اسلامی ریاست کیا ہے؟ ریاست دو اعمال کا نام ہے: ایک احکامات کا صدور (یعنی اعمال کے حکم اخذ کرنے کا عمل) اور دوسرا احکامات کا نفاذ (یعنی ان احکامات کو جاری کرنے کا عمل)۔ اول الذکر میں عقائد پر حکم لگانے کو “کلام” کہتے ہیں اور اعمال پر حکم لگانے کو “فقہ” جبکہ موخر الذکر ان احکامات کے لئے اختیار کردہ ادارتی صف بندی کا نام ہے (جو حالات کے تناظر میں تبدیل ہوسکتی ہے کیونکہ شارع نے اس دوسرے حصے کی صورت پر ویسا اصرار نہیں کیا جیسا کہ پہلے پر)۔ چنانچہ اسلامی ریاست کا جزو لاینفک یہ ہے کہ وہاں احکامات کے صدور (یعنی پالیسی سازی) پر کلام و فقہ کا غلبہ ہو۔ اور محض احکامات کا صدور ہی کافی نہیں (کہ جیسے یہ بتا دیا کہ نماز جمعہ کے وقت کاروبار بند کردو) بلکہ ان کا نفاذ بھی ضروری ہے۔ موخر الذکر میں سستی لازما کفر کو موجب نہیں (جیسے ایک فرد کے لئے نہیں) جبکہ اول الذکر کو اگنور کرنا خلافت کی بنیاد کو ختم کردینا ہے۔ اسی معنی میں ہم کہتے ہیں کہ خلافت (کسی نہ کسی درجے میں) حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے دور سے لے کر سلطنت عثمانیہ کے دور تک بلا تعطل جاری رہی کیونکہ اس دور میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ احکامات کے صدور کو کلام و فقہ سے کاٹ دیا گیا ہو۔
جدید سیکولر ریاست میں احکامات کے صدور کے لئے کلام و فقہ کی جگہ جس علمیت کو جگہ دی جاتی ہے اسے “سوشل سائنسز” کہتے ہیں۔
احکامات کے صدور و پالیسی سازی کے مابین خلیج کی یہ صورت حال مسلمانوں کو اسلامی تاریخ میں پہلی مرتبہ تب درپیش آئی جب یورپی استعمار نے انہیں تقریبا ہر جگہ ریاستی قوتوں سے محروم کردیا (مولانا مودودی نے اسی صورت حال میں اپنے خیالات پیش کئے)۔ مسلمانوں کے لئے یہ اپنی نوعیت کی پہلی تبدیلی تھی۔ استعمار سے آزادی کے بعد البتہ یہ جوھری تبدیلی آگئی کہ اب “ریاست”، “آئین” و “جمہوریت” وغیرہ جیسے کچھ نئے سیاسی سٹرکچرز بھی ان پر مسلط کئے جاچکے تھے جن سے انہیں نبزد آزما ہونا پڑا (چنانچہ ایسا نہیں ہوسکا کہ مسلمانوں نے مثلا مغل سلطنت یا سلطنت عثمانیہ کے سٹرکچرز کی طرف پلٹنے کی کوشش کی ہو)۔ اس نئی صورت حال کے ساتھ مختلف تجربات کئے گئے جن میں سے ایک پاکستان میں ہوا کہ آئین کو اسلامی شقوں کا پابند بنا لیا گیا۔ مگر ان شقوں کے بعد اس سوال کا جواب دینا اب بھی باقی ہے کہ کیا یہ شقیں کلام و فقہ کے غلبے کو ممکن بناتی ہیں؟ یعنی کیا “کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا” کا قضیہ اس بات کی گارنٹی دیتا ہے کہ “ہر قانون قرآن و سنت کی روشنی اور روح کے مطابق بنایا جائے گا”؟ اس سوال کی نوعیت کو سمجھنے کے لئے سوشل سائنسز کی نوعیت کو سمجھنے کی ضررت ہے کہ وہ کس طرح کلام و فقہ کو replace کرتی ہیں۔
سوشل سائنسز کی نوعیت نیز وہ کس طرح کلام و فقہ کو replace کرتی ہیں، ہمارے یہاں اس پر زیادہ غور نہیں کیا گیا۔ اسی طرح “اسلامی ریاست” پر بحث کرنے والے مفکرین کے یہاں بھی اس امر پر بحث نہیں ملتی کہ سوشل سائنسز کا جدید ریاستی سٹرکچرز کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ سوشل سائنسز کی تعمیر ہی اس سوال کے جواب میں ہوئی تھی کہ “ریاست کیسی ہونی چاہئے”۔ مگر اس سوال کا جواب دینے کے لئے پہلے یہ طے کرنا ضروری تھا کہ “معاشرے (افراد کے ایک دوسرے کے ساتھ رضا کارانہ تعلقات) کو مثالی طور پر کیسا ہونا چاہئے” کیونکہ تبھی اس سوال کا جواب دیا جاسکتا ہے کہ “ریاست معاشرے کو مثالی بنانے میں کیا کردار ادا کرے”۔
اس سوال کا ایک جواب تاریخی طور پر انسان مذھب سے اخذ کرتا آیا ہے کہ معاشرے میں بسنے والے افراد کے ایک دوسرے پر کیا حقوق و فرائض ہیں۔ اسلامی علوم میں اس چیز کا تعین کرنے والے علم کو کلام و فقہ کہا جاتا ہےجو یہ بتاتے ہیں کہ مثلا ریاست شہریوں کے عقائد واعمال کو کس بنیاد پر ریگولیٹ کرنے کا جواز رکھتی ہے۔ سوشل سائنٹسٹ چونکہ وحی کو علم ہی نہیں مانتے لہذا انہوں نے اس سوال کا جواب دینے کے لئے یہ کہا کہ جس طرح طبعی دنیا کو سمجھنے اور اس کے قوانین دریافت کرنے کا ایک سائنٹفک طریقہ کار ہے اسی طرح انسان کے فطری میلانات کے تعین اور ایک فطری معاشرت کی دریافت کا بھی وہی سائنٹفک طریقہ کار ہے جس کے ذریعے ہمیں طبعی قوانین دریافت کرنے میں کامیابیاں ملی ہیں۔ اس تمام مفروضے پر سوشل سائنسز کی تعمیر کی گئی جو اس سوال کا جواب دیتی ہیں کہ “ایک آزادی پسند انسان کیسی معاشرت و ریاست کی تعمیر چاھتا ہے”۔
یہ علوم ایک خاص طرز کے انسان (جسے “ھیومن” کہتے ہیں) کے رویے سے بحث کرتے اور اسکی بازیافت کو ممکن بناتے ہیں، نہ کہ ہر طرح کے انسان کے۔ چنانچہ جدید سیکولر معاشروں میں یہی علمیت احکامات کے صدور (اجتماعی پالیسی سازی) کا ماخذ ہے اور اس کے ماہرین بڑی مہارت سے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں گویا سوشل سائنسز کوئی “غیر اقداری و ٹینکنیکل” قسم کی لازمی علمیت ہے۔ اسلامی ریاست میں جو مقام کلام و فقہ کو حاصل ہوتا ہے سیکولر ریاست میں وہی مقام سوشل سائنسز کو حاصل ہوتا ہے۔ جوں جوں پالیسی سازی پر سوشل سائنسز کا غلبہ بڑھتا چلا جاتا ہے کلام و فقہ اسی قدر لغو ہوجاتے ہیں۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ سوشل سائنٹسٹس نے جس مثالی معاشرت کی بات کی وہ اٹھاریوں اور انیسویں صدی میں دنیا کے کسی بھی خطے میں موجود نہ تھا، لہذا ان کے افکار کا حاصل یہی تھا کہ ریاست معاشرے کو ان کی بیان کردہ مثالی آدرشوں کے مطابق کیسے تعمیر کرسکتی ہے۔ جس ریاست کی علمیت (احکامات اخذ کرنے کی بنیاد) سوشل سائنسز ہو وہ اسلامی نہیں بن ہوسکتی کیونکہ سوشل سائنسز مقاصد شرع کے حصول کو ممکن بنانے والی علمیت نہیں۔ بدقسمتی سے ہم اپنے بچوں کی ذھن سازی اسی علم کے مطابق کررہے ہیں جو شرع کو رپلیس کرنے کے لئے کھڑا کیا گیا تھا اور ہمیں اس کا شعور بھی نہیں۔ یہ دوسری بات زیادہ افسوس ناک ہے۔
ڈاکٹر زاہد مغل