مستشرقین اور منکرین حدیث کہتے ہیں کہ حدیث قابل اعتبار نہیں ہیں کیونکہ بہت سے لوگوں نے حدیثیں گھڑ بھی لی تھیں، حالانکہ حدیثوں کا گھڑا جانا خود اِس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ آغازِ اسلام میں بھی پُوری امّت رسول اللہ ﷺ کے اقوال و اعمال کو قانون کا درجہ دیتی تھی، ورنہ آخر گمراہی پھیلانے والوں کو جھوٹی حدیثیں گھڑنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟ جعل ساز لوگ وہی سکّے تو جعلی بناتے ہیں جن کا بازار میں چلن ہو۔ جن نوٹوں کی بازار میں کوئی قیمت نہ ہو ،انہیں کون بیوقوف جعلی طور پر چھاپے گا؟ مزید یہ بات کہ کچھ احادیث گھڑی گئی سب سے پہلے علمائے اسلام نے ہی بتائی ہے۔حضرت عثمان کی شہادت کے ساتھ ہی دور ِ فتنہ شروع ہوگیا جس کی طرف احادیث میں اشارات پائے جاتے ہیں۔ پھر یہ فتنے کسی ایک جہت سے رونما نہیں ہوئے بلکہ سیاسی اور مذہبی فتنے اس کثرت سے ابھرے کہ ان پر کنٹرول ناممکن ہوگیا۔ان فتنوں میں ایک فتنہ وضع حدیث کا تھا۔اس فتنہ کے سد باب کے لیے گو پہلی صدی ہجری کے خاتمہ پر ہی بعض علمائے تابعین نے کوششیں شروع کردی تھی۔اور پھر اس کے بعد وضع حدیث کے اس فتہ کوروکنے کےلیے ائمہ محدثین نے صرف احادیث کوجمع کردینے کو ہی کافی نہیں سمجھا بلکہ سنت کی حفاظت کے لیے علل حدیث، جرح وتعدیل، اور نقد رجال کے قواعد اور معاییر قائم کئے ،اسانید کے درجات مقرر کئے ۔ ثقات اور ضعفاء رواۃ پر مستقل تالیفات مرتب کیں¬۔ اور مجروح رواۃ کے عیوب بیان کئے ۔موضوع احادیث کو الگ جمع کیا او ررواۃ حدیث کےلیے معاجم ترتیب دیں۔جس سے ہر جہت سے صحیح ، ضعیف ،موضوع احادیث کی تمیز امت کے سامنے آگئی۔تمام بڑے بڑے محدثین نے علم پیغمبر کے گرد حفاظت کے پہرے دیئے اور ایسے حضرات بھی سامنے آئے ؛ جنہوں نے موضوع روایات کی نشاندہی میں مستقل کتب تصنیف فرمائی ہیں۔
یاد رہے کہ احادیثِ موضوعہ کا بیان کرنا بھی پہلے دن سے حرام ہے کیونکہ یہ حضورﷺ پر افتراء اور بہتان ہے۔حضورﷺ نے فرمایا: جس نے جان بوجھ کرمجھ پر بہتان باندھا اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانا جہنم بنالے۔ (مشکوٰۃ، كتاب العلم،الفصل الأول،حدیث نمبر:۱۹۸، شاملہ، الناشر:المكتب الإسلامي،بيروت۔ بخاری، حدیث نمبر:۱۲۰۹، شاملہ، موقع الإسلام)
موضوع احادیث کے بارے میں اہم کتابیں:
(۱)موضوعات ابن جوزیؒ (۵۹۷ھ)
بے شک اس کتاب کواولیت کا شرف حاصل ہے؛ مگرچونکہ یہ اس فن کی پہلی محنت ہے؛ اس لیئے آپ سے اس میں کئی فروگذاشتیں ہوئی ہیں؛ لیکن اس میں شبہ نہیں کہ آپ نے اس باب میں ایک بڑا علمی مواد فراہم کیاہے۔آپ نے بعض حدیثوں کوبھی موضوعات میں رکھ دیا تواس کی اصلاح کے لیئے امام سیوطیؒ (۹۱۱ھ) نے تعقبات علی الموضوعات تحریر فرمائی ہے، جولائقِ مطالعہ ہے۔
۲)موضوعات حضرت شیخ حسن الصنعانی (۶۵۰ھ)
حضرت علامہ حسن صنعانی (لاہوریؒ) صاحب مشارق الانوار نقد حدیث میں بہت سخت تھے، ان کے سامنے ابنِ جوزیؒ کی موضوعات نشان راہ تھی، آپ نے اپنی طرف سے بھی اس باب میں گرانقدر معلومات مہیا کیئے ہیں، بعد کے آنے والے مؤلفین نے اس باب میں آپ کی کتاب سے بہت استفادہ کیا ہے۔
(۳)موضوعات المصابیح
حضرت شیخ سراج الدین عمر بن علی القروینی (۸۰۴ھ) کی تصنیف ہے اور بہت نایاب ہے۔
(۴)اللالی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ
یہ حضرت علامہ جلال الدین سیوطیؒ (۹۱۱ھ) کی تصنیف ہے، آپ نے اس کے علاوہ کتاب الذیل اور کتاب الوجیز بھی اس باب میں تحریر فرمائی ہیں، جوقابل مطالعہ ہیں۔
(۵)تذکرۃ الموضوعات اور قانون الموضوعات
تذکرۃ الموضوعات اور قانون الموضوعات کے مصنف حضرت علامہ محمدطاہر پٹنی صاحب مجمع البحار (۹۸۶ھ) لغت حدیث کے جلیل القدر امام تھے، آپ کی کتابیں تذکرۃ الموضوعات اور قانون الموضوعات جو ۲۲۹/صفحات اور ۸۰/صفحات پر مشتمل ہیں، اس باب کی بہت مفید کتابیں ہیں۔
(۶)موضوعات کبیر اور اللالی المصنوع فی الحدیث الموضوع
موضوعات کبیر محدث ِجلیل حضرت ملا علی قاریؒ (۱۰۱۴ھ) کی تالیف ہے، یہ اس باب میں بہت جامع اور مرکزی کتاب ہے، اللالی المصنوع اس کے بعد کے درجے میں ہے۔
(۷)الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ
یہ علامہ شوکانیؒ (۱۲۵۰ھ) کی تالیف ہے، اس میں آپ ابنِ جوزیؒ کی راہ پر چلے ہیں اور بہت سختی کی ہے، کئی ضعیف اور حسن حدیثیں بھی موضوع ٹھہرادی ہیں۔
(۸)الآثارالمرفوعہ فی الاحادیث الموضوعہ
یہ حضرت مولانا عبدالحیی لکھنویؒ (۱۴۰۷ھ) کی تالیف ہے۔
ان تمام کوششوں کے باوجود اہلِ باطل موضوع حدیثوں کی روایت سے رُکے نہیں وہ اس کی برابر اشاعت کرتے رہتے ہیں
چند موضوع روایات:
ہم یہاں فائدہ عام کے لیئے چند روایات بھی ذکر کرتے ہیں، جن کی کوئی سند نہیں، نہ صحیح، نہ حسن، نہ ضعیف، ان سے آپ اندازہ کرسکیں گے کہ حدیث کے باب میں کس قدر بے احتیاطی ہماری صفوں میں گھس آئی ہے۔
(۱)”علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل”
ترجمہ:میری امت کے علماء ایسے ہیں جیسے بنی اسرائیل کے ابنیاء
ملا علی قاریؒ لکھتے ہیں:” بہر حال حدیث:علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل،جس کے متعلق حفاظ نے صراحت کی ہے جیسے زرکشی ، عسقلانی ،دمیری اور سیوطی نے کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ (مرقات شرح مشکوٰۃ طبع قدیم:۵/۵۶۴،مصر)
(2)”من تکلم بکلام الدنیا فی المسجد احبط اللہ اعمالہ اربعین سنۃ” جس نے مسجد میں دنیا کی کوئی بات کی اللہ اس کے چالیس سال کے اعمال ضائع کردیتا ہے، علامہ صنعانی (۶۵۰ھ) فرماتے ہیں کہ یہ موضوع ہے ملاعلی قاریؒ فرماتے ہیں “وھو کذالک لانہ باطل منبی ومعنی”۔
(موضوعاتِ کبیر:۴۸، مطبوع:دہلی)
(3)”حدیث لانبی بعدی” کتنی مشہور متواتر اور واضح المعنی ہے مگر محمد بن سعید شامی نے اسے حضرت انس بن مالک کی روایت بناکر حضورﷺ کے نام پر یہ حدیث وضع کردی “اناخاتم النبین لانبی بعدی الا ان یشاء اللہ” میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں؛ مگریہ کہ جواللہ چاہے، علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:”فوضع ہذا الاستثناء لماکان یدعوالیہ من الالحاد والزندقۃ ویدعی النبوۃ”۔(فتح الملہم:۱/۶۵)
(4)”لوکان موسیٰ وعیسیٰ حیّین ماوسعھما الااتباعی” حدیث میں صرف موسیٰ کا نام تھا (اگرموسیٰ زندہ ہوتے توانہیں بھی میری پیروی سے چارہ نہ ہوتا) حضرت عیسیٰ کوفوت شدہ ثابت کرنے کے لیے یہ نام بھی ساتھ بڑھادیا گیا، علامہ شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں اس کی سند کا کتبِ حدیث میں کہیں پتہ نہیں۔ (فوائد القرآن:۳۹۸، سورۂ مریم، پارہ:۱۶)
(5)”موتوا قبل ان تموتوا” کتنی مشہور روایت ہے ملاعلی قاری حافظ ابن حجر عسقلانی سے نقل کرتے ہیں کہ یہ حدیث کہیں ثابت نہیں۔
(موضوعات:۷۵)
(6)حسن پرستوں نے اپنے ذوق کوتسکین دینے کے لیے یہ حدیث گھڑلی ہے “النظر الی الوجہ الجمیل عبادۃ” خوبصورت چہروں کو دیکھنا عبادت ہے۔حافظ ابنِ تیمیہؒ فرماتے ہیں: “ھٰذا کذب باطل علی رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام لویروہ احد باسناد صحیح بل ھو من الموضوعات”۔ (موضوعات:۷۷)
اس طرح علماء نے بہت سی احادیث میں ایسے فقروں کی نشاندہی بھی کی ہے جو گھڑے ہوئے ہیں مثلا فرض نمازوں کے بعد جودعا مانگتے ہیں اس میں یہ الفاظ “والیک یرجع السلام حینا ربنا بالسلام” حدیث میں اضافہ کئے گئے ہیں معلوم نہیں کس نے یہ جملے حدیث میں ڈال دیئے ہیں، ملا علی قاری لکھتے ہیں “فلااصل لہ” (موضوعات:۸۹) اس حدیث کی کوئی اصل نہیں۔
حدیث اپنی جگہ موجود ہو اور کچھ الفاظ زیادہ کردیئے جائیں یہ روایت ان کی مثال ہے۔ بعض لوگوں نے الفاظ تبدیل کررکھے ہیں مثلا حدیث میں تھا”اتقوا فراسۃ المؤمن فانہ ینظر بنوراللہ” (جامع صغیر:۱/۹) انہوں نے بدل کر “من نوراللہ” بنادیا(ملفوظات:۱/۱۰۸)
حضورﷺ کی خدمت میں ایک شخص پیتل کی انگوٹھی پہنے حاضرہوا آپ نے اسے کہا:”مَالِي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ الْأَصْنَامِ”۔ ترجمہ:میں تجھ میں بتوں کی ہوا کیا محسوس کررہا ہوں۔(ابوداؤد، كِتَاب الْخَاتَمِ،بَاب مَاجَاءَ فِي خَاتَمِ الْحَدِيدِ،حدیث نمبر:۳۶۸۷، شاملہ، موقع الإاسلام)اسے یوں بدلا “مَالِیْ اَرَفِیْ یَدک حلیۃ الاصنام” (ملفوظات:۳/۲) تیرے ہاتھ میں بتوں کا زیور کیوں دیکھ رہا ہوں۔
وضع حدیث کا کام صدیوں سے رکا ہوا تھا مرزا غلام احمد نے پھر سے اسے زندہ کیا اور لکھا احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ مسیح موعود صدی کے سرپر آئے گا اور وہ چودھویں صدی کا مجدد ہوگا (ضمیمہ براہین احمد:۵/۱۸۸) آنحضرتؐ زندگی بھرچودھویں صدی کا لفظ اپنی زبان پر نہیں لائے نہ کبھی کہا کہ قیامت چودھویں صدی کے ختم پر آئے گی، مرزا غلام احمد نے خود ہی یہ بات تجویز کی اور خود ہی اس کی علامات پورا کرنے کے لیے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کردیا اور چودھویں صدی کی روایات گھڑی اور اسے حضور اکرمﷺ کے ذمہ لگادیا اور پھریہ روایات بھی گھڑی کہ مسیح موعود تمہارا امام تم ہی میں سے ہوگا:”بل ھو امامکم منکم”۔ (ازالہ اوہام:۱/۲۳)
“بَلْ ھُوَ” کے الفاظ کتبِ احادیث میں کہیں نہیں ہیں، مرزا غلام احمد قادیانی نے یہ خود گھڑے ہیں، معلوم ہوا اہلِ باطل وضع احادیث کا سلسلہ اب تک جاری رکھے ہوئے ہیں، حدیث کے اصل الفاظ یہ تھے:”كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَانَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ”۔ ترجمہ: تمہارا کیا حال ہوگا جب ابنِ مریم تم میں اتریں گے اور اس وقت تمہارا امام تم میں سے ہوگا۔(مسلم،كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب نُزُولِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ حَاكِمًا بِشَرِيعَةِ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر:۲۲۲، شاملہ، موقع الإاسلام)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ حدیثیں وضع کرنے والے اعتراض کے تحت حدیثیں گھڑتے تھے اور باطل فرقوں کا یہ عام طریقہ رہا ہے۔