خلفائےراشدین  ؓ اور کتابت حدیث

حضرت ابوبکر الصدیق ؓ :

حضرت ابوبکر الصدیق رض نے احادیث کا ایک مجموعہ یعنی صحیفہ مرتب کیا تھا، جس میں پانچ سو احادیث تھیں..اگرچہ یہ مجموعہ آپ نے ایک روایت کے مطابق جلا دیا تھا، غایت احتیاط کی وجہ سے.اور اس کی وجہ بھی خود بیان کی تھی فرمایا، مجھے یہ ڈر ہوا کہ کہیں میری موت آجائے اور اس مجموعہ میں بعض ایسی احادیث بھی ہو ، جو میں نے ایسے شخص سے سنی ہو، جس پر میں نے اعتماد کرلیا ہو، مگر فی الحقیقت ایسا نہ ہواور میں اللہ ہاں اس کی روایت کا ذمہ دار ہوجاؤں…

بہرحال اس سے اتنا معلوم ہوگیا کہ آپ نے بھی پانچ سو احادیث کی تدوین کی تھی ۔ جن میں سے کچھ آپ نے حضورﷺ سے خود سنی تھیں اور کچھ دوسرے صحابہ سے لی تھیں.موجودہ احادیث کے مجموعے میں آپ کی کل مرویات ایک سو بیالس ہے، جن کے بارے میں علی وجہ البصیرت کہا جا سکتا ہے کہ یہ صحیفے کا وہ حصہ ہوگا، جسے آپ نے خود حضورﷺ سے سنا تھا…کیونکہ مختلاطات کی وجہ سے تو صحیفہ کے جلانے کی روایت موجود ہے.

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب ان کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا تو ایک نوشت لکھ کر دی جس کا مضمون یہ تھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم: یہ زکوۃ کے فرائض ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں پر فرض کیا ہے اور ان ہی کا اللہ تعالی نے اپنے رسول کو حکم دیا ہے۔(صحیح بخاری کتاب الزکوۃ)

اس کے علاوہ کئی مکتوبات ہیں، جن میں آپ نے بالتصریح کئ احادیث بیان فرمائ ہیں تفصیل کے لیے دیکھئے المعجم الکبیر ج اص ۶۳

حضرت عمرؓ :

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بھی ایک صحیفہ تھا، جو آپ کی تلوار کے پرتلے میں محفوظ کیا ہوا تھا .. جب حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے احادیث کی جمع و تدوین کا حکم دیا تو حضرت عمرؓ کا یہ صحیفہ ان کے خاندان سے ملا۔ اس میں صدقات و زکوٰۃ کے احکامات درج تھے۔ امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرؓ کا یہ صحیفہ پڑھا تھا۔ <موطا امام مالک، ص۱۰۹>undefined

ورثہ کے متعلق ایک مقدمہ پیش ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:جو مال بیٹا یا باپ جمع کرے وہ اس کے عصبہ کے لئے ہے خواہ وہ کوئی ہو پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس فیصلہ کو لکھ کر دے دیا اور اس پر بطورِ شہادت عبدالرحمن بن عوف، زید بن ثابت رضی اللہ عنہما اور ایک اور آدمی کے دستخط کرائے۔ (ابوداوٗد)خلیفہ عبدالملک کے زمانہ میں مقدمہ پیش ہوا:تو عبدالملک نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس کتاب کے مطابق فیصلہ فرمایا۔ (ابوداوٗد۔ کتاب الفرائض)

حضرت عمر کے حوالے سے منکرین حدیث نے احادیث پر بہت سے اعتراضات اٹھائے ہیں ہم انکا الگ تحریر میں جائزہ لے چکے ہیں یہاں (

1، 2، 3) دیکھیے ۔  )

حضرت عثمانؓ :

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مکتوبات میں کئ ایک احادیث کا تذکرہ موجود ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے لڑکے محمد بن حنفیہ سے فرمایا: اس کتاب کو حضرت عثمان کے پاس لے جاؤ اور ان سے اس پر عمل کے لئے کہو۔ کیونکہ اس میں آپ ﷺ کے احکام مندرج ہیں۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں اس سے مستغنی ہوں یعنی میرے پاس یہ احکام موجود ہیں۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد)۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مقاعد میں لوگوں سے کہا: کیا میں تم کو رسول اللہ ﷺ کا وضو نہ بتاؤں؟ پس انہوں نے وضو کیا اور ہر عضو کو تین تین مرتبہ دھویا۔ (صحیح مسلم)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو تبلیغ سنت کا کتنا جوش تھا کہ باوجود خلافت کا بوجھ سنبھالنے کے وضو تک کی سنتوں کی تعلیم دیتے تھے۔


حضرت علی ؓ:


حضرت علی رضی اللہ عنہ کا صحیفہ مشہور ہے و معروف ہے۔ آپ کا ارشاد ہے : میں نے قرآن کریم اور اس مسودے میں جو کچھ ہے ان کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اور کچھ نہیں لکھا۔” (صحیح بخاری، کتاب الجہاد اثم من عاھد ثم غدر، ص ۴۵۱، ج ۱)

اس میں قصاص، دیت، فدیہ، اسلامی مملکت، غیر مسلموں کے حقوق، وراثت کے خصوصی نوعیت کے کچھ مسائل، متفرق عمروں کے اونٹوں پر زکوٰۃ کے اصول اور شہر مدینہ کی تقدیس و حرمت کے کچھ احکامات درج تھے۔یہ مسودہ رسالت ماب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہی میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے تحریر فرمایا تھا۔ مؤرخ ابن سعد کا بیان ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ مسجد میں کھڑے ہوئے اور ایک خطبہ ارشاد فرمایا پھر لوگوں سے پوچھا”کون ہے جو ہم سے ایک درہم کے بدلے علم حدیث خرید لے؟ “ابوخیثمہ کہتے ہیں کہ اس جملے سے مراد یہ تھی کہ ایک درہم کا کاغذ خرید کر ہماری بیان کردہ حدیثیں لکھ لے..چنانچہ حارث اعور کئ درہم کےکاغذ خرید لائے اور آپ کی روایت کردہ بہت سی احادیث تحریر کیں ۔(طبقات ابن سعد ص ۴۶۹، ج ۵) (تقیید العلم ص ۹۰)

اس کتاب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے صدقات کے احکام بھی تحریر کئے تھے اور یہی وہ کتاب تھی جس کو انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا تھا۔ اور یہ کہا تھا کہ اس میں آنحضرت ﷺ کے احکام ہیں۔ یہ آپ کے بیٹے محمدؒ بن حنیفہ کے پاس تھا۔ پھر امام جعفرؒ کے پاس آیا۔ اسی کی نقل آپ نے حارث کو لکھ کر دی تھی۔ <تدوین حدیث برہان دہلی جون سن ۵۱، ص ۳۱۷>undefined

خلفائے راشدین ؓ سے حدیث کی روایت باقی صحابہ کی نسبت کم ہے ۔ اس کمی کی بہت سی وجوہات ہیں ایک یہ ہے کہ درس و تدریس انکا مخصوص شعبہ نہیں تھا بلکہ یہ کاروبار سیاست سے منسلک تھے۔ حضرت ابوبکر و عمر ؓ الفاظ حدیث کی روایت کے معاملے میں بہت حساس تھے لیکن پھر بھی انہوں نے حدیث کو ترک نہیں کیا بلکہ ان کومعاشرتی، سیاسی، ملکی مسائل کی تحقیق واستنباط میں لگایا۔ ایک حاکم کی حیثیت سے انکے کرنے کا کام یہی تھا۔ ان بزرگ صحابہء کرام سے آگے صحابہء کرام کی ایک لمبی فہرست ہے، جسکی تفصیل اس 

تحریر 

میں پیش کی گئی ہے ۔