کیا کہ ان کو کنویں میں ڈال دیا جائے تو ہم نے یوسف کو وحی بھیجی کہ تم ان کو اس کام کی خبر دو گے اور وہ نہ سمجھتے ہوں گے۔
یوسف علیہ السلام ابھی بچے ہیں لیکن وحی آرہی ہے ۔
دیگر انبیاء کرام سے اللہ تعالیٰ کی گفتگو:
اللہ تعالیٰ کے فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس پہنچتے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوط علیہ السلام کی قوم کی طرف عذاب الٰہی کے ساتھ بھیجے گئے ہیں۔ آگے ارشاد ہوتا ہے۔ يُجَادِلُنَا فِيْ قَوْمِ لُوْطٍ۷۴ۭ (سورۃ ھود) ابراہیم قوم لوط کے بارے میں ہم سے جھگڑنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا: اے ابراہیم اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا (سورۃ ھود:۷۶) اس بات کو جانے دو۔ کیا ابراہیم علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ سے مجادلہ، اور سوال و جواب صحف ابراہیم میں موجود تھا۔؟
زکریا علیہ السلام دعا کرتے ہیں۔ اے اللہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں، مجھے فرزند عنایت فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اچھا تمہارے ہاں لڑکا ہو گا جس کا نام یحییٰ ہو گا اور یہ نام پہلے کسی کا نہیں ہوا۔ پوچھا اے اللہ! کیسے ہو گا؟ میں بوڑھا ہوں۔ میری بیوی بانجھ ہے۔ جواب ملا: یہ میرے لئے آسان ہے، عرض کیا: اے اللہ! اس کی نشانی مقرر فرما دے۔ جواب دیا اس کی نشانی یہ ہے کہ تین رات تک بات نہ کر سکو گے (مریم:۳۰)۔ کیا یہ باتیں حضرت زکریا علیہ السلام کی کتاب میں موجود تھیں۔؟
نتیجہ
: قرآن مجید کے محولہ بالا واقعات سے ثابت ہوا کہ انبیاء علیہم السلام کے پاس کتاب الٰہی کے علاوہ بھی وحی آیاکرتی تھی۔ پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سید المرسلین کے پاس سوا قرآن کے دوسری وحی نہ آئے۔ ضرور آئی تھی اور ان سے زیادہ آتی تھی۔ ورنہ لازم آئے گا کہ دوسرے انبیاء علیہم السلام کے مقابلہ میں آپ اس نعمت سے محروم تھے۔ آپ ﷺ کی قدم قدم پر رہنمائی کی گئی۔ اس رہنمائی کی روشنی میں آپ نے اپنی زندگی میں جو کچھ کیا اور جو کچھ فرمایا وہ حدیث کی شکل میں محفوظ ہے۔