اعتراض :
قرآن مجيد تو اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اسکی حفاظت کی ذمہ داری تو خود اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے ليكن حديث رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى حفاظت كا ذمہ اللہ تعالى نے نہيں ليا ۔ اللہ تعالى نے فرمايا ہے: إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ۔ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔( سورة الحجر15: آية 9)
تبصرہ :
سوال یہ ہے کہ قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری جو اللہ نے لے لی تھی، اس کو اللہ نے براہ راست عملی جامہ پہنایا، یا انسانوں کے ذریعہ سے اس کو عملی جامہ پہنوایا؟ ظاہر ہے آپ اس کا کوئی جواب اس کے سوا نہیں دے سکتے کہ اس حفاظت کے لیے انسان ہی ذریعہ بنائے گئے۔ اور عملاً یہ حفاظت اس طرح ہوئی کہ حضورؐ سے جو قرآن لوگوں کو ملا تھا اس کو اسی زمانہ میں ہزاروں آدمیوں نے لفظ بلفظ یاد کر لیا، پھر ہزاروں سے لاکھوں اور لاکھوں سے کروڑوں اس کو نسلاً بعد نسل لیتے اور یاد کرتے چلے گئے، حتی کہ یہ کسی طرح ممکن ہی نہیں رہا کہ قرآن کا کوئی لفظ دنیا سے محو ہو جائے، یا اس میں کسی وقت کوئی رد و بدل ہو اور وہ فوراً نوٹس میں نہ آ جائے، یہ حفاظت کا غیر معمولی انتظام آج تک دنیا کی کسی دوسری کتاب کے لیے نہیں ہو سکا ہے اور یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ ہی کا کیا ہوا انتظام ہے۔
اب ملاحظہ فرمائیے کہ جس رسولؐ کو ہمیشہ کے لیے اور تمام دنیا کے لے رسول بنایا گیا تھا اور جس کے بعد نبوت کا دروازہ بند کر دینے کا بھی اعلان کر دیا گیا تھا، اس کے کارنامۂ حیات کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایسا محفوظ فرمایا کہ آج تک تاریخ انسانی میں گزرے ہوئے کسی نبی، کسی پیشوا، کسی لیڈر اور رہنما اور کسی بادشاہ یا فاتح کا کارنامہ اس طرح محفوظ نہیں رہا ہے اور یہ حفاظت بھی انہیں ذرائع سے ہوئی ہے جن ذرائع سے قرآن کی حفاظت ہوئی ہے، ختم نبوت کا اعلان بجائے خود یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرر کیے ہوئے آخری رسولؐ کی رہنمائی اور اس کے نقوش قدم کو قیامت تک زندہ رکھنے کی ذمہ داری لے لی ہے تاکہ اس کی زندگی ہمیشہ انسان کی رہنمائی کرتی رہے اور اس کے بعد کسی نئے رسول کے آنے کی ضرورت باقی نہ رہے۔
اب آپ خود دیکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے فی الواقع جریدۂ عالم پر ان نقوش کو کیسا ثبت کیا ہے کہ آج تک کوئی طاقت انہیں مٹا نہیں سکتی۔ کیا آپ کو نظر نہیں آتا کہ یہ وضو، یہ پنچ وقتہ نماز، یہ اذان، یہ مساجد کی با جماعت نماز، یہ عیدین کی نماز، یہ حج کے مناسک، یہ بقر عید کی قربانی، یہ زکوٰۃ کی شرحیں، یہ ختنہ، یہ نکاح و طلاق و وراثت کے قاعدے، یہ حرام و حلال کے ضابطے اور اسلامی تہذیب و تمدن کے دوسرے بہت سے اصول اور طور طریقے جس روز نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے شروع کیے اسی روز سے وہ مسلم معاشرے میں ٹھیک اسی طرح رائج ہو گئے جس طرح قرآن کی آیتیں زبانوں پر چڑھ گئیں اور پھر ہزاروں سے لاکھوں اور لاکھوں سے کروڑوں مسلمان دنیا کے ہر گوشے میں نسلاً بعد نسل ان کی اسی طرح پیروی کرتے چلے آ رہے ہیں جس طرح ان کی ایک نسل سے دوسری نسل قرآن لیتی چلی آ رہی ہے۔ ہماری تہذیب کا بنیادی ڈھانچہ رسول پاک کی جن سنتوں پر قائم ہے، ان کے صحیح ہونے کا ثبوت بعینہٖ وہی ہے جو قرآن پاک کے محفوظ ہونے کا ثبوت ہے۔ اس کو جو شخص چیلنج کرتا ہے وہ دراصل قرآن کی صحت کو چیلنج کرنے کا راستہ اسلام کے دشمنوں کو دکھاتا ہے۔
پھر دیکھیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی اور آپ کے عہد کی سوسائٹی کا کیسا مفصل نقشہ، کیسی جزئی تفصیلات کے ساتھ، کیسے مستند ریکارڈ کی صورت میں آج ہم کو مل رہا ہے۔ ایک ایک واقعہ اور ایک ایک قول و فعل کی سند موجود ہے، جس کو جانچ کر ہر وقت معلوم کیا جا سکتا ہے کہ روایت کہاں تک قابل اعتماد ہے۔ صرف ایک انسان کے حالات معلوم کرنے کی خاطر اس دَور کے کم و بیش 6 لاکھ انسانوں کے حالات مرتب کر دیئے گئے تاکہ ہر وہ شخص جس نے کوئی روایت اس انسان عظیمؐ کا نام لے کر بیان کی ہے اس کی شخصیت کو پرکھ کر رائے قائم کی جا سکے کہ ہم اس کے بیان پر کہاں تک بھروسہ کر سکتے ہیں۔ تاریخی تنقید کا ایک وسیع علم انتہائی باریک بینی کے ساتھ صرف اس مقصد کے لیے مدون ہو گیا کہ اس ایک فرد فرید کی طرف جو بات بھی منسوب ہو، اسے ہر پہلو سے جانچ پڑتال کر کے صحت کا اطمینان کر لیا جائے۔ کیا دنیا کی پوری تاریخ میں کوئی اور مثال بھی ایسی ملتی ہے کسی ایک شخص کے حالات محفوظ کرنے کے لیے انسانی ہاتھوں سے یہ اہتمام عمل میں آیا ہو؟ اگر نہیں ملتی اور نہیں مل سکتی، تو کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ اس اہتمام کے پیچھے بھی وہی خدائی تدبیر کارفرما ہے جو قرآن کی حفاظت میں کارفرما رہی ہے؟
احادیث کے محفوظ رہنے کی اصل علت:
یہ اس معاملے کا ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ صحابہ کے لیے خاص طور پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث کو ٹھیک ٹھیک یاد رکھنے اور انہیں صحیح صحیح بیان کرنے کے کچھ مزید محرکات بھی تھے جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
1.صحابہ سچے دل سے آپ کو خدا کا نبی اور دنیا کا سب سے بڑا انسان سمجھتے تھے۔ ان کے دلوں پر آپﷺ کی شخصیت کا بڑا گہرا اثر تھا۔ ان کے لیے آپ کی بات اور آپ کے واقعات و حالات کی حیثیت عام انسانی وقائع جیسی نہ تھی کہ وہ ان کو اپنے معمولی حافظے کے حوالے کر دیتے۔ ان کے لیے تو ایک ایک لمحہ جو انہوں نے آپﷺ کی معیت میں گزارا، ان کی زندگی کا سب سے زیادہ قیمتی لمحہ تھا اور اس کی یاد کو وہ اپنا سب سے بڑا سرمایہ سمجھتے تھے۔
2. وہ آپ کی ایک ایک تقریر، ایک ایک گفتگو اور آپ کی زندگی کے ایک ایک عمل سے وہ علم حاصل کر رہے تھے جو انہیں اس سے پہلے کبھی حاصل نہ ہوا تھا۔ وہ خود جانتے تھے کہ ہم اس سے پہلے سخت جاہل اور گمراہ تھے اور یہ پاکیزہ ترین انسان اب ہم کو صحیح علم دے رہا ہے اور مہذب انسان کی طرح جینا سکھا رہا ہے۔ اس لیے وہ پوری توجہ کے ساتھ ہر بات سنتے اور ہر فعل کو دیکھتے تھے، کیونکہ انہیں اپنی زندگی میں عملاً اسی کا نقش پیوست کرنا تھا، اسی کی نقل اتارنی تھی اور اسی کی راہنمائی میں کام کرنا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس شعور و احساس کے ساتھ آدمی جو کچھ دیکھتا اور سنتا ہے اسے یاد رکھنے میں وہ اتنا سہل انگار نہیں ہو سکتا جتنا وہ کسی میلے یا کسی بازار میں سنی اور دیکھی ہوئی باتیں یاد رکھنے میں ہو سکتا ہے۔
3. وہ قرآن کی رو سے بھی یہ جانتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بار بار متنبہ کرنے سے بھی ان کو شدت کے ساتھ اس بات کا احساس تھا کہ خدا کے نبی پر افترا کرنا بہت بڑا گناہ ہے جس کی سزا ابدی جہنم ہو گی۔ اس بنا پر وہ حضور ﷺ کی طرف منسوب کر کے کوئی بات بیان کرنے میں سخت محتاط تھے۔ صحابہ کرام میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کسی صحابی نے اپنی کسی ذاتی غرض سے یا اپنا کوئی کام نکالنے کے لیے حضورﷺ کے نام سے کبھی ناجائز فائدہ اٹھایا ہو، حتیٰ کہ ان کے درمیان جب اختلافات برپا ہوئے اور دو خونریز لڑائیاں تک ہو گئیں، اس وقت بھی فریقین میں سے کسی ایک شخص نے بھی کوئی حدیث گھڑ کر دوسرے کے خلاف استعمال نہیں کی۔ اس قسم کی حدیثیں بعد کے ناخدا ترس لوگوں نے تو ضرور تصنیف کیں جنہوں بعد میں علیحدہ کرلیا گیا مگر صحابہ کے واقعات میں اس کی مثال ناپید ہے۔
4.وہ اپنے اوپر اس بات کی بہت بڑی ذمہ داری محسوس کرتے تھے کہ بعد کے آنے والوں کو حضورﷺ کے حالات اور آپ کی ہدایات و تعلیمات بالکل صحیح صورت میں پہنچائیں اور اس میں کسی قسم کا مبالغہ یا آمیزش نہ کریں، کیونکہ ان کے نزدیک یہ دین تھا اور اس میں اپنی طرف سے تغیر کر دینا کوئی معمولی جرم نہیں بلکہ ایک عظیم خیانت تھا۔ اسی وجہ سے صحابہ کے حالات میں اس قسم کے بکثرت واقعات ملتے ہیں کہ حدیث بیان کرتے ہوئے وہ کانپ جاتے تھے، ان کے چہرے کا رنگ اڑ جاتا تھا، جہاں ذرہ برابر بھی خدشہ ہوتا تھا کہ شاید حضور ﷺ کے الفاظ کچھ اور ہوں وہاں بات نقل کر کے “اؤ کما قال” کہہ دیتے تھے تا کہ سننے والا ان کے الفاظ کو بعینہٖ حضور ﷺ کے الفاظ نہ سمجھ لے۔
5. اکابر صحابہ خاص طور پر عام صحابیوں کو احادیث روایت کرنے میں احتیاط کی تلقین کرتے رہتے تھے۔ اس معاملے میں سہل نگاری برتنے سے شدت کے ساتھ روکتے تھے اور بعض اوقات ان سے حضور ﷺ کا کوئی ارشاد سن کر شہادت طلب کرتے تھے تا کہ یہ اطمینان ہو جائے کہ دوسروں نے بھی یہ بات سنی ہے۔ اسی اطمینان کے لیے صحابیوں نے ایک دوسرے کے حافظے کا امتحان بھی لیا ہے۔ مثلاً ایک مرتبہ حضرت عائشہ کو حج کے موقع پر حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے ایک حدیث پہنچی۔ دوسرے سال حج میں اُم المومنین نے پھر اسی حدیث کو دریافت کرنے کے لیے ان کے پاس آدمی بھیجا۔ دونوں مرتبہ حضرت عبد اللہ کے بیان میں ایک حرف کا فرق بھی نہ تھا۔ اس پر حضرت عائشہ نے فرمایا: “واقعی عبد اللہ کو بات ٹھیک یاد ہے”۔ (بخاری و مسلم)
6. حضور ﷺ کی ہدایات و تعلیمات کا بہت بڑا حصہ وہ تھا جس کی حیثیت محض زبانی روایات ہی کی نہ تھی بلکہ صحابہ کے معاشرے میں، ان کی شخصی زندگیوں میں، ان کے گھروں میں، ان کی معیشت اور حکومت اور عدالت میں اس کا پورا ٹھپہ لگا ہوا تھا جس کے آثار و نقوش ہر طرف لوگوں کو چلتے پھرتے نظر آتے تھے۔ ایسی ایک چیز کے متعلق کوئی شخص حافظے کی غلطی، یا اپنے ذاتی خیالات و تعصبات کی بنا پر کوئی نرالی بات لا کر پیش کرتا بھی تو وہ چل کہاں سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی نرالی حدیث آئی بھی ہے تو وہ الگ پہچان لی گئی ہے اور محدثین نے اس کی نشاندہی کر دی ہے کہ اس خاص راوی کے سوا یہ بات کسی اور نے بیان نہیں کی ہے، یا اس پر عمل درآمد کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
احادیث کی صحت کا ایک لطیف اشارہ اور ثبوت:
ان سب کے علاوہ ایک نہایت اہم بات اور بھی ہے جسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو عربی زبان جانتے ہیں اور جنہوں نے محض سرسری طور پر کبھی کبھار متفرق احادیث کا مطالعہ نہیں کر لیا ہے بلکہ گہری نگاہ سے حدیث کی پوری پوری کتابوں کو، یا کم از کم ایک ہی کتاب (مثلاً بخاری یا مسلم) کو از اول تا آخر پڑھا ہے۔ ان سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علی و سلم کی اپنی ایک خاص زبان اور آپ کا اپنا ایک مخصوص اندازِ بیان ہے جو تمام صحیح احادیث میں بالکل یکسانیت اور یک رنگی کے ساتھ نظر آتا ہے۔ قرآن کی طرح آپ کا لٹریچر اور اسٹائل اپنی ایسی انفرادیت رکھتا ہے کہ اس کی نقل کوئی دوسرا شخص نہیں کر سکتا۔ اس میں آپ کی شخصیت بولتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔اس میں آپ ﷺ کا بلند منصب و مقام جھلکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس کو پڑھتے ہوئے آدمی کا دل یہ گواہی دینے لگتا ہے کہ یہ باتیں محمد رسول اللہ کے سوا کوئی دوسرا شخص کہہ نہیں سکتا۔ جن لوگوں نے کثرت سے احادیث کو پڑھ کر حضور ﷺ کی زبان اور طرزِ بیان کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے، وہ حدیث کی سند کو دیکھے بغیر محض متن کو پڑھ کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے یا موضوع، کیونکہ موضوع کی زبان ہی بتا دیتی ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان نہیں ہے حتیٰ کہ صحیح احادیث تک میں روایت باللفظ اور روایت بالمعنی کا فرق صاف محسوس ہو جاتا ہے، کیونکہ جہاں راوی نے حضور کے بات کو اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے، وہاں آپﷺ کے اسٹائل سے واقفیت رکھنے والا یہ بات پا لیتا ہے کہ یہ خیال اور بیان تو حضور ﷺ ہی کا ہے لیکن زبان میں فرق ہے۔ یہ انفرادی خصوصیت احادیث میں کبھی نہ پائی جا سکتی اگر بہت سے کمزور حافظوں نے ان کو غلط طریقوں سے نقل کیا ہوتا اور بہت سے ذہنوں کی کارفرمائی نے ان کو اپنے اپنے خیالات و تعصبات کے مطابق توڑا مروڑا ہوتا۔ کیا یہ بات عقل میں سماتی ہے کہ بہت سے ذہن مل کر ایک یک رنگ لٹریچر اور ایک انفرادی اسٹائل پیدا کر سکتے ہیں؟
اور یہ معاملہ صرف زبان و ادب کی حد تک ہی نہیں ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر دیکھیے تو نظر آتا ہے کہ طہارت جسم و لباس سے لے کر صلح و جنگ اور بین الاقوامی معاملات تک زندگی کے تمام شعبوں اور ایمان و اخلاق سے لے کر علامات قیامت اور احوال آخرت تک تمام فکری اور اعتقادی مسائل میں صحیح احادیث ایک ایسا نظام فکر و عمل پیش کرتی ہیں جو اول سے آخر تک اپنا ایک ہی مزاج رکھتا ہے اور جس کے تمام اجزا میں پورا پورا منطقی ربط ہے۔ ایسا مربوط اور ہم رنگ نظام اور اتنا مکمل وحدانی نظام لازماً ایک ہی فکر سے بن سکتا ہے، بہت سے مختلف ذہن مل کر اسے نہیں بنا سکتے۔ یہ ایک اور اہم ذریعہ ہے جس سے موضوع احادیث ہی نہیں مشکوک احادیث تک پہچانی جاتی ہیں۔ سند کو دیکھنے سے پہلے ایک بصیرت رکھنے والا آدمی اس طرح کی کسی حدیث کے مضمون ہی کو دیکھ کر یہ بات صاف محسوس کر لیتا ہے کہ صحیح احادیث اور قرآن مجید نے مل کر اسلام کا جو نظام فکر اور نظام حیات بنایا ہے اس کے اندر یہ مضمون کسی طرح ٹھیک نہیں بیٹھتا کیونکہ اس کا مزاج پورے نظام کے مزاج سے مختلف نظر آتا ہے۔
آخری بات:
كسى چيز كى تكميل سے مراد یہ ہوتا ہے كہ اب اس ميں مزيد اضافے ، رد وبدل يا تغيير كى ضرورت نہيں رہی۔ مكمل سے يہ بھی مراد ہوتا ہے كہ اب اس چيز ميں كوئى كمى باقى نہيں ، مكمل سے مراد نقائص وعيوب سے خالى ہونا بھی ہوتا ہے ، اس تمہيد کے بعد كلام الہی كى اس آيت مباركہ پر غور كيجيے:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ ٌ (سورة المائدة )
آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے ۔
اب اگر آخری نبی کی طرف سے کی گئی كلام الہی كى تشريح اور بيان ہی محفوظ نہيں تو اسلام كے مكمل ہونے كا كيا مطلب ہے؟ اگر قرآن كريم كى تشريح ہی تحريف و تغيير سے محفوظ نہيں تو دين اسلام مكمل كيسے ہوا؟ اللہ كى نعمت تمام كيسے ہوئى اور آخر ايسے تغيير و تحريف كے خطرے سے دوچار اسلام كو اللہ تعالى نے ہمارے ليے بطور دين پسند كيسے كر ليا ؟ ( ورضيت لكم الاسلام دينا ) ۔ اللہ نے اپنے كلام ميں دين اسلام كو مكمل دين كہا ہے اور كتاب اللہ كا حرف حرف سچا ہے۔ اسکے آخری نبی کا دین اور شریعت محفوظ ہے اور قیامت تک کے لیے محفوظ رہے گی۔ ومن أصدق من الله قيلا !!