کیاامام ابوحنیفہ ؒ نے صرف سترہ احادیث پراعتبارکیا ؟

اعتراض :

ابو حنیفہ نے جو 80ھ میں پیدا ہوئے اور ستر سال بعد فوت ہوئے، تقریباً 17 یا 18 حدیثیں ان مسائل کا فیصلہ کرنے میں استعمال کیں ۔ غالباً اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ رسول اللہ کے زمانے سے اس قدر قریب نہیں تھے جتنے پہلے چار خلفاء تھے۔ انہوں نے اپنے تمام فیصلوں کی بنیاد قرآن کی مکتوب ہدایات پر رکھی اور متن قرآن کے الفاظ کے پیچھے ان محرکات کو تلاش کرنے کی کوشش کی جو ان ہدایات کے موجب تھے۔اگر ابو حنیفہ یہ حق رکھتے تھے کہ حدیث کی مدد کے بغیر قرآن کی تعبیر موجود الوقت حالات کی روشنی میں کریں تو دوسرے مسلمانوں کو یہ حق دینے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

جواب:

اس بات ” امام ابوحنیفہ کو سترہ احادیث یاد تھیں یا انہوں نے سترہ احادیث پر ہی اعتبار کیا ‘ کا حوالہ مقدمہ ابن خلدون سے لیا جاتا ہے اور اسے اپنی مرضی سے توڑ موڑ کے پیش کیا جاتا ہے۔

سترہ حدیث اور ابن خلدون-پس منظر اورحقیقت

امام محمد نے ”موٴطا امام محمد“ کی تمام احادیث کو، امام مالک سے روایت کیا کیوں کہ انہوں نے خاص طور پر صرف امام مالک ہی کی روایات بیان کرنے کا التزام کیا لیکن موقع بہ موقع کہیں کہیں امام ابوحنیفہ و ابویوسف کی روایتیں بھی ضمناً آگئی ہیں، جن کی تعداد سترہ یا ان کے لگ بھگ ہے۔ ان احادیث کو دیکھ کے بعض لوگ ابوحنیفہ ؒ کے بقیہ تمام ذخیرئہ احادیث سے قطع نظر کرتے ہوئے یہ کہہ بیٹھے کہ : آپ ”قلیل البضاعة فی الحدیث“ تھے تبھی تو سترہ حدیثیں ہی مروی ہیں۔ اس زبردست غلطی کا علامہ ابن خلدون نے اس طرح ازالہ کیا ہے کہ : ”امام صاحب کے حوالے سے ”موٴطا امام محمد“ میں جو صرف سترہ حدیثیں مروی ہیں، ان سے بغض و تعصب رکھنے والوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ آپ ”قلیل البضاعہ فی الحدیث“ تھے اورحدیث میں آپ کا کل سرمایہ اتنا ہی تھا، حالانکہ سترہ روایت کا نظریہ، سرے سے باطل ہے؛ بلکہ سترہ کے واسطے سے ”قلیل البضاعہ فی الحدیث“ کا نظریہ، جو ان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے تقوُّل اور جھوٹ پر مبنی ہے اور راہِ راست سے بہت دور ہے، تو ابن خلدون کا مقصد امام صاحب پر لگائے گئے الزام کو دفع کرنا ہے، نہ یہ کہ آپ کے لیے اسے ثابت کرنا ہے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ابن خلدون کا مکمل حوالہ و عبارت نقل کردی جائے تاکہ اصل حقیقت سامنے آسکے، ملاحظہ فرمائیں: ابن خلدون فرماتے ہیں:

”واعلم ایضاً أن الأئمة المجتہدین تفاوتوا في الاکثار من ہذہ الصناعة والاقلال، فأبوحنیفة رضي اللہ تعالیٰ عنہ یقال: بلغت روایتہ الی سبعة عشر حدیثًا أو نحوہا، ومالک رحمہ اللہ تعالیٰ انما صح عندہ ما في الکتاب الموٴطا، وغایتہا ثلاث مائة حدیث، أو نحوہا، وأحمد بن حنبل رحمہ اللہ في مسندہ خمسون ألف حدیث، ولکل ما أداہ الیہ اجتہادہ فی ذلک․ وقد تقول بعض المبغضین المتعصبین الی أن: ”منہم من کان قلیل البضاعة فی الحدیث“ فلہذا قلت روایتہ“ولا سبیل الی ہذا المعتقد في کبار الأئمة․

”اور تو یہ بھی جان لے کہ ائمہ مجتہدین، حدیث کے فن میں متفاوت رہے ہیں، کسی نے زیادہ حدیثیں بیان کی ہیں کسی نے کم، سو امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہا جاتا ہے، کہ ان کی روایتیں صرف سترہ یا ان کے لگ بھگ ہیں اور امام مالک سے جو روایتیں ان کے یہاں صحیح ہیں، وہ وہی ہیں جو موٴطا میں درج ہیں اور امام احمد بن حنبل کی مسند میں پچاس ہزار احادیثیں ہیں اور ہر ایک نے اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق اس میں سعی کی ہے۔اور بعض بغض و کج روی رکھنے والوں نے اس جھوٹ پر کمر باندھ لی ہے کہ ”ائمہ مجتہدین میں سے جن سے کم حدیثیں مروی ہیں وہ محض اس لیے کہ ان کا سرمایہ ہی اس فن میں اتنا ہے لہٰذا ان کی روایتیں بھی کم ہیں؛ حالانکہ ان بڑے بڑے اماموں کی نسبت ایسا خیال کرنا راہِ راست سے دوری ہے۔(مقدمہ ابن خلدون، ص:۴۴۴، مصر)

یہ عبارت چیخ چیخ کرکہہ رہی ہے کہ امام صاحب پر مذکورہ الزام سرے سے ہی باطل ہے اور تقوُّل و جھوٹ پر مبنی ہے۔ ابن خلدون کے ذکرکرده اس قول کا مطلب یہ هے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله سے جوامام محمد نے احادیث روایت ہوئی هیں ان کی تعداد ستره ( 17 ) هے ، یہ مطلب نہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله نے کُل ستره ( 17 ) احادیث ہی پڑھی تھیں ۔ اهل علم جانتے هیں کہ روایت حدیث میں کمی اور قلت کوئ عیب ونقص نہیں هے ، خلفاء راشدین رضی الله عنہم بہت اچھے فقیہہ تھے لیکن ان کی روایات دیگر صحابہ کی نسبت بہت کم هیں ۔ تو کیا اب یہ کہہ دینا چاہیے کہ حضرت ابوبکر و عمر زیادہ بڑے محدث نہیں تھے؟ نہیں ہرگز نہیں؛ بلکہ یہ حضرات نقل روایات میں، حد درجہ احتیاط کرتے تھے، کہ مبادا نقل روایت میں کوئی فرق ہوجائےاسی لیے ان کبارِ صحابہ نے، حدیث کے اپنے وافر معلومات کو مسائل اور فتاویٰ کی صورت میں بیان کیا۔ امام صاحب بھی انہی کے نقش قدم پر چلے اورحدیث کے اپنے وافر معلومات کو استنباط میں لگایا،( الوصیة، ص: ۶۵) اسی کو حافظ محمدیوسف صالحی شافعی یوں بیان فرماتے ہیں: ”وانما قلَّت الروایة عنہ، لاشتغالہ بالاستنباط، کما قلَّت روایة أبی بکر وعمر “ (دفاع امام صاحب، ص: ۹۲)

پھر اس سے جو نتیجہ منکرین حدیث نے نکالا وہ اس سے بھی بڑا جھوٹ ہے کہ امام ابوحنیفہ نے فقہی مسائل کی تحقیق میں صرف سترہ احادیث پر اعتبار کیا باقی وہ قرآن سے ہی استفادہ کرتے رہے۔اس وسوسہ کی تردید کے لیئے امام اعظم رحمہ الله کی پندره مسانید کو هی دیکھ لینا کافی هے ، جن میں سے چار تو آپ کے شاگردوں نے بلاواسطہ آپ سے احادیث سن کر جمع کی هیں ، باقی بالواسطہ آپ سے روایت کی هیں ۔ آج امام ابو حنیفہ کے بڑے شاگرد امام ابو یوسف کی مرتب کردہ کتاب الاثار شائع شدہ موجود ہے جس میں انہوں نے اپنے استاد کی روایت کردہ ایک ہزار احادیث جمع کی ہیں۔ اس کے علاوہ امام کے دوسرے دو نامور شاگردوں، امام محمد اور امام حسن بن زیاد اللؤلوی نے امام کے صاحبزادے حماد بن ابی حنیفہ نے بھی ان کی روایت کر دہ احادیث کے مجموعے مرتب کیے تھے۔ پھر مسلسل کئی صدیوں تک بکثرت علما ان کی مرویات کو “مسند ابی حنیفہ” کے نام سے جمع کرتے رہے۔ (علم حدیث کی اصطلاح میں مسند سے مراد وہ کتاب ہے جس میں ایک شخص کی روایت کردہ احادیث یکجا جمع کر دی گئی ہیں)۔ ان میں سے 15 مسانید کا ایک جامع نسخہ قاضی القضاۃ محمد بن محمود الخوارزمی نے “جامع مسانید الامام الاعظم” کے نام سے مرتب کیا جسے دائرۃ المعارف حیدر آباد نے دو جلدوں میں شائع کیا ہے۔، اس کے علاوه امام محمد امام ابویوسف رحمهما الله کی کتب اور مُصنف عبدالرزاق اور مُصنف ابن ابی شیبہ هزاروں روایات بسند مُتصل امام اعظم رحمہ الله سے روایت کی گئ هیں ۔

یہ کتابیں اس دعوے کی تردید میں قاطع ہیں کہ امام ابو حنیفہ صرف 17 حدیثیں جانتے تھے، یا انہوں نے صرف 17 حدیثوں سے استدلال کر کے فقہی مسائل نکالے ہیں۔ کوئی شخص فقہِ حنفی کی معتبر کتابوں میں سے اگر صرف امام طحاوی کی “شرح معانی الاثار”، ابوبکر جصاص کی “احکام القرآن” اور امام سرخسی کی “المبسوط” ہی کو دیکھ لے تو اسے یہ غلط فہمی کبھی نہ لاحق ہو کہ امام ابو حنیفہ نے حدیث سے بے نیاز ہو کر صرف قیاس اور قرآن پر اپنی فقہ کی بنیاد رکھی تھی۔

عالم اسلام کے مستند عالم مشہور ناقد حدیث اور علم الرجال کے مستند ومُعتمد عالم علامہ ذهبی رحمہ الله نے امام ابوحنیفہ رحمہ الله کا ذکراپنی کتاب ( تذکره الحُفَّاظ ) میں کیا هے ، جیسا کہ اس کتاب کے نام سے ظاهر هے کہ اس میں حُفاظ حدیث کا تذکره کیا گیا هے ، اور محدثین کے یہاں ( حافظ ) اس کو کہاجاتا هے جس کو کم ازکم ایک لاکھ احادیث متن وسند کے ساتھ یاد هوں اور زیاده کی کوئ حد نہیں هے ۔

پھر حدیث سے استناد کے معاملہ میں امام ابو حنیفہ کا جو مسلک تھا اسے انہوں نے خود ان الفاظ میں بیان کیا ہے :

“مجھے جب کوئی حکم خدا کی کتاب میں مل جاتا ہے تو میں اسی کو تھام لیتا ہوں۔ اور جب اس میں نہیں ملتا تو رسول اللہ کی سنت اور آپ کے ان صحیح آثار کو لیتا ہوں جو ثقہ لوگوں کے ہاں ثقہ لوگوں کے واسطے سے معروف ہیں۔ پھر جب یہ (نہ) کتاب اللہ میں حکم ملتا ہے نہ سنت رسول اللہ میں تو میں اصحاب رسول کے قول (یعنی ان کے اجماع ) کی پیروی کرتا ہوں اور ان کے اختلاف کی صورت میں جس صحابی کا قول چاہتا ہوں، قبول کرتا ہوں ” (تاریخ بغداد للخطیب جلد 13، صفحہ 368 – مناقب امام اعظم للموفق المکی، ج ا، ص 79، مناقب امام ابو حنیفہ و صاحین للذہبی، ص 20)۔

امام ابو حنیفہ کے سامنے ایک مرتبہ ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ قیاس کو نص پر ترجیح دیتے ہیں۔ اس پر انہوں نے فرمایا :

“بخدا اس شخص نے جھوٹ کہا اور ہم پر افترا کیا جس نے کہا کہ ہم قیاس کو نص پر ترجیح دیتے ہیں، بھلا نص کے بعد بھی قیاس کی کوئی حاجت رہتی ہے؟” (کتاب المیزان للشعرانی، ج ا، ص 61 )

خلیفہ منصور نے ایک مرتبہ امام کو لکھا کہ میں نے سنا ہے آپ قیاس کو حدیث پر مقدم رکھتے ہیں، جواب میں انہوں نے لکھا :

امیر المومنین، جو بات آپ کو پہنچی ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ میں سب سے پہلے کتاب اللہ پر عمل کرتا ہوں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت پر، پھر ابو بکر و عمر اور عثمان و علی رضی اللہ عنہم کے فیصلوں پر، پھر باقی صحابہ کے فیصلوں پر، البتہ جب صحابہ میں اختلاف ہو تو قیاس کرتا ہوں۔” (کتاب المیزان للشعرانی، ج ا، ص 62)

علامہ ابن حزم نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ :

“تمام اصحابِ ابی حنیفہ اس بات پر متفق ہیں کہ ابو حنیفہ کا مذہب یہ تھا کہ ضعیف حدیث بھی اگر مل جائے تو اس کے مقابلے میں قیاس اور رائے کو چھوڑ دیا جائے۔” (مناقب امام ابو حنیفہ و صحاحسین للذہبی، ص 21 )