قرآن نے جگہ جگہ اطاعت ِ رسول كا حكم ديا ہے لیکن منكرين حديث رسول كى حيثيت ايك ڈاكیے سے زيادہ نہيں سمجهتے، حیثیت ِرسالت كو صرف ‘پيغام پہنچا دينے’ كى حد تك محدود جانتے ہيں ، حالانكہ تبليغ رسالت ايك الگ فريضہ ہے اور اطاعت رسول ايك الگ چيز ہے۔اطاعت رسول، منكرين حديث كے لئے بہت بڑى وجہ پريشانى ہےچنانچہ وہ اس كى تاويل يہ كرتے ہيں كہ اطاعت ِرسول كا معنى، اطاعت ِخداوندى ہى ہے جس كى عملى شكل كتاب اللہ كى پيروى ہے- ليكن يہ بات پهر ان كے لئے دردِ سر بن جاتى ہے كہ قرآنِ كريم ميں اتباعِ قرآن كا الگ ذكر ہے اور اطاعت ِرسول كا الگ حكم ہے اور اس پر مستزاد يہ كہ قرآنِ مجيد كو كہيں بهى اُسوئہ حسنہ نہيں كہا گيا، جبكہ رسول اللہ (كى زندگى) ميں اہل مسلمان كے لئے بہترين اُسوہ كا ذكر كيا گيا ہے ليكن منكرين حديث يہاں دليل كى بجائے، ضد اورہٹ دهرمى سے كام ليتے ہوئے باصرار يہ كهے چلے جاتے ہيں كہ رسول كى اطاعت، اصلاً اللہ ہى كى اطاعت ہے اور اللہ كى اطاعت كى عملى صورت صرف يہ ہے كہ كتاب اللہ كى پيروى كى جائے- يوں يہ لوگ اللہ كى اطاعت كى عملى صورت ميں ، اطاعت ِرسول كى اس كڑى كو خارج كرديتے ہيں جس كى وساطت سے كتاب اللہ ، اہل ايمان كوملى ہے-
واقعاتى صورتِ حال يہ ہے كہ محمد رسول اللہﷺہمارے پاس پہلے آئے، ہم ان كى رسالت پر ايمان لائے، تب ان ہى كے كہنے پر (حديث رسول كى بنياد پر) ہم نے قرآن كو قرآن تسليم كيا ہے- اب يہ كس قدر عجيب بات ہے كہ محمد رسول اللہﷺ كى جس زبان پر اعتماد كرتے ہوئے ہم نے قرآن كو قرآن مانا ہے، اُسى زبان كوايمان بالقرآن كے فوراً بعد ہم نظر انداز كرديں اور خداے كائنات كى طرف سے مامور من اللہ نمائندہ ہونے كى حيثيت سے جو سركارى تشريح، زبان ترجمان وحى نے فرمائى ہے وہ يكسر مہمل اور بے معنى ہوكر رہ جائے۔
پرويز صاحب فرماتے ہيں :
“اطاعت اور حكومت صرف خدا كى ہوسكتى ہے، كسى انسان كى نہيں – ليكن خدا تو ہمارے سامنے (محسوس شكل ميں ) نہيں ہوتا، ہم اس كے احكام كو براہ راست سن نہيں سكتے، اس لئے اس كى اطاعت كس طرح كى جائے؟ اس كے لئے اس نے خود ہى بتا ديا كہ يہ اطاعت اس كى كتاب كى مدد سے كى جائے، جسے اس نے نازل كيا ہے۔( طلوع اسلام ، اکتوبر 1956ء ،ص51)
يہى منكرين حديث كى وہ اصل گمراہى ہے جس پر وہ ضد اور ہٹ دهرمى سے ڈٹے ہوئے ہيں – سوال يہ ہے كہ اللہ تعالىٰ نے قرآن ميں يہ بات كہاں فرمائى ہے كہ : “اس كى اطاعت، اس كتاب كى مدد سے كى جائے جسے اس نے نازل كيا ہے-” كيا قرآن نے كہيں بهى يہ كہا ہے كہ من يتبع القرآن فقد أطاع الله “جس نے كتاب اللہ كى پيروى كى ، اس نے اللہ كى اطاعت كى-”
آخر خود سوچئے كہ يہ خداوند قدوس اور اس كى كتاب پربہتان تراشى ہے يا مزاج شناسى اُلوہيت؟
رسول – مامور من اللہ شارحِ قرآن:
كتاب كے ساتھ الله تعالىٰ نے اپنے نبى كو بهيجا ہے تو اس كا مقصد كيا ہے؟ قرآن يہ بيان كرتا ہے كہ:
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ…﴿٤٤﴾…سورۃ النحل)”اور ہم نے (اے رسول!) تيرى طرف يہ ذكر نازل كيا، تاكہ تُو لوگوں كے لئے اُس چيز كى وضاحت كر دے جو ان كى طرف اُتارى گئى-”
يہ آيت جس طرح ان منكرين نبوت كى حجت كے لئے قاطع تهى جوخدا كا ‘ذكر’ بشر كے ذريعہ سے آنے كو نہيں مانتے تهے، اسى طرح آج يہ ان منكرين حديث كى حجت كے لئے بهى قاطع ہے جو نبى كى توضيح و تشريح كے بغير صرف ‘ذكر’ كولے لينا چاہتے ہيں – وہ خواہ اس بات كے قائل ہوں كہ (1) نبى نے تشريح و توضيح كچھ بهى نہيں كى، صرف ‘ذِكر’ پيش كرديا تها (2)يا اس كے قائل ہوں كہ ماننے كے لائق صرف ‘ذكر’ ہے نہ كہ نبى كى تشريح (3) يا اس كے قائل ہوں كہ اب ہمارے لئے صرف ‘ذِكر’ كافى ہے، نبى كى تشريح كى كوئى ضرورت نہيں ۔(4)يا اس بات كے قائل ہوں كہ اب صرف ‘ذِكر’ ہى قابل اعتماد حالت ميں باقى رہ گيا ہے، نبى كى تشريح يا تو باقى ہى نہيں رہى يا باقى ہے بهى تو بهروسے كے لائق نہيں ہے-
غرض ان چاروں باتوں ميں سے وہ جس بات كے بهى قائل ہوں ، ان كا مسلك بہرحال قرآن كى اس آيت سے ٹكراتا ہے-
اگر وہ پہلى بات كے قائل ہيں تو اس كے معنى يہ ہيں كہ نبى نے اس منشا ہى كو فوت كرديا جس كى خاطر ذكر كو فرشتوں كے ہاتھ بهيجنے يا براہ راست لوگوں تك پہنچا دينے كى بجائے اسے واسطہ تبليغ بتايا گيا تها-اگر وه دوسرى اور تيسرى بات كے قائل ہيں تو اس كا مطلب يہ ہے كہ اللہ مياں نے (معاذ الله) يہ فضول حركت كى كہ اپنا ‘ذكر’ ايك نبى كے ذريعہ بهيجا كيونكہ نبى كى آمد كا حاصل بهى وہى ہے جو نبى كے بغير صرف ذكر كے مطبوعہ شكل ميں نازل ہوجانے كا ہوسكتا تها۔اگر وہ چوتهى بات كے قائل ہيں تودراصل يہ قرآن اور نبوتِ محمدى دونوں كے نسخ كا اعلان ہے جس كے بعد اگر كوئى مسلك معقول باقى رہ جاتا ہے تو وہ ان لوگوں كا مسلك ہے جو ايك نئى نبوت اور نئى وحى كے قائل ہيں – اس لئے كہ اس آيت ميں اللہ تعالىٰ خود قرآنِ مجيد كے مقصد ِنزول كى تكميل كے لئے نبى كى تشريح كو ناگزير ٹھہرا رہا ہے اور نبى كى ضرورت ہى اس طرح ثابت كررہا ہے كہ وہ ذكر كے منشا كى توضيح كرے-
اب اگر منكرين حديث كا يہ قول صحيح ہے كہ نبى كى توضيح و تشريح دنيا ميں باقى نہيں رہى ہے تو اس كے دو نتيجے كهلے ہوئے ہيں :
پہلا يہ كہ نمونہٴ اتباع كى حيثيت سے، نبوتِ محمدى ختم ہوگئى اور ہمارا تعلق محمدﷺكے ساتھ صرف اس طرح كا رہ گيا جيسا ہود، صالح اور شعيب علیہم السلام كے ساتھ ہے كہ ہم ان كى تصديق كرتے ہيں ، ان پر ايمان لاتے ہيں ، مگر ان كا كوئى اسوہ ہمارے پاس نہيں ہے جس كا ہم اتباع كريں – يہ چيز ايك نئى نبوت كى ضرورت ، آپ سے آپ ثابت كرديتى ہے- صرف ايك بے وقوف آدمى ہى اس كے بعد ختم نبوت پراصرار كرسكتا ہے-
دوسرا نتيجہ يہ ہے كہ اكيلا قرآن نبى كى تشريح و تبیین كے بغير خود اپنے بهيجنے والے كے قول كے مطابق ہدايت كے لئے ناكافى ہے، اسلئے قرآن كے ماننے والے خواہ كتنے ہى زور سے چيخ چيخ كر اسے بجائے خود كافى قرار ديں ، مدعى سست كى حمايت ميں گواہانِ چست كى بات ہرگز نہيں چل سكتى اور ايك نئى كتاب كے نزول كى ضرورت آپ سے آپ، خود قرآن كى رُو سے ثابت ہوجاتى ہے- قاتلهم الله اس طرح يہ لوگ حقيقت ميں انكارِ حديث كے ذريعے دين كى جڑ كهود رہے ہيں ۔”( تفہیم القرآن، ج2، ص543 تا 545)
اس بحث كو مختصر كرتے ہوئے، آخر ميں ، جناب پرويز صاحب ہى كا ايك اقتباس نذرِ قارئين كررہا ہوں :
“اس ميں شبہ نہيں كہ دنيا ميں كتب ِسماوى اور حضرات انبيا كرام كى تشريف آورى كا سلسلہ اس غرض و غايت كے لئے ہے كہ دنيا ميں انسان خدا كا فرماں بردار بن كر جئے- گويا انسانى زندگى كا مقصود بالذات’ اطاعت ِخداوندى ‘ہى ہے، ليكن چونكہ خدا ہر ايك كے سامنے نہيں آتا، نہ ہرايك سے كلام كرتا ہے- اس لئے انسانوں كو پتہ كيسے چلے كہ كس كام ميں اس كى اطاعت ہے اور كس ميں معصيت- اس كے لئے اس نے اپنے پيغامات علىٰ التواتر دنيا ميں بهيجے اور ان پر كاربند ہونے كا حكم فرمايا، تو گويا كتابوں پرعمل پيرا ہونا درحقيقت اطاعت ِخدا ہى تها ليكن جيسا كہ اوپر ذكر آچكا ہے، كتاب بلاتعميل يہ واضح نہيں كرسكتى كہ اس كے احكام پر كس شكل اور كس نوعيت سے عمل پيرا ہونا چاہئے- اس لئے انسانوں ميں رسول منتخب كئے گئے تاكہ وہ ان احكام پر خود عمل پيرا ہوكر دوسروں كے لئے ايك اُسوہ قائم كريں ، لہٰذا حكم ديا گيا كہ رسول كى اطاعت كرو- مقصودِ آخرى يا منتہىٰ اگرچہ اطاعت ِخدا ہى تها، ليكن بجائے اس كے كہ اس اطاعت كى شكل ہر ايك كى اپنى مرضى يا زيادہ سے زيادہ فہم و ادراك پر چهوڑا جاتا، حكم دے ديا كہ اپنى رائے كو دخل نہ دو، بلكہ جس طرح سے يہ رسول كركے دكهاتا ہے يا كرنے كا حكم ديتا ہے اس كے مطابق كرتے جاوٴ، يہى اطاعت خدا ہوجائے گى : ﴿مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ…﴿٨٠﴾…سورۃ النساء﴾ “جس نے رسول كا حكم مانا اس نے گويا خدا كى اطاعت كى-”
چنانچہ انبياءِ سابقہ كے حالات سے پتہ چلتا ہے كہ انہوں نے بهى اپنى اپنى قوم كو خدا كى اطاعت كا جو سبق ديا تو انہى الفاظ ميں كہ ہمارى يعنى رسولوں كى اطاعت كرو- سورة الشعراء ميں سب سے پہلے حضرت نوح سے يہ الفاظ مذكور ہيں : ﴿فَاتَّقُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُونِ﴾ “اللہ سے ڈرو اور ميرى تابعدارى كرو-”
بعينہ يہى الفاظ حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت لوط اور حضرت شعيب كى زبان سے، اسى جگہ مذكور ہيں ، چنانچہ اسى حقيقت ِعظمىٰ كو قرآن نے اجتماعى طور پر بطورِ حصر، ان الفاظ ميں بيان فرمايا ہے:﴿وَماَ أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إلَّا لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللهِ﴾ “ہم نے ہر رسول كو اس لئے بهيجا كہ خدا كے حكم سے اس كى اطاعت كى جائے-”
گويا رسول كى اطاعت ، خدا كے حكم سے ہے، ليكن اطاعت اس كى ضرور ہے، يہى وجہ ہے كہ اللہ تعالىٰ نے كہيں يہ حكم ديا ہے كہ﴿اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ…﴿٣﴾…سورۃ الاعراف﴾ “اُس كى پيروى كرو جو تمہارے رب كى طرف سے اتارا گيا ہے-”
اور كہيں نجات و سعادت كو اتباع رسول عربى كے ساتھ مشروط كيا گياہے، چنانچہ حضرت موسىٰ كى دعا كے جواب ميں فرمايا كہ تمہارى قوم ميں سے ہمارى رحمت ان كے ساتھ ہوگى: ﴿الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ…﴿١٥٧﴾…سورۃ الاعراف﴾ “جو اتباع كريں گے اس رسول و نبى اُمى كا جس كا ذكر يہ لوگ اپنے ہاں تورات اور انجيل ميں لكها ہوا پاتے ہيں -”
تو اس كا مطلب يہ نہيں كہ (نعوذ باللہ) ان احكام ميں تضاد ہے كہ كہيں قرآن كے حكم كا اتباع ہے اور كہيں رسول كے اتباع كا- بلكہ اصل يہ ہے كہ رسول كا اتباع ہى قرآن كا اتباع ہے كيونكہ رسول كو خود حكم ديا گيا ہے كہ﴿وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ…﴿٢﴾…سورۃ الاحزاب﴾ “اور جو تمہارے ربّ كى طرف سے تم پروحى كى جاتى ہے، اس كا اتباع كرو-”
لہٰذا ان احكام كى موجودگى ميں اب يہ كسى كى اپنى مرضى و منشا كے ماتحت نہ رہا كہ جس طرح جى چاہے قرآن كا اتباع كرلے بلكہ قرآن كا اتباع ہو ہى اس شكل ميں سكتا ہے جس شكل ميں رسول نے كيا يا كرنے كا حكم ديا۔( معارف، اپریل 1935ء ، ص280 تا 282)
قدرے اور آگے چل كر پرويز صاحب لكهتے ہيں – اور نبى اكرمﷺكے مجسمہ تعميل قرآن اور اُسوہٴ حسنہ كى حيثيت سے يوں استدلال كرتے ہيں :
“چونكہ اس تعميل اور نمونہ كے بغير خدا كى اطاعت ممكن نہ تهى، اس لئے جہاں قرآنِ كريم ميں ﴿أَطِيعُوا اللَّـهَ﴾ آيا ہے، اس كے ساتھ ہى ﴿وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ﴾ بهى آيا ہے- كہيں ايك جگہ بهى اكيلا ﴿أَطِيعُوا اللَّـهَ﴾ نہيں آيا اور چونكہ ﴿وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ﴾ ميں اطاعت خداوندى خود بخود آجاتى ہے، اس لئے خالى ﴿أَطِيعُوا الرَّسُولَ﴾ قرآن ميں بعض جگہ آيا ہے، مثلاً ﴿وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴿٥٦﴾…سورۃ النور﴾ “رسول كى اطاعت كرو تاكہ تم پر رحم كيا جائے-” اور جہاں جہاں ﴿أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ﴾ آيا ہے ، وہاں درحقيقت ﴿أَطِيعُوا اللَّـهَ﴾ سے مراد اطاعت ِرسول ہى ہے۔( معارف ، اپریل 1935ء ، ص 282 تا 283)
يہ اقتباسات، منكرين حديث كے خلاف لكهے جانے والے اس مقالے سے مقتبس ہيں جو اس دور ميں پرويز صاحب نے لكها، جب وہ ذہنا ً اور قلبا ً حديث ِنبوى اور سنت ِرسول سے منحرف ہوچكے تهے ليكن مسلم عوام اور علماے كرام ميں مقبوليت(Popularity) پالينے كے لئے وہ اپنے قلم سے ان ہى خيالات كو پيش كرنے پر مجبور تهے جو عامة الناس ميں اور علماء كرام ميں سلفا ً و خلفا ً مقبول تهے- ان خيالات كے اظہار كى غرض و غايت خواہ كچھ بهى ہو ليكن يہ خيالات بہرحال درست، صحيح، مطابق قرآن اور موافق اسلام تهے، ليكن جب بعد ميں اس بنيادى مسئلہ ميں پرويز صاحب نے قلا بازى لگائى تو پهر ان كا تكيہ كلام ہى يہ بن گياكہ__ “رسول كى اطاعت بهى كتاب كى پيروى كے ذريعہ ہوگى” اور مغربى معاشرت كے جملہ عادات و اطوار اور اشتراكيت كا پورا نظام اور فرنگى تہذيب كا ہر فكر اور فلسفہ جو من پسند ٹھہرا، اسے يہ كہہ كر قبول كرليا كہ “يہ مطابق قرآن ہے-” اور يوں اللہ تعالىٰ كے دين كى تكميل ہوئى۔
خلاصہ:
كتاب اللہ كے ساتھ، حضرت محمدﷺكا تعلق دو طرح كا ہى ممكن ہے:اوّلاً _ يہ كہ كتاب آپ پر اللہ كى طرف سے نازل ہوئى ہو اور آپ بحیثیت ِرسول اس كتاب كى تبیین كے ذمہ دار ہوں – ہمارے نزديك كتاب اللہ كے ساتھ رسول اللهﷺكے تعلق كى يہى نوعيت ہے۔
ثانياً_ يہ كہ كتاب آپ كى تصنيف ہو اور آپ خود اس كتاب كے مصنف ہوں – كتاب اللہ كے ساتھ آپ كے اس تعلق كے قائل كفارِ عرب تهے- تاہم اگر كتاب اللہ كے ساتھ حضور اكرم ﷺ كا تعلق، تصنیف اور مصنف كا تعلق ہى مانا جائے تب بهى اس تبیین و تفسیر كو قبول كئے بغير چارہ نہيں جو خود مصنف نے پيش كى ہے- خود مصنف كى اپنى تشريح كو چهوڑ كر كسى كا اپنى توضيح كرنا يا كسى تيسرے فرد كى تبیین كو تبیین مصنف كے مقابلے ميں قبول كرنا انتہائى نامعقول طرزِعمل ہے-
قرآن كريم كى رو سے حضورِ اكرمﷺ اُسوئہ حسنہ بهى ہيں ، مگر ہرطرح كے تمام انسانوں كے لئے نہيں بلكہ صرف ان افراد كے لئے ،”جو اللہ اور يومِ آخرت كى اميد ركهتے ہيں اور يادِخداوندى كو بكثرت مستحضر ركهتے ہيں -” ﴿لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيرًا ﴿٢١﴾…سورۃ الاحزاب﴾ اس آيت كى وضاحت ميں کسی زمانے میں خود پرويز صاحب نے لکھا تھا :
“يہ آيت آپ اپنى تفسير ہے يعنى ايك شخص جو خدا سے بہت ڈرتا ہے اور اسے يقين ہے كہ جو كچھ اس دنيا ميں كيا جاتا ہے، ايك دن خدا كے حضور پہنچ كر اس كى جوابدہى ضرور ہوگى- اب جس شخص كا يہ ايمان و يقين ہو لامحالہ وہ يہى چاہتا ہے كہ اسے معلوم ہوجائے كہ وہ كون سى شاہراہ حقيقت ہے جس پرگامزن ہوكر وہ اس منزل مقصود كو پالے گا اور ادہر ادهر ضال ومغضوب (ذليل و خوار) نہيں ہوتا پهرے گا- اس لئے فرمايا كہ تردّد كى كيا ضرورت ہے، رسول كى زندگى كا نمونہ سامنے ہے، اس ہادئ صراط مستقیم كے نقوش قدم موجود ہيں – بلا خوف و خطر ان نشانوں پر چلتے جاوٴ، كسى قسم كا بهى خوف وخطر نہ ہوگا۔( معارف ، اپریل 1935ء ، ص279 تا 280)