ہندوستان میں اسلام کی اشاعت کے سلسلے میں جو اعتراضات کیے جاتے ہیں بالعموم وہ وہی ہیں جو پوری دنیا میں اسلام کے پھیلنے کے سلسلے میں کیے جاتے ہیں ۔حضرت محمد سے لے کر بعد کے جتنے مسلمان فرمارواوٴں نے دنیا کے جن جن علاقوں میں حکمرانی کی ان میں بیش تر کے سلسلے میں یہی الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ان حکمرانوں نے تلوار کے ذریعہ اسلام کوپھیلایا۔البتہ یہ اعتراضات ہندوستانی افق پرزیادہ واضح نظر آتے ہیں ۔مگر تعجب کی بات یہ ہے کہ ان اعتراضات کی ابتدااس وقت ہوئی جب مسلمان حکمرانوں کی تلوارزنگ آلودہو گئی تھی۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے اس پہلو پر بہت اچھے انداز میں روشنی ڈالی ہے:
”دور جدید میں یورپ نے اپنی سیاسی اغراض کے لیے اسلام پر جو بہتان تراشے ہیں ان میں سب سے بڑا بہتان یہ ہے کہ اسلام ایک خون خوار مذہب ہے اور اپنے پیرووٴں کو خوں ریزی کی تعلیم دیتا ہے۔اس بہتان کی اگر کچھ حقیقت ہوتی توقدرتی طورپر اسے اس وقت پیش ہونا چاہیے تھا جب کہ پیروان اسلام کی شمشیر خارا شگاف نے کرہ زمین میں ایک تہلکہ برپا کررکھا تھااورفی الوقع دنیا کو یہ شبہ ہوسکتا تھا، کہ شاید ان کے یہ فاتحانہ اقدامات کسی خوں ریز تعلیم کا نتیجہ ہوں۔مگر عجیب بات ہے کہ اس بہتان کی پیدائش آفتاب عروج اسلام کے غروب ہونے کے بہت عرصہ بعد عمل میں آئی اور اس کے خیالی پتلے میں اس وقت روح پھونکی گئی جب کہ اسلام کی تلوار توزنگ کھاچکی تھی مگر خود اس کے موجد یورپ کی تلوار بے گناہوں کے خون سے سرخ ہورہی تھی اور اس نے دنیا کی کمزورقوموں کو اس طرح نگلنا شروع کردیا تھا جیسے کوئی اژدہاچھوٹے چھوٹے جانوروں کو ڈستا اورنگلتاہو۔اگر دنیا میں عقل ہوتی تووہ سوال کرتی کہ جب لوگ خود امن وامان کے سب سے بڑے دشمن ہوں جنہوں نے خود خون بہا بہا کر زمین کے چہرہ کو رنگین کردیا ہو اور جو خود قوموں کے چین وآرام پر ڈاکے ڈال رہے ہوں ، انہیں کیا حق ہے کہ اسلام پر وہ الزام عائد کریں جس کی فرد جرم خود ان پر لگنی چاہیے؟کیا ان تمام موٴرخانہ تحقیق و تفتیش اور عالمانہ بحث واکتشاف سے ان کا یہ منشا تو نہیں کہ دنیا کی اس نفرت وناراضی کے سیلاب کا رخ اسلام کی طرف پھیر دیں جس کے خود ان کی اپنی خوں ریزی کے خلاف امنڈ کر آنے کا اندیشہ ہے۔“( سید ابوالاعلیٰ مودودی الجہاد فی الاسلام،ص:۲،مکتبہ معارف اعظم گڑھ)
عالمی افق پریا پھر ہندوستانی تناظر میں دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اشاعت اسلام سے متعلق اس پروپیگنڈے کے باوجود اسلام ہرجگہ تیزی سے پھیل رہاہے۔حالاں کہ اسلام کے علاوہ اوربھی بہت سے مذاہب ہیں جن کے ماننے والوں کی تعداد بہت ہے۔ اسلام خون خوار مذہب ہوتا تویہ عمل موقوف ہوجاتا۔بلکہ سچی بات یہ ہے کہ پروپیگنڈہ ہی اسلام کی اشاعت کی راہ ہموار کررہاہے۔ ایک ہندومفکر راجندر نرائن کے اس خیال میں صداقت نظر آتی ہے:
”دنیا کے تمام مذاہب میں اسلام کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے خلاف جس قدرغلط پروپیگنڈہ ہوا کسی دوسرے دھرم کے خلاف نہیں ہوا۔سب سے پہلے تو رسول اللہ…کے قبیلہ قریش ہی نے اسلام کی مخالفت کی اوردوسرے کئی ذرائع کے ساتھ غلط پروپیگنڈہ اورمظالم کا راستہ اپنایا۔یہ بھی اسلام کی خصوصیت ہی ہے کہ اس کے خلاف جس قدر پروپیگنڈہ ہوااتناہی پھیلتا اورترقی کرتاگیااوریہ بھی اسلام کے سچے اورالٰہی دین ہونے کا ایک ثبوت ہے۔اسلام کے خلاف جس قدر پروپیگنڈے کیے گئے اورکیے جاتے ہیں ،ان میں سب سے جارحانہ پروپیگنڈہ یہ ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا۔اگر ایسا نہیں ہے تو دنیا میں متعددمذاہب کے ہوتے ہوئے اسلام ہی معجزاتی طورپردنیابھرمیں کیسے پھیل گیا؟ اس سوال یاشبہ کا مختصرا جواب تویہ ہے کہ جس زمانہ میں اسلام کے اس نئے ایڈیشن کی اشاعت ہوئی سابقہ دھرموں کے بے کردارپیروکاروں نے دھرم کوبھی بھرشٹ کردیا تھا،اس لیے انسانی فلاح کی خاطراللہ کی مرضی کے مطابق اسلام کامیاب ہوا اور دنیابھرمیں پھیلا،تاریخ اس کی گواہ ہے۔“( سہ روزہ دعوت دہلی،۲۸/جولائی ۲۰۰۳ء،ص:۴۰،)
ہندوستان میں اشاعت اسلام پر اعتراض کرنے والوں کو دو گروہ اوردوادوار میں تقسیم کیا جاسکتاہے۔
پہلا گروہ انگریزوں کا ہے جنہوں نے ہندوستان میں اپنی حکومت قائم کی اور ان کے زیرسایہ عیسائی مشنریوں نے تبلیغ عیسائیت کی منصوبہ بند کوششیں شروع کیں ۔اسلام ان کے مقاصد کی تکمیل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ تھا،چنانچہ انہوں نے اسلام پر عیسائیت کی بالا تری دکھانے کے لیے اس کے مختلف پہلووٴں پر جارحانہ حملے کیے اوراسلام کو ایک خوں آشام،غیرمتمدن اورفرسودہ مذہب ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زورلگایا۔
اسی زمانے میں انگریزوں کے زیر اثر بعض ہندووٴں نے بھی اسلام کے خلاف مناظرانہ محاذآرائی کی۔ ہندوؤں کے اعتراضات کا سلسلہ بالخصوص ہندوستان کی آزادی کے بعد سے شروع ہوتاہے۔اگرچہ پہلے اس میں اتنی شدت نہ تھی جتنی کہ بعد کے زمانے میں یاعہدحاضر میں پائی جاتی ہے۔ایک خاص جماعت جوہندوتو کی علم بردارہے، اس میں پیش پیش ہے۔کیوں کہ وہ ملک میں ہندو مذہب اور ہندو تہذیب کا غلبہ چاہتی ہے ۔
یہ لوگ باوجود اپنی تمام تر کوششوں کے نہ تو مسلمانوں کو حلقہ بگوش کرسکے ہیں اور نہ ہی اپنے مذہب اور اپنی تہذیب کو اسلامی تہذیب کے مقابلہ میں برتر ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔اس لیے اب انہوں نے یہ منصوبہ بنایا ہے کہ اسلام میں زبردستی خامیاں نکالی جائیں اورپروپیگنڈے کے زورپر عوام کے سامنے اسے بھیانک شکل میں پیش کیا جائے۔ اس کے لیے اب انہوں نے ٹی وی چینلوں، ڈراموں، افسانوں، فلموں ،قصوں، کہانیوں اور جھوٹی تاریخ نویسی کا سہارالیا ہے اوروہ مختلف قسم کے بے بنیاد بلکہ خیالی مناظر کے ذریعہ پروپیگنڈہ پھیلاکر لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں۔( ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی ،حقائق اسلام:بعض اعتراضات کا جائزہ،ص:۱۱،مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی،۲۰۰۴ء)
مصادر کا جائزہ
ہندوستان میں اشاعت اسلام سے متعلق بالعموم جو اعتراضات کیے جاتے ہیں اسکا شاخسانہ اول وہ لٹریچر ہے جو انگریزوں نے ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت تیار کیا، جس کا خاص مقصد یہ تھا کے یہاں کی دو بڑی قومیں ہندووٴں اور مسلمانوں (جو عرصہ دراز سے پر امن ماحول میں روادارانہ طریقے سے زندگی بسر کرتے آرہے ہیں )کے درمیان منافرت کی آگ بھڑکا دی جائے، تاکہ وہ ایک دوسرے سے نبرد آزما رہیں اور انہیں اتنی فرصت نہ ملے کہ ہماری جابرانہ اور غاصبانہ حکومت کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھ سکیں۔چنانچہ جب انہوں نے ہندوستان کی تاریخ رقم کی توایک طرف مسلمان بادشاہوں کو ظالم و جابرٹھہراتے ہوئے لکھا کہ وہ ہندوؤں کے سخت دشمن تھے،دوسرے مذاہب کے ماننے والوں پر مظالم ڈھاتے اور ان کے مذہبی مقامات کو مسمار کرتے تھے،تو دوسری طرف یہ شوشہ بھی چھوڑدیاکہ شیواجی مسلمانوں کے حق میں بڑے سخت واقع ہوئے تھے، کیوں وہ ہندو پرست تھے۔اس قسم کے اعتراضات سب سے پہلے بمبئی کے گورنرالفسٹن کے قلم سے صفحہ قرطاس پر آئے اور جو بہت جلدملک کے کونے کونے میں پھیلا دیے گئے۔یہاں تک کہ اسے شامل نصاب کرکے بچوں کو بھی پڑھایا جانے لگا۔( ابوظفر ندوی،مختصر تاریخ ہند،مطبع معارف،اعظم گڑھ،۱۹۷۹ء)
ہسٹری آف انڈیااور آکسفورڈہسٹری آف انڈیا:
یہ تاریخی اعتبارسے بڑی اہم کتابیں سمجھی اور پڑھی جاتی ہیں،یہ ڈاکٹر ونسنٹ اے اسمتھ کی سخت عرق ریزی کے ساتھ بڑی لاگت کے بعد زیور طبع سے آراستہ ہوئیں۔ان کی جو انفرادیت اور اہمیت ہے وہ بھی اہل علم کے نزدیک مسلم ہے ،مگر اس کتاب کے مطالعہ سے جہاں بہت سے اہم گوشے واضح ہوتے ہیں وہیں زہریلے بیانات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔اکثر معمولی واقعات کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر مسلم حکمرانوں کی خوبیوں پر پردہ ڈالا گیا ہے اور خامیوں کو مبالغہ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ،اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مسلمان سلاطین متعصب اور تنگ نظرتھے،ان کا مقصد ہندوؤں کو تباہ کرنے کے علاوہ اور کچھ نہ تھا،ہندوستان میں اکثرمسلمانوں کے آباء واجداد خوف یا لالچ سے مذہب تبدیل کیا تھا،اور انگریزوں نے آکر ہندوؤں کومسلمانوں کے پنجہ ظلم سے نجات دلائی۔
ہسٹری آف انڈیا بائے اٹس آؤن ہسٹاریزن
الیٹ اور ڈاؤس نے ہندوستان کی جو تاریخ لکھی اس میں بھی فرقہ وارانہ روش اختیار کی گئی ہے۔اس کے دیباچہ میں نہ صرف مسلمان بادشاہوں کو ظالم و جابر ٹھہرانے کے لیے پوری علمی توانائی استعمال کی گئی ہے ،بلکہ پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کی شخصیت کو بھی مجروح کیا گیاہے۔( The History of India as told by its own Historians. H.M. Eliot Ed. by John Dowsan (Introduction) pp. 22-23 Vol.1. kitab Mahal Allahabad)ایسا انہوں نے کیوں کیااس کی وضاحت خود مصنف نے کتاب کے دیباچہ میں کر دی ہے جو مصنف کی بڑی لغزش تھی۔جس پر پروفیسر خلیق احمد نظامی نے لکھا :
”ہمیں الیٹ کا مشکور ہونا چاہیے کہ اس نے اپنے مقاصد کا اظہار ایک عرض داشت (Memorandum) میں انگلستان کی حکومت سے کر نے کا فیصلہ کیا،اس عرض داشت کو بعد میں کتاب کاجزو بنا کر شائع کردیا گیا،بغیر یہ سوچے کہ مستشرقین کے خلاف یہ سب سے بڑی دستاویز ہے جو ان کے مفسدانہ مقاصد کے ثبوت میں پیش کی جاسکتی ہے۔“( سید صباح الدین عبدالرحمن،اسلام اور مستشرقین(مجمو عہ مقالات سمینار)ص:۵،ج:۲،مطبع معارف ،اعظم گڑھ،۱۹۸۶ء)
علامہ سید سلیمان ندوی نے بھی موٴرخ کی کتاب پرجو تنقیدی ریمارک کیا ہے وہ بڑا ہی دلچسپ ہے اور جس سے ان کے عزائم کا پردہ فاش ہوتا ہے ۔(دیکھیے مقالات سلیمان،ص:۳۹۰،ج:۱،مطبع معارف اعظم گڑھ،۱۹۶۶ء) اسی طرح عصر حاضر کے ایک مورخ نے مذکورہ کتاب کے متعلق جو رائے ظاہر کی ہے اس سے مصنف مذکور کی اسلام دشمنی تو ظاہر ہوتی ہی ہے،مزید بر آں اس کتاب کی اہمیت بالکل گھٹ جاتی ہے اور اس کی اسناد مکمل مشکوک ہوکر سامنے آجاتی ہے۔اس سیاق میں ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلی لکھتے ہیں:
”خود ہندوستان میں برسوں پہلے سرہنری الیٹ اپنی مشہور کتاب ” ہندوستان کی تاریخ خوداپنے مورخین کی زبانی“ ترتیب دے چکے تھے اوران کے انتقال کے بعد ڈاؤسن کی کوششوں سے شائع بھی ہو چکی تھی۔اس کتاب کا بنیادی مقصدیہ ثابت کرنا تھا کہ بر صغیر میں مسلمانوں کی حکومت ایک بے حد جابرانہ اور انتہائی ظالمانہ حکومت تھی ،جس کا عدل و انصاف سے کوئی واسطہ نہ تھا اور جس کے زیر سایہ بنیادی انسانی اقدار قطعی غیر محفوظ تھیں۔سازش ،شراب نوشی،عیاشی اورقتل و غارت گری کا بازار گرم تھا۔عیش وطرب کے لوازم مہیا کرنے کے لیے عوام کا بے دردانہ استحصال جس کا نشانہ خصوصاً غیر مسلم عوام ہوتے تھے،اس حکومت کا نشانہ امتیاز تھا۔معاشی استحصال،سماجی نابرابری اور مذہبی رواداری کا یکسر فقدان اس عہد کی نمایاں خصوصیات تھیں۔غرض اس کتاب کے صفحات سے مسلم دور حکومت کی ایک ایسی تصویر ابھرتی ہے جو کسی بھی طرح قابل فخر نہیں کہی جاسکتی۔اس مقصد کے حصول کے لیے بڑی مہارت اور چابک دستی سے اقتباسات کو ایک خاص ترتیب سے اکٹھا کیا گیاہے اور انہیں اپنے مخصوص سیاق وسباق سے الگ کر کے پیش کیا گیاہے۔ اقتباسات کے انتخابات میں یہ بات خاص طور سے ذہن میں رکھی گئی کہ صرف ایسے حصوں کو منتخب کیا جائے جن سے مسلم حکمرانوں اور ان کے نظام حکومت کی نہایت مکروہ اور گھناوٴنی تصویر ابھر کر سامنے آئے۔“( سہ ماہی تحقیقات اسلامی،علی گڑھ،جولائی-ستمبر۱۹۸۵ء،ص:۲۲-۳۳،برصغیر میں اسلام کی توسیع واشاعت میں صوفیائے کرام کاحصہ،مضمون نگار:پروفیسر اشتیاق احمد ظلی)
جرجی زیدان کی کتاب تمدن اسلامی
یہی کام جرجی زیدان نے کیا ۔ شبلی نعمانی لکھتے ہیں :
” جرجی زیدان ایک عیسائی مصنف نے یہ کتاب چار حصوں میں لکھی ہے ،جس میں مسلمانوں کی تہذیب و تمدن کی تاریخ لکھی ہے،اس کتاب میں مصنف نے در پردہ مسلمانوں پر بڑے اور متعصبانہ حملے کیے ہیں،لیکن بظاہر مسلمانوں کی مدح سرائی کی ہے،جس کا نتیجہ یہ ہواکہ لوگوں کی نظر ان کی فریب کاریوں پر نہیں پڑی اور کتاب گھر گھر پھیل گئی۔“( سید سلیمان ندوی،مقالات شبلی،ص:۱۳۳،ج:۴،مطبع معارف،اعظم گڑھ،۱۹۷۵ء)
پروفیسر آرنلڈ کی کتاب پریچنگ آف اسلام
پروفیسرآرنلڈکی کتاب پریچنگ آف اسلام کو نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں غیر معمولی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی، جس میں ہندوستان کے حوالے سے بحث میں اسلام کی اشاعت کا سارا سہرا صوفیائے کرام کے سر ڈال دیا گیا ہے اور کم از کم اس اعتراض سے ہندی مسلمانوں کو نجات ملی جو دوسرے انگریز موٴرخوں نے کی ہے کہ اسلام کی جبری اشاعت ہوئی ہے اور سلاطین وقت نے تلوار کے ذریعہ لوگو ں کواسلام قبول کرنے پرمجبور کیا۔مگر اس کتاب کی زمانہ تصنیف پر بھی نظر رکھی جائے۔ایک طرف الزام و اتہام کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف مسلمانوں کے جذبہ جہاد کو سرد کرنے کے لیے اس پر پانی پھیرا جارہاہے اور اس کے لیے اس سے انکار کیا جارہاہے کہ اسلام کی اشاعت تلوار سے نہیں ہوئی ۔اس کتاب میں کہیں آ پ کو یہ نظر نہیں آئے گا کہ آرنلڈ نے انگریز موٴرخوں کی تحریر پر تنقید کی ہواور ان کی عصبیت کا پر دہ فاش کیا ہو ۔چنانچہ اس کتاب کی تصنیف کے مقاصد کا یقین دلاتے ہوئے عہد حاضر کے ایک مبصر نے لکھا ہے کہ:
”یہ بات بعید از قیاس ہے کہ اسلام کے مخالفین اس کے ایک پہلو کو بغیر کسی خاص سبب کے وکالت کرنے لگیں۔اصولی طور پریہ ممکن نہیں کہ اصل کا مخالف فرع کی حمایت کا بیڑا اٹھالے،اس کے لیے کسی بہت خاص وجہ اور سبب کی موجودگی ضروری ہے۔ظاہر ہے مقصداسلام سے ہمدردی ہرگز نہ تھی بلکہ پیش نظرانہیں مقاصد کا حصول تھاجن کے لیے اول الذکرذریعہ استعمال کیا گیا تھا۔راستہ بالکل مختلف تھالیکن نتائج وہی حاصل کرنے تھے۔ مقاصد کے گھناؤنے پن کو البتہ بڑی چابک دستی سے ہمدردی کے دبیز تہوں کے نیچے چھپا دیا گیاتھا۔ مسلمانوں میں تصوف اور صوفیائے کرام کی غیر معمولی مقبولیت کے سہارے ان کی سوچ کے دھارے کو غیر محسوس طور پرایک نیا رخ دینے کی یہ نہایت شاطرانہ چال تھی۔“( ایضا،ص:۱۳۳،ج:۴)
جائزہ
اسی طرح ایم۔اے۔ٹائیٹس نے مسلمان بادشاہوں کے متعلق جو لکھا وہ بھی بڑادل خراش ہے ، جسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان بادشاہوں نے سوچی سمجھی پالیسی کے تحت ایک لائحہ عمل تیار کیا تھااور جس پر بعد تک عمل ہوتا رہا۔ جس میں اس نے بالخصوص محمد بن قاسم اور اورنگ زیب سے متعلق سخت بہتان تراشی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ محمد بن قاسم نے سندھ میں مندروں کے انہدام کا جو منصوبہ بند پروگرام شروع کیاتھا،عہدعالم گیری تک جاری رہا۔
اس طرح ’ لارڈالن برو‘نے محاربہ قابل کے بعد ۱۸۴۲ء میں سلطان محمود غزنوی کے مقبرے سے صندل کے کنوار اکھڑواکر غزنی سے آگرہ تک اس کا جلوس اس اعلان کے ساتھ نکالا کہ سلطان یہ کنوار سومناتھ سے لے گیاتھا۔ بعد میں جلد ہی یہ حقیقت بھی ظاہر ہو گئی کہ یہ باتیں غلط ہیں اور اس کا تعلق سومنا تھ سے نہیں ہے،بلکہ یہ مسلمانوں کے بنائے ہوئے ہیں۔ ( جیمس فرگیسن،اسلامی فن تعمیر ہندوستان میں،ص:۱،جامعہ عثمانیہ،حیدر آباد،۱۹۳۲ء)
یہ اور اس قسم کی دوسری غلط و بے بنیاد باتیں عوام کے سامنے پیش کرکے عوام کے ذہن میں غلط تاثر پیش کرنے کا جو سلسلہ جاری ہوا ، مرور زمانہ کے ساتھ اس میں اضافہ ہی ہوتا گیا یہاں جو بات قابل غور ہے وہ یہ کہ کنوار کی تشہیر جلوس کے ذریعہ کی گئی جس کو سب نے دیکھا،مگر حقیقت کا اظہار تحقیق کے ذریعہ ہوا، جس کا علم بہت کم لوگوں کو ہو سکا۔اس واقعہ سے عوام کا ذہن کس حد تک پراگندہ ہوا ہوگا اس پر تبصرہ کرنے کی قطعی ضرورت نہیں۔
سب جانتے ہیں کہ عہد وسطیٰ کی تاریخ لکھنے کی طرف ہندووٴں نے توجہ نہ دی ۔سوائے کلہن کی راج ترنگی کے کوئی اہم تاریخی کتاب ہندووٴں کے یہاں نہیں پائی جاتی اور وہ بھی کشمیر کے حالات سے تعلق رکھتی ہے۔تاریخ نویسی کا کام مسلمانوں نے ابتدا سے کیا ہے اور یہ فن ہندوستان میں سلاطین کے عہد میں عروج پر پہونچا۔کم وبیش اکثر فرما رواوٴں کے زمانہ کی تاریخ کسی نہ کسی حد تک رقم ہوئی۔جس کی زبان فارسی،عربی اورترکی ہی تھی۔انگریز شاہ جہاں کے زمانہ سے ہندوستانی افق پر ابھرے۔اس وقت تک ان کی حیثیت اس ملک میں بس اتنی تھی کہ سلاطین اور امرا کو جب کبھی ان کی عیاری اور مکاری کا علم ہوتا تو اس کی گوش مالی اچھی طرح سے کر دیتے اور وہ ادھرسے ادھر منتشر ہوجاتے تھے۔بعد میں انہوں نے بتد ریج ہندوستان میں قدم جمائے۔
یہ امر قابل غور ہے کہ اس مختصر اور افرا تفری کے زمانے میں انگریزوں نے کیوں کر اور کس طرح عربی ،فارسی اور ترکی زبانوں پر عبور حاصل کر لیا کہ وہ اپنی تاریخی کتابوں میں مسلمانوں کی تاریخ اور دوسری کتابوں کا حوالہ بڑے کروفر سے پیش کرتے ہیں،اور پھر مسلمان مورخ اپنی تاریخی کتابوں میں اپنے بادشاہوں کے ناکردہ مظالم کا ذکرکیوں کرتے جن کا حوالہ انگریز مورخوں نے دیا ہے۔اہم بات تو یہ ہے کہ اس عہد میں جو تاریخی کتابیں تھیں ان میں سے اکثر کتابیں آج بھی پائی جاتی ہیں ،جن میں ان بادشاہوں کے مظالم کاذ کر نہیں ہے،اور اگر کہیں کہیں اس طرح کی کچھ باتیں پڑھنے کو مل بھی جاتی ہیں تو اس کے سیا ق وسباق سے واقعہ کو جوڑ کر نتیجہ نکالا جانا چاہیے۔
انگریز وں کی لکھی ہوئی کتابیں تاریخی اسناد سے خالی ہیں اور مقامی روایات کی جو کثرت ہے وہ مکمل مشکوک ہے۔اس لیے تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کو ان باتوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور مطالعہ کے وقت بالخصوص ان کی تاریخی اسناد کو ملحوظ رکھاجانا چاہیے ۔
اس سلسلے کی آخری بات یہ ہے کہ انگریزوں کو ان زبانوں پر عبور حاصل تھا تو پھر انہوں نے تصنیف وتالیف اورتراجم کے جو ادارے قائم کیے اس میں مسلمان عالموں کی مدد حاصل نہ کرتے،اگر ان کے معاش کی انہیں فکر تھی تو دوسرے اہم شعبوں میں مسلمانوں کی جوقلت ہو گئی تھی اس کا کیا جواز ہوسکتا ہے؟در اصل ہندوستان کی تاریخ اورتذکروں کے تراجم وغیرہ پر انہوں نے جو محنت کی اس سے اسلام کی محبت کے بجائے عناد کا پہلو ظاہر ہوتا ہے۔کیوں کہ انہوں نے اپنے مقاصد کی کامیابی کے لیے واقعات کو اس انداز میں توڑمڑورکر پیش کیا ہے کہ اصل واقعہ پلٹ کر رہ گیااورفرقہ واریت کی بو اس سے ظاہر ہونے لگی ہے۔چنانچہ مستشرقین کے عزائم کا پردہ فاش کرتے ہوے نو مسلم مفکر علامہ اسد لکھتے ہیں:
”یورپین کا رویہ اسلام کے بارے میں اورصرف اسلام ہی کے بارے میں دوسرے غیر مذاہب اور تمدنوں سے بے تعلقی کی ناپسندیدگی ہی نہیں بلکہ گہری اور تقریبابالکل مجنونانہ نفرت ہے ۔یہ محض ذہنی نہیں ہے بلکہ اس پر شدید جذباتی رنگ بھی ہے ۔یورپ بدھشٹ اور ہندو فلسفوں کی تعلیمات کو قبول کرسکتا ہے اور ان مذہبوں کے متعلق ہمیشہ متوازن اور مفکرانہ رویہ اختیار کرسکتا ہے۔مگر جیسے ہی اسلام کے سامنے آتا ہے ،اس کے توازن میں خلل پڑ جاتا ہے اور جذباتی تعصب آجاتا ہے۔بڑے سے بڑے یورپین مستشرقین بھی اسلام کے متعلق لکھتے ہوئے غیر معقول جانب داری کے مر تکب ہو گئے ہیں…. اس طریقہ عمل کا نتیجہ یہ ہے کہ یورپ کے مستشرقین کے ادب میں ہمیں اسلام اور اسلامی معاملات کی بالکل مسخ شدہ تصویر ملتی ہے۔یہ چیز کسی ایک خاص ملک میں محدود نہیں بلکہ جرمنی، روس، فرانس، اٹلی، ہالینڈ، غرض ہر جگہ جہاں یورپین مستشرقین نے اسلام سے بحث کی ہے ۔ انہیں جہاں کہیں بھی کوئی واقعی یا محض خیالی ایسی بات نظر آتی ہے جس پر اعتراض کیا جاسکے وہاں ان کے دل میں بدنیتی کی مسرت کی گدگدی ہونے لگتی ہے۔“
( محمد اسد،اسلام دوراہے پر،ص:۴۶-۴۷،آزاد کتاب گھر،دہلی،۱۹۶۸ء)
ان کے علاوہ ڈاکٹر توقیر عالم فلاحی کا یہ تبصرہ بھی اس تناظر میں بڑاہی معنی خیز معلوم ہوتا ہے:
”سترہویں اور اٹھاڑہویں صدی عیسوی کو ذہنی وفکری بیداری کے دور سے جانا جاتا ہے،جس میں مستشرقین نے افسانوں،من گھڑت کہانیوں،اوہام وخرافات اور ثانوی مصادر سے قطع نظر بنیادی اور اہم مصادرشریعت اسلامیہ اورمعروف و مشہور علمی مراکز کو اپنی توجہات کا مرکز بنایا۔اسی طرح معقولیت اور عدل وانصاف کے ساتھ ساتھ تعصب وجارحیت کے عناصر بھی علمائے استشراق کے فکرو عمل کے دائرہ کار میں آنے لگے۔پھر بیسویں صدی کا ربع اول اس لحاظ سے منفرد ہے کہ مستشرقین نے کمیت اور کیفیت دونوں لحاظ سے اس دور میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں ۔یہی وہ زمانہ ہے جس میں فرانس،ہالینڈ،اسٹریلیا،انگلینڈ، جرمنی،سوئزر لینڈ، روس ،فن لینڈاور امریکہ کے مستشرقین سرگرم عمل نظر آتے ہیں۔“ (سالانہ مجلہ، الدین،۲۰۰۶-۲۰۰۵ء ،ص :۸۲-۸۳،تھیالوجیکل سوسائٹی،شعبہ سنی دینیات،اے۔ایم۔یو،علی گڑھ، مضمون:اسلام ، مستشرقین اور مدارس دینیہ،مضمون نگار:ڈاکٹر روقیر عالم فلاحی)
علامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں :
”یورپین مستشرقین نے اسلامی علوم وفنون کی جو خدمت کی ہے ،اس کا اعتراف ہے۔مگر مذہبی،شرعی اور فقہی معاملات میں ان کی تحقیق یا رائے پر کسی حال میں بھی اعتماد نہیں کیا جاسکتاہے۔اس لیے مسلمان فرمارواؤں کے کسی رویہ یا پالیسی کو ان کے مذہب کی روشنی میں اگر دیکھنے کی کوشش بھی کی جائے تومذہبی معاملات کا ماخذ اور سرچشمہ خود مسلمان علماء وفقہاکی اور یجنل،مستند ومعتبرکتابیں ہونی چاہیں،لیکن زبان کی ناواقفیت کی وجہ سے ان کتابوں کا سمجھناممکن نہ ہو توپھرایسے موضوع اور مسئلہ پر قلم اٹھانے کا حوصلہ نہ کیا جائے۔نیت خواہ کتنی ہی اچھی اور صاف ہو مگر مذہبی مسائل کی غلط تعبیر اور کلی امور میں ان کی غلط تطبیق سے بعض اوقات ایسے ضرر رساں پہلو پیدا ہوجاتے ہیں جن سے ایک طرف تو حقیقت کا خون ہوتا ہے اور دوسری طرف قوموں کے جذبات میں تلخی پیدا ہوتی ہے۔“( سید صباح الدین عبدالرحمن ،مقالات سلیمانی،ص:۳۸۴،ج:۱،مطبع معارف،اعظم گڑھ،۱۹۶۶ء)
اسلام اور مسلمانوں پر انگریزوں کی طرف سے اعتراضات کے جواب میں ہندوستان کے مختلف علماء نے مختلف اداروں اورمحاذوں سے آواز اٹھائی۔ جب رسول پاک صلى الله عليه وسلم کی سیرت پرکیچڑ اچھالا گیا توسرسید نے اس کا مدلل اور مکمل جواب دیا اور ان کے مفسدانہ خیالات کی قلعی کھولی۔ مولانا شبلی تو پوری زندگی مستشرقین کے پیدا کیے ہوئے پرو پیگنڈہ کا پردہ فاش کرنے میں لگے رہے، قرآن کے عدیم الصحہ ہونے کا دعویٰ جب لندن ٹائمس میں کیا گیا تو مولانا شبلی نے اس پر پر زور تنقید کرتے ہوئے کہا کہ:” ہم بتا دیں گے کہ قرآن مجید ہزاروں دلائل سے انجیل نہیں بن سکتا ۔“اس ایک جملہ میں اس ذہنی کاوش کا پورا پس منظر سمٹ آیا ہے،جو مستشرقین کی ان کوششوں کامحرک تھا ۔پادری بروچلی نے تعدد ازدواج پر اعتراضات کیے تو مولانا شبلی کا قلم حرکت میں آیا ۔جرجی زیدان کی کتاب تاریخ تمدن اسلام کی پردہ دری کا کام مولانا شبلی نے ہی انجام دیا۔، آرمینا کے جھگڑوں میں مستشرقین نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ اسلام میں عیسائی رعایا کے ساتھ ماضی میں شدید مظالم ہوچکے ہیں اور اسلام میں یہ ظلم جائز بلکہ ضروری قرار دیا گیا ہے ۔مولانا شبلی نے حقوق الزمین اور الجزیہ لکھ کر ان الزام تراشیوں کوبے اثر کر دیا۔جب سیرت النبی پر قلم اٹھایا تو سب سے پہلے مستشرقین کے پیدا کیے ہوئے اثرات کا جائزہ لیا۔اسی مقصد کے پیش نظرمولانا سید سلیمان ندوی نے ۱۲۔۱۹۱۱ء میں الندوہ میں ایک طویل سلسلہ مضامین شائع کیا جن میں مستشرقین کے کام کا جائزہ لیا گیا ہے۔“( سید صباح الدین عبدالرحمن ،اسلام اور مستشرقین،ص۶۳:۲۲،ج:۲،مطبع معارف،اعظم گڑھ،۱۹۸۶ء)
مستشرقین کے اعتراضات اور پروپیگنڈے کاایک دوسرا محاذ یہ بھی تھا کہ عیسائی پادری جگہ جگہ پہونچ کرمسلمانوں کے خلاف تقریریں کرتے اور اپنے مذہب کی اشاعت کرتے،اور لوگوں کو دین اسلام سے بر گشتہ کرکے مرتد بناتے تھے ،جن کے خلاف علماء کی ایک بڑی تعداد کھڑی ہوگئی اور اس کا دندان شکن جواب دیا۔ان علماء کی خدمات کوسراہتے ہوئے پروفیسر مذکور رقم طرازہیں:
”ہندوستان میں مستشرقین کے پیدا کیے ہوئے اثرات کے خلاف جن علما نے پیہم جدوجہد کی ان میں مولانا محمد قاسم نانوتوی ،مولانا رحمت اللہ کیرانوی،مولانا شبلی ،مولانا محمدعلی مونگیری،ڈاکٹر محمداقبال اورسیدامیرعلی کے نام تاریخ میں ہمیشہ یاد رہیں گے۔ہندوستان میں مشزی اورمستشرق کی سازش نے نازک صورت حال پیدا کردی تھی۔میورنے خود لکھا ہے کہ اس نے اپنی کتاب پادری فنڈرکی ضروریات کوپوراکرنے کے لیے لکھی تھی۔ مولاناکیرانوی اورمولانامونگیری نے مشزیوں اورمستشرقین کے اتحاد عمل کامقابلہ کیا اوربڑی ہمت واستقلال سے بہت سے فتنوں کاسدباب کیا، مولانا کیرانوی کی کتابیں ازالة الاوہام،ازالة الشکوک،احسن الحدیث، اظہارالحق فرانسیسی، انگریزی اورترکی زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہیں۔ مولانا مونگیری کی کتابوں میں پیغام محمدی، ساطع البرہان، برہان قاطعہ وغیرہ نے مشزیوں کی سازش کو ناکام بنایا۔“(ایضا)
ہندوستانی موٴرخ سرجادَوناتھ سرکار کی ہسٹری آف اورنگزیب
فرقہ پرستی کی آگ بھڑکانے میں ہندوستانی موٴرخ سرجادو ناتھ سرکار بھی انگریز موٴرخوں کی صف میں برابری کا درجہ رکھتے ہیں۔انہوں نے اورنگ زیب کے نام سے ۵/جلدوں میں کتاب لکھ کر بڑانام کمایا۔اجہاں انہوں نے ایک طرف اورنگ زیب کے حالات، افکار،ملکی نظم و نسق،علم اور علماء پروری اور کارناموں کو بڑے دل کش انداز میں بیان کیا ہے وہیں بعض جگہوں پر اسلام، مسلمان اور اورنگ زیب کے عادات وخصائل پر جارحانہ حملے بھی کیے ہیں۔اس نے اپنی کتاب کی جلد سوم کا ایک پورا باب ”اسلامک اسٹیٹ چرچ“کو اس بحث کے لیے وقف کردیا ہے کہ اسلام ایک وحشیانہ مذہب ہے،جواپنے متبعین کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ لوٹ ماراور خوں ریزی کو مذہبی فرض سمجھو،یہ دنیا کے امن کا دشمن ہے اور اس کی رو سے رواداری ناجائز ہے،حکومت مغلیہ مکمل قزاقی تھی،مسلمانوں کی حکومت میں غیر مسلم ابھر نہیں سکتے تھے،اورنگ زیب کی عدم رواداری کا ذمہ دار اسلام تھا ،کیوں کہ وہ شجر اسلام کا ایک پھل تھا،جب درخت ہی کڑوا ہے تو پھل لامحالہ کڑوا ہوگا۔( History of Aurangzib, Sir Jadunath Sarkar pp. 163-190, Vol.3 OrientLimited, N.Delhi,1972)
اس کتاب کی زہر افشانی کے متعلق ڈاکٹر اوم پرکاش پرساد لکھتے ہیں:
”دوسری کتاب مشہور تاریخ داں جادو سرکار (سرجادو ناتھ سرکار)کی لکھی ہوئی ہندی اور انگریزی زبانوں میں موجود ہیں،ویسے سر کا خطاب انگریزوں نے زیادہ تر ایسے ہی لوگوں کو دیا ،جنہوں نے انگریزوں کے خیالات و بہبودی کا خیر مقدم دل کھول کر کیا ۔جادوناتھ سرکار کی کتاب پڑھنے پر ہمیں بڑی دل چسپ باتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔وہ یہ ہیں کہ سرکا ر صاحب کوئی ایسا قدم اٹھانے سے باز نہیں آتے ہیں،محض یہ ثابت کرنے کے لیے کہ اورنگ زیب مغلیہ عہد کا بدترین بادشاہ تھا۔جب کہ ہمیں انہیں کی کتاب میں اورنگ زیب سے متعلق ایسی باتیں دیکھنے کو ملتی ہیں جن پرغور کرنے سے ہم آسانی سے اس نتیجہ پر پہونچ سکتے ہیں کہ وہ اتنا کٹر،ظالم اور متعصب نہیں تھاجتنا بتایا گیا ہے۔اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے اگر ہم سرکار صاحب کی کتاب میں شائع اورنگ زیب کے فرمانوں کا مطالعہ کریں تو بات کافی حد تک سمجھ میں آسکتی ہے۔“( بسمبر ناتھ پانڈے،اورنگ زیب ایک نیا زاویہ نظر،ص:۴دیباچہ،خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری،پٹنہ)
دیگر موٴرخین کا مثبت اور منفی نقطہ نظر:
ان کے علاوہ ایشوری پرساد ،سری رام شرما،آشروادی لال وغیرہ نے مغل بادشاہوں کی مذہبی پالیسی اور میڈول انڈین کلچر کے نام سے عہدوسطیٰ کے بادشاہوں کی تاریخ لکھی،ان میں بھی کہیں کم اور کہیں زیادہ بیشتر حکمرانوں کی سیاسی ومذہبی پالیسی کوتنقیدی انداز میں موضوع بحث بنایا گیا ہے اور اسی کے ضمن میں پورے اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے یہ کہتے ہوئے کہ اسلام کو پھیلانے کے لیے جبرو تشدد کی پالیسی اپنانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
اس کے برعکس ڈاکٹر ستیش چندرکی کتاب” مغل دربار کی گروہ بندیاں اور ان کی سیاست“ محمد اطہر علی کی ”اورنگ زیب کے عہد میں مغل امراء“ ، ”تاریخ شاہ جہاں“ڈاکٹربنارسی پرشاد سکسینہ کی اوررومیلاتھاپر کی کتاب کافی حد تک حقائق پر مبنی معلوم ہوتی ہیں ،جن میں سلاطین ہند کی ہندو نوازیت اور دوسرے اہم گوشوں پر منصفانہ مواد جمع کرکے ان متعصب موٴرخوں کا بھانڈا پھوڑاگیا ہے۔
پہلی قسم کازہریلا لٹریچر عوام کے سامنے آیا تو بلا تفریق مذہب وملت کچھ سیدھے سادے لوگ بھی ان سلاطین کو نفرت کی نگاہ سے دیکھے بغیر نہ رہ سکے۔ان کے اندر بھی غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی۔یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔آج بھی تاریخ کے بعض طالب علموں کے ذہنوں سے یہ غلط تأثر زائل نہ ہوسکا ہے ۔ان میں سے بھی کچھ طالب علم تحقیق وتخریج کے میدان سے گزرتے ہیں تو انہیں اصل صورت حال کا اندازہ ضرور ہوجا تا ہے،پھر بھی شک اور تعجب کا خاور بند نہیں ہوتا۔ان کتابوں میں بالخصوص الیٹ کی تاریخ نے عوام کے ذہن میں ایسا تأثر پیدا کیا ہے کہ آج بھی جب اس کے خلاف کوئی بات کہی جاتی ہے تو وہ شک آمیز اور تعجب سے سنی جاتی ہے۔
معترضین کے اعتراضات کی کمزوری خود انہی اور دوسرے غیر مسلم مورخین کی زبانی
اس مختصر حقیقت پسندی کے علاوہ یہاں پر اوردوسرے منصفانہ بیانات خود معترضین اسلام اور دوسرے ہندوں موٴرخوں کی تحریر کی روشنی میں تحریرکیے جاتے ہیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آخر ان فرماں رواوٴں کا رویہ اپنی رعایا کے ساتھ ایک ہی وقت میں متضاد کیوں کر ہوسکتا ہے۔یاتو انہوں نے ہندوستان میں ظلم وبربریت کی روش اختیار کی ہوگی ۔ یا پھر انسانی ہمدردی اور رواداری کے اصولوں کو اپنا یا ہوگا۔لہٰذا ان بیانات سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان بادشاہوں کے متعلق بیشتر موٴرخوں نے تعصب سے کام لے کر پوری تاریخ کو مشکوک بنادیا ہے۔چنانچہ جس اورنگ زیب کو سرجادوناتھ سرکار نے شجراسلام کا ایک کڑواپھل کہا ہے اس کی دوسری رائے اورنگ زیب کے متعلق یہ بھی ہے:
”جسمانی ہمت اورتمکنت کے علاوہ اس نے اوائل زندگی ہی سے بادشاہت کی مشقتوں اور خطروں کو اپنا شیوہ بنالیاتھااوراس عظیم الشان عہدہ کے لیے احترام ذات اورضبط نفس سے اپنے کوتیار کرلیا۔ بادشاہوں کے لڑکوں سے بالکل مختلف اورنگ زیب ایک وسیع النظر اور سلیم الفطرت عالم تھااور زندگی کی آخری سانس تک کتابوں سے محبت کرتا رہا۔اگر ہم قرآن شریف کے ان متعدد نسخوں کو نظر انداز بھی کردیں جن کو اس نے اپنے ہاتھوں سے ایک عابد کی سرگرم ریاضت کے ساتھ لکھاتو بھی ہم اس کوفراموش نہیں کرسکتے کہ وہ ایک مشغول حکمراں ہونے کے باوجود اپنی قلیل فرصت کو عربی کی فقہی اور مذہبی کتابوں کے مطالعہ میں شوق سے گزارتااورپرانے اورنادر مخطوطات مثلانہایہ،احیاء العلوم اوردیوان صائب کو کتابوں کے ایک کاہل عاشق کی ہوس سے ڈھونڈتا۔اس کے کثرت رقعات،اس کی فارسی شاعری اور عربی ادب پر قدرت کی دلیل ہے،کیوں کہ وہ ہمیشہ اپنے خط کو مناسب اشعارواقتباسات سے مزین کرتا ہے۔عربی اور فارسی کے علاوہ ترکی اور ہندی بھی آزادی کے ساتھ بول سکتا تھا۔یہ اسی کی جودت طبع اور سرپرستی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے پاس ہندوستان میں مسلمانوں کے قانون کا سب سے بڑاخلاصہ فتاویٰ عالم گیری ہے جو نہایت مناسب طورپر اسی کے ساتھ منسوب ہے اور جس نے بعد کے عہد میں اسلامی نظام عدل کو واضح طور پر آسان کردیا۔“( History of Aurangzib, P:474, Vol:5بحوالہ سید صبا ح الدین عبدالرحمن، بزم تیموریہ،ص:۲۲۲،ج:۱، مطبع معارف اعظم گڑھ،۱۹۹۰ء)
یہی موٴرخ محمد بن قاسم کی فتوحات اور ان کی سیاسی بصیرت کی تعریف کرتے ہوے لکھتا ہے:
”شروع کے عرب فاتحوں ،خصوصا سندھ کے فاتحوں نے یہ عقلمندانہ اور مفید حکمت عملی اختیار کررکھی تھی کہ وہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں اور مذہبی مراسم کو مطلق نہ چھیڑتے ۔جب وہ کسی شہر پر قبضہ کر لیتے تووہاں غیر مسلم آبادی کو اسلام قبول کرنے کو کہتے،اگر وہ قبول کرلیتے توان کو وہی حقوق حاصل ہوجاتے جو فاتحوں کے ہوتے،ورنہ پھر ان کو جزیہ اداکرنا پڑتا،جس کے بعد ان کو اپنے مذہب کے مراسم اداکرنے کی اجازت ہوتی۔“ (History of Aurangzib, P:253, Vol:3بحوالہ بزم تیموریہ،ص:۲۲۲،ج:۱)
سرجادوناتھ مجموعی طور پر تمام مغل حکمرانوں کی پالیسی اوران کے انتظام مملکت کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:
”مغل ایمپائر کے سبھی صوبوں پر با لکل ایک ہی طرح انتظامی مشنری کے ذریعہ ٹھیک ایک ہی طرح کے ضابطوں اور سرکاری خطابوں کے ساتھ حکومت ہوتی تھی۔ فارسی واحد زبان تھی جو سرکاری ریکاڈس، فرمان، اسناد، زمینوں کے عطیات،حمل ونقل کے اجازت ناموں ،مراسلات اور رسیدوں کے اجرامیں استعمال ہوتی تھی۔صرف ٹکسال شہروں کے ناموں کے فرق کے ساتھ ایک ہی نام اور نوعیت کے اور کھرے پن میں ایک ہی طرح کے اسکولوں کا حامل،ایک ہی طرح کا مالیاتی نظام سلطنت بھر میں رائج تھا۔عہدہ داروں اورفوجیوں کو برابر ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں تبدیل کیا جاتا تھا۔اس طرح ایک صوبہ کا باشندہ اپنے کو کسی دوسرے صوبے میں تقریبا گھر ہی کی طرح مطمئن محسوس کرتا تھا۔تجاراورسیاح بڑی آسانی سے ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں آتے جاتے رہتے تھے اور سبھی اس ملک کی شاہی (سیاسی)وحدت کو خوب سمجھتے تھے۔“ (مغل ایڈمنسٹریسن،ص:۱۲۹-۱۳۰،بحوالہ:بسمبر ناتھ پانڈے، اسلام اور ہندوستانی ثقافت،ص:۲۰(مترجم اردو:تقی رحیم، خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری،پٹنہ،۱۹۹۸ء)
کیمبرج ہسٹری کے مصنف نے اپنی دوٹوک رائے اس انداز میں پیش کی ہے :
”مسلم موٴرخین نے کسی بغاوت کو فرو کرنے یا کسی قلعہ ،شہر یاگاوٴں پر قبضہ کرنے میں انہیں جلانے اور پورے ضلع کو برباد کردینے کا واقعہ اس رجزیہ انداز میں کیا ہے کہ اگر ہمارے پاس ثبوت نہیں ہوتا کہ واقعہ اس طرح ہو ہی نہیں سکتا تو ہم مغالطہ میں پڑجاتے اور یقین کرنے لگتے کہ شمالی ہندوستان پر مسلمان کا ابتدائی غلبہ ایک ایسا مقدس جہاد تھا جو بت پرستی کو ختم کرنے اور اسلام کی تبلیغ کے لیے شروع کیا گیا تھا۔محمود اور اس کے بعد سبھی حکمرانوں نے جب بھی ایسا کرنا چاہا اپنے حق میں موزوں سمجھا ۔ہندو جاگیر داروں اور زمین داری کی اطاعت کو قبول کرلیا ،انہیں اپنا منصب دار بنایا اور ان کے موروثی علاقوں کو ان کے قبضے میں رہنے دیا۔“( ہسٹری آف انڈیا،ص:۸۳،ج:۳،بحوالہ اسلام اور ہندوستانی ثقافت،ص:۳)
الفسٹن جس کی تاریخ کا اس باب میں ذکر ہواہے کہ اس نے ”پھوٹ ڈالو اورحکومت کرو“ کی پالیسی اپنائی تھی اور مسلمانوں کو ہندووٴں کااورہندووٴں کو مسلمانوں کاحریف ٹھہراتھا اور پھر اپنے نظریات کو کتابی شکل دے کر اسکو ل کے نصاب میں شامل کردیا۔مگر وہ بھی دانستہ یا نادانستہ مسلمان حکمرانوں کے انصاف ،مواخات اور رواداری کا اعتراف کرتے ہوئے نہیں چوک سکے۔چنانچہ موٴرخ مذکور ایک مقام پر لکھتا ہے:
”ان کی(مسلمانوں)حکومتوں میں ہندووٴں کے مندروں اور دھرم شالاوٴں کی حفاظت کی جاتی تھی۔بر ندابن، گوردھن اورمتھرا کے مندروں کو شاہی خزانے سے مدد کی جاتی تھی۔متھرا ضلع کے گوردھن میں ہری دیویکا مندر ہے جو۱۵۰۰ء میں بنا۔احمد شاہ کے ایک دسخطی فرمان سے معلوم ہوتا کہ بادشاہوں کی طرف سے مندر کے خرچ کے لیے روپیہ ملتا تھا۔“( ہندوستان کی مختصر تاریخ(الفسٹن)،بحوالہ بسمبر ناتھ پانڈے، ہندوستان میں قومی یکجہتی کی روایت،ص:۱۲، خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری،پٹنہ)
ڈاکٹر ایشوری پرساد سابق پروفیسر الٰہ آباد یونیورسٹی محمود کی عسکری اورسیاسی بصیرت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”تاریخ میں محمود کا مقام طے کرنامشکل کام نہیں ،اپنے زمانے کے مسلمانوں کے سامنے وہ غازی اور دین کا حمایتی تھا،جس نے مشرکوں کے ملک سے بت پرستی ختم کرنے کی کوشش کی اور آج کے ہندووٴں کی نگاہ میں وہ ایک وحشی اور ظالم حقیقی ہواتھا ،جس نے ان کی انتہائی مقدس عبادت گاہوں کو برباد اوروحشیانہ طور پر ان کے مذہبی احساسات کو مجروح کیا،لیکن ایک غیر جانب دار محقق جو اس زمانے کے خصوصی حالات کو دھیان میں رکھے گا تو لازمی طور پر دوسرا فیصلہ دے گا۔محمود بلا شبہ اپنے ساتھیوں کا ایک عظیم رہنما تھا،وہ اپنی عقل سے کام کرنے والا معقول اور ایمان دارحکمراں ،ایک جری اورلائق سپاہی ،منصف مزاج ،ادب کا سرپرست اور دنیا کے سب سے بڑے بادشاہوں میں شمار کیے جانے کے لائق تھا۔“( میڈول انڈیا(ایشوری پرشاد)ص:۱۱۰-۱۱۱،بحوالہ اسلام اور ہندوسانی ثقافت،ص:۱۱-۱۲۔سید صباح الدین عبدالرحمن،ہندوستان کے عہد ماضی میں مسلمان حکمرانوں کی مذہبی رواداری،ص:۲۹،ج:۱،مطبع معارف ،اعظم گڑھ،۱۹۷۵)
استفادہ تحریر :ہندوستان میں اشاعت اسلام سے متعلق اعتراضات کا جائزہ از ڈاکٹر مفتی محمد شمیم اختر قاسمی