مسٹر پرویز قرآن پاک کی وہ آیات جن میں “اللہ اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم” کی اطاعت کا ذکر ہےمیں “اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم” سے مراد “مرکزِ نظام اسلامی” یا “مرکزِ ملت” لیتے رہے۔انکی کتابوں سے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے:
٭ اللہ اور رسول سے مراد مرکزِ نظامِ اسلامی ہے۔” (تفسیر مطالب الفرقان ج4 ص 340)
٭ اللہ اوررسول سے مراد، اسلامی مملکت یا قرآنی نظامِ حکومت ہوتا ہے۔” (تفسیرِ مطالب الفرقان ج6 ص 70)
٭ اللہ اور رسول سے مراد وہ مرکزِ نظامِ اسلامی (Central Authority) ہے، جہاں قرآنی احکام نافذ ہوں۔ یہ حقیقت، کہ اللہ اور رسول سے مراد مرکزِ ملت ہے، قرآن کریم میں ایسے واضح الفاظ میں اور اس شرح و بسط سے بیان ہوئی ہے کہ ان مقامات کو بغور دیکھ لینے کے بعد، اس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔” (معراجِ انسانیت ص 318)
مزعومہ پرویز میں اسقام و علل:
بعض لوگوں کی دماغی ساخت کچھ اس قسم کی واقع ہوتی ہے کہ وہ ہر معاملے میں نرالی ایچ اختیار کرتے ہیں اور اسے بزعمِ خویش “بڑا علمی نکتہ” قرار دیتے ہیں۔ لیکن نہیں سمجھتے کہ ان کے یہ “علمی نکات” میزانِ علم میں کوئی وزن نہیں رکھتے، بلکہ الٹا عامۃ الناس کی گمراہی کا سبب بن جاتے ہیں۔ “خدا و رسول” کا معنیٰ “مرکزِ ملت” کرنا ایسی ہی نکتہ آفرینی ہے، جس نے صرف عوام الناس ہی کو نہیں، بلکہ بعض پڑھے لکھے لوگوں کو بھی ہم آغوش، ضلالت کر دیا ہے۔ “اللہ اور رسول” کی اس تشریح و تفسیر میں جو اسقام و علل مضمر ہیں، ہم ذیل میں درج کرتے ہیں:
1۔نظامِ اسلام کے قیام سے قبل “خدا اور رسول کی اطاعت؟”
اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے مراد، اگر نظامِ اسلامی کے مرکز کی اطاعت لی جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب نظامِ اسلامی ہنوز قائم ہی نہ ہوا تھا تو اس وقت “اللہ اور رسول” کی اطاعت کا کیا مفہوم تھا؟ مثلا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی برپا کی ہوئی تحریک کے نتیجہ میں اسلامی نظام کا قیام تو مدنی دور میں ہوا تھا، خود پرویز صاحب رقم طراز ہیں:
٭ فتح مکہ کے بعد مسلمانوں کی حقیقی حکومت کی بنیاد پڑتی ہے۔” (معارف القرآن ج4 ص 568)
٭ ہجرت کے بعد، اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی گئی وہ آہستہ آہستہ مستحکم بھی ہوتی گئی۔۔۔حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مدنی زندگی کے ابتدائی آٹھ سال میں صورت یہ تھی کہ اسلامی مملکت قائم تھی۔” (تفسیر مطالب الفرقان ج6 ص 129)
اب سوال یہ ہے کہ اگر “نظامِ اسلامی” یا “اسلامی حکومت” کا قیام، فتح مکہ کے بعد ہوتا ہے یا ہجرت کے فورا بعد ہی ہو جاتا ہے تو آخر مکی دور میں نازل ہونے والی اُن آیات کا کیا مفہوم ہو گا جن میں “اللہ و رسول” کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے؟ کیونکہ اطاعتِ “خدا تعالیٰ و رسول” کا حکم تو مکی دور میں بھی لازم تھا اور مدنی دور میں بھی۔۔۔مدنی دور میں “اللہ اوررسول” سے مراد “اگر نظامِ اسلامی” لیا جائے تو مکی دور میں اس نظام کا موجود نہ ہونا کیا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس وقت “اللہ اور رسول” کا وجود ہی نہ تھا اور لوگوں کو خواہ مخواہ “اللہ و رسول” کی نافرمانی پر جہنم کی وعید سنائی گئی؟
2۔ ایک “اللہ و رسول” یا متعدد الہہ و رسل؟
عہد نبوی اور خلافتِ راشدہ میں وسیع و عریض دنیا پر پھیلی ہوئی مملکت، بہرحال ایک مرکز کے ماتحت تھی۔ آج عالمِ اسلام انتشار کا شکار ہے اور مسلمان سلطنتیں بیسیوں مراکز میں بٹ چکی ہیں۔ اب کیا ہم ہر مسلم سلطنت کے لیے جدا جدا “اللہ اور رسول” تسلیم کر لیں یا سب کے لیے ایک ہی “اللہ اوررسول” کو تسلیم کریں؟ کیا یہ سب “اللہ اوررسول” اپنی اپنی جگہ خود معیارِ حق ہوں گے یا ان میں سے بالاتر بھی کوئی “اللہ اور رسول” ہو گا، جس کے سامنے بصورتِ نزاع باقی سب “اللہ اور رسول” سر جھکا دیں گے؟۔۔۔ کیا پوری ملتِ اسلامیہ کو آپ ایک ہی “اللہ اوررسول” کے تابع رکھیں گے یا جملہ ممالک کے لیے متعدد اور متفرق “خداؤں اوررسولوں” کا وجود مانیں گے؟ ۔۔۔
اگر آپ ساری زمین کے مسلمانوں کو ایک ہی “اللہ اور رسول” کی تابعداری میں رکھنا چاہیں گے تو اس مقصد کے لیے آپ تلوار سونت میدانِ حزب و قتال میں آئیں گے تاکہ ایک “اللہ و رسول” کے سوا باقی سب “اللہ اور رسول” فنا کے گھاٹ اتر جائیں، یا آپ الیکشن کے ذریعہ کسی ایک “اللہ اور رسول” کو منتخب کر لیں گے؟ ۔۔۔کیا ہی اچھا ہوتا اگر مسٹر پرویز اپنی زندگی میں ان الجھنوں کو حل کر جاتے، یا اب ادارہ طلوعِ اسلام ہی اس فریضہ کو انجام دے ڈالے۔
3۔ مرکزِ ملت پر ایمان یا اس کی اطاعت؟
“اللہ اور رسول سے” سے “مرکزِ ملت” مراد لینے کی لغویت اس سے بھی واضح ہے کہ اس معنیٰ میں حکومت کی اطاعت کی طرف دعوت تو دی جا سکتی ہے مگر “مرکزِ ملت” پر ایمان لانے کی دعوت ایک بعید از کار سی بات ہے۔ جبکہ قرآن کریم فرماتا ہے:
1۔ ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا ءامِنوا بِاللَّهِ وَرَسولِهِ…﴿١٣٦﴾… سورة النساء
“اے ایمان والو، اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ”
2۔ ﴿وَلَو كانوا يُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَالنَّبِىِّ … ﴿٨١﴾… سورة المائدة
“اگر وہ اللہ اور نبی پر ایمان رکھتے۔۔۔؟”
3۔ ﴿فَـٔامِنوا بِاللَّهِ وَرَسولِهِ النَّبِىِّ…﴿١٥٨﴾… سورة الاعراف
“پس تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ”
ان آیات میں “اللہ اوررسول” کے معنی “مرکزِ ملت” کسی طرح بھی نہیں لیے جا سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ خود مسٹر پرویز۔۔۔جو قرآن کریم کے ہر مقام پر، جہاں انہیں “اللہ اور رسول” کے الفاظ نظر آئے وہاں “نظامِ خداوندی” “نظامِ جماعت” یا اسی قسم کے دوسرے الفاظ بڑی بے تکلفی سے رکھ دیتے رہے۔۔۔ان آیات میں انتہائی کوشش کے باوجود بھی یہ معانی داخل نہ کر پائے۔ چنانچہ انہی آیات کا مفہوم خود پرویز نے بایں الفاظ بیان کیا ہے:
1۔ “اے جماعت مومنین، تم ہمیشہ اس نظام کے بنیادی اصولوں کی صداقت پر یقین رکھو اور وہ بنیادی اصول ہیں ۔۔۔ اللہ پر ایمان، رسول پر ایمان۔۔۔(136/4)” (مفہوم القرآن ص 223)
2۔ “جن کفار سے یہ اس وقت دوستانہ تعلقات قائم کرتے ہیں، اگر وہ اللہ پر اور اس نبی پر اور جو کچھ اس پر نازل کیا گیا ہے، اس پر ایمان لے آئے تو۔۔ (81/5)” (مفہوم القرآن ص 267)
3۔ “۔۔۔اس خدا پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول پر، جو (قرآن ملنے سے پہلے (48/29)امی تھا (158/7)” (مفہوم القرآن ص 379)
حقیقت یہ ہے کہ ان آیات میں “اللہ اور رسول” کا جو مفہوم مسٹر پرویز نے بیان کیا ہے، بالکل وہی مفہوم ان آیات کا بھی ہے جن میں پرویز نے “مرکزِ ملت” کی خودساختہ اصطلاح سے انوکھا اور اجنبی مفہوم پیدا کیا ہے۔
4۔ خدا و رسول کے نام پر بدترین آمریت:
نظامِ مرکز اسلامی کے مرکز کو “اللہ اور رسول” قرار دینے سے “خدا اور رسول” کے نام پر ایسی بدترین آمریت پیدا ہو جاتی ہے جس کا تصورفرعون، نمرود، ہلاکو خاں، ہٹلر اور مسولینی تک کو نہ سوجھا تھا ۔۔۔مسٹر پرویز تھیاکریسی پر لب کشائی فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
“جب تک اسلامی نظام قائم رہا اس کے سربراہ خلفائے راشدین کے لقب سے سرفراز رہے۔ یہ سوء اتفاق ہے (اور امت کی حرماں نصیبی) کہ یہ سلسلہ معدودے چند تک قائم رہا۔ بعد میں جب یہ نظام ملوکیت میں بدل گیا تو اس آیت (النساء: 59۔ قاسمی) کے مفہوم میں دشواری پیش آ گئی۔ نظامِ ملوکیت میں امت میں ثنویت پیدا ہو گئی، دنیاوی امور حکومت کی تحویل میں آ گئے اور امورِ شریعت علماء کی تحویل میں۔ اس ثنویت کی رو سے اس آیت کے معنیٰ یہ کیے گئے کہ تم اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو اس کے رسول کی اور اربابِ حکومت کی “اولو الامر منكم”۔ اگر تم میں اور حکومت میں کسی امر میں اختلاف ہو جائے تو اس اختلاف کو رفع کرنے کے لیے حضرات علماء کی طرف رجوع کریں تاکہ وہ بتائیں کہ اس باب میں اللہ اور اس کے رسول کا کیا حکم ہے، علماء کا فیصلہ، تمہارے (عوام) اور حکومت دونوں کے لیے قولِ فیصل ہو گا۔
بادنیٰ تدبر اس سے یہ حقیقت سمجھ میں آ جائے گی کہ اس سے آخری اقتدار، مذہبی پیشوائیت کے ہاتھ میں آ گیا اور چونکہ وہ اپنے فیصلے کو اپنا فیصلہ قرار نہیں دیتے تھے بلکہ اسے “خدا و رسول” کا فیصلہ کہہ کر صادر کرتے تھے، اس لیے کسی کی مجال نہیں تھی کہ اس سے سرتابی کر سکے۔ عوام کا بے پناہ ہجوم (خدا و رسول کے نام پر مٹنے کے لیے) ان کے ساتھ ہوتا تھا اس سے ایسی تھیاکریسی وجود میں آ گئی۔ جس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔” (تفسیر مطالب الفرقان ج4 ص 342)
تھیاکریسی کی اس تصویر کے مطابق بھی، جو مسٹر پرویز کے موئے قلم سے تیار ہوئی ہے، بات یوں بنتی ہے کہ ۔۔۔ “علماء کرام اپنے فیصلے کو اپنا فیصلہ قرار نہیں دیتے تھے۔ بلکہ اُسے خدا اور رسول کا فیصلہ کہہ کر صادر کرتے تھے۔” لیکن خود پرویز صاحب جس تھیاکریسی کو جنم دے رہے ہیں اس میں خود “مرکزِ ملت” ہی “اللہ او رسول” بن جاتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص “مرکزِ ملت” کی کسی غلطی پر ٹوکتے ہوئے یہ کہہ کہ ۔۔”آپ کا یہ اقدام غلط ہے، خدا و رسول کا حکم یہ ہے اور آپ یہ کر رہے ہیں” ۔۔۔تو “مرکزِ ملت” پلٹ کر جواب دے گا کہ ۔۔۔ “آپ کس خدا و رسول کی بات کر رہے ہیں، خدا و رسول کا تو معنیٰ ہوتا ہے نظامِ حکومت۔ وہ “مرکزِ ملت” ہونے کی بناء پر اپنے زمانے میں “خدا و رسول” تھے، ہم اپنے زمانے کے “مرکزِ ملت” ہونے کی بناء پر “خدا و رسول” ہیں۔ ہم گزشتہ زمانوں کے “خدا و رسول” کے فیصلوں کے پابند نہیں ہیں” ۔۔۔اس طرح، پرویز صاحب کا نظامِ اسلامی کا یہ تصور، جسے وہ بڑا معرکۃ الآراء تصور سمجھتے ہوئے پیش کرتے ہیں، “خدا و رسول” کے نام کو اپنے لیے مخصوص کرتے ہوئے اور “خدا و رسول” کے منصب پر براجمان ہوتے ہوئے وہ کچھ کرے گا جس کی مثال دنیا کی کسی تھیاکریسی میں نہیں ملتی۔۔۔یقینا وہ شخص بڑا ظالم ہے جو خدا اور رسول کا نام لے کر اپنا حکم چلاتا ہے، لیکن اس سے بھی بڑھ کر ظالم وہ شخص ہے جو “مرکزِ ملت” کی خود ساختہ اصطلاح کی آڑ میں خود خدا و رسول بن بیٹھتا اور اپنا حکم چلاتا ہے۔
پرویز صاحب کے اقتباس پر تبصرہ:
1. حضرات علماء کی طرف اس لیے رجوع کرنا کہ وہ نزاعی امور میں حکمِ خدا سے آگاہ کریں، اگر واقعی ایک “عیب” ہے تو یہ “عیب” پرویز صاحب کے تصورِ “مرکزِ ملت” میں بھی موجود ہے۔ آخر نزاعی معاملے میں حکمِ خدا کو جاننے کے لیے کسی نہ کسی طرف رجوع تو ناگزیر ہو گا۔ حضرات علماء کی طرف رجوع نہ کیا جائے گا تو ان “مسٹروں” کی طرف راجع ہونا پڑے گا جو مرکزِ ملت کی طرف سے پروانہ تقرری پاکر قرآن کے اجارہ دار بن بیٹھیں گے۔
2. پرویز صاحب کے تصورِ “مرکزِ ملت” کی رو سے بھی آخری اقتدار “مذہبی پیشوائیت” کے ہاتھ ہی میں رہتا ہے، اس فرق کے ساتھ کہ اب مذہبی پیشوا “باریش متقی علماء” کی بجائے “بے ریش غلامانِ مغرب، مسٹر” ہوں گے۔
3. تھیاکریسی کی یہ صورتِ حال، دراصل عیسائیت کی پیداوار ہے۔ یہ محض پرویز صاحب کے قلم کا کرشمہ ہے کہ علماء کا نام لے کر انہوں نے اسے اسلام کے کھاتے میں ڈال دیا ہے، ورنہ ہر دور میں اہل تقویٰ و متدین علماء کرام ملوکیت کے منظور نظر ہوتا تو درکنار، الٹا ان کے مغضوب اور معتوب ہوتے ہوئے خدمتِ اسلام کرتے رہے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ معدودے چند دنیا پرست علماء ملوکیت کا ساتھ دے کر اپنے مفادات اسی طرح حاصل کرتے رہے ہیں جس طرح مسٹر پرویز، پاکستان کے اربابِ بست و کشاد سے ہمیشہ خوشگوار تعلقات رکھتے ہوئے اپنے کام کرواتے رہے ہیں۔ آخر یہ بات کون نہیں جانتا کہ پاکستان کے علماء اپنی حق گوئی کی بناء پر حکمرانوں کے زیرِ عتاب رہے ہیں لیکن مسٹر پرویز ان کی ہاں میں ہاں ملانے کے باعث اربابِ اقتدار کے منظورِ نظر رہے۔
ایک مغالطہ اور اس کی حقیقت:
بعض اوقات علمائے اسلاف کی عبارتوں سے یہ تاثر اچھالا جاتا ہے کہ آخر ایک صحیح اسلامی حکومت کو اگر “خدا و رسول” کی حکومت نہ قرار دیا جائے تو اسے کیا کہا جائے؟ پس جس طرح صحیح اسلامی حکومت، “خدا و رسول” کی حکومت قرار پاتی ہے، اسی طرح اگر ایسی حکومت کے سربراہ یا اربابِ اقتدار کو (یا پرویز صاحب کی اصطلاح میں “مرکزِ ملت” کو) “خدا و رسول” کہہ دیا جائے تو اس میں کیا حرج ہے؟
یہ بظاہر بڑا سادہ مگر بباطن بڑا گہرا مغالطہ ہے۔۔یہ درست ہے کہ ایک صحیح “اسلامی حکومت” واقعی “خدا و رسول” کی حکومت ہوتی ہے، ایسی حکومت کی مخالفت فی الواقعہ “اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم” ہی کی مخالفت قرار پاتی ہے۔ لیکن اس حکومت کے اربابِ اقتدار کو جن کے لیے پرویز صاحب نے “مرکزِ ملت کی اصطلاح وضع کی ہے، خود “خدا و رسول” قرار نہیں دیا جا سکتا۔۔!
ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ مسٹر پرویز بزعمِ خویش عمر بھر قرآنی تحقیق میں مشغول رہنے کے باوجود بھی اس عظیم فرق و تفاوت کو نہ سمجھ پائے جو اسلامی حکومت کو خدا و رسول کی حکومت قرار دینے میں اور اس حکومت کے اربابِ اقتدار کو بذاتِ خود “خدا اور رسول” قرار دینے میں پایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالودود، مولانا مودودی اور پرویز:
ادارہ طلوعِ اسلام سے وابستہ ایک ممتاز سکالر جناب ڈاکٹر عبدالودود صاحب نے مودودی صاحب کے ساتھ قلمی مناظرے میں اپنے آخری خط میں لکھا تھا:
“یہ جو میں نے کہا ہے کہ “خدا و رسول” سے مراد “اسلامی نظام ہے، تو یہ میری اختراع نہیں، اس کے مجرم آپ بھی ہیں۔ آپ نے اپنی تفسیر تفہیم القرآن میں سورہ مائدہ کی آیت ۔۔۔”﴿إِنَّما جَزٰؤُا۟ الَّذينَ يُحارِبونَ اللَّهَ وَرَسولَهُ﴾۔۔۔” کی تشریح کرتے ہوئے لکھا تھا ۔۔۔ “اللہ اور رسول سے لڑنے کا مطلب اس صالح نظام کے خلاف جنگ کرنا ہے جو اسلام کی حکومت نے ملک میں قائم کر رکھا ہو۔ ایسا نظام جب کسی سرزمین میں قائل ہو جاتا ہے تو اس کو خراب کرنے کی سعی کرنا دراصل خدا اور اس کے رسول کے خلاف جنگ ہے۔۔۔ذرا غور فرمائیے، اگر میں “خدا و رسول” سے مراد، اسلامی حکومت لوں تو ہدفِ طعن و تشنیع بن جاؤں اور اس سے آپ وہی مراد لیں تو مفسرِ قرآن کہلائیں۔” (بحوالہ ترجمان القرآن، منصبِ رسالت نمبر 171)
اس وقت مودودی صاحب نے ڈاکٹر صاحب کے جواب میں لکھا تھا:
“یہاں پھر ڈاکٹر صاحب نے میری سامنے میری ہی عبارت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے، اصل عبارت یہ ہے۔۔۔۔
“ایسا نظام جب کسی سرزمین پر قائم ہو جائے تو اس کو خراب کرنے کی سعی کرنا، قطع نظر اس کے کہ وہ چھوٹے پیمانے پر قتل و غارت اور رہزنی و ڈکیتی کی حد تک ہو یا بڑے پیمانے پر اس صالح نطام کو الٹنے اور اس کی جگہ کوئی فاسد نظام قائم کر دینے کے لیے ہو، دراصل خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلا ف جنگ ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے تعزیراتِ ہند میں، ہر اُس شخص کو جو برطانوی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرے بادشاہ کے خلاف لڑائی کا مجرم قرار دیا گیا ہے، چاہے اس کی یہ کاروائی ملک کے کسی دور دراز گوشے میں ایک معمولی سپاہی ہی کے خلاف کیوں نہ ہو اور بادشاہ اس کی دسترس سے کتنا ہی دور ہو۔۔۔
تفہیم القرآن سے خود اپنا اقتباس پیش کرنے کے بعد مودودی صاحب نے لکھا تھا:
“اب ایک معمولی سمجھ بوجھ کا آدمی بھی خود دیکھ سکتا ہے کہ بادشاہ کی نمائندگی کرنے والے سپاہی کے خلاف جنگ کو بادشاہ کے خلاف جنگ قرار دینے اور سپاہی کو خود بادشاہ قرار دینے میں کتنا بڑا فرق ہے؟ ایسا عظیم فرق ان دو باتوں میں ہے کہ ایک شخص اللہ اور رسول کے نظامِ مطلوب کو چلانے والی حکومت کے خلاف کاروائی کو اللہ اور رسول کے خلاف کاروائی قرار دے اور دوسرا شخص یہ دعویٰ کرے کہ یہ حکومت خود “اللہ اور رسول” ہے۔ اس فرق کی نزاکت پوری طرح سمجھ میں نہیں آ سکتی جب تک آپ ان دونوں کے نتائج پر تھوڑا سا غور نہ کر لیں۔
فرض کیجئے کہ اسلامی حکومت کس وقت ایک غلط حکم دے بیٹھتی ہے جو قرآن و سنت کے خلاف پڑتا ہے۔ اس صورت حال میں میری تعبیر کے مطابق تو عام مسلمانوں کو اٹھ کر یہ کہنے کا حق پہنچتا ہے کہ۔۔ “آپ اپنا حکم واپس لیجیے کیونکہ آپ نے اللہ اور رسول کے فرمان کی خلاف ورزی کی ہے۔ اللہ نے قرآن میں یہ فرمایا ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے یہ ثابت ہے اور آپ اس سے ہٹ کر یہ حکم دے رہے ہیں لہذا آپ اس معاملہ میں اللہ اور رسول کی صحیح نمائندگی نہیں کرتے”۔۔۔ مگر منکرین حدیث کی تعبیر کے مطابق اسلامی حکومت خود ہی اللہ اور رسول ہے۔ لہذا مسلمان اس کے کسی حکم کے خلاف یہ استدلال لانے کا حق نہیں رکھتے۔ جس وقت وہ یہ استدلال کریں گے اس وقت حکومت یہ کہہ کر ان کا مند بند کر دے گی کہ ۔۔۔ اللہ اور رسول ہم خود ہیں جو کچھ ہم کہیں اور کریں، وہی قرآن بھی ہے اور سنت بھی” (ترجمان القرآن، منصبِ رسالت نمبر ص 171-172)
استفادہ تحریر: خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا مرکزِ ملت؟قرآن کریم کی روشنی میں از محمد دین قاسمی