بحث بحوالہ خلافت و امارت
خلیفہ، حاکم یا امام ( جو کچھ بھی کہہ لیں ) اگر وہ از خود لوگوں پر مسلط نہ ہو تو وہ یا تو منصوص من اللہ یعنی اللہ تعالی کی طرف سے نامزد اور متعین (nomineee ) ہوگا یا متعلقہ ارباب حل و عقد کے ذریعہ منتخب ( Electee ) ہوگا۔
پہلی شق اختیار کی جائے تو چونکہ شریعت محمدیہ قیامت تک کے لئے نافذ ہے لہذا آج بھی کوئی منصوص من اللہ امام ہونا چاہئیے تاکہ سب متفقہ طور پر اس کی رہنمائی قبول کرسکیں اور قیل و قال کے تمام دروازے بند ہوجائیں۔ اگر ایسا کوئی امام یا حاکم موجود ہے تو اس کی نشان دہی ہونی چاہئیے اور اس کے منصوص من اللہ ہونے پر قطعی اور یقینی دلائل بھی موجود ہونے چاہئیں۔ اگر ایسا امام بالفرض غیب ہے تو اس کی غیبت یعنی غیب ہونے کے زمانے میں جو لوگ بھی امور سلطنت سنبھالیں گے وہ یا تو معصوم ہوں گے یا غیرمعصوم ہوں گے۔ اگر انہیں معصوم عن الخطاء قرار دیا جائے تو معصومین بارہ یا چودہ نہیں رہیں گے بلکہ لاتعداد اور بےشمار ہوں گے۔ اگر انہیں غیرمعصوم سمجھا جائے تو کیا حاکم اعلی کو معصوم ہونا چاہئیے یا غیرمعصوم؟ اگر معصوم ہونا چاہئیے تو کسی بھی صورت میں ان غیرمعصوم حکمرانوں کی حکومت کو حق بجانب قرار نہیں دیاجاسکتا جبکہ ہمارے امامیہ بھائی یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ اللہ پر عدل واجب ہے ۔یہاں اللہ تعالی پر (معاذاللہ) یہ الزام آئے گا کہ اس نے امام یا حاکم کے منصوص من اللہ اور معصوم عن الخطاء کا اصول تو ہمیں دے دیا لیکن امام کو غائب کرکے ہمیں اس اصول کی برکات سے ناحق محروم کردیا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اولین مخاطب عرب تھے۔ قرآن ان کی مادری زبان میں نازل ہوا ۔ وہ کم و بیش ۲۳ سالوں تک آپ سے تعلیم و تربیت بھی پاتے رہے ۔ ایسے لوگوں کا امام تو ظاہر و باہر ہو اور بعد کے لوگوں کے لئے غائب ہوجائے جبکہ بظاہر انہیں اس کی شدید ضرورت بھی ہو،تو یہ کیسا عدل ہے؟؟اگر دوسری شق اختیار کی جائے کہ حضرات انبیاء علیھم السلام کے بعد نہ تو کسی کا معصوم ہونا ثابت ہے اور نہ اس کی ضروت ہے تو کوئی لاینحل اشکال پیدا نہیں ہوتا۔ پس خلفائے راشدین میں سے کسی کو معصوم اور کسی کو غیرمعصوم قرار دے کر ان میں تفریق پیدا کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ وہ سب برحق اور باہم شیروشکر تھے۔
جن امور میں صحیح یا غلط ، حق یا باطل ہونے کا یقینی و قطعی فیصلہ قرآن و سنت سے ہوجائے تو ایسے امور میں کسی معصوم عن الخطاء کی ضرورت ہی نہ رہی۔ مثلا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت یقینا برحق اور اس کا انکار یقینا باطل ہے۔ توحید یقینا حق ہے اور شرک یقینا باطل ہے۔ نماز،روزہ،حج اور زکوة یقینا حق ہیں اور ان کا سرے سے انکار یقینا غلط اور باطل ہے۔ جن امور میں صحیح و غلط، اولی اور خلاف اولی، راجح و مرجوح، افضل و مفضول کا یقینی و قطعی فیصلہ ممکن نہ ہو تو ایسے امور کے لئے اللہ تعالی نے قرآن کریم میں غور و تدبر کا باربار حکم دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب مجتہدین قرآن میں غور و فکر کرکے ان مسائل کو اخذ کریں گے تو ان سے خطا کا صدور بھی عین ممکن ہے۔ اللہ تعالی نے سورہ بقرہ کے آخری رکوع میں ہمیں یہ دعا سکھادی کہ “اے ہمارے رب ! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کرجائیں تو ہم سے مواخذہ نہ فرمانا” ناممکن ہے کہ اللہ تعالی خود ہی یہ دعا سکھائے، پھر مجتہدین اور ان کے مقلدین کی خطا و نسیان کو معاف کرنے کی بجائے الٹا ان کا مواخذہ فرمائے۔ پس خطائےاجتہادی چوں کہ معاف ہے لہذا کسی امام معصوم کی ضرورت یہاں بھی نہ رہی ورنہ قرآن کریم میں غور و تدبر کی ضرورت ہی کیا تھی ، سیدھا امام معصوم سے رابطہ کرلیا جاتا اور سرے سے خطا کا کوئی امکان ہی باقی نہ رہتا۔ اس صورت میں قرآن میں غور و تدبر کا حکم اور خطا و نسیان پر عدم مواخذہ کی دعا کی تعلیم دونوں (معاذاللہ) بےکار ٹھہرتے ہیں۔ اللہ کا کلام عیب سے پاک ہے۔
معصوم عن الخطاء ہونا عقلا بھی رسول اور نبی کے لئے ضروری ہے کیوں کہ وحی کے حصول کے تجربے میں رسول اور نبی کا شریک کوئی دوسرا شخص نہیں ہوتا۔ اگر وحی کے اخذ کرنے میں اور اس کی تشریح و تبیین میں وہ غلطی کرے گا تو اس کی اصلاح کون کرے گا؟ امت کے افراد میں کسی معلم،مربی،مصلح،حاکم یا امام کا معصوم عن الخطاء ہونا اس لئے ضروری نہیں کہ دین کے معاملے میں اگر ایک غلطی کرے گا تو دوسرا اس کی اصلاح کردے گا، دوسرا غلطی کرے گا تو کوئی تیسرا اس کی اصلاح کردے گا۔ پوری امت تو غلطی پر جمع ہونے سے رہی۔ امت کی اجتماعی رائے کا غلطی سے مبرا ہونا قرآن و سنت دونوں سے ثابت ہے۔ اگر فردا فردا ہر معلم و مربی کا معصوم ہونا ضروری ہوتا تو سب سے پہلے بچے کے والدین کا معصوم ہونا ضروری ہے کیونکہ بچہ سب سے پہلے اپنے والدین سے ہی تربیت حاصل کرتا ہے اس کے بعد سکول ، مدرسہ ، کالج ، جامعہ ، یونیورسٹی وغیرہ کے تمام اساتذہ کو بھی معصوم ہونا چاہئیے۔ نماز سب سے بڑی عبادت ہے ، نماز پڑھانے والے ائمہ کو بھی معصوم ہونا چاہئیے۔ ہر منصف ، قاضی اور قاضی القضاة ( چیف جسٹس) کو بھی معصوم ہونا چاہئیے۔ ہر چھوٹے بڑے حاکم کو بھی معصوم ہونا چاہئیے۔ اگر بالفرض حاکم اعلی معصوم عن الخطاء ہو تو اس کے ماتحت حکام کو بھی معصوم ہونا چاہئیے کیونکہ ہر ہر معاملے اور ہر ہر جزئی میں ماتحت حکام اور نائبین کا حاکم اعلی سے ہمہ وقتی اور ہمہ جہتی رابطہ عملا ممکن ہی نہیں خصوصا جبکہ ایسا امام یا حاکم اعلی کسی غار وغیرہ میں مبینہ طور پر غیبت کبری کی حالت میں ہو۔ اگر یہ نام نہاد نائبین معصوم عن الخطاء ہیں تو معصومین کی تعداد محدود نہ رہے گی بلکہ یہ لاتعداد ہوں گے۔ اگر یہ غیرمعصوم ہیں تو بات جہاں سے چلی تھی وہیں کی وہیں رہ گئی۔
اوپر مذکور ہوچکا کہ ساری امت غلطی پر جمع نہیں ہوسکتی چنانچہ قرآن کریم میں ہے :- ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الھدی و یتبع غیر سبیل المومنین نولہ ما تولی و نصلہ جھنم و سآءت مصیرا۔ ” اور جو شخص رسول کی مخالفت کرے بعد اس کے کہ ہدایت اس پر واضح ہوچکی ( اب وہ خود غور کرکے اسے نہ پہچانے یا پہچاننے کے باوجود انکار کرے) اور مومنین کے راستے کے علاوہ کسی اور راستے کی پیروی کرے تو ہم اس کا رخ ادہر ہی کردیں گے جدھر اس نے خود رخ پھیر لیا ہے۔ اور ہم اسے جھنم میں داخل کریں گے اور ( جھنم ) برا ٹھکانا ہے” ۔ دیکھیے یہاں بظاہر یہ کہنا ہی کافی تھا کہ جو رسول کی مخالفت کرے وہ جھنم رسید ہوگا ۔ درمیان میں مومنین کی راہ کی اتباع کا ذکر معنی خیز ہے ۔ نزول آیت کے موقع پر مومنین صرف اور صرف اصحاب رسول ہی تو تھے۔ ان کے اجماعی طریقے کو ترک کرنے والا رسول کی فرمانبرداری کا دعوی کرے تو اس کا دعوی جھوٹا ہوگا۔ چونکہ بعد کے ادوار کے مومنین کا اجماع بھی دین میں حجت ہے لہذا آیت میں المومنین کی بجائے اصحاب الرسول وغیرہ کے الفاظ نہیں لائے گئے۔ لیکن یہ تو معلوم ہی ہے کہ نزول آیت کے موقع پر صرف اصحاب رسول ہی مومنین تھے۔ پس ان کا اجماع دین میں زبردست حجت ہے ورنہ ان کے راستے کی پیروی نہ کرنے والوں کو جھنم وغیرہ کی وعید نہ سنائی جاتی اور فروعی و اجتھادی مسائل میں بھی صحابہ کرام کے دائرے سے نکل جانا گمراہی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ بعد کے ادوار کے بھی وہی مومنین حق پر ہوں گے جو صحابہ کرام کے راستے پر ہوں گے۔
پس جب ثابت ہوگیا کہ حاکم اعلی منصوص من اللہ اور معصوم عن الخطاء نہیں ہوگا تو دوسری شق خود بخود ثابت ہوگئی کہ ارباب حل و عقد اس کا انتخاب کریں گے۔ ورنہ اگر صحابہ کرام رض کو اپنے حاکم اعلی یا خلیفہ کے انتخاب کا حق نہیں تھا تو بعد کے لوگوں کو یہ حق کہاں سے حاصل ہوگیا کہ وہ ووٹ وغیرہ کے ذریعہ اپنی رائے کا اظہار کرکے حاکم اعلی کا براہ راست یا بالواسطہ انتخاب کریں۔ قیامت کے دن اگر اللہ تعالی نے پوچھ لیا کہ میرے رسول سے سالہاسال تک تعلیم و تربیت پانے والے اصحاب رسول تو تمہارے خیال میں اپنے حاکم کے انتخاب کے مجاز نہیں تھے تو تم دین سے کماحقہ باخبر نہ ہونے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بابرکت صحبت سے مکمل طور پر محروم ہونے کے باوجود ایسے لائق اور قابل کیسے ہوگئے تھے کہ اپنے حاکم کو منتخب کرتے پھرو؟؟ اس سوال کے جواب کے لئے ابھی سے فکرمند ہونے کی ضرورت ہے۔
بحث بحوالہ آیت استخلاف:
سورہ نور میں ہے : وعد اللہ الذین آمنوا منکم و عملواالصالحات لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم ولیمکنن لھم دینھم الذی ارتضی لھم ولیبدلنھم من بعد خوفھم امنا یعبدوننی لا یشرکون بی شیئا ومن کفر بعد ذالک فاولئک ھم الفسقون۔ ” اللہ نے تم ( لوگوں میں سے ) ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں سے وعدہ کرلیا ہے کہ وہ انہیں ضرور بالضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے ۔ اور ضرور بالضرور ان کے لئے ان کے دین کو غالب کرے گا جو اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے۔ اور ضرور بالضرور ان کے ( موجودہ ) خوف کو امن سے بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کرتے ہیں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے۔ اور جو شخص اس کے بعد کفر کرے ( یا ناشکری کرے) تو یہی وہ لوگ ہیں جو فاسق ہیں”۔
اس آیت استخلاف میں خاص صحابہ کرام ( رضی اللہ عنھم) ہی کو مخاطب کیا گیا ہے جیسا کہ لفظ ” منکم” سے واضح ہے۔ ورنہ اگر صحابہ کرام کو اس آیت کے مصداق سے خارج کرکے صرف بعد کے لوگوں یا کسی بھی شخص مثلا امام مہدی وغیرہ کو اس کا مصداق ٹھہرایا جائے تو آیت میں “منکم” کا اضافہ ( معاذاللہ) قطعا بےکار ہوگا کیونکہ اس کے بغیر بھی مزعومہ مفہوم پوری طرح سمجھ میں آسکتا تھا حالانکہ اللہ کا کلام ہر عیب سے پاک ہے ۔ فی الارض کے کلمات سے معلوم ہوا کہ یہاں صرف روحانی خلافت ہی نہیں بلکہ ارضی خلافت بھی مراد ہے۔ اگر مذکورہ آیت کا مصداق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیوی حیات طیبہ کے آخری دور ہی کو قرار دیا جائے اور ساتھ ہی اس قسم کے مفروضے بھی قائم کئے جائیں کہ آپ کسی کے لئے پروانہ خلافت لکھوانا چاہتے تھے لیکن کچھ لوگوں نے ایسا نہ کرنے دیا، آپ آخری ایام میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما کا لشکر روانہ فرمانا چاہتے تھے لیکن کچھ لوگوں نے ایسا نہ ہونے دیا اور آپ کی رحلت کے بعد تو (معاذاللہ) ظالم و غاصب ایسے برسراقتدار آگئے کہ اہل حق مبینہ طور پر تقیہ و کتمان کے پابند ہوکر رہ گئے تو کون عقلمند یہ کہے گا کہ آیت میں شدومد سے دی گئی غلبہ دین اور خوف کے امن میں بدل جانے کی بشارات واقعی پوری ہوگئی تھیں اور یہ کہ یہ بشارات صرف سال یا ڈیڑھ سال کی مختصر مدت ہی کے لئے تھیں۔ پس ثابت ہوا کہ اس کا مصداق خلفائے راشدین ہیں۔ جس نعمت سے سب کو فائدہ پہنچے تو اس کی نسبت سب لوگوں کی طرف لسانی محاورات میں کردی جاتی ہے۔ چنانچہ جید امامیہ علماء مثلا علامہ محمد حسین طباطبائی نے بھی اپنی تفسیر ‘المیزان فی القرآن’ میں سورہ نور کی مذکورہ آیت استخلاف کا مصداق صاف اور صریح الفاظ میں خلفائے راشدین ہی کو ٹھہرایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:- انھا ( آیة الاستخلاف) واردة فی اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم وانجزاللہ وعدہ لھم باستخلافھم فی الارض و تمکین دینھم و تبدیل خوفھم امنا بما اعز الاسلام بعد رحلة النبی فی ایام الخلفآء الراشدین والمراد باستخلافھم استخلاف الخلفاء الاربعة بعد النبی صلی الله علیہ وسلم او الثلاثة الاول منھم و نسبة الاستخلاف الی جمیعھم مع اختصاصہ بعضھم و ھم الاربعة او الثلاثة من قبیل امر البعض الی الکل کقولھم قتل بنو فلان۔۔۔” یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے بارے میں نازل ہوئی۔ اللہ تعالی نے ان کے حق میں اپنا وعدہ یوں پورا فرمایا کہ انہیں زمین کی خلافت دی۔ ان کے دین کو استحکام بخشا اور ان کے خوف کو امن سے بدل دیا اس لئے کہ اس نے اسلام کو عزت بخشی۔ یہ سب کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد خلفائے راشدین کے دور میں ہوا۔ استخلاف سے مراد خلفائے اربعہ یا خلفائے ثلاثہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ بننا ہے۔ تمام (اصحاب) کی طرف خلافت کی نسبت باوجود اس کے کہ اصل خلفاء تو چار یا تین تھے ( جو آیت استخلاف کامصداق ہوئے) اس طرح ہے جیسے بعض لوگوں کے معاملے کو کل یعنی پوری جماعت کی طرف منسوب کردیا جائے جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں قوم نے قتل کیا( حالانکہ سب لوگ قتل نہیں کرتے)”۔
اسی طرح امامیہ مفسر فتح اللہ کاشانی اپنی تفسیر ‘ منھج الصادقین ‘ میں آیت استخلاف کے متعلق تحریر فرماتے ہیں :- و در اندک مدت حق تعالی بوعدہ مومناں وفا نمودہ جزائر عرب و دیار کسری و بلاد روم بدیشاں ارزانی داشت۔ ” یعنی اللہ تعالی نے مومنوں سے اپنا وعدہ تھوڑے ہی عرصے میں پورا کردیا۔ عرب کے جزائر، کسری کے علاقے اور روم کے شہر انہیں عطا فرمائے۔”
شیعہ مفسر ابو علی طبرسی اپنی تفسیر ‘ مجمع البیان ‘ میں آیت استخلاف کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:-
لیستخلفنھم والمعنی لیورثنھم ارض الکفار من العرب والعجم ۔فیجعلھم سکانھا و ملوکھا۔ ” یعنی اللہ تعالی ان کو عرب و عجم کے کفار کے علاقوں کا ضرور بالضرور وارث بنائے گا۔ پس وہ ان میں رہیں گے اور ان علاقوں کے بادشاہ ہوں گے۔ لیستخلفنھم کا یہی معنی ہے۔”
غزوہ خندق کے سلسلے میں ملا باقر مجلسی نے ‘ حیات القلوب ‘ میں لکھا ہے :-
پس فرمودہ کہ در برق اول قصر ھائے یمن را دیدم و خدا آں را بمن داد و در برق دوم قصرھائے شام را دیدم و خدا آں را بمن داد و در برق سوم قصرھائے مدائن را دیدم و ملک شاھان عجم را بمن داد پس خدا فرستادہ کہ لیظھرہ علی الدین کله ولو کرہ المشرکون۔ ” ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ) فرمایا کہ ( غزوہ خندق میں ایک چٹانی پتھر کو ضرب لگانے پر جو تین مرتبہ روشنی ہوئی تھی تو ) پہلی چمک میں میں نے یمن کے محلات دیکھے اور خدا نے وہ مجھے دے دئیے۔ دوسری روشنی میں میں نے شام کے محلات دیکھے اور خدا نے مجھے وہ دے دیے اور تیسری روشنی میں میں نے مدائن کے محلات دیکھے تو عجم کے بادشاہوں کا ملک مجھے دے دیا۔ پس خدا نے یہ آیت بھیجی : تاکہ وہ اسلام کو تمام ادیان پر غالب کردے اگرچہ مشرکوں کو یہ ناپسند ہو۔”
ظاہر ہے کہ یہ سب فتوحات خلفائے راشدین کے دور میں انہیں کے ذریعے ہوئی تھیں۔ جب قطعیت سے یہ ثابت ہوگیا کہ مذکورہ آیت کا مصداق خلفائے راشدین اور ان کے توسط سے تمام صحابہ کرام ہیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی اللہ تعالی نے خلافت کا وعدہ فرمایا ہوگا یا نہیں۔ اگر کہا جائے کہ نہیں فرمایا تو یہ قول خلاف قرآن ہے۔ آیت زیربحث کی رو سے تو اللہ تعالی نے نزول آیت کے وقت ان تمام لوگوں سے خلافت کا وعدہ فرمایا ہے جو ایمان اور اعمال صالحہ کی نعمت سے بہرہ مند تھے۔ حضرت علی رض کو ان لوگوں سے باہر نکال کرنا ( معاذاللہ) نہایت احمقانہ جسارت اور گناہ کبیرہ ہے۔ پس پہلی شق ثابت ہوگئی کہ حضرت علی رض بھی اس وعدے میں شامل ہیں۔ اب حضرت علی رض سے یا تو مطلق خلافت کا وعدہ ہوا تھا یا خلافت بلافصل کا ہوا تھا۔ پہلی شق اختیار کی جائے تو یہی صحیح ہے۔ وہ واقعی اپنے مقام اور مرتبے پر خلیفہ راشد ہوئے ہیں۔ اگر دوسری شق اختیار کی جائے تو اللہ تعالی اپنا وعدہ پورا کرنے پر قادر ہے یا ( معاذاللہ) قادر نہیں۔ اگر کہا جائے کہ نہیں ہے تو یہ بالاتفاق کلمہ کفر ہے۔ اگر قادر ہے تو مفروضہ صورت میں اللہ تعالی نے وعدہ پورا فرمایا ، یا (معاذاللہ) عہد شکنی کی۔ اگر کہا جائے کہ عہد شکنی کی تو یہ بھی بالاتفاق کلمہ کفر ہے۔ اگر کہاجائے کہ حضرت علی رض سے خلافت بلافصل کا ( مفروضہ) وعدہ پورا ہوا تھا تو یہ نفس الامر یعنی خارج میں پائی جانے والی حقیقت کے خلاف ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت علی رض سے پہلے اصحاب ثلاثہ یعنی حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان ( رضی اللہ عنھم ) خلیفہ ہوئے ہیں نہ کوئی اور۔ ان کی خلافت صحیح تھی یا ( معاذاللہ) غلط تھی ، کسی بھی صورت میں حضرت علی رض کی خلافت کو خلافت بلا فصل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اللہ تعالی کا حضرت علی رض سے ایسا کوئی وعدہ ہوتا تو یقینا پورا ہوتا۔ پس مذکورہ مفروضہ ہی غلط ثابت ہوا۔ جب حضرت علی رض کی خلافت بلا فصل کا مفروضہ ہی غلط ہے تو اسکے حق میں دیے جانے والے تمام نام نہاد دلائل بھی ازخود کالعدم ہوگئے کیونکہ آیت استخلاف میں خلافت کا صرف استحقاق ہی نہیں بتایا گیا بلکہ اس خلافت کے ہر حقدار کو اس کا حق دینے کا نہایت پختہ وعدہ بھی کیا گیا ہے ، اور اللہ تعالی وعدہ پورا کرنے پر قادر ہے۔ پس سب خلفائے راشدین اپنے اپنے مقام اور وقت پر حسب وعدہ الہی برحق خلفاء ہیں اور باہم شیر و شکر ہیں۔ اللہ تعالی کے وعدے نے کسی کو اس قابل نہیں چھوڑا کہ کوئی بھی کسی کا حق خلافت چھین سکے۔ ( وھوالمطلوب ) ۔
بحث بحوالہ غلبہ اسلام:
قرآن کریم میں کفر کے مغلوب ہونے اور اسلام کے غالب آنے کی بشارتیں باربار دی گئی ہیں مثلا سورہ فتح کے تیسرے رکوع کو پڑھ جائیے، وہاں اصحاب رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے بےشمار فتوح اور غنائم کی لگاتار بشارتیں دی گئی ہیں، اور چوتھے رکوع میں اسلام کے دیگر ادیان باطلہ پر کامل غلبے کی بشارت موجود ہے اور اس غلبے کی خبر کی صداقت پر اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ اس سلسلے میں اللہ گواہ ہے اور اس کی گواہی کافی ہے۔ یہاں اسلام کا سیاسی اور عسکری غلبہ بھی یقینا مراد ہے ورنہ محض دلائل کی بنیاد پر حق کبھی مغلوب ہوتا ہی نہیں۔ قبل ازیں گزشتہ قسط میں ملا باقر مجلسی شیعی کا حیات القلوب سے غزوہ خندق کے سلسلے میں ایک اقتباس پیش کیا جا چکا ہے جس سے صاف واضح ہے کہ روم و ایران اور یمن وغیرہ کے علاقے مسلمانوں کے قبضے میں آنے والے تھے اور یہ سب کچھ خلفائے راشدین کے دور میں ہی ہوا۔ اسی لئے غلبے کے لئے قرآنی کلمات ‘لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون’ لائے گئے ہیں کیونکہ دلائل کی بنا پر حق و باطل میں امتیاز کرنا اور لوگوں پر اسے کماحقہ واضح کرنا اور دین کو بلا کم و کاست ظاہر کرکے لوگوں تک ٹھیک ٹھیک پہنچا دینا اور اسلام میں نئے داخل ہونے والوں کی صحیح رہنمائی کرنا تبھی ممکن تھا کہ اس دور کی دو جابر اور نہایت طاقتور قوتوں یعنی روم و ایران کی حکومتوں پر کاری ضرب لگائی جاتی جو لوگوں کی شخصی آزادیوں کو سلب کئے ہوئے تھیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور عجمی اقوام بھی اسلام کی نعمت اور برکات سے مالامال ہوئیں۔ اب اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے فورا بعد (معاذاللہ) ظالموں کو غلبہ حاصل ہوگیا تھا اور اہل حق مجبور و مغلوب ہوکر ( معاذاللہ) تقیہ اور کتمان کے پردے میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگئے تھے اور خود اپنی حیات طیبہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خواہ کسی کے لئے بھی پروانہ خلافت لکھوانا چاہتے تھے اور آخری ایام میں حضرت اسامہ رض کی مہم روانہ فرمانا چاہتے تھے لیکن کچھ لوگوں نے آپ کو ایسا نہ کرنے دیا۔ امہات المومنین حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنھما ( معاذاللہ ثم معاذاللہ) منافقہ تھیں اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (معاذاللہ ثم معاذاللہ) زہر دے کر اس لئے شہید کر ڑالا تھا کہ بعد میں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنھما یکے بعد دیگرے خلافت و امارت پر قابض ہوجائیں اور سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ جو مبینہ طور پر خلیفہ بلافصل تھے اپنے حق سے محروم اور مغلوب ہوکر رہ جائیں اور بقول روافض اسداللہ الغالب ہونیکے باوجود تقیہ و کتمان کے پردے میں انتہائی لاچاری، عاجزی اور بےبسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائیں اور بقول روافض ایسا ہی ہوا ، تو کون عقلمند اسلام کو غالب قرار دے گا؟؟ ثابت ہوا کہ قرآنی بشارات ہی سچی ہیں اور ان کے برعکس تمام خودساختہ مفروضات جھوٹے اور غلط ہیں۔ سبھی خلفائے راشدین حق پر ہیں۔ وہ سب باہم شیروشکر تھے اور انہی کے ذریعہ اسلام دیگر ادیان باطلہ پر غالب آیا۔
جب ابلیس لعین کسی کو اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے اور معارضے میں لے آئے تو دینی امور میں ایسے لوگوں کی عقل ماوءوف ہوجایاکرتی ہے۔ یہاں چند نہایت ہی اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں، جن کے جوابات تلاش کرنے چاہئیں۔
۱- ہمارے امامیہ بھائیوں کے گھروں میں موجود خواتین مومنات ہیں یا منافقات؟ اگر مومنات ہیں اور اللہ تعالی کی محبوب ترین ہستی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ( معاذاللہ ثم معاذاللہ) منافقات تھیں تو کیا اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ترین توہین لازم نہیں آتی؟؟ یہاں حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیویوں کا حوالہ قطعا غیر متعلق ہے ۔ سابقہ بعض شرائع کے برعکس شریعت محمدیہ میں عام مسلمانوں کے لئے بھی مشرکین اور منافقین سےنکاح حرام ہے چہ جائیکہ خاتم النبین ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے گھر میں کوئی منافقہ یا مشرکہ عورت ہو۔ منافق بھی کافر ہوتا ہے جو اپنے کفر کو چھپاتا ہے۔
۲۲- قرآن کریم میں دو مرتبہ تاکیدی حکم ہے کہ ” اے نبی ! تو کافروں اور منافقوں کے خلاف جہاد کر اور ان پر سختی بھی کر اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ برا ٹھکانا ہے”( التوبہ۷۳-التحریم ۹) اب اگر اللہ کا رسول منافقوں سے اپنی مرضی اور اپنے اختیار سے رشتے ناطے قائم کرے ، ان کی لڑکیوں کو اپنی بیویاں بنا کر امہات المومنین کے نہایت بلند منصب پر فائز کرے ، اپنی بیٹیاں ( معاذاللہ) منافقین کے حوالے کرے مثلا آپ کی دو بیٹیاں حضرت عثمان رض کے نکاح میں یکے بعد دیگرے آئیں توکیا اسے منافقین پر سختی کہا جائے گا ؟؟
۳۳- اگرکہا جائے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر میں آپ کی نسبی نہیں بلکہ لےپالک بیٹیاں تھیں تو آج کے گئے گزرے دور میں بھی کوئی شخص اپنی نسبی بیٹی کے لئے تو بہترین رشتہ تلاش کرے اور لےپالک بچیوں کو منافقین یا فساق و فجار کے نکاح میں دے دے تو اسے سخت بدبخت ، انتہائی سنگدل اور پرلے درجے کا ظالم سمجھاجائیگا۔ تو کیا رحمتہ للعلمین کی طرف ایسے ظالمانہ فعل کو منسوب کرنے والا خبیث ترین شخص شمار نہیں ہوگا جو آپ کی اس سنگین توہین کی شرمناک جسارت کرے ؟؟
۴۴- اگر آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو ان کے مبینہ نفاق کا علم نہیں تھا تو بعد کے ادوار کے نام نہاد مومنین ( روافض) کو کس شیطانی وحی سے اس کا علم ہوا؟؟ اگر آپ کو علم نہیں تھا تو اللہ تعالی (معاذاللہ) کیوں خاموش رہا؟؟ نیز روافض
کے نزدیک تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب بھی ہیں توکیا اللہ اور اس کے رسول نے منافقین پر سختی اسی طرح فرمائی تھی ؟؟
۵- جب آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے ( روافض کے عقیدے کے مطابق) عالم الغیب اور مختارکل ہونے کے باوجود بیویوں کے ہاتھوں غٹاغٹ زہر پی لیا تو کیا خودکشی آپ کے لئے جائز تھی؟؟ اگر زبردستی پلایا گیا تو آپ مختارکل کیسے ہوئے ؟؟ نیز قرآن میں ہے کتب اللہ لاغلبن انا ورسلی ( المجادلہ ۲۱)۔” یعنی اللہ نے یہ پکا فیصلہ فرمادیا ہے کہ میں اور میرے رسول ( صاحب شریعت نبی) ضرور بالضرور غالب رہیں گے۔” تو یہ کیسا غلبہ ہے کہ آپ نے عالم الغیب اور مختارکل ہوتے ہوئے زہر نوش فرما لیا ؟؟
یہاں رضا بالقضاء ( تقدیر پر راضی ہونے) کا عذرلنگ قطعا غلط اور غیر متعلق ہے ۔ اگر حضرت عائشہ و حفصہ (رضی اللہ عنھما) معاذاللہ واقعی منافقہ تھیں تو دیدہ و دانستہ کسی منافق کے خبیث قاتلانہ عزائم کو پورا ہونے دینا اور موت کو گلے لگا لینا تو شریعت کی بدترین خلاف ورزی اور خودکشی ہے۔ اس سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ( معاذاللہ) ظالموں کی دیدہ و دانستہ مجرمانہ اعانت اور خودکشی کا سنگین الزام عائد ہوتا ہے۔ یہ روافض کیسے نام نہاد مومنین ہیں جو نہ تو اپنی ماوں (امہات المومنین ) کی سخت توہین سے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معاذاللہ تحقیر و تذلیل سے باز آتے ہیں ؟؟ قل بئسما یامرکم به ایمانکم ان کنتم مومنین۔
جو شخص بھی خلاف شریعت کام کرے تو وہ اس کی تقدیر میں لکھاہوتا ہے تبھی تو وہ یہ کام کرتا ہے۔ کوئی چور چوری کرے تو یہ اس کی قسمت میں لکھی ہوتی ہے۔ اب اگر وہ مثلا عدالت میں اپنی صفائی یوں بیان کرے کہ میں نے چوری اس لئے کی ہے کہ یہ میری تقدیر میں لکھی ہوئی تھی اور میں لوگوں پر یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ میں رضا بالقضاء کا قائل ہوں اور تقدیر پر راضی ہونا تو شریعت میں عین مطلوب و مقصود ہے لہذا مجھے باعزت بری کیا جائے۔ اگر کسی چور کا دنیوی عدالت میں اپنی مدافعت میں اس طرح کا مضحکہ خیز بیان اس کے جرم کو مزید موکد و پختہ کرے گا ، تو کوئی خلاف شریعت افعال کو حضرات انبیاء علیھم السلام، صحابہ کرام، ائمہ عظام اور اولیاء و صلحاء کی طرف منسوب کرکے یہ کہےکہ وہ ان خلاف شریعت کاموں سے اپنی رضا بالقضاء کا اظہار فرمایا کرتے تھے اور اپنی اس بہتان تراشی سے وہ رب العالمین کی عدالت میں سرخروئی کی امید لگائے بیٹھا ہو تو اس سے بڑا احمق کون ہوسکتا ہے ؟؟ رضا بالقضاء کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ غیراختیاری مصائب و شدائد پر انسان صبر کرے اور یہ سمجھے کہ میری تقدیر میں یہی تھا اور چونکہ میں اپنی اس تقدیر پر اللہ تعالی سے راضی ہوں اور تکالیف پر صبر کر رہا ہوں ، لہذا وہ مجھے بہترین اجر سے نوازے گا۔ اس کے برعکس رضا بالقضاء کی آڑ میں اللہ کے نیک بندوں کی طرف خلاف شریعت کام منسوب کرنا تو صریح بہتان اور ظلم پر ظلم ہے۔
بروایت صحیحین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین حضرت زینب بنت حجش ( رضی اللہ عنھا) کے پاس کچھ دیر ٹھہرتے اور وہاں شہد نوش فرماتے۔ حضرت عائشہ و حضرت حفصہ ( رضی اللہ عنھما) دونوں نے آپ کو وہاں معمول سے زیادہ دیر تک ٹھہرنے سے روکنے کے لئے یہ تدبیر کی کہ ان میں سے جس کے پاس بھی آپ آئیں تو وہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے یہ کہے یا رسول اللہ ! آپ کے منہ سے مغافیر ( ایک قسم کا پھول جس میں کچھ بساند ہوتی ہے) کی بو آرہی ہے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ آپ نے فرمایا میں نے زینب کے ہاں شھد پیا تھا، اب میں قسم کھاتا ہوں کہ نہیں پیوں گا۔ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ ( رضی اللہ عنھما) کی اس غلطی پر ان کی تربیت اور اصلاح کے لئے اللہ تعالی نے سورہ تحریم میں تغلیظا ( سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے) فرمایا :- ان تتوبا الی اللہ فقد صغت قلوبکما و ان تظاھرا علیہ فان اللہ ھو مولاہ و جبریل و صالح المومنین والملئکة بعد ذالك ظهير. عسى ربه ان طلقكن ان يبدله ازواجا خيرا منكن مسلمات مومنات قانتات تائبات عابدات سآئحات ثیبات و ابکارا( التحریم ۴-۵ ) ” اگر تم دونوں توبہ کرلو ( تو بہتر ہے) یقینا تمہارے دل ( غلطی کی طرف) جھک پڑے ہیں۔ اور اگر تم نبی کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کروگی تو اس ( نبی ) کا اللہ کارساز ہے ، اور جبریل اور نیک اہل ایمان اور ان کے علاوہ فرشتے بھی ( اس نبی کے ) مددگار ہیں۔ اگر وہ ( پیغمبر ) تمہیں طلاق دے دے تو بہت جلد اس کا رب تمہارے بدلے اسے تم سے بہتر بیویاں عنایت فرمائے گا، جو اسلام والیاں ، ایمان والیاں ، اللہ کے حضور جھکنے والیاں ، توبہ کرنے والیاں ، عبادت بجا لانے والیاں، روزے رکھنے والیاں ہوں گی، بیوہ بھی اور کنواریاں بھی ”
خوب غور کیجیئے کہ اللہ تعالی نے ان دونوں امہات المومنین کو تنبیہ بظاہر تو سخت انداز میں فرمائی ہے لیکن ساتھ ہی ان کے بلند مقام و مرتبہ کو بھی لوگوں پر بخوبی واضح فرما دیا ہے ۔ اگر انہوں نے اپنی اصلاح نہ کی ہوتی یا ( معاذاللہ ثم معاذاللہ) وہ واقعی منافقہ اور بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہرخورانی کے عزائم لئے ہوئے ہوتیں تو یقینا اللہ تعالی ان کے مبینہ نفاق اور خطرناک عزائم سے اپنے رسول کو مطلع فرماتا۔ کیونکہ اللہ تعالی نے آپ کو کفار اور منافقین کے خلاف جہاد کرنے اور ان پر سختی کرنے کا دو مرتبہ تاکیدی حکم دے رکھا تھا۔ یوں آپ یقینا انہیں طلاق دے کر اپنے سے علیحدہ کرتے اور یقینا ان کے بدلے میں اللہ تعالی آپ کو وہ بیویاں عطا فرماتا جن کی خبر اس نے اپنے رسول کو دے رکھی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنی اصلاح کرلی اور اپنے آپ کو وہ ان نیک اور پاکیزہ خواتین کے معیار پر بخوبی لے آئیں جن کے اوصاف اللہ تعالی نے بیان فرمائے ہیں۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے ان ازواج رسول سے بہتر مذکورہ اوصاف والی خواتین پیدا ہی نہ فرمائیں ، ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ اللہ تعالی اپنے محبوب ترین رسول کو ان سے بہتر خواتین کی امید دلائے اور پھر ایسی خواتین پیدا فرما کر آپ کو ان سے محروم رکھے اور ان سے کم تر بلکہ روافض کے خیال کے مطابق ایسی منافقات پر ہی ٹرخائے رکھے جو ( معاذاللہ ) زہر دے کر آپ کو قتل کرنے کے درپے ہوں۔ روافض کا خیال ہے یہ دونوں امہات المومنین ( معاذاللہ ثم معاذاللہ ) منافق تھیں جو نہ صرف اپنے نفاق پر قائم رہیں بلکہ بالآخر اپنے مذموم مقاصد کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دے کر شہید کردیا۔ یعنی بقول روافض وہ اپنے عزائم میں کامیاب ہوگئیں۔ حالانکہ اللہ تعالی نے ان دونوں ازواج رسول کو یہ تنبیہہ فرمائی تھی کہ اگر تم نے نبی کے خلاف ایکدوسرے کی مدد کی تو اللہ ، جبریل ، مومنین اور پھر ملائکہ اس نبی کے کارساز اور مددگار ہوں گے۔ یاد رہے کہ یہاں روافض آیت کے کلمات ” صالح المومنین ” سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مراد لیتے ہیں۔ سورہ مائدہ میں بھی ہے کہ :- اے رسول ! تیری طرف جو وحی اتاری گئی ہے تو اسے لوگوں تک پہنچا اور اگر تونے ایسا نہ کیا تو پھر تونے اللہ کے پیغام کو لوگوں تک نہیں پہنچایا۔واللہ یعصمک من الناس۔ اور اللہ تجھے لوگوں ( کے شر سے) محفوظ رکھے گا۔( المائدہ ۶۷ ) اور سورہ مجادلہ میں ہے :- کتب اللہ لاغلبن انا ورسلی۔ ” کہ اللہ نے یہ بات طئے کردی ہے کہ میں اور میرے رسول ضرور بالضرور غالب رہیں گے ” ( المجادلہ ۲۱ )۔ اب اگر روافض کی لغویات کو درست تسلیم کرلیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ ( رضی اللہ عنھما ) جب بقول روافض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر کھلا یا پلا رہی تھیں تو نہ تو اللہ نے حسب وعدہ آپ کی کوئی مدد فرمائی ، نہ جبریل نے اپنی شکل دکھائی اور نہ مولا علی علیہ السلام نے اپنی ذوالفقار کو نیام سے باہر نکالنے کی زحمت فرمائی اور نہ فرشتوں میں سے کسی کے پروں میں پھڑپھڑاہٹ پیدا ہوئی اور نہ ہی سورہ مائدہ میں کیے گئے وعدہ کی تکمیل میں اللہ نے اپنے نبی کی حفاظت کا کوئی بندوبست فرمایا اور نہ ہی سورہ مجادلہ میں کیے گئے اپنے اور اپنے رسولوں کے غالب رہنے کے اعلان کا کوئی لحاظ فرمایا۔ یعنی اللہ کے سارے وعدے ( معاذاللہ ثم معاذاللہ) جھوٹے تھے۔ آپ کی جان کی حفاظت تو ایک طرف رہی اللہ نے اپنے نبی سے ( مبینہ ) منافق بیویوں کو نہ تو طلاق دلوائی اور نہ ہی آپ کو بدلے میں وہ ازواج دلوائیں جن کے لمبے چوڑے اوصاف بیان کرکے اپنے نبی کو امیدیں دلائی تھیں۔ الغرض اس طرح کی لغویات بلکہ ہزلیات کو قبول کر لیا جائے تو منظر کچھ اس طرح کا سامنے آتا ہے کہ مولا علی علیہ السلام تو ایسے تمام نازک مواقع پر بالکل چپ سادھ لیتے تھے کیونکہ بقول روافض انہیں اسد اللہ الغالب وھو الغالب علی کل غالب ہونے کے باوجود صبر سے کام لینے کا تاکیدی حکم تھا۔ یعنی وہ شیر ہونے کے باوجود (معاذاللہ ثم معاذاللہ) بظاہر بھیڑ بنے ہوئے تھے۔ چنانچہ حضرت عائشہ و حفصہ ( رضی اللہ عنھما) جیسی خواتین کمزور ہونے کے باوجود نہایت بہادر اور دلیر بنی ہوئی تھیں۔ مولا علی علیہ السلام سے تو وہ اس لئے نہیں ڈرتی تھیں کہ شائد انہیں بھی معلوم ہوچکا تھا کہ اللہ کے شیر کو بہرحال صبر کا حکم ہے ، لہذا یہ کچھار سے کبھی باہرآئے گا ہی نہیں۔ البتہ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ انہیں نہ تو اللہ تعالی کی طرف سے تنبیہہ کے باوجود اس کے انتقام کا ڈر تھا ، نہ ہی وہ جبریل سے گھبراتی تھیں اور نہ ہی وہ ملائکہ کی کسی اچانک مداخلت سے پریشان تھیں۔ بالفاظ دیگر اللہ ، رسول ، جبریل ، مولا علی اور ملائکہ سب کے سب مغلوب ہوگئے اور یہ کمزور سی خواتین غالب آکر حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر ( رضی اللہ عنھما ) کی خلافت کو نہال اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو ( معاذاللہ) پامال کر گئیں۔ یعنی اللہ تعالی کی ساری متعلقہ وعیدیں اور سارے وعدے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ( معاذاللہ ثم معاذاللہ ) محض طفل تسلی اور دل بہلاوے کے تھے۔( جل جلالہ ) ۔ کیا ان لغو مفروضات سے اللہ تعالی کی ، اس کے رسول کی ، صحابہ کرام اور سیدنا علی رض کی ، ازواج مطہرات کی ، حضرت جبریل اور تمام ملائکہ کی سخت توہین لازم نہیں آتی ؟؟ اور کیا ان مفروضات کو حقائق اور عقائد کا درجہ دینے سے قرآن کریم کے محکم مضامین کی تکذیب و تردید نہیں ہوتی ؟؟قلیلا ما تذکرون۔
روافض نے یہ بھی نہ سوچا کہ اسی سورہ تحریم کی پہلی آیت میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے :- یا ایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک تبتغی مرضات ازواجک واللہ غفور رحیم۔ ” یعنی اے نبی ! جس چیز کو اللہ نے تیرے لئے حلال کردیا ہے اسے تو ( اپنے اوپر ) کیوں حرام کرتا ہے ؟ ( کیا) تو اپنی بیویوں کی رضامندی حاصل کرنا چاہتا ہے اور اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے” اب اگر کوئی بدبخت ملحد اس آیت کی آڑ میں آپ پر بہتان لگائے کہ آپ اللہ کے حکم کے مقابلے میں ( معاذاللہ ) اپنی بیویوں کو خوش کرنے کو مقدم رکھتے تھے اور اللہ کے حلال کو حرام ٹھہرا لیا کرتے تھے ، تو ایسے ملحد کی سوچ اور ان روافض کی سوچ میں آخر کیا فرق ہے جو ازواج مطہرات کی اصلاح و تربیت والی آیات کی آڑ میں انہیں ( معاذاللہ ثم معاذاللہ ) منافق اور فاسق ٹھہرا رہے ہیں۔ اندریں حالات دین اسلام کو غالب قرار دینے کے بار بار کے قرآنی مضامین کی کھلی تردید اور تکذیب لازم نہیں آتی ؟؟ پس ایسے تمام مفروضات قطعا غلط اور جھوٹے ہیں ۔ خلفائے راشدین باہم شیر و شکر تھے۔ اور سورہ نور کی آیت استخلاف میں مذکور ربانی وعدے کے مطابق وہ اپنے اپنے مقام اور وقت پر خلیفہ راشد ہوئے۔ کسی نے کسی کا حق نہ تو چھینا اور نہ ہی چھین سکتا تھا۔ کیونکہ اللہ تعالی نے خود ہر حقدار کو اس کا حق پہنچانے کا نہایت پختہ وعدہ فرما لیا تھا اور اللہ تعالی وعدہ پورا کرنے پر قادر مطلق ہے۔
تحریر پروفیسر ظفر احمد