خلیفہ بلافصل کا معاملہ اور حضرت ابوبکر،عمر،سفیان ومعاویہ  ؓ کا ایمان

آیت استخلاف ، حضرت علی کو خلیفہ بلا فصل کہنا اور قرآن کی بشارت

آیت استخلاف کے حوالے سے روافض کے افراط و تفریط کے علمی تعاقب کا صحیح انداز یہ ہے کہ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیت استخلاف میں جس خلافت کا اس وقت کے مومنین صالحین ( صحابہ کرام رض) سے وعدہ کیا گیا ہے تو کیا یہ وعدہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے بهی تها یا نہیں؟ اگر نہیں تو انہیں ( معاذاللہ ثم معاذاللہ) ایمان اور اعمال صالحہ کی نعمتوں سے محروم قرار دینا ہوگا. اگر یہ وعدہ ان سے بهی تها اور یقینا تها تو کیا یہ وعدہ خلافت بلافصل کا تها یا مطلق خلافت کا تها؟ اگر مطلق خلافت کا تها ، فهوالمطلوب یہی بات درست ہے. اگر خلافت بلافصل کا وعدہ تها تو مزید سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اپنا وعدہ پورا کرنے پر قادر ہے یا نہیں؟ اگر کہا جائے کہ نہیں تو بالاتفاق یہ کلمہ کفر ہے. اگر اللہ تعالی ایفائے عہد پر قادرمطلق ہے تو کیا اس نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے خلافت بلافصل کا ( مبینہ) وعدہ پورا فرمایا یا نہیں؟ اگر نہیں تو اس سے اللہ تعالی کی طرف عہدشکنی کی نسبت ہوتی ہے اور ایسا کہنا بلکہ سوچنا بهی بالاتفاق کفر ہے. اگر وعدہ پورا فرمایا تو یہ نفس الامر یعنی خارج (external phenomena) میں پائے جانے والے حقائق کے خلاف ہے. حضرت علی رض سے پہلے کے خلفائے ثلاثہ کی خلافت صحیح تهی یا ( معاذاللہ) صحیح نہیں تهی دونوں صورتوں میں حضرت علی رض کو خلیفہ بلافصل نہیں کہا جاسکتا.

 پس ایسا کوئی وعدہ اللہ تعالی نے حضرت علی رض سے فرمایا ہی نہیں تها. لہذا اس کے حق میں لائے جانے والے تمام نام نہاد دلائل بهی ازخود کالعدم ہوجاتے ہیں. پس آیت استخلاف کا خاص الخاص موعودلهم پہلے چاروں خلفاء اور عام موعودلهم نزول آیت کے وقت کےسبهی صحابہ کرام ہیں. یہاں یہ ملحوظ رہے کہ حضرت معاویہ رض کو بعض اہل علم کی تحقیق کے مطابق مہاجرین میں شمار کیا جائے اور آیت استخلاف کے نزول کو آخری زمانے کا نزول قرار دیا جائے جن کی وجہ سے مہاجرین و انصار اور مولفتہ القلوب سبهی صحابہ کرام اس آیت کا موعودلهم ہوجائیں تو اس سے بهی کوئی فرق نہیں پڑتا .کیونکہ خلفاءاربعہ کی امتیازی حیثیت پهر بهی متاثر نہیں ہوتی. اسے ہم ان شاءاللہ ان مباحث میں آئندہ مناسب مقام پر واضح کریں گے.

قرآن و سنت میں مضمون کسی وعدہ( بشارت) کا ہو یا وعید کا ہو وہ دو طرح کا ہوتا ہے. ہم یہاں پہلے بشارت کے مضامین کو لیتے ہیں.

 1.بشارت کسی خاص فرد یا جماعت کے لئے ہوگی یا بلاتخصیص پوری امت کے لئے ہوگی. جس بشارت میں کسی فرد یا جماعت کے لئے تخصیص پائی جائے تو اس کا خارج میں ظہور یقینی ہے اور اس میں لوگ اپنی طرف سے کسی طرح کی شرائط عائد کرنے کے ہرگز مجاز نہیں ہوسکتے ورنہ مخصوص و متعین فرد یا افراد کے لئے اس بشارت کا فائدہ ہی کیا ہوا؟ مثلا سورہ الانفال میں دور نبوی کے مہاجرین و انصار کی تخصیص فرماتے ہوئے اللہ تعالی کا ارشاد ہے…والذین آمنوا و هاجروا و جاهدوا فی سبیل اللہ والذین اووا و نصروا اولئک هم المومنون حقا لهم مغفره ورزق کریم۔ ترجمہ : ” اور جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راه میں جہاد کیا اورجن لوگوں نے انہیں جگہ دی اور مدد کی یہی وہ سچے مومن ہیں.ان کے لئے مغفرت اور باعزت رزق ہے” ( الانفال 74)

اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ بشرطیکہ یہ مہاجرین و انصار آخر دم تک ایمان و اعمال صالحہ پر قائم رہے ہوں وغیرہ وغیرہ تو اس کا یہ ملعون قول یقینا فاسد و مردود ہے کیونکہ اگر ان حضرات نے متعلقہ شرائط پوری نہ کی ہوتیں یا وہ مستقبل میں ان کو پورا کرنے والے نہ ہوتے تو علیم و خبیر اللہ تعالی انہیں مخصوص کرکے ایمان کامل ، مغفرت اور باعزت رزق کی بشارت ہی کیوں دیتا؟ چنانچہ قبلہ اول بیت المقدس کی طرف منہ کرکے کوئی ڈیڑهہ سال تک نمازیں ادا کرنے والے مہاجرین و انصار کو اللہ تعالی نے یہ بشارت سنائی..وما کان اللہ لیضیع ایمانکم ان اللہ بالناس لرووف رحیم۔” اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ تمہارے ایمان کو ضائع کرے، بےشک اللہ لوگوں پر بڑا ہی مشفق و مہربان ہے”( البقرہ143)

پس یہ شیطانی وسوسہ اللہ تعالی نے دور فرمادیا کہ شائد ان مہاجرین و انصار میں سے کچهہ لوگ بعد میں مرتد ہوگئے ہوں. اللہ تعالی نے ان حضرات کو ان کے ایمان کی بقا اور ارتداد سے محفوظ رہنے کی بشارت بهی سنا دی. یہاں اگر ایمان سے مراد نماز لی جائے تو بهی بشارت اس لئے متاثر نہیں ہوتی کہ مرتد کی تو تمام نیکیاں برباد ہو جاتی ہیں. کسی کے نیک عمل کے اجر کی بقا کی ضمانت اس کے ایمان کی بقا کو بهی یقینا مستلزم ہے. منافق کا ایمان سرے سے ہوتا ہی نہیں لہذا اس بشارت سے ازخود خارج ہوگئے. نیز اللہ تعالی نے خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن کریم میں دو مرتبہ فرمایا ہے..یا ایها النبی جاهد الکفار والمنافقین واغلظ علیهم و ماواهم جهنم و بئس المصیر ۔ ترجمہ :” ائے نبی تو کافروں اور منافقوں کے ساتهہ جہاد کر اور ان پر سختی بهی کر اور ان کا ٹهکانا جہنم ہے اور وہ برا ٹهکانہ ہے”( التوبہ73،التحریم9)

پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جن اصحاب سے تا دم آخر بہترین معاشرتی تعلقات برقرار رکهے، جن سے رشتے ناطے قائم کرکے ان سے صہری روابط استوار فرمائے وہ ہرگز منافق نہیں ہوسکتے . آپ نے فتح مکہ کے بعد حنین و ہوازن کے غنائم نہایت فراخدلی سے مولفتہ القلوب میں تقسیم فرمائے، دیگر حضرات کے علاوہ مشہور روایات کے مطابق حضرت ابوسفیان رض اور ان کے دونوں صاحبزادوں حضرت معاویہ اور حضرت یزید ( رضی اللہ عنهما) کو بهی سو سو اونٹ اور ہر ایک کو تقریبا چهہ چهہ کلو چاندی عنایت فرمائی، حالانکہ ان اموال غنیمت کے بظاہر اصل مستحق مہاجرین کو بہت کم اور انصار کو تو ایک دانہ بهی نہیں دیا گیا. بعض اہل علم کی تحقیق کے مطابق بالفرض حضرت ابوسفیان اور حضرت معاویہ( رضی اللہ عنهما) مولفتہ القلوب کی بجائے مہاجرین میں شامل ہوں تو اس بات سے کوئی بهی انکار نہیں کرتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ اور اس کے بعد اس خاندان کی انتہائی عزت افزائی کی. حضرت ابوسفیان رض کے گهر کو دارالامان قرار دیا گیا اور حضرت معاویہ رض بعد میں کاتب وحی مقرر ہوئے. حضرت ابوسفیان رض کی صاحبزادی ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنها پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں تهیں. ام المومنین ام حبیبہ رض کے روحانی رشتے سے حضرت معاویہ رض تو پوری امت کے ماموں ( خال المومنین) قرار پاتے ہیں. اگر یہ سب حضرات فی الحال یا فی المستقبل اسلام میں پختہ نہ ہونے والے ہوتے یا کافر و منافق ہوتے تو اللہ تعالی ان کی تالیف قلب یا ان کی عزت افزائی کی اپنے نبی کو اجازت ہی کیوں دیتا؟ جبکہ وہ ایک مرتبہ نہیں بلکہ ازراه تاکید دو مرتبہ منافقین پر سختی کرنے کا حکم بهی دیتا ہو. پس بشمول خلفائے راشدین تمام مہاجرین و انصار اور فتح مکہ سے پہلے یا بعد میں اسلام قبول کرکے تالیف قلب کی مد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے غنائم وصول کرنے والے صحابہ کرام مرحوم و مغفور اور قطعی جنتی ہیں. چنانچہ غزوہ فتح مکہ کے ضمن میں سورہ الممتحنہ میں اللہ تعالی نے اہل ایمان کو یہ بشارت سنائی:-عسی اللہ ان یجعل بینکم و بین الذین عادیتم منهم موده، واللہ قدیر،واللہ غفوررحیم.ترجمہ . ” قریب ہے کہ اللہ تمہارے درمیان اور ان ( اہل مکہ) کے درمیان جن سے فی الحال تم دشمنی رکهتے ہو باہم دوستی پیدا کردے اور اللہ بہت قدرت رکهنے والا اور بےحد بخشنے والا نہایت مہربان ہے”( الممتحنہ7)

یعنی اہل مکہ اسلام قبول کرلیں گے. رہی یہ بات کہ سالہاسال کی دشمنی دوستی میں کیسے بدل جائیگی تو اللہ تعالی نے فرمایا، واللہ قدیر، کہ اللہ دلوں کا حال بدلنے پر قادر ہے. رہا یہ اعتراض کہ ظالموں کے گزشتہ جرائم کا کیا ہوگا؟ تو اللہ تعالی نے اسی آیت میں فرمادیا کہ “واللہ غفور رحیم، کہ اللہ بےحد بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے. اور مثلا سورہ حدید میں ہے کہ جن لوگوں نے فتح مکہ سے پہلے اللہ کی راہ میں مال خرچ کیا اور قتال کیا ان کا درجہ ان لوگوں سے بہت بلند ہے جنہوں نے فتح مکہ کے بعد مال خرچ کیا اور قتال کیا…و کلا وعد اللہ الحسنی. اور اللہ نے بهلائی کا وعدہ تو ہر ایک سے کر رکها ہے. پس سورہ الانبیآء میں ہے ؛- ان الذین سبقت لهم منا الحسنی اولئک عنها مبعدون لا یسمعون حسیسها و هم فی ما اشتهت انفسهم خالدون ۔ ترجمہ بیشک وہ لوگ جن کے لئے ہماری طرف سے بهلائی طئے ہوچکی تو وہ اس ( جهنم) سے دور رکهے جائیں گے، وہ تو اس کی آہٹ بهی نہیں سنیں گے اور وہ اس (جنت اور اس کی نعمتوں) میں جیسے ان کے دل چاہیں گے ہمیشہ رہنے والے ہوں گے”( الانبیاء101، 102).”

اب اگر کوئی یہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منافقین پر سختی کرنے کا حکم تو تها لیکن آپ منافقین کو پوری طرح جانتے نہیں تهے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ منافقین کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو نہ ہوسکا، بعد والوں کو کس شیطانی وحی سے ان کا علم ہوا؟ نیز اس صورت میں اللہ تعالی پر الزام عائد ہوتا ہے کہ اپنے نبی کو یہ تو بتایا ہی نہیں کہ منافقین کون ہیں؟ لیکن ان پر سختی کرنے کا حکم آپ کو دو مرتبہ دے ڈالا. اگر کہا جائے کہ آپ کو منافقین کا علم تو تها لیکن آپ ان پر سختی کرنے کی طاقت نہیں رکهتے تهے یا آپ کو منافقین پر سختی کرنے کی ضرورت پیش ہی نہیں آئی تهی، تو بهی اللہ تعالی پر الزام آئے گا کہ اسے معلوم بهی تها کہ میرا نبی منافقین پر سختی کرنے سے معذور ہے پهر بهی سختی کرنے کا حکم ایک دفعہ نہیں بلکہ دو دفعہ دے ڈالا. یا اللہ تعالی کو معلوم بهی تها کہ میرے نبی کو منافقین پر سختی کرنیکی ضرورت ہی پیش نہیں آئیگی پهر بهی سختی کرنے کا دو مرتبہ ( معاذاللہ ثم معاذاللہ) عبث حکم دے ڈالا. اگر یہ انتہائی مضحکہ خیز تاویل کی جائے کہ متعلقہ آیت کا ترجمہ یہ ہے ” اے نبی تو منافقین کو ساتهہ لیکر کفار کے ساتهہ جہاد کر اور ان پر سختی کر” یعنی آیت میں یہاں منافقین کا لفظ مفعول معه اور واو معیت کے لئے آئی ہے تو یہ لغو تاویل اس لئے مردود ہے کہ مثلا غزوات احد،احزاب اور تبوک جیسی آزمائشوں میں منافقین کے گهناونے کردار اور ان کی بزدلی کو اللہ تعالی نے سورہ آل عمران، سورہ احزاب اور سورہ توبہ میں خوب خوب نمایاں کیا ہے. منافق تو اپنے کفر کو چهپانے کی وجہ سے مارآستین ہے وہ اپنے کافر بهائیوں کے خلاف مسلمانوں کا ساتهہ کیسے دے سکتا ہے؟

الغرض ہر طرح کی تاویلات فاسدہ یہاں مردود ہیں. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب موقع منافقین پر خوب سختی فرمائی. مثلا غزوہ تبوک کے واپسی کے سفر میں مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے آپ نے سریہ روانہ فرماکر منافقین کی تعمیر کردہ مسجدضرار کو مسمار کرایا. اگر فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کرنے والے زود یا بدیر اسلام میں پختہ ہونے والے نہ ہوتے تو ان پر سختی کا آپ کے پاس بہترین موقع تها. آپ انہیں قتل کرتے یا قیدی بناتے نہ کہ ان کے گهر اموال غنیمت سے بهر دیتے. جب سبهی صحابہ کرام مہاجرین و انصار اور مولفتہ القلوب اہل مکہ کا قطعی جنتی ہونا اور مرحوم و مغفور ہونا علی وجہ الکمال ثابت ہوگیا تو یہ کہنا کس قدر لغو اور اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے کہ یہ قرآنی بشارتیں تو فلاں فلاں شرط کے ساتهہ مشروط تهیں، بعد میں یہ شرائط ( معاذاللہ) ان میں نہیں پائی گئیں لہذا یہ کالعدم ہو گئیں. اگر ایسا ہوتا تو علیم و خبیر ، سمیع بصیر ، علی کل شئ قدیر رب جلیل کو یہ بشارتیں سنانے کے تکلف کی آخر ضرورت ہی کیا تهی؟

2.بشارتوں کی دوسری قسم یہ ہے کہ ان میں کسی خاص فرد یا افراد کو ملحوظ نہ رکها گیا ہو بلکہ مضمون عام ہو۔ مثلا سورہ الکهف میں ہے…ان الذین آمنوا و عملواالصلحت کانت لهم جنت الفردوس نزلا۔ ترجمہ “بےشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ان کے لئے فردوس کے باغات مہمانی ہوں گے ” ( الکهف107) یہ بشارت پوری امت کے مومنین صالحین کے لئے عام ہے. کسی فرد یا افراد کے ساتهہ مخصوص نہیں ہے. علیم و خبیر اللہ تعالی کو تو خوب معلوم ہے کہ کتنے اور کون سے لوگ اس بشارت کا مصداق ٹهہریں گے لیکن مخلوق کو اس کا علم نہیں. لہذا یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ فلاں خاص فرد یا خاص جماعت سے اس بشارت کا وعدہ ہے. پس کسی بشارت کے خاص موعودلهم حضرات اور اس بشارت کے عام مصداق لوگوں میں لطیف فرق کو بهی ملحوظ رکهنا چاہئیے. وجہ ظاہر ہے کہ موعودلهم لوگ وہی ہوسکتے ہیں جو متعین اور مخصوص ہوں اور نہ صرف انہیں بلکہ اکثر و بیشتر دوسرے لوگوں کو بهی علم ہوتا ہے کہ انہیں متعین کرکے بشارت دی گئی ہے. لہذا جو بشارت عام ہو اور اس کا مصداق کسی کو متعین کرکے نہ ٹهہرایا گیا ہو تو یہ کہنا کیسے درست ہوگا کہ اس بشارت کا وعدہ فلاں فلاں شخص یا فلاں فلاں جماعت اور گروہ سے ہے ، نیز جن بشارتوں کا مضمون عام ہو ان میں متعلقہ شرائط کو بهی ملحوظ رکهنا ہوگا، مثلا ماں کی خدمت کرنے والوں کے لئے عام بشارت ہے کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے ، تو اس طرح کی بشارتوں میں ایمان اور دیگر اعمال صالحہ کی شرط کو بهی ملحوظ رکهنا ہوگا. یہ نہیں کہ غیرمسلم یا مثلا باپ کا قاتل بهی اس بشارت کا مصداق ہوگا..

اب آیت استخلاف پر پهر غور کیجئیے کہ اس میں کلمہ ” منکم ” لاکر اللہ تعالی نے اسے صرف اور صرف ان مومنین صالحین کے لئے مختص کردیا ہے جو نزول آیت کے وقت ایمان اور اعمال صالحہ کی نعمت سے بہرہ مند تهے. چونکہ آیت استخلاف والی نعمتوں کی علت ایمان اور اعمال صالحہ ہے لہذا دور نبوی کے بعد بهی جن لوگوں میں یہ علت پائی جائیگی اور علت سے معلول کے ظاہر ہونیکی متعلقہ شرائط بهی موجود ہوں گی تو یہ موعودہ بہا نعمتیں انہیں بهی حاصل ہوں گی اور وہ بهی آیت استخلاف کا مصداق تو ضرور ٹهریں گے لیکن انہیں اس آیت کا موعودلهم نہیں کہا جائیگا. پس جن حضرات نے آیت استخلاف کو صرف دور نبوی تک محدود رکها انہوں نے اس میں کلمہ منکم کی وجہ سے تخصیص کے پیش نظر ایسا کیا اور جنہوں نے العبره للعموم لا لخصوص المورد کے تحت بشارت کے عموم کو پیش نظر رکها انہوں نے اسے بعد کے ادوار کے لوگوں کے لئے بهی عام رکها نہ یہ کہ انہوں نے بعد کے کسی خاص فرد یا افراد کو اس کا حتمی موعودلهم ٹهرایا، بالفاظ دیگر کسی بشارت کے موعودلهم لوگ لازما اس بشارت کا مصداق بهی ہوں گے لیکن اشتراک علت کی بنا پر بشارت کا مضمون غیر موعودلهم لوگوں پر بهی صادق آئے تو ظاہر ہے کہ وہ بشارت کا مصداق ہونے کے باوجود اس کا موعودلهم نہیں کہلائیں گے. یوں تفسیری اقوال میں اختلاف دراصل حقیقی نہیں بلکہ اعتباری ہونیکی بنا پر محض ظاہری و صوری ہے.

یہی حال وعیدی مضامین کا بهی ہے. جب وعید کسی خاص فرد یا افراد کے لئے ہو تو اس میں بهی لوگوں کے لئے یہ گنجائش نہیں کہ وہ اپنی طرف سے شرائط عائد کریں ، مثلا سورہ لهب میں ابولهب کو جو تباہی کی وعید سنائی گئی ہے تو یہ کہنا درست نہیں کہ بشرطیکہ ابولهب توبہ نہ کرے وغیرہ..کیونکہ ابولهب کی قسمت میں توبہ کرنا اور اسلام قبول کرنا ہوتا تو علیم و خبیر اللہ تعالی اسے مخصوص کرکے وعید ہی کیوں سناتا؟ اس کے برعکس جو وعیدیں عام ہیں ان میں حسب تقاضا شرائط ملحوظ ہوں گی ، مثلا متعلقہ لوگوں نے اپنے گناہوں سے توبہ نہ کی ہو یا کسی بهی وجہ سے اللہ تعالی نے انہیں معاف نہ فرمایا ہو تو یہ وعیدیں موثر ہوں گی ورنہ نہیں. یہ تو بات ہوئی وعدہ اور وعید کے مضامین کی اب ہم خاص القاب اور اصطلاحات کی طرف آتے ہیں، مثلا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ کلیم اللہ صرف اور صرف حضرت موسی علیہ السلام کا لقب ہے، چونکہ امت کا طبقاتی تواتر اس کی پشت پر ہے لیکن یہ کہنا ہرگز درست نہیں کہ دیگر انبیاء علیهم السلام لغوی معنی کے اعتبار سے بهی(معاذاللہ ثم معاذاللہ) کلیم اللہ نہیں. اللہ تعالی کی طرف سے ملفوظی وحی یقینا اللہ کا کلام ہے اور اس وحی کو پانے والا ہر نبی یقینا کلیم اللہ بهی ہے. چنانچہ سورہ الشوری میں ہے..وماکان لبشر ان یکلمه اللہ الا وحیا او من ورائ حجاب او یرسل رسولا فیوحی باذنه ما یشآء ۔ ترجمہ .” پس کسی بشر کے لئے ممکن نہیں کہ اللہ سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعے یا پردے کے پیچهے سے یا یہ کہ وہ ( فرشتے کو بطور) پیغام رساں بهیجے پهر وہ (نبی پر) اپنے حکم سے جو چاہے وحی کرے”( الشوری 51).

اس آیت میں اللہ تعالی نے سبهی انبیاء کرام کو کلیم اللہ قرار دیا ہے. اسی طرح یہ کہنا بهی بالکل درست ہے کہ امت کے طبقاتی تواتر کی رو سے خلفائے راشدین صرف اور صرف پہلے چار خلفاء ہیں لیکن یہ کہنا ہرگز درست نہیں کہ بعد کے دیگر نیک خلفاء مثلا سیدنا حضرت معاویہ رض لغوی معنی کے اعتبار سے بهی خلیفہ راشد نہیں. اللہ تعالی نے تو سبهی صحابہ کرام کو راشدون قرار دیا ہے (الحجرات7) تاہم چونکہ خلافت راشدہ کی اصطلاح خلفاء اربعہ کے لئے باجماع اہل حق مخصوص ہے لہذا ازراہ امتیاز سیدنا معاویہ رض کی خلافت کو خلافت عادلہ کہا جائے یا خلفاء اربعہ کی خلافت راشدہ کو خاصہ اور حضرت معاویہ کی خلافت راشدہ کو عامہ کہا جائے تو بالکل درست ہے. چونکہ راشدہ کے ساتهہ خاصہ یا عامہ کے لاحقہ سے کلام میں طول پیدا ہوتا ہے لہذا اختصار کے پیش نظر خلفاء اربعہ کی خلافت کو راشدہ اور سیدنا معاویہ رض کی خلافت کو عادلہ کہا جاتا ہے. پس جس طرح مبہم انداز میں یہ کہنا کہ کلیم اللہ صرف موسی علیہ السلام ہیں درست نہیں کیونکہ سبهی انبیاء کرام کلیم اللہ ہیں اسی طرح مبہم انداز میں یہ کہنا بهی درست نہیں کہ خلفائے راشدین صرف پہلے چاروں خلیفہ ہیں، کیونکہ بعد کے نیک خلفاء بهی راشدین ہیں بلکہ یہ کہنا چاہئیے کہ امت کے طبقاتی تواتر نے کلیم اللہ کے لقب یا اصطلاح کو حضرت موسی علیہ السلام کے ساتهہ اور خلافت راشدہ کی اصطلاح کو پہلے چاروں خلفاء کے ساتهہ مخصوص کردیا. اصطلاحی تخصیص سے دوسروں سے متعلقہ وصف کی لغوی اعتبار سے نفی نہیں ہوجاتی.

صحابہ کرام رض میں صدیق کا لقب حضرت ابوبکرصدیق کے لئے مخصوص ہے ، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی اور صحابی صدیقیت کے مقام اور مرتبے کو کبهی پہنچا ہی نہیں. فتدبر و تشکر. اور ساتهہ یہ بهی یاد رہے کہ کسی کی بهی فضیلت من حیث الکل لی جاتی ہے. کیونکہ مفضول اپنی بعض جزئی فضیلتوں کی بنا پر بظاہر افضل سے بڑها ہوا نظر آتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے.مثلا سیف اللہ حضرت خالد بن ولید رض کی عسکری خدمات اور شاندار فتوحات کی جزئی فضیلت کو دیکها جائے تو مثلا حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ میں تو اس فضیلت کا عشرعشیر بهی نہیں پایا جاتا لیکن حضرت خالد بن ولید نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کو ایک مرتبہ کچهہ برا بهلا کہا تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے اصحاب کو برا نہ کہو. تم میں سے اگر کوئی احد پہاڑ کے برابر بهی سونا خرچ کرڈالے تو میرے صحابہ کی خرچ کی ہوئی مد بهر (یعنی تهوڑی سی) گندم یا جو کے برابر کو بلکہ اس کے نصف کو بهی نہیں پہنچ پائے گا.( جمع الفوائد جلد دوم حدیث رقم 8547 للشیخین وابی داوود و الترمذی)

بار بار غور کیجئیے کہ یہاں حدیث میں مخاطب حضرت خالد بن ولید ہیں جو خود بهی تو صحابی ہیں لیکن آپ انہیں فرمارہے ہیں کہ عبدالرحمن بن عوف رض جیسے میرے صحابہ کو برا نہ کہو. وجہ یہ معلوم ہورہی ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رض سابقون اولون اور عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں.. حضرت خالد بن ولید کی بےمثال شجاعت اور ان کی بےنظیر فتوحات حضرت عبدالرحمن بن عوف رض پر محض جزئی فضیلت رکهتی ہیں جو حضرت عبدالرحمن بن عوف کی جلالت قدر کو ہرگز متاثر نہیں کرتیں جیسے حضرت داوود اور حضرت سلیمان( علیهماالسلام) کی حکومت کا استحکام حضرت موسی علیہ السلام کے مقام کو کم نہیں کرتا اسی طرح خالد بن ولید ہوں یا حضرت معاویہ( رضی اللہ عنهما) ان کے جزئی فضائل عشرہ مبشرہ میں شامل صحابہ کرام کے مقام و مرتبہ کو ہرگز کم نہیں کرتے اور کیونکہ خطائے اجتہادی کبهی مفضول کی بجائے افضل سے بهی ہوجاتی ہے ، پس حضرت معاویہ رض کے حق میں افراط سے جس طرح حضرت علی رض کے حق میں تفریط درست نہیں اسی طرح حضرت علی رض کے فضائل و مناقب کے پیش نظر کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہوجاتا کہ وہ حضرت معاویہ رض کے حق میں تفریط سے کام لے. فرق مراتب کو ملحوظ نہ رکهنا جہاں پسندیدہ نہیں تو فرق مراتب کی آڑ میں کسی صحابی رسول کے حق میں تفریط بهی ہرگز قابل قبول نہیں ہونی چاہئیے..

تحریر پروفیسر ظفر احمد