ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں نے ہندوستان میں جس مذہبی رواداری کے ساتھ حکومت کی اس کی گواہی تاریخ کی کتابیں دے رہی ہیں ان کی یہ نرمی، اور فراخ دلی ہی تھی جس سے انگریزوں نے فائدہ اُٹھایااور تجارت کے بہانے آہستہ آہستہ یہاں قابض ہوتے چلے گئے ، اقتدار پانے کے بعد ان عیسائی حکمرانوں نے جو یہاں پورے ہندوستان پر ستم ڈھائے اور جو اقتصادی لو ٹ کھسوٹ کی،اس کی پوری تفصیلات کے،ڈی باسو کی رائز آف دی کرسچین پاور ان انڈیا کی پانچ جلدوں اور رمیش چناردت کی ہندوستان کی اقتصادی تاریخ میں ملے گی،ہم یہاں صرف چند واقعات کی طرف اشارہ کریں گے ۔
جب انگریزوں کی چالبازیوں سے ہندوستان کا پورا علاقہ ان کے قبضہ میں آ گیا تو 1857میں یہاں کے لوگوں کو محسوس ہوا کہ سات سمندر پار ایک بیرونی قوم کے وہ غلام ہو گئے ہیں ، تو وہ کو ہ آتش فشاں کی طرح ان کے خلاف پھٹ پڑے،او ر پھر جو کچھ ہوا اس کی تفصیل بڑی ہی ہولناک ہے،جو کئی جلدوں میں بھی قلمبند نہیں کی جا سکتی، یہاں پر ایک انگریز مورخ ہی کے حوالہ سے اس کی ایک جھلک دکھائی جاتی ہے۔ سرجون نے اپنی ہسٹری آف سی پوائی وار میں لکھا ہے کہ :
بغاوت کے نام سے مجرموں کے ساتھ عورتیں اور بچے ہلاک کیے جا رہے تھے،ان کو قصدًا پھانسی نہیں دی جاتی،بلکہ وہ اپنے گاؤں میں آگ میں ڈال کر جلا دیے جاتے، یا ان کو گولی مار دی جاتی انگریز یہ فخر کرنے میں نہیں ہچکچاتے کہ انھوں نے کسی کو نہیں چھوڑا،ہلاک کرنا ان کے لیے خوشگوار تفریح تھی تین مہینے تک روزانہ لاشوں کی آٹھ گاڑیاں صبح سے شام تک ان مردوں کو لاتیں جو راہوں اور بازاروں میں لٹکی دکھائی دیتیں ۔ ١
مغلوں کے آخری فرمان روا بہادر شاہ ظفر اور ان کے شہزادوں کے ساتھ جو انتہائی سفاکانہ سلوک ہوا،وہ انسانیت کی انتہائی درد ناک تاریخ ہے۔ ایک فوجی افسر ہڈ سن نے بہادر شاہ ظفر کے شہزادوں میں سے مرزا مغل، مرزا خضر خاں ،مرزا بو بکر اور مرزا عبداللہ کو ہمایوں کے مقبرے میں گرفتار کیا، ان کو رتھ پر سوار پرکیا، ایک میل چل کر ان کو رتھ پرسے اُتار دیا، اور ان کو اپنے کپڑے اتارنے کا حکم دیا، پھر اپنے ہاتھ سے تین گولیاں ان کے سینوں پر ماریں اور شہ رگ کو سنگین سے چیر دیا، کوتوالی میں لا کر ان کی نعشوں کو زمین پر ڈال دیا۔کہا جاتا ہے کہ ہڈسن نے ان کو قتل کر کے ایک چلو خون یہ کہہ کر پیا کہ اگر میں ان کا خون نہ پیتا تو میرا دماغ خراب ہو جاتا، شہزادوں کے سر کاٹے گئے،اور یہ بادشاہ کے سامنے لائے گئے،ہڈسن نے کہا : یہ آپ کی نذر ہے جو بند ہو گئی تھی اور جس کو جاری کرانے کے لیے آپ نے غدر میں شرکت کی،بہادر شاہ نے جوان بیٹوں اور جوان پوتوں کے کٹے ہوئے سردیکھے تو حیرت انگیز استقلال کے ساتھ ان کو دیکھ کر منھ پھیر لیا اور کہا کہ الحمد للہ تیمور کی اولاد ایسی ہی سرخرو ہو کر باپ کے سامنے آیا کرتی تھی،اس کے بعد شہزادوں کی لاشیں کوتوالی کے سامنے خونی دروازے میں لٹکا دی گئیں ،جن کو ہزاروں آدمیوں نے دیکھا۔
( بحوالہ رائز آف کرسچین پاور ان انڈیا از کے۔ڈ ی باسو ج ٥،ص ٢٨٥)
دہلی کے آس پاس جتنے شہزادے ملے پکڑے گئے ان کی تعداد انتیس(٢٩) بیان کی جاتی ہے ان میں بوڑھے لنگڑے،بیمار سب کے سب پھانسی پر لٹکا دئیے گئے،سب سے زیادہ بوڑھا شہزادہ مرزا قیصر ابن شاہ عالم ثانی اکبر شاہ کا بھائی تھا،او ر مرزا محمود شاہ اکبر کا پوتا وجع المفاصل میں مبتلا تھا۔ اس کو بھی پھانسی دی گئی او ر اس کی لاش لٹکتی ہوئی دکھائی گئی،جو شہزادے قید میں ڈال دیے گئے ان پر سخت مظالم ہوتے رہے۔زینت محل کے والد بزرگوار نے جیل ہی میں وفات پائی،بہادر شاہ کے دو لڑکوں مرزا بختاور اور مینڈھو پر مقدمہ قائم کیا گیا، پھر ان کو گولی مار دی گئی،اور ان کی لاشیں کوتوالی میں لٹکائی گئیں ،اسی طرح شاہی خاندان کے چوبیس افرادپھانسی پر لٹکائے گئے،ان میں بادشاہ کے دو برادرِنسبتی اور دو داماد تھے، بقیہ بادشاہ کے بھتیجے وغیرہ تھے۔
اوپر جو تفصیلات لکھی گئی ہیں ان کے لیے کسی حوالہ کی ضرورت نہیں ،یہ ایسے کھلے ہوئے موٹے موٹے واقعات ہیں جواسکول کی نصابی کتابوں میں بھی درج ہیں اور اس سلسلہ میں کسی مستند ضخیم کتاب کا مطالعہ کیا جائے تو ان تفصیلات میں ایک سامراجی قوت کی ہولناکیوں ، خون ریزیوں اور سفاکیوں کی اور بھی درد ناک تصویر یں ملیں گی۔
انگریزوں نے جس حکومت کو سفاکانہ طور پر ختم کیا اس کی بڑی لمبی تاریخ رہی ہے،اس نے ہندوستان میں ٣٣٠ برس تک حکمرانی کی لیکن اس کی پوری تاریخ میں ایسی سفاکی کی مثال نہیں ملے گی جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ برطانوی راج کے زمانہ میں ہندو مورخین نے بھی مغل حکومت کی عدل پروری، نرمی،لینت، فراخ دلی اور روا داری کی تعریف کی ہے۔ یہاں پر ایک دو اقتباسات درج کیے جاتے ہیں ۔
پر و فیسر رام پر شاد گھوسلا اپنی کتاب مغل کنگ شپ اینڈ نوبی لیٹی میں لکھتے ہیں :
مغلوں کے زمانہ میں عدل و انصاف میں جو اہتمام ہوتا او ر جو ان کی مذہبی رواداری کی پالیسی تھی اس سے عوام ہمیشہ مطمئن رہے،اسلامی ریاست میں سیاست اور مذہب کا گہرا لگاؤ رہا ہے لیکن مغلوں کی مذہبی روا داری کی وجہ سے اس لگاؤ کی وجہ سے کوئی خطرہ پیدا نہیں ہوا،کسی زمانہ میں بھی یہ کوشش نہیں کی گئی کہ حکمراں قوم کا مذہب محکوموں کا بھی مذہب بنا دیا جائے حتی کہ اورنگ زیب نے بھی حصول ملازمت کے لیے اسلام کی شرط نہیں رکھی تھی،مغلوں کے عہد میں Corporation Act جیسے قوانین منظور نہیں کیے گئے۔ایلز بتھ کے زمانہ میں ایک ایسا قانون تھا جس کے ذریعہ سے جبر ی طور پر عبادت کرائی جاتی تھی مغلو ں کے زمانہ میں اس قسم کا کوئی جبر نہیں کیا گیا Bartholomew’s Day جیسے قتل عام سے مغلوں کی تاریخ کبھی داغدار نہیں ہوئی، مذہبی جنگ کی خون ریزی سے یورپ کی تاریخ بھری ہوئی ہے لیکن مغلوں کے عہد میں ایسی مذہبی جنگ کی مثال نہیں ملتی، بادشاہ مذہب اسلام کا محافظ اور نگہبان ضرور سمجھا جاتا،لیکن اس نے کبھی غیر مسلم رعایا کے عقائد پر دباؤ نہیں ڈالا۔
پرمتھا سرن نے اپنی کتاب پرونشل گورنمنٹز انڈر دی مغلز میں لکھا ہے کہ مغلوں کی حکومت عروج کے ز مانہ میں دنیا کی شاندار حکومتوں میں سے ایک تھی اور اس کی تمام معاصر حکومتوں میں اس سے زیادہ وسیع اور مستحکم کوئی حکومت نہ تھی۔ اس نے ہندومسلمان دونوں کو متحد کیا،اس کی کارکردگی ایسی تھی جس پر فخر کیا جا سکتا ہے،اٹھارہویں صدی عیسوی میں سر جا ن شور بہت بڑا مدبر گزرا ہے جو حکومت کے نظم ونسق میں بڑ اماہر سمجھا جاتا تھا،اس کا بیان ہے کہ جب ایسٹ انڈیا کمپنی برسر اقتدار ہوئی تو اس وقت صوبوں کے نظم ونسق میں ابتری ضرور تھی لیکن اس کا جو نظام تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مغلوں کی حکومت استحکام اور دانش مندی کی مضبوط بنیاد پر قائم تھی جس میں مختلف فرقوں کے حقوق کی پوری حفاظت تھی۔ ہندوؤں کے لیے قوانین ان ہی کے بنائے ہوئے تھے جن پرسختی سے عمل درآمد کرنے کی کوشش کی جاتی۔