ایک ملحد نے قرآن کے مصنفین نامی آن لائن کتاب میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ قرآن کوئی الہامی کتاب نہیں ہے، اسکا مواد مختلف ماخذوں سے چوری کرکے ترتیب دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں اس نے عقیدہ توحید کے متعلق یہ دعوی کیا کہ یہ محمد نے اردگرد عربوں سے لیا تھا ، اس کے دلائل میں اس نے عربوں کے توحیدی اقوال کے بیسوں حوالے پیش کیے۔ ملحد کے پیش کردہ حوالہ جات درست ہیں لیکن اس نے جان بوجھ کے انکو اپنے جس گھڑے مفروضے کے حق میں پیش کیا یہ اسکا مکروفریب ہے۔ یہ توحیدی عقیدہ عربوں میں پہلے سے کیسے موجود تھا؟ اس کی تاریخ اور حقیقت ایک مشہور محقق ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی صاحب کے مقالے سے استفادہ کرتے ہوئے اس تحریر میں پیش کی جارہی ہے۔ (ایڈمن)
قبل از اسلام عرب میں حنیفیت (دین ابراھیمی )
عرب میں دین ابراھیمی کی تاریخ و آثار
(a)ثقیف / ہوازن (شاعر امیہ بن ابی الصلت کا قبیلہ )
(f).قبیلہ ایاد / بکر بن وائل – عبد القیس
قبل از اسلام عرب میں حنیفیت (دین ابراھیمی )
بعثت محمد ﷺ سے پہلے عرب میں ایک رواجی دین کا چرچا تھا، اس کی بنیاد دین ابراہیمی پر تھی۔ وہ خالص دین اسلام تھا جو تمام پیغمبران وقت لاتے رہے لیکن اس خالص دین ابراہیمی میں رفتہ رفتہ بہت سی بدعات و خرافات شامل ہوتی گئیں اور وہ مسخ ہوگیا، اس دین کو بگاڑنے والے اسبب و محرکات اور عناصر میں شرک کا تصور سب سے زیادہ کارگر رہا، اس نے اللہ واحد کے عقیدہ کو دھندلا کردیا اور معبودِ حقیقی کے ساتھ بعض عناصر و اشیاء کی عبادت شامل کردی۔ حضرات موسیٰ ( علیہ السلام ) و عیسیٰ ( علیہ السلام ) کے دین بھی دین ابراہمی کا تسلسل اور دین اسلام کی عصری صورتیں تھیں، وہ بدعات و انحرافات کی بناء پر اپنے صحیح جادہء اسلامی سے کج ہوکر رواجی یہودیت اور مسیحیت میں ڈھل گئے تھے ۔
( ابن ھشام 1/14-35 و مابعد 240-241 و مابعد، سہیلی، الروض الانف ، متعلقہ مباحث، السید محمود شکی الآلوسی، بلاغ الاررب فی معرفۃ احوال العرب، تحقیق محمد بہجۃ الاثیری، دار الکتاب العربی، قاہرہ 1342ء طبع سول، 2/240-241 وغیرہ، جواد علی، تاریخ العرب قبل السلام، مطبعۃ المجمع العلیمی العراقی، بغداد 1956ء 6/6-50 ( یہودیت ) 51-88 ( نصرانیت ) وغیرہ)
اکثریت کے رواجی دین کے خلاف صالح روحوں اور پاک ذہنوں میں احتجاجی لہرین اٹھتی رہیں، بالعموم ایسا سمجھا جاتا کہ شرک اور مشرکانہ روایات و رسوم کے خلاف بعثت محمدی سے کچھ قبل ہی رد عمل شروع ہوا، مولانا شبلی نعمانی (رحمۃ اللہ علیہ ) کا خیال ہے کہ ” ۔ ۔ اس بناء پر بت پرستی کی برائی کا خیال بہتوں کے دل میں آیا، لیکن اس کا تاریخی زمانہ آنحضرت ﷺ کی بعثت سے کچھ ہی پہلے شروع ہوتا ہے۔ ۔” ( سیرۃ النبی، معارف پریس اعظم گڈھ، 1983ء، 1/124 ) بیشتر سیرت نگاروں نے اسے ” حنیفیت ” کے نام سے یاد کیا ہے اور اس کا نقطہء آغاز بعثت کے قریب مانا ہے، کئی اہل قلم نے دین حنیفی کو صرف مکہ مکرمہ تک محدود مانا ہے اور اسے صرف ایک علاقائی رد عمل بنا دیا ہے۔ اس مطالعہ کے مقصد عرب میں حنیفیت کی تاریخ، حدود و اثرات کا پتہ لگانا اور قارئین کے سامنے پیش کرنا ہے۔
جدید اردو سیرت نگاروں میں مولانا شبلی نعمانی ( رحمۃ اللہ علیہ) حنیفیت کی تاریخ و وسعت و اثر سے سب سے ذیادہ واقف تھے، ” ابن ہشام نے بت پرستی کی مخالفت کرنے والوں میں چارکا نام لکھا ہے لیکن اور تاریخی شہادتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ عرب میں اور متعدد اہل نظر پیدا ہوگئے تھے جنہوں نے بت پرستی سے توبہ کی تھی۔” (1/125-126) انہوں نے چند دوسرے احناف کا ذکر مختلف روایات و اخبار کی سند پر کیا ہے اور ان کا بیان اپنے مقام پر آتا ہے۔
شبلی ( رحمۃ اللہ علیہ ) کی فراہم کردہ طرز تحقیق پر سید ابو الاعلی مودودی ( رحمۃ اللہ علیہ) نے مزید تحقیقات کیں اور حقیقی حنیفیت کے رجحان اور اس سے متاثر افراد کے بارے میں مزید معلومات بیان کیں، ان کا ایک اقتباس نقل کرنے کے لایق ہے ۔
” عرب کا اصل دین دینِ ابراہیمی تھا اور بت پرستی ان کے ہاں عمر بن لحی نامی ایک شخص نے شروع کی تھی، شرک و بت پرستی کے رواجِ عام کے باوجود عرب مختلف حصوں میں جگہ جگہ ایسے لوگ موجود تھے جو شرک کا انکار کرتے تھے، توحید کا اعلام کرتے تھے اور بتوں پر قربانیاں کرنے کی علانیہ مذمت کرتے تھے، خود نبی ﷺ کے عہد سے بالکل قریب کے زمانے میں قیس بن ساعد الا یادی، امیہ بن ابی الصلت، سوید بن عمر المصطلقی، وکیع بن سلمہ بن زہیر الایادی، عمر بن جندب الجہنی، ابوقیس حرمہ بن ابی انس، زید بن عمر بن نفیل، ورقہ بن نوفل، عثمان بن الحویرث، عبید اللہ بن حجش، عامر بن الظرب العدوانی، علاف بن شہاب التمیمی، المتلمس ابن امیہ الکنانی، زہیر بن ابی سلمٰی، خالد بن سنان بن غیث العبسی ، عبداللہ القضاعی اور ایسے ہی بہت سے لوگوں کے حالات ہمیں تاریخوں میں ملتے ہیں جنہیں ” حنفاء ” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، یہ سب لوگ علی الاعلان توحید کو اصل دین کہتے تھے اور مشرکین کے مذہب سے اپنی بے تعلقی کا صاف صاف اظہار کرتے تھے، ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے ذہن میں یہ تخیل انبیاء (علیہ السلام ) کی ساری تعلیمات کے باقی ماندہ اثرات ہی سے آیاتھا ۔ ( تفہیم القرآن، مرکزی مکتنہ اسلامی، دہلی 1984ء 4/37، سیرت سرور عالم، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی، 1989، 2/70-72) سید مودودی نے اپنی کتاب سیرت میں بعض سے متعلق کچھ تفصیلات بھی دی ہیں۔
شبلی (رحمۃ اللہ علیہ ) اور مودودی ( رحمۃ اللہ علیہ ) کی تحقیقات کو آگے بڑھاتے ہوئے جاہلی دور میں حنیفیت کا مطالعہ زیادہ سود مند ہوگا، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جزیرہ نما ئے عرب کے مختلف خطوں اور ان کے قبیلوں میں موجود احناف کا ذکر خطہ، بہ خط یا قبیلہ بہ قبیلہ کیا جائے تاکہ حنیفیت کا دائرہ اثر واضح ہوسکے اور اس سے زیادہ یہ حقیقت اجاگر ہوسکے کہ وہ ایک عارضی اور مقامی رجحان نہیں تھا، بلکہ ایک قومی مزاج اور دین ابراہیمی کا اظہار تھا اور وہ ہر زمان و مکان میں پایا جاتا رہا، ڈاکٹر جواد علی نے اپنی کتاب میں احناف عرب پر ایک خاص باب باندھا جس میں اسکی تاریخ ہے۔
(تاریخ العرب قبل السلام، مطبعۃ المجمع العلمی العراقی، بغداد 1956ء، 6/284-322: الفصل السادس: المجوس و الاحناف )
مولانا مودودی کا یہ تجزیہ بالکل صحیح ہے کہ ” یہ بھی رسالتِ اسماعیلی کا اثر ہی تھا کہ بعثتِ محمدی کے وقت تک عرب میں ایسے لوگوں کا ایک گروہ موجود رہا جنہیں تاریخ میں حنفاء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے” ( سیرت 2/71)، اس پر صرف یہ وضاحتی تبصرہ کافی معلوم ہوتا ہےکہ حضرات ابراہیم ( علیہ السلام ) و اسماعیل ( علیہ السلام ) کے مبارک زمانے سے دینِ ابراہیمی اور دینِ السام کا رواج عربوں میں رہا اور جب جاہلیت نے اس اصل دین کو مسخ کیا تب بھی اس کے بہت سے احکام و رسوم اور اعمال و مناسک عربوں میں برقرار و جاری رہے، توحید الہی اور اصل دین کے عقائد و ارکان پر ایمان و عمل بھی ان میں سے تھا جو بہت سے علاقوں میں ہمیشہ سے پایا جاتا رہا، دین ابراہیمی کے باقایات ِ صالحات پر شاہ ولی اللہ دہلوی، سید مودودی، شبلی نعمانی اور متعدد دوسرے اہل قول نے تفصیل سے لکھا ہے جو سرِ دست زیر بحث نہیں، حنیفیت زیر بحث ہے اور اس کی تاریخ۔
حنیفیت کے معنی
مولانا شبلی کا خیال ہے کہ چوں کہ اس دین میں بت پرستی سے انحراف تھا، اس لیے اس کو حنیفی کہتے ہیں، کیوں کہ ” حنف ” کے معنی انحراف کے ہیں ۔ ۔ ( 1/126 بلا حوالہ مصادر ) ۔
مولانا مودودی نے حنیفیت سے مراد توحید الہی اور شرک و بت پرستی سے گریز کو لیا ہے ( تفہیم 4/36-37 و مابعد سیرت 2/70-71 و مابعد ، آلوسی جواد علی اور دوسرے اہل قولم، نیز بحث آیندہ بر عقاید و اعمالِ احناف )۔
ابنِ اسحاق نے حضرت سلمان فارسی کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ انہوں نے صحیح دین کی تلاش میں ترکِ وطن کیا، اپنے وطن ایران سے سفر کرتے ہوئے شام پہنچے تو شامی راہب و عالم سے حنیفیت یعنی دین ابراہیمی کے بارے میں سوال کیا، اس مردِ دانا نے کہا کہ یہ وہ سوال ہے کہ لوگ آج کل نہیں پوچھا کرتے، زمانہ آگیا ہے کہ ایک نبی اس دین کےساتھ مبعوث ہوگا، ان کے پاس جاؤ وہ تم کو اس کے حامل بنا دیں گے، ” ۔ “( ابن ہشام، السیرہ و النبویہ، متربہ محی الدین عبدالحمید، دار الفکر، قاہرہ 1937ء 1/241)۔
ابن اسحاق و ابن ہشام نے اس کے بعد مکہ مکرمہ کے چار مشہور و معروف حنفاء کا ذکر کرکے لکھا ہے کہ وہ قریش کی رواجی بت پرستی اور عام دین چھوڑ کر اصل دین ابراہیم کی تلاش و جستجو میں مختلف علاقوں میں پھیل گئے، کیوں کہ ان کی قوم کسی اصل پر قایم نہ تھی او وہ اپنے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین سے دور جا پڑے تھے، جن پتھروں کا وہ طواف کرتے تھے وہ سنتے تھے نہ دیکھتے تھے، نقصان پہنچاتے تھے اور نہ نفع، لہذا اصل دین تلاش کرو ” ( 1/242)
حضرت زید بن عمر بن نفیل عدوی
ان چار وں باشند گانِ مکہ میں حضرت زید بن عمر بن نفیل عدوی کے دین کی مزید تفصیل سے حنیفیت کا دائرہ شرک و بت پرستی سے آگے بڑھ کر پورے دین ابراہیمی کو حاوی ہوجاتا ہے، ابن اسحاق کا مزید بیان ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کے دین کو ترک کیا، بتوں، مردہ گوشت خون اور بتوں کے چڑھاوے کے جانوروں کے ذبیحہ سے اجتناب کیا، نومود بچیوں کے قتل سے لوگوں کو روکا اور کہا کہ میں ابراہیم ( علیہ السلام کے رب کی عبادت کرتا ہوں، ” ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وفارق دین قومہ، فاعتزل الاوثان و المیتۃ و الدم و الذبائح التی تذبح علی الاوثان و نھی عن قتل الموؤدۃ، وقال: عبد رب ابراہیم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ” ( 1/244) فتح الباری، ریاض 1997، 7/183-184)۔
حضرت زید بن عمر بن نفیل عدوی کے دین ابراہیمی پر گامزن ہونے اور حنیفیت کے معنی دین ابراہیمی ہونے کا اظہار اسحاق کی ایک اور روایت سے ہوتا ہے۔ وہ کعبہ کی جانب ٹیک لگائے قریش سے فرمایا کرتے تھے ” اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں زید بن عمرو کی جان ہے میرے علاوہ تم میں اور کوئی دین ابراہیم پر باقی نہیں ہے”، پھر فرماتے: ” اے اللہ ! اگر میں جانتا ہوں کہ تجھے کون سا طریقہ سب سے زیادہ پسند ہے تو میں اسی کے مطابق تیری عبادت کرتا لیکن میں اسے نہیں جانتا، پھر وہ اپنے پہلو پر سجدہ کرتے”، ( 1/244) امام بخاری کی روایت میں یہی بات دوسرے الفاظ میں ہے” ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واللہ ما منکم علی دین ابراہیم غیری” ( کتاب مناقب الانصار، باب حدیث زیدبن عمرو بن نفیل )۔
اسحاق کی ایک اور روایت میں حنیفیت کو دین ابراہیمی کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ وہ بھی حضرت زید بن عمر بن نفیل کے حوالے سے ہی ہے، حضرت زید کی اہلیہ صفیہ بنت الحضرمی تھیں، حضرت زید جب بھی مکہ سے جانے اور بلادِ ارض میں حنیفیت ، ابراہیمی دین کو تلاش کرنے کے لیے سفر کرنے کا تہیہ کرتے وہ ان کے چچا اور ماموں کے بھائی خطاب بن نفیل عدوی کو اطلاع کردیتی اور وہ ان کو اپنی قوم کے دین کے چھوڑنے پر عتاب کرتے رہتے۔” ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وکان زید بن عمرو قد اجمع الخروج من مکۃ لیضرب فی الارض یطلب الحنیفیۃ دین ابراہیم علیہ السلام فکانت صفیۃ بنت الحضرمی کلما رأتہ قد تھیأ للخروج و ارادہ اذنت بہ الخطاب بن نفیل، وکان الخطاب بن نفیل عمہ و اخاہ لامہ، وکان یعاتبہ علی فراق دین قومہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” ( 1۔247)
دین ابراہیم علیہ السلام کی تلاش میں بالآخر وہ مکہ سے نکل ہی گئے، وہ راہبوں اور احبار سے پوچھتے پوچھتے موصل و جزیرہ کا چکر لگاتے ہوئے شام پہنچے اور اس کو کھنگال ڈالا تا آنکہ وہ ارضِ بلقاء میں میفعہ میں ایک راہب سے جا ملے جو نصرانیوں کا سب سے بڑا عالم سمجھا جاتا تھا اور اس سے جیسا کہ راویوں کا گمان ہے حنیفیت دینِ ابراہیم کے بارے میں پوچھا اور اس نے بتایا کہ ان کے اپنے وطن میں ایک نبی دین ابراہیم حنیفیت کے ساتھ مبعوث ہوگا، ” ” ( 1/249-250) بخاری حدیث نمبر: 3827
حنیفیت کو دین ابراہیم علیہ السلام بتانے والی ابن اسحاق کی روایت کو امام بخاری نے اپنی سند سے بیان کیا ہے، اس کے مطابق شامی عالم سے جب حضرت زید نے صحیح دین کے بارے میں پوچھا تو عالم نے کہا کہ اسے حنیف ہونا چاہیئے، حضرت زید کے سوال پر کہ حنیف کیا ہے، یہودی عالم نے کہا کہ دین ابراہیم ، وہ یہودی تھے اور نصرانی، وہ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کیا کرتے تھے اور ایک عیسائی / نصرانی نے بھی یہی تعریف حنیف اور دین ابراہیم کی کی تھی، دونوں جگہ یکساں تعبیرات ہیں حضرت زید نے حضرت ابراہیم کے بارے میں جب ان کے اقوال سنے تو برجستہ ہاتھ اٹھا کر فرمایا تھا کہ ” اے میرے اللہ ! میں گواہی دیتا ہوں کہ میں حضرت ابراہیم کے دین پر ہوں۔ ۔”
” ۔ قال: ما اعلمہ الا ان یکون حنیفا، قال زید: وما الحنیف؟ قال دین ابراہیم ، لم یکن یہود یا ولا نصرانیا ولا یعبد الا اللہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فلما رأی زید قولھم فی ابراہیم علیہ السلام خرج فلما برز رفع یدیہ فقال: اللھم انی اشھد انی علی دین ابراہیم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔” ( کتاب مناقبت الانصار، باب حدیث زید بن عمر بن نفیل، حدیث 3827 بہ سند حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ ابن حجر، فتح الباری، 7/180-183 اوما بعد)۔
حافظ ابن حجر نے اولین حدیث بخاری: ” ما منکم علی دین ابراہیم غیری ” میں ابو اسامہ کی روایت میں موجود اضافہ نقل کیا ہے، حضرت زید کہا کرتے تھے کہ میرا اللہ ابراہیم کا اللہ ہے اور میرا دین ابراہیم کا دین ہے،” وکان یقول: الہی الہ ابراہیم و دینی دین ابراہیم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔” انہوں نے ابن ابی زناد اور ابن اسحاق کی روایات بھی مختصراً نقل کی ہیں جن میں عبادتِ اصنام اور بتوں کے چڑھاوے سے ان کے اجتناب کا ذکر کیا گیا ہے، (7/183) شاہ ولی اللہ دہلوی نے حضرت زید کے اشعار کے ذریعہ حکما و افاضل عرب کے اثبات توحید کا ذکر کیا ہے:
۔ ۔ ۔ وجدت افاضلھم و حکمانھم کانو یقولون بالمعاد و بالحفظۃ و غیر ذلک و یثبتون التوحید علی وجبہ حتی قال زید بن عمرو بن نفیل فی شعرہ:
عبادک یخطئون و انت رب
یکفیک المنایا و الغلوم
أربا واحد ام الف رب
ادین اذا یقسمت الامور
رکت اللات و العُزی جمعیا
کذلک یفعل الرجل البصیر
( حجۃ اللہ البلاغۃ، 1/277)
مردہ جانور ( میتۃ ) کی مانند بتوں کی بھینٹ بھی دین ابراہیم میں حرام تھی، بخاری کی حدیث کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے (وادی)بلدح کے نشیبی علاقہ میں ملاقات ہوئی، یہ قصہ نزول وحی سے پہلے کا ہے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک دستر خوان بچھایا گیا تو زید بن عمرو بن نفیل نے کھانے سے انکار کر دیا اور جن لوگوں نے دستر خوان بچھایا تھا ان سے کہا کہ اپنے بتوں کے نام پر جو تم ذبیحہ کرتے ہو میں اسے نہیں کھاتا میں تو بس وہی ذبیحہ کھایا کرتا ہوں جس پر صرف اللہ کا نام لیا گیا ہو،( باب: زید بن عمرو بن نفیل کا بیان ،حدیث نمبر: 3826)
خطابی کا قول ہے کہ نبی ﷺ اصنام پر ذبح کیا ہوا جانور نہیں تناول فرماتے تھے اور باقی ذبیحہ قریش کھا لیا کرتے تھے ( 2/362)، یہ نکتہ تحقیق طلب ہے کہ مشرکین مکہ و عرب اپنے جانوروں کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیتے تھے یا نہیں؟ روایات کا درو بست بتاتا ہے کہ وہ عام ذبائح پر نام الہی لیتے تھے کہ وہ سنت ابراہیمی تھی۔(جیسا کہ واضح ہے کہ یہ معاملہ وحی کے آنے سے پہلے کا تھا..حضورﷺ کا عمل بطور مقتداء وحی آنے کے بعد واجب العمل ہے، نہ کہ پہلے کا.. تاہم اس روایت سے آپﷺ کی ذات پر ایک گونہ حرف آتا ہے کہ گویا کہ زمانہ قبل نبوت میں آپﷺ بتوں کے چڑھاوے کھایا کرتے تھے..حلانکہ اس روایت میں ایسی کوئی چیز مذکور نہیں کہ یہ شے بتوں کا چڑھاوہ ہی تھی..زید چونکہ اس معاملے میں بہت شدت پسند تھے، لہذا ان لوگوں کے ہاتھوں سے بھی کھانا پسند نہ کیا، جو چڑھاوے پیش کیا کرتے تھے..مگر چونکہ یہ بے جا سختی کے علاوہ کچھ نہیں اور کام نہیں ہے، لہذا آپﷺ ان کے حلال ذبیحے کھایا کرتے تھے..جیسا کہ اس موقع پر کھایا..)
ابن ہشام نے اپنی تشریح میں حنفیت کی ایک دوسری جہت بتائی ہے، ان کے مطابق عرب ” تخنث و تحنف ” ایک معنی میں استعمال کرتے تھے، ” تخنث ” دراصل ” تحنف ” ہے اور ” ف” کو “ث ” سے بدل دیا کرتے تھے، اور اس سے مراد حنفیت لیتے تھے، ” تسال ابن ھشام: تقول العرب: التحنث و التحنف، یریدون الحنفیۃ، تیعبدون لون الفاء من الثاء ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” ( 1/254)
انہوں نے کلامِ عرب سے اس کی بعض مثالیں بھی پیش کی ہیں، اس سے کچھ پہلے ابن اسحاق کی یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم ﷺ ہر سال ایک مال غارِ حراء میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور یہ وہ تخنث اور نیکی کا کام تھا جو قریش جاہلیت میں کیا کرتے تھے، ”
( و التحنث : التبرر )۔ ۔ ۔ ۔ ۔” ( 1/253، 2/380، 390-392)
امام طبری نے سورۃ بقرہ 135 میں وارد الفاظ الہیٰ ” ملۃ ابراہیم حنیفا ” کی تفسیر میں لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم کا دین حنیفیت مسلمہ تھا جس پر بعد کی تمام دوسری ملتوں اور مذہبوں کا مدار تھا: ” فان دینہ کان الحنیفیۃ المسلمۃ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” ( جامع البیان عن تاویل آی القرآن / تفسیر الطبری، متربہ محمود شاکر، بیروت 2001، 1/253)
زمخشری نے اس آیت کریمہ کی تاویل میں حنیف کے صرف لغوی معنی سے بحث کی ہے کہ ہر باطل دین سے کٹ کر دین حق ہو جانے والا حنیف ہوتا ہے اور اس کا مصدر حنف ہے انہوں نے استشہاد میں ایک شعر بھی نقل کیا ہے۔: ” و الحنیف: المائل عن کل دین باطل الی دین الحق ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ” ( الکشاف، مرتبہ عبدالرزاق المہدی، بیروت 1997ء، 1/220)۔
سورۃ آل عمران 95 میں ملۃ ابراہیم سے (1/413) تعبیر کیا ہے۔ ( سورۃ نساء 125، انعام 79، 161 ،۔ یونس 105، نحل 120، 123، روم 30، حج 31، بینہ 5) ابن منظور نے تخنث کے معنی ” تعبد و اعزل الاصنام ” لکھے ہیں اور اسے تحنف کے مثل قرار دیا ہے۔ ( لسان العرب مادہ حنث ) انہوں نے تحنف / حنف کو الگ سے بحث کے قابل نہیں سمجھا کہ وہ تخنث ہی کا مترادف ہے ، حدیث نبوی کی تشریخ بھی اسی طرح کی ہے، صحیح حدیث میں ملت اسلام کے لیے ” الحنیفیۃ السمیحۃ ” کی ترکیب آئی ہے: ” الحنیفیۃ السمحۃ السھلۃ ” ( مقالہ ” حنیف ” دایرہ معارف اسلامیہ، لاہور از ادارہ ، ابن اثیر، اسد الغابہ، 1/72: احب الادیان الی اللہ الحنیفیۃ السمحۃ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔)
ڈاکٹر جواد علی نے حنفاء اور احناف کی تعریف میں لکھا ہے کہ مسلمان حنفاء سے ان لوگوں کو مراد لیتے ہیں جو جاہلی عربوں میں سے دین ابراہیم پر قایم تھے اور انہوں نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا تھا، نہ وہ یہودیت میں داخل ہوئے اور نہ نصرانیت میں اور نہ ہی انہوں نے بتوں کی پوچا کو ایک دین سمجھا بلکہ اس پرستش پر طعن کیا اور اس کے قائلین پر تنقید کی، اہل اخبار بیان کرتے ہیں کہ تمام جاہلی عرب قحطان و عدنان کے عمر بن لحی الخزاعی سے پہلے اس دین پر تھے وہ موحدین تھے صرف اللہ جل جلالہ کی عبادت کرتے تے، نہ اس کے ساتھ شرک کرتے تھے، اور نہ اس کے حقوق سے غفلت کرتے: ” ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ و یقصد المسلمون بالحنفاء من کانو علی دین ابراہیم من الجاھلین، فلم یشرکو ابربھم احد الم یدخلو فی یہودیۃ ولا نصرانیۃ ولم یقبلو لعبادۃ الاصنام دینا بل سفھوا تلک العبادۃ و سفھوا رای القائلین بھا و یذکر اھل الاخبار ان الجاھلین جمیعا من قحطان و عدنان کانو قبل عمرو بن لحی الخزاعی علی ھذا الدین کانو موحدین یعبدون اللہ جل جلالہ وحدہ لا یشرکون بہ ولا ینتقصونہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” ( تاریخ العرب قبل الاسلام، 6/289)
انہوں نے حاشیہ میں سورۃ بقرہ 135: ” بل ملۃ ابراہیم حنیفا ” کی تشریخ میں ابوعبیدہ کا قول نقل کیا:
” من کان علی دین ابراہیم فھو حنیف عند العرب و کان عبدۃ الاوثان فی الجاھلیۃ یقلون نحن حنفاء علی دین ابراہیم فلما جاء الاسلام سموا المسلم حنیفا”۔
اخفش کا قول بھی اس کے بعد نقل کیا ہے:
” ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ الحنیف المسلم و کان فی الجاھلیۃ یقال: من اختتن و حج البیت حنیف لأن العرب لم تتمسک فی الجاھلیۃ بشنی من دین ابراہیم غیر الختان و حج البیت فکل من اختتن و حج قیل لہ حنیف فلما جاء الاسلام تمادت الحنیفیۃ فالحنیف المسلم” ( تاریخ العرب قبل السلام، 6/290) حاشیہ نمبر 1 بحوالہ اللسان 10/403، و ما بعدھا، بلوغ الارب، 2/95 اوما بعدھا)۔
محقق گرامی نے بہ جا طور سے لکھا ہے کہ عمرو بن لحی کی دعوت عرب میں خوب پھیلی اور پروان چڑھی کہ اکثر لوگ اس میں داخل ہوگئے کیوں کہ گمراہی جلدی پھیلتی ہے اور دین ابراہیمی کی حفاظت کرنے والے اور دین توحید حنیف کے احکام کی رعایت کرنے والے کم سے کم ہوتے گئے جو الہٰ واحد کے اعتقاد ، بیت اللہ کے طواف و حج، عمرہ، عرفہ میں وقوف اور جانوروں کی قربانی ، حج و عمرہ کے تلبیہ اور اہلال وغیرہ پر مبنی تھا، ان عربوں میں صرف ایک محدود تعداد ہی بعثت محمدیہ کے زمانے تک اس دین حنیف پر باقی نہ رہ سکی، ختنہ، حج بیت اللہ ، جنابت کے غسل، بت پرستی سے اجتناب ہی وہ فرق و امتیاز کرنے والی علامات رہ گئیں جو حنفاء کو مشرکین سے الگ کرتی تھیں۔ ( ایضاً 6/290)
شاہ ولی اللہ دہلوی نے رسول اکرم ﷺ کی بعثت کا مقصد یہ بتایا ہے کہ آپ ملت حنیفیہ اسماعیلیہ میں جو کجی آگئی تھی اس کو دور کرنے، اس کی تحریف کو ختم کرنے اور اس کے نور کو پھیلانے کے لیے مبعوث فرمائے گئے تھے۔ فاعلم انہ ﷺ بعث بالملۃ الحنیفیۃ الاسماعیلیۃ لا قامۃ عوجھا و الزالۃ تحریفہا و اشاعۃ نورھا ۔ ۔ ۔ ۔۔ ( حجہ اللہ البلاغہ، 1/271-272) نور محمد اصح المابع کراچی 1302ھ معہ اردو ترجمہ مولانا حقانی، باب بیان ما کان علیہ جال اھل الجاھلیۃ فاصلحہ النبی ﷺ )۔
عرب میں دین ابراھیمی کی تاریخ و آثار
یہ امر واقعی ہے کہ حضرت اسماعیل ( علیہ السلام ) کی وفات کے مدتوں بعد تک اصل دین ابراہیمی باقی رہا بلکہ تمام آلایش و امتزاج سے پاک خالص دین کے بہ طور زندہ اور زیر عمل رہا، لہذا تمام ابتدائی پیروانِ حضرت اسماعیل ( علیہ السلام ) خالص دین ابراہیمی،حنیفیت مسلمہ، کے ماننے والے اور صحیح مسلمین ہی تھے جیسا کہ قرآن مجید ان کا نام مسلم ہی بتاتا ہے۔: ” ۔ھو سماکم المسلمین من قبل وفی ھذا ( الحج 78) شاہ ولی اللہ دہلوی نے بھی وضاحت سے لکھا ہے کہ بنو اسماعیل نے اپنے جد امجد حضرت اسماعیل ؑ کا طریقہ پایا اور ان کی شریعت پر مدتوں قائم رہے تا آنکہ عمرو بن لحی نے اپنی فاسد رائے سے اس میں بہت سی چیزیں دخل کردیں اور خود گمراہ ہوا اور دوسروں کو گمراہ کیا ۔ ۔ ۔ ۔۔ وکان بنو اسمائیل تو ارثو منھاج ابیھم اسماعیل فکانو علی تلک الشریعۃ الی ان وجد عمرو بن لحی فادخل فیھا اشیاء برایۃ الکاسد فضل و اضل (1/272)
مدتوں بعد جب دین ابراہیمی( حنیفیت) میں آمیزش ، بدعت اور انحراف کی کار گزاری شروع ہوئی تو بھی بہت سے لوگ اصل دین ابراہیمی پر باقی رہے اور حنیفیت پر قائم رہنے والوں میں شمار ہوئے، عرب مصادر کی تقریباً یہ متفقہ روایت ہے کہ عرب بالخصوص مکہ مکرمہ میں شرکت اور بت پرستی کی رسم و طرح ایک بدوی عرب سردار عمرو بن لحی خزاعی نے ڈالی جو شام کے سفر کے دوران بت پرستی سے آشنا ہوا تھا، بالعموم اسی شخص کو دین ابراہیمی کو بدل ڈالنے والا کہا جاتاہے، اس کی بدعت سے قبل عرب بالعموم دین حنیفی کے پیرو تھے:
” انہ کان اول من غیر دین اسماعیل فنصب الاوثان ۔ ۔ ۔۔ ۔ ” ( ابن ھشام، 1/81 و مابعد )”
واستبدلو بدین ابراہیم و اسماعیل غیرہ فبعدوالاوظان وصاروا الی ما کنات علیہ الامم قبلھم من الضلالات و فیھم علی ذلک بقایا من عھد ابراہیم یتمسکون بھا من تعظیم البیت ولطواف الاعمرۃ” ( ابن ھشام، 1/82 شاہ ولی اللہ دہلوی، حجۃ اللہ البلاغہ، 1/272 نیز 279)
بعثت نبوی سے قریب تین سو سال قبل ہی عمرو بن لحی کی بدعات شروع ہوئیں ا س سے قبل عرب اپنے جد امجد کےاصل دین پر قائم تھے، وہکان بنو اسمائل علی منہاج ابیھم الی ان وجدفیھم عمرو بن لحی و ذلک قبل مبعث النبی ﷺ قریبا من ثلثمانۃ سنۃ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ )۔
شرک و بت پرستی کے رواجِ عالم کے باوجود عرب کے مختلف قبائل میں حنفاء و احناف ہمیشہ موجود رہے، جغرافیائی لحاظ سے ان کا تعلق تمام سمتوں سے تھا، یہی وجہ ہے کہ احناف کا قبائلی تعلق مختلف علاقوں سے ملتا ہے اس کا سبب اصلی بقول مودودی ( رحمۃ اللہ علیہ ) “رسالت اسماعیلی ” کے اثرات و باقیات کی ان کی زندگی میں کار فرمائی تھا، وہ دین ابراہیمی سے وابستہ رہے اور تمام بدعات و انحرافات کے باوجود ان میں حنیفیت اور دین خالص کے بہت سے باقیاتِ صالحات باقی رہے، دین ابراہیمی کے ان کے مبارک بقایا ہی نے ان میں عقاید بھی کسی حد تک باقی و محفوظ رکھے اور اعمال دین اور رسول معاشرت بھی، قدیم و جدید علما نے دین ابراہیمی کے باقیات پر بہت کچھ لکھا ہے، شاہ ولی اللہ دہلوی نے بہت حکیمانہ بات لکھی ہے، کہ رسول اکرم ﷺ نے (اللہ کے حکم سے ) منہاج اسماعیل ؑکے موافق عربوں کی شریعت کے اجزاء کو باقی رکھا اور ان کے شعائر کورائج رہنے دیا ، تحریف و فساد کی اصلاح فرمادی: فما کان منھا موافقا لمنہاج اسماعیل ( علیہ السلام ) او من شعائر اللہ ابقاہ وما کانمھا تحریفا او فسادا۔ ۔ ۔ ابطلہ و سجل علی ابطالہ۔ ۔ ( حجۃ اللہ البلالغہ، 1/272)۔
1۔ مکہ مکرمہ اور قریش
بالعموم روایتی سیرت نگار مکہ مکرمہ کے چار قریشی احناف کا ذکر کرتے ہیں، ابن اسحاق کی رویات ہے کہ قریش اپنے اصنام ( بتوں ) میں سے کسی ایک بت کے پاس اپنی ایک عید منانے کے لیئے جمع ہوتے ، وہ اس کی تعظیم کرتے، اس کے لیئے جانور قربان کرتے اور اس کے سجدے و طواف کرتے، ہر سال کا ایک دن اس عید کے لیے مخصوص و معلوم تھا، قریش کے چار افراد نے اپنی قوم سے علیحدگی اختیار کرلی اور ایک دوسرے سے کہا: سچ بتاؤ اور ایک دوسرے کا راز محفوظ رکھو ، سب نے اتفاق کیا اور یہ تھے:
1۔ ورقہ بن نوفل اسدی قریشی
2۔ عبید اللہ بن حجش اسدی خزیمی، ان کی والدہ امیمہ بنت عبدالمطلب ہاشمی تھیں۔
3۔ عثمان بن الحویرث اسدی قریشی
4۔ زید بن عمر بن نفیل عدوی قریشی
ان سب نے بہ اتفاق حنیفیت دین ابراہیمی کو تلاش کرنے اور اسے اختیار کرنے کا عزم کیا ( 1/242) کچھ مدت وہ حنیفیت پر قائم و عامل رہے پھر تینوں اول الذکر نصرانی بن گئے اور مؤخر الذکر ہی صرف حنیفیت پر تا آخر قائم رہے، حضرت ورقہ بن نوفل اسدی کو بعثتِ محمد ؐکی تصدیق کا موقع ملا اور ان کو اسلام کی دولت ملی، یہ دولت عبید اللہ اسدی خزیمی کو بھی مکہ مکرمہ میں نصیب ہوئی تھی مگر حبشہ جاکر انہوں نے وہ کھودی اور بہ طور نصرانی حبشہ میں وفات پائی، عثمان بن حویرث اسدی قریشی بھی بہ بطور نصرانی شام میں مرے، صرف حضرت زید ” امت مسلمہ واحدہ ” اورحنیف کامل رہے
(1/243-244) سہیلی، 2/358-366 و مابعد، ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، مطبعۃ السعادہ مصر، غیر مورخہ ، 2/237-243، محمد بن حبیب بغدادی، کتاب المحبر، حیدرآ باد دکن، 1942، 171-172، کتاب المنمق، حیدرآباد دکن 1964، 175-158، ابن قتیبہ، کتاب المعارف، مرتبہ ٹروت عکاشہ، قاہرہ 1960، 59، ذکر ورقہ بن نوفل و زید بن عمر بن نفیل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ شرح الفوائد الغیاثیہ حواشی الکازرونی تفسیر البیضاری صحیح بخاری بلوغ الأرب، 2/269-275 برائے حضرت ورقہ بحوالہ آلوسی، بلوغ الأرب، 2/247-253 بحوالہ استیعاب، اصابہ، ابن اسحاق، واقدی، دوائی، دیباچہ العقائد العضدیہ عیسٰی الصفوی)
بقول مولانا شبلی و مودودی ( رحمۃ اللہ علیہ ) صرف یہی چار افراد حنفاء و احناف نہ تھے، متعدد دوسرے بھی تھے، لیکن ان دونوں نے مکی اور قریشی افراد کا اپنی فہرست احناف میں ذکر نہیں کیا ہے۔ بلکہ بدوی قبائل اور دوسرے دیار و امصار کے احناف کے اسماء گرامی بھی گنائے ہیں: زید بن بکار، نسب قریش، ابن کثیر، ابن اسحاق ، سہیلی، ابراہیم البقاعی، بذل النصح و الشفقۃ اللتعریف بھجۃ السید ورقہ)۔
مکہ مکرمہ اور قریش میں اور بھی صاحبانِ بصیرت تھے جو عرب کے رواجی دین سے بے زار اور دین ابراہیمی کے پیروکار تھے، ابن اسحاق و ابن ہشام نے جو سبب مذکورہ بالا چار افراد کے حنیف ہونے یا بننے کا بیان کیا ہے وہ بھی محل نظر معلوم ہوتا ہے، ان کی روایت سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان چاروں نے اچانک عیدِ قریش کے موقعہ پر اجتماعی طور سے رواجی دین ترک کیا تھا، بت پرستی چھوڑدی تھی اور حنیفیت کی جستجو میں لگ گئے تھے، اور وہ بھی اجتماعی طور سے ان کی دین فکر کے پیچھے ان کے غور و فکر اور دوسرے اساب و علل کا کوئی حوالہ نہیں ملتا اور جدید اہل قلم اس کا تجزیہ بھی نہیں کرتے، اصل بات یہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں مدتوں سے دین حنیف کو ماننے، دین ابراہیمی کی طرف لوٹنے اور رواجی مذہب سے دور رہنے کا رجحان پایا جاتا تھا اور بہت سے مردانِ کار نہ صرف توحید الہیٰ کے قائل تھے بلکہ وہ بہت سی شرعی قانونی روایات اور سماجی اقدار کی بھی پیروی کرتے تھے۔
ان میں ایک اہم ترین نام وجز بن غالب کا ہے جن کی کنیت ابو کبشہ تھی، وہ بتوں کی پوجا کا انکار کرتے تھے اور اس کو معیوب گردانتے تھے اور بت پرستوں پر طعن کرتے تھے، اسی بناء پر نبی کریم ﷺ کو سے مشابہ قرار دے کر مشرکینِ مکہ آپ ﷺ کو بھی ” ابو کبشہ یا ابن ابی کبشہ ” کہا کرتے تھے، کہ آپ ﷺ بھی بت پرستی کے خلاف تھے: ” کان وجز بن غالب ینکر عبادۃ الاصنام و یعیبھا ویطعن علی اھلھا و کان یکنی وبا کبشہ فشبھو الانبی ﷺ بہ” ( بلاذری، انساب الاشراف، مرتبہ محمد حمید اللہ، قاہرہ 1959ء، ( اول ) 1/91)
یہ وجز بن غالب خزاعی تھے اور رسول اکرم ﷺ کے نانا وھب بن عبد مناف زہری کی والدہ ماجدہ ہند بنت ابی قیلہ کے والد تھے، ابوقیلہ ان کی اصل کنیت تھی، وہ مکہ مکرمہ کے باشندے بن گئے تھے اور اس کے اہم ترین اکابر و سادات میں تھے، قریش رسول اکرم ﷺ کے لیے کہا کرتے تھے کہ اب ابی کبشہ نے یہ کہا ہے: ” فکانت قریش تقول للنبی ﷺ : فعل ابن ابی کبشہ کذا ” ( بلاذری، 1/91) محمد بن حبیب بغدادی، کتاب المحبر، مرتبہ ایلزرہ یحستن شیتیتر، حیدرآباد دکن 1942، 129-130)
بغدادی اور بلاذری نے بھی بعض اور ایسے موحدین کا ذکر کیا ہے جن کو ابو کبشہ کہا جاتا تھا۔ نبوی نانا کے علاوہ دوسرے یہ حضرات تھے:
1۔ عمر بن زید بن لبید نجاوی، عبدالمطلب کے نانا،
2۔ وھب بن عبد مناف زہری، رسول اکرم ﷺ کے نانا،
3۔ حارث / غبشان بن عمر بن لؤی بن ملکان ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔،
4۔ حارث بن عبد العزٰی سعدی ہوازنی، رسول اکرم ﷺ نے حاضن ( رضاعی باپ ) مرتب نے وجز بن غالب بن حارث کے لیے طبقات ابن سعد 1/1-31 کا حوالہ دیا ہے۔
خاندانِ بنی عبد مناف کے بانی اور رسول اکرم ﷺ کے ایک جدِ اعلیٰ عبد مناف بن قصی جن کا اصل نام مغیرہ تھا، لوگوں کو اللہ کے تقوٰی اور صلہ رحمی کا وعظ دیا کرتے تھے اور وصیت کرتے تھے: ” ان المغیرہ بن قصی اوصی قریشا بتقوی اللہ و صلۃ الرحم” یہ ایک کتابِ سنگ میں لکھی ہوئی یا نقش کی ہوئی وصیت بیان کی جاتی ہے اگرچہ اس کو ضعیف روایت مانا گیا ہے۔ ( بلاذری، 1/52) البتہ بعض اہل قلم نے پوری صحت و التزام کے ساتھ بیان کیا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کےدادا جناب عبدالمطلب بن ہاشم توحید الہیٰ کے قائل تھے اور بہت سے عقاید و اعمالِ دین ابراہیمی پر عمل پیرا بھی تھے، ان روایات کا روایتی و درایتی پایہ کمزور ہے ، ایک تاریخ داں کا واضح بیان ہے کہ انہوں نے بتوں کی عبادت ترک کردی تھی او ر اللہ عزو جل کی توحید کے قائل تھے: ” ورض عبادۃ الاصنام و وحد اللہ عزوجل۔ ۔ ۔ ۔ فکانت قریش تقل : عبدالمطلب ابراہیم الثانی۔ ۔ ۔ ۔ ووفی بالنذر و سن سننا نزل القرآن باکثرھا و جاءت السنۃ من رسول اللہ ﷺ بھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔” ( یعقوبی، تاریخ بیرت، 1960، 2/10 مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو خاکسار راقیم(ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی) کی کتاب ” عبدالمطلب ہاشمی ۔ ۔ ۔ رسول اکرم ﷺ کے دادا ” غیر مطبوعہ )۔
کعب بن لؤی بن غالب رسول اکریم ﷺ کے اجداِ اعلیٰ میں صاحب، بصیرت و شوکت سمجھے جاتے تھے، زبیر بن بکار کے مطابق وہ ہر جمعہ کو قریش کو جمع کرتے اور ان کو اطاعت ، فہم، تعلم، اور تفکر کی دعوت دیتے کہ وہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور رات دن کی گردش پر غور کریں، اولین و آخرین کے احوال و اعتبار کو سمجھیں ، وہ ان کو صلہ رحمی، اسلام کی اشاعت ، عہد کی پاس داری، رشتہ داری، کی رعایت اور فقیروں اور یتیموں کے ساتھ حسن سلوک پر ابھارتے ، موت اور اس کی ہولنا کیوں سے ڈراتے، یومِ موعود اور اس کے احوال یاد دلاتے اور نبی آخر الزماں کی بعثت کی بشارت دیتے تھے، ان کی کرامات و حالات و خیالات کی بناء پر یہ سمجھا جاتا کہ وہ دین ابراہیمی سے تمسک اور حنیفیت پر گامزنی کے باعث ان میں آئے تھے، اسی بناء پر بہت سے علماء کا خیال ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے تمام صلبی اجداد ( جمیع اصول النبی علیہ الصلاۃ و السلام ) اپنے اعتقاد کے لحاظ سے موحدین اور بعثت بعد الموت اور حساب اور دوسرے احکام حنیفی پر ایمان رکھنے والے تھے جیسا کہ ماوردی نے اعلام النبوہ میں بیان و واضح کیا ہے، آلوسی نے اسی ضمن میں دوسرے اجداد نبوی جیسے عبدالمطلب، ہاشم عبدمناف ، قصی ، عبداللہ بن عبدالمطلب کا ذکر خیر بھی کیا ہے اگرچہ حوا نبوی سے کیا ہے، ( بلاغ الارب، 2/281-282) خاتمہ بحث احناف در بلوغ الارب )۔
2۔ یثرب / مدینہ
دور جاہلیت میں توحید الہیٰ اور دینِ ابراہیمی کا دوسرا بڑا مرکز یثرب تھا جو مکہ سے پانچ سو کلو میٹر شمال میں تھا، اور اوس و خزرج کے دو جنوبی عرب کے قبیلے وہاں آباد تھے اور وہ بھی رواجی دین عرب کے ساتھ دین ابراہیمی سے تعلق رکھتے تھے، ان کے علاوہ یہودیوں کے متعدد قبیلے اور شاخیں بھی یثرت میں سکونت پذیر تھیں اور وہ بھی بہرحال دین ابراہیمی کی شاخیں تھیں، یہ دوسری بات ہے کہ انہوں نے اصل دین میں انحرافات پیدا کرکے اس کی ا صل صورت بگاڑ کر اسے یہودیت بنا دی تھی، تاہم وہ توحید الہی کے قائل اور اس پر عامل تھے، سب نہ سہی تو کافی تعداد میں اور اس کی تصدیق قرآن مجید سے ہوتی ہے، پھر وہ بہرحال بت پرستی اور شرک کی دوسری عرب رواجی خرافات سے مبرا تھے اور حضرت ابراہیم سے اپنا ربط جوڑتے تھے، اوس و خزرج کے قبیلے کچھ تو دین ابراہیمی کے باقیاتِ صالحات کی بناء پر اور کچھ یہودی علماء و احبار کے صحیح افکار کے سبب حنیفیت سے واقف بھی تھے اور ان میں سے بعض اس کے قائل و عامل بھی۔
یثرب کے ایک اہم شخص سُوید بن صامت اوسی تھے، وہ اپنی عقل و فہم ، صلاحیت و لیاقت اور پاکیزگی کی بناء پر ” الکامل ” کئ لقب سے معروف تھے، ان کی والدہ رسول اکرم ﷺ کے دادا جناب عبد المطلب ہاشمی کے خالہ زاد بھائی تھے۔ ان کو امثالِ لقمان کا ایک صحیفہ یا مجلہ مل گیا تھا اور اس بناء پر ان کو ” حنیف ” سمجھا جاتا تھا، رسول اکرم ﷺ سے ان کی ملاقات بھی ہوئی تھی اور وہ اسلام سے متاثر بھی ہوئے تھے۔ ( ابن ہشام، 2/34-36) سہیلی ، الروض الانف،متربہ عبدالرحمن الوکیل،قاہری،1967، 4/43، 65-67،شبلی، 1/260-261، بلاذری، 1/238):” وکانو یرون انہ مسلم” )
“صِرمہ بن انس، یہ بنی عدی بن نجار میں سے تھے، جاہلیت کے زمانے میں درویشی اختیار کرلی تھی، بت پرستی چھوڑ دی تھی، غسل جنابت کرتے تھے اور حائضہ سے پرہیز کرتے تھے، شراب اور ہر نشہ آور چیز کو ناپسند کرتے تھے، پہلے عیسائی ہونے کا ارادہ کیا پھر رک گئے اور ایک مسجد بنا لی جس میں کسی جنبی یا حائضہ کو نہیں آنے دیتے تھے، کہتے تھے کہ میں رب ابراہیم کی عبادت کرتا ہوں اور دین ابراہیمی کا پیرو ہوں، ان کا ایک شعر یہ ہے:
الحمد للہ ربی لا شریک لہ من لم یقلھا فنفسہ ظلما
رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو یہ بہت بوڑھے ہوچکے تھے، انہوں نے حاضر ہوکر اسلام قبول کیا”، ( مودودی، سیرت، 2/71 بحوالہ الاستیعاب، ج 1/323، الاصابہ، 2/179، ابن ھشام، 2/156)
ابن قتیبہ نے ابو قیس صرمہ بن ابی نس نجاری کے بارے میں تقریباً یہی لکھا ہے: ” وکان ترھب ولیس المسوح و فارق الاوثان وھم بالنصرانیہ ثم امسک عنھا و دخل بیتا فاتخذہ مسجد الا یدخل علیہ ثامث و لا جنب و قال: اعبد رب ابراہیم فلما قدم رسول اللہ ﷺ المدینۃ اسلم و حسن اسلامہ ” نعتِ نبوی میں ان کا ایک طویل قصیدہ بھی ہے، ( ابنِ قتیبہ، کتاب المعارف 61، ابن ھشام، 2/130) بلوغ الارب، 2/266)۔
ابن سعد نے یثرب کے دو اور موحدین کا ذکر کیاے، وہ ہیں” اسعد بن زرارہ نجاری خزرجی اور ابو الہیثم بن التیہان اور دونوں یثرب میں توحید کی بات کیا کرتے تھے: ” وکان اسعد بن زرارۃ و ابو الھیثم بن التیہان یتکلمان بالتوحید بیثرت” ( الطبقات الکبری، دار صادر بیروت 1960، 1/218)
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ذکوان بن عبد قیس نے رسول اکرم ﷺ کا پیغام سن کر حضرت زید بن زرارہ سے کہا تھا کہ یہ تو تمہارا دین معلوم ہوتا ہے، حضرت ذکوان بن عبد قیس بھی انہیں موحدین اور احناف میں شمار کیئے جانے کے لائق ہیں، انہوں نے رسول اکرم ﷺ کے پیغام کے بارے میں سنا تو مدینہ ہجرت کرکے مکہ پہنچے اور اسلام قبول کرکے وہیں بس گئے اور پھر آپ ﷺ کے ساتھ ہی مکہ سے مدینہ کو گئے تھے اسی لیے ان کو ” مہاجری انصاری ” دونوں کہا جاتا تھا، ” ( بلاذری 1/245) بلاذری نے ان کے لیے ” فھو من مھاجری الانصار ” کا فقرہ استعمال کیا ہے کہ ان کے علاوہ بعض اور ایسے مدنی تھے جو مکہ میں بس گئے تھے اور یہ ایک اور قریبہ ان کے حنیف ہونے کا ہے کہ اسی کےزیر اثر و ہ بعثت نبوی ﷺ کی خبر سن کر مکہ ہجرت کرگئے تھے۔
3۔ قبائل عرب
مکہ و یثرب کے علاوہ دوسرے شہروں کے حوالے سے احناف کی تاریخ بیان کرنا مشکل ہے، اس کی متعدد وجوہ ہیں، ان میں سے سب سے اہم یہ ہے کہ ان کی قبائلی نسبت زیادہ معروف بھی ہے اور وسیع بھی، ان کی مکانی نسبت اتنی اہم نہیں کہ وہ کسی خاص علاقہ سے وابستہ ہونے کے باوجود اس سے ذیادہ متعلق نہ تھے، ان میں سے متعدد کا تعلق بیک زمان متعدد علاقوں سے بھی تھا یا مختلف ادوارِ حیات میں وہ مختلف دیار سے وابستہ رہے، مزید یہ کہ علاقائی و مکانی نسبت کی بجائے ان کے بارے میں معلومات زیادہ تر قبائیلی تعلق کے حوالے سے ملتی ہیں، لہذا دوسرے موحدین اور حنفاء کا ذکر ان کی قبائلی نسبت سے کرنا زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔
(a)ثقیف / ہوازن (شاعر امیہ بن ابی الصلت کا قبیلہ )
عہد جاہلی کے مشہور شاعر امیہ بن ابی الصلت ربیعہ بن وھب ثقفی کو احناف میں شمار کیا گیا ہے، ہمارے بعض راویان خوش بیان کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ احناف کے اوصاف طہارت و صفاتِ عالیہ کی بنا کر ان کو نبی کے درجہ پر فائز کردیتے ہیں۔ چناچہ بعض روایات نے امیہ ثقفی شاعر کو بھی نبی بنا دیا ہے جیسے بعض دوسروں کو بنایا ہے، اس باب میں یہ واضح رہنا ضروری ہے کہ حضرت اسماعیل ( علیہ السلام ) کے بعد حضرت محمد بن عبداللہ ہاشمی ﷺ تک کوئی رسول و نبی سر زمینِ عرب میں مبعوث نہیں ہوا۔ یہ اسلامی عقیدہ بھی ہے اور تمام قدیم و جدید ماہرین کا متفہ فیصلہ بھی۔
( ابن کثیر، البدایہ و النہایہ ، 2/212: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وقد قال ” غیر واحد من العلماء ان اللہ تعالی لم یبعث بعد اسماعیل نبیا فی العرب الا محمدا ﷺ ) غالبا ان روایات کا مقصود بھی یہی ہے کہ وہ اوصافِ نبوی کے حاملینِ عالی مقام تھے کیوں کہ وہ (روایات) بھی انکی نبوت کی بعد میں تردید کرتی نظر آتی ہیں یا ان کے بارے میں وضاحتی بیانات دیتی ہیں، امیہ بن ابی الصلت ثقفی کے باب میں بھی نظر یہی آتا ہے۔ ( ابن کثیر، البدایہ وا النہایۃ، 2/12: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ والظاہر ان ھؤلاء کانو قوما صالحین یدعون الی الخیر و اللہ اعللم )
حافظ ابن عساکر کے مطابق وہ دمشق گئے تھے اور وہ مستقیم صاحبِ جادہ حق تھے، اول امر میں ایمان پر تھے بعد میں گمراہ ہوئے ، (ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 2/220-221) ابن قتیبہ، کتاب المعارف، 60، بلوغ الارب، 2/253-258 بحوالہ اصمعی، صحیح مسلم، اصابہ، شرح دیوان امیہ از محمد بن حبیب، الاغفانی ابن قتیبہ، طبقات الشعراء، دیوان امیہ وغیرہ)، شاہ ولی اللہ دہلوی حجۃ اللہ البالغۃ، 1/275-276: ان النبی ﷺ صدق امیۃ بن الصلت فی بیتین من شعرہ)
حافظ طبرانی کی سند پر ایک روایت ابن کثیر نے نقل کی ہے جو امیہ بن ابی الصلت ثقفی کے دین و عقیدہ کو بتاتی ہے، اس کا لبِ لباب یہ ہے کہ حضرت ابوسفیان بن حرب اموی اور امیہ ابن ابی الصلت ثقفی ایک بار شام تجارت کے لیے گئے، وہاں نصاریٰ کے ایک گاؤں کے ایک عظیم عالم سے ملاقات کی اور امیہ ثقفی نے نہ صرف آخرت اور مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے اور جنت و جہنم کے دخول کے بارے میں اپنے عقیدہ کا اظہار کیا بلکہ جناب ابو سفیان اموی کو ان کا قایل کرنے کی کوشش کی: ” بلی! و اللہ یا ابا سفیان ! لتبعثن ثم لتحاسبن ولید خلن فریق الجنۃ و فریق النار ( 2/222) اسی سفر کے دوران رفقائے تجارت نے عتبہ بن ربیعہ کی صفات عالیہ کے علاوہ اہل بیت اللہ میں سے ایک نبی مکرم کے مبعوث ہونے پر بھی مباحثہ کیا، ان کی صفات بیان کیں، امیہ بن ابی الصلت ثقفی نے عیسائی عالموں کے بیان کردہ صفات نبوی کا مستحق اپنی ذات کو سمجھا تھا۔ محمد بن عبداللہ ہاشمی ﷺ کی نبوت و رسالت کی خبریں سن کر ان کی ثقفی عصبیت جاگ اُٹھی اور انہوں نے رسالت محمد تسلیم کرنےسے انکار کردیا اور اس کی بنا پر وہ ذلت و توہین کا ہدف بھی بنے، ( 2/223) بعض روایات کے مطابق انہوں نے بالآخر رسول اکرم ﷺ سے ملاقات کی اور سورۃ یٰس کی تلاوت نبوی سن کر نبوت کی تصدیق کی ، اور غزوہ بدر کے بعد وہ ایمان کے لیے تیار بھی ہوئے پھر غیرت قومی کا شکار ہوکر بلا ایمان مرے ( 2/226 و ما بعد )۔
امیہ بن ابی الصلت ثقفی بنیادی طور سے طائف کے باشندے تھے اور قریش مکہ سے قریبی ربط رکھتے تھے، ان کی ماں اموی / عبشمی سردار مکہ عبدالشمس بن عبد مناف کی دختر رقیہ تھیں، اس بنا پر وہ بنو عبد شمس / بنو امیہ کے قریبی عزیز تھے، حضرت ابوسفیان بن حرب بن امیہ بن عبد شمس کا ان سے رشتہ بہت قریبی تھا (2/221) ان کے کلام کی صداقت کی تائید رسول اکرم ﷺ کی ایک حدیث شریف سے بھی ہوتی ہے اور ان کی حنیفیت کی بھی، حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ تعالی عنہ ) کی روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: بلا شبہ سب سے سچا کلمہ جو کسی شاعر نے کہا وہ کلمہ لبید ہے:” الا کل شئ مال خلا اللہ باطل ” اور امیہ بن ابی الصلت تو مسلمان ہونے کے قریب تھے: ” وکان امیہ بن ابی الصلت ان یسلم ” ان کے بارے میں یہ حدیث کہ شعر ان کا مومن تھا اور دل ان کا کافر: ” آمن شعرہ و کفر قلبہ ” حافظ ابن کثیر کے نزدیک غیر معروف ہے، ( شاہ ولی اللہ دہلوی، حجۃ اللہ البالغۃ، 1/227: شاہ صاحب نے منہاج اسماعیل کے اثرات کو قبول کیا ہے، ابن کثیر ، البدایہ و النہایہ، 2/228 ومابعد)۔
(b)بنو عبس بن بغیض
بنو عبد کا قریبی رشتہ غطفان اور اس کی ذیلی شاخ سے تھا اور وہ ایک عظیم و طاقت ور قبیلہ تھا، اسے غطفان میں بھی بہت اہم مقام حاصل تھا، ان کی طاقت سیاسی، سماجی، فوجی اور عددی تھی، وہ مکہ و مدینہ کے مابین بستے تھے اور ان کے ایک اہم صحابی حضرت نعیم ابن مسعود اشجعی تھے جو بنو عبس بن بغیض کے بھی عامل صدقات مقرر کیے گئے تھے۔ ان کے علاوہ متعدد دوسرے اکابر قبیلہ تھے، ( عہد نبوی میں تنظیم ریاست و حکومت ، باب دوم، 148-149 وما بعد اور ان کے حواشی )
اس کے ایک حنیف و موحد کا نام خالد بن سنان بن غیث تھا، ان کے بارے میں بھی روایت آتی ہے کہ وہ ایک نبی تھے۔ ( ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، 2/211: الذی کان فی زمن الفترۃ و قد زعم بعضھم انہ کان نبیا واللہ اعلم: بحوالہ طبرانی، بزار ) جن کو ان کی قوم نے ضایع کردیا، وہ دبادتِ اوثان ترک کرچکے تھے، دین ابراہیمی کے متلاشی تھے اور قیامت کا عقیدہ رکھتے تھے، ان کی دختر نیک اختر رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ ﷺ کو سورہ اخلاص تلاوت کرتے ہوئے سنا۔ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (١) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو انہوں نے بے ساختہ کہا کہ میرے والد بھی یہی کیا کرتے تھے کہ اللہ ایک ہے، ( ابن قتیبہ، کتاب المعارف، 62، ابن کثیر، البدایۃ و النہایہ، 2/211-212، بلوغ الارب، 2/278-280: کان مقرابتوحید الربوبیۃ والا لوھیۃ ناھجا منھم الملۃ الحنیفیہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بحوالہ ابوعبیدہ معمر بن المثنی، کتاب الجماجم، حاکم مستدرک ، الدمیری حیاۃ الحیوان، القزوینی، العکبری، شرح المقامات، ابن حجر ، الاصابہ وغیرہ )
حافظ ابن کثیر نے ان کے نبی ہونے کی روایات پر تنقید کی ہے اور کیا ہے کہ وہ ایک مرد نیک تھے جن کو احوال و کرامات حاصل تھے اگرچہ ہو زمانہ فترۃ میں تھے : ” والاشبہ انہ کان رجلا صالحا لہ احوال و کرامات فانہ ان کان فی زمان الفترۃ .
©عبد القیس
عرب کے مشرقی سواحل پر ایرانی سرحدوں کے قریب عبدالقیس کا طاقت ور قبیلہ بڑی آبادی رکھتا تھا، وہ موحدین و اہل ملت کی جماعت بھی رکھتا تھا اور متعدد دوسرے مردانِ حق کار اور متلاشیانِ حق کے وجود سے بھی مشرف تھا، ( عہد نبوی میں تنظیم ریاست و حکومت ، باب دوم، 190-192 و مابعد اور اس کے حواشی)
جاہلی دور میں رئاب بن البراء عبد القیسی کو حنیف یا متلاشی حق مانا گیا ہے بعد میں وہ نصرانی بن گئے تھے، ان کو اپنے دور کے بہترین افراد میں گردانا جاتا تھا. قبیلہ / خاندان ” شن ” سے متعلق ہونے کی بنا پر وہ ” رئاب الشنی ” کہلاتے تھے ( ابن قتیبہ 58)، آلوسی نے ان کا نام ارباب بن رئاب شنی عبدالقیسی لکھا ہے اور ماوردی ی کتاب اعلام النبوۃ حوالہ سے ایک نشنی کے بت پرستی سے تائب ہونے کا ذکر کیا ہے کہ وہ بعد میں مکہ پہنچ کر مسلمان ہوگئے، رسول اکرم ﷺ سے ان کی ملاقات اور ندائے ہاتف کا حوالہ بھی ہے ( بلوغ الارب، 2/258-259، بحوالہ ابن قتیبہ، المعارف، و ماوردی )۔
(d)حمیر
جنوبی عرب کی جو زرخیز ساحلی پٹی یمن سے ہجر تک جاتی ہے وہ عظیم و کبیر قبیلہ حمیر کی سر زمین تھی، ( عہد نبوی میں تنظیم ریاست و حکومت ، باب دوم، 177 ومابعد اور اس کے حواشی ) اس کے ایک عظیم فرد اور بطل جلیل اسعد ابوکرب الحمیری تھے، اگرچہ وہ جنوبی عرب کے فرد تھے مگر بیت اللہ سے ان کو خاص تعلق تھا اور روایت کے مطابق وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے خانہ کعبہ پر چمڑ ے اور کپڑے کی چادریں ( انطاع و البرود ) کا غلاف چڑھایا تھا، یہ اشارہ ان کے صاحبِ ایمان و عقیدہ ہونے کی طرف ہے۔ ان کا زمانہ ابن قتیبہ کے مطابق رسول اکرم ﷺ سے سات سو سال قبل کا تھا، ( ابن قتیبہ کتاب المعارف ، 60، آلوسی، بلوغ الارب، 2/260۔ بحوالہ ابن قتیبہ، کتاب المعارف)۔
(e)قبایل یمن و جنوبی عرب
سیف بن ذی یزن والی / شاہِ یمن اور عبد المطلب ہاشمی کی ملاقات کا ذکر تقریباً تمام اہل سیر نے کیا ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ نبی آخر الزماں کی بعثت کے علاوہ الہ واحد کے قایل تھے ، ان کے علاوہ ” یمن میں چوتھی، پانچویں صدی عیسوی کے جو کتبات آثارِ قدیمہ کی جدید تحقیقات کے سلسلے میں برآمد ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں وہاں ایک توحیدی مذہب موجود تھا جس کے پیرو الرحمان اور رب السماء و الارض ہی کو الہ واحد تسلیم کرتے تھے۔ 378ء کا ایک کتبہ ایک عبادت گاہ کے کھنڈر سے ملا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ یہ معبد ” الہ دوسموی ” یعنی الہ الاسماء یا رب السماء کی عبادت کے لیئے بنایا گیا ہے۔ 465ء کے ایک کتنے میں ” بنصر ورداً اثمن بعل سمین و ارضین و ابنصرین و بعون الا الہ رب السماء والارض ” کے الفاظ لکھے ہیں جو عقیدہ توحید پر صریح دلالت کرتے ہیں ۔ اسی دور کا ایک اور کتبہ ایک قبر پر ملا ہے جس میں ” بخیل رحمنن ” ( یعنی استعین بجول الرحمن ) کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح شمال میں دریائے فرات اور قنسرین کے درمیان زَبد کے مقام پر 512ء کا ایک کتبہ ملا ہے جس میں ” بسم الا الہ لا عزالا لہ لا شکر الا لہ ” کے الفاظ پائے جاتے ہیں۔ یہ ساری باتیں بتاتی ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے انبیائے سابقین کی تعلیمات کے آثار عرب سے بالکل مٹ نہیں گئے تھے اور کم از کم اتنی بات یاد دلانے کے لیے بہت سے ذرائع موجود تھے کہ تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے، ( مودودی، تفہیم القرآن، 4/37 بلاحوالہ ، بلوغ الارب، مالہ ہذا کی بحث پر عقاید و اعمال احناف )۔
(f).قبیلہ ایاد / بکر بن وائل – عبد القیس
غالباً عہد جاہلیت کے سب سے بڑے قبایلی حنیف قُس ابن ساعدہ ایادی تھے، ان کا طویل ذکرِ خیر ملتا ہے، ابن قتیبہ نے ان کو آیات اللہ پر ایمان رکھنے والا عرب کا حکم قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ان کو بعثت سے قبل عکاظ میں ایک سرخ اونٹ پر خطبہ دیتے دیکھا تھا، حضرت ابوبکر (رضی اللہ تعالی عنہ ) ان کے قصے بیان کرتے اور اشعار سناتے تھے ( ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، 2/234 کے مطابق حضرت ابوبکر ( رضی اللہ تعالی عنہ ) نے فرمائشِ نبوی پر ان کے اشعار سنائے تھے جو عکاظ میں خود ان سے سنے تھے ) ” ( کان مقنا بآیات اللہ )، وکان حکم العرب و ذکر رسول اللہ ﷺ انہ راہ یخطب بعکاظ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔( ابن قتیبہ، 61) ( نیز ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، دار صادر بیرو، 1960ء، 1/315 ذکر قس بن ساعدہ: وفد بکر بن وائل، بلوغ الارب، 2/244-246)
حافظ ابن کثیر کے مطابق رسول اکرم ﷺ نے قس بن ساعدہ الایادی سے اپنی ملاقات کا ذکر خیر اس وقت فرمایا تھا جب قوم ایاد کا وفد آپ ﷺ کی خدمت میں مدینہ منورہ حاضر ہوا تھا، آپ ﷺ نے ان کے بارے میں ایک شخص سے پوچھا تھا اور ان کی وفات کی خبر سن کر ارشاد فرمایا تھا اور ان کے کلامِ معجز کا حوالہ دیا تھا، یہ حافظ ابو بکر محمد بن جعفر خرائطی کی کتاب ” ہواتف الجان ” کے حوالے سے نقل کیا ہے۔
دوسری روایت اسی مضمون کی امام طبرانی کی کتاب ” المعجم الکبیر ” کے حوالے سے نقل کی ہے جو زیادہ بہتر ہے: رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں قبیلہ عبد القیس کا وفد آیا تو آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ قس بن ساعدہ ایادی کو کون جانتا ہے؟ سب نے کہا کہ وہ جانتے تھے اور ان کی وفات کی خبر سن کر آپ ﷺ نے ان کے خطبہ کے الفاظ نقل فرمائے جو آپ ﷺ کو یاد ہوگئے تھے، ان میں دین کے لحاظ سے ایک جملہ یہ ہے کہ اللہ کا ایک دین ہے جو تمہارے دین سے زیادہ پسندیدہ ہے”: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان للہ دینا ھو احب الیہ من دینکم الذی انتم علیہ ” (2/231) ارکان وفد سے آپ ﷺ نے ان کے اشعار بھی سنے تھے جو اس خبر میں نقل کیے گئے ہیں، حافظ ابن کثیر نے دوسرے کئی مصادر سے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے جیسے بیہقی کی ” دلائل النبوۃ ” ، ابن درستویہ کی ” اخبار قس “، ابو نعیم اور ابن اسحاق ، امام ذہبی وغیرہ)۔
ایک روایت میں ہےکہ حضرت جارود بن المعلی العبدی کے وفد میں یہ مکالمہ نبوی ہوا تھا، حضرت جارود نے بتایا تھا کہ وہ اسباطِ عرب میں سے ایک سبط تھے، چھ سو سال کی طویل عمر پائی، فقیری و درویشی میں بسر کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اولین عرب تھے جو توحید الہی کے قائل تھے، عبادت الہی کرتے تھے، آخرت و حساب پر ایمان رکھتے تھے، کفر سے بے زار تھے، حنیفیت کی طرف مائل تھے، ” ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وھو اول رجل تالہ من العرب و وحدہ و اقرو تعبدو و ایقن بالبعث و الحساب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وجنب الکفر و شوق الی الحنیفیہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” حضرت جارود عبدی کی تقریر کافی طویل ہے اور عربی ادب کا ایک شاہکار ۔ ۔ ۔ اس پر اسلامی اقدار و تعبیرات کا رنگ پایا جاتا ہے۔
( ابن کثیر، البدایہ النہایہ، 2/230-237 بالخصوص حنیفیت کے لیے 233، مولانا شبلی ؒ، 1/126 ومابعد، حجۃ اللہ البالغہ، 1/277)۔
بکر بن وائل کے ہی ایک عظیم جاہلی شاعر اعشیٰ بن قیس بن ثعلبہ کا ذکر ابن ہشام نے کیا ہے ، ان کی روایت تو یہ ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام لانے کے ارادے سے وطن سے نکلے تھے اور اس ضمن میں ایک مدحیہ قصیدہ بھی کہا تھا، ابن ہشام نے اسے نقل کیا ہے، روایت کے بہ موجب جب وہ مکہ مکرمہ پہنچے تو قریش نے ان کو ورغلا دیا اور وہ یہ کہ کر لوٹ گئے کہ اگلے سال اسلام قبول کریں گے مگر موت نے مہلت نہ دی اور وہ اسی سال جاں بحق ہو گئے، ان کے مدحیہ قصیدہ میں کچھ اشعار بتوں کی پرستش سے ان کی بے زاری ، اللہ کی عبادت گذاری اور موت کی جاں گساری کا ذکر کرتے ہیں:
ولا النصب المنصوب لا تنسکنہ ولا تعبد الاوثان واللہ فاعبدا
( ابن ہشام، 1/411-416 بالخصوص 414 برائے شعر )۔
قبیلہ / بطن ایاد کے ایک اور حنیف حضرت کیع بن سلمہ بن زہیر ایادی تھے جن کا ذکر سید مودودیؒ نے کیا ہے تفہیم القرآن، 4/37، آلوسی، بلوغ الارب، 2/260-261 بحوالہ ابن الکلبی )
آلوسی کے مطابق ابن الکلی نے بیان کیا ہے کہ وکیع بن سلمہ جرہم کے بعد بیت اللہ کے متولی بنے تھے اور زیریں مکہ میں ایک بنیاد (صوحا ) انہوں نے بنایا تھا اور اس میں ایک ” امۃ ” بنائی جس کو حزورہ کہا جاتا تھا، اسی میں وہ چڑھ کر اللہ تعالی سے مناجات کرتے تھے اور عمدہ باتیں کرتے تھے، علمائے عرب کا خیال ہے کہ وہ صدیقین میں سے ایک صدیق تھے، ان کے کلام کے چند جملے بھی نقل کیے ہیں، اور وصیت بھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حنیفیت کے قائل تھے ان کی وفات ہوئی تو زبردست نوحہ و ماتم کیا گیا اور اس کے بارے میں ہم قبیلہ شاعر بشیر بن حجیر ایادی نے اشعار کہے جن میں سے دو میں توحید الہی اور تولیت کعبہ کا ذکر موجود ہے:
ونحن ایاۃ عباد الا الہ ورھط منا جیہ فی سلم
و نحن ولاۃ الحجاب العتیق ( زمان النخاع ) علی جرھم
ان اشعار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بطن ایاد کے صرف یہ دو بزرگ ہی حنفاء میں شامل نہیں تھے بلکہ شاعر بشیر ایادی بھی شامل تھے اور ان کی تصدیق کے مطابق پوری ” قومِ ایاد ” عبادت اللہ کی قایل تھی۔ کہ وہ ” عباد اللہ ” تھے، سب نہ بھی رہے ہوں تو کم از کم معتدبہ تعداد تو حنیف ہی معلوم ہوتی ہے۔
(g).بنوعامر بن صعصہ
ایک بڑے قبیلہ ہوازن کا عظیم ترین بطن بنو عامر بن صعصہ تھا جو مکہ مکرمہ اور طایف سے مربوط رہا تھا، وہ اپنی عددی طاقت اور عظمتِ افراد کے سبب خود ایک عظیمی قبیلہ بن گیا تھا، اس کو قریش کے بعد بڑے قبایل میں سمجھا جاتا تھا، وہ مختلف علاقوں میں پھیلا ہوا تھا لیکن اس کی بیشتر شاخیں مکہ، طائف اور مدینہ کے قرب و جوار میں آباد و سکونت پذیر تھی، ( عہد نبوی میں تنظیم ریاست و حکومت، باب دوم، 151، 154 وما بعد بالخصوص اس کے حواشی)
اس قبیلہ کے ایک عظیم شاعر النابغہ الجعدی تھے ۔ جاہلیت کے زمانے میں دین ابراہیمی اور حنیفیت کا ذکر کیا کرتے تھے ، روزے رکھتے تھے اور استغفار کرتے تھے، ان کے زمانہ جاہلیت کے کلام میں توحید اور حیات بعد موت اور جزا و سزا اور جنت و دوزخ کا ذکر ملتا ہے، بعد میں انہوں نے اسلام قبول کیا” ، ( مودودی، سیرت، 2/71 بحوالہ الاستیعاب، 2/310)
اسد الغابہ میں بھی ان کے توحیدی اشعار ، دین ابراہیمی اور حنیفیت اور روزہ و استغفار کا ذکر پایا جاتا ہے، ابن قتیبہ نے بھی ذکر کیا ہے، النابغہ ان کی شعری و بلاغی صلاحیت کے سبب ان کا لقب تھا، ان کا اصل نام صحیح ترین قول کے مطابق قیس بن عبداللہ بن وحوح بن عدس بن ربیعہ بن جعدہ تھا، وہ نابغہ ذبیانی سے زیادہ معمر تھے کیوں کہ نابغہ ذبیانی شاہِ حیرہ نعمان بن منذر کے ندیم تھے اور نابغہ جعدی اس کے پیش رو منذر بن ححرق کے ندیم تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کو ایک سو اسی سال کی عمر عطاء ہوئی تھی یا زیادہ، وہ حضرت عبداللہ بن زببیر کے زمانہ خلافت یا اس کے بعد تک حیات رہے، انہوں نے نعتیہ قصاید بھی کہے تھے، ( بلوغ الارب 2/137-138) ابن اثیر، اسد الغابہ، 5/2-4: ” وکان یذکر فیہ الجاھلیۃ دین ابراہیم و الحنیفیۃ ویصوم و یستغفر )
حضرت لبید بن ربیعہ عامری بنو عامر بن صعصعہ کے دوسرے بڑے شاعر اور حنیف تھے اگرچہ ان کا ذکر خیز احناف جاہلیت میں بالعموم نہیں کیا جاتا، ان کا تعلق ایک دوسری شاخ قبیلہ بنو کلاب بن ربیعہ بن عامر بن صعصبہ سے تھا، امیہ بن ابی الصلت ثقفی کے ذکر کے ضمن میں جن حضرت لبید اور ان کے صادق کلمہ شاعر کا حوالہ آیا ہے وہ یہی حضرت لبید ہیں اور وہ بعد میں مسلمان بھی ہوگئے تھے، ان کے اشعار میں الہ واحد، اللہ عزو جل اور توحید کے علاوہ آخر ت و بعث بعد الموت اور نبوت و رسالت وغیرہ کا ذکر ملتا ہے، قریش اور اکابر مکہ سے ان کے قریبی روابط تھے اور انہیں کی ایک مجلس میں انہوں نے اپنے مذکورہ حمدیہ اشعار سنائے تھے، یہ اشعار اور دوسرے حنیفی اشعار عہد نبوی کے ابتدائی مکی دور میں مقبول و رائج بھی تھے ۔
( ابن ہشام، 1/392، ومابعد ، 2/157، ،وغیرہ، سہیلی، 3/349-352 وما بعد در مجلدات دیگر بخاری، الجامع الصحیح، بلوغ الارب، 3/130-133 بحوالہ ابن قتیبہ، الشعر و الشعراء ابن عبد البر، الاستیعاب،، ابو حاتم السجستانی، کتاب المعمرین )۔
(h).بنو سُلَیم
مكہ اور یثرب كے درمیانی علاقہ بنو سلیم كا خاندان بِطن آباد تھا۔ یہ قیس عیلان قبیلہ كا عظیم ترین جزو تھا۔ ان كے مكہ اور یثرب دونوں سے قریبی تعلقات تھے۔ بنو سلیم كی ایك شاخ تو بنو ہاشم كی حلیف و معاون بھی رہی تھی۔ وہ اپنی عددی قوت، فوجی طاقت بالخصوص شہ سواروں كے لیے ممتاز تھے اور ان میں مردان كار كی كمی نہیں تھی۔ ان میں سے بعض كے ہاں حنیفیت كا رجحان پایا جاتا تھا۔ وہ اپنی عرب موحدانہ روایات كے لیے معروف تھے اور دوسری عرب اقدار كے لیے بھی۔ (عہدِ نبویؐ میں تنظیم ریاست و حكومت، باب دوم، 140-143 اور اس كے حواشی) حضرت عمرو بن عبسہ سُلَمی مشہور صحابی ہیں ، اسلام لانے سے قبل ہی وہ بتوں كی پرستش سے بے زار ہوگئے تھے۔ امام احمد نے اُن كا اپنا قول نقل كیا ہے كہ ’’میں جاہلیت كے زمانے میں لوگوں كو گمراہی پر سمجھتا تھا اور بتوں كے متعلق میرا خیال تھا كہ یہ كچھ نہیں ہیں۔‘‘ اُن كا ایك اور قول یہ نقل كیا گیا ہے كہ ’’میرے دل میں یہ بات ڈال دی گئی تھی كہ بتوں كی پرستش باطل ہے۔ ایك شخص نے میری یہ باتیں سنیں تو كہا كہ مكہ میں ایك شخص ہے جو ایسی ہی باتیں كہتا ہے۔ چنانچہ میں مكہ آیا، رسول اللہ صلّی اللہُ علیہِ وسلّم سے مل كر آپؐ كی تعلیمات دریافت كیں اور آپؐ كی رسالت پر ایمان لے آیا۔‘‘ (مودودی، سیرت، 2 / 71-72 بحوالہ الاستیعاب، 2 / 431)
ابنِ سعد نے ان كے تذكرہ میں ان كی حنیفیت كے تعلق سے یہی باتیں لكھی ہیں: ’’….. انی كنت فی الجاھلیة اری الناس علی ضلالة ولا اری الاوثان بشنی …..رَغِبتُ عن آلھة قومی فی الجاھلیة و ذالك انھا باطل …..فراٴیت انة الة باطل لا ینفع و یضر…..‘‘ اُن كے آخری جملہ كے پیچھے ایك خوبصورت پس منظر ہے۔ بت پرستوں كا حال بتاتے ہیں كہ ایك شخص ایسے علاقے / قوم میں جاتا جہاں اُن كا خدا نہ ہوتا تو وہ چار پتھر لاتا، تین تو چولھے كے لیے استعمال كرتا اور چوتھے كو خدا بنا لیتا اور اس سے بہتر پتھر ملتا تو اس كو ’’الٰہ‘‘ بنا لیتا اور جب سفر كرتا تو انہیں چھوڑ جاتا۔ تب میری سمجھ میں آیا كہ یہ تو معبودانِ باطل ہیں۔ (ابن سعد، 4 / 214-219) ادریس كاندھلوی، سیرة المصطفٰیؐ، دیوبند غیر مورخہ، 1، 169-170 بحوالہ اصابة، 6/3، 72/1 و معجم طبرانی و دلائل ابی نعیم، نیز مسند احمد و صحیح مسلم بابت حدیث نبوی۔)
(i).بنو غفار / كنانہ
قبیلہ كنانہ قریشِ مكہ كا حلیف بھی تھا اور قریبی عزیز بھی۔ وہ بہت بڑا قبیلہ تھا اور اس كی متعدد شاخیں تھیں۔ ان میں غفار اور اسلم كے دو قبیلے بھی تھے جو پڑوسی تھے اور مكہ مكرمہ كے قریب كے علاقے میں رہتے تھے۔ دراصل ان كا قبائلی تعلق نہ تھا كہ اسلم قبیلہ خزاعہ كا ایك بطن تھا اور غفار كنانہ كا، لیكن دونوں كا جوار و پڑوس كا تعلق تھا لہٰذا وہ ایك ہی سمجھے جاتے تھے۔ ان كا علاقہ شامی شاہ راہ تجارت كے قریب تھا۔ ان كے افراد و طبقات دونوں كا مكہ اور مدینہ سے بہت گہرا تعلق تھا جو سیاسی بھی تھا اور سماجی بھی۔ (عہدِ نبوی میں تنظیم ریاست و حكومت، باب دوم، 126-128 اور 131 اور ان كے حواشی)
حضرت ابوذر غفاری مشہور قدیم ترین صحابی ہیں۔ وہ زمانہ جاہلیت ہی میں رواجی دین سے بے زار ہوگئے تھے۔ رسول اكرم صلّی اللہُ علیہِ وآلہِ وسلّم سے ملاقات و قبولِ اسلام سے تین سال قبل وہ بتوں كی پوجا چھوڑ چكے تھے اور اللہ كے لیے نماز پڑھنے لگے تھے۔ نماز جس طرح چاہتے پڑھتے اور جدھر اللہ رخ كردیتا اُدھر منہ كرلیتے۔ رات بھر نمازیں پڑھتے تاآنكہ صبح ہوجاتی۔ اسی زمانہ میں ان كے بھائی انیس ضرورت سے مكہ گئے تو واپس آكر حضرت ابوذر غفاری كو خبر دی كہ مكہ میں ایسے شخص سے ملا جو تمہارے دین پر ہے اور اس كا خیال ہے كہ اللہ نے اسے رسول بناكر بھیجا ہے۔
’’…..وقد صلیت بابن اخی قبل ان القی رسول اللہؐ ثلاث سنین، فقلت: لمن؟ قال: للہ، فقلت: این توجہ؟ قال: اتوجہ حیث یوجہنی اللہ، اصلی عشاء حتی اذا كان من آخر السحر القیت كانی خفاء….. قال (انیس) انی لقیت رجلا بمكة علی دینك یزعم اٴننی اللہ ارسلة…..‘‘ (ابن سعد، 4 / 219-220 و مابعد، مودودی، سیرت، 2 / 70) اس روایت سے یہ واضح ہوتا ہے كہ حضرت ابوذر غفاری كے ایك بھتیجے بھی حنیف تھے جو ان كے ساتھ شریكِ نماز رہتے تھے اور غالباً ان كے بھائی انیس بھی كیوں كہ وہ بھی اسلام كی طرف سبقت كرنے والوں میں تھے اور بعض كے نزدیك پہلے اسلام لائے تھے۔ (اصابة تراجم انیس و ابوذر غفاری، بخاری، كتاب مناقب الانصار، باب اسلام ابی ذرالغفاری، فتح الباری، 7/ 227-221)
ابنِ حجر نے صحیح مسلم كی روایت كے حوالہ سے لكھا ہے كہ قوم غفار شہر حرام كی رعایت كرتی اور عمرہ كرتی تھی ’’…..خرجنا من قومنا غفار و كانوایحلون الشھر الحرام…..‘‘ اس روایت میں ان كے نماز پڑھنے كا حوالہ ابنِ سعد كی مانند ہے اگرچہ بعض الفاظ میں فرق ہے اور حضرت انیس كا جملہ بھی: ’’لقیت رجلا بمكة علی دینك…..‘‘
حضرت عبادہ بن صامت كی روایت میں یہ اضافہ ہے كہ رسول اكرم صلّی اللہُ علیہِ وسلّم اور حضرت ابوبكر كو رات میں طواف كرتے دیكھا تو حضرت ابوذر غفاری نے آپ كو سلام كیا اور وہ اس باب میں اولین تھے: ’’…..قلت: السلام علیك یارسول اللہ ورحمة اللہ وبركاتہ، قال: فكنت اول من حیاة بالسلام…..‘‘
(j).دوسرے قبایلی احناف
سید مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں جن سولہ حنفاء كی فہرست دی ہے وہ غالباً ڈاكٹر جواد علی كی كتاب مذكورہ ’’تاریخ العرب قبل الاسلام‘‘ سے ماخوذ ہے اور ان دونوں كی اصل محمود شكری آلوسی كی تصنیف ’’بلوغ الارب‘‘ 2 / 244 و مابعد ہے۔جواد علی كی فہرست احناف كے آخر میں ’’آخرون‘‘ (وغیرہ) كا اضافہ بھی ہے جو بہرحال موجود و مذكور ہے۔اس فہرستِ حنفاء سے بہرحال یہ پتا چلتا ہے كہ مختلف بدوی قبایل میں ایك یا ایك سے زیادہ موحدین موجود تھے۔ ان میں مشہور ترین كا مفصل ذكر اوپر آچكا ہے۔ دوسرے غیر معروف یا كم مشہور حنفاء كا تعلق جن قبایل سے تھا، یہ ہیں: بنوالمصطلق/خزاعہ، جہینہ، بنوعدی، اسد/خزیمی، بنوتمیم، بنوكنانہ، بنوعبس، بنوقضاعہ وغیرہ۔
سوید بن عامر مصطلقی كے اشعار رسولِ اكرم صلّی اللہُ علیہِ وسلّم نے بہ روایتِ ’’امالی سید مرتضٰی‘‘ پڑھے تھے اور فرمایا تھا كہ وہ اگر مجھ سے ملتے تو اسلام لے آتے كیوں كہ ان كے اشعار سے پتا چلتا ہے كہ وہ حنیفیت اور ملّتِ ابراہیمیہ كی طرف مایل تھے۔ (بلوغ الارب 259/2 بحوالہ سید مرتضٰی، امالی)
عمیر بن جندب الجہنی عہد جاہلی میں ان لوگوں میں شمار ہوتے تھے جو اللہ كی توحید كے قایل تھے اور اپنے رب كے ساتھ كسی كو شریك نہیں كرتے تھے۔ اسلام سے كچھ پہلے ان كا انتقال ہوا۔ اس كے بارے میں صاحب قاموس نے عجیب قصہ لكھا ہے، (بلوغ الارب 2/ 261-262 بحوالہ صاحب القاموس)
عدی بن زید عبادی كا قبیلہ بنوتمیم تھا جو قبایلِ پراگندہ كا ایك عظیم ترین قبیلہ تھا اور شمال مشرقی علاقہ میں خاص سكونت ركھتا تھا۔ اگرچہ اس كی شاخیں مختلف علاقوں میں بكھری ہوئی تھیں اور ان كے طبقات متعدد شہروں میں موجود تھے، (عہدِ نبوی میں تنظیم ریاست و حكومت، باب دوم، مختلف صفحات متعلقہ)
عدی شعراے جاہلیت میں فصیح سمجھے جاتے تھے۔ وہ خاندانی لحاظ سے نصرانی تھے۔ اُن كے سگڑ دادا ایوب تھے جو عرب میں اس نام سے موسوم ہونے والوں میں اوّلین جانے جاتے تھے۔ اُن كے شاہانِ حیرہ سے بہت گہرے تعلقات و روابط تھے۔ خود عدی بن زید دیوانِ كسریٰ سے وابستہ تھے اور اولین كاتب تھے جس نے وہاں عربی زبان استعمال كی۔ ان كا رجحان بھی دھیرے دھیرے حنیفیت كی طرف ہوگیا تھا، اگرچہ اس پر شك و شبہ كا اظہار كیا گیا ہے۔ (بلوغ الارب 2 / 262-265)
سیف بن عدی یزن والی و شاہِ یمن كا ذكر بھی آلوسی نے اصحابِ دین میں كیا ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے كہ انھوں نے رسولِ اكرم صلّی اللہُ علیہِ وسلّم كی ولادتِ شریفہ كے چند سال بعد آپؐ كی بعثت كی بشارت آپؐ كے دادا عبدالمطّلب كو دی تھی جب وہ اكابرِ قریش كے ساتھ ان كو غیر عربوں (اہلِ حبشہ) پر فتح حاصل كرنے اور یمن میں عرب حكومت قایم كرنے كی مبارك باد دینے گئے تھے۔ ان كو صاحب علم و وجدان اور اہلِ مجدّد شمار كیا گیا ہے۔ غالباً قدیم كتبِ سماویہ كے عالم بھی تھے۔ (بلوغ الارب، 2/ 266-269 بحوالہ مادری، اعلام النبوة، الاغانی، 2/ 29)
عامر بن الظرب العدوانی كے نام كے اسی املا كے ساتھ آلوسی نے ان كا ذكر كیا ہے۔ ان كو عرب كے حكما و خطبا میں شمار كیا ہے۔ ان كی ایك طویل وصیت سے ان كے افكار نقل كیے گئے ہیں۔ اس میں موت، حیات، بعد موت، خالقِ سماوات ارض وغیرہ كا ذكر ہے۔ ان كی حنیفیت كے لحاظ سے ان كا ذكر یہاں مختصر ہے۔ زیادہ احوال و معلومات باب الحكما و الخطبا میں دیے ہیں۔ (بلوغ الارب، 2/ 275-276، نیز متعلقہ باب)
عبدالطانجہ بن ثعلب بن وبرہ بن قضاعہ خالق عزوجل اور تخلیق آدم پر ایمان ركھتے تھے۔ اس باب میں ان كے پانچ اشعار بھی آلوسی نے نقل كیے ہیں۔ ان میں رب، قدیم اول، ماجد وغیرہ كی صفاتِ الوہی كا ذكر ہے۔ دعا و استعانت كا حمد و خیر و فیض و سخاوت ربانی كا، دوسری زندگی اور اس كو عطا كرنے والے رب كا…..
ادعوك یارب بما انت اھلہ
دعاء غریق قد تشبث بالعُصم
لانك اھل الحمد والخیر كلہ
وذوالطول لم تعجل بسخط ولم تلم
وانت الذی یحیہ الدھر ثانیا
ولم یر عبد منك فی صالح و جم
وانت القدیم الاول الماجد الذی
تبداًت خلق الناس فی اكتم العدام
وانت الذی احللتنی غیب ظلمة
الی ظلمة فی صلب (آدم) فی ظلم
علاف بن شہاب تمیمی بھی اللہ اور یومِ حساب پر ایمان ركھتے تھے۔ اس بارے میں ان كے خوبصورت اشعار ملتے ہیں:
ولقد شہدت الخصم یوم رفاعة
فاًخذت منہ حطة المغتال
وعلمت ان اللہ جازِ عبدہ
یوم الحساب باًحسن الاعمال
المتلمس بن امیہ كنانی صحنِ كعبہ میں عربوں سے خطاب كرتے كہ ’’میری اطاعت كرو، ہدایت پاؤگے‘‘، لوگوں نے پوچھا: وہ كیسے؟ فرمایا: ’’تم لوگوں نے بہت سے خدا بنالیے ہیں اور میں جانتا ہوں كہ اللہ اس سے راضی نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ ہی ان خداؤں كا بھی رب ہے اور وہ چاہتا ہے كہ صرف اسی ایك كی عبادت كی جائے۔‘‘ عربوں نے ان كی بات نہیں سنی اور خیال كیا كہ وہ بنو تمیم كے دین پر قایم ہیں۔
زہیر بن ابی سُلَمی ذبیانی جب بھی كانٹے دار جھاڑی كے قریب سے گذرتے تو فرماتے كہ اگر عرب مجھے برا بھلا نہ كہتے تو اس بات پر ایمان لے آتا كہ جو ذات تجھے سوكھنے كے بعد زندہ كردیتی ہے وہ ہڈیوں كے گلنے كے بعد بھی ان كو زندہ كردے گی۔ ان كے معلقہ كے اشعار میں اللہ كے عالم الغیب ہونے اور سینوں كے راز جاننے والے اور یوم الحساب، حساب كتاب اور اللہ كی قدرت حیات وغیرہ كا ذكر ہے۔ (بلوغ الارب، 2/ 276-278: زہیر كے لیے حوالہ زوزنی كی شرح معلقہ كا)
عبداللہ بن تغلب بن وبرہ بن قضاعہ اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان ركھتے تھے اور عرب كے حكما و فضلا میں شمار ہوتے تھے۔ ان كے طریقہ كو دین حنیفیت كا طریقہ كہا گیا ہے، جیسے ان كے معاصرین، سابقین وغیرہ تھے۔ ان كے دینی افكار كا نمونہ ان كے كلام میں ملتا ہے۔ وہ عظیم ترین فصیح و بلیغ ترین خطبا میں تھے جن كی مثال دورِ جاہلی میں شاذ و نادر ہی ملتی ہے۔ ان كا نامِ نامی ہی وحدانیت الٰہی كی ایك مثال اور ثبوت ہے۔ (بلوغ الارب، 2/ 280-281)
عبید بن الابرص اسدی خزیمی عظیم جاہلی شاعر تھے۔ ابن سلام جُمحی نے ’’طبقات الشعرا‘‘ میں ان كو طبقہ چہارم میں ركھا ہے اور ان كو طُرفہ اور علقمہ بن عبدہ كا ہم پلّہ كہا ہے۔ ابن قتیبہ نے ’’كتاب الشعرا‘‘ میں بیان كیا ہے كہ ان كی عمر تین سو سال سے زیادہ ہوئی تھی۔ مشہور شاہِ حیرہ نعمان بن منذر كے دادا بن امری القیس سے ان كے تعلقات تھے اور ان كی ایك جنگ میں وہ مقتول ہوئے تھے۔ ان كے روابط دوسرے اكابرِ وقت سے بھی بہت عمدہ تھے۔ ان كے اشعار توحیدِ الٰہی كے عقیدہ كا اثبات كرتے ہیں، مثلاً ایك شعر ہے:
ولیفنین ھذا و ذاك كلاھما
الا الالہ ووجة المعبود
(بلوغ الارب، 2/ 281، نیز ملاحظہ ہو: جواد علی، مذكورہ بالا اور بحث آیذہ بر عقاید احناف)
خلاصہ
جاہلی عہد میں دین حنیفی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے زمانے سے عربوں کا دین متین رہا، بعثت محمد سے تیین سو سال قبل تک اس کی بنادی شکل باقی رہی اور عربوں کے تمام قبائل و طبقات دین ابراہیمی کے پیرو رہے، تیسری صدی عیسوی تک جزیرہ نمائے عرب میں سچا دین حنیفی اور دین ابراہیمی قابلِ عمل اور لایق فخر اور عربوں کی دین شناخت بنا دیا، اس صدی کے اواخر تک پہنچتے پہنچتے بعض انحرافات اور خرافات و بدعات کا کچرا دین اسلام کے چشمہ صافی کو گدلا کرنے لگا، روایات بالعموم اس کی ساری ذمہ داری ایک مکی سرداد عمرو بن لحی خزاعی کے سر ڈالتی ہیں، امکان ہے کہ کچھ دوسرے افراد طبقات نے بھی انحرافات کی راہ ہموار کی ہو، امتداد زمانہ سے دینی فکر اور مذہبی عمل میں راہِ عمل سے انحراف ایک مسلمہ حقیقت ہے،
اصل دین اور انحراف میں تصادم ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں سماج میں دینی، فکری اور عملی اتھل پتھل شروع ہوجاتی ہے، پہلے اصل دین کے پیروؤں کو غلبہ حاصل رہتا ہے اور رفتہ رفتہ انحراف کی اشاعت سے پانسہ پلٹ جاتا ہے اور انحراف غالب ہوجاتا ہے، پھر بھی اصل دین کے ماننے والے ہر دور میں باقی رہتے ہیں، یہی حقیقت دین ابراہیمی اور دین حنیفی کے ضمن مین بھی قدرت الہی نے دہرائی اور جب انحرافات نے دین اصلی کو پوری طرح مغلوب کرلیا تو بعثت نبوی کا فیصلہ الہی صادر ہوا۔
جزیرہ نمائے عبر کے طول و عرض میں تین سو سال دورِ انحراف میں بہت سے نہ سہی تو کافی تعداد میں دین حنیف کے ماننے والے موجود رہے، ان میں افراد بھی تھے اور طبقات بھی اور ان سے زیادہ اہم تھے گمراہوں میں اصل دین کے باقیات قرآنی آیات ، احادیثِ نبوی اور عرب روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ دین ابراہیمی کے بہت سے اصول و عقائد اور اعمال، معمولات انحراف کے مارے عربوں میں بھی موجود و باقی تھی، ان میں اللہ، رسول ، آخرت اعمال کی جزاء و سزاء اور دوسرے عقائد و افکار ککے علاوہ بہت سے بنیادی اعمال و اشغال جیسے نماز و روزہ، زکواۃ و حج و ختنہ و غسل جنابت اور دوسرے اعمالِ فطرت پوری طرح مروج تھے۔
انحراف و بدعت سے لڑنے والے اور اصل دین حنیفی کی طرف پلٹنے والے افراد و طبقات نے فکر و عمل کی تطہیر کا کام شروع کیا، جہاں ان کو اصل دین کے بقایا مل گئے، ان کو اختیار کرلیا اور امتداد زمانہ سے جن افکار و اعمال کی صورت مسخ ہوگئی تھی اور اصل حقیقت کا پتہ لگانا ناممکن ہوگیا تھا وہاں انہوں نے فکر و عقیدہ اور عمل و مزہب کی تجریدی شکل اختیار کی اور اپنی سمجھ سے اصل کا سراغ لگایا اور اس پر عمل پیرا ہوگئے، شرک اور مشرکانہ رسول کی بجائے توحید و مواحدانہ کیش اختیار کیا، بتوں اور اصنام کی پوجا چھوڑی ان سے متعلق رسوم و اعمال سے گریز کیا اور ربِ ابراہیم علیہ السلام کی عبادت اور عبادتِ الہی سے وابستہ اشغال میں لگ گئے، اللہ واحد کے تصور اور عقیدہ نے ان کے عمل کی تطہیر میں بنیادی کردار ادا کیا۔
مکہ مکرمہ خانہ کعبہ کا گھر ہونے کے سبب دین حنیفی کا مرکز و ماویٰ بنا رہا، قریش میں ایسے افراد و جماعات ہمیشہ موجود رہے جو دین حنیفی کے علم بردار اور پیرو تھے علمائے اصولیین کا اتفاق ہے کہ رسول اکرم ﷺ جناب محمد بن عبداللہ ہامشی کے تمام آباء و اجداد میں دین حنیفی کے بنادی افکار و اعمال ہمیشہ پیوست رہے، کئی دوسرے افراد گروہ بھی احناف کے زمرے میں شامل تھے جیسے زید بن عمرو بن نفیل عددی، ورقہ بن نوفل اسدی، عثمان بن حویرث اسی، عبید اللہ ابن جحش اسدی خزیمی، ابوکبشہ و جز بن غالب زہری وغیرہ، مدینہ منور بھی احناف کے وجود گرامی سے کبھی محروم نہیں رہا، ان میں ابوقیس صرمہ بن انس بخاری کزرجی، ابوالہیثم بن التہیان، ذکوان بن عبدقیس، اسعد بن زرارہ اور متعدد دوسرے دین حنیفی کو زندہ رکھے ہوئے تھے،
دوسرے قبائل و طبقات عرب میں طائف و ہوازن کے بنو ثقیف، بنو سلیم، بنو سعد بن بکر، بنو کنانہ، ہمدان ، کندہ ، ھؐیر، غفار، اسلم، لیث، ایاد / بنوبکر بن وائل، عبدالقیس، عبس و ذبیان، مزینہ و جہینہ، طے و اسد/ خزیمہ، حمیر و حضر موت، بنو عامر بن صعصعہ، بنو المصطلق، بنو عاد / تمیم، قضاعہ اور کئی دوسرے طبقات شامل تھے اور احناف کے وجود گرامی سے مشرف ، ان قبائل و طبقات کا جغرافیائی تعلق جزیرہ نمائے عرب کی چار سمتوں اور تمام علاقوں سے تھا، یمن اور جنوبی عرب میں حنیفی طبقات کی کثرت تھی،
احناف عرب اور دین حنیفی کے پیروؤں نے دہرا فرض انجام دیا، اس کا تعلق ماضی کی میراث کی حفاظت سے بھی تھا اور مستقبل کی تعمیر کی ہمواری سے بھی، انہوں نے دین حنیفی کو زندہ کرنے اور رواج دینے کی کوشش کی اور اسی کے ساتھ ساتھ بعثت محمدی کے ہراول دستہ کا کام کیا، عرب سماج میں یہی وہ فکری اور دینی طبقہ تھا جس نے اپنے عقیدہ و عمل سے نبی آخر الزمان ﷺ کی تشریف آوری کا منتظر ایک دنیا کو بنایا اور جب آپ ﷺ کے وجود گرامی اور ظہور سامی سے عرب کی سرزمین رشک آسمان بنی تو یہی احناف اور حنیفیت کی روح تھی جس نے سب سے پہلے بعثت محمد کو قبول کیا .استفادہ تحریر : جاہلی عہد میں حنیفیت از پروفیسر ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی،( ڈائیریکٹر شاہ ولی اللہ دہلوی ریسرچ سیل ادارہ علوم اسلامیہ، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ)