صحاح ستہ اور عجمی/ایرانی سازش کا افسانہ

منکرین حدیث کے گرگانِ باراں دیدہ اپنے سردو گرم چشیدہ یہودی صلیبی مستشرق اساتذہ کی تقلید میں یہ الزام لگاتے آرہے ہیں کہ احادیث کا ذخیرہ درحقیقت ایرانیوں کی سازش اور قصہ گویوں، واعظوں اور داستان سراؤں کی من گھڑت حکایات کا مجموعہ ہے۔

ایک صاحب لکھتے ہیں :

’’وفاتِ نبوی کے سینکڑوں برس بعد بعض ایرانیوں نے ادھر ادھر کی سنی سنائی اٹکل پچو باتوں کو جمع کرکے انہیں صحیح حدیث کا نام دے دیا۔‘‘(نکارِ حدیث کے اُصولی دلائل )

آئیے سب سے پہلے یہی دیکھ لیں کہ ان مجموعہ ہائے احادیث کو جمع کرنے والے ایرانی ہیں بھی یا نہیں؟

سن وار ترتیب کے لحاظ سے دورِ اول کے رواۃِ حدیث میں سر فہرست ابن شہاب زہری، سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر اور عمر بن عبدالعزیز رحمہم اللہ کے نامِ نامی آتے ہیں۔ یہ سب کے سب، سب سے معزز عربی خاندان قریش سے تعلق رکھتے ہیں اور آخر الذکر تو اسلامی تاریخ کے پانچویں خلیفہ راشد کی حیثیت سے معلوم و معروف ہیں۔

اسی طرح دورِ اوّل کے مدوّنین ِحدیث میں سرفہرست امام مالکؒ ہیں۔ پھر امام شافعیؒ اور ان کے بعد امام احمد بن حنبلؒ، ان تینوں ائمہ کے مجموعہ ہائے احادیث پوری اُمت میں متداول اور مقبول ہیں۔ یہ تینوں خالص عربی النسل ہیں۔ امام مالکؒ قبیلہ ذی اَصبح سے، امام شافعی ؒقریش کی سب سے معزز شاخ بنوہاشم سے ، اور امام احمد ؒ قبیلہ شیبان سے۔یہ بنو شیبان وہی ہیں جن کی شمشیر خاراشگاف نے خورشید ِاسلام کے طلوع ہونے سے پہلے ہی خسرو پرویز کی ایرانی فوج کو ’ذی فار‘ کی جنگ میں عبرتناک شکست دی تھی۔ اور جنہوں نے حضرت ابوبکر ؓ کے دور میں ایرانی سازش کے تحت برپا کئے گئے ہنگامہ ارتداد کے دوران نہ صرف ثابت قدمی کا ثبوت دیا تھا بلکہ مشرقی عرب سے اس فتنے کو کچلنے میں فیصلہ کن رول ادا کرکے عربی اسلامی خلافت کو نمایاں استحکام عطا کیا تھا۔ اور پھر جس کے شہپر و شہباز مثنیٰ بن حارثہ شیبانی کی شمشیر خارا شگاف نے کاروانِ حجاز کے لئے فتح ِایران کا دورازہ کھول دیا تھا۔

آخر آپ بتلا سکتے ہیں کہ یہ کیسی ایرانی سازش تھی جس کی باگ دوڑ عربوں کے ہاتھ میں تھی؟ جس کا سرپرست عربی خلیفہ تھا اور جس کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے ایسی ایسی نمایاں ترین عربی شخصیتوں نے اپنی زندگیاں کھپا دیں۔ جن میں سے بعض بعض افراد کے قبیلوں کی ایران دشمنی چار دانگ عالم میں معروف تھی؟ کیا کوئی انسان جس کا دماغی توازن صحیح ہو، ایک لمحہ کے لئے بھی ایسے بدبودار افسانہ کو ماننے کے لئے تیار ہوسکتا ہے؟

دو رِ اوّل کے بعدآئیے دورِ ثانی کے جامعین ِحدیث پر نگاہ ڈالیں۔ ان میں سرفہرست امام بخاری ہیں جن کا مسکن ’بخارا‘ تھا۔ بخارا ایران میں نہیں بلکہ ماوراء النہر (ترکستان) میں واقع ہے۔ دوسرے اور تیسرے بزرگ امام مسلم اور امام نسائی ہیں۔ان دونوں حضرات کا تعلق نیشا پور کے علاقے سے تھا اور نیشاپور ایران کا نہیں بلکہ خراسان کا جز تھا۔ اگر اس پر ایران کا اقتدار رہا بھی ہے تو اجنبی اقتدار کی حیثیت سے۔ چوتھے اور پانچویں بزرگ امام ابوداؤد اور امام ترمذی تھے۔ اول الذکر کا تعلق سجستان (خراسان) سے، ثانی الذکر کا تعلق ترمذ (ماوراء النہر، ترکستان) سے رہا ہے۔ چھٹے بزرگ کے بارے میں اختلاف ہے۔ ایک طبقہ ابن ماجہ کی سنن کو صحاحِ ستہ میں شمار کرکے انہیں استناد کا یہ مقام دیتا ہے، دوسرا طبقہ سنن دارمی یا مؤطا امام مالک کو صحاحِ ستہ میں شمار کرتا ہے۔ امام ابن ماجہ یقینا ایرانی ہیں لیکن ان کی تصنیف سب سے نیچے درجے کی ہیں۔ حتیٰ کہ ا کثر محدثین اسے لائق استناد ماننے کو تیا رنہیں۔ آخر الذکر دونوں حضرات عربی ہیں۔ امام مسلم، ترمذی، ابوداؤد اور نسائی بھی عربی ہیں۔


کیا محدثین عجمی تھے؟

یہ حقیقت اچھی طرح یاد رہے کہ جن محدثین نے احادیث کو کتابی شکل میں جمع کیا ہے، ان سب کو یا ان کی اکثریت کو عجمی قرار دینا محض فریب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج حدیث کی جو کتابیں اُمت میں رائج، مقبول اور متداول ہیں، چند ایک کے سوا، سب کے مصنّفین (مؤلفین) عرب تھے۔ ہم ذیل میں اس طرح کے عرب محدثین کی فہرست دے رہے ہیں تاکہ واقعی حقیقت دو ٹوک طور پر واشگاف ہوجائے :

عرب محدثین اور ان کے قبیلے کانام

امام مالکؒ ۱۷۹ھ قبیلہ ذی اصبح

امام شافعیؒ ۲۰۴ھ قبیلہ قریش

امام حمیدیؒ ۲۱۹ھ قبیلہ قریش

امام اسحق بن راہویہؒ ۲۳۸ھ قبیلہ بنوتمیم

امام احمد بن حنبلؒ ۲۴۱ھ قبیلہ بنو شیبان

امام دارمیؒ ۲۵۵ھ قبیلہ بنو تمیم

امام مسلمؒ ۲۶۱ھ قبیلہ بنو قشیر

امام ابوداودؒ ۲۷۵ھ قبیلہ بنواَزد

امام ترمذیؒ ۲۷۹ھ قبیلہ بنوسلیم

حارث بن ابی اسامہؒ ۲۸۲ھ قبیلہ بنوتمیم

امام ابوبکر بزارؒ ۲۹۲ھ قبیلہ بنواَزد

امام نسائی ؒ ۳۰۳ھ نساء

امام ابویعلیؒ ۳۰۷ھ قبیلہ بنوتمیم

امام ابوجعفر طحاویؒ ۳۲۱ھ قبیلہ بنواَزد

امام ابن حبانؒ ۳۵۴ھ قبیلہ بنوتمیم

امام طبرانی ؒ ۳۶۰ھ قبیلہ لخم

امام دارقطنیؒ ۳۸۵ھ

امام حاکم ؒ ۴۰۵ھ قبیلہ بنوضبہ

اس فہرست سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جن محدثین کی کتابیں رائج اور مقبول ہیں ان میں ۱۸ عرب اور صرف ۴ عجمی ہیں۔ مولانا ضیاء الدین اصلاحی رفیق دارالمصنّفین،اعظم گڑھ نے پہلی صدی ہجری میں پیدا ہونے والے محدثین سے لے کر آٹھویں صدی کے آخر تک وفات پانے والے مشہور اور صاحب ِتصنیف محدثین کا تفصیلی ذکر ’تذکرۃ المحدثین‘ نامی کتاب کی دو جلدوں میں کیا ہے۔ ان محدثین کی کل تعداد ستر ہوتی ہے۔ جن میں سے صرف ۱۲ محدثین کے متعلق یہ صراحت ملتی ہے کہ وہ عجمی تھے، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حدیث کو عجمی یا ایرانی سازش قرار دینے میں کتنا وزن ہے اور یہ نعرہ کس قدر پرفریب ہے۔

اسی کے ساتھ اگر یہ بات بھی مدنظر رہے کہ کتب ِاحادیث کے لکھنے والوں میں پیشرو اور سرفہرست عرب محدثین ہیں۔ عجمی محدثین ان کے بعد ہیں۔ پھر ان عجمی محدثین نے اپنی کتابوں میں جو حدیثیں جمع کی ہیں، وہ وہی حدیثیں ہیں جنہیں ان کے پیشرو اور ہم عصر عربوں نے اپنی کتابوں میں جمع کیا ہے تو مذکورہ بالا حقیقت مزید اچھی طرح بے نقاب ہوجاتی ہے۔

اب آپ بتائیے کہ آخر عربوں کے خلاف یہ کیسی سازش تھی جس کے دورِ اول کے تمام بڑے بڑے لیڈر عربی تھے اور عربوں کے بعد ترکستانی اور خراسانی تھے جو نسلاً عربی تھے۔ اور اگر عربی نہ بھی تسلیم کریں تو پھر ایرانیوں سے کدور قابت رکھتے تھے اور انہوں نے سازش کا سارا مواد اپنے پیشرو عرب لیڈروں سے حاصل کیا تھا۔ اگر بدقسمتی سے اس دور کے ’سازشی ٹولے‘ میں ایک آدھ ایرانی نے شریک ہوکر ان کی کفش برداری اور خوشہ چینی کی بھی تو اس کوکوئی حیثیت حاصل نہ ہوسکی۔ یا تو اس کی تصنیف کو درجہ استناد ہی نہیں دیا گیا۔ یا دیا بھی گیا تو سب سے نچلے درجہ کا…؟

یہ بھی بتلا دیجئے کہ


آخر یہ کیسی ’ایرانی سازش‘ تھی کہ ’سازشی ٹولے‘ اور ان کے سیاسی آقاؤں کے درمیان برابر ٹھنی رہتی تھی؟ کسی کو شہر بدر کیاجارہا ہے، کسی پر شہر کے دروازے بند کئے جارہے ہیں، کسی کو حوالہ زنداں کیا جارہا ہے، کسی پر کوڑے برس رہے ہیں، کسی کی زخمی پیٹھ پر زہریلے پھائے لگائے جارہے ہیں،کسی پاؤں میں بیڑیاں پہنائی جارہی ہیں، کسی کے کندھے اُکھڑوا کر گدھے پر بٹھایا جارہا ہے اور شہر میں گشت کرایا جارہا ہے اور کسی کے ساتھ کچھ اور ہورہا ہے!!

پھر ’سازشی ٹولہ‘ بھی کیسا ہے کہ اپنے آقاؤں سے ذرا دبتا نہیں؟ ان کے مقابل میں اکڑا ہوا ہے۔ ان کے بچوں کے لئے سپیشل کلاس لگانے پر آمادہ نہیں۔ عام درس میں نمایاں اور مخصوص جگہ دینے کو تیار نہیں۔ ان کے ہدایا اور تحائف کو پوری بے نیازی کے ساتھ ٹھکرا دیتا ہے اور ان کے دربار میں بھول کر بھی حاضر نہیں ہوتا۔ اگر کبھی حاضری کے لئے مجبور بھی کیا جاتا ہے تو وہ کھری کھری سناتا ہے کہ بلائیں ٹوٹ پڑتی ہیں۔کیا یہی ’لچھن‘ ہوتے ہیں سازشیوں کے…؟

آخر یہ کیسا نادان ’سازشی ٹولہ‘ تھا کہ جن سیاسی مصالح کے حصول کے لئے اس نے اتنی خطرناک سازش رَچائی تھی، انہی سیاسی مصالح کے خلاف برسرپیکار رہا اورا س رستے میں جو جو مصیبتیں جھیلنی پڑیں نہایت ہی استقلال کے ساتھ جھیلتا رہا۔

اس ’ایرانی سازش‘کا ایک اور پہلو بھی خاصا دلچسپ ہے۔ اس سازشی ٹولے کی جمع کی ہوئی کتب احادیث میں ایسی احادیث بھی ہیں جن میں قبیلوں، قوموں اور ملکوں کے فضائل و مناقب یا خرابیاں اور کمزوریاں بھی بیان کی گئیں ہیں۔ اس قسم کی احادیث میں حجاز کو ’دین کی پناہ گاہ‘ کہا گیا ہے۔ (بخاری ومسلم وغیرہ)۔

یمن کو ’ایمان و حکمت کا مرکز‘ قرار دیا گیا ہے (ایضاً)… شام کو اسلام کی چوٹی کی ’شخصیتوں کامرکز‘،’ اللہ کی منتخب کی ہوئی زمین‘ اور ’اسلام کامستحکم قلعہ‘ کہا گیا ہے اور اس کے لئے دعائیں کی گئی ہیں۔ (بخاری، مسلم، ابوداوٗد، ترمذی، مسنداحمد)

آپ کو معلوم ہے کہ مشرق کو عموماً اور ایرانیوں کے مرکز ِاقتدار (عراق) کو خصوصاً، احادیث میں کیامقام عطا ہوا ہے؟ اسے فتنہ و فساد کا مرکز اور اُجڈوں اور اَکھڑوں کامسکن قرار دیا گیا ہے۔اس پر قدرتی آفات اور تباہیوں کی آمد کی پیشین گوئی کی گئی ہے اور اسے ابلیس کی قضائے حاجت کا مقام بتلایا گیا ہے۔ (بخاری، طبرانی وغیرہ)۔ اگر ایک آدھ حدیث میں اہل ایران سے متعلق کوئی فضیلت آبھی گئی ہے تو صرف چند افراد کے لئے رجال من ھولاء۔

بتائیے! آخر یہ کیسے ’بدھو‘ قسم کے ’سازشی‘ لوگ تھے کہ سارے فضائل و کمالات تو عطا کردیے اپنے عرب دشمنوں کو؟ اور ساری پستی اور خرابی منتخب کرلی، اپنے لئے اور اپنے آقاؤں کے لئے؟ کیاسازش اسی طرح کی جاتی ہے؟ اور کیا ایسی ہی اُلٹی سیدھی تدبیروں سے سیاسی بالادستی حاصل ہوتی ہے؟

بریں عقل و دانش بباید گریست

پھر آپ نے کبھی اس پر بھی غور فرمایا کہ اسلامی حکومت سرزمین حجاز سے شروع ہو کر اقطارِ عالم تک لاکھوں مربع میل زمین پر پھیلی ہوئی تھی۔ آپ یہ سوچیں آپ کو صلح سے کوئی ملک ملا۔ خود سرزمین حجاز میں قد قدم پر لڑائیاں لڑنی پڑیں۔ مکہ پر فوج کشی کی ضرورت ہوئی۔نجد لڑائی سے ملا۔ شام ، عراق، حبش، یمن کے بعض علاقوں پر لڑنا پڑا۔ سمندر کے ساحلی علاقوں پر جنگیں ہوئیں۔

آنحضرت ﷺ کو اپنی زندگی میں کم و بیش بیاسی جنگیں لڑنا پڑیں۔ پھر یہ جنگوں کا سلسلہ خلیفہ ثالث کی حکومت کے درمیانی ایام تک جاری رہا۔پھر خلیفہ ثالث کے آخری دور سے شروع ہوکر حضرت علیؓ کا پورا زمانہ قریب قریب باہمی آویزش کی نذر رہا۔ ۴۱ھ کے بعد جوں ہی ملک میں امن قائم ہوا، خلفاے بنی اُمیہ نے شخصی کمزوریوں کے باوجود جہاد فی سبیل اللہ کا سلسلہ شروع کردیا۔ ہندوستان، اندلس، بربر، الجزائر، تمام علاقے جنگ ہی سے اسلامی قلمرو میں شامل ہوئے۔..

پھر آپ کے قلم اور دماغ نے سازش کا نزلہ صرف ’فارس‘ پرکیوں گرایا؟

محض ملک گیری اور فتوحات کی بنا پر بغاوتیں، سازشیں تصنیف کی جاسکتی ہیں تو حجازی سازش، ہندوستانی سازش، بربری اور اندلسی سازش کیوں نہیں بنائی گئی؟

کیا شام کے یہودی معصوم، عراق اور روم کے مشرک اور عیسائی فارسیوں سے زیادہ پاک باز تھے؟

ان کی حکومتیں مسلمانوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ نہیں اُتریں؟ مصر میں اسلامی فتوحات سے قبطی اور مصری قوموں کا وقار پامال نہیں ہوا۔ پھر آپ مصری سازش کے متعلق کیوں نہیں سوچتے؟

اگر عقل کا دیوالیہ نہیں دے دیا گیا تو اپنی فتوحات کی پوری تاریخ پر غور فرمائیے۔ چین کے سوا شاید ہی کوئی ملک ہے جہاں مسلمانوں کے خون نے زمین کو لالہ زار نہ کیا ہو۔ مغربی سمندر کے سواحل پر آپ کی فوجیں برسوں لنگر انداز رہیں۔ ان لوگوں پر آپ کو سازش کا شبہ کیوں نہیں؟ آپ اُلٹا خود ہی ان کی سازش کا شکار ہوگئے…!!

غزالی، ابن مکرم، ابن عربی ، ابن العربی، شاطبی، ابن حزم، یحییٰ بن یحییٰ مصمودی وغیرہم، قرطبہ اور اندلس کے علما کو سازشی نہیں کہا جاتا۔ اگر خراسان، بخارا، قزوین، ترمذ، نساء کے علما پرحدیث سازی کی تہمت اس لئے لگائی گئی ہے کہ ان بزرگوں نے سنت کے پرانے تذکروں، صحابہ اور تابعین کی بیاضوں اور سلف اُمت کے مسودات سے تدوین حدیث کے لئے راہیں ہموار کیں تو علمائے اندلس نے بھی سنت کی کچھ کم خدمت نہیں کی کہ شروحِ حدیث، فقہ الحدیث اور علومِ سنت کی خدمت میں ان بزرگوں نے لاکھوں صفحات لکھ ڈالے۔ ان خدمات کو کیوں سازش نہیں کہا گیا۔ منکرین سنت کے پورے خاندان میں کوئی عقلمند نہیں جو ان حقائق پر سنجیدگی سے غور کرے، کیا علومِ دینی اور فنونِ نبوت کی ساری داستان میں آپ کو صرف علمائے فارس ہی مجرم نظر آئے!!

من کان هذا القدر مبلغ علمه

فليستتر بالصمت والکتمان‘‘

(حدیث کی تشریعی اہمیت از مولانا محمد اسمٰعیل سلفی: ؒص ۶۹تا ۷۱)

سازش کو ایک اور پہلو سے دیکھتے ہیں۔ ۔

آج سے تقریباً ایک صدی پہلے حکومت نہ انتخابی تھی؛ نہ جمہوری نمائندگی کی سند ان کو حاصل تھی۔ نہ وہ حکومتیں عوام کے سامنے جواب دہ ہوتی تھیں بلکہ اس وقت کی حکومتیں شخصی ہوتی تھیں یا زیادہ سے زیادہ کوئی قوم حاکم ہوجاتی، باقی لوگ محکوم ہوتے تھے۔ اقتدار میں عوام کی جوابدہی قطعاً ملحوظ نہیں رکھی جاتی تھی۔ نہ حکومت کسی آئین کی پابند ہوتی تھی۔ بادشاہ کی رائے اور بادشاہ کا قلم پورا آئین ہوتا تھا۔ یا وہ لوگ جو بادشاہ کی ہاں میں ہاں ملا کر حکومت کے منظورِ نظر ہوجائیں۔ایسی حکومتوں کے ساتھ ہمدردی ذاتی ضرورتوں کی وجہ سے ہوتی تھی۔ یا بادشاہ کے ذاتی ا خلاق اور کریکٹر کی وجہ سے۔ اگر کوئی انقلاب ہوجائے تو انقلاب سے ملک متاثر تو ہوتا تھا لیکن اس کی وجہ بادشاہ یا اس کے خاندان کے ساتھ ہمدردی نہیں ہوتی تھی، بلکہ یہ تاثر آنے جانے والی حکومتوں کے مقاصد کی وجہ سے ہوتا۔

فارسی حکومت شخصی تھی۔ یزدگرد کی موت پراس کا خاتمہ ہوگیا۔یزدگرد کا خاندان یقینا اس انقلاب میں پامال ہوا ہوگا۔ لیکن تاریخ اس وقت کسی ایسی سازش کا پتہ نہیں دیتی جو اس خاندان کے ساتھ ہمدردی کے طور پر کی گئی ہو۔نوشیرواں کے بعد ویسے بھی کسریٰ کی حکومت روبہ انحطاط تھی، ان کے کردار میں عدل و انصاف کے بجائے استبداد روز بروز بڑھ رہا تھا۔ عوام کو حکومت کے ساتھ کوئی دلچسپی اور محبت نہیں تھی۔ پھر سازش کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

مذہبا ً فارسی حکومت آتش پرست تھی۔ اسلام نے توحید کے عقیدہ کی سادگی سے یہودیت اور عیسائیت تک کو متاثر کیا۔ بت پرستی ان کے سامنے نہ ٹھہر سکی، آتش پرستی کی وہاں کیا مجال تھی۔ اسلام کی تعلیمات اس مسئلہ میں نہایت مدلل اور واضح تھیں، ان میں کوئی چیز ڈھکی چھپی نہ تھی۔ اسلام کا موقف عقیدۂ توحید کے معاملے میں کھلی کتاب تھا۔ وہ دوسروں کے شبہات اور اعتراضات بڑی کشادہ دلی سے سنتا تھا۔ مخالفین کے شبہات کی تردید اور اصلاح میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا تھا۔ نہ ہی اپنے نظریہ کو کسی پر جبراً ٹھونستا تھا، پھر اس کے خلاف کیوں سازش کی جائے… کون کرے؟ اور کس طرح کرے؟

فارسی حکومت کا چراغ خلیفہ ثانی کی حکومت میں گل ہوا۔ یزد گرد کو خود اس کی رعایا نے قتل کیا اور اس کے خاتمہ میں مسلم عساکر کی مدد کی۔ پھر سازش کی ضرورت کیسے ہوئی؟

فارس کی فتح کے بعد ہزاروں فارسی اپنے آبائی مذہب پر قائم رہے۔ جزیہ دیتے رہے، انہیں کسی نے بھی کچھ نہیں کہا۔ ان کے معبد (آتش کدے) مدتوں قائم رہے۔ جو لوگ ان سے اسلام کی طرف راغب ہوئے انہیں اسلام نے پوری ہمدردی کے ساتھ اپنی آغوش میں عزت کی جگہ دی۔

جہاں مذہب یوں آزاد ہو اور سیاست اس طرح بے اثر، ملک کے عوام مسلمانوں کی فتوحات پر خوشیاں مناتے ہوں، جب وہ جنگی مصالح کی بنا پر کسی مقام سے پیچھے ہٹنا پسند کریں تو اس علاقہ میں صف ماتم بچھ جائے۔ تعجب ہوتا ہے کہ ادارئہ طلوعِ اسلام اور جناب اسلم جیراجپوری نے سازش کے جراثیم کو کون سی عینک سے دیکھ لیا!!

تاریخ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ 

مسلمانوں کی عدل گستری اور انصاف پسندی کی وجہ سے فارسی بالکل مطمئن ہوگئے تھے۔ فاتحین کی علم دوستی کے اثرات 

سے فارس کے تمام ذہین لوگ سیاست چھوڑ کر فوراً علم کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اس راہ میں انہوں نے آخرت کی سربلندیوں کے علاوہ علمی دنیا میں بہت بڑا نام پیدا کیا، اور حکومت کے خلاف سازش کا ان کی زبان پر کبھی نام تک نہیں آیا۔یہ سازش کا پورا کیس مولانا جیراجپوری کے کاشانہ اور ادارۂ طلوع اسلام کے دفتر میں تیار ہوا ہے۔ واقعات کی روشنی میں اسے ثابت کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔

سازش کی یہ عجیب قسم ہے کہ سازشیوں نے فاتحین کا مذہب قبول کیا۔ پھر ان کے علوم کی اس قدر خدمت کی کہ فاتحین اپنے علوم کی حفاظت سے بے فکر اور کلی طور پر مطمئن ہوگئے۔ پھر فاتحین نے ان میں سے اکثر علوم اور علما کی سرپرستی کی۔ (مقدمہ ابن خلدون:۵۸)

معلوم ہے کہ اُموی خلفاء کے وقت شاہی درباروں میں عجمیوں کو وہ اقتدار حاصل نہ تھا جو عباسی درباروں میں برامکہ کوحاصل ہوا۔ لیکن اُن کا دامن دین کی خدمات سے بالکل خالی تھا۔ قرآن وسنت اور دینی علوم تو بڑی بات ہے، برامکہ سے تو عربی زبان کی بھی کوئی خدمت نہ ہوسکی۔

ہارون الرشید نے امام مالکؒ اور ان کے درس کی سرپرستی کی کوشش کی، لیکن امام مالک نے اسے بے اعتنائی سے مسترد کردیا، روپیہ دینے کی کوشش کی تو پورے استغنا سے واپس کردیا۔

سازش کا آخر یہ مقصد ہوسکتا تھا کہ شاہی دربار تک رسائی ہو، مال و دولت اور حکومت میں حصہ ملے، اب دربار خود درِ دولت پر حاضر ہوتا ہے، اپنی ساری بلندیاں چھوڑ کر پورے انکسار، انتہائی احترام سے خزانوں کے دروازے کھلتے ہیں۔ تھیلیاں باادب پیش ہوتی ہیں، اور ’سازشی‘ ہیں کہ نظر اُٹھا کر نہیں دیکھتے۔

بادشاہ عرض کرتے ہیں تشریف لے چلئے، آنکھیں فرشِ راہ ہوں گی، فارسی سازش کے سرغنہ یا فن حدیث کے سالارِ قافلہ فرماتے ہیں: ’’والمدينة خيرلهم لو کانوا يعلمون‘‘ مطلب یہ کہ اس بڑے دربار سے علیحدگی میرے لئے ناممکن ہے۔

پھر سازشیوں کا یہ پورا گروہ مختلف عجمی ممالک سے ہزاروں میل سفر طے کرکے مدینہ منورہ پہنچ کر امام کی خدمت میں تحصیل علم کے لئے پیش ہوتا ہے اور کوئی سوچتا نہیں کہ شیخ عرب ہے، یہ عجمی النسل کہیں پوری سازش کا راز فاش نہ کردے۔

عرب استاد کے عجمی شاگرد مدتوں استفادہ کرتے ہیں اور انہیں علوم کا درس ہوتا ہے۔ ساتھی ساتھی پر جرح کرتا ہے۔ایک دوسرے کی کمزوریوں کے کھلے بندوں تذکرے ہوتے ہیں۔ عرب محدثین عجمی علما پرتنقید کرتے ہیں، عجمی اہل عرب کے نقائص کی نشاندہی کرتے ہیں۔ لیکن اس سازش کا سراغ جس کے اختراع کا سہرا ’طلوعِ اسلام‘ کے دفتر پر ہے، نہ کسی عرب کو لگا، نہ کسی عجمی کو۔ نہ استا د نے اسے محسوس کیا نہ شاگرد نے نہ ساتھی نے!!

پھر تعجب یہ ہے کہ فارس کی فتح پہلی صدی کے اوائل میں ہوئی اور اس سازش کا منصوبہ تیسری صدی میں بنایا گیا۔ تقریبا پورے دو سو سال فارسی بے وقوف آرام کی نیند سوتے رہے۔ یعنی جب شکست کا درد اور کوفت تازہ تھی، اس وقت تو فارسیوں کو کوئی احساس نہ ہوا۔ لیکن تین سو سال کے بعد درد کی بے قراریاں انگڑئیاں لینے لگیں اور فارسی سازشیوں نے بخاری ؍مسلم اور کتب ِصحاح کی صورت اختیار کرلی۔ فيا للعقول وأربابها

پھر اتنی بڑی سازش جس نے اسلامی اور تعلیمی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، دنیا کے مسلم اور غیرمسلم مؤرخوں کی آنکھیں بے کار ہوگئیں، قلم ٹوٹ گئے اور زبانیں گنگ؟… ان کی ضخیم کتابیں اس عظیم الشان سازش کے تذکرے سے یکسر خالی ہیں۔ یہ راز سب سے پہلے یورپ کے ملحد مُکتشفین پرکھلا اور اس کے بعد دفتر طلوعِ اسلام کے دریوزہ گروں نے کچھ ہڈیاں مستعار لے لیں۔’’ فَوَيْلٌّ لَّهُمْ مِمَّا کَتَبَتْ اَيْدِيْهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُمْ مِمَّا يَکْسِبُوْنَ ‘‘ (حدیث کی تشریعی اہمیت: ص ۴۲ تا ۴۹)

ہماری ان گذارشات سے واضح ہے کہ ایرانی سازش کا جو شاخسانہ کوئی ’ٹھوس حقیقت‘ نہیں بلکہ ایک ‘افسانہ‘ ہےجس نے اسلام کے دانا دشمن یہودی مستشرق گولڈ زیہر اور اس کے رفقا کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور حافظ اسلم، مسٹر پرویز اور پاکستان کے کچھ بے علم یا محدود العلم کلرکوں کی گود میں پل کر جوان ہوا ہےاوراب انکے مقلد حضرات اسے عام مسلمانوں کے حلق میں ٹھونسنے کے لئے اپنے ’سرمایۂ تحقیقات‘ کی حیثیت سے اس کی نمائش کرتے پھر رہے ہیں۔

استفادہ تحریر مولانا صفی الرحمن مبارکپوری