علامہ اقبال اور حدیث نبوی کا موضوع کئی اعتبار سے اہم ہے – افکار اقبال کی تفہیم ، اشعار میں عیاں و پنہاں تلمیحات کی شرح اور عمومی فکری رجحانات کے تجزیہ و تحلیل کے لیے احادیث نبوی کے مطالعہ اور تخریج کی ضرورت تو سامنے کی بات ہے – اس ضمن میں بہت سا کام ہوا بھی ہے . مثال کے طور پر دیکھئے : اکبر حسین قریشی ، مطالعہ تلمیحات و اشارات اقبال ، اقبال اکادمی پاکستان،۱۹۸۶ باب:تلمیحات حدیث، ص ۱۰۵ ؛ محمد حنیف شاہد ، ’’احادیث نبوی ، کلام اقبال میں‘‘، اقبال ، بزم اقبال لاہور ۱۹۹۱ء جلد ۳۸ ، شمارہ ۱ – ۲ ، صفحات ۱۳ – ۵۰ ؛ حافظ منیر خان ’’ اقبال اور حدیث (اسرار خودی کے حوالے سے)، اقبال ، بزم اقبال ، لاہور ، جلد ۴۷، شمارہ ۳،۲،۱، جنوری – جولائی ۲۰۰۰ء ، ص ۱۳۹ – ۱۵۸-
ان تحریروں کو معیار اور تعداد دونوں اعتبار سے قابل اطمینان قرار دیا جا سکتا ہے – تاہم احادیث نبوی کی تشریعی حیثیت ، صحت و استناد حدیث اور حجیت و حفاظت حدیث کا پہلو ایسا ہے جس کے حوالے سے اقبالیات میں تحقیقی کام نسبتاً کم نظر آتا ہے – حدیث کی اس حیثیت کے بارے میں علامہ کی رائے کا تعین کرنے کے لیے جن مصنفین نے قلم اٹھایا ہے انہیں ہم دو دستہ قرار دے سکتے ہیں –
ایک طرف وہ اہل قلم ہیں جنہوں نے صرف اتنا بتانا کافی سمجھا ہے کہ اگر علامہ اقبال کے اشعار میں احادیث رسولؐ کے بکثرت حوالے اور تلمیحات پائی جاتی ہیں تو یہ فی نفسہ اس امر کا ثبوت ہے کہ علامہ احادیث رسولؐ کو قانون سازی کے عمل میں قرآن کے بعد مأخذ قانون کا درجہ دیتے تھے (مثال کے طور پر دیکھئے ، محمد فرمان ، اقبال اور منکرین حدیث ، گجرات ، ۱۹۶۳ء ص ا تا۶۰)
دوسری طرف ماہرین اقبالیات کا وہ گروہ ہے جس نے علامہ کی نثری تحریروں، خطوط اور مقالات کے حوالے سے علامہ کی شعری تخلیقات اور نثر میں ظاہر کی گئی آراء کے درمیان ایک امتیاز قائم کیا ہے – (مثلا عمران نذر حسین ، ’’ اقبال اور زمان آخر ‘‘ ، تیسری علامہ اقبال کانفرنس پنجاب یونیورسٹی ، لاہور ، ۱۹۹۸ء -) ان حضرات کی تحریروں میں عموماً یہ بات سامنے آتی ہے کہ علامہ کا رویہ اس ضمن میں دولخت ہے , شعر میں وہ احادیث سے استناد و استشہاد کرتے ہیں اور ضعیف روایات بھی منظوم کر لیتے ہیں جبکہ نثری تحریروں بالخصوص تشکیل جدید میں حدیث کے بارے میں ان کا رویہ احتیاط و گریز کا ہے۔ اقبال کی شاعری اور نثر میں جو یہ تضاد دکھائی دیتا ہے اسے مختلف ماہرین اقبال اپنے وسعت و قلت علم کے مطابق اور اپنے حسب فہم گمان مختلف طرح سے حل کرتے ہیں۔ بعضوں کا خیال ہے کہ اقبال کی شاعری وجدانی ہے اور نثر عقلی، وجدانی سطح پر وہ مسلمان تھے اور عقلی سطح پر فلسفی۔ ایک ہی وقت میں اقبال پر دو متضاد افکار و مناہج کا غلبہ تھا جیسا کہ اکثر مفکرین کے یہاں یہ مختلف پہلووں میں دیکھنے کو ملتا ہے اور یہی بات قرین قیاس محسوس ہوتی ہے۔
بعض ماہرین نے اس احتیاط و گریز میں سے ایک اصول فقہ دریافت کرنے کی سعی کی جس کے تحت قانون سازی کے عمل میں حدیث کو ماخذ قانون نہ بنانا علامہ کی منشا قرار پائی (جیسے الطاف حسین آہنگر ، ’’ اقبال اور حدیث – قانونی تناظر ‘‘ ،( انگریزی) اقبال ریویو ، اقبال اکادمی پاکستان ، جلد ۳۷ ، شمارہ ۳ ، اکتوبر ۱۹۹۶ء ص ۸۹ – ۱۱۰(خصوصاً ص ۱۰۲ ، ۱۰۵ )
کچھ اور حضرات نے اس میں ایک فلسفہ تشکیک اور ’’ تاریخی تنقید ‘‘ کی جھلک دیکھی اور اسے علامہ کی رائے قرار دیا ۔ جبکہ حقیقت میں اس میں سے اصول فقہ اور فلسفہ تشکیک برامد کرنا شوق فضول و جرأت رندانہ کے زمرے میں شمار ہونا چاہیے – اس وقت ہمیں ان آراء سے بحث نہیں ہے ,تفصیلی بحث کے لیے محمد سہیل عمر کی کتاب خطبات اقبال نئے تناظر میں ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور ، ۱۹۹۶ء دیکھی جاسکتی ہے -سردست قارئین اقبالیات کی توجہ ایک اور مسئلے کی طرف دلانا مقصود ہے جو علامہ کے احتیاط پسند رویے کو سمجھنے کی کلید بھی ہے اور تاریخ و تدوین حدیث کی ایک الجھن کو حل کرنے میں ہماری مدد بھی کرتا ہے – اس بات کے پس منظر کو واضح کرنے کے لیے مندرجہ ذیل نکات سامنے رکھنا مناسب ہو گا –
علم مغرب کے ظلمات طلسم میں کے حجرئہ ہائے چند بلا میں سے یوں تو بہت سے بلائیں نکلی ہیں لیکن ان میں ’’تاریخی تنقید‘‘historical criticism کا عفریت ایسا ہے جس نے عیسوی دینیات کو سب سے زیادہ متاثر کیا – مطالعہ انجیل کو تو گویا اس نے سارا نگل رکھا ہے- مستشرقین اسی معاشرے کے نمائندے اور اسی ذہنی فضا کے پروردہ تھے سو ان کی تحریروں میں یہ بلا اسلام پر بھی حملہ آور ہوئی- مطالعات قرآن کے ضمن میں تو اس کی کامیابی سرے سے قابل اعتناء نہ ہو سکی لیکن حدیث نبوی پر مغربی محققین اور مستشرقین کی تاریخی تنقید نے عالم اسلام کے بہت سے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو متاثر کیا – کچھ حصہ اس میں مرعوبیت کا بھی تھا – جدید مسلمان مفکرین پر مغربی مورخین اور مستشرقین کی دیانت و وسعت علمی اور تحقیق کے اسالیب و وسائل کے نتیجہ خیزی کی دھاک جو بیٹھی ہوئی تھی – علامہ اقبال تک آتے آتے صحت و استناد حدیث کے بارے میں مغربی اہل علم کی ایک خاص رائے قائم ہو چکی تھی اور اس کو ہمارے مفکرین میں سے کئی لوگوں نے قبول کر لیا تھا – اس رائے کے قائم ہونے کا ایک پس منظر ہے –
احادیث نبوی کی صحت و استناد کو معرض تشکیک میں ڈالنے کا عمل برسوں پہلے اسپرنگر کی جرمن تحریروں سے شروع ہو چکا تھا (A Sprenger; “Ueber das Traditionswesen beiden Arabern”, Zeitschift des Dcentschen Mondentandische gesellschaft (ZDMG) vol . 10 , 11856), pp 1-17) – ان کا انگریزی ترجمہ بھی ہندوستان میں اسی دور (۱۸۵۶ئ) میں چھپ گیا تھا (A Sprenger; “On the origin and Progress of writing down Historical Facts among the Musulmans” Journal of the Asiatic Society of Bengal, 25 (1856), pp,303-329, 375-381.) -اس کے چار برس بعد نولد یکے کا کام سامنے آیا (M.Noldeke: Geschichte des Korans.1860)- ۷۷- ۱۸۷۵ء میں الفرڈ وان کریمر کی تصنیف دو جلدوں میں منظر عام پر آئی (Alfred von Kremer: Kulturgeschichte des Orlients unter den Chalifen, 2 vols., 1875 – 1877) –
ان سب کے ہاں ذخیرہ احادیث کے بارے میں وہی رویہ کارفرما تھا جسے بعدازاں تاریخی تنقید کے نام سے شہرت ملی – گولٹ تسیھر تک آتے آتے یہ رجحان ایک مکمل فلسفہ تشکیک اور مدلل تنقید و تردید صحت احادیث میں ڈھل چکا تھا جو اس کی کتاب Muhammedanische Studien میں پوری شدت اور تفصیل سے ظاہر ہوا –
بیسویں صدی کے اوائل تک مستشرقین کے حلقوں اور ان کی تصانیف کا مطالعہ کرنے والوں میں یہ بات مسلمات میں داخل ہو چکی تھی کہ احادیث کا ذخیرہ تاریخی اعتبار سے قابل اعتبار نہیں ہے – یہی وہ رائے ہے جو تشکیل جدید میں علامہ نے نقل کی اور علامہ اقبال اور حدیث نبوی کے موضوع پر قلم اٹھانے والے مصنفین نے اسی عبارت کا بار بار حوالہ دیا ہے –
یہ تشکیل جدید کا وہ اقتباس ہے جو حدیث کے مأخذ قانون ہونے کی بحث کا آغاز کرتے ہوئے علامہ نے درج کیا ہے – عبارت کا تعلق ہے گولٹ تسیھر کی اس رائے سے جو اس نے اپنی کتاب کی جلد دوم میں نقد حدیث کے ضمن میں پیش کی تھی – تشکیل کی انگریزی عبارت درج ذیل ہے –
The Hadith. The second great source of Muhammadan Law is the traditions of the Holy prophet. These have been the subject of great discussion both in ancient and modern times. Among their modern critics Professor Goldziher has subjected them to a searching examination in the light of modern canons of historical criticism, and arrives at the conclusion that they are, on the whole, untrustworthy
بعد کے سالوں میں اس صورتحال میں خاصی تبدیلی آئی لیکن علامہ کے زمانے کو پیش نظر رکھئے تو تین ہی امکانات سامنے آتے ہیں –
1. مخاطب کے مسلمات فکر کی رعایت کرتے ہوئے انہی کے حوالے سے تعبیر دین یا تعبیر حقائق کی جائے –
2. مخاطب کے مسلمات کی ترمیم، تردید، تغلیط کی جائے اور اسے اپنے مسلمات فکر اور قضایا تک لا کر آغاز کلام کیا جائے –
3. اساسی مفاہیم اور مبادی فکر پر اتفاق رائے نہ پا کر مکالمے کے امکانات کو رد کرتے ہوئے خود کلامی پر اکتفا کیا جائے –
علامہ نے اول الذکر منہاج تطبیق اپنائی اور تشکیل جدید کے دیگر بہت سے مباحث کی طرح یہاں بھی مخاطب کو رعایت دیتے ہوئے اسی کی بات کے سہارے اسے اپنانقطۂ نظر سمجھانے کی سعی کی –
اس کے علاوہ اس مسئلے کا ایک پہلو بھی تھا – مذکورہ بالا مصنفین کے علاوہ مغرب میں جو دیگر انصاف پسند اہل قلم ہوئے ہیں ان کا کام ابھی سامنے نہیں آیا تھا – مسلمان اہل علم نے تاریخ حدیث ، تدوین حدیث اور صحت و استناد و حدیث پر مذکورہ مغربی اعتراضات کا جوابی کام ابھی پیش نہیں کیا تھا – مغربی تعلیم یافتہ مسلمانوں میں علوم حدیث پر فنی گرفت بھی مفقود تھی اور مغرب کی تنقید کا رعب بھی طاری تھا – ہر دو اسباب نے ان میں علمی جواب دینے کی اہلیت باقی نہ چھوڑی تھی – علمائے وقت مغربی اہل قلم کی جرح و تنقید سے نہ تو واقف تھے نہ اس کے نئے ڈھنگ کے اعتراضات کو سمجھ پائے تھے – ایسے حالات میں انگریزی میں مغربی تعلیم یافتہ اور مغرب زدہ مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے علامہ اقبال یہی راستہ اختیار کر سکتے تھے جو انہوں نے کیا – ان کا محتاط رویہ اور گریز اسی مجبوری کا نتیجہ اور اسی منہاج کا تقاضا تھا۔
علامہ کے زمانے کے بعد صورتحال رفتہ رفتہ بدلتی چلی گئی – ایک طرف تو مغرب میں کچھ لوگوں نے معروضیت اور انصاف پسندی سے کام لیتے ہوئے ذخیرہ حدیث اور تاریخ حدیث کا مطالعہ کیا اور مذکورہ بالا مستشرقین کی آراء کی کمزوری واضح کی اور دوسری طرف مسلمانوں کے جدید تعلیم یافتہ طبقے میں سے ایسے اہل علم ابھرے جو علوم حدیث پر اور علوم اسلامیہ پر عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ مغربی منہاج علم اور مستشرقین کی تحقیقات سے بخوبی آشنا تھے – ان کی اس جامعیت نے حدیث اور مطالعات حدیث میں ایک نئے دور کا آغاز کیا- ان کی تحریروں سے مستشرقین کی غلط آراء کا طلسم بھی ٹوٹا اور مسلمانوں کے جدید تعلیم یافتہ طبقات میں پائی جانے والی بے بنیاد مرعوبیت کا بھی کسی حد تک ازالہ ہوا- ان لوگوں میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ، فواد سیزگین، ڈاکٹر محمد مصطفی الاعظمی اور ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری صاحب کے نام سر فہرست ہیں۔انگلش میں چند قابل ذکر ریسرچ یہ ہیں :
)M.M.Azami, Studies in Early Hadith Literature (Beirut: al-Maktab al-Islami,1968)،
M.M.Azmi, On Schacht’s Origins of Muhammadan Jurisprudence (New York: John Wiley,1985)،
Nabia Abbott, Studies in Arabic Literary Papyri, ii (Chicago: University of Chicago press,1967)
Fuat Sezgin, Geschichen Schrifttums,I (Leiden: E.J.Brill, 1967). 53-84 (
گولڈ تسیھر اور ان کے ہم خیال حضرات کی میراث فکر بھی معددم نہیں ہوئی – ان کی آراء پر حاشیہ چڑھانے والے اور اسی روش تحقیق کو آگے بڑھانے والے لوگ بھی سامنے آئے – ان میں سب سے نمایاں نام جوزف شاخت کا ہے – شاخت کو صحیح معنوں میں گولڈ تسیھر کا فکری جانشین کہا جا سکتا ہے بلکہ یہ کہنا بھی درست ہو گا کہ گولڈ تسیھر کی تنقید حدیث شاخت تک آتے آتے دو آتشہ ہو کر کہیں زیادہ شدید اور جارحانہ ہو گئی – ہم نے جن مسلمان محققین کا ذکر سطور بالا میں کیا ہے ان میں سے مصطفی اعظمی صاحب اور طفر اسحاق انصاری صاحب نے شاخت کی تحریروں کو خصوصیت سے اپنا موضوع نقد بنایا ہے اور اس کے منہاج علم ، تحقیق اور نتائج پر ایسے موثر علمی انداز میں تنقید کی ہے کہ اس کے اعتراضات کا بودا پن تو خیر واضح ہو ہی جاتا ہے اس کے استدلال کی کمزوری بھی کچھ اس طرح آشکار ہوتی ہے کہ شاخت کی دیانت ہی نہیں ذہانت بھی مشکوک معلوم ہونے لگتی ہے – ان حضرات کے علمی کام کی گہرائی ، گیرائی اور قوت کا نتیجہ ہے کہ آج مغرب کی علمی دنیا میں بھی گولڈ تسیھر وغیرہ کی آراء کو پہلے سا قبول عام حاصل نہیں رہا اور سنجیدہ اہل علم ان تحریروں کو’’ مستند ہے ان کا فرمایا ہوا ‘‘ کے طور پر پیش کرنے سے کترانے لگے ہیں – ان حضرات کی محنت ، علمی لیاقت اور دلائل کی مضبوطی نے اپنا لوہا عہد جدید کے مغربی محققین سے بھی منوا لیا ہے – ویل بی حلاق (Wael B. Hallaq) جو اس وقت فقہ اسلامی کی تاریخ اور ارتقاء پر مغرب میں سند سمجھے جاتے ہیں ، ان حضرات کی تحریروں نے جو اثر مغرب میں چھوڑا ہے اس کا عکس ہمیں حلاق کی تازہ کتاب میں نظر آتا ہے- حلاق نے ان تحریروں کے سامنے پسپائی اختیار کرتے ہوئے مجبوراً اعتراف کیا ہے کہ :
However, mounting recent research, concerned with the historical origins of individual prophetic reports, suggests that Goldziher, Schacht and Juynboll have been excessively skeptical and that a number of reports can be dated earlier than previously thought, even as early as the Prophet. These findings, coupled with other important studies critical of Schacht’s thesis, go to show that while a great bulk of prophetic reports may have originated many decades after the Hijra, there exists a body of material that can be dated to the prophet’s time. Therefore, I shall not a priori preclude the entirety of prophetic reports as an unauthentic body of material, nor shall I accept their majority though many may have been admitted as autentic (sahih) by the Muslim “science” of hadith criticism.
(Wael B. Hallaq, A history of Islamic Legal Theories. An Introduction to Sunni Usul al-Fiqh, Cambridge University Press, 1997, pp.2-3)
استفادہ تحریر : اقبال اور حدیث نبوی از محمد سہیل عمر، ماہنامہ اقبالیات، جنوری 2000