اعتراض:
“یہ صحیح ہے کہ محمد رسول اللہ نے کوئی گناہ نہیں کیا مگر وہ غلطیاں کر سکتے تھے اور یہ حقیقت خود قرآن میں تسلیم کی گئی ہے۔قرآن کی آیات سے واضح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نظام مملکت کی سرانجام دہی میں ایک بشر کی حیثیت رکھتے تھے اور کبھی کبھی آنحضرت ﷺ سے اجتہادی غلطیاں بھی ہو جاتی تھیں۔ قل ان ضللت فانما اضل علیٰ نفسی وان اھتدیت فیما یوحی الی ربی انہ سمیع قریب (50:30) اگر یہ اجتہادی غلطیاں ایسی ہوتیں جن کا اثر دین کے اہم گوشے پر پڑتا تو خدا کی طرف سے اس کی تادیب بھی آ جاتی جیسے کہ ایک جنگ کے موقع پر بعض لوگوں نے پیچھے رہنے کی اجازت چاہی اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے دے دی۔ اس پر اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوئی۔ عفااللہ عنک لمااذنت لھم حتی یتبین لک الذین صدقوا وتعلم الکاذبین(43:9)اسی طرح سورۂ تحریم میں تادیب آ گئی: یا ایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک (81:66) اسی طرح سورۂ عبس میں ہے: عبس وتولی ان جاءہُ الاعمٰی۔ وما یدریک لعلہ یزکی۔ او یذکر فتنفعہ الذکر۔ اما من استغنیٰ فانت لہ تصدی ۔وما علیک الا یتزکیٰ ۔ واما من جاءک یسعٰی وھو یخشٰی فانت عنہ تلھی (8-11:10)
تبصرہ :
یہ دیکھ کر سخت افسوس ہوتا ہے کہ کس قدر سرسری مطالعہ کی بنا پر لوگ کتنے بڑے اور نازک مسائل کے متعلق رائے قائم کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ کیا آپ کا خیال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے ایک رسول بھی بھیجا اور پھر خود ہی اس کا اعتبار کھونے اور اسے غلط کار و گمراہ ثابت کرنے کے لیے یہ آیات بھی قرآن میں نازل کر دیں تاکہ کہیں لوگ اطمینان کے ساتھ اس کی پیروی نہ کرنے لگیں؟
پہلی آیت قل ان ضللت سے آپ یہ استدلال کرنا چاہتے ہیں کہ خود قرآن کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کبھی کبھی گمراہ بھی ہو جاتے تھے اور آپ کی زندگی دراصل ضلالت و ہدایت کا مجموعہ تھی (معاذاللہ)۔ یہ استدلال کرتے وقت آپ نے کچھ نہ دیکھا کہ یہ آیت کس سیاق و سباق میں آئی ہے۔ سورۂ سبا میں اللہ تعالیٰ پہلے کفار مکہ کا یہ الزام نقل فرماتا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق کہتے تھے: افتریٰ علی اللہ کذبا ام بہ جنۃ (آیت: 8)ص “یہ شخص یا تو اللہ پر جان بوجھ کر بہتان گڑھتا ہے، یا یہ مجنون ہے”۔ پھر اس کا جواب دیتے ہوئے آیات 36 تا 50 میں الزام نمبر2 کے متعلق فرماتا ہے کہ تم لوگ فرداً فرداً بھی اور اجتماعی طور پر بھی ضد اور ہٹ دھرمی چھوڑ کر خالصتاً للہ غور کرو، تمہارا دل خود گواہی دے گا کہ یہ شخص جو تمہیں اسلام کی تعلیم دے رہا ہے،اس میں جنون کی کوئ بات نہیں۔ اس کے بعد ان کے پہلے الزام (یعنی “یہ شخص اللہ پر جان بوجھ کر بہتان گھڑتا ہے”) کے جواب میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے فرماتا ہے کہ: اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان سے کہو، ان ربی یقذف باالحق درحقیقیت یہ سچا کلام میرا رب القا فرمارہا ہے۔ ان ضللت فانما اضل علیٰ نفسی اگر میں گمراہ ہو گیا ہوں (جیسا کہ تم الزام لگا رہے ہو) تو میری اس گمراہی کا وبال مجھ پر ہے۔ و ان اھتدیت فبما یوحی الی ربی۔ اور اگر میں راہ راست پر ہوں تو اس وحی کی بنا پر ہوں جو میرا رب مجھ پر نازل کرتا ہے۔ “انہ سمیع قریب” وہ سب کچھ سننے والا اور قریب ہے۔ یعنی اس سے پوشیدہ نہیں ہے کہ میں گمراہ ہوں یا اس کی طرف سے ہدایت یافتہ۔ اس سیاق وسباق میں جو بات کہی گئی ہے اس کا آپ یہ مطلب لے رہے ہیں کہ گویا اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کے سامنے اپنے رسول سے یہ اعتراف کروا دیا کہ واقعی میں کبھی گمراہ بھی ہو جاتا ہوں، مگر کبھی سیدھے راستے پر بھی چل لیتا ہوں۔ سبحان اللہ، کیا خوب قرآن فہمی ہے۔
آپ نے کچھ تو سوچا ہوتا کہ وہ لغزشیں ہیں کیا جن پر اللہ نے ان آیات میں اپنے نبی کو ٹوکا ہے۔ جنگ میں فوجی خدمت سے استثناء کی درخواست پر کسی کو مستثنٰی کر دینا، کسی حلال چیز کو نہ کھانے کا عہد کر لینا، ایک صحبت میں چند اہم شخصیتوں کو دین کی دعوت دیتے ہوئے بظاہر ایک غیر اہم شخصیت کی طرف توجہ نہ کرنا، کیا یہ ایسے ہی بڑے معاملات ہیں جن کا دین کے اہم گوشوں پر اثر پڑتا ہے؟ کون سا ایسا لیڈر، یا فرمانروا، یا آپ کی اصطلاح خاص میں “مرکز ملت”ہے جس کی زندگی میں بار ہا اس طرح کے بلکہ اس سے بہت زیادہ بڑے معاملات نہ پیش آتے ہوں؟ پھر کیا ان لغزشوں کی تصحیح کے لیے ہمیشہ آسمان ہی سے وحی اترا کرتی ہے؟ آخر وہ کیا خاص وجہ ہے کہ اتنی معمولی لغزشیں جب رسول پاک سے صادر ہوئیں تو فوراً ان کی اصلاح کے لیے وحی آ گئی اور اسے کتاب میں ثبت کر دیا گیا؟
آپ اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرتے تو آپ کو معلوم ہو جاتا کہ رسالت کے منصب کو سمجھنے میں آپ نے کتنی بڑی ٹھوکر کھائی ہے۔ کوئی رئیس، یا لیڈر یا مرکز ملت اللہ تعالیٰ کا نمائندہ نہیں ہوتا، اس کا مقرر کیا ہوا شارح اور اس کا مامور کیا ہوا نمونۂ تقلید نہیں، اس لیے اس کی کوئی بڑی سے بڑی غلطی بھی قانون اسلامی پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اس سے خدا کی شریعت کے اصول نہیں بدل سکتے۔ لیکن رسول پاک ﷺ چونکہ خدا کے اپنے اعلان کی رو سے دنیا کے سامنے مرضات الٰہی کی نمائندگی کرتے تھے اور خدا نے خود اہل ایمان کو حکم دیا تھا کہ تم ان کی اطاعت اور ان کا اتباع کرو، جو کچھ یہ حلال کہیں اسے حلال مانو اور جو کچھ یہ حرام قرار دے دیں، اسے حرام مان لو، اس لیے ان کے قول و عمل میں یہ چھوٹی لغزشیں بھی بہت بڑی تھیں، کیونکہ وہ ایک معمولی بشر کی لغزشیں نہ تھیں بلکہ اس شارع مجاز کی لغزشیں تھیں جس کی ایک ایک حرکت اور سکون سے قانون بن رہا تھا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہ بات اپنے ذمے لے لی تھی کہ اپنے رسول کو ٹھیک راستے پر قائم رکھے گا، ان کو غلطیوں سے محفوظ کر دے گا اور ان سے ذرا سی چوک بھی ہو جائے تو وحی کے ذریعہ سے اس کی اصلاح فرما دے گا۔
آیات جو آپ نے پیش فرمائی ہیں ان سے آپ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے فیصلوں میں بہت سی غلطیاں کی تھیں جن میں سے اللہ میاں نے بطور نمونہ یہ دوچار غلطیاں پکڑ کر بتا دیں تاکہ لوگ ہوشیار ہو جائیں۔ حالانکہ دراصل ان سے نتیجہ بالکل برعکس نکلتا ہے۔ ان سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ سے اپنی پوری پیغمبرانہ زندگی میں بس وہی لغزشیں ہوئی ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے فوراً اصلاح فرما دی اور اب ہم پورے اطمینان کے ساتھ اس پوری سنت کی پیروی کر سکتے ہیں جو آپ سے ثابت ہے، کیونکہ اگر اس میں کوئی اور لغزش ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس کو بھی برقرار نہ رہنے دیتا جس طرح ان لغزشوں کو اس نے برقرار نہیں رہنے دیا۔
اعتراض :
“اگر حضور ﷺ کی ہر بات وحی پر مبنی ہوتی تھی تو حضور ﷺ کی ایک لغزش بھی دین کے سارے نظام کو درہم برہم کرنے کے لیے کافی تھی۔ اس لیے کہ وہ غلطی کسی انسان کی غلطی نہیں تھی بلکہ (معاذ اللہ) وحی کی غلطی تھی۔ خود خدا کی غلطی تھی اور اگر (معاذ اللہ) خدا بھی غلطی کر سکتا ہے تو ایسے خدا پر ایمان کے کیا معنی ہو سکتے ہیں؟”
جواب :
یہ کس نے کہا کہ وحی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے پہلے غلط رہنمائی کی تھی۔ اس بنا پر حضور ﷺ سے لغزش ہوئی۔ اصل بات جس کو ہٹ دھرمی کے بغیر با آسانی سمجھا جا سکتا ہے، یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کام اپنے ذمہ لیا تھا کہ نبوت کے فرائض کی بجا آوری میں وہ خود آپ کی رہنمائی و نگرانی کرے گا اور اگر کسی وقت بتقاضائے بشریت آپ سے کوئی لغزش ہو جائے تو فوراً اس کی اصلاح فرما دے گا تاکہ دین کے نظام میں کوئی خامی باقی نہ رہ سکے۔
اللہ تعالٰی کی جانب سے بھیجا جانے والا پیغمبر جو رضائے الٰہی کا ترجمان بھی ہے ہمیشہ خدائی نگرانی میں رہتا ہے۔ پیغمبر کی جانب سے ادا کیا جانے والا کوئی فعل یا اس کا کوئی قول اگر رضائے الٰہی سے کلی طور پر مطابقت نہ رکھتا ہو تو اسے ہمیشہ اس بارے میں متنبہ کر دیا جاتا ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کوئی بھی عمل ایسا نہیں ہے جو اللہ تعالٰی کی جانب سے جانچا نہ جا چکا ہو۔
اس پس منظر میں اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے کوئی کام انجام دیا جاتا ہے یا کوئی حکم صادر ہوتا ہے اور اس کی نامنظوری کے لئے کوئی وحی نازل نہیں ہوتی تو اس کا لازمی مفہوم یہ ہو گا کہ اللہ تعالٰی کی جانب سے اس کام یا حکم کو رضامندی حاصل ہے۔ کیونکہ اگر واقعہ اس کے خلاف ہوتا تو وحی اس بارے میں سکوت اختیار نہ کرتی بلکہ لازماً غلطی کی تصحیح کے لئے وحی کا نزول ہوتا جیسا کہ کئی واقعات کے بارے میں نامنطوری سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مطلع فرما دیا گیا۔پس پیغمبرانہ حیثیت میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو کچھ فرمایا، اور جو کچھ انجام دیا، اور اس کے خلاف کوئی وحی نازل نہیں ہوئی، مفہوم اور نتیجے کے اعتبار سے توثیق شدہ اور مستند ہے۔لہٰذا اس کی روشنی میں یہ بات بالکل درست ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تمام احکامات اور تمام افعال براہ راست یا بالواسطہ طور پر وحی پر مبنی ہیں۔