مغلیہ دورمیں برصغیرکی ترقی-غیر مسلم مورخین کےبیانات کےروشنی میں

مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر انکا دور دورہ تھا۔ در حقیقت یہ منگول مغل سلطنت نہیں بلکہ ہندی مغل سلطنت تھی کیونکہ اس کے پہلے دو بادشاہوں کے سوا ہر بادشاہ کے خون میں ہندوستانیوں خصوصا راجپوتوں کا خون باہمی شادیاں سے شامل تھا۔ لہذا یہ ایک بیرونی غاصب قابض سلطنت نہیں بلکہ ہندوستانیوں اور مغلوں کی مشترک سلطنت تھی جو سولہویں صدی عیسوی میں برصغیر میں آئے اور پھر خود بھی برصغیر کے ہوکر رہ گئے اور ان کی بیرون ملکی حیثیت مٹ گئی اور انہوں نے اپنے آپ کو انگریزوں کی طرح ہندوستانیوں سے دور نہیں رکھا بلکہ یہاں مستقل آباد ہوئے، یہاں شادیاں کیں اور یہاں گھل مل گئے اور آج ان کی نسلیں برما اور ہندوستان میں آباد ہیں۔ ثقافت لحاظ سے اگرچہ یہ ایک مغل فارسی سلطنت تھی لیکن اس نے ہندوستانی ثقافت کا گہرا رنگ اختیار کیا جس سے برصغیر میں ایسی ثقافت وجود میں آئی جو کہ مغل، فارسی اور ہندوستانی ثقافت کا ملاپ تھی۔ مغلوں نے انگریزوں کی طرح ہندوستانیوں پہ زبردستی اپنی زبان اور ثقافت مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اپنی ثقافت کو یہاں کی ثقافت میں بھلا دیا۔1،2

اسلام دشمن مورخین دعوٰی کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے برصغیر کی رعایا پہ زبردستی اپنا مذھب اسلام نافذ کرنے کی کوشش کی جب کہ سچ یہ ہے کہ خود اشر اور روب جیسے غیر مسلم مورخین خود تسلیم کرتے ہیں کہ سلطنت عوام کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی تھی اور اس نے ان میں نئی انتظامی حکمت عملیوں سے مذہبی توازن برقرار رکھا۔3،4 اور اس کی حکومتی ساخت صرف مسلم یا مغل نہیں بلکہ خود مغربی مورخ میٹکاف کے مطابق برصغیر کی کئ نسلوں اور مذہبی حلقوں پہ مشتمل تھی۔5 جس سے مغربی مورخ تالبوت کے مطابق سلطنت کی ایک منظم، مرکزی اور یکساں نظام حکومت کو فروغ ملا۔6

مغربی مورخہ کیتھرین اور ایرن بانٹنگ کے مطابق مغل دور میں برصغیر کی کئ گزشتہ ہندو دور میں ظلم کی چکی میں پستے کمزور گروہوں جیسا کہ مرہٹہ، ہندو جٹ، سکھ اور پشتونوں نے سیاسی اور فوجی قوت حاصل کی جو کہ صرف اسی صورت میں ہی ممکن ہوا جو اسلام دشمن مورخین کے الزامات کے برعکس مذہبی و سیاسی رواداری کا مغل رویہ تھا۔6،7،8،9

سلطنت کے زوال کی بنیادی وجہ 1707ء کے بعد تخت نشینی کی جنگیں تھیں جن سے انتظامی کمزوری پیدا ہوئی جس سے سلطنت کے سب علاقے خود مختار ہوگئے۔1707ء میں اورنگ زیب کے انتقال کے بعد ایک بار پھر جانشینی کی جنگ چھڑ گئی `جس میں شہزادہ اعظم ،معظم اور کام بخش نے حصہ لیا شہزادہ معظم کامیاب رہا جبکہ دوسرے شہزادے جنگوں میں مارے گئے۔ اورنگ زیب کی وفات کے دس سال بعد کے عرصہ میں سات خون ریز جنگیں ہوئیں جس میں مغل حکومت کا بہت بڑا نقصان ہوا۔ لاتعداد جرنیل،سپاہی اور جنگی فنون کے ماہرین مارے گئے۔ جس کی وجہ سے مغل یہ سلطنت کمزور ہو گئی۔10

غیر مسلم مورخ لکس ہیرما کے مطابق مغل سلطنت مائل صنعتی زمانے یا Proto industrial تہذیب تھی جس نے بعد کی صنعتی ترقی کے مواقع فراہم کئے۔11

ہندو مورخ پر تھا ساراستی کے مطابق مغل دور میں برصغیر چین کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی سب سے بڑی معاشی اور پیداواری طاقت بن گیا۔12 جو مغربی مورخ میڈیسن اور جیفری جی ویلیمسن کے مطابق انگریزوں کی طرف سے برصغیر کی لوٹ مار اور اس کے صنعتی ورثے کی تباہی تک اکیلا دنیا کی کل صنعتی پیداوار کا ایک چوتھائی پیدا کر رہا تھا۔13،14

مغربی مورخ ابراہام ایرالے کے مطابق مغل سلطنت برصغیر کا آخری سنہری دور تھی۔15 جس کے بعد انگریزوں کی لوٹ مار کی وجہ سے اس کے تاریک دور کا آغاز ہوا جو اب تک جاری ہے۔ مغربی مورخ ڈوگسن کے مطابق یہ سلطنت عثمانیہ کے ساتھ ایشیا کی دو بڑی مسلم گن پاؤڈر سلطنتوں میں شامل تھی جو جنگوں میں بارود، گنوں، توپوں اور بندوقوں کی جدید جنگی ٹیکنالوجی استعمال کر رہی تھی۔16

مغل بادشاہ شاہ جہان کا دور برصغیر کے لیے تعمیرات کا سنہرا دور تھا جس میں برصغیر میں تاج محل، لال قلعہ، موتی مسجد، قلعہ لاہور اور جامع مسجد دہلی جیسی مشہور عالم عمارات تعمیر کی گئیں جنہوں نے آج تک دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔

مغل دور میں برصغیر نے ایک مضبوط اور مستحکم معیشت حاصل کی جس سے تجارتی اور معاشی ترقی میں اضافہ ہوا۔مغربی مورخ کلاز کے مطابق اورنگزیب کے دور میں برصغیر نے ایک بار پھر سیاسی استحکام حاصل کیا۔17

اورنگزیب پہ مذہبی شدت پسند کا الزام عائد کیا جاتا ہے جب کہ خود مغربی مورخ کلاز کے مطابق اس نے ہندو مسلم سب سے برابری کا برتاؤ کیا اور صرف ان لوگوں کو قتل کرایا جو ہندو یا مسلم باغی تھے۔ اس نے خود ایک ہندو راجپوت شہزادی نواب بائی سے شادی کی۔17

یہ سلطنت مسلم ہندو دونوں کے نزدیک محترم تھی اور غیر مسلم مورخ سوگاتا بوس کے مطابق یہاں تک کہ اس کے زوال کے زمانے میں جب مختلف حصے خود مختار ہوگئے خود ہندو جٹ، مرہٹہ، راجپوت،سکھ مغل بادشاہ کی تخت نشینی کی تقریب میں شریک ہوتے اور اسے برصغیر کا شہنشاہ تسلیم کرتے۔18

یہ بات ان غیر مسلم مورخین کے الزامات کی تردید کرتی ہے جو کہتے ہیں کہ مغل سلطنت ایک غاصب سلطنت تھی جس سے ہندو ناخوش تھے اور انہوں نے اس کے زوال پہ خوشی منائی۔

غیر مسلم مورخ جیفری جی ویلیمسن کے مطابق برصغیر مغل دور میں صنعتی طور پہ طاقتور تھا اور اس کا صنعتی زوال اٹھارہویں صدی کے آخری نصف میں مغلیہ سلطنت کے زوال کی وجہ سے ہوا جس میں بعد ازاں سب سے بڑا کردار انگریزوں کے قبضے نے ادا کیا۔ مغل سلطنت کے زوال کی وجہ سے زرعی پیداوار کم ہوگئی۔19

یہ بات ان اسلام دشمن اور سیکولر مصنفین کے لیے منہ بند کرنے والی ہے جو مغل دور کو برصغیر کی تاریکی اور انگریز دور کو برصغیر کی ترقی کا دور قرار دیتے ہیں۔ سلطنت کے زوال کے بعد بھی مغربی مورخ جیفری جی ویلیمسن کے مطابق برصغیر کپڑے کی صنعت میں برطانیہ کا انیسویں صدی تک مقابلہ کرتا رہا اور اس کو برطانیہ پہ اس سلسلے میں برتری حاصل رہی لیکن بعد ازاں برطانوی صنعت کو فروغ دینے اور برصغیر کو برطانوی صنعت کی منڈی بنانے کے لیے انگریزوں کی طرف سے جان بوجھ کر برصغیر کے تعلیمی اور صنعتی ڈھانچے کو تباہ کیا گیا۔

برصغیر کی معیشت مغل دور میں انتہائی خوش حال تھی اور اس بات کو Karl J. Schmidt جیسے مغربی مورخین خود تسلیم کرتے ہیں۔20

مغل دور میں 1600ء میں برصغیر چین کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت تھا جس کا عالمی صنعتی پیداوار اور جی ڈی پی میں حصہ 22% تھا اور یہ پورے یورپ کی کل صنعتی پیداوار سے بھی زیادہ تھا۔ مغربی مورخ اینگس میڈیسن کے مطابق 1700ء میں اورنگزیب کے دور میں برصغیر دنیا کا سب سے امیر ملک بن گیا جس کا عالمی صنعتی پیداوار اور جی ڈی پی میں حصہ 24% تھا۔21

غیر مسلم مورخ پر تھا سراستی کے مطابق مغل دور میں برصغیر پیداواری لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت تھا۔12

جو مغربی مورخ جیفری جی ویلیمسن کے مطابق اٹھارہویں صدی تک دنیا کی کل صنعتی پیداوار کا 25% پیدا کرتا رہا۔

غیر مسلم مورخ اینگس میڈیسن کے مطابق مغل دور میں برصغیر کی جی ڈی پی نے جتنی ترقی کی اتنی برصغیر نے مغل دور سے پہلے گزشتہ پندرہ سو سال میں کبھی نہیں کی تھی۔21

یہ ان اسلام دشمن مورخین کے منہ پہ زوردار طمانچہ ہے جو کہتے ہیں کہ مسلمان غاصب اور قابض تھے جنہوں نے برصغیر کو لوٹا۔

لکس ہیرما جیسے غیر مسلم مورخین نے مغل سلطنت میں برصغیر کی صنعت کو ابتدائی صنعتی ٹیکنالوجی پہ مبنی سلطنت قرار دیا ہے۔11

اسلام دشمن مورخین دعوٰی کرتے ہیں کہ انگریزوں نے پہلی بار برصغیر کو متحد کیا جب کہ یہ جھوٹ ہے۔ اشوک اور مغل دور میں برصغیر متحد تھا۔ خود مغربی مورخ جان ایف رچرڈز کے مطابق مغلوں نے سڑکوں کا وسیع نظام قائم کیا، یکساں کرنسی نافذ کی اور برصغیر کو لمبے عرصے بعد پہلی بار سیاسی اور انتظامی طور پہ متحد کیا۔22

غیر مسلم مورخ Karl J. Schmidt کے مطابق مغلوں نے برصغیر کی معاشی ترقی کے لیے وسیع انفرا سٹرکچر تعمیر کیا جس نے تجارت اور معاشی ترقی کو فروغ دیا۔20

مغربی مورخ جیمز رچرڈ کے مطابق مغل دور میں دنیا میں برصغیر کی زرعی اور صنعتی پیداواروں کی بہت مانگ تھی جس نے تجارت کے بدلے میں برصغیر میں قیمتی دھاتوں جیسا کہ سونے چاندی کی منتقلی کو آسان بنا دیا۔23 جو ان دھاتوں کے بدلے میں مغلوں سے ٹیکسٹائل مصنوعات درآمد کرتے تھے۔

مغل دور میں برصغیر میں پرائمری سیکٹر جیسا کہ زراعت سے 64% جب کہ سیکنڈری اور ٹرشری سیکٹر سے 36% لوگ وابستہ تھے۔24

مغربی مورخ کارلو ایم کیپولا کے مطابق مغل دور میں برصغیر کی پیداواری شعبے سے وابستہ آبادی پورے یورپ سے زیادہ تھی۔25

مورخ شیریں موسوی کے مطابق مغل دور میں سیکنڈری سیکٹر سے وابستہ آبادی کا تناسب بیسویں صدی کے پہلے نصف میں برطانوی ہندوستان کے سیکنڈری سیکٹر سے وابستہ آبادی کے تناسب سے زیادہ تھا۔26 جو کہ انگریز دور میں برطانیہ کی طرف سے برصغیر کی صنعتی تباہی کی وجہ سے تھا۔

کچھ اسلام دشمن مورخین یہ کہتے ہیں کہ اگر برصغیر مسلم مغل دور میں دنیا کا سب سے امیر ملک تھا بھی سہی تو یہ دولت صرف شاہی خاندان کے پاس تھی اور عوام خوش حالی سے محروم تھے جب کہ سچ یہ ہے کہ خود غیر مسلم مورخین پر تھا سیراستی اور جیفری جی ویلیمسن کے مطابق مغل دور میں برصغیر میں عوام کی سالانہ آمدنی اور معیار زندگی برطانیہ سے زیادہ بہتر تھا جو اس وقت یورپ میں سب سے زیادہ خوش حال تھا۔12،19

معاشی مورخ پال بیروچ اور کرس جوچنک کے مطابق اٹھارہویں صدی عیسوی کے اواخر تک برصغیر اور چین کی عوام کی آمدنی یورپ کی عوام کی آمدنی سے زیادہ تھی۔28،27

مغل دور میں برصغیر کی عوام کی سالانہ آمدنی انگریز دور میں برصغیر کی عوام کی سالانہ آمدنی سے زیادہ تھی۔26

یہ ان لوگوں کے منہ پہ زوردار طمانچہ ہے جو کہتے ہیں کہ مغل لٹیرے تھے جب کہ انگریزوں نے عوام کو خوش حال رکھا۔

اگرچہ مغل دور میں برصغیر کے مزدور پیشہ طبقے کی آمدنی باقی طبقوں سے کم تھی لیکن یہ یورپ کے مزدور پیشہ طبقے کی آمدنی سے کئ گنا زیادہ تھی اور اس بات کو پر تھا سیراستی جیسے غیر مسلم مورخین نے بھی تسلیم کیا ہے۔29،12

مغل دور میں برصغیر میں مزدور پیشہ طبقے کے لیے رواداری اور برداشت کا مادہ موجود تھا۔ غلامی کا تصور صرف گھریلو نوکریوں محدود تھا۔29

مغربی مورخ Karl J. Schmidt کے مطابق مغل دور میں برصغیر کی زراعت نے بے پناہ ترقی کی سترہویں صدی کے وسط میں برصغیر کے کسان امریکہ سے درآمد شدہ فصلیں جیسا کہ تمباکو اور مکئی کاشت کرنا شروع کر چکے تھے۔

غیر مسلم مورخ پکارڈو پگازا کے مطابق مغلوں نے برصغیر میں کئ زرعی اصلاحات نافذ کیں جو شیر شاہ سوری نے شروع کیں، اکبر اور بعد کے مغل بادشاہوں نے جاری رکھی۔ اس حوالے سے سرکاری ترقی کا نظام کارکردگی پہ مبنی تھا۔30

مغربی مورخ کارل جے شمڈ کے مطابق مغلوں نے زراعت کی ترقی کے لیے آب پاشی کے نظام کو بہتر بنایا جس سے زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا اور برصغیر کی سالانہ آمدنی ترقی کر گئی۔12

غیر مسلم مورخ رچرڈ کے مطابق اکبر نے زراعت کا ایسا نظام قائم کیا جس نے نقد آور فصلوں جیسا کہ کپاس اور گنے کی کاشت میں اضافہ کیا اور ان کی بازاری مانگ بڑھا دی۔31

مغربی مورخ جان ایف رچرڈز کے مطابق مغلوں نے نئی زمین کو کاشت میں لانے اور کاشت شدہ رقبہ بڑھانے کے لیے ان کسانوں پہ لگان یا ٹیکس معاف کر دیا کو نئ زمین کاشت میں لاتے۔32

ہندو مورخ دھرما کمار کے مطابق مغل دور میں برصغیر کی زراعت یورپ سے زیادہ ترقی یافتہ تھی جس میں ایک ہندوستانی کسان ایک یورپی کسان سے زیادہ فصلیں کاشت کرنے اور پیداوار حاصل کرنے میں ماہر تھا۔33

مغربی مورخ جان ایف رچرڈز کے مطابق مغل دور میں بنگال پوری دنیا میں سب سے زیادہ ریشم پیدا کرنے والا خطہ بن چکا تھا۔31

برصغیر یورپ سے پہلے یعنی 1540ء سے شوگر ملیں استعمال کر رہا تھا۔34

ایمانیویل والر سٹائن اور کئ ہندو معاشی مورخین کے مطابق سترہویں صدی عیسوی میں مغل دور میں برصغیر میں زرعی پیداوار اور استعمال اس زمانے کے یورپ اور بعد کے برطانوی ہندوستان سے زیادہ تھا۔35 جو کہ ایک بار پھر ان لوگوں کے منہ پہ زوردار طمانچہ ہےجو کہتے ہیں کہ برطانوی دور میں برصغیر نے ترقی کی۔

زیادہ زرعی پیداوار کی وجہ سے برصغیر میں غذائی اجناس کی قیمتیں اس زمانے کے برطانیہ اور باقی یورپ سے کم تھیں اور برصغیر کی عوام کو عالمی مارکیٹ میں معاشی اور فلاحی برتری حاصل تھی۔12 خود ہندو مورخ پر تھا سیراستی کے مطابق مغل دور میں برصغیر اٹھارہویں صدی عیسوی تک دنیا کی سب سے بڑی پیداواری طاقت تھا۔12

یہ ان لوگوں کے لیے شرم کا مقام ہے جو کہتے ہیں کہ مغل لٹیرے تھے اور انگریزوں نے برصغیر کو ترقی دی۔ مغربی مورخ Karl J. Schmidt کے مطابق مغل دور میں برصغیر کی بڑی صنعتی پیداوار ٹیکسٹائل، بحری جہاز، ریشم، تیل، چینی، دھاگہ، میٹل ویئر اور سٹیل تھا۔20

مغل دور میں اس صنعتی ترقی کو غیر مسلم مورخین جیسا کہ لکس ہیرما نے ابتدائی صنعتی دور قرار دیا ہے جس نے بعد ازاں صنعتی ترقی کی راہ ہموار کی۔11

مغربی مورخ کارل جے شمڈ کے مطابق یورپ میں برصغیر کی تیار کردہ اشیاء ٹیکسٹائل، مصالحہ جات، ریشم کی بہت مانگ تھی۔20

ہندو مورخ اوم پرکاش کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ یورپ ٹیکسٹائل کے شعبے میں برصغیر پہ زیادہ سے زیادہ منحصر ہوگیا اور برطانیہ کی ایشیا سے 95% درآمدات برصغیر سے جاتی تھیں۔36

مغربی مورخ کارل جے شمڈ کے مطابق جب کہ برصغیر میں یورپی اشیاء کی مانگ بہت کم تھی جو صرف عام دھاتوں اور سجاوٹی اشیاء تک محدود تھی لہذا یورپ کو برصغیر اشیاء کے بدلے سونا چاندی لانا پڑا جس سے برصغیر کی معاشی ترقی میں اضافہ ہوا۔20

مغربی مورخ جان ایف رچرڈز کے مطابق مغل دور میں برصغیر کی اشیاء انڈونیشیا اور جاپان تک برآمد کی جاتی تھیں۔37

مغربی مورخ اینگس میڈیسن کے مطابق مغل دور میں اٹھارہویں صدی عیسوی میں اکیلا برصغیر دنیا کی ٹیکسٹائل کا 25% پیدا کر رہا تھا۔38

اور ہندو مورخ پر تھا سیراستی کے مطابق مغل دور میں برصغیر کی ٹیکسٹائل مصنوعات بین الاقوامی تجارت کا اہم ترین جزو تھیں جو نئے دریافت شدہ امریکہ سے جاپان، یورپ، جنوب مشرقی ایشیا، افریقہ اور مشرق وسطی تک استعمال کی جاتی تھیں۔12،39

خود ہندو مورخ اوم پرکاش کے مطابق مغل دور میں اکیلا صوبہ بنگال پورے براعظم ایشیا کا پچاس فیصد ٹیکسٹائل اور اسی فیصد ریشم پیدا کر رہا تھا۔36

مغربی مورخ رچرڈ میکس ویل ایٹن کے مطابق برصغیر کی ٹیکسٹائل مصنوعات جنوب مشرقی ایشیا تک استعمال کی جاتی تھیں جہاں انہیں ڈھاکہ ٹیکسٹائل کہا جاتا تھا۔39

مغربی مورخ لیکویٹ کے مطابق مسلم سلاطین دہلی کے دور میں برصغیر میں کئ نئ ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی ایجاد کی گئیں۔34،40

ہندو مورخ ایندرا جیت رے کے مطابق مغل دور میں برصغیر کا صوبہ بنگال سترہویں صدی عیسوی میں 223,250 ٹن بحری جہاز بنا رہا تھا جب کہ انہی دنوں امریکہ میں صرف 23,061 ٹن بحری جہاز بن رہے تھے۔41

اس دور میں برصغیر کی جہاز سازی کی صنعت یورپ سے زیادہ ترقی یافتہ تھی اور برصغیر کے بحری جہاز یورپی فرموں کو بیچے جاتے تھے۔بنگال کے جہاز سازوں نے بحری جہاز سازی کی ٹیکنالوجی میں flushed deck ایجاد کی جس سے جہاز کا وزن کم اور پانی بھرنے کا خطرہ مزید کم ہوگیا۔ بعد ازاں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ان جہازوں کی نقل کرتے ہوئے نئے جہاز بنائے جنہوں نے برطانیہ کے صنعتی انقلاب میں اہم کردار ادا کیا۔42

ہندو مورخ ٹریتھانکر کے مطابق برصغیر کا صوبہ بنگال 1590ء میں مغل حکومت سے 1757ء تک مسلسل خوش حال رہا۔43 اور یہ برصغیر کا سب سے امیر خطہ تھا۔44

ہندو مورخ اوم پرکاش اور مغربی مورخ جان ایف رچرڈز کے مطابق بنگال کا ریشم، ٹیکسٹائل انڈونیشیا، جاپان، ہالینڈ، برطانیہ اور پورے یورپ میں برآمد کیا جاتا تھا۔36،43

مغلوں نے نیا بنگالی کیلینڈر متعارف کرایا جس نے فصلوں کی کٹائی، ٹیکسوں کے حصول اور بنگالی ثقافت کی نشونما میں اہم کردار ادا کیا۔44

مغربی مورخ ایٹن کے مطابق مغلوں نے مسلم صوفی بزرگوں کی سرپرستی میں بنگال ڈیلٹا میں کاشت کاری کو فروغ دیا جس سے بنگال کا مسلم معاشرہ پیدا ہوا۔45

بنگال اہل یورپ کے لیے امیر ترین مقام کی حیثیت رکھتا تھا۔46

مغربی مورخ کولن میک اویڈی کے مطابق مغل دور میں معاشی و زرعی خوش حالی کی وجہ سے برصغیر کی آبادی میں 1500_1700ء کے درمیان 23% اضافہ ہوا۔ اس کے مطابق مغل دور میں برصغیر کی شرح آبادی میں اضافہ اس سے پہلے برصغیر کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔47

مغربی مورخ جان ایف رچرڈز کے مطابق یہ مغلوں کی لائی ہوئی معاشی اصلاحات کا نتیجہ تھا۔48

مورخ ابراہام ایرالے کے مطابق مغل دور میں شہروں نے ترقی کی اور برصغیر کی آبادی کا 37% شہروں میں مقیم تھا۔15

جب کہ یورپ میں شہری آبادی کا تناسب انیسویں صدی تک بھی 15% تھا۔49

ہندو مورخ دھرما کمار کے مطابق اکبر کے دور میں 1600ء میں برصغیر کی شہری آبادی کا تناسب 15% تھا جب کہ اس کے ایک صدی بعد تک بھی برطانیہ کی شہری آبادی کا تناسب 13% تھا۔50 جب کہ برطانوی دور میں انگریزوں کی لوٹ مار اور لائی گئی بدحالی کی وجہ سے برصغیر کی شہری آبادی کا تناسب کم ہو کر 1800ء میں 13% اور 1881ء میں صرف 9% رہ گیا۔51 یہ ان لوگوں کے لیے کسی لیٹرین کے گندے پانی میں ڈوب کر مر جانے کا مقام ہے جن کے مطابق برصغیر نے برطانوی دور میں ترقی کی۔

اکبر کے دور میں برصغیر کی شہری آبادی سترہ ملین افراد پہ مشتمل تھی جو کہ پوری سلطنت کا پندرہ فیصد تھی اور یہ پورے یورپ کی کل شہری آبادی سے زیادہ تھی۔

مورخ ابراہام ایرالے کہتا ہے کہ مورخ نظام الدین احمد( 1551–1621) کے مطابق اکبر کے دور میں برصغیر میں 120 بڑے شہر جب کہ 3200 قصبے آباد تھے جن میں سے کچھ شہروں کی آبادی نصف ملین تک تھی۔15

ہندو مورخ دھرما کمار کے مطابق اس دور میں مغل سلطنت کے شہر آگرہ کی آبادی آٹھ لاکھ، لاہور کی سات لاکھ، ڈھاکہ کی ایک ملین سے زائد 53 جب کہ دہلی کی چھ لاکھ سے زائد تھی۔54

مغلوں کی شاندار مرکزی حکومت نے برصغیر کی کئ چھوٹی سلطنتوں کو قریب لاکر برصغیر کو سیاسی طور پہ متحد کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔55

اس دور میں فارسی ثقافت کے ہندوستانی ثقافت کے ملاپ سے دنیا کی متنوع ترین ثقافتوں میں سے ایک یعنی ہندوستانی ثقافت نے جنم لیا۔2

مغلوں نے اپنے دور حکومت میں عرب اور ترکی کی طرف جانے والے پرانے تجارتی راستوں کو بحال کیا۔

مغلوں نے وسط ایشیا کے کھانوں اور ڈشوں کے جنوبی ایشیا کے کھانوں اور ڈشوں سے ملا کر برصغیر کو کھانوں کاایک نیا ذوق دیا جو آج تک بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش کا فخر ہے اور Mughal cuisine کے نام سے مشہور ہے۔2

مغلوں نے برصغیر میں باغبانی کے نئے طریقوں کو فروغ دیا۔

مغل دور میں وسط ایشیا کے ترک فن تعمیر اور ہندوستانی فن تعمیر کے ملاپ سے ایک نیا مغل فن تعمیر پیدا ہوا جس کی عمارات نے آج تک دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔

مغل دور میں ترک، فارسی،عربی اور سنسکرت کے ملاپ سے ایک نئ زبان اردو نے جنم لیا جو آج تک برصغیر کی کروڑوں عوام کی زبان ہے۔ مغلوں نے ہندی میں ترکی، عربی، فارسی الفاظ شامل کرکے اس کا ذخیرہ الفاظ وسیع کیا۔56

مغربی مورخ جوزف کے مطابق مغل دور میں ہندوستانی ریسلنگ کے پہلوی ریسلنگ سے ملاپ سے ایک نئ ہندوستانی ریسلنگ پیدا ہوئی۔57،58

مغلوں نے سلطنت کے ہر شہر اور قصبے میں تعلیمی مراکز اور سکول یعنی مکتب قائم کئے اور ان کی سرکاری سرپرستی کی جن میں قرآن شریف، عربی، فارسی، طب اور فلسفہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔

مغلوں نے برصغیر کو ایک شاندار فن تعمیر فراہم کیا۔ ان کے دور میں تاج محل، ہمایوں کا مقبرہ، فتح پور سکری، دہلی کا لال قلعہ، آگرہ کا قلعہ، لاہور قلعہ اور شاہ جہان مسجد ٹھٹھہ تعمیر کی گئیں جو آج تک یونیسکو عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہیں۔ مغربی مورخ روز مرلے کے مطابق ان کی تعمیر کردہ شاندار عمارتیں جو سائنسی علم تعمیر، جیومیٹری اور انجنیرنگ کا اعلٰی شاہکار ہیں آج تک آگرہ، دہلی، اورنگ آباد، فتح پور سکری، جے پور، کابل، شیخوپورہ میں موجود ہیں۔ یہ عمارت پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان تک پھیلی ہوئی ہیں۔59،60

Indian History-Medieval-Mughal Period-AKBAR”

کا مصنف لکھتا ہے کہ بابر کے بعد مغل دور کے بادشاہوں نے جنوبی ایشیا کی رسوم و رواج اپنا لی اور اپنی غیر ملکی شناخت ختم کرکے ہندوستانی بن گئے۔

اگرچہ مغلوں کی سرکاری زبان فارسی تھی لیکن مغل بادشاہوں اوراشرافیہ کی اپنی زبان فارسی کی ایک ہندی شکل یعنی اردو تھی۔61

اس طرح جہاں مغلوں نے اپنی بیرون ملکی حیثیت ختم کرکے ہندوستان کی ہر چیز اپنا لی وہاں اپنی بولی جانے والی زبان بھی تبدیل کر لی۔ جدید ہندی زبان در حقیقت سنسکرت، فارسی،عربی اور ترکی کا ملغوبہ ہے اردو کی ہی ایک قسم کہی جا سکتی ہے اور اردو کی طرح سمجھی جا سکتی ہے۔61

مغربی مورخ ڈوگسن کے مطابق مغل سلطنت سلطنت عثمانیہ کے ساتھ وہ مسلم سلطنت تھی جو بارود اور توپوں کی جدید جنگی ٹیکنالوجی استعمال کر رہی تھی اور اسے Gun powder empire کہا جاتا ہے۔16،62،63

سلطنت کا بانی بابر بارود، توپ خانے کے استعمال سے واقف تھا جو اسے سلطنت عثمانیہ کی طرف سے دیا گیا تھا۔

برصغیر میں کانسی کی بنی بندوقیں 1504ء سے ہی زیر استعمال تھیں۔64 لہٰذا سلطنت پہ جدید جنگی ٹیکنالوجی استعمال نہ کرنے کا الزام غلط ہے۔ سلطنت کے زوال کی وجہ تحت نشینی کی جنگیں ، نادر شاہ ایرانی کا دہلی پہ حملہ اور لوٹ مار اور بعد کے نااہل حکمران تھے۔

مغل دور میں اکبر کی حکمرانی میں فتح اللٰہ شیرازی نامی ایک ہمہ گیر شخصیت اور مکینیکل انجینئر نے دنیا کی پہلی ابتدائی ملٹی گن شاٹ ایجاد کی۔ اس کی تیز فائرنگ گن کے کئ گن بیرل تھے جو ایک وقت میں کئ گولے فائر کر سکتے تھے۔65

مغربی مورخ پارٹنگٹن کے مطابق سترہویں صدی عیسوی میں مغل برصغیر میں کئ طرح کے بارود پہ مبنی جدید جنگی ہتھیار تیار کر رہے تھے۔ بڑی گنیں بیجا پور، ڈھاکہ، مرشد آباد اور تنجور میں دیکھنے میں آئیں۔66

انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے مطابق برصغیر سترہویں صدی عیسوی سے ہی گجرات سے یورپ کو شورہ برآمد کر رہا تھا جو وہاں بارود کی تیاری میں استعمال ہوتا۔ ولندیزی، پرتگیزی، انگریز، فرانسیسی صوبہ بہار کے شہر Chapra میں شورے کی تلخیص کے مرکز قائم کر چکے تھے جہاں سے یہ یورپ کو برآمد کیا جاتا تھا۔67

سولہویں صدی عیسوی میں اکبر دنیا کا وہ پہلا بادشاہ تھا جس نے جنگ میں جنگی راکٹ استعمال کیے جن کو bans کہا جاتا تھا۔ یہ راکٹ جنگ سنبل میں جنگی ہاتھیوں کے خلاف استعمال کیے گئے۔68 اس طرح راکٹ ٹیکنالوجی مغلوں کے زیر سرپرستی برصغیر میں ایجاد ہوئی۔

ہندو مورخ اشواری پرساد کے مطابق مغلوں نے بدار کے محاصرے میں جنگی راکٹ استعمال کیے۔69

اپنی کتاب A History of Greek Fire and Gunpowder میں مغربی مورخ جیمز رڈک پارٹنگٹن برصغیر کی دھماکہ خیز بارودی سرنگوں اور ہتھیاروں کے بارے میں یہ لکھتا ہے:

برصغیر کے جنگی راکٹ جنگ کا اہم ہتھیار تھے جب کہ یورپ میں یہ جنگوں میں بعد میں استعمال کیے گئے( اس مغربی مورخ کا یہ بیان ثابت کر رہا ہے کہ جنگی راکٹ ٹیکنالوجی مغلوں کے زیر سرپرستی برصغیر میں ایجاد ہوئی)۔ اس میں بانس کی سلاخیں استعمال کی جاتی جن سے راکٹ باندھا جاتا جس کی لوہے کی نوکیں ہوتیں۔ دھماکہ خیز مواد پہ مبنی بارودی سرنگوں کے استعمال کا ذکر ہمیں جہانگیر اور اکبر کے دور سے ہی ملتا ہے۔70

بعد ازاں میسور کے جنگی راکٹ مغلوں کے جنگی راکٹوں کی ترقی یافتہ شکل تھے۔ یہ Nawab of Arcot کی طرف سے جنجی کے محاصرے میں استعمال کیے گئے۔ ٹیپو سلطان شہید کا دادا اور حیدر علی کا والد فتح محمد نواب کی فوج میں ایک جنگی دستے کا سربراہ تھا جس میں پچاس راکٹ فائر کرنے والے فوجی شامل تھے۔ غیر مسلم مورخ رادام نیرا شیما کے مطابق ٹیپو سلطان کے والد حیدر علی نے دھات کے سلنڈر پہ مبنی جدید جنگی راکٹ استعمال کیے۔ یہ راکٹ ٹیپو سلطان نے انگریزوں کے خلاف جنگ میں استعمال کیے اور یہ ناممکن تھا کہ ٹیپو سلطان جنگ میں شکست کھاتا اگر میر جعفر سلطان سے غداری نہ کرتا۔ میسور کے جنگی راکٹ بعد ازاں برطانیہ لائے گئے جن کی ترقی یافتہ شکل Congreve rockets تھے جن کو برطانیہ نے نپولین اور بعد ازاں 1812ء میں امریکہ کے خلاف جنگ میں استعمال کیا۔71

اس طرح جنگی راکٹ ٹیکنالوجی مغلوں کے تحت برصغیر میں ایجاد ہوئی جس کو بعد ازاں یورپ اور امریکہ لایا گیا اور آج ناسا کے خلائی راکٹ نظام شمسی کے باہر تک خلا کھنگال رہے ہیں لیکن اپنوں کی جہالت، غیروں کی چالاکی اور زمانے کی نیرنگیوں کے سبب مسلمانوں کی دیگر ایجادات کی طرح اس ایجاد کو بھی یورپ سے منسوب کر دیا گیا۔

حالانکہ نظریاتی فلکیات یعنی Theoretical astronomy کے لئے کم توجہ کم رہی، مغل شہنشاہوں نے مشاہداتی فلکیات یا Observational astronomy میں پیش رفت کی اور تقریبا سو کے قریب فلکیاتی زیج کے مسودے مرتب کیے۔ ہمایون نے دہلی کے قریب فلکیاتی مشاہدات کے لیے ایک ذاتی رصدگاہ بنائی ,جہانگیر اور شاہ جهان بھی رصد گاہوں کی تعمیر کا ارادہ رکھتے تھے لیکن ایسا کرنے سے قاصر رہے. ,مغل فلکیاتی مشاہدات میں استعمال ہونے والے فلکیاتی آلات اور مشاہداتی تراکیب بنیادی طور پر اسلامی فلکیات سے حاصل کی گئی تھیں. 17 ویں صدی میں، مغل سلطنت نے اسلامی اور ہندی فلکیات کے درمیان ایک اشتراک دیکھا، جہاں اسلامی مشاہداتی آلات ہندی شماریاتی تراکیب یا Computational techniques کے ساتھ مل رہے تھے.

مغل سلطنت کے زوال کے دوران، امبر کے ہندو بادشاہ جے سنگھ دوم نے مغل فلکیات کا کام جاری رکھا. ,18 ویں صدی کے آغاز میں انہوں نے الغ بیگ کے سمرقند کے فلکیاتی مشاہدات کے مقابلہ کے لئے کئ بڑی رصد گاہیں تعمیر کیں جن کو یانترا مندیر کا نام دیا گیا تاکہ سدھانتا اور اسلامی زیج سلطانی کے مشاہدات کو بہتر بنایا جا سکے، اور صدیوں میں ابتدائی ہندو موافقت اور زیج سلطانی کے اسلامی مشاہدوں کو بہتر بنانے کے لئے. اس کے استعمال شدہ آلات اسلامی فلکیات سے متاثر تھے،72،73 جبکہ کمپیوٹنگ کی تکنیکوں کو ہندی فلکیات سے اخذ کیا گیا تھا.

مغربی مورخ سیوج سمتھ کے مطابق مغل بھارت میں ایجاد کی جانے والی سب سے زیادہ قابل قدر فلکیاتی ایجاد ایک بے مثال آسمانی کرہ یا Celestial globe تھا. ,یہ 998 ھ (1589-90 عیسوی) میں کشمیر میں علی کشمیری بن لقمان کی طرف سے ایجاد کیا گیا تھا، اور بعد میں مغل سلطنت کے دوران لاہور اور کشمیر میں بیس دیگر اس طرح کی گلوب تیار کی گئیں. ,1980 کے دہائیوں میں اپنی دوبارہ دریافت سے پہلے، جدید یہ محسوس ہوتا تھا کہ جدید ماہرین فلزیات یا میٹلرجی کے نزدیک بے جوڑ فلکیاتی کروں کی ایجاد تکنیکی طور پر ناممکن تھی.74

مغربی مورخ Teltscher کے مطابق شیخ دین محمد نے مغل کیمیا یعنی کیمسٹری کے بارے میں بہت کچھ سیکھا اور شیمپو پیدا کرنے کے لئے مختلف الکلیوں اور صابن پیدا کرنے کے لئے استعمال ہونے والی تکنیکوں کو سمجھا. یہ انسان حقیقت میں شیمپو کا موجد تھا۔برطانیہ میں، اس کو کو کنگز جارج چہارم اور ولیم چہارم دونوں کے شیمپونگ سرجن کے طور پر مقرر کیا گیا تھا.75

مسلم مغل دور میں برصغیر کی یہ شاندار ترقی، اس کے دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت اور دنیا کے امیر ترین ملک ہونے کا مغربی و دیگر غیر مسلم مورخین کا یہ بیان ان اسلام دشمن مصنفین کی بولتی بند کرنے کے لیے کافی ہے جو کہتے ہیں کہ مسلم حکمران لٹیرے تھے۔ یہ ان لوگوں کے منہ پہ زوردار طمانچہ ہے۔ لعنت ہو اللٰہ تعالٰی کی ان جھوٹ بولنے والوں پہ،تاریخ بگاڑنے والوں، ان متعصبین،منافقین و ملحدین پہ۔ لیکن بے فکر رہیں۔ پریشان نہ ہوں۔ انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے اور اس میں سب کچھ جائز ہے۔ جھوٹ بھی، تعصب بھی، الزام تراشی بھی۔ ایسے سب سے بڑے مذہب کو دور سے سلام۔

ویڈیو ایڈیٹنگ کے فن سے ماہر۔دوستوں سے گزارش ہے کہ اس مضمون کی ویڈیو کی شکل دے کر یو ٹیوب پہ پبلش کردیں۔ نیز اس مضمون کو کاپی پیسٹ کرنے، شیئر کرنے، ویب سائٹس، بلاگز اور اخبارات میں دینے کی مکمل اجازت ہے۔

تحریر: ڈاکٹر احید حسن

حوالہ جات:

1:John Walbridge. God and Logic in Islam: The Caliphate of Reason. p. 165. Persianate Mogul Empire.

2:”Indo-Persian Literature Conference: SOAS: North Indian Literary Culture (1450–1650)”. SOAS. Retrieved 28 November 2012.

3:Asher, C.B.; Talbot, C (2008), India Before Europe (1st ed.), Cambridge University Press, ISBN 978-0-521-51750-8.p 115

4:Robb, P. (2001), A History of India, London: Palgrave, ISBN 978-0-333-69129-8.ppl.90,91

5:Metcalf, B.; Metcalf, T.R. (2006), A Concise History of Modern India (2nd ed.), Cambridge University Press, ISBN 978-0-521-68225-1.p.17

6:Asher, C.B.; Talbot, C (2008), India Before Europe (1st ed.), Cambridge University Press, ISBN 978-0-521-51750-8.p. 152

6:Catherine Ella Blanshard Asher; Cynthia Talbot (2006). India before Europe. Cambridge University Press. p. 265. ISBN 978-0-521-80904-7.

7:Burjor Avari (2013). Islamic Civilization in South Asia: A History of Muslim Power and Presence in the Indian Subcontinent. Routledge. pp. 131–. ISBN 978-0-415-58061-8.

8:Erinn Banting (2003). Afghanistan: The people. Crabtree Publishing Company. pp. 9–. ISBN 978-0-7787-9336-6.

9:Metcalf, B.; Metcalf, T.R. (2006), A Concise History of Modern India (2nd ed.), Cambridge University Press, ISBN 978-0-521-68225-1.ppl.23,24

10:https://ur.m.wikipedia.org/wiki/مغلیہ_سلطنت

11:Lex Heerma van Voss; Els Hiemstra-Kuperus; Elise van Nederveen Meerkerk (2010). “The Long Globalization and Textile Producers in India”. The Ashgate Companion to the History of Textile Workers, 1650–2000. Ashgate Publishing. p. 255.

12:Parthasarathi, Prasannan (2011), Why Europe Grew Rich and Asia Did Not: Global Economic Divergence, 1600–1850, Cambridge University Press, p. 2, ISBN 978-1-139-49889-0

13:Maddison, Angus (2003): Development Centre Studies The World Economy Historical Statistics: Historical Statistics, OECD Publishing, ISBN 92-64-10414-3, p. 261

14:Jeffrey G. Williamson & David Clingingsmith, India’s Deindustrialization in the 18th and 19th Centuries, Global Economic History Network, London School of Economics

15:Abraham Eraly (2007), The Mughal World: Life in India’s Last Golden Age, p. 5, Penguin Books

16:Dodgson, Marshall G.S. (2009). The Venture of Islam, Volume 3: The Gunpowder Empires and Modern Times, Volume 3. University of Chicago Press. p. 62. ISBN 978-0-226-34688-5.

17:Berndl, Klaus (2005). National Geographic visual history of the world. University of Michigan. pp. 318–320. ISBN 978-0-521-52291-5.

18:Bose, Sugata Bose; Ayesha Jalal (2004). Modern South Asia: History, Culture, Political Economy. Routledge. p. 41. ISBN 978-0-203-71253-5.

19:Jeffrey G. Williamson, David Clingingsmith (August 2005). “India’s Deindustrialization in the 18th and 19th Centuries” (PDF). Harvard University. Retrieved 2017-05-18.

20:Karl J. Schmidt (2015), An Atlas and Survey of South Asian History, page 100, Routledge

21:Maddison, Angus (2003): Development Centre Studies The World Economy Historical Statistics: Historical Statistics, OECD Publishing, ISBN 92-64-10414-3, pp. 256–261

22:John F. Richards, The Mughal Empire (1996), pp. 185–204

23:Richards, James (1995). The Mughal Empire. Cambridge University Press. pp. 73–74.

24:Kaveh Yazdani (2017), India, Modernity and the Great Divergence: Mysore and Gujarat (17th to 19th C.), Brill Publishers

25:Carlo M. Cipolla (2004). Before the Industrial Revolution: European Society and Economy 1000–1700. Routledge. p. 47

26:Shireen Moosvi (2015). “The Economy of the Mughal Empire c. 1595: A Statistical Study”. Oxford Scholarship Online. Oxford University Press.

27:Paul Bairoch (1995). Economics and World History: Myths and Paradoxes. University of Chicago Press. pp. 95–104.

28:Chris Jochnick, Fraser A. Preston (2006), Sovereign Debt at the Crossroads: Challenges and Proposals for Resolving the Third World Debt Crisis, pp. 86–87, Oxford University Press

29:Shireen Moosvi, “The World of Labour in Mughal India (c. 1500–1750)”, International Review of Social History (Dec 2011) Supplement S, Vol. 56 Issue S19, pp. 245–261

30:Ignacio Pichardo Pagaza, Demetrios Argyriades (2009), Winning the Needed Change: Saving Our Planet Earth : a Global Public Service, p. 129, IOS Press

31:John F. Richards (1995), The Mughal Empire, p. 190, Cambridge University Press

32:John F. Richards (2003), The Unending Frontier: An Environmental History of the Early Modern World, p. 28, University of California Press

33:Irfan Habib; Dharma Kumar; Tapan Raychaudhuri (1987). The Cambridge Economic History of India (PDF). 1. Cambridge University Press. p. 214.

34:Irfan Habib (2011), Economic History of Medieval India, 1200–1500, p. 53, Pearson Education

35:Vivek Suneja (2000). Understanding Business: A Multidimensional Approach to the Market Economy. Psychology Press. p. 13.

36:Om Prakash, “Empire, Mughal”, History of World Trade Since 1450, edited by John J. McCusker, vol. 1, Macmillan Reference US, 2006, pp. 237–240, World History in Context, accessed 3 August 2017

37:John F. Richards (1995), The Mughal Empire, p. 202, Cambridge University Press

38:Angus Maddison (1995), Monitoring the World Economy, 1820–1992, OECD, p. 30

39:Jeffrey G. Williamson (2011). Trade and Poverty: When the Third World Fell Behind. MIT Press. p. 91.

39:Richard Maxwell Eaton (1996), The Rise of Islam and the Bengal Frontier, 1204–1760, p. 202, University of California Press

40:Lakwete, Angela (2003). Inventing the Cotton Gin: Machine and Myth in Antebellum America. Baltimore: The Johns Hopkins University Press. pp. 1–6. ISBN 978-0-8018-7394-2.

41:Ray, Indrajit (2011). Bengal Industries and the British Industrial Revolution (1757-1857). Routledge. p. 174. ISBN 978-1-136-82552-1.

42:”Technological Dynamism in a Stagnant Sector: Safety at Sea during the Early Industrial Revolution” (PDF)

43:Tirthankar1 Roy, “Where is Bengal? Situating an Indian Region in the Early Modern World Economy”, Past & Present (Nov 2011) 213#1 pp. 115–146

44:M. Shahid Alam (2016). Poverty From The Wealth of Nations: Integration and Polarization in the Global Economy since 1760. Springer Science+Business Media. p. 32.

43:John F. Richards (1995), The Mughal Empire, p. 202, Cambridge University Press

44:Shoaib Daniyal. “Bengali New Year: how Akbar invented the modern Bengali calendar”. Scroll.in.

45:Eaton, Richard M. (1996). The Rise of Islam and the Bengal Frontier, 1204-1760. University of California Press. ISBN 978-0-520-20507-9.

46:Nanda, J. N. (2005). Bengal: The Unique State. Concept Publishing Company. ISBN 978-81-8069-149-2.

47:Colin McEvedy; Richard Jones (1978). Atlas of World Population History (PDF). New York: Facts on File. pp. 184–185.

48:John F. Richards (1995), The Mughal Empire, p. 190, Cambridge University Press

49:Paolo Malanima (2009). Pre-Modern European Economy: One Thousand Years (10th–19th Centuries). Brill Publishers. p. 244.

50:Irfan Habib; Dharma Kumar; Tapan Raychaudhuri (1987). The Cambridge Economic History of India (PDF). 1. Cambridge University Press. p. 170.

51:Irfan Habib; Dharma Kumar; Tapan Raychaudhuri (1987). The Cambridge Economic History of India (PDF). 1. Cambridge University Press. p. 165

52:Irfan Habib; Dharma Kumar; Tapan Raychaudhuri (1987). The Cambridge Economic History of India (PDF). 1. Cambridge University Press. p. 171

53:Social Science Review, Volume 14, Issue 1, p. 126, Dhaka University

54:Shireen Moosvi (2008), People, Taxation, and Trade in Mughal India, p. 131, Oxford University Press

55:Mughal Empire – MSN Encarta. Archived from the original on 1 November 2009.

56:”BBC – Religions – Islam: Mughal Empire (1500s, 1600s)”. Retrieved 2018-06-10.

57:Alter, Joseph S. (May 1992a). “The “sannyasi” and the Indian Wrestler: The Anatomy of a Relationship”. American Ethnologist. 19 (2): 317–336. doi:10.1525/ae.1992.19.2.02a00070. ISSN 0094-0496.

58:Alter, Joseph S. (1992b). The Wrestler’s Body: Identity and Ideology in North India. Berkeley: University of California Press. ISBN 0-520-07697-4.

59:Ross Marlay; Clark D. Neher (1999). Patriots and Tyrants: Ten Asian Leaders. Rowman & Littlefield. p. 269. ISBN 0-8476-8442-3.

60:”Indian History-Medieval-Mughal Period-AKBAR”. Webindia123.com. Retrieved 28 November 2012.

61:”A Brief Hindi – Urdu FAQ”. sikmirza. Archived from the original on 2 December 2007. Retrieved 20 May 2008.

62:Streusand, Douglas E. (2011). Islamic Gunpowder Empires: Ottomans, Safavids, and Mughals. Philadelphia: Westview Press. ISBN 0-8133-1359-7.

63:Charles T. Evans. “The Gunpowder Empires”. Northern Virginia Community College. Retrieved December 28, 2010.

64:Partington, James Riddick (1999), A History of Greek Fire and Gunpowder, Baltimore: Johns Hopkins University Press, p. 226, ISBN 0-8018-5954-9

65:Bag, A.K. (2005). “Fathullah Shirazi: Cannon, Multi-barrel Gun and Yarghu”. Indian Journal of History of Science. New Delhi: Indian National Science Academy. 40 (3): 431–436. ISSN 0019-5235.

66:Partington, James Riddick (1999), A History of Greek Fire and Gunpowder, Baltimore: Johns Hopkins University Press, p. 225, ISBN 0-8018-5954-9

67:India.” Encyclopædia Britannica. Encyclopædia Britannica 2008 Ultimate Reference Suite. Chicago: Encyclopædia Britannica, 2008.

68:MughalistanSipahi (19 June 2010). “Islamic Mughal Empire: War Elephants Part 3”. YouTube. Retrieved 28 November 2012.

69:The Mughal Empire – Ishwari Prasad – Google Books. Books.google.com.pk. Retrieved 29 April 2012.

70:Partington, James Riddick (1999), A History of Greek Fire and Gunpowder, Baltimore: Johns Hopkins University Press, p. 226, ISBN 0-8018-5954-9

71:Roddam Narasimha (1985). “Rockets in Mysore and Britain, 1750–1850 A.D.” National Aerospace Laboratories, India. Retrieved 30 November 2011.

72:Sharma, Virendra Nath (1995), Sawai Jai Singh and His Astronomy, Motilal Banarsidass Publ., pp. 8–9, ISBN 81-208-1256-5

73:Baber, Zaheer (1996), The Science of Empire: Scientific Knowledge, Civilization, and Colonial Rule in India, State University of New York Press, pp. 82–89, ISBN 0-7914-2919-9

74:Savage-Smith, Emilie (1985), Islamicate Celestial Globes: Their History, Construction, and Use, Smithsonian Institution Press, Washington, DC

75:Teltscher, Kate (2000). “The Shampooing Surgeon and the Persian Prince: Two Indians in Early Nineteenth-century Britain”. Interventions: International Journal of Postcolonial Studies. 2 (3): 409–423. doi:10.1080/13698010020019226. ISSN 1469-929X.