مستشرقین کا غلام احمد پرویزصاحب کو خراج تحسین

تہذیب ِمغرب کے سامنے’مفکر ِقرآن’ کی فکری اسیری اور ذہنی غلامی کا صرف یہی نتیجہ نہیں تھا کہ وہ محض نظریہ و اعتقاد کی حد تک ہی اس کے سامنے دیدہ و دل فرشِ راہ کئے ہوئے تھے،بلکہ وہ عملی دنیا میں مغربی معاشرت کے ان جملہ اجزا کو بھی قرآن کے نام پر اپنانے کے داعی تھے، جنہیں مغرب نے بغیر کسی قرآن کے اختیار کررکھا تھا۔ اورجنہیں جبل ِقرآن سے کھود نکالنے کو وہ بڑے فخر سے اپنی پچاس سالہ ‘قرآنی خدمات’ قرار دیا کرتے تھے۔ اب چونکہ ‘مفکر ِقرآن’ صاحب کا یہ ‘انقلابی اسلام’ درحقیقت محمد رسول اﷲ والذین معہ کے اصل اسلام میں نقب زنی کے نتیجہ میں نمودار ہوا ہے، اس لئے دنیاے مغرب کی نگاہ میں یہ ایک قابل قدر چیز ہے او رہمارے ‘مفکر ِقرآن’ صاحب عالم ِکفر کی آنکھ کا تارا ہیں ، بے ایمانوں کے منظور ِ نظر اور غیرمسلموں کے محبوبِ نگاہ ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ دنیاے مغرب کے یہودی سکالر ہوں یا عیسائی عالم، ملحد دانشور ہوں یا فلسفی، سب کے سب ‘مفکر قرآن’ کے اس ‘انقلابی اسلام’ سے خوش ہیں او راسے اپنے مخصوص مقاصد کے لئے ممدومعاون جانتے ہوئے پرویز صاحب کی تعریف و تحسین میں رطب اللسان ہیں ۔ چنانچہ وہ خود بھی اور ان کا آرگن طلوعِ اسلام بھی بڑے شاداں و فرحاں ہیں کہ چلو! عالم اسلام میں نہیں تو عالم کفر میں تو ان کی پذیرائی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ طلوعِ اسلام، علمبردارانِ کفر کے ہاں ‘مفکر ِقرآن’ (اور ان کی ‘قرآنی خدمات’) کی قدر افزائی پر خوشی سے نہال ہوتے لکھتا ہے:

”ڈاکٹر Freeland Abbot امریکہ کی Tufts یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ کے صدر اور بین الاقوامی شہرت کے مالک ہیں ۔ انہوں نے ‘اسلام اینڈپاکستان ‘ کے نام سے 1968ء میں ایک بلند پایہ کتاب شائع کی تھی، اُس میں انہوں نے فکر ِپرویز اور تحریک ِطلوعِ اسلام کے متعلق بڑی تفصیل سے دادِ تحسین دینے کے بعد کہا ہے کہ __ ”پرویز صاحب، اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے فعال ریفارمر ہیں ” __ یہ کتاب فکر ِپرویز کو دنیا کے دور دراز گوشوں تک متعارف کرانے کا موجب بن گئی ہے۔” (طلوع اسلام ، نومبر 1976ئ، ص58)

یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر یہ ‘انقلابی اسلام’ واقعی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا صحیح اسلام ہے تو امریکہ کو اسلام کا یہ درد کیسے اُٹھ آیا کہ وہ اس کو متعارف کروانے کا موجب بن جائے؟

کیا یہ ‘انقلابی اسلام’ فی الواقعہ اشتراکی نظامِ معیشت اور مغربی معاشرت کے لوازمات کو قرآن کے جعلی پرمٹ پردرآمد کرنے کی وہ عجمی سازش نہیں ہے جو امریکہ، یورپ اور روس کی مادّہ پرست تہذیب کو اس لئے پسند ہے کہ اس ‘انقلابی اسلام’ کو محمد رسول اﷲ والذین معه کے حقیقی اسلام کے متبادل قرار دیا جارہا ہے۔ یوں دین ِاسلام میں رخنہ اندازی اور پیوند کاری امریکہ ، یورپی اور اشتراکی حکومتوں کے سیاسی اغراض کے عین مطابق ہے۔ جیسا کہ خود پرویز صاحب نے بھی ایک دفعہ اس طرف اشارہ کیا تھاکہ

”مغربی ممالک، خواہ وہ یورپ ہو یا امریکہ ، اسلامیات کی طرف خالص علمی نقطہ نگاہ سے توجہ نہیں کررہے ہیں ۔ یورپ کے سامنے بھی اپنے سیاسی مقاصد تھے، اس طرح، امریکہ کے پیش نظر بھی اپنے سیاسی مصالح ہیں ۔”( طلوع اسلام، 3 ستمبر1955ئ، ص13)

ٍ

طلوع اسلام مسرت کے ساتویں آسمان پر پرواز کرتے ہوئے بڑے فخر و ابتہاج کے ساتھ یہ اعلان کرتا ہے :

”امریکہ اور کینیڈا وغیرہ کی یونیورسٹیاں ، فکر ِپرویز کو ڈاکٹریٹ کے لئے تحقیقاتی مقالات کا موضوع منتخب کررہی ہیں ۔”( طلوع اسلام، نومبر 1976ئ، ص59)

آگے لکھتا ہے:

”ہالینڈ کے مشہور مستشرق Dr. J. M. S. Baljon نے ایک کتاب شائع کی جس کا عنوان ہے: “Modern Muslim Koran Interpretation” یعنی ”عصر جدید کے مفسرین قرآن” اس مقصد کے لئے برصغیر ہندوپاک سے تین مفسرین کا انتخاب کیا ہے: مولانا ابوالکلام آزاد (مرحوم) علامہ عنایت اللہ مشرقی (مرحوم) اور پرویز صاحب۔۔۔”( طلوعِ اسلام، نومبر 1976ئ، ص58)

ضمناً یہاں یہ عرض کردینا ضروری ہے کہ عنوانِ کتاب کا جو ترجمہ ”عصرجدید کے مسلم مفسرین” کے الفاظ میں کیا گیا ہے، وہ قطعی غلط ترجمہ ہے۔ صحیح ترجمہ یا تو یہ ہے کہ ”تجددپسند مسلمانوں کی ترجمانی ٔ قرآن” یا پھر یہ کہ ”قرآنِ مسلم کی تجدد پسندانہ ترجمانی” طلوعِ اسلام کا غلط ترجمہ خواہ جہالت علمی کے باعث ہو یا جان بوجھ کر شعوری خیانت کے تحت؛ بہرحال اور بہرصورت معیوب حرکت ہے۔اس ضمنی وضاحت کے بعد اس غیر مسلم مصنف نے ‘مفکر ِقرآن’ کو ان الفاظ میں ہدیۂ عقیدت پیش کیا ہے :

”پرویز صاحب کی شخصیت کے حقیقی جوہروں کو ان کی درخشندہ اور بلند پایہ علمی صلاحیتوں میں تلاش نہیں کرنا چاہئے۔ مبدائِ فیض نے اُنہیں ، ان نوجوانوں کے لئے، جن کا موجوں کے تلاطم میں گھرا ہوا سفینۂ حیات مذہبی لنگر کی تلاش میں ہو، اعلیٰ صلاحیتوں کا اُستاد او رباپ کی طرح شفیق دوست بنایا ہے۔ ان کی صاف اور شفاف نگاہ پیش آمدہ مسائل کی گہرائیوں تک پہنچ جاتی ہے اور ان کے متعلق بلا کاوش و تردّد صائب رائے، آزادانہ فیصلے، ان کے اطمینانِ قلب و شرحِ صدر کے آئینہ دار ہوتے ہیں ۔ اس سے توقع کی جاسکتی ہے کہ ان کے اثرونفوذ کا دائرہ دن بدن وسیع تر ہوتا جائے گا۔”( طلوع اسلام، نومبر 1976ئ، ص58)

ایک اور مستشرق کی طرف سے پرویز صاحب کو ملنے والے شرفِ ِتہنیت و پذیرائی کو طلوعِ اسلام ان الفاظ میں پیش کرتا ہے:

”مستشرقین مغرب میں سے پروفیسر E. I. J. Rosentnal کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ اُنہوں نے”Islam, In the Modern National”کے عنوان سے ایک شہرۂ آفاق کتاب لکھی ہے، جسے کیمبرج یونیورسٹی پریس نے 1965ء میں شائع کیا۔ اس میں اُنہوں نے مختلف اسلامی تحریکوں کا وسیع جائزہ لیا اور پرویز صاحب اور ان کی تحریک کا ذکر خاصی تفصیل سے کیا ہے۔”( طلوع اسلام، نومبر 1976ئ، ص58)

”کچھ عرصہ ہوا، McGill یونیورسٹی (کینیڈا) کی طرف سےMiss Sheila McDonough نامی ایک طالبہ ڈاکٹریٹ کے لئے اپنے تھیسس کی غرض سے آئی تھی۔ وہ کافی عرصہ یہاں رہی اور اس کے بعد The Authority of the past کے عنوان سے اپنا تحقیقاتی مقالہ لکھا جسے امریکن اکادمی آف ریلجئن نے 1970ء میں شائع کیا۔ اس میں اس نے سرسید، اقبال اور پرویز کو اپنی تحقیق کا موضوع قرار دیا ہے۔ مقالہ اگرچہ ایک طالب علم کا ہے لیکن اس سے اس حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ امریکہ اور کینیڈا وغیرہ کی یونیورسٹیاں فکر ِپرویز کو ڈاکٹریٹ کے لئے تحقیقاتی مقالات کا موضوع منتخب کررہی ہیں ۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ McDonough نے “Social Import of Pervez’s Religius Thoughts” کے نام سے ایک اور تحقیقاتی مقالہ بھی شائع کیا ہے، وہ ابھی تک ہماری نظروں سے نہیں گزرا، لیکن علمی حلقوں میں اس کا بھی ذکر آتا ہے۔” (طلوع اسلام، نومبر 1976ئ، ص59)

ایک عیسائی مشنری سکالر پرویز صاحب کو جو خراجِ عقیدت پیش کرتا ہے، اسے طلوعِ اسلام یوں پیش کرتا ہے:

”سوئٹزر لینڈ کے ڈاکٹر P. Robert A. Butler پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ لاطینی سے وابستہ اور عیسائی مشنری حلقہ کی ایک ممتاز شخصیت ہیں ۔ فکر ِپرویز کے ساتھ ان کی وابستگی کا اندازہ، اس سے لگائیے کہ وہ طلوعِ اسلام کا التزاماً مطالعہ کرتے ہیں ، او رپرویز صاحب کی کوئی کتاب ایسی نہیں ، جسے وہ اس کے شائع ہونے کے ساتھ ہی حاصل نہ کرلیتے ہوں ۔ سالِ گذشتہ اُنہوں نے اپنے عرصۂ دراز کے اس مطالعہ کا ماحاصل”Ideological Revolution Through the Quran” کے نام سے ایک تحقیقاتی مقالہ کی شکل میں پیش کیاجس نے مشنری دوائر میں بالخصوص بڑی شہرت حاصل کی۔ اس مقالہ کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اب حال ہی میں ، اس کا فرانسیسی زبان میں ایڈیشن ،ٹیونس (مراکو) سے شائع ہوا۔( طلوع اسلام، نومبر 1976ئ، ص59)

یہ خراجِ تحسین، یہ تعریف و توصیف، یہ تہنیت و پذیرائی اور یہ گلہاے عقیدت ‘مفکر ِقرآن’ صاحب کو یہودی، عیسائی علماے مغرب کی طرف سے پیش کئے گئے ہیں ؛ کیوں ؟ اور کس لئے؟ ان اس بات کی خوشی ہے کہ پرویز صاحب نے نبوی اسلام دریافت کرلیا ہے ؟نہیں بلکہ اس لئے کہ جو ‘انقلابی اسلام’ اُنہوں نے پیش کیا ہے ، وہ مغربی ممالک کے سیاسی اغراض و مقاصد کے عین مطابق ہے۔ آج روے زمین پر پورا عالم کفر پرویز صاحب سے، سلمان رشدی سے اور تسلیمہ نسرین جیسی شخصیتوں کی ‘قرآنی خدمات’، ‘حق گوئی’ اور ‘لبرل اسلام’ سے راضی بھی ہے اور خوش بھی۔پرویز صاحب طلوعِ اسلام خوش ہیں کہ یہودی سکالرز، عیسائی مفکر، لادین و بے دین محقق، علمبردارانِ کفر، ‘مفکر ِقرآن’ کے ‘انقلابی اسلام’ سے راضی ہیں اورچاہتے ہیں کہ یہ ‘انقلابی اسلام’ پھیلتا چلا جائے۔

یہودی علما، عیسائی رہبان، مشنری احبار، ملحد فلاسفہ، زندیق مفکروں ، لادین دانشوروں ، بے دین سکالروں اور غیرمسلم ماہرین ِتحقیق کی طرف سے ہمارے ‘مفکر قرآن’ پر داد و تحسین کے یہ ڈونگرے اسی لئے تو برسائے گئے ہیں کہ دیار ِ مغرب میں بسنے والے اسلام کے یہ دانا دشمن خوب جانتے ہیں کہ یہ شخص مفکر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر قرآن کی بجائے، مغربی مآخذ ہی کو شرف ِ تقدم عطا کرتا ہے (اور قرآن کے نام کی آڑ میں وہی کچھ کہہ اور کررہا ہے جو دنیاے مغرب چاہتی ہے)۔


آخر میں یہ جملہ معترضہ بھی:


مغرب کے جن علماے کفر والحاد اور علمبردارانِ لادینیت نے پرویز صاحب کے لٹریچر پر ریسرچ کرکے اُنہیں خراجِ تحسین پیش کیا ہے، ان ہی علما نے بیسیویں صدی میں دفاعِ اسلام کا عظیم فرض انجام دینے والے مولانا مودودی ؒ کی کتب پر بھی ریسرچ کی ہے اور اس کے نتیجہ میں وہ مولانا مودودیؒ کی تعریف وتحسین کرنے کی بجائے ان کی تحقیر و توہین کرتے ہیں اور اُنہیں نامبارک، نامسعود اور منحوس قرار دیتے ہیں ۔ صرف ایک حوالہ ملاحظہ فرمائیے اور لطف کی بات یہ ہے کہ یہ اقتباس بھی غالباً اُسی پروفیسر اسمتھ کا ہے، جس نے پرویز صاحب سے کراچی میں ملاقات کی تھی۔ (اس ملاقات کا ذکر طلوع اسلام: 3؍ستمبر 1955ء صفحہ 13 پر موجود ہے)۔ وہ لکھتا ہے:

“Finally we come to the most ominous representative of this trend, back to religious conservation:Syed Abu-Al-A’la Mawdudi

(Modern Islam in India, by Wilfred Cantwel Smith, Sh. M. Ashraf, 7-Aibak Road, New Anarkali, Lahore, 1969. Page 164)

مانا کہ مولانا مودودیؒ کوئی مبرا عن الخطا یا کوئی معصوم شخصیت نہیں تھے، یقینا ان سے بھی غلطیاں ہوئی ہوں گی لیکن بہرحال وہ ایسے خطاکار اور گنہگار نہ تھے کہ عالم کفر کے کافر سکالر، ملحد پیشوا، زندیق، فلاسفہ، یہودی ربی اور عیسائی احبار و رہبان ان سے خوش ہوتے۔! اگرکسی کی آنکھوں پرتعصب کی عینک نہ چڑھی ہو، سینے میں کینہ و کدورت نہ ہو، دلِ درد مند اور قلب ِحق پسند میں ذرّہ برابر بھی ایمان موجود ہو تو وہ یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ”مودودی صاحب کی یہی فضیلت ومنقبت کیا کم ہے کہ کفار اہل مغرب کے ہاں وہ انتہائی نامسعود، از حد نامبارک، اور منحوس ترین (The most ominous) شخصیت قرار پاتے ہیں ۔:

اور اس کے برعکس’مفکر ِقرآن’ جناب چوہدری غلام احمد پرویز کی یہی رسوائی کیا کم ہے کہ علمائِ یہود ہوں یا احبار و رہبانِ عیسائیت، علمبردارانِ کفر ہوں یا پیشوا یانِ الحاد، فلاسفۂ زندقہ ہوں یا دانشورانِ دہریت؛ وہ سب کے سب راضی اور خوش ہوکر اُنہیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں ۔ خود سوچ لیجئے کہ ان کا ‘انقلابی اسلام’ کفار و ملحدین کے کام کا ہے؟ یا خدا اور رسولؐ کے کام کا؟

استفادہ تحریر :غلام احمدپرویز کی “قرآنی خدمات” از محمد دین قاسمی