اسلام امن و سلامتی کا مذہب – عہد سلاطین ہند سے چند نمونے

سلطان محمد تغلق

سلطان محمد تغلق کے خلاف ایک ہندو امیر نے عدالت میں دعویٰ کیا کہ سلطان نے اس کے بھائی کو بلاسبب مارڈالا ہے۔ قاضی نے سلطان کو اپنی عدالت میں طلب کیا، وہ بغیر کسی پندار کے قاضی کی عدالت میں پہنچا، جاکر سلام کیا۔ قاضی کو پہلے سے کہلا بھیجا تھا کہ وہ عدالت میں آئے تو اس کی تعظیم نہ کی جائے۔ وہ قاضی کے سامنے ملزم کی حیثیت سے کھڑا ہوا۔ قاضی نے حکم دیا کہ سلطان مدعی کو راضی کرے، ورنہ قصاص کا حکم ہوگا۔ سلطان نے مدعی کو راضی کیا، تو اس کی گلوخلاصی ہوئی۔ اس فیصلہ سے اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ مسلم فرمارواؤں نے سلطنت کے غیرمسلموں کو کتنی آزادی اور مراعات دے رکھی تھی۔

شہاب الدین غوری

غزنوی سلاطین کے بعد سلاطین غوری کے زمانہ میں بھی غیرمسلموں کے حقوق اور ان کی شرعی حیثیت کا پاس ولحاظ کیاگیا۔ اور حتیٰ المقدور کوشش کی گئی کہ غیرمسلموں سے جنگ میں اور دوسرے معاملات میں بھی شرع کی خلاف ورزی نہ کی جائے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ جب شہاب الدین غوری انہلواڑہ کی فتح میں ناکام ہوکر غزنیں میں مقیم ہوا اور اپنی شکست کا انتقام لینے کے لیے جنگی تیاریوں میں مصروف تھا تو کسی نے عرضی لکھ کر بھیجی کہ انہلواڑہ میں ایک مشہور سوداگر ہے، جس کا نام و سالہ ابہر ہے، وہ ہمیشہ لاکھوں کا مال تجارت کی غرض سے ان علاقوں میں بھجوایاکرتا ہے۔ چنانچہ اس وقت بھی اس کا دس لاکھ کے قریب کا مال غزنیں میں آیا پڑا ہے۔ اگر بادشاہ سلامت چاہیں تو اس مال کو ضبط کرکے خزانہ میں بھجوایا جاسکتا ہے، اس سے نہ صرف خزانہ معمور ہوگا بلکہ شاہی شان وشوکت میں اضافہ ہوگا۔ سلطان نے عرضی کی پست پر لکھ کر روانہ کردیا کہ وسالہ ابہر کا یہ مال اگر انہلواڑہ میں ہوتا اور وہاں اس پر قبضہ کیاجاتا تو ہمارے لیے حلال ہوتا، لیکن غزنیں میں اس مال پر قبضہ کرنا ہمارے لیے حرام ہے، کیونکہ وہ میری پناہ میں ہے۔

سلطان شہاب الدین غوری ،علاء الدین خلجی اورجلال الدین خلجی کے زمانے میں ہندووٴں نے عروج حاصل کیا،یہاں پر شہاب الدین غوری کایہ واقعہ دعوت ملاحظہ دے رہاہے کہ: وہ سلطنت کی ہوس میں غیر قوم کو زک پہونچانا جرم عظیم سمجھتاتھا۔واقعہ یہ ہے کہ جب وہ انہلواڑہ کے معرکے میں ناکام ہوا تو اسی دوران اس سے کسی نے کہا کہ انہلواڑہ کا فلاں تاجر غزنین میں تجارت کرتاہے اور اس کی دس لاکھ کی ملکیت کا سامان تجارت غزنین میں پہونچا ہواہے، اسے ضبط کرکے خزانہ شاہی میں بھر لیں تاکہ شاہی شان و شوکت میں اضافہ ہو۔اس کے جواب میں سلطان نے جو جملہ لکھااس سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ مسلمان سلاطین کس طرح غیر قوم کے ساتھ ہمدردی اوررواداری کا سلوک کرتے تھے:

”وسالہ ابہر کا یہ مال اگر نہر والہ(انہل واڑہ)میں ہوتا اور وہاں اس پر قبضہ کیاجاتاتو ہمارے لیے حلال ہوتا ، لیکن غزنین میں اس مال پر قبضہ کرنا ہمارے لیے حرام ہے، کیوں کہ وہ میری پناہ میں ہے۔“( جامع الحکایات ولامع الروایات،ص:۴۷،بحوالہ مسلمان حکمرانوں کی مذہبی رواداری،ص:۷۲)

غیاث الدین بلبن

غیاث الدین بلبن کا عہد (۱۲۶۵ تا ۱۲۸۶/) ملک کی ترقی و خوشحالی، ہندومسلم تعلقات اور قیام امن کے باب میں کافی مثالی ہے۔ اس دور کی رعایا پروری، عدل گستری اور رواداری کا اندازہ سنسکرت کے اس کتبہ سے بھی ہوتا ہے جو ”پالم“ میں پایاگیا اور دہلی کے آثار قدیمہ کے عجائب گھر میں موجود ہے؛ اس میں بلبن کے متعلق لکھا ہے:

”جب سے اس سلطان ذیشان نے دنیا کا بوجھ اپنے کندھوں پر لیا ہے؛ دنیا کو سہارا رکھنے والے شیش ناگ دھرتی کے بوجھ سے سبکدوش ہوبیٹھے ہیں اور وشنو بھگوان نگہبانی کا خیال چھوڑ کر اطمینان سے دودھ کے سمندر پر محواستراحت ہے۔“ (دیکھئے: ہندوستان کے معاشرتی حالات ازمنہٴ وسطی میں ازعبداللہ یوسف علی ص:۹۸)

علاء الدین خلجی

علاء الدین خلجی کو ایک متعصب حکمراں سمجھا جاتاتھا لیکن اس نے ہندوؤں کے پیشواؤں کی بڑی عزت و توقیر کی۔ کہا جاتا ہے کہ فرقہٴ دیگر کے پیشوا ”پورناچندر“ اور ”سوئمبریوگی“ کے ”رام چندر سوری“ کی پذیرائی سلطان کے یہاں بہت تھی۔ (اسلام امن وآشتی کا علمبردار ص:۷۴ حیدرآباد)

سکندر لودھی :

سلطان سکند ر لودھی ہندو رعایا کا خصوصی خیال رکھتا تھا ۔ ایک دفعہ اس نے دیکھا کہ اہل کاران و عہدیداران میں ہندو نظر نہیں آتے تواس نے ہندوؤں کو ان کا یہ حق دینا چاہا، مگر معلوم ہوا کہ ہندو فارسی زبان سے بالکل ناواقف ہیں اور اس وقت کوئی ہندو بھی ایسا نہیں جو فارسی جانتا ہو۔ چنانچہ سلطان نے سب سے پہلے برہمنوں کو بلاکر ان سے فارسی پڑھنے کو کہا۔ انھوں نے اپنی مذہبی ضروریات اور مصروفیتوں کے پیش نظر انکار کردیا۔ پھر چھتریوں سے کہا گیا، مگر یہ فوجی زندگی ہی کو اپنے لیے سربلندی کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ انھوں نے بھی اظہار مجبوری کیا، ویش قوم کے لوگ تجارت سے زیادہ دلچسپی رکھتے تھے، یہ خدمت مذہبا ان پر فرض تھی وہ بھی اس ذمہ داری کو قبول نہ کرسکے۔ اعلیٰ قوموں میں کایستھوں نے فارسی کو اپنے عروج کا ذریعہ بنایا اور فارسی پڑھنے پر آمادہ ہوئے۔ چنانچہ انھوں نے فارسی زبان سیکھ کر مسلمانوں کے عہد سلطنت میں زبردست عروج حاصل کیا اور بڑے بڑے عہدوں پر مامور ہوئے۔ انھوں نے مسلمانوں کے علوم میں اتنی دستگاہ بہم پہنچائی کہ ان علوم کا درس دینے لگے۔

چوں کہ اس زمانہ تک سرکاری زبان فارسی ہوگئی تھی اور تمام دفتری کام اسی زبان میں انجام پاتے تھے، زبان کی ناواقفیت کی بنا پر غیرمسلم سرکاری عہدوں میں نہیں تھے۔ باوجود سلطان سکندر ایک کٹرمذہبی انسان ہونے کے اسے یہ فکر دامن گیر ہوئی ہندو بھی ہماری رعایا ہے اس لیے زبان دانی کے مسئلہ کو حل کرکے حکومت کے امور اور عہدے ان کے سپرد کیے جائیں۔ کسی بادشاہ وقت کواپنی رعایا کے لیے اتنی فکر ہو اسے کیوں کر فراموش کیا جانا چاہیے۔

باوجود اس رواداری کے اسے بھی ایک کٹر اور سنی مسلمان کے خانہ میں شامل کرکے اسے ہندوکش اور متعصب قرار دیا جاتا ہے۔ اور یہ کہا جاتاہے کہ اس نے مندر مسمار کیے جس کی حقیقت بس اتنی ہے کہ کروکشتر کے تالاب میں ہندو بکثرت جمع ہوتے اور اشنان کرتے۔ سکندر نے چاہا کہ اس کنڈ کو تباہ کرکے اس اجتماع کو روک دے۔ اس زمانہ کے ایک عالم مولانا عبداللہ سے استفسار کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ قدیم رسم کو روکنا اور قدیم بت خانہ کو منہدم کرنا بالکل جائز نہیں، سکندر کو یہ جواب پسند نہ آیا، وہ سمجھا کہ طرف داری کافتویٰ ہے۔ اپنی برہمی کا اظہار کیا، لیکن انھوں نے بڑی جرأت اور صفائی سے فرمایا کہ میں نے شریعت کا مسئلہ بیان کردیا، اگر شریعت کی پروا نہیں تو پھرپوچھنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اس جواب کے بعد سلطان نے اپنا ارادہ ترک کردیا۔

مغلیہ عہد

ظہیرالدین بابر نے ہندوستان میں مغلیہ حکومت کی بنیاد ڈالی۔ بابر مذہبی رواداری کی ایک اعلیٰ مثال تھا اس کے بارے میں موٴرخین کی شہادت ہے کہ اس نے ہندو عوام کی دلداری کا ہمیشہ خیال رکھا اس نے مرض الموت میں اپنے بیٹے ہمایوں کو وصیت کی: اے فرزند! ہندوستان کی سلطنت مختلف مذاہب سے بھری ہوئی ہے خدا کا شکر ہے کہ اس نے تم کو اس کی بادشاہت عطا کی۔ تم پر لازم ہے کہ اپنے لوح دل سے تمام مذہبی تعصبات کو مٹادو اور ہر مذہب کے طریقہ کے مطابق انصاف کرو۔“ (حوالہٴ بالا)

بابر کے بارے میں پروفیسر شری رام شرن شرما لکھتے ہیں:

”ہمیں کوئی ایسی شہادت دستیاب نہیں ہوئی کہ بابر نے کسی مندر کو منہدم کیا ہو اور کسی ہندو کو ہندو ہونے کی وجہ سے ایذاء دی ہو۔“ (مغل امپائر آف انڈیا،ص:۵۵)

پروفیسر رام پرساد کھوسلہ نے لکھا ہے:

”بابر نمایاں طور پر مذہبی تعصب اور تنگ نظری سے پاک تھا“ (مغل کنگ شپ اینڈ نوبلٹی،ص:۲۰۷)

بابر نے رانی چندیری کو اپنی بہن بنایا تھا بعد میں ہماریوں نے بھی اس رشتے کو نبھایا اور رانی چندیری کی مدد کیلئے وہ باقاعدہ لشکر لے کر راجپوتانہ گیا۔ (مسلمانوں کے بارے میں غلط فہمیوں وضاحتوں کا یونیورسل پیس فاؤنڈیشن،ص:۱۶)

بابر کے بعد دوسرے حکمرانوں نے بھی اس اعلیٰ روایت کو برقرار رکھا اور کبھی بھی ملک میں نقص امن کی صورت پیدا نہیں ہونے دی۔

سلطان ٹیپوشہید

مزید آگے بڑھ کر جب ہم ماضی قریب کے مسلم حکمرانوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو سلطان ٹیپوشہید ان میں سرفہرست نظر آتے ہیں۔ سلطان ٹیپو ایک وطن پرور اور اسلام نواز بادشاہ تھا؛ مگراس کے عہد میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے ہندوؤں، برہمنوں اور غیرمسلموں کو بڑے بڑے عہدوں پر فائز کیا اور انہیں اعزاز بخشا۔ ٹیپوسلطان کا وزیراعظم ایک برہمن تھا جن کا نام ”پونیا“ (Punnayya) تھا۔ اور ٹیپو کا فوجی سپہ سالار بھی ”کرشنا راؤ“ نامی برہمن تھا اور ٹیپو ایک سوچھپن (۱۵۶) مندروں کو سالانہ امداد دیا کرتا تھا۔ (مذہبی رواداری،۳/۳۱۷، اسلام امن وآشتی کا علمبردار،ص:۷۵)

دکن کا اسلامی عہد

* دکن میں مسلم حکمرانوں کا عہد بھی اس سلسلے میں کافی اہمیت کا حامل ہے۔ خوشحالی، فارغ البالی اور امن وامان کے لحاظ سے یہ پورا دور مثالی مانا جاتا ہے۔ بلالحاظ مذہب وملت، ہندو، مسلم، پارسی، سکھ، عیسائی سب اس عہد میں مل جل کر رہتے تھے۔

* قطب شاہی عہد کے فرمانروا سلطان ابراہیم قطب شاہ کی رواداری کے متعلق ڈاکٹر حمیدالدین شرفی لکھتے ہیں:

”سلطان ابراہیم بڑے عزم والا تھا، اس نے گولکنڈہ کو استحکام بخشا، اس نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان محبت و بھائی چارگی کو فروغ دیا۔“ (تاریخ حیدرآباد،ص:۸)

اسی طرح سلطان ابوالحسن تاناشاہ نے غیرمسلموں کو بڑے بڑے عہدوں سے سرفراز کیا ”مادنّا“ (جو ایک برہمن تھا اس) کو وزیراعلیٰ بنایا اوراس کے بھائی ”اِکنّا“ کو فوج کی کمانڈ ری کا عہدہ سونپا اور یہ دونوں بھائی چند دنوں میں سلطنت کے مختار کل بن گئے۔ (تاریخ حیدرآباد،ص:۱۰)

رواداری کا یہ ماحول سلطان ابوالحسن تاناشاہ کے دور حکومت میں پورے آب و تاب کے ساتھ پروان چڑھتا نظر آتا ہے، زندگی کا کوئی شعبہ اورحکومت کا کوئی محکمہ ایسا نہ تھا جس میں ہندو مسلمان دوش بدوش کام نہ کرتے ہوں، دونوں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے، دونوں کو برابر کا مرتبہ حاصل تھا۔“ (آصف سابع میر عثمان علی خان اور ان کا عہد،ص۲۹، از طیبہ بیگم)

* قطب شاہی عہد کے بعد دکن میںآ صف جاہی سلطنت کی بنیاد پڑی اس عہد میں امن وامان اور مذہبی رواداری کو جو فروغ ہوا اس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہاں ہر ایک کو مذہبی آزادی حاصل تھی، مسجد، مندر، گرودوارے، کلیسا، اور آتش کدے سبھی کو عزت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، اذان کے ساتھ مندر کے ناقوس کی گونج بھی سنائی دیتی تھی، آتش کدوں میںآ گ دہکتی اور گرجاؤں میں گھنٹے بجتے۔ (حوالہٴ بالا،ص:۳۲)

آصف جاہ سابع میر عثمان علی خاں نے اس باب میں ایسی مثال قائم کی جس کا متعصب سے متعصب شخص بھی انکار نہیں کرسکتا۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور خوشحالی زندگی کے ہر شعبہ میں نمایاں تھی، مسلمانوں کے ساتھ ہندو قوم کو بھی اعلی عہدے حاصل تھے۔ ان کے دورحکومت میں مہاراجہ ”کشن برشاد“ وزیر اعظم تھے۔ وینکٹ راماریڈی، کوتوال بلدہ مسٹر تارا پوروالی مشیرمال حضور نظام تھے۔ راجہ نرسنگ راج مہتمم سیونگ بینک نظامت ٹپہ تھے۔ جہاں آصف سابع نے مسجدوں، عاشورخانوں، درگاہوں کی امداد کی وہیں مندروں، گرودواروں، کلیساؤں اور آتش کدوں کی مالی سرپرستی بھی کی۔ پارسیوں کو نوروز کی، عیسائیوں کو کرسمس کی، سکھوں کو گرونانک کے جنم دن کی، اور ہندوؤں کو دیوالی، دسہرہ اور دوسرے تہواروں کی،اور مسلمانوں کو عیدوں اور میلادوں کی تعطیل ملتی تھی۔ دور عثمانی کی رواداری کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت حکومت کے زیرنگرانی ۲۷مساجد، ۱۰ عاشور خانے، ۱۲ الاوے، ۲۷ درگاہیں، ۱۳ تکٹے، ۲۱مندر، ۱۲ مٹھ، دو گرودوارے اور ۳ آتش کدے تھے۔“ (آصف سابع میر عثمان علی خاں ص:۳۳، ۱۰۱)

جلال الدین اکبر/شاہجہان:

اکبر کے دور میں ہندو رعایا کے ساتھ مسلمانوں سے بڑھ کر فیاضی کا سلوک کیا گیا ، طرح طرح سے انکی حوصلہ افزائی کی، بلکہ بحیثیت ذمی ہونے کے سلطنت کے اہم عہدے ان کے سپردکردیے تھے۔ اسی جہاں گیر ، شاہ جہاں عہد میں بھی ہندو بڑے اہم عہدے پر فائزتھے ۔نہ ہزاری،،ہفت ہزاری، چارہزاری جیسے عہدے ان کوملے ہوئے تھے ،جوفوجی عہدہ تھا۔یعنی ہر منصب کے تعداد کے اعتبارسے فوج ان کے زیر نگرانی حرکت کرتی تھی۔

(مقالات شبلی،ص:۲۲۲،ج:۱)

پروفیسر گارڈبراؤن نے لکھاہے:

”رہا ہندو رعایا کے ساتھ برتاؤسوان پر سختی وسخت گیری کیسی؟اس نے تو اکبر سے پہلے ہی ایک طرف ستی کے رسم کو مسدود کرایا ۔ دوسری طرف ہندوراجاؤں کو اعلیٰ جنگی مناصب اور دیگرقابل ہندووٴں کواعلی ملکی خدمات پر فائزکرناشروع کردیا تھا۔ اس نے دولت مند ہندووٴں کی دولت وثروت میں مطلق دست اندازی نہیں کی۔برنی کازر فرضی پر سب سے بڑا اعتراض یہی ہے کہ اس سے ہندووٴں کی دولت مندی وتونگری میں ترقی ہوتی رہی، اس نے (محمد تغلق نے)قدیم وجدید ہندو ریاستوں کو نیم خود مختاری کی حالت میں چھوڑے رکھا ۔ اس کے طرز عمل کی دانش مندی سے وہ لوگ تو انکار کرہی نہیں سکتے جو اکبر کے طرز حکومت کے مداح ہیں ۔“

(ماہنامہ معارف،اعظم گڑھ،جنوری۱۹۲۰ء،ص:۴۶-۴۷،مضمون: محمد تغلق کا دور حکومت)

اورنگ زیب عالمگیر

ہندوستان کے مسلم حکمرانوں میں سب سے زیادہ الزامات اورنگ زیب عالم گیر پھر محمد بن قاسم اور محمود غزنوی پر لگائے گئے ہیں ، انہی کو دیکھتے ہوئے ہم ان کے ادوار پر الگ الگ تحاریر میں تبصرہ کریں گے ۔

اورنگ زیب عالمگیر پر ایک بڑا الزام جو عموما مسلمانوں کی طرف سے لگایا جاتا ہے کہ اس نے اپنے بھائیوں اور والد کو قید کیا اسکا جواب ہم پہلے ایک پوسٹ میں پیش کرچکے ہیں ، اس تحریر کو یہاں اس لنک سے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

https://www.facebook.com/Religion.philosphy/photos/pb.1460029827566978.-2207520000.1447838684./1691443257758966/?type=3&theater

اسکے علاوہ بہت سے اعتراضات ایسے ہیں جو اصل ہندوؤں کی طرف سے لگائے گئے اب انہیں ہمارا سیکولر طبقہ بھی کاپی کرتا ہے مثلا اس نے اپنی حکومت میں شدت پسندی سے کام لے کر غیرمسلموں کو طرح طرح سے معتوب و رسوا کیا، حکومت کے عہدے و مناصب سے انھیں محروم رکھا اور نامنصفانہ طریقے سے جزیہ وصولی کا حکم جاری کیا، مندروں کو منہدم کروایا وغیرہ وغیرہ ۔

ان اعتراضات کی حقیقت الزامات سے ذیادہ نہیں ، ایسے کئی وثیقے محفوظ ہیں جن کے ذریعہ اورنگ زیب نے ہندوؤں کو بڑی بڑی جاگیریں دیں ، یی بھی تاریخی کتابوں میں لکھاموجود ہے کہ اورنگ زیب کے سپہ سالار غیرمسلم تھے اورنگ زیب کی اصل طاقت راجہ جے سنگھ تھا۔

بنگالی موٴرخ سرجادوناتھ سرکار جو اورنگ زیب پر اپنی تنقید کے حوالے سے بہت مشہور تھے انہوں نے بھی اپنی کتاب ”تاریخ اورنگ زیب“ میں اعتراف کیا :

”اورنگ زیب کی تاریخ ہندوستان کی ۶۰ سال کی نہایت شاندار تاریخ ہے۔ اس نے کبھی ہندو کو جبراً مسلمان نہیں بنایا، نہ امن کی حالت میں کسی ہندو کی جان لی۔“ (غلط فہمیاں وضاحتیں،ص:۱۶)

”تاریخ ہند“ کے مصنف رام پرساد کھوسلہ لکھتے ہیں:

”اورنگ زیب نے ملازمت کے لئے اسلام کی شرط کبھی نہیں لگائی۔ بادشاہ کو اسلام کا محافظ ضرور سمجھا جاتاتھا مگر غیرمسلم رعایا پر کوئی جبر اور دباؤ نہیں تھا، بابر سے اورنگ زیب تک مغلوں کی تاریخ تنگ نظری اور فرقہ پرستی سے پاک ہے۔“ (حوالہٴ بالا)

اورنگ زیب پر عائد تمام اعتراضات میں سے سب سے بڑا اعتراض ”ہندوؤں کے ساتھ تشدد اور ان کے منادر کو منہدم کرکے مساجد کی تعمیر ہے“ لیکن اس خود تراشیدہ الزام کا حقیقت سے کس قدر تعلق ہے ہر وسیع النظر مورخ اس کے صحیح نتیجہ تک بڑی آسانی سے پہنچ سکتا ہے۔ یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ وہ کونسی مسجد ہے جو اورنگزیب نے کسی مندر کو منہدم کرواکے تعمیر کروائی ۔؟ ایک منصف مزاج ہندو مورخ ”بی، این، پانڈے“ کی تحریر دیکھی جاسکتی ہے۔ تحریر کرتے ہیں:

”یہ بات بالکل غلط ہے کہ متھرا اور بنارس کے یا کہیں دوسری جگہ کے منادر کو توڑکر مسجدیں تعمیر کرائیں۔“

آگے مزید لکھتے ہیں ” مہا کال مندر (اجّین)، بالا جی مندر (چتر کوٹ) کا ماکھیہ مندر (گوہاٹی) جین مندر (گرنار) گرودوارا رام رائے (دہرا دون) وغیرہ کو (عالمگیر نے) جاگیر عطا کرتے وقت اس دعا کی ہدایت کی کہ ․․․ اس کے خاندان میں تاقیامت حکومت بنی رہے۔“

(بحوالہ عہد وسطیٰ میں مشترکہ تمدن اور قومی یکجہتی،ص:۱۵۶)

دراصل اس قسم کے اعتراضات و الزامات اورنگ زیب پر اس لیے لگائے جاتے ہیں کہ اس نے اپنے دور میں سلطنت کودوبارہ اسلامی رنگ میں اور سارے امور قوانین اسلام کی روشنی میں انجام دلانے کی کوششیں کیں جن میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہا۔ اکبر کے دور میں ہندوں کو جو حد سے ذیادہ چھوٹ دی گئ تھی ، اورنگ زیب کا اسکو دوبارہ اعتدال کی طرف لانے کی کوشش کرنا’ہندوں کو ناگوار محسوس ہونا تھا اور اسی کی بنیاد پر اسے حد سے ذیادہ معتوب کیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب ہندوستان میں اسلام کے تجدید واحیا کی بات نکلے گی تو اورنگ زیب کا نام نامی ضرور لیا جائے گا، جیسا کہ علامہ اقبال کی رائے بیان کرتے ہوئے علی میاں لکھتے ہیں ہندوستان میں اسلام کے تجدید و احیاء کی بات نکلی تو علامہ نے مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی، حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اور سلطان اورنگ زیب کی بڑی تعریف کی اور فرمایا کہ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ اگر ان کا وجود اور ان کی جدوجہد نہ ہوتی تو ہندوتہذیب و فلسفہ اسلام کو اپنے اندر تحلیل کرلیتے۔

استفادہ تحریر : اسلام امن وسلامتی کا مذہب (مسلمانوں کی تاریخ حکمرانی سے چند نمونے

از: مفتی اختر امام عادل قاسمی، مہتمم جامعہ ربانی منوروا شریف