حدیث سے متعلق یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ آنحضرتﷺ کا اسلوب بیان کیا تھا، قرآن کریم کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا انداز بیان حکیمانہ اورلہجہ سخن بہت نرم تھا، قرآن کریم میں ہے کہ آپ قرآن کریم سنانے اورصحابہ کی تربیت کرنے کے ساتھ ساتھ معلم حکمت بھی ہیں،آپ نے امت میں اخلاق و حکمت کےپھول چنے، اپنے آپ کو معلم اخلاق بتلایا،قرآن کریم نے آپ کے وصف “وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ” کی بھی خبردی ہے اورآپ کا لہجہ سخن یہ بتایا :”فَبِمَارَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْكُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ”۔ ترجمہ:سویہ اللہ ہی کی رحمت ہے کہ آپ ان کے سامنے نرم دل رہےاور اگر آپ ہوتے سخت دل تندخو تو یہ آپ کے پاس سے متفرق ہوجاتے۔ (آل عمران:۱۵۹)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں، حضورصلی اللہ علییہ وسلم نے فرمایا:”أَنْزِلُوا النَّاسَ مَنَازِلَهُمْ”۔ ترجمہ :لوگوں کے سامنے اس طرح اترو جس درجہ کے وہ ہوں۔(سنن ابی داؤد،باب فی تنزیل الناس منازلھم،حدیث نمبر:۴۲۰۲)
آپ امت کے لیے شفقت مجسم تھے،بات نہایت آسان کرتے، مثالیں دے دے کر بات واضح کرتے اور اسے دلوں میں اتارتے، ایسی بات جس سے مغالطہ پیدا ہو،اس سے منع فرماتے ایک بات پر لمبی تقریر نہ فرماتے، جو بات فرماتے پختہ اورمحکم ہوتی۔ہاں یہ بات ضرور ہے کہ جب کسی امر الہٰی کا بیان ہوتا تو اللہ رب العزت کے اجلال میں آپ کے چہرہ انور پر کبھی کچھ آثار جلال آجاتے، یہ خالق اور مخلوق کے درمیان ہوکر خالق کی طرف جھکنے کا ایک پیرایہ تھا۔
حدیث کا سرچشمہ بھی وحی خداوندی ہے،الفاظ خدا کی طرف سے مقرر ہوں تو یہ وحی قرآن ہے،حضورﷺ کے اپنے ہوں تو یہ حدیث ہے،سو حدیث معنا شانِ اعجاز رکھتی ہے اوراسے کسی پہلو سے غلط ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ لفظا یہ معجز نہیں تاکہ قرآن کریم کی شان اعجاز واضح رہے۔حضورﷺ نے جس طرح قرآن کے مقابل مشرکین سے نظیر مانگی، اپنے الفاظ کو آپ نے کبھی بے مثل نہ ٹھہرایا، نہ کبھی یہ دعویٰ کیا کہ یہ حداعجاز کو چھورہے ہیں،ہاں یہ ضرورہے کہ آپ جوامع الکلم سے نوازے گئے اورانسانی کلام فصاحت اور بلاغت کی جس بلندی تک جاسکتا ہے، آپ اس میں بات کہتے تھے اوراس پہلوسے آپ کی بات بہت جامع ہوتی تھی۔
اسلوب بیان حالات کے آئینہ میں:
انسان کی زندگی طرح طرح کے حالات سے گزرتی ہے،کہیں انسان غموں میں گھرا ہوتا اورکہیں خوشی کی لہروں میں گھومتا ہے،یعنی غم کے وقت اس سے خوشی کی بات نہیں نکلتی اورعین خوشی میں اس کے الفاظ کبھی غم آلود نہیں ہوتے،اس کا اسلوب گفتگو اس کے حالات کے ساتھ ساتھ بدلتا ہے اوراس کے خیالات کا مظہر ہوتا ہے۔
آنحضرتﷺ پر قرآن اترتا تو اس کا اسلوب بیان اپنا ہوتا تھا، یہ کلام معجز تھا،حضورﷺ کے حالات خوشی یا غمی سے گزرتے اورآپ کا لہجہ سخن ان کے مطابق ہوتا، آپ کے الفاظ میں آپ کے حالات کی جھلک ہوتی،۔پھر کبھی اچانک قرآن کریم کا نزول ہوتا جس کا پیرایہ آپ کے حالات سے بالکل مختلف ہوتا، ہنسنے والوں کو اس کے کلام الہٰی ہونے کا اور یقین ہوتا کہ اگر یہ واقعی آپ کا اپنا بنایا کلام تھا تو آپ کے خوشی یا غمی کے حالات میں کیوں نہیں جھلکتے۔ انہیں اسلوب حدیث اوراسلوب قرآن میں واضح فرق محسوس ہوتا تھا اورانہیں جب ایک ہی شخصیت سے دو مختلف اسلوب ملتے تو یہ وہ سچائی ہے جو مخالف سے مخالف کو بھی اپنا لوہا منوائے بغیر نہ رہی اوروہ بے اختیار کہنے لگتے ہوسکتا ہے یہ کسی جن کا کلام ہو، جو آپ کے کلام سے بالکل علیحدہ اسلوب رکھتا ہو۔ وہ اپنے پہلے موقف پر کہ یہ کلام آپ کا اپنا بنایا ہوا ہے،قائم نہ رہتے۔ یہ اسی لیے ہوتا کہ آپ کا اپنا اسلوب بیان قرآن پاک کے اسلوب سے مختلف ہوتا تھا۔
آپ اپنی بات کہتے، بعض دفعہ اسے تین تین بار دہراتے،حدیث میں یہ تکرار بظاہر خلاف فصاحت نظر آتا ہے؛ لیکن جب حالات سامع پر نظر کی جائے تو آپ کا یہ کلام بلاغت پر پورا اترتا تھا اورمتقضائے حال کے بالکل مطابق ہوتا تھا۔
آپ غرائب الفاظ سے پرہیز فرماتے،لیکن عرب اسالیب کبھی خود ان کا تقاضا کرتے ہیں؛ سو آنحضرتﷺ بھی بعض اوقات غرائب کا استعمال کرتے تھے،ان میں کچھ پیچیدگی تو ہوتی تھی،لیکن مغالطہ دہی نہیں،حدیث ام زرع کے بعض پیچیدہ الفاظ اسی قبیل سے ہیں اور یہ زبان کی دقیق راہوں سے گزرنا ہے،دقائق پر قابو پانا کسی جہت سے مخل فصاحت نہیں ہیں، آپ نے فرمایا:”لَايَدْخُلُ الْجَنَّةَ الْجَوَّاظُ وَلَاالْجَعْظَرِيُّ قَالَ وَالْجَوَّاظُ الْغَلِيظُ الْفَظُّ” (ابوداؤد، حدیث نمبر:۴۱۶۸،شاملہ، موقع الإسلام)علمائے حدیث کے ہاں غریب الحدیث ایک مستقل موضوع کلام ہے جویہاں زیرِبحث نہیں ہے؛ یہاں حدیث کے ان پیراؤں پر بات ہوگی جنہیں آپ نے کمال شان جامعیت اورکبھی عجیب وغریب مثالوں سے واضح فرمایا اوربات دلوں میں اتاری؛ کبھی آپ نے اپنے ادبی ذوق میں قافیہ دار الفاظ بھی کہے اوراسے بھی آپ کے اسلوب بیان میں ایک اہم درجہ حاصل ہے، ذیل میں ہم احادیث سے آپ کے اسلوب بیان کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔
:اسلوب جامعیت
۱۔ دیانت Honesty اور نفاق hypocracy مقابلے کے الفاظ ہیں۔اب دیانت کے تین محال ہیں:
(۱)زبان دیانت پر ہو تو اس سے سچ نکلتا ہے جھوٹ نہیں (۲)نیت دیانت پر ہو تو انسان آئندہ کے بارے میں کوئی ایسی بات نہیں کرتا کہ دل میں اس کے خلاف ہو (۳)عمل دیانت پر ہو تو انسان کسی کی امانت اوراس کے حق میں خیانت نہیں کرتا،ظاہر ہے کہ نفاق کے موضوع بھی تین ہی ہونگے، زبان، نیت اورعمل، آنحضرتﷺ نے منافق کی علامات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
ترجمہ:منافق کے تین نشان ہیں،بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو الٹ کرے (پہلے سے نیت ہو کہ پورا نہ کرونگا) اورجب اس کے پاس کسی کی امانت (یاحق) ہو تو وہ خیانت کرے)۔ (بخاری،باب علامۃ المنافق،حدیث نمبر:۳۲)
جس شخص میں ان میں سے کوئی عیب ہو، اس میں یہ علامت نفاق ہے اورجس میں یہ سب صفات پائی جائیں اس کے پکا منافق ہونے میں کوئی شبہ نہیں، اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کتاب الایمان میں لائے ہیں، کتاب الادب میں نہیں۔
اس حدیث نے کس طرح نفاق کے مضامین کا احاطہ کیا ہے،یہ آپ کے سامنے ہے، اس جامعیت سے بات کرنا آپ کو کلام رسالت میں ہی ملے گا؛ یہی اسلوب حدیث ہے۔
۲۔ انسان خواہشات کا پتلا ہے،اپنی چیز دوسروں سے سمیٹ کر رکھتا ہے اپنے خیال، رائے کو پختہ سمجھتا ہے۔خواہش نفسانی (ھوی)اپنے کو سمیٹ کر رکھنا(بخل) اور ہربات میں اپنی رائے دینا ہے،یہ انسان کی فطرت تھی،آنحضرتﷺ نے اُن پرروک اورقد غن نہیں لگائی، یہ نہ فرمایاکہ اس میں خواہش نہ ابھرے جذبہ بخل نہ ابھرے اوروہ ہر بات میں اپنی رائے قائم نہ کرے، آپ نے فطری تقاضوں پر زنجیریں نہیں لگائیں، فرمایا:”أماالمهلكات: فهوى متبع وشح مطاع واعجاب المرء بنفسه”۔ ترجمہ: انسان کو ہلاک کرنے والی چیزیں تین ہیں،خواہش جب اس کی پیروی کی جائے،بخل جب انسان اس پر عمل کرے اوررائے جب انسان اسی کو اچھا سمجھے۔(مشکاۃ المصابیح،باب السلام،الفصل الاول،حدیث نمبر:۵۱۲۲)
غور کیجئے، نکیر ھویٰ پر نہیں اس کی اتباع پر ہے،بخل پر نہیں،اس کی پیروی پر ہے، رائےپر نہیں اس کے اعجاب پر ہے،اتنا محتاط اورجامع کلام صاحب جوامع الکلم کے سوا اورکس کا ہوسکتا ہے،یہ مہلکات کا بیان تھا،اب منجیات کو بھی دیکھ لیجئے:
انسانی زندگی دوحصوں میں منقسم ہے، پرائیوٹ زندگی اورپبلک زندگی۔ پھر ہر شخص کی زندگی پر دو حالتیں ضرور آتی ہیں،کبھی رضا مندی، کبھی غصہ اورپھر کبھی آسودگی اورپھر کسی وقت محتاجگی۔،زندگی کا کوئی حصہ ہو،پرائیویٹ یا پبلک، اللہ کا ڈر ہر حال میں ہونا چاہئے اورپھر رضا مندی پر یا غصہ میں بات ہمیشہ حق ہونی چاہئے اورحالت آسودہ ہو یا احتیاج کی میانہ روی ہرحال میں بہتر ہے۔حضرت ابوہریرہرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ترجمہ:منجیات (نجات دلانے والی اشیاء) باطن اورظاہر میں اللہ سے ڈرنا ہے،خوشی اورسختی ہر حال میں سچ بات کہنا ہے اوردولت مندی ہو یا محتاجگی ہر حال میں میانہ روی اختیار کرنا ہے۔ (مشکوٰۃ، حدیث نمبر:۵۱۲۲، الناشر: المكتب الإسلامي،بيروت)
۔ادبی ملاحت کا اسلوب:
اسماء بنت عمیس کہتی ہیں،حضورﷺ نے فرمایا:
“بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ تَخَيَّلَ وَاخْتَالَ وَنَسِيَ الْكَبِيرَ الْمُتَعَالِ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ تَجَبَّرَ وَاعْتَدَى وَنَسِيَ الْجَبَّارَ الْأَعْلَى بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ سَهَا وَلَهَا وَنَسِيَ الْمَقَابِرَ وَالْبِلَى بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ عَتَا وَطَغَى وَنَسِيَ الْمُبْتَدَا وَالْمُنْتَهَى بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ يَخْتِلُ الدُّنْيَا بِالدِّينِ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ يَخْتِلُ الدِّينَ بِالشُّبُهَاتِ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ طَمَعٌ يَقُودُهُ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ هَوًى يُضِلُّهُ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ رَغَبٌ يُذِلُّهُ”۔
ترجمہ: برا بندہ وہ ہے جو اپنے خیال میں لگا رہے اوراپنے کو بڑا سمجھے اوراللہ تعالی برتر و بالا کوبھول جاے، اور برا بندہ وہ ہے جو سختی کرے اور حد سے نکلے اور جبار اعلی کو بھول جائے کہ کوئی اس پر بھی سختی کرنے والا ہے، اور برا بندہ وہ ہے جو اطاعت الہٰی سے غافل ہوا اور لا یعنی میں مشغول ہو اور بھول جائے قبروں کو اور کفن کے پرانا ہونے کو اور برابندہ وہ ہے جو تکبر کرے اور سرکش ہو اور اپنے اول اورآخر کو بھول جائے اور برا بندہ وہ ہے جو دین کو دنیا کے ذریعہ طلب کرے اور برا بندہ وہ ہے جو دین کوشبہات کے ساتھ طلب کرے اور برا بندہ وہ ہے جس کو لالچ چلاتا رہے اور برا بندہ وہ ہے جسے خواہشات نے رستے سے بچلا رکھا ہو، اور برا بندہ وہ ہے جس کو اس کی رغبتیں (خواہشات ) ذلیل کراتی رہیں ،اوکما قالﷺ ۔(سنن الترمذی،باب ماجاء فی صفۃ اوانی الحوض،حدیث نمبر:۲۳۷۲)
آپ نے اس حدیث میں برے لوگوں کے نوعنوان ذکر فرمائے، نو سب سے بڑا عدد ہے، ان عنوانوں میں سے ہر ایک ادبی پارہ ہے اور ہدایت ربانی کا ایک اچھلتا فوارہ ہے، حدیث کا یہ ادبی اسلوب معاشرے کے ہر پہلو کو چھورہا ہے، احکام کی احادیث میں بات کی وضاحت آپ کے پیش نظر ہوتی ہے؛ لیکن نصائح کے موقعہ پر بات کی صحت کے علاوہ آپ کی قوت تاثیر بھی اسلوب میں لپٹی ہوتی ہے۔
۴۔مثال دیکر بات کو واضح کرنا اور شرعی امور کے کوئی نقشے سامنے لے آنا، یہ آپ کا نمایاں پیرایہ ہدایت تھا، عرب کے امیوں میں اس خاص نہج پر کام کرنے کی بہت ضرورت تھی،آپ نے دقیق فلسفیانہ کلام کے بجائے عام اور فطری پیرایہ بیان اختیار فرمایا آپ کی زیادہ توجہ اس پر ہوتی تھی کہ حق کس طرح حق تعالی کے بندوں میں اتر آئے اوران کے دل و دماغ اسلام کی اس فطری روشنی سے منور ہوجائیں۔
اسلوب نبوی ؐ کی خصوصیات :
کلامِ نبیﷺ کی صفات میں تکلف، غموض اور اجنبیت سے عاری کلمات کا استعمال ایک ایسی صفت ہے، جواسالیبِ بلاغت کے ایک اہم اُسلوب کی حیثیت رکھتی ہے اور اعلیٰ مثال کے نمونوں کو جنم دیتی ہے، آپﷺ ایسا کوئی کلمہ استعمال کرنے سےاحتراز فرماتے، جوغریب الاستعمال یاوضاحت طلب ہوتا، اس کی وجہ یہ تھی کہ آپﷺ کی تقریر ہمیشہ اپنی بات کو بغیر کسی اجنبی کلمہ یااجنبی مفہوم کے واسطہ کے سامع تک پہنچانے پر ہوتی؛ اِسی لیے بسااوقات اپنی بات کو تین بار ادا فرماتے کہ سامع پوری طرح سمجھ لے، پرتکلف اُسلوب اور ایسے کلمات وعبارات کے استعمال کو بھی آپﷺ ناپسند فرماتےتھے، جن کا سمجھنا دُشوار ہوتا یاجن سے ابہام کا اندیشہ ہوتا، آپﷺ کا کلام تکرار اور حشووزوائد سے پاک ہوتا؛ اگرتکرار ہے توایسے ہی مواقع پر جہاں اس کا محل ہے…. تعبیر میں بلاغت کا یہ اُسلوب سامع تک کلمات کے ساتھ نفسِ مفہوم کو بھی پہنچانے کا سب سے مؤثر اور غیرمبہم اُسلوب ہے، جس میں نہ توغیرضروری تزئین ہوتی ہے اور نہ غموض وتعقید؛ بلکہ صاف وشفاف اور واضح اُسلوب میں پوری بات کہی جاتی ہے کہ متکلم نے جس مفہوم، فکراور نظریہ کو جن منتخب کلمات والفاظ کے وسیلہ سے جس درجہ کے ساتھ پہونچانا چاہا ہے؛ اسی درجہ میں اس مفہوم کے ساتھ اور انہی کلمات میں سامع تک براہِ راست بات پہونچتی ہے نہ کم نہ زیادہ اور یہی صفت الفاظ کے انتخاب اور ان پر متکلم کی گرفت کو بھی واضح کرتی ہے”۔ (ترجمان الاسلام: ۶۱،۶۲/۶۱ محمد صلاح الدین عمری)
بعض ادبائے اُمت نے آپﷺ کے کلام کی انفرادیت اور نمایاں خصوصیات واوصاف کو بیان کیا ہے، ذیل میں صرف ایک مشہور ادیب ابوعثمان عمروبن بحر “جاحظؒ”کی بیان کردہ خصوصیات کا خلاصہ نمبر وار پیش کیا جاتا ہے۔
۱۔آپﷺ کا کلام نہایت ہی جامع اور مکمل ہوتا، اس میں الفاظ اور حروف کی تعداد کم ہوتی؛ لیکن معانی کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دِکھائی دیتا تھا۔
۲۔آپﷺ کا کلام صناعتِ لفظیہ اور معنویہ کے لحاظ سے نہایت ہی نمایاں اور بلند ترین مرتبہ پر ہوتا تھا۔
۳۔اسی طرح تکلف اور بناوٹ سے بالکل پاک اور منزہ ہوتا؛ اِس لیے بھی کہ خود اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کو صراحتاً حکم دیا تھا کہ اے محمد(ﷺ )! آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ میں دینِ اسلام کی تبلیغ پر تم سے نہ توکوئی بدلہ طلب کرتا ہوں اور نہ ہی میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں (بخاری: ۲/۸۶) اور اس وجہ سے بھی کہ آپ بہ تکلف فصاحت وبلاغت ظاہر کرنے کے لیے باچھیں کھولنے کو ناپسند فرماتے اور چیخنے چلانے والے لوگوں سے بھی کنارہ کش رہتے تھے۔
۴۔تفصیل کی جگہ میں آپ کا کلام نہایت مفصل ہوتا تھا۔
۵۔اور مختصر بیانی کے مواقع پر مختصر ترین گفتگو فرماتے تھے۔
۶۔غیرمانوس، غریب، نادر اور وضاحت طلب الفاظ استعمال نہ فرماتے تھے۔
۷۔آپﷺ اپنی گفتگو کو بازاری الفاظ سے بھی پاک رکھتے تھے۔
۸۔آپﷺ کا کلام اسرار وحِکم کا نمونہ ہوتا۔
۹۔آپﷺ کے کلام کو خصوصی تائیدِ الہٰی حاصل ہوتی۔
۱۰۔آپﷺ کے کلام میں اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ درجہ کی محبوبیت اور قبولیت کی شان پیدا کردی تھی۔
۱۱۔آپﷺ کا کلام ہیبت وحلاوت کا سنگم ہوتا تھا۔
۱۲۔آپﷺ کے کلام میں اختصار کے باوجود تفہیم کی پوری صلاحیت ہوتی تھی۔
۱۳۔اکثراوقات ایک بات، ایک ہی بار ارشاد فرماتے؛ لیکن اتنی واضح اور مکمل کہ سامعین کو اطمینان ہوجاتا؛ انھیں دہرانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
۱۴۔آپﷺ کی گفتگو میں کبھی کوئی لفظ ساقط نہیں ہوتا۔
۱۵۔آپﷺ گفتگو کے دوران اپنے ہدف اور مقصد سے ذرا بھی نہ ہٹتے۔
۱۶۔دورانِ گفتگو آپ کی ہردلیل تیر بہ ہدف کام کرتی، ایک دلیل بھی ضائع نہ ہوتی تھی۔
۱۷۔آپﷺ کی گفتگو اتنی پیاری ہوتی کہ کوئی مخالفت نہ کرتا؛ بلکہ اکثراوقات مخالف موافق ہوجاتا۔
۱۸۔آپﷺ کو گفتگو کے دوران کسی نے کبھی بھی لاجواب اور خاموش نہیں کیا۔
۱۹۔آپﷺ کے مختصر کلام کے سامنے بڑی بڑی تقریریں شکستہ حال ہوجاتیں۔
۲۰۔آپﷺ انھیں باتوں سے مقابل کو خاموش کرتے، جن کو وہ اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہوں۔
۲۱۔آپﷺ کا استدلال سچی اور صحیح باتوں سے ہی ہوتا تھا۔
۲۲۔گفتگو میں صرف حق بات کی فتحمندی مطلوب ہوتی تھی۔
۲۳۔آپﷺ فریفتہ کرنے والی تعبیرات سے کبھی بھی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش نہ کرتے۔
۲۴۔آپﷺ گفتگو میں دھوکہ اور فریب سے کام نہ لیتے تھے۔
۲۵۔آپﷺ گفتگو کے دوران کسی کی عیب جوئی اور غیبت نہ کرتے تھے۔
۲۶۔آپﷺ کےگفتگو کی رفتاردرمیانہ ہوتی،نہ تو بالکل آہستہ کلام کرتے اور نہ ہی جلدی جلدی بولتے تھے۔
۲۷۔ گفتگو نہ تومختصر ترین ہوتی اور نہ ہی طویل ترین۔
۲۸۔نوعِ انسانی نے آپﷺ کے کلام سے زیادہ عمومی نفع کا حامل کلام نہ تو پہلے کبھی سنا اور نہ بعد میں کبھی سنے گی۔
۲۹۔نہ تو آپﷺ سے زیادہ سچے الفاظ ان کی سماعت سے ٹکرائے۔
۳۰۔نہ ہی آپﷺ سے زیادہ معتدل اور موزوں ترین تعبیرات انھیں ملیں۔
۳۱۔نہ ہی آپﷺ سے زیادہ حسین طریقِ گفتگو سے وہ واقف ہوئے۔
۳۲۔نہ ہی آپﷺ سے زیادہ نفیس مطلب باتیں ان کو ملیں۔
۳۳۔نہ ہی میدانِ گفتگو میں آپﷺ سے زیادہ لطیف انداز میں اترنے والا کسی کو پایا۔
۳۴۔نہ ہی مراحلِ گفتگو کو آپﷺ سے زیادہ آسانی کے ساتھ عبور کرنے والا دیکھا۔
۳۵۔نہ ہی معانی مراد کے سمجھانے کے لیے آپﷺ سے زیادہ فصیح تعبیرات اختیار کرنے والا کسی کو پایا۔
۳۶۔اور نہ ہی مقصدِ گفتگو کو آپﷺ سے زیادہ واضح اور عمدہ انداز میں بیان کرنے والا کسی کو پایا۔
(مستفاداز:البیان والتبیین للجاحظ:۲/۸، بحوالہ الروائع والبدائع فی البیان النبوی:۳۷،۳۸)
رسولِ اکرمﷺ کا کلام گوناگوں خصوصیات وامتیازات کی وجہ سے گلہائے رنگارنگ سے سجا ہوا سراپا گلدستہ ہے؛ کسی ایک مقالہ یامضمون میں سب کا احاطہ مشکل ہے اور مجھ جیسے عجمی اور علم وادب سے تہی داماں کے لیے توناممکن ہی ہے۔ایسا کیوں نہ ہوتا؟ قرآن کی شہادت ہے:”وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىo إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى”۔ آپﷺ اپنی خواہش سے کچھ نہ بولتے تھے، آپؐ کی ساری باتیں وحی الہٰی ہوا کرتی تھیں۔ (النجم:۳،۴)
اسی بات کے اعترافف میں علامہ مصطفیٰ صادق رافعیؒ تحریر فرماتے ہیں:ہم تو صرف یہی سمجھتے ہیں کہ فصاحتِ نبویﷺ کا یہ معیار سوائے القائے ربانی اور توفیق ایزدی کے اور کچھ نہیں تھا۔ (تاریخ آداب العرب:۲/۳۳۳،۳۳۹،۲۹۸، بحوالہ: الروائع والبدائع:۳۱،۱۲۹،۱۵۲)
آپﷺ کے کلام فیض ترجمان اور معجزبیان کی معنوی خوبیوں کو توعلماء فقہاء اور محدثین نے موضوعِ بحث بنایا ہی ہے؛ البتہ آپﷺ کی احادیث کی لفظی خوبیوں سے بحث کو نسبتاً کم لوگوں نے موضوعِ بحث بنایا ہے، محدثین میں سرِفہرست علامہ بدرالدین عینیؒ کا نام آتا ہے کہ آپ نے عمدۃ القاری، شرح بخاری میں بہت سی احادیث کی شرح میں فصاحت وبلاغت پر بھی کلام کیا ہے؛ البتہ ادباء امت میں ایک نہیں متعدد شخصیات نے اس پہلو پر بھی سیرحاصل بحث کی ہے، مثلاً ابوعثمان جاحظؒ نے “البیان والتبیین” میں، ابومنصور ثعالبیؒ نے “الاعجاز والایجاز” میں، وہ ساری احادیث جمع کردی ہیں، جن میں تشبیہات، تمثیلات، تجنیسات، استعارات اور کنایات موجود ہیں، جوعربی زبان وادب کا شاہکار اور اعلیٰ ترین نمونہ ہیں؛ اسی طرح ابوبکر ازدی کی “کتاب المجتبیٰ” بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس میں پچاس کے قریب احادیث شریف کی امتیازی اور ادبی حیثیت کو بیان کیا گیا ہے، ان کے علاوہ ضیاء الدین ابن الاثیرؒ کی “المثل السائر فی ادب الکاتب والشاعر” اور ابوہلال عسکریؒ کی “کتاب الصناعین” بھی قابلِ ذکر ہیں۔(مقدمہ الروائع والبدائع فی البیان النبوی: ۱۱،۱۲)
اسی طرح المسعودی نے اپنی تصنیف “مروج الذہب” میں آپﷺ کی زبانِ مبارک سے ادا ہونے والے ان کلمات کی ایک طویل فہرست مرتب کی ہے، جن کے بارے میں محققین کی رائے ہے کہ ان کلمات وتعبیرات کی روایت آپﷺ سے پہلے عرب ادباء وفصحاء کے یہاں نہیں ملتی اور یہ سب سے پہلے آپﷺ ہی کی زبان سے ادا ہوئے۔ (ترجمان الاسلام:۶۱،۶۱/۶۳)
اس سلسلے میں مولانا نعمان الدین ندوی دامت برکاتہم نے نہایت ہی عمدہ اور مفصل کلام کیا ہے، ان کی مایۂ ناز کتاب “الروائع والبدائع فی الکلام النبوی:۱۲۸ تا ۱۳۳” کافی مفید اور مطالعہ کے لائق ہے۔