فتنہ انکار حدیث کی تحریک کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو انکار حدیث کی مختلف صورتیں سامنے آتی ہیں ۔ان میں سے ایک صورت یہ ہے کہ حدیث رسول کا براہ راست انکار کرنے کے بجائے ان عظیم شخصیات کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے جو حدیث و سنت کی جمع و تدوین اور حفاظت میں بنیادی پتھر کی حیثیت رکھتی ہیں اور جن کی وساطت سے حدیث وسنت کا بہت بڑا ذخیرہ محفوظ طریقے سے ہم تک منتقل ہوا ہے ۔کیونکہ یہ بدیہی بات ہے کہ اگر علم حدیث کے ان ستونوں کو گرا دیا جائے تو پھر پورا ذخیرہ حدیث مشکوک ٹھہرتا ہے !
منکرین حدیث اور مستشرقین نے اس مقصد کیلئے خاص طور پر جن دو شخصیات کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ ان میں ایک مشہور صحابی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور نامور تابعی امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ ہیں ۔ صحیح احادیث کا ایک بہت بڑا ذخیرہ انہی دو بزرگ ہستیوں کی محنت اور کوشش سے ہم تک پہنچا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کم وبیش پانچ ہزار تین سو چوہتر جبکہ امام زہری رحمہ اللہ سے کم و بیش بائس سو روایات مروی ہیں ۔
حضرت ابو ہریرہ رض کی سند صرف صححین میں تین سو پچیس روایات منقول ہیں جبکہ امام زہری رح سے صرف صحیح بخاری میں منقول روایات کی تعداد گیارہ سو اکیاسی ہے چنانچہ اگر ابو ہریرہ رض اور امام زہری رح کو مجروح قرار دیا جائے تو احادیث کے ایک اچھے خاصے ذخیرے کے اسناد پر خود بخود سوالیہ نشان لگ جاتا ہے ۔ ۔ ۔ !
مستشرقین اور منکر حدیث کے علاوہ وہ لوگ جو کھلے عام احادیث کے انکار کی جرات نہیں رکھتے وہ حضرت ابو ہریرہ رض اور امام زہری رح جیسے محدیثین پر تنقید کرتے ہیں تا کہ ان سے مروی احادیث کو عامتہ المسلمین کی نظر میں مشکوک ٹھہرایا جائے ۔ منکرین حدیث مستشرقین اور اہل تجدد نے حضرت ابو ہریرہ رض اور امام ابن شہاب زہری رح پر جو اعتراضات کیے ہیں ان کا تفصیلی جائزہ سائیٹ سے ممکن نہیں ، علماء نے کتابوں میں بھرپور انداز میں انکو زیر بحث لایا ہے ۔ ہم یہاں چند ضروری اشکالات کو ایسے انداز میں زیر بحث لائیں گے جس سے باقی اشکالات اور اعتراض کو سمجھنا بھی آسان ہوجائے ۔ امام ابن شہاب زہری رحمہ اللہ پر کیے گئے بڑے اعتراضات ہم پہلے زیربحث لاچکے ہیں ۔ وہ تحریر اس لنک سے ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
ان تحاریر میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر اٹھائے گئے بڑے اعتراضات کا علمی محاسبہ پیش کیا جائے گا۔
1.حضرت ابو ہریرہ رض پر وضع حدیث کا اعتراض:
مشہور مستشرق گولڈ زیہر نے انسائیکلو پیڈیا آف اسلام جلد اول عدد ہفتم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر چند اتہامات باندھے ہیں جو کو کسی علمی وتاریخی دلیل پر مبنی نہیں ہیں۔ان اتہامات کا خلاصہ یہ ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیثیں روایت کرنے کے سلسلہ میں امانت ودیانت کا خیال نہیں رکھتے تھے۔گولڈ زیہر کا کہنا ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ زہد وتقویٰ کے بل بوتے پر حدیثیں گھڑلیا کرتے تھے اور جو لوگ براہ راست ان سے حدیثیں رایت کرتے تھے وہ بھی ان کی مرویات پر شک وشبہ کا اظہار کرتے تھے بلکہ بالفاظ صحیح تر وہ ان کا مذاق اڑاتے تھے ۔
ابن عمر رض سے روایت ہے : “رسول اللہ علیہ والہ وسلم نے کتے کو مارنے کا حکم دیا سوائے اس کتے کو جو شکار اور مویشیوں کی حفاظت کیلئے رکھا گیا ہو ابن عمر رض سے کہا گیا کہ ابو ہریرہ رض تو یہ الفاظ بیان کرتے تھے کہ کھیتی کے حفاظت کیلئے رکھا جانے والا کتا بھی ممانعت سے متشنی ہے یہ سن کر ابن عمر رض نے کہا کہ ابو ہریرہ رض کے جو کھیت تھے “(ترمذی ، رقم 1488، مسلم ، رقم 4019)
مشہور مستشرق گولڈزیہر (Goldziher) (1921ء) نے مذکورہ بالا روایت سے بڑے عجیب وغریب نتائج اخذ کیے ہیں ۔ موصوف لکھتے ہیں کہ
the possbilties which the muslims admit themselves in this field are avident from a tradition in which the authorities seem to give away the secret quite unconsciosly…. This remark of bin ‘umar is characteristic of the doubt about the good faith of the transmitters that existed even in the earliest period of the formation of tradition”
(Muslim studies, vol 2, p56)
“روایتِ حدیث میں ملاوٹ کے جن امکانات کا خود مسلمان اعتراف کرتے ہیں ۔ وہ ایک روایت سے واضح ہوتا ہے جس میں مستند لوگوں نے بالکل غیر شعوری طور پر حقیقت حال سے پردہ اٹھایا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابن عمر رض کے اس تبصرے سے رواۃ حدیث کی امانت ودیانت کے بارے میں اس شک وشبہ کا اظہار ہوتا ہے جو تدوین حدیث کے بالکل ابتدائی ادوار سے موجود رہا ہے ”
مشہور مستشرق آراے نکلسن (Nichlson) نے بھی زیر تبصرہ روایت پر تنقید کی ہے اور یہ دعوی کیا ہے کہ کتوں کے قتل سے کھیتی کے کتے کا استثنا ابو ہریرہ کا اضافہ ہے ۔ موصوف کہتے ہیں کہ بعض بزرگ صحابہ مثلا حضرت ابوہریرہ رض نے اپنے لئے اس عمل کو جائز قرار دیا ۔ انہوں کتا پالنے کو اس وجہ سے جائز قرار دیا کہ وہ خود کاشتکار تھے ۔ یہ بات ابن عمر رض کے اس تبصرے سے واضح ہوتی ہے جب انہوں نے کہا ابو ہریرہ رض کی کھیتی جو تھی ۔ (A literary History of Arabs, page 182))
اعتراض کی حقیقت:
ناقدین کے اعتراض کا حاصل یہ ہے کہ ابن عمر رض ابو ہریرہ رض کو متہم کر رہے ہیں کہ انہوں یہ لفظ حدیث میں ازخود اس لئے بڑھا دیے تھے تاکہ کھیتی کی حفاظت کیلئے کتا پال سکیں ۔ تاہم واقعہ یہ ہے کہ مزکورہ اعتراض محض کم علمی اور تعصب پر مبنی ہے جس کے مختصر دلائل درج ذیل ہیں :
1۔ حدیث کا وہ ٹکرا جسمیں کھیتی کی حفاظت کیلئے کتا پالنے کی اجازت مذکور ہے اگر اس کی روایت میں حضرت ابو ہریرہ رض منفرد ہوتے تب بھی کوئی حرج نہ تھا کیونکہ کسی صحابی کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف کو جھوٹی بات منسوب کرے گا تاہم ان کے منفرد ہونے کی صورت میں اس اعتراض میں بظاہر کسی حد تک وزن پیدا ہوسکتا تھا لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ ابو ہریرہ رض کے علاوہ کئی دیگر صحابہ رض نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے جس میں کھیت کی حفاظت کیلئے پالا جانے والا کتا قتل کے حکم سے مستثنی ہے ۔ مثلا صحیح بخاری میں یہ سفیان بن ابی زہیر رض سے مروی ہے ۔ اور اس میں کھیتی کے کتے کا قتل کے حکم کا استثنا مذکور ہے (بخاری ، رقم 2323٥) جامع ترمزی میں اس مفہوم کی روایت عبداللہ بن مغفل رض کی سند سے مروی ہے (ترمذی ، رقم 1489، 1487٦) اس طرح صحیح مسلم (، رقم 4036، 4021٧) ابن ماجہ ( رقم 2306، 2305٨) سنن نسائی(4294، 4290) میں عبداللہ بن مغفل رض اور سفیان بن ابی زہیر کی روایات موجود ہیں جن میں کھیتی کیلئے کتا پالنے کا صراحتا ذکر آیا ہے۔ گویا اس موضوع کے دیگر روایات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو ہریرہ رض اس حدیث کے بیان کرنے میں منفرد نہیں ہیں بلکہ یہ روایت دیگر کئی اسناد سے بھی مروی ہے ۔
2۔شارخین حدیث نے حضرت ابو ہریرہ رض کے اس اضافے پر روشنی ڈالی ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے:
امام نودی رح (٦٧٦ھ( ابن عم کے قول پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے عبداللہ بن عمر رض کا مقصد نہ ابوہرہرہ رض کی روایت کی تحقیر ہے اور نہ اس میں شک و شبہ کا اظہار بلکہ ان کا مقصد یہ ہے کہ چونکہ حضرت ابو ہریرہ رص زمیندار تھے اس لئے انہوں اس لفظ کو بیان کرنے کا زیادہ اہتمام کیا اور اسے خوب یاد رکھا ۔ یہ حقیقت ہے کہ جو شخص کسی صورت حال سے خود دوچار ہو وہ دوسروں سے بڑھ کر اس کے احکام کو یاد رکھتا ہے وہ اس کیلئے وہ ضروری اہتمام کرتا ہے جو دوسرے نہیں کرتے۔(المنہاج (شرح صحیح مسلم ، 4/236))
مزید تفصیل کتب شروح حدیث میں دیکھی جا سکتی ہے. . دیکھیے فتح الباری 6/5
3۔ صحیح مسلم میں خود ابن عمر(ر) سے مروی روایت میں یہ اضافہ بھی منقول ہے۔روایت کے الفاط یہ ہیں
“من اتخذ كلبا الا كلب زرع او غنم او صيد، بنقص من اجره، كل يوم،قبراط”
“جس نے کھیتی کی حفاطت، مویشیوں کی حفاظت اور شکار کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیئے کتا پالا، اس کے نامۂ اعمال سے روزانہ ایک قیراط کے برابر اجر کم ہو جائے گا”۔ (مسلم ، رقم 4029)
یہ روایت صحیح مسلم کے علاوہ بخاری، ابن ماجہ، نسائی اور جامع ترمذی میں بھی عمر(ر) سے منقول ہے. ممکن ہے کہ ابن عمر (ر) نے جب ابو ہریرہ(ر) سے یہ الفاظ سنے ہوں اور ان پہ یہ واضح ہوگیا ہوکہ یہ الفاظ رسول اکرم(ص) کے ہی فرمودہ ہیں تو خود بھی ان کی روایت کرنے لگے ہوں اور انہوں نے اپنی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ کرلیا ہو.یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے دوسرے ذرائع سے اس جملے کے متعلق تحقیق کرلی ہو یا خود ان کو حدیث کا وہ حصہ یاد آگیا ہو اور پھر اس کے وہ خود بھی اس کو روایت کرنے لگے ہوں.
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ابوہریرہ اس روایت جو بیان کرنے میں منفرد نہیں ہیں.اگر ایسا ہوتا تب بھی ان کی زیادت محدثین کے ہاں مقبول اورپسند ہوتی. یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ابن عمر (ر) نے ابوہریرہ جیسے صحابی پر طنز کیا ہو یا شک کیا ہو. یہ اب معترزین کے اپنے زہن کی پیداوار ہے پھر علماء اور فقہا کا اس حدیث سے احکامِ مستنبط کرنا بھی اس کی صحت پر اتفاق کی واضع دلیل ہے.
صحابہ کا شک و شبہ :
مستشرق مذکور کا یہ قول کہ کثرت روایت کی بناء پر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے شک وشبہ کا اظہار کرنے لگے تھے۔اور اس کی دلیل بخاری کی وہ روایت ہے جو بخاری کتاب فضائل الاصحاب حدیث نمبر ۱۱ میں مذکور ہے ،اس میں درج ہے کہ ”لوگ کہتے ہیں کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ زیادہ حدیثیں بیان کرتا ہے۔بات یہ ہے کہ میں اپنا پیٹ بھر کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ رہا کرتا تھا نہ لذیذ کھانے مجھے نصیب تھے نہ عمدہ کپڑا،نہ میرا کوئی خادم اور نوکر تھا،جب بھوک ستاتی تو میں پیٹ کے بل کنکریوں پر الٹا لیٹ جایا کرتا تھا۔”
ایک با انصاف آدمی مذکورہ صدر روایت سے سمجھ سکتا ہے کہ بعض لوگوں نے کثرت حفظ و روایت پر تعجب کیا تھا ،ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کی وجہ یہ بیان کی کہ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ رہا کرتے تھے۔انہیں مال متاع جمع کرنے کے بجائے صرف حدیثیں جمع کرنے کا شوق تھا جب بھوک ستاتی تو وہ کنکریوں پر لیٹ جاتے تجارت ہو یا زراعت ،انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے باز نہ رکھ سکی اس لئے انہوں نے دوسروں سے زیادہ احادیث یاد کر لیں اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ استفادہ کیا جس سےدیگر صحابہ قاصر رہے۔
اگر ہم مستشرق مذکور کی یہ بات تسلیم کر بھی لیں کہ وہ لوگ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر تعجب نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے بارے میں شکوک شبہات کا اظہار کرتے تھے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیثیں اخذ کرنا ترک کیوں نہ کیا ؟حالانکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس کے بعد پچاس سال بقید حیات رہےمعلوم ہوتا ہے کہ وہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ وجہ سے مطمئن ہو گئے تھےاور ان کے شکوک شبہات زائل ہوگئے تھے اگر ان کی مرویات میں انہیں کچھ شبہ ہوتا تو وہ ان کے اخذ کر نے سے باز رہتے ،حالانکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے محافظ اور ان میں تدلیس وکذب کی آمیزش کو روکنے والے تھے۔ ملاحظہ فرمائیں اکابر صحابہ جنہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی:
زید بن ثابت،ابو ایوب انصاری، ابن عباس،ابن عمر،عبداللہ بن زبیر،ابی بن کعب،جابر ،عائشہ،مسور بن مخرمہ،عقبہ بن حارث،ابو موسٰی اشعری ،انس بن مالک،سائب بن زید،ابو رافع مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،ابو عمامہ بن سہل ،ابو طفیل ،ابو نضرہ غفاری ،ابو رہم غفاری ،شداد بن الہاد،ابو حدرد،عبداللہ بن حدرد اسلمی ،ابو رز ین عقیلی،واثلہ بن اسقع،قبیصہ بن ذویب،عمر وبن الحمق ،حجاج اسلمی ،عبداللہ بن عقیل،الاغرالجہنی،شرید بن سوید رضی اللہ عنہم اجمعین۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے صحابہ کی تعداد اٹھائیس تک پہنچتی ہے جہاں تک تابعین کا تعلق ہے کوئی بھی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے اصحاب وتلامذہ سے بڑھ کر عالم اور مشہور تر نہ تھا ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ ان سب کا ذکر طوالت کا موجب ہے ۔(مستدرک الحاکم)