اسلام امن و سلامتی کا مذہب – عہد خلفائے راشدین سے چند نمونے

امت مسلمہ نے ان اخلاقی اور قانونی ہدایات اور عہد رسالت کے علمی نمونوں کو ہر دور میں پوری اہمیت دی اور روئے زمین پر ایک پرامن قوم کی حیثیت سے اپنی پہچان قائم کی۔ مسلمانوں نے اس مقصد کے لئے غیرمسلموں کے ساتھ بھی فراخدلانہ رویہ اختیار کیا، ان کے حقوق و جذبات کی رعایت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ہر ممکن کوشش کی کہ کسی طرح قیام امن کا عمل متاثر نہ ہو خواہ اس کے لئے ان کو بڑی سے بڑی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ مسلمانوں کی انہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کی صدیوں پرانی تاریخ میں فرقہ وارنہ فسادات اور خونریز ہنگاموں کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ملتا۔ مسلمانوں کے امن پسند ہونے کی اس سے بڑی شہادت کیا ہوسکتی ہے؟

اسلامی عہد حکومت کے مختلف ادوار سے بعض نمونے پیش کئے جاتے ہیں:

عہدصدیقی

عہد رسالت کے بعد تاریخ اسلامی کا سب سے قیمتی عہد؛ عہد صدیقی ہے۔ اس عہد کا ابتدائی حصہ اگر چہ ہنگامی حالات سے لبریز ہے مگر اس کا زیادہ تر تعلق خارجی ہے۔ داخلی طور پر ملک میں کوئی بدامنی نہیں تھی اور بالخصوص غیرمسلموں کے ساتھ پوری رواداری اور فراخدلی کا ماحول قائم تھا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق کے عہد میں جو ممالک فتح ہوئے؛ وہاں غیرمسلم آبادی کے حقوق کا مکمل لحاظ رکھا گیا۔ حیرہ فتح ہوا تو وہاں کے عیسائیوں سے یہ معاہدہ ہوا کہ ان کی خانقاہیں اور گرجا گھر منہدم نہ کئے جائیں گے، ان کا وہ قصر نہیں گرایا جائے گا جس میں وہ ضرورت کے وقت دشمنوں کے مقابلہ میں قلعہ بند ہوتے ہیں، ان کے ناقوس اور گھنٹے بجانے پر پابندی نہ ہوگی، تہوار کے موقع پر صلیب نکالنے پر ممانعت نہ ہوگی، اسی معاہدہ میں یہ بھی تھا کہ یہاں کے ذمیوں کو فوجی لباس کے علاوہ ہر طرح کی پوشاک پہننے کی اجازت ہوگی بشرطیکہ وہ مسلمانوں سے مشابہت پیداکرنے کی کوشش نہ کریں۔

آپ کے عہد خلافت میں ایک غیرمسلم عورت کا ہاتھ ایک مسلمان افسر نے صرف اس جرم میں کٹوادیا تھا کہ وہ مسلمانوں کی ہجو میں اشعار گاتی تھی۔ حضرت صدیق اکبر نے اس افسر کو تنبیہ فرمائی کہ اگر وہ عورت مسلمان تھی تو کوئی معمولی سزا دینی چاہئے تھی اور اگر ذمی تھی تو جب ہم نے اس کے کفر وشرک سے درگذر کیا تو یہ تو اس سے فروتر چیز تھی۔

عہد فاروقی

حضرت فاروق اعظم کا عہد پوری دنیائے حکمرانی کی تاریخ میں ایک امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ ملک کی ترقی و خوشحالی، امن وامان کی بحالی، داخلی سلامتی، خارجی سیاست، پیداوار میں اضافہ، ایجادات واکتشافات اور علمی تحقیقات کے لحاظ سے یہ عہد اپنی مثال آپ ہے۔ حضرت فاروق کے بعد چشم فلک نے اس سرزمین پر اتنا خوبصورت عہد حکومت دوبارہ نہیں دیکھا جس میں ہر شخص اپنے کو محفوظ اور ترقی پسند محسوس کرتا تھا اور مسلمانوں کے علاوہ غیرمسلم اقلیتوں کے ساتھ بھی مکمل رواداری ملحوظ رکھی جاتی تھی۔

آپ کے عہد میں بیت المقدس فتح ہوا تو خود حضرت عمر فاروق کی موجودگی میں وہاں کے لوگوں سے یہ معاہدہ ہوا کہ: یہ وہ فرمان ہے جو خدا کے غلام امیرالمومنین نے ایلیاء کے لوگوں کو دیا؛ کہ ان کا مال، گرجا، صلیب، تندرست بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کیلئے ہیں۔ اس طرح کہ ان کے گرجاؤں میں نہ سکونت کی جائے گی اور نہ وہ ڈھائے جائیں گے، نہ ان کو اور نہ ان کے احاطے کو نقصان پہنچایا جائے گا، اور نہ ہی ان کے صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی، مذہب کے بارے میں ان پر جبر نہ کیا جائے گا، ایلیا والوں میں سے جو شخص اپنی جان ومال لے کر یونانیوں کے ساتھ منتقل ہونا چاہے تو ان کو اور ان کے گرجاؤں اور صلیبوں کو امن ہے؛ یہاں تک کہ وہ اپنی جائے پناہ تک پہنچ جائے اورجو کچھ اس تحریر میں ہے اس پر خدا کا، رسول کا، خلفاء کا اور مسلمانوں کا ذمہ ہے بشرطیکہ وہ لوگ جزیہٴ مقررہ ادا کرتے رہیں۔“ (الفاروق، شبلی ۲/۱۳۷)

ایک مرتبہ غسان کا نصرانی بادشاہ حضرت عمر سے ملنے آیا تو اتفاقا ایک اعرابی نے نادانستہ اسے دھکا دیا اس پر بادشاہ نے خفاہوکر اسے مارا۔اعرابی کی نالش پر حضرت عمر نے یہ فیصلہ سنایا کہ وہ بادشاہ کو مارے اس پر بادشاہ نے کہا: اے امیرالمومنین! کہیں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک شخص بادشاہ کو ہاتھ لگائے؟ حضرت عمر نے جواب دیا:اسلام کا قانون یہی ہے۔ انصاف کے باب میں اسلام کے نزدیک امیر و غریب، بادشاہ اور رعایا سب برابر ہیں۔ (اسلام کا نظام امن ص:۴۹ مفتی ظفیرالدین صاحب)

اسی طرح ایک مرتبہ مصر میں گھوڑوں کی ریس ہورہی تھی حضرت عمرو بن عاص (جو مصر کے فاتح اوراس کے پہلے اسلامی گورنر تھے) ان کے صاحبزادہ بھی اس ریس میں شریک تھے۔ مقابلہ میں ایک قبطی کا گھوڑا ان کے گھوڑے سے آگے بڑھنے لگا تو انھوں نے اس کے گھوڑے کو ایک کوڑا رسید کیا۔ وہ احتجاجا رک گیا تو انھوں نے اس قبطی کو ایک کوڑا لگایا اور کہا کہ: میں ایک شریف زادہ ہوں تم نے مجھ سے آگے بڑھنے کی کوشش کیوں کی؟ قبطی نے اس واقعہ کا مقدمہ حضرت عمر فاروق کے یہاں پیش کیا۔ آپ نے گورنر صاحب اور ان کے صاحبزادہ دونوں کو طلب کیا اور فرمایا: تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنالیا ہے؟ حالاں کہ سارے انسان اپنی ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہوئے ہیں، پھر آپ نے قبطی کے ہاتھ میں کوڑا دے کر حکم فرمایاکہ :اس شریف زادہ کے سر پر ویسا ہی پھیرو جیسا کہ اس نے تمہارے سر پر پھیرا تھا۔“ (خلفاء اربعہ ص۲ مولانا علی میاں ندوی)

حضرت عمر فاروق ہی کے عہد خلافت کا واقعہ ہے کہ جب ملک شام کے ایک بڑے حصہ پر مسلمان قابض ہوگئے تو ہاں کے لوگوں نے انطاقیہ کے حکمراں ہرقل کو ایک زبردست فوج لے کر حمص کی طرف بڑھنے پر آمادہ کیا جہاں حضرت ابوعبیدہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ خیمہ زن تھے۔ حضرت ابوعبیدہ کو غنیم کے لشکر جرار کی خبر ملی تو انھوں نے مجلس مشاورت منعقد کیا جس میں یہ رائے طے پائی کہ حمص کو خالی کرکے دمشق کو محاذ بنایاجائے؛ مگر حمص چھوڑنے سے پہلے حضرت ابوعبیدہ نے یہ حکم جاری کیا کہ اب وہ اس کے باشندوں کو دشمنوں سے بچانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اس لئے ان سے جزیہ یا خراج کے نام پرجو کچھ لیا گیا تھا وہ انہیں واپس کردیا جائے؛ کیوں کہ یہ جزیہ حفاظت کی خاطر وصول کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اہل حمص کو ان کی پوری رقم واپس کردی گئی۔ اس رقم کی واپسی سے اہل حمص بہت متاثرہوئے اور کہا کہ: ہم مسلمانوں کی فوجوں کے کاندھے سے کاندھا ملاکر ہرقل کی فوج سے آخری دم تک لڑیں گے۔“ یہودیوں نے بھی توارة کی قسم کھاکر یہی بات کہی۔ اہل حمص نے مسلمانوں کو دعائیں دیں کہ خدا تمہیں دوبارہ فتح عطا کرے اوریہاں واپس لائے۔ آج تمہاری جگہ اگر رومی ہوتے تو وہ کچھ بھی واپس نہ کرتے بلکہ ہماری باقی ماندہ چیزیں بھی لوٹ لیتے۔“ (فتوح البلدان ج:۱،ص:۱۴۴، الفاروق ج۱،ص:۱۲۷،۱۲۸)

۲۱ھء میں اسکندریہ فتح ہوا تو وہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ایک تصویر تھی۔ تصویر اسلام میں ناپسندیدہ امر ہے۔ اس بناء پر کسی مسلم سپاہی نے اپنے تیر سے تصویر عیسیٰ کی ایک آنکھ پھوڑ ڈالی۔ اس پر عیسائیوں کو تکلیف ہوئی، جس کی وجہ سے عیسائیوں نے حضرت عمر و بن عاص کے پاس مقدمہ کا پھر مطالبہ کیاکہ: حضرت محمد (…) کی ایک تصویر بناکر ان کو دی جائے؛ تاکہ وہ بھی ان کی ایک آنکھ پھوڑ ڈالیں؟ حضرت عمرو نے جواب دیا: تصویر کی کیا ضرورت ہے؟ ہم لوگ موجود ہیں؛ تم جس کی آنکھ چاہو پھوڑ ڈالو!! پھر اپنا خنجر ایک عیسائی کے ہاتھ میں دے کر اپنی آنکھیں سامنے کردی۔ یہ سن کر عیسائی کے ہاتھ سے خنجر گرپڑا اور وہ اپنے دعوی سے یہ کہہ کر دستبردار ہوگیا کہ: جو قوم اس درجہ دلیر، فیاض، انصاف پسند اور فراخدل ہو اس سے انتقام لینا بے رحمی اور بے قدری ہے۔“ (خطباب شبلی ص:۷۳،۷۴)

عہد عثمانی

حضرت عثمان غنی کاعہد بھی امن وامان کی بحالی، مختلف قوموں کے ساتھ رواداری، داخلی سلامتی اور ترقی و خوشحالی کے لحاظ سے مثالی تھا۔ متعدد ممالک کی داخلی صورت حال سے باخبر رہنے کیلئے آپ سرکاری وفود بھیجا کرتے تھے۔ جمعہ کے دن منبر پر پہنچ کر اطراف ملک کی خبریں پوچھتے اور عام اعلان کرتے کہ: اگر کسی کو کسی سرکاری افسر سے شکایت ہو تو حج کے موقع پر آکر بیان کرے۔ اس موقعہ پر تمام افسروں کو بھی فوری طور پرطلب کرلیتے تھے؛ تاکہ شکایتوں کی تحقیقات ہوسکے۔“ (مسند احمدبن حنبل ص:۷۳)

آپ کے دور میں نجران کے عیسائیوں کو بعض مسلمانوں سے کچھ شکایات پیداہوئیں تو آپ نے فوراً ان کی طرف توجہ کی۔ حاکم نجران ولید بن عتبہ کے نام خصوصی مکتوب تحریر فرمایا اور امن وامان کی صورت حال بگڑنے نہ دی۔ (کتاب الخراج لابی یوسف،ص:۲۷۶)

عہد حضرت علی

حضرت علی کا عہد بظاہر سخت انتشار وخلفشار سے پر ہے اور سخت ہنگاموں سے حضرت علی کو فرصت نہ مل سکی مگراس کے باوجود غیرمسلم اقلیتوں، اسی طرح غیرجانبدار طبقات کی سلامتی کے باب میں کسی جزء پر انگلی رکھنے کی گنجائش نہیں ہے۔ آپ کے عہد میں ایک گورنر عمروبن مسلم کی سخت مزاجی کی بعض شکایات آپ کو ملیں تو آپ نے فوراً اس کے ازالہ کی طرف توجہ فرمائی۔

اسی طرح غیرمسلموں کی آب پاشی کی ایک نہر پٹ گئی تھی حضرت علی نے وہاں کے گورنر طرفہ بن کعب کو لکھا کہ: اس نہر کو آباد کرنا مسلمانوں کا فرض ہے۔ میری عمر کی قسم! مجھے اس کا آباد رہنا زیادہ پسند ہے۔ (تاریخ اسلام،ج:۱، ص:۳۶۸ شاہ معین الدین)