محمود غزنوی اور انہدام منادر
محمود غزنوی اپنے باپ سبکتگین کی وفات کے بعد چھبیس برس کی عمر میں 387 ھ میں غزنی، افغانستان کے تخت حکومت پر متمکن ہوا ۔اس کے ہندوستان پر متعدد حملوں کا ذکر خوب بڑھا چڑھا کیا جاتا ہے ۔سیکولر طبقے کے نزدیک وہ ایک لٹیرا تھا جس نے ہندوستان پر حملے کرکے مندروں سے سونا لوٹا، اس کے علاوہ اس کے عہد کو غیرمسلموں کے خلاف شدت پسندی کے عنوان سے بدنام کیاجاتا ہے۔محمود غزنوی پر لکھی گئی کتابوں میں ایک مشہور کتاب علی گڑھ یونیورسٹی کے تاریخ کے انگریز دور کے پروفیسر ایم حبیب کی’ سلطان محمود آف غزنی ‘ ہے۔اس کتاب میں انہوں نے محمود غزنوی کی بعض اہم کاموں کی تعریف کے ساتھ اس کے حملوں، مندروں کی توڑ پھوڑ کی روایات کی بنیاد پر اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔پروفیسر حبیب کا نقطۂ نظر اور موقف اگر دیکھا جائے تو سائنسی نہیں بلکہ موضوعی ہے وہ تاریخ کے اس سارے عمل کو جس میں سلطان محمود غزنوی ایک ادنی کارندہ تھا، ایک معروضی انداز میں دیکھ رہے ہیں. سلطان محمود غزنوی کی سیاست کا اصل تاریخی کردار کیا تھا اس کے لئے محمود غزنوی کے ارادوں اور خواہشات کو سمجھنے یا اس کی کامیابیوں اور ناکامیوں پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کور کی سماجی قوتوں کی کشمکش اور تاریخ کی حرکات کو سمجھنے کی ضرورت ہے. اس زمانے میں ہندوستان میں جو کشمکش چل رہی تھی ، راجہ جے پال کی سرحدوں پر دراندازیاں ہوں، مقامی راجاؤں کی بدمعاشیاں یا قرامطہ کی ہندوستان میں بڑھتی ریاست’ محمود غزنوی کا انکی طرف متوجہ ہونا فطری تھا۔
مشہور ہندو مورخ رومیلا تھاپر اپنی کتاب میں لکھتی ہیں :
“عرب کے سندھ پر حملے ان کے تجارتی روابط سے کم اہم رہے. عرب تاجروں نے مغربی ساحل کے ساتھ قیام کیا اور مقامی لو گوں سے شادیاں بھی کیں. کچھ اربوں نے مقامی لوگوں کی ملازمت بھی اختیار کی. یہ عرب تاجر ہرمز اور غزنی میں مقیم تھے. یہاں کی تجارت کا دارومدار مغربی ایشیا سے گھوڑوں کی درآمد اور کچھ حد تک شراب، لوہا اور ٹیکسٹائل کی آمد پر مشتمل تھا البتہ سب سے بہترین تجارت گھوڑورں کی تھی. ان سے حاصل ہونے والی آمدن کا اہم ذریعہ باہر سے آئے ہوئے لوگوں پر ٹیکس عائد کرنا تھا. یہ ملتان کی طرح آمدن کا مقامی ذریعہ تھا.تاریخی حوالوں سے یہ بھی پتا لگتا ہے کہ مقامی راجے آنے والے زائرین کے قافلوں پر حملے کرتے تھے اور ان کی دولت لوٹ لیتے تھے. اس کے علاوہ ساحل کے ساتھ کئی لٹیرے گشت کرتے رہتے تھے، جنہیں بیروج کہا جاتا ہے.”
(سلطان محمود غزنوی اور سومنات کا مندر از رومیلا تھاپر)
سومناتھ مندر کا حوالہ دے کر محمود کو متعصب ثابت کیاجاتا ہے جبکہ سومناتھ کا مندر اس وقت محمود کے مخالفین کی سرگرمیوں کا مرکز تھا، سارے شکست خوردہ راجاؤں نے وہاں اپنا مرکز بنالیا تھا۔ رومیلا تھاپر بھی اس دور کی سیاسی حالت اور حکمرانوں کا اپنے اقتدار کی مضبوطی اور دفاع کے لیے منادر کی آڑ لینے کی روایات پرتبصرے کے بعد لکھتی ہیں
“ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب بھی مندر اقتدار کا منبع بننے لگے تو یہ حملوں کی زد میں آگئے. “(حوالہ بالا)
ہندو مندروں کی یہ تباہی فوجی حملہ کا حصہ تھی، کچھ لکھاری محمود پر “مندروں کی اندھا دھند تباہی” کا الزام لگاتے ہیں۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ محض جنگ میں ایسا ہوا کہ مندر تباہ ہوئے۔ محمود اگر ایسا ہی مندر دشمن تھا تواس کے دور میں باقی ہزاروں مندر کیوں محفوظ رہے؟ اور جو غیرمسلم تھے ان کو بزور اس نے مسلمان کیوں نہیں بنالیا تھا؟؟
باوجود اس کے وہ اپنے متعدد حملوں اور ہندوؤں کی طرف کی جانے والے عہد وپیمان کی خلاف ورزی کے بعد بھی اس نے ہندوؤں کے حقوق کو تسلیم کیا اور ہرجگہ اعلان معافی کے بعد غیرمسلموں کو اپنی فوج میں بھرتی کیا اور انہیں اعلیٰ عہدے پر فائز کیا۔ اور جس کے رہنے اور اس کی سہولت کے لیے اس نے اپنی سلطنت کے قریب ایک مستقل بستی بسادی جس میں وہ آزادانہ طریقے سے زندگی بسر کرتے تھے۔ ان دونوں سپاہیوں اور قائدوں کی فوج میں ہندو اور مسلمان سپہ سالار اور لشکر ہوتے تھے:
اسکے دورِِ حکومت میں ہندؤں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی۔ ہندؤں کو غزنی میں الگ علاقے دیے گئے تھے جس میں وہ اپنے مذہبی تہوار و عبادات کرنے اور منانے کیلئے مکمل آزادی رکھتے تھے۔ ہندو بہت سی اونچی و ذمہ دارانہ عہدوں پر فائز تھے جن میں غزنی کی فوجی تاریخ کے اندر ہزاری رائی، تلاک رائی اور سونائی جیسے نام نمایاں طور پر سرِفہرست ہیں۔ اس نے غزنی کے اندر ہندو ثقافت اور سنسکرت کے فروغ کیلئے الگ سے ایک درسگاہ اور بازار قائم کئے۔ اگر ایک مذہبی جنونی ہوتا، تو اسکے لئے یہ سب کرنا کیسے ممکن ہو سکتا تھا؟
سلطان محمود کے بعد جب حکومت اس کی اولاد میں منتقل ہوئی تو اس زمانے میں بھی بڑے عہدے دار ہندو ہی تھے۔ جب سلطان مسعود کے نائب احمد نیالتگین نے شرکشی کی تو تمام مسلمان درباریوں کو چھوڑ کر سلطان مسعود نے ایک ہندو سردار تلک نامی کو متعین کیا جس نے احمد کو شکست دی۔ اسی سردار نے سلطان مسعود کی طرف سے راجہ ہانسی کے خلاف لڑکر قلعہ ہانسی کو فتح کیا۔
محمد غزنوی کے یہاں ہندوؤں کی باقاعدہ فوج موجود تھی جس میں ”تلک سندر اور بیجناتھ“ جیسے جنرلوں کے نام کافی نمایاں ہیں، محمود غزنوی کے بیٹے مسعود کو پنجاب میں امن قائم کرنے کیلئے اپنے ہی بھائی سے جنگ کرنا پڑی تو اس نے تلک سندر کی سرکردگی میں اپنی فوج بھیجا ۔ (مذہبی رواداری، بحوالہ پالی ٹکس ان پری مغل ٹائمس ص:۴۵،۴۶)
رومیلا کتاب میں ایک جگہ نچلے طبقے پر کیے جانے والے سماجی ظلم ، انصافی، توہم پرستی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں ۔
” بہت سی روایات سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ محمود غزنوی کا سومنات کے مندر پر حملہ اور علاقے میں لوگوں کے حلاف سخت پالیسی اپنانا اس ایجنڈے کا حصہ تھا. جس کے تحت وہ یہاں کے لوگوں کی سوچ اور اقدار کو تبدیل کرنا چاہتا تھا.” (حوالہ بالا)
ڈاکٹر ایشوری پرساد سابق پروفیسر الٰہ آباد یونیورسٹی محمود کی عسکری اورسیاسی بصیرت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”تاریخ میں محمود کا مقام طے کرنامشکل کام نہیں ،اپنے زمانے کے مسلمانوں کے سامنے وہ غازی اور دین کا حمایتی تھا،جس نے ملک سے بت پرستی ختم کرنے کی کوشش کی اور آج کے ہندووٴں کی نگاہ میں وہ ایک وحشی اور ظالم حقیقی ہواتھا ،جس نے ان کی انتہائی مقدس عبادت گاہوں کو برباد اوروحشیانہ طور پر ان کے مذہبی احساسات کو مجروح کیا،لیکن ایک غیر جانب دار محقق جو اس زمانے کے خصوصی حالات کو دھیان میں رکھے گا تو لازمی طور پر دوسرا فیصلہ دے گا۔محمود بلا شبہ اپنے ساتھیوں کا ایک عظیم رہنما تھا،وہ اپنی عقل سے کام کرنے والا معقول اور ایمان دارحکمراں ،ایک جری اورلائق سپاہی ،منصف مزاج ،ادب کا سرپرست اور دنیا کے سب سے بڑے بادشاہوں میں شمار کیے جانے کے لائق تھا۔“
( میڈول انڈیا(ایشوری پرشاد)ص:۱۱۰-۱۱۱،بحوالہ اسلام اور ہندوسانی ثقافت،ص:۱۱-۱۲۔سید صباح الدین عبدالرحمن،ہندوستان کے عہد ماضی میں مسلمان حکمرانوں کی مذہبی رواداری،ص:۲۹،ج:۱،مطبع معارف ،اعظم گڑھ،۱۹۷۵)
محمود غزنوی اور شراب نوشی/ہم جنس پرستی کا الزام :
محمود غزنوی پر ایک الزام شراب خوری کا بھی لگایا گیا ہے اس واقعہ کا ذکر مولف شعرالعجم نے کیا ہے ۔ کافی عرصہ پہلے فیس بک پر ایک لبرل فاشسٹ پیج نے اس واقعہ کو پیش کرتے ہوئے پوسٹر پبلش کیا تھا جس میں اس نے محمود غزنوی ہم جنس پرست لکھا تھا ۔ اس واقعہ کی حقیقت پیش ہے۔
شعرالعجم میں واقعہ لکھا ہے کہ” سلطان محمود غزنوی کو جو ایاز سے محبت تھی اگرچہ حد سے زیادہ تھی لیکن اس میں ہوس کا شائبہ نہ تھا ۔ایک دن بزم عیش میں بادہ و جام کا دور تھا، محمود غزنوی خلاف عادت معمول سے زیادہ پی کر مست ہو گیا اسی حالت میں ایاز پر نظر پڑی ،اس کی شکن در شکن زلفیں چہرہ پر بکھری ہوئی تھیں محمود غزنوی نے بے اختیار اس کے گلے میں ہاتھ ڈال دیے لیکن فوراً سنبھل گیا اور جوش تقوی میں آکر ایاز کو حکم دیا کہ زلفیں کاٹ کر رکھدے، ایاز نے فورا حکم کی تعمیل کی۔ (شعرالعجم ،ص62)
محمود غزنوی کے متعلق ادنی علم رکھنے والا اس کو محض ایک جھوٹی کہانی کہے گا ۔ محمود کی صحبتیں سلاطین عیش پرست کی طرح مہ و جام سے آراستہ نہیں کی جاتی تھیں اسکی صحبت دنیاوی کثافتوں گویوں لونڈیوں اور مسخروں سے بالکل پاک تھی ۔ کسی عربی فارسی مورخ یہانتک کے کسی غیر و دشمن قوم کے مورخ نے بھی شراب خوری اور فسق و فجور کی طرف اس کی نسبت نہیں کی ، نا ایسا کوئی واقعہ نقل کیا ۔
سوال یہ ہے کہ مولف شعر العجم نے یہ روایت کہاں سے لی اور اس کا راوی کون ہے؟ مولف شعرالعجم نے کسی معروف و مستند راوی تو کجا کسی مجہول الحال کتاب کا بھی حوالہ نہیں دیا اور نہ کسی مجہول راوی کی طرف اس واقعہ کو منسوب کیا ہے۔ ایسی حالت میں اس واقعہ مجہولہ پر جس قدر صداقت اور راست بیانی کی روشنی پڑتی ہے وہ ارباب عقل و دانش اور اصحاب تواریخ سے ظاہر ہے، عربی فارسی انگریزی کی تاریخیں پڑھ ڈالیے کہیں بھی یہ نہیں ملے گا کہ محمود غزنوی مے نوشی کا عادی تھا یا اسکی صحبت میں بادہ و جام کا دور چلا کرتا تھا جب یہ امر پایہ ثبوت کو نہیں پہنچ سکتا تو معمول سے زیادہ پی کر بد مست ہو جانا چہ معنی دارد ۔
ہمیں یہ تسلیم ہے کہ محمود غزنوی کی جدو جہد کے نتیجے میں جو مسلم سلطنت بنی وہ کوئی خلافت راشدہ کے طرز کی نہیں تھی ، وہ اپنے جوہر میں اپنے عہد کی روح عصر کے مطابق ہی تھی. یہی حال مغلیہ سلطنتوں کا تھا ، سلطان محمود غزنوی “جدید شہنشاہی” کا پیش رو تھا. عالمگیر خلافت اسلامیہ کا دورگزر چکا تھا اور خلیفہ ملکی معاملات میں مسلمانوں کا سردار باقی نہ رہا تھا. “چھوٹی خاندانی حکومتیں” دائمی سازشوں اور بے کار لڑائیوں کی وجہ سے بلائے بے درماں ثابت ہوئی تھیں. اب صرف دینوی شہنشاہی یا بقول سلطان محمود غزنوی “سلطنت” کے ذریعے ہی اسلامی دنیا کو متحد کر کے امن و امان قائم کیا جا سکتا تھا. لیکن اس پر لگائے گئے ان گھٹیا الزامات کی بھی کوئی حیثیت نہیں ۔ اسٹینلی لین پول میڈول انڈیا چیپٹر دوم صفحہ 14 لغایت 33 میں لکھتا ہے :
“محمود غزنوی میں اس کے باپ کی طرح چستی چالاکی مستعدی مردانگی کی تمام صفتیں موجود تھیں اس کے علاوہ ایک بہت بڑی بات یہ تھی کہ وہ کسی وقت بھی اپنے آپ کو بیکار نہیں رکھتا تھا اس کے خیالات عالی تھے،مزاج کا جوشیلا تھا ،اسلامی جوش اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ یہی صفت اس کی کل صفات کی محرک اور ان میں برقی قوت پیدا کرنے والی تھی۔ وہ ایک پر جوش مسلمان تھا ،دشمنان اسلام اور کفار کی لڑائیوں کی حالت میں بھی جس وقت اسے فرصت مل جاتی تو تزکیہ نفس کے خیال سے قرآن مجید لکھا کرتا تھا گویا وہ اپنی زندگی کا ایک لمحہ بھی بے کار اور ضائع نہیں جانے دیتا تھا “( میڈول انڈیا چیپٹر دوم صفحہ 14)
محمود غزنوی کا دربار
محمود غزنوی کی متعصب ہندوؤں نے جو تصویر پینٹ کی اس میں وہ ایک متشد د مزاج سردار ہے جسے بس قتل و غارت پسند ہے۔ ایسا بالکل نہیں تھا محمود غزنوی جس طرح کشورستاسن ملک گیر اور ایک نامور فاتح تھا اس طرح علم و فضل میں بھی یکتائے زمانہ تھا ۔ اس نے اپنے زمانہ میں اس قدر علم و فضل کو جمع کیا تھا کہ اس زمانے کے اسلامی سلاطین کو شاید و باید ہی یہ عزت نصیب ہوئی ہو، مقامات ابو نظر مشکاتی اور مجاہدات ابو الفضل اس پر کافی روشنی ڈال رہے ہیں ۔ اس کا دربار علماء فضلاء شعراء اور اہل علم و کمال سے خالی نظر آتا۔
مشہور مسلم سائنسدان ابو ریحان البیرونی جسے متعدد علم و فنون میں مہارت حاصل تھی اور بو علی سینا محمود غزنوی کے دربار کے لوگ تھے ۔اس کے علاوہ عنصری، عسجدی، اسدی، غضاری، فردوسی، فرخی، اور منوچہری محمود غزنوی کے آسمان سخن کے سبعہ ستارے تھے۔
مؤلف جواہر حنفیہ نے جو فقہائے حنفیہ کے حالات کی ایک مستند کتاب ہے محمود غزنوی کو فقہاء میں شمار کیا ہے۔ غزنی میں اس نے ایک عظیم الشان یونیورسٹی قائم کی ہوئی تھی جس کے ساتھ ایک بہت بڑا کتب خانہ بھی تھا، نایاب کتابیں انتہائی جستجو سے مہیا کی گئی تھیں۔امام الحرمیں ابو المعالی عبد الملک جوینی نے اپنی کتاب مغیث الخلق فی اختیار الاحق میں لکھا ہیکہ سلطان محمود غزنوی علم حدیث کا بے حد شائق تھا شب کے وقت اس کے دربار میں علماء حدیث جمع ہوتے اور احادیث کی سماعت و قرات کرتے تھے۔
کیا محمود غزنوی غلام تھا؟
اصل تو یہ ہے کہ کوئی کسی کا مملوک ہے نہ مالک حقیقیت میں غلامی کوئی چیز نہیں ایک اعتباری امر ہے تمام بنی نو ع انسان ایک ہیں اور اسلام نے آزادی و غلامی کا بردہ ہی اٹھا دیا ہے۔۔اسلامی تاریخ میں اسی اصول کے تحت غلاموں نے باقائدہ حکومت کی ہے۔ پھر بھی اگر سلطان محمود غزنوی کے نسب پر تحقیق کریں تو یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ کوئی غلام تھا ۔ ابو القاسم حمادی نے تاریخ مجدول میں لکھا ہے کہ “امیر سبکتگین بادشاہ یزدو جرد کی نسل سے تھا جس وقت زمانہ خلافت (امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ) میں یزد جرد مقام مرد میں ایک چکی پیسنے والے کے مکان میں مارا گیا۔ اس کے اھل و عیال اور خاندان والے بحال پریشان ترکستان چلے آئے اور ضرورت زمانہ کےلحاظ سے ان سے اور ترکوں سے باہم رشتہ داریاں اور قرابت پیدا ہوگی اور دو چار پشت کے بعد علم و دولت مفقود ہونے کی وجہ سے ترک کے نام سے مشہور ہوگئے۔ ایک مدت تک ان اطراف میں ان کے عال شان مکانات ان کے بزرگوں کے نام کو زندہ کئے ہوئے تھے اس سلسلہ ء نسب یزو جرد تک اس طور سے پہنچتا ہے۔ “محمد بن سبکتگین بن جوق قرا بحکم بن رقرا ارسلان بن قرا لمت بن قرا نعمان بن فیروز بن یزوجرد بادشاہ فارس”۔
عربی تاریخیں صرف اس قدر لکھ کر خاموش ہو جاتی ہیں کہ محمود غزنویؒ کا باپ سبکتگین امیر الپتگن کا غلام تھا ۔ یہ عبارت اشارے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ، اس سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ سبکتگین کس ملک سے کس زمانے میں اور کس جہاد میں غازیاں اسلام کے ہاتھ آیا اور جب یہ امر پایہ ثبوت تک نہ پہنچ سکا تو محمود غزنوی کو غلام کہنا نہایت ہی دیدہ دلیری اور نا انصافی ہے۔
فردوسی شاعر نے شاہنامہ میں محمود غزنوی پر جو چوٹ کی ہے اس سے محمود غزنوی پر غلامی کا دھبہ نہیں لگ سکتا۔ فردوسی شاعر تھا اور مؤرخ نہ تھا اس کا شاہنامہ بھی تاریخ کی کتاب نہیں ہے بلکہ داستان ہے۔شعراء کا ہمیشہ سے یہی دستور چلا آتا ہیکہ جب انہیں خلاف توقع کامیابی نہ ہوتی تو امراء رؤوسا اور سلاطین عظام کی ہجو پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔چناچہ فردوسی کو بھی اسی امر نے محمود غزنوی کی ہجو پر آمادہ کیا ہے۔
ابو الفضل حسن بیہقی رحمہ اللہ نے تاریخ ناصری میں بروایت محمود غزنوی تحریر کیا ہے کہ سلطان محمود غزنوی نے اپنے باپ امیر سبکتگین سے روایت کی ہے کہ سبکتگین کے باپ کو قرا بحکم کہتے تھے اصلی نام جوق تھا غوغا اور بحکم لغت ترکی میں متحد المعنی ہیں، قرا بحکم کے معنی سیاہ غوغا ہیں، ترکستان میں جہاں کہیں جوق کا نام سن پاتے تھے اس کی شجاعت و مردانگی کے خوف سے بھاگ کھڑے ہوتے تھے اس وجہ سے اس کا نام قرا بحکم رکھ چھوڑا تھا۔
محمود غزنوی کے غلام نہ ہونے کی بہت بڑی اور قوی دلیل یہ ہے کہ انگریز مورخوں نے اسے غلاموں کے سلسلہءحکومت میں نہیں لکھا، انہیں اس کے ساتھ کوئی ایسی ہمدردی نہ تھی کہ جس سے یہ محمود غزنوی کو سلسلہء حکمرانان و غلامان سے علیحدہ لکھنے پر مجبور ہوئے۔