حجیت حدیث کے ناقابل تردید دلائل سے لاجواب ہو کر اس کے مخالفین عموماً شک و شبہے کی ایک اور دلیل میں پناہ ڈھونڈنے لگتے ہیں اور سنت کو تاریخی اعتبار سے مشکوک اور غیر مستند ٹھہرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت ماضی و مستقبل کے ہر زمانے میں واجب العمل ضرور ہے لیکن وہ قابل اعتماد طریقے سے محفوظ نہیں رہ سکی، آج قرآن کریم کے برعکس کوئی ایک کتاب بھی محفوظ نہیں ہے جس میں سنت کے بارے میں قابل اعتماد بیانات محفوظ ہوں۔ سنت کی بہت سی تصنیفات موجود ہیں جن میں احادیث کی بہت بڑی تعداد جمع کی گئی ہے اور بسا اوقات ان احادیث میں باہمی تضاد پایا جاتا ہے۔ نیز یہ تصنیفی کام بھی تیسری صدی ہجری میں کئے گئے۔ لہذا ہم ان بیانات پر اعتماد نہیں کر سکتے جو تیسری صدی ہجری سے قبل احاطہ تحریر میں نہیں آئے تھے۔
واقعہ یہ ہے کہ یہ دلیل بے شمار غلط بیانیوں اور غلط فہمیوں کی بنیاد پر قائم ہے۔ جیسا کہ ہم اسی باب میں آگے چل کر دیکھیں گے یہ دعویٰ قطعاً غلط ہے کہ احادیث نبویؐ تیسری ہجری سے قبل مدون نہیں ہوئی تھیں۔ سنت کے تاریخی پہلو کو پرکھنے سے پیشتر بہتر ہوگا کہ اس دلیل کا منطقی تجزیہ کیا جائے۔
یہ نظریہ تسلیم کرتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبرانہ حاکمیت آنے والے ہر زمانے میں واجب التعمیل ہے اور ہر عہد کے مسلمانوں پر اس کی پیروی لازمی ہے لیکن اسی سانس میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سنت کے بیانات ناقابل اعتماد ہونے کی بنا پر ہم آپؐ کی اطاعت نہیں کر سکتے۔ کیا اس سے یہ منطقی نتیجہ بر آمد نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر پیغمبرؐ کی اطاعت تو واجب کر دی لیکن عملی طور پر اس اطاعت کو قابل عمل نہیں بنایا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ ہمیں کسی کام کے بارے میں ایسا حکم دے سکتا ہے جس پر عمل در آمد ہمارے وسائل اور طاقت سے باہر ہو۔ یقیناً اس کا جواب نفی میں ہے۔ خود قرآن کریم میں ارشاد ہے! لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا۔’’ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اسی کا جو اس کی طاقت اور اختیار میں ہو‘‘ (۲۸۶ـ۲)
ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک ایسے کام کا حکم دیا ہو جس کا وجود ہی نہ ہو یا جس کا ہونا قطعاً ممکن نہ ہو۔ اگر یہ بات درست ہے اور اس کے درست ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہمیں سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا اتباع کرنے کی ہدایت کا واضح مطلب یہ ہے کہ سنت ناقابل رسائی نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہم پر سنت کی پیروی لازم کی ہے تو لازماً اس نے ہمارے لئے اسے محفوظ شکل میں باقی رکھا ہو گا۔
یہ استخراجی (Deductive) دلیل اس بات کے ثبوت کے لئے کافی ہے کہ سنت رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ و الہ و سلم جو کہ آسمانی ہدایت کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے لازمی ہے بحیثیت عمومی ایک قابل اعتماد ذخیرے کے طور پر ہمیشہ کے لئے موجود ہے۔ ہمارے رائے میں سنت کے مستند ہونے پر اٹھائے تمام اعتراضات تنہا اسی دلیل کی بنا پر رد کر دیئے جانے کے مستحق ہیں۔ لیکن اصل حقائق کے مطالعے کی غرض سے ان محنتوں کا ایک مختصر تعارف پیش کیا جا رہا ہے جو امت نے سنت رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ و سلم کو محفوظ رکھنے کے لئے کی ہیں۔ یہ اس موضوع کا ایک مختصر اور استقرائی (Inductive) جائزہ ہے جس کی تفصیل کے لئے عربی اور دیگر زبانوں میں بے شمار کتب دستیاب ہیں یہ تعارف اپنے اختصار کے باعث جامع ہونے کا متحمل نہیں تھا اور اس کے یہاں پیش کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ چند ایسے بنیادی حقائق کو اجاگر کر دیا جائے جو معروضی اور حقیقت پسندانہ فکر رکھنے والے کسی بھی شخص کے لئے سنت کا اعلیٰ استنادی مقام متعین کرنے کے لئے کافی ہوں۔
دورنبوی میں کتابت حدیث:
سب سے پہلے اس جانب توجہ سود مند ہو گی کہ احادیث کی ایک معتدبہ تعداد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی املا کروائی ہوئی اور یا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہدایت پر تحریری شکل میں محفوظ کی گئی تھی۔ اس کی چند مثالیں یہاں پیش خدمت ہیں۔
کتاب الصدقہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فریضہ زکوٰۃ سے متعلق شریعت کے احکام ایک دستاویز میں تفصیلی طور پر املاء کروائے تھے جس میں مختلف قسم کے قابل زکوٰۃ اموال پر زکوٰۃ کی شرح اور مقدار تفصیل سے ذکر کی گئی تھی۔اس دستاویز کو “کتاب الصدقہ” کہتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ “رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے “کتاب الصدقہ” لکھوائی اور ابھی اپنے گورنروں کو بھیجنے نہ پائے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وصال ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے اپنی تلوار کے ساتھ منسلک کر لیا تھا پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وصال ہو گیا تو حضرت ابوبکر نے اس پر عمل کیا حتٰی کہ ان کا بھی انتقال ہو گیا، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ ان کا بھی انتقال ہو گیا، کتاب میں یہ ذکر کیا گیا تھا کہ پانچ اونٹوں پر ایک بکری قابل زکوٰۃ ہے۔” (جامع الترمذی ابواب الزکوٰۃ، باب ماجاء فی زکوٰۃ الابل ص ۱۳۵)۔
یہ دستاویز احادیث کی متفرق کتب مثلاً سنن ابو داؤد میں موجود ہے۔ مشہور محدث امام زھری رحمہ اللہ اپنے شاگردوں کو یہ کتاب سبقا پڑھایا کرتے تھے۔ آپ کہا کرتے تھے۔”یہ دستاویز کا متن ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقات ( زکوٰۃ) کے متعلق املا کرائی تھی۔ اس کا اصل مخطوطہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادوں کے پاس ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پوتے سالم رحمہ اللہ نے مجھے اس کی تعلیم دی تھی۔ میں نے اسے زبانی یاد کر لیا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے حضرت عمر کے پوتوں سالم رحمہ اور عبد اللہ رحمہ اللہ سے اس کی ایک نقل حاصل کی تھی اور میرے پاس وہی نقل ہے۔
صحیفہ حضرت عمرو بن حزام رحمہ اللہ:
۱۰ھ میں جب مسلمانوں نے نجران فتح کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابی حضرت عمرو بن حزام رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر مقرر فرمایا۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ایک تفصیلی کتاب لکھوائی اور اسے حضرت عمرو بن حزام کے سپرد کیا۔ چند عمومی نصائح کے علاوہ اس کتاب میں طہارت، نماز، زکوٰۃ، عشر، حج، عمرہ، جہاد، مال غنیمت، ٹیکس، دیت، انتظامی اور تعلیمی امور وغیرہ جیسے موضوعات سے متعلق احکام شریعت مذکور تھے۔ سیدنا عمرو بن حزام رضی اللہ عنہ نے یمن کے گورنر کے طور پر اپنے فرائض اس کتاب کی روشنی میں بحسن خوبی انجام دیئے۔ ان کے انتقال کے بعد یہ دستاویز ان کے پوتے ابوبکر کے پاس رہی۔ امام زھری رحمہ اللہ نے یہ مسودہ انہی سے پڑھا اور نقل کیا۔ امام زھری رحمہ اللہ اپنے شاگردوں کو بھی اس کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ اس کتاب کے متفرق حصے احادیث کے مجموعوں میں دستیاب ہیں۔ مکمل متن کے لئے ملاحظہ فرمائیں۔ الوثائق السیاسیتہ فی الاسلام ڈاکٹر حمید اللہ ص ۱۰۴ – ۱۰۹۔
دیگر گورنروں کو تحریری ھدایات:
اسی طرح جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے اصحاب میں سے مختلف حضرات کو صوبوں کے گورنر نامزد فرماتے تو اسی قسم کی دستاویزات لکھوایا کرتے تاکہ اس کی ہدایات کے مطابق وہ بطور حاکم یا قاضی اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے عہدہ برآہ ہو سکیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو اپنا سفیر مقرر فرما کر حجر کے زرتشتی مذہب کے لوگوں کی جانب بھیجا تو انہیں ہدایات لکھوائیں جن میں زکوٰۃ اور عشر کے بارے میں مختلف احکام شریعت بتلائے گئے تھے۔
اسی طرح حضرت معاذ بن جبل اور مالک بن مرارہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یمن بھیجا تو انہیں ایک دستاویز بھی عنایت فرمائی جس میں آپ نے احکام شریعت لکھوائے تھے۔
مختلف وفود کو تحریری ہدایات:
مدینہ سے دور دراز علاقوں میں بسنے والے مختلف عرب قبائل اسلام قبول کر لینے کے بعد اپنے وفود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں بھیجا کرتے تھے۔ یہ وفود مدینہ منورہ میں ایک معتدبہ مدت کے لیے قیام پذیر رہتے اور اس دوران تعلیمات اسلام سیکھتے، قرآن پاک پڑھتے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشادات سنا کرتے۔ اپنے وطن واپسی پر ان میں سے کئی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے درخواست کی کہ ان کے لیے اور ان کے قبیلوں کے لیے کچھ ہدایات لکھوا دیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کی یہ درخواست قبول فرما لیا کرتے اور ایسے معاملات کے بارے میں احکام شریعت پر مشتمل ہدایات لکھوا دیتے جو ان کے لیے زیادہ ضروری ہوتے۔
۱ ۔ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ یمن سے خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور وطن واپس سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے درخواست کی
اکتب لی الی قومی کتابا۔ “میرے لیے ایک کتاب لکھوا دیجیے جس میں میرے قبیلے سے خطاب ہو۔آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو تین دستاویزات لکھوائیں۔ ان میں سے ایک سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کے ذاتی مسائل کے بارے میں تھی جب کہ دوسری دو دستاویزات نماز، زکوٰۃ، ممانعت شراب، عشر اور دیگر امور کے بارے میں احکام شریعت پر مشتمل تھیں۔ (طبقات اب سعد ص ۲۸ ض ۱، و الوثائق السیاسیتہ رقم ۱۳۱، ص ۱۲۶ – ۱۳۰)۔
۲ ۔ منقذ بن حیان جو عبد القیس قبیلے کے ایک فرد تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں آئے اور اسلام قبول کر لیا۔ وطن واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں ایک دستاویز عطا کی جسے وہ اپنے قبیلے میں لے آئے مگر ابتدا میں کسی پر اسے ظاہر نہیں کیا۔ پھر جب ان کی کوششوں سے ان کے سسر نے اسلام قبول کر لیا تو حضرت منقذ بن حیان رضی اللہ عنہ نے یہ کاغذ ان کے حوالے کر دیا جنہوں نے اسے قبیلے کے سامنے پڑھ کر سنایا جس کے نتیجے میں پورا قبیلہ مسلمان ہو گیا۔ عبد القیس کا مشہور وفد اسی واقعے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ تفصیلی روایات بخاری اور مسلم میں موجود ہیں۔ (المرقاۃ شرح مشکوۃ ص ۸۸ ج ۱، و شرح النودی ص ۳۳ ج ۱)۔
۳ ۔ قبیلہ غامد کا وفد خدمت اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہو کر مسلمان ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا جنہوں نے ان لوگوں کو قرآن کریم سکھایا اور “و کتب لھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کتابا فیہ شرائع الاسلام
“نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے لیے ایک کتاب لکھوائی جس میں احکامات شریعت مذکور تھے۔” (طبقات اب سعد ص ۳۴۵ ج ۱)
۴ ۔ قبیلہ خشعم کا وفد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا۔ ابن سعد ان کی آمد کے سلسلے میں قوی راویوں کے ذریعے درج ذیل روایت ذکر کرتے ہیں۔فقالو آمنا باللہ و رسولہ وما جاء من عند اللہ فاکتب لنا کتابا نتبع ما فیہ، فکتب لھم کتابا شھد فیہ جربو بن عبد اللہ و من حضر۔”انہوں نے کہا ہم اللہ تعالٰی پر ایمان لائے اور اس کے نبی پر اور جو کچھ اللہ تعالٰی کی طرف سے آیا ہے لہٰذا ہمارے لیے ایک کتاب لکھوا دیجئے جس کی ہم پیروی کر سکیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے لیے دستاویز لکھ دی۔ جابر بن عبد اللہ اور دیگر حاضرین اس کے گواہ تھے۔” (طبقات اب سعد ۳۴۸ ج ۱)
۵ ۔ “سمالہ” اور “حدان” نامی قبائل کے وفود فتح مکہ کے بعد حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے لیے ایک دستاویز لکھوائی جس میں زکوٰۃ سے متعلق احکام شریعت مندرج تھے۔ سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ اس تحریر کے کاتب اور حضرت سعد بن عبادہ اور حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہم گواہ تھے۔ (طبقات ابن سعد س ۳۵۳ ج ۱)
۶ ۔ انہی سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ سے قبیلہ اسلم کے ایک وفد کے لیے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی لکھوائی ہوئی ایک دستاویز تحریر کی تھی۔ اس کے گواہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح اور حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہم تھے۔
یہ محض چند ایک سرسری مثالیں ہیں جو نہ تو جامع حیثیت رکھتی ہیں اور کسی تلاش بسیار کا نتیجہ ہیں۔ اس قسم کی بہت سی اور مثالیں محض ایک ہی کتاب یعنی طبقات ابن سعد میں مل سکتی ہیں۔ متعلقہ تمام کتب کی بھرپور تحقیق ایسے کثیر واقعات سامنے لا سکتی ہے جس کے لیے ایک تفصیلی کتاب کی ضرورت ہو گی۔
پھر یہ تمام مثالیں محض اس قسم کے واقعات سے متعلق ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے احکام اسلام پر مشتمل تحریریں لکھوائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مختلف افراد کے سلسلے میں بے شمار سرکاری احکام بھی لکھوائے ہیں۔ کثیر تعداد میں موجود ان احکامات اور دستاویزات کے محض حوالے بھی یہاں اس مختصر سی تحریر میں دینا ممکن نہیں ہے۔ یہ دستاویزات بھی سنت کا ایک جزو ہیں، اور اسلامی احکامات کی ایک بڑی تعداد ان سے مستنبط کی گئی ہے۔ اس موضوع پر جناب ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب کی تحقیقی کتاب “الوثائق السیامیتہ” کا مطالعہ مفید ہو گا جس میں انہوں نے ایسی دستاویزات کی ایک بڑی تعداد جمع کر دی ہے۔ یہ کتاب اس سلسلے میں مزید تفصیل فراہم کر سکے گی۔